108
م ی ح ر ل ا ن م ح ر ل لہ ا ل م ا س ب ۂ ن ی ئ ا ت ا ی ک ل ف ف ن ص م ی ھل ب ی س ان رف ف مد ح م ر ئ5 ن ی ج ن اAAINA-E-FALAKIYAT By- ER. M. FURQAN SAMBHALI

آئینۂ فلکیات

Embed Size (px)

DESCRIPTION

http://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html

Citation preview

Page 1: آئینۂ فلکیات

الرحیم الرحمن اللہ بسم

فلکیات آ�ئینۂ

مصنف

سنبھلی فرقان محمد انجینئرAAINA-E-FALAKIYAT

By- ER. M. FURQAN SAMBHALI

Page 2: آئینۂ فلکیات

انتساب

صاحب غفران محمد جناب محترم والد مرحوم

خاتون عبیدہ محترمہ والدہ اور

نام کے

لئے کے فلاح میری نے جنہوں

کی فنا ہستی اپنی

Page 3: آئینۂ فلکیات

( ) خاکہ محمد فرقان :۔نام۱

محمد فرقان سنبھلی: ۔قلمی نام۲

محمد غفر�ن مرحوم:۔ ولدیت۳

ء۱۹۷۳/جون ۲۰:۔ تاریخ پید�ئش۴

آ�فس روزنامہ ر�شٹریہ سہار� �ردو۔ پتہ۵ :

معرفت کیپٹن عرفان

آ�باد ) یوپی ( دیپا سر�ئے چوک، سنبھل، ضلع مر�د

M.9411808585, 9760191625

email: [email protected]

Website: http:// f-sambhli.webly.com

Blog : www.f-sambhli.blogspot.com

Page 4: آئینۂ فلکیات

ڈپلومہ سول �نجینیرنگ ) یو پی ٹیکنیکل بورڈ ( ( ۱: ) ۔تعلیمی لیاقت۶

�دیب کامل ) جامعہ �ردو علی گڑھ ( ( ۲ )

عالم ) عربی فارسی بورڈ یو پی ( ( ۳ )

آ�گرہ ( ( ۴ ) بی �ے۔||| ) بھیم ر�ؤ �مبیڈکر یو نیورسٹی

معلم �ردو۔ جامعہ �ردو علی گڑھ ( ۵ )

آ�گرہ ( ( ۶ ) �یم �ے ) �ردو ( ) بھیم ر�ؤ �مبیڈکر یونیورسٹی

�ردو، ہندی، �نگریزی:۔ زبان۶

اا (۱: ) ۔ صحافت۷ سالوں سے (۸روز نامہ ر�شٹریہ سہار� �ردو ) تقریب

�یڈیٹوریل صفحہ پر مضامین:۔ ) � ( روز نامہ شاہ ٹائمس ) ہندی (مظفر نگر، ( ۲)

ہمار� سماج �ردو دہلی ( ۲ )

آ�باد ( ۳ ) (۴ ) جگت کلیان ) ہندی ( سر�ئے ترین، مر�د

نئے سماج کا درپن سر�ئے ترین، سنبھل وغیرہ

اا ) ۔�شاعت شدہ مضامین:۸ سے ز�ئد مضامین کی �شاعت ہو ( ۲۰۰مختلف جر�ئد �ور �خبار�ت میں تقریب

چکی ہے۔

خبرد�ر ( ۲روز نامہ ر�شٹریہ سہار� �ردو دہلی ) ( ۱جن �خبار�ت میں مضامین شائع ہوئے :۔ )

آ�باد ) ( ۴کارو�ن �ردو ، دہلی ) ( ۳جدید �ردو ہفتہ روزہ دہلی ) کھلی خبریں ( ۵خیر و خبر ، مر�د

Page 5: آئینۂ فلکیات

آ�ج ) ہندی ( بریلی ) ( ۷نقوش �ردو سنبھل ) ( ۶) ہندی (، بریلی ) سائنس �ور کائنات ) ( ۸دینک

روشن چر�غ ) �ردو ( �مروہہ وغیرہ ( �۹ردو ( علیگڑھ )

تہذیب �لاخلاق ) علی گڑھ مسلم ( ۱جن جر�ئد میں مضامین شائع ہوئے :۔ )

یونیورسٹی علی گڑھ (

آ�نچل دہلی ) (۲ ) ترجمان �ہل سنت ) سنبھل ( ( ۴معرکہ ) دہلی ( ) ( ۳مشرقی

آ�باد ) (۶ہاسیہ �ٹیک ) دہلی ( ) ( ۵) نور ) ( ۸رہنمائے تعلیم ) ( ۷ریئل ٹارگیٹ ) ہندی ( مر�د

آ�ن وغیرہ (۹ صوت �لقر

۔ نوٹ۔ �نٹر نیٹ میگزین میں بھی مضامین شائع ہوئے ہیں ۹

ء (:۔ عالمی شہرت یافتہ �ور پر �سر�ر مصری تہذیب کی قدیم۲۰۰۳پہلی کتاب۔مصر قدیم ) �شاعت

ی|ی تاریخ پر مضامین شامل کئے گئے ہیں جس میں قدیم ر�ج شاہی، فر�عنہ مصر ،�ہر�م ،ممی ،حضرت موس

�ور قاہرہ کا عجائب گھر و غیرہ پر جامع معلومات فر�ہم کی گئی ہیں۔ ملک بھر میں �ور پاکستان میں بھی

آ�ر ڈی وز�رت کے تحت کام کرنے و�لے قومی کونسل بر�ئے کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ حکومت ہند کے �یچ

کاپیاں بلک ( ۱۰۰فروغ �ردو زبان دہلی نے ملک بھر کی لائبریریوں میں بھیجنے کے لئے کتاب کی )

پرچیز �سکیم کے تحت خریدی ہیں۔ رضا لائبریری ر� مپور نے بھی کتاب خریدی ہے دوسرے �یڈیشن کی

�خبار�ت �ور رسائل جن میں عالمی سہار�، باجی، رہنمائےمعیاری�شاعت عنقریب ہونے کی �مید ہے۔کئی

آ�ج کل وغیرہ نے کتاب پر تبصرے شائع کئے ہیں۔ تعلیم،

آ�باد ) ( ۱۰) آ�غاز و �رتقا پر (:�۲۰۰۸ردو صحافت �ور ضلع مر�د آ�باد میں �ردو صحافت کے ۔ ضلع مر�د

آ�ز�د محمد علی جوہر وغیرہ کی روشنی ڈ�لنے کی کوشش �س کتاب میں کی گئی ہے۔ ساتھ ہی مولانا

آ�باد کے صحافیوں کا بھی مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ صحافت پر بھی نگاہ ڈ�لی گئی ہے نیز مر�د

Page 6: آئینۂ فلکیات

آ�ئینہ فلکیات‘‘ کتابیں عنقریب �نٹر نیٹ پر شائع ہونے و�لی آ�باد‘‘ �ور ’’ نوٹ:۔ ’’�ردو صحافت �ور ضلع مر�د

ہیں۔ سنبھل کے شعر� �ور �دباء کا تذکرہ �ور تاریخ سنبھل کے موضوعات پر کتب زیر ترتیب ہیں۔

نہرو یو� کیندرپرتبھا �کادمی سنبھل نے صحافتی خدمات کے لئے �یو�رڈ سے ( �۱نعامات �ور �عز�ز�ت: )

نو�ز�

آ�ئینہ فلکیات‘‘ کتاب پر ’’۲۰۰۴قومی سطح کا یو پی �ردو �کادمی �یو�رڈ بر�ئے (۲ )

حاصل ہو�۔

یو پی جنرل نالج کمپٹیشن کمیٹی سنبھل کے ذریعہ صحافتی �ور قلمی خدمات ( ۳ )

صوبائی سطح (سے نو�ز� گیا۔ ) ۲۰۰۵کے �عتر�ف میں ’’سرسوتی �لنکرن ‘‘ �یو�رڈ

آ�باد میں منعقدہ ضلع سطح کے �جلاس میں نہرو یو� ( ۴ ) سنگٹھن مر�د کیندر مر�د

ء سے نو�ز� گیا۔۲۰۰۷آ�باد کے ذریعہ ’’یو� لیکھک �یو�رڈ ‘‘

�یو�رڈ یو۔پی۔ حکومت کے ذریعہ صوبہ کے سب سے بڑے �عز�ز ’’یش بھارتی‘‘ ( ۵ )

کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔

مانو�دھیکار جن نگر�نی سمیتی نے �ردو زبان و �دب کی خدمات کے �عتر�ف میں (۶ )

�عز�ز سے نو�ز� ہے

آ�ئ ( ۷ ) ۔ (�۲۰۰۸یو�رڈ سے نو�ز� ہے ) نہ فلکیات ‘‘کویبہار �ردو �کادمی سے ’’

جنرل سکریٹری۔ مصور سبزو�ری �دبی سوسائٹی۔سنبھل ( ۱: ) عہدے ودیگر مصروفیات

�نچارج شعبہ �دب۔یوپی سامانیہ گیان پرتیوگیتا سمیتی رجسٹرڈ سر�ئے ترین، سنبھل ( ۲ )

Page 7: آئینۂ فلکیات

صدر۔ پیر�ڈ�ئز لسنرس کلب، سنبھل ( ۳ )

خز�نچی۔ عاشق پبلک لائبریری ، سنبھل (۴ )

آ�ف رشین فرینڈس کلب و �یجوکیشنل سوسائٹی سہارنپور ( ۵ ) رکن۔ریڈیو و�ئس

) رجسٹرڈ (

رر نائب صدر۔ پترکار سنگھ سنبھل ( ۶ ) سین

) محمد فرقان سنبھلی (

فہرست

Page 8: آئینۂ فلکیات

فہرست2............................................................................�نتساب

9..........................................................................آ�غاز حرف

12..............................................�رتقاء و آ�غاز ۔ �تیفلک �ی �لافلاک علم

18................................................�تیفلک علم ںیم فوںیصح یآ�سمان

26................................................قاتیتحق ی�تیفلک یک مسلمانوں

30..........................................................ترجمے کے �تیفلک کتب

33................................................................ںیگاہ رصد مشہور

36............................................ (Solar System ) یشمس نظام

40.......................................................... (U.F.O ) یطشتر �ڑن

44............................................................�رتقاء و آ�غاز سفر کا خلاء

47...........................................................یزندگ یک نوردوں خلاء

49................................................�تیفلک نیماہر مشہور چند کے عرب

57.......................................................................�تیکتاب

Page 9: آئینۂ فلکیات

بسم �للہ �لرحمن �لرحیم

آاغاز حرف

عصر قدیم سے ہی �نسانی فطرت کا مرکز پوشیدہ باتوں کو جاننا رہا ہے جتنا کچھ �سے پتہ چلتا

گیا �نسان نے محض �سی پر قناعت نہیں کی بلکہ مزید معلومات حاصل کرنے کی طرف گامزن رہا ہے۔

�نسانی شعور جب سے بید�ر ہو� ہے۔ تب سے عصر جدید تک �نسانی دماغ کائنات �ور �س کے �سر�ر و

رموز کو پانے کی سعی میں مصروف ہے۔ عقل �نسانی نے جس حد تک بھی �ن �سر�ر کو پانے کی سعی

کی ہے �س سے �سے �حساس ہو� ہے کہ کائنات کی تخلیق کسی بالاتر ہستی کے منصوبے کے تحت

آ�ئی ہے۔ �نسانی فطرت کے مد نظر کائنات کے �سر�ر رموز کو جاننے �ور سمجھنے کی طرف یہ وجود میں

کتاب �یک چھوٹا سا قدم ہے۔

آ�غاز علم �لافلاک کےAstronomyعلم فلکیات ) ( کے موضوع پر مبنی �س کتاب کا

آ�غاز سے �ب تک کی تحقیقات کا تاریخی سفر، کاپرنیکس �ور ر�برٹ ہک وغیرہ مشہور ماہرین فلکیات کے

آ�سمانی صحیفوں میں فلکیات سے متعلق جو معلومات علمی سرقے کے بیان سے ہوتا ہے �یک باب میں

موصول ہوتی ہیں �ن سے جدید فلکیاتی نظریوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Page 10: آئینۂ فلکیات

آ�ج تک فلکیات کے شعبے میں مسلمانوں نے جو تحقیقات کی ہیں �ن کا تذکرہ۲ ھ سے

’’مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات‘‘ کے عنو�ن سے �یک دیگر باب میں کیا گیا ہے۔ سنسکرت پہلوی،

سریانی �ور یونانی زبانوں سے عربی میں کئے گئے تر�جم کا ذکر’’ جن کی روشنی میں عربوں نے فلکیاتی

تحقیقات میں �ہم کار نامے �نجام دیئے ‘‘ ’’ کتب فلکیات کے ترجمے ‘‘ کے عنو�ن سے کیا گیا ہے۔

کچھ مشہور رصد گاہوں کے بارے میں مختصر لیکن جامع معلومات فر�ہم کر�نے کی سعی بھی کی گئی

اا قارئین کے لئے مفید ثابت ہو گی۔ کائنات کے نظریوں ، �ور نظام شمسی کے �جر�م فلکیوں ہے جو یقین

کی ساخت �ور دیگر تحقیقاتی �ور تجرباتی معلومات کا مکمل جائزہ �گلے بابوں میں موجود ہے۔

آ�نے و�لی �ڑن طشتریوں کے قصے خاصی دلچسپی سے �یک وقت تھا جب دوسرے سیاروں سے

سنے �ور پڑھے جاتے تھے۔مختلف چینلوں پر بھی �ن پر خصوصی پروگر�م نشر کرنے �ور کئی جگہ حال ہی

آ�سمانی چیزیں دکھائی دینے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ �ن �ڑن طشتریوں کی میں طشتری نما

آ�نے کی کہانیوں کی کھوج بین �ور حیرت �نگیز حقیقت، �ہمیت �ور عجیب و غریب مخلوقوں کے زمین پر

آ�غاز و �رتقاء کے ساتھ ساتھ خلا نوردوں کی معلومات پر بھی �یک باب مشتعمل ہے۔ خلائی سفر کے

زندگی پر مبنی �یک مضمون میں �ن کی بہت سی مشکلات کا �حاطہ بھی شامل ہے۔ جو خلا نوروں کو

آ�تی ہیں۔ پرو�ز کے دور�ن پیش

آ�خری باب میں عرب کے مسلم مشہور و معروف ماہرین ’’عظیم ماہرین فلکیات‘‘ کے عنو�ن سے

فلکیات کے سو�نحی خاکے �ور �ن کے کارنامے �س لحاظ سے شامل کئے گئے ہیں کہ �ن کی زندگی �ور

کارناموں سے قارئین و�قفیت حاصل کر سکیں۔

میں �پنے �ن تمام کرم فرما حضر�ت کی خدمت میں نذر�نہ تشکر پیش کرنا چاہوں گا جن کے

تیں �ور مشفقانہ ہد�یتیں �س کتاب کی تیاری میں میر� مضبوط سہار� رہییمخلصانہ مشورے ہمدرد�نہ عنا

ہیں۔ �س ضمن میں خلوص و عنایت کے پیکر جناب مرحوم سید محمود علی صاحب سابق لائبریرین

Page 11: آئینۂ فلکیات

خلوص شکریہ پیش کرنا چاہتا ہوں جن کے بیش بہا و عاشق پبلک لائبریری سنبھل کی خدمات میں �پنا پر

آ�مد نصائح �ور نفع بخش ہد�یتیں میرے لئے مشعل ر�ہ رہی ہیں۔ گر�ں قدر مشورے مفید کار

�ن کے علاوہ میں �ن تمام بہی خو�ہ حضر�ت جن میں جناب معو�ن �لحق ، جناب فخر ملک

�یم جی �یم ڈگری کالج سنبھل، �عز�ز یافتہ حماد �حمد �یڈوکیٹ، محمد سعود صاحب سابق لیکچرر

|ی رسول، خو�جہ عبد �لمغنی لیکچرر گرونانک خالصہ �نٹر کالج بریلی، جناب محمد فرحان، جناب یح

جناب محمد فیضان، جناب شمیم �ذکار صاحب،جناب شمشیر �حمد،جناب نفیس �حمد، و�لدہ محترم

عبیدہ خاتون، بہن صبوحی ناز �ور روحی ناز وغیرہ کے ساتھ �پنی بیوی شمیم فاطمہ �یڈوکیٹ �ور دونوں

متشکر ہوں کہ جن کے پر خلوص تعاون �ور کلمات خیر کی برکتوں سے یہ کتاب سرفر�ز ہے۔ بیٹوں کا

�س کتاب کو تیار کرنے میں فلکیات کے تعلق سے بہتر سے بہتر معلومات فر�ہم کرنے کا موقف

ین حضر�ت کی ر�ئے �ور مشورے پر منحصر ہے۔ �س لئے �پنیئتھا �س میں کہاں تک کامیابی ملی یہ قار

قیمتی ر�ئے میرے میل �ڈرس پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

شکریہ

�نجینئر محمد فرقان سنبھلی

دیپا سر�ئے چوک، سنبھل

Email id:- [email protected]

Page 12: آئینۂ فلکیات

(۱باب )

ارتقاء و آاغاز ۔ فلکیات یا الافلاک علم

(Astronomy) علم کی وہ شاخ ہے جس میں کائنات کی ہندسی ساخت سے بحث کی جاتی ہے �ور جس کےتعریف:۔

تحت �جر�م فلکی کی حرکات کے قو�عد و ضو�بط منضبط کئے جاتے ہیں۔ �ن حرکات کی توضیح کے

لئے متحرک نمونے �ختر�ع کئے جاتے ہیں۔ جنہیں جد �ول میں منتقل کر لیا جاتا ہے۔ تاکہ کوئی شمارندہ

سطح زمین پر کسی جگہ حتی �لامکان سہولت �ور صحت کے ساتھ �جر�م فلکی کا مشاہدہ کر کے �ن

آ�لات کو �یجاد کیا جاتا ہے۔ جو ہمارے کے مقام کو متعین کر سکے۔ نیز �س کی مدد سے �یسے

مشاہدے کی زیادہ سے زیادہ صحت کی ضمانت دے سکیں۔ علم �لافلاک، علم �لھئیت، علم �لاشکال

کے علاوہ عربی میں کئی �ور نام بھی فلکیات کے لئے معروف ہیں۔

�نسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر �س چیز کو جان لینا چاہتا ہے جو �س کی نظر کے سامنے�رتقاء:۔

ق م میں ستاروں کے بارے میں �پنا نظریہ580’’تھیلس‘‘ نے موجود ہے۔ �سی قدرتی جذبہ کے سبب جب

�یک کتاب کی شکل میں دنیا کے سامنے رکھا تھا تو �سے شاید یہ یقین نہ ہو گا کہ �س کی یہ کاوش

Page 13: آئینۂ فلکیات

آ�غاز ثابت ہو گی۔ تھیلس کے بعد موجودہ دور کے لوگوں کے لئے خلاء میں بستیاں قائم کرنے کے عزم کا

آ�سمان �ور جو سلسلہ شروع ہو� �س میں ’’�نیگز یمینڈر‘‘ �ور’’پلنی‘‘ نے �پنے �پنے �صول کی وضاحت سے

زمین کے ساتھ ساتھ تاروں کی سحر �نگیز د�ستانوں میں �یک نیا موڑ پید� کیا۔

�رسطو نے کہا کہ زمین ساکن ہے۔ لیکن یونانی سائنسد�ں �س سے �تفاق نہیں رکھتے تھے۔ �ن کا

یہ خیال تھا کہ زمین حقیقت میں ویسی نہیں ہے جیسی دکھائی دیتی ہے۔ �س کے بعد �ریٹوستھینز نے تو

آ�لہ کے زمین کی محیط ) ( ناپ لی تھی۔ جو کہ موجودہ مسلمہ کے قریبPerimeterبنا کسی

تر ہے۔

قدیم یونان کے لوگوں کا خیال تھا کہ زمین �س کائنات کا مرکز �ور سورج چاند ستارے �س کے

�یک ہی چال سے �طر�ف گردش کرتے ہیں وہ یہ بھی مانتے تھے کہ سبھی سیارے دوسرے ستاروں کے گرد

( نے دوسری صدی�Ptolemyپنی مد�رمیں گردش کرتے ہیں۔ �سی نظریہ کو �سکندریہ میں ٹالمی )

( کے نام سے �پنے یہاںAlmegastمیں سدھار� �س کی �س کاوش کو عربوں نے �لمجسطی )

مروج کیا۔

ء میں شروع کی �ور �س کے بعد۱۴۰کائنات کی کھوج صحیح طور پر ٹالمی ) بطلیموس ( نے

فلکیات کو بلندی پر پہنچانے میں صرف ہونے لگیں �س کے بعد تیسری صدیںجیسے تمام �نسانی قوتی

عیسوی میں �یریس ٹار کس نے �پنا نظریہ پیش کیا جس میں �نہوں نے کہا کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ وہ

�پنے محور پر گردش کرتے ہوئے سورج کے �طر�ف بھی چکر لگاتی ہے۔ �یریس ٹارکس �یک بہترین ماہر

ہز�ر سال تک �ن کا نظریہا دوفلکیات تھا لیکن �ن کے فلسفہ کو یونان میں شہرت نہ مل سکی �ور تقریبا

دفن رہا۔

Page 14: آئینۂ فلکیات

یی کا جو مقام ہے �س میں �ن کی علمی فضیلت کا بھی �ہم رول ہے۔ عالم �سلام میں حضرت عل

یی علماء عالم میں پہلے عرب تسلیم کئے جاتے ہیں جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے سیاروں حضرت عل

کی کشش کا نظریہ پیش کیا۔

آ�سمان تک پھیلی ہوئی طویل ترین فضا کو دو حصوں میں تقسیم کر یی نے زمین سے حضرت عل

دیا گیا۔ �یک وہ حصہ جس میں نظام �لشمس کے سیارے گردش کر رہے ہیں �ور جہاں ہو� موجود نہیں ہے

(موجود ہے �س حصےAirدوسر� حصہ جس کا تعلق ہماری زمین کے د�ئرے گردش سے ہے جہاں ہو� )

میں نظام شمسی کے سیارے د�خل نہیں ہو سکتے �ور جہاں وہ گردش کر رہے ہیں وہ صرف خلاء ہے۔

( نے ٹالمی کی کمیوں کی طرف �شارہIbne Yunusگیارہویں صدی میں �بن یونس )

پتہ لگانے کی ترکیب بتائی۔ �بو ریحان محمد بن �حمدLongitude, Latitudeکیا �ور

آ�تی ہے۔ �س �لبرونی کی شخصیت دسویں �ور گیارہویں صدی عیسوی کے د�نشوروں کے درمیان نمایاں نظر

نے �پنی ذہانت سے فلکیات کو بہت فروغ دیا �س نے �پنی تصنیفات ’’ �لتحدید �لقانون �لمسعودی‘‘ و

’’کتاب �لہند‘‘ وغیرہ میں فلکی �جسام کی ہیئتی ساخت �ور گردش کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ ستاروں

�ور سیاروں کے علاوہ شہابوں کے وجود کو بھی �س نے کائنات کا �یک جز ہی مانا تھا۔ �سکا خیال تھا

کہ زمین کا مقام مرکزی ہے �ور دوسرے مقام پر فلکی �جسام �س کے چاروں طرف گردش کرتے ہیں �س نے

Longitudeاا کو سمجھانے و�لی �یک تکونیہ ترکیب �یجاد کی �ور �س نے زمین کی شکل قطع

( مانی۔Sphericalکروی )

(Polandگریگورین جنتری کے بننے سے پہلے �یک مجلس کا �نعقاد ہو� �س میں پولینڈ )

( کو بھی بلایا گیا تھا۔ لیکنNicolas Copernicusکے پادری نکولس کا پرنکس )

�نہوں نے یہ کہہ کر �نکار کر دیا کہ �ن کے پاس سورج، زمین �ور چاند کے بارے میں کوئی جانکاری

نہیں ہے۔ �س جانکاری کو حاصل کرنے کے لئے �نہوں نے پر�نی کتابوں کے خز�نے کا مطالعہ شروع کیا۔

Page 15: آئینۂ فلکیات

آ�رکمڈیج ) ( کی لکھی چھوٹی سی کتاب ’’دسنیڈرینکر‘‘ )Archimedesیہاں �ن کے ہاتھ

The Sandrankerلگی۔ جس میں �رسٹار کس کے تجربے پر بحث کی گئی تھی۔ )

آ�ئی۔ �ب �نہوں نے �علان کر دیا کہ سبھی سیارے سورج کے �طر�ف کاپرنکس کے تومن کی مر�د بر

گھومتے ہیں۔ لیکن �س وقت مذہبی خیالات �ن کے معافق نہ تھے۔ �س لئے �نہوں نے �پنے نظریہ کو تب

ء میں کاپرنکس کے شاگردوں نے �ن کی کتاب۱۵۴۳بیان کیا جب کہ وہ بستر مرگ پر پہنچ چکے تھے۔

"Of the revolution of the celestial bodiesشائع کر�ئی چونکہ یہ "

ء میں۱۹۴۶لیٹن زبان میں لکھی تھی �س لئے زیادہ لوگ �سے نہ پڑھ سکے �ور کوئی تنازع پید� نہ ہو�۔

( ڈین مارک میں پید� ہو� �ور �س نے �یک رصد گاہ تعمیرTico. D. Brehiٹائیکوڈی بریہی )

کر�ئی جس میں تجربہ کرتے ہوئے �س نے پایا کہ سورج �ور چاند زمین کے �طر�ف گردش کرتے ہیں بعد میں

( نے لی۔ چونکہ کیپلر کی نظریں تھوڑی�Jahnas Kepplerن کی جگہ جو ہانس کیپلر )

کمزور تھیں �س لئے �نہیں تاروں کی صحیح چال جاننے کے لئے دوسروں کا سہار� لینا پڑتا تھا �نہوں نے

موقع پا کر بریہی کا مقالہ چر� لیا۔ کئی سال �نہوں نے �س کا تجزیہ کیا �ور �پنا مشاہدہ جاری رکھا۔ بعد

میں �نہوں نے �پنے نظریہ میں بتایا کہ زمین گرد ش کرتی ہے۔ سبھی سیارے بھی �لگ �لگ مد�ر میں

(لکھی �ور تینThe harmony of the worldگھومتے ہیں۔ �نہوں نے �یک کتاب )

آ�غاز کرنے کا شرف �طالوی عالم فلکیات گیلیلیو کو حاصل ہے۔ قانون بھی بنائے۔ جدید علم فلکیات کا

ء میں لپرشے کی دوربین میں �صلاح کر کے �یک نئی دوربین �یجاد کی �س نے چاند کی۱۶۰۹جس نے

ح کے نشیب و فر�ز کو دیکھا �ور بیان کیا۔ چاند پر پہاڑ دیکھے۔ زحل کے گرد چکر لگاتے کئیطس

سیار چے بھی دیکھے �ور پایا کہ زہر� سورج کا چکر لگاتا ہے نہ کہ زمین کا۔ �ن تمام باتوں کو �نہوں نے

آ�ئی �یک خبر‘‘ میں بیان کیا ہے۔ گیلیلیو نے کئی دوسری باتوں کو منطقی �ور �پنی کتاب ’’ستاروں سے

سائنسی �ند�ز میں جانچنے کی کوشش کی �گر زمین گھومتی ہے تو ہمیں �س کا پتہ کیوں نہیں چلتا۔ �س

کا جو�ب حاصل کرنے کی دھن میں �نہوں نے جمود کا نظریہ کھوج لیا۔ حالانکہ گیلیلیو کے مشاہد ے

Page 16: آئینۂ فلکیات

( کی وجہ چاندTideجزر ) و بہت صحیح نہیں تھے �ن میں کئی کمیاں بھی تھیں کیپلر نے مد

کے کھچاؤ کو بتایا لیکن گیلیلیو کا خیال تھا کہ یہ زمین کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ گیلیلیو سوچتے

"نام سے �یک کتاب لکھی۔Dialogueتھے کہ وہ �پنی جگہ بالکل صحیح ہیں �س لئے �نہوں نے "

آ�رون کا زمانہ تھا جو �ن کے دوست بھی تھے �نہوں نے گیلیلیو کو مشورہ دیا کہ وہ �پنی�8ن دنوں پوپ

کتاب میں کہی گئی باتوں کو مفر وضے کے طور پر پیش کریں مگر �نہوں نے یہ بات نہ مانی جب پوپ

آ�یا �نہیں محسوس ہو� کہ گیلیلیو نے چرچ کو بیوقوف ثابت کیا ہے نے یہ کتاب پڑھی تو �نہیں بہت غصہ

ء میں نیوٹن نے �یک دور بین کی �یجاد کی۔ �س�۱۶۶۸س کے بعد پوپ نے گیلیلیو کو نظر بند کر� دیا۔

(پر روشنی کو جمع کیا جا سکتا تھا۔ نیوٹن �س وقتLensکی خاصیت یہ تھی کہ �س کے عدد )

ء میں �نگریز نوجو�ن �یڈمنڈ ہیلی نے نیوٹن سے ملاقات کر کے۱۶۸۴کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔

(کو ثابت کرنے کی درخو�ست�Reverse Square Lawن سے خلاف مربع قانون )

کی۔

نیوٹن نے کیپلر کے تینوں �صولوں کا تجزیہ کر کے ہیلی کو بھیج دیا۔ ہیلی کے �صر�ر پر نیوٹن نے

"لکھی �س میں کاپرنکس �ور کیپلر کے کام کا ریاضی کےPrincipiaء میں �یک کتاب"۱۶۸۷

ذریعے تجزیہ کیا گیا تھا �نہوں نے سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے �جر�م فلکی کی چال پر بھی �پنا

Robertنظریہ �س کتاب میں بیان کیا تھا۔ نیوٹن �ب بہت مشہور ہو چکے تھے۔ ر�بٹ ہک )

Hookجو �س وقت کے بڑے سائنسد�ں مانے جاتے تھے �ور ہیلی کے ساتھی تھے۔ �نہوں نے نیوٹن پر)

�لز�م لگایا کہ نیوٹن نے �ن کے مقالے کو چر� کر �پنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔ �س سے نیوٹن �ور ہک کے

دی لیکن نیوٹن کے دل سے بیچ کشیدگی پید� ہو گئی بعد میں ہیلی نے حالانکہ �ن کے بیچ صلح کر�

آ�تا تو وہ �پنے �ندر �یک عجیب میل کبھی نہ نکل سکا، جب بھی کبھی ر�برٹ ہک کا ذکر �ن کے سامنے

آ�ئنٹائن نے ء میں کشش ثقل کو بھی �یک حلقہ مانا �نہوں نے۱۹۰۵سی تلخی محسوس کرتے تھے۔

Page 17: آئینۂ فلکیات

( قائم کیا۔ جس سےTheory of relativity ،ساپیکشتا کا سدھانت �ضافیت کا قانون )

آ�تی �یک ء میں �یک ریڈیو �نجینئر۱۹۳۱فلکیات میں �یک �نقلاب برپا ہو�۔ کال جینسکی نے خلاء سے

چمک دیکھی جب وہ ویل ٹیلیفون تجربہ گاہ میں کام کر رہے تھے۔ �یک �ور �مریکی گرون ریور نے بھی

�یسا ہی محسوس کیا ریور نے ہی دس سال کی مشقت کے بعد �س چمک کا تجزیہ کرنے میں کامیابی

دوربین بنائی جس کی وجہ سے پہلی بار خلاء کا نقشہ وجود ء میں ریور نے �یک ریڈیو۱۹۳۷حاصل کی۔

آ�یا۔ میں

(کی کھوج کی تو دوسری طرف مصنوعی سیاروںRadarء میں �گر جالٹن نے ر�ڈ�ر ) ۱۹۴۰

کی �یجاد نے عالم فلکیات کو مشاہدے کے لئے دو مو�قع فر�ہم کر دیئے۔ �یک زمین سے دوربین وغیرہ کی

مدد سے مشاہدہ �ور دوسرے خلاء میں مصنوعی سیارے بھیج کر �ن کے ذریعہ مشاہدہ � تب سے �ب تک

فلکیات کے بارے میں بہت سی پوشیدہ باتیں ہمیں پتہ لگی ہیں۔ ساتھ ہی �ب جبکہ �نسان فلکیات کے

پوشیدہ ر�زوں کو جاننے کی جستجو میں خلاء کا سفر بھی کامیابی سے طے کر رہا ہے �ور خلائی

�سٹیشن بنانے کے علاوہ خلاء میں کالونیاں بنانے کا خیال من میں لا رہا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ

آ�ج کل �یک �یسی �نچ و�لی دوربین بنانے کا کام390فلکیات �پنے عروجی زمانے میں قدم رکھ چکا ہے

جیری ولسن کی قیادت میں چل رہا ہے۔ جس کے ذریعہ خلاء میں موجود چھوٹی سے چھوٹی چیز کو

آ�تش فشاں کی چوٹی پر آ�سانی سے دیکھا و �س کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ �س کو مونانامی کوہ بھی

آ�مد نے تو فلکیات کے حلقے میں �ور زیادہ سرگرمیاںComputerلگایا جائیگا۔ کمپیوٹر ) (کی

پید� کر دی ہیں �ب تو قریب کے سیاروں پر پہنچنے کے خو�ب دیکھے جا رہے ہیں۔

�ب سو�ل یہ ہے کہ ہم ہندوستانی �س مید�ن میں کہاں ٹھہرتے ہیں ہمارے ملک نے �س مید�ن میں

کافی نام پید� کیا ہے ہمارے یہاں علم فلکیات قدیم زمانے سے ہی ر�ئج ہے۔ جے پور کے ر�جا جے سنگھ

منتر کے نام سے �یک رصد گاہ تعمیر کر�ئی۔ �س کے علاوہ �س نے جے پور متھر� �ور نے دلی میں جنتر

Page 18: آئینۂ فلکیات

آ�ریہ بھٹ مانے جاتے ہیں۔ کاشی میں بھی رصد گاہوں کی تعمیر کر�ئی۔ ہندوستان کے پہلے ماہر فلکیات

آ�ج�24835نہوں نے مشاہدے کے بعد کہا کہ زمین گول ہے �ور �س کا محیط میل دریافت کیا۔ جو کہ

آ�ریہ بھٹ کے بعد و �ر�ہ مہر سب سے مشہور ماہر فلکیات تھا۔ کے مسلمہ محیط کے کافی قریب ہے۔

جس نے �پنی کتاب میں زمین کے گول ہونے �ور �س کی قوت کشش یعنی ثقل کی وجہ سے سب چیزوں

آ�تا کہ �ن کی دریافتوں کو کیوں کسی نے کو �پنی طرف کھنچنے کی جانکاری دی لیکن سمجھ نہیں

سمجھنے کی کوشش نہیں کی جب �نکی دریافتوں کو دوسرے لوگوں نے دنیا کے سامنے رکھا تو �نہیں

آ�نکھوں پر بیٹھا لیا۔ چاند �ور سورج گہن پر تحقیقی کام ہندوستان میں کئی سال قبل تمام دنیا نے سر

مسیح سے ہوتا رہا ہے یہاں کے ماہرین فلکیات نے �س بارے میں �پنے نظرئیے لوگوں کے سامنے بہت پہلے

سے رکھنے شروع کر دیئے تھے۔

|ی حضرت کے لقب سے مشہور �مام �حمد رضا فاضل بریلوی نے بھی بیسویں صدی میں �عل

فلکیات کے موضوع پر �یک کتاب ’’فوز�لمبین در ردحرکت زمین‘‘ کے عنو�ن سے لکھی جس میں �نہوں

ہ پیش کرتے ہوئے �پنی دلیلوں سے زمین کے ساکن ہونے کی باتفنے قدیم فلسفہ یونان کے مساوی فلس

ثابت کرنے کی کوشش کی۔ �سی کتاب میں �نہوں نے مشہور و معروف سائنسد�نوں کے �صولوں کو �پنی

اا گیلیلیو کے گرنے و�لے �جسام کے �صول ) Law of fallingدلیلوں سے رد کر دیا مثل

bodies( آ�ئزک نیوٹن کے کلیہ جمود (کا پرنکس �ور کیپلر کے گردش سیارگان کے نظریات �ور

Law of inertiaآ�ئینسٹائن کے (�ور کشش ثقل کے �صولوں کی بھی تردید کی ساتھ ہی �لبرٹ

(پر بھی گفتگو کی ہے۔Theory of relativity �ضافت )یۂنظر

حالانکہ جدید فلکیات میں بھی ہندوستان نے کافی ترقی کی ہے �ور �ب ہندوستان کو �مریکہ،

روس، چین، جیسے بڑے ملکوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان نے کئی کامیاب مصنوعی

سیارہ چے خلاء میں بھیجے ہیں۔ ر�کیش شرما ملک کا پہلا خلاء نورد ہونے کا شرف حاصل کر چکے

Page 19: آئینۂ فلکیات

�د کلپنا چاولا �ور سنیتا ولیم نے خلاء پہنچ کر ہندوستان کا نام روشن کیا ہے �ور �بژ ن ہندوستانی ہیں تو

چاند پر جانے کا پروگر�م ترتیب دیا جا رہا ہے۔

آ�ج خلاء نوردی �ور ٹکنالوجی کی ترقی سے تمام نئے طرح کے تجربے ہو رہے ہیں مختصر یہ کہ

آ�لات بن رہے ہیں جس سے کائنات کے پوشیدہ ر�زوں کو جانا جا سکے۔ تمام ملکوں کے بیچ یہ نئے نئے

ہوڑ چل رہی ہے کہ کون پہلے بہتر سے بہتر جانکاری فر�ہم کر سکتا ہے۔ روز نئے ر�ز فاش ہو رہے ہیں لیکن

آ�ج �نسان �ب بھی جاننے کو �تنا کچھ باقی ہے کہ �یک عمر درکار ہو گی �س کے مشاہدے کے لئے

آ�ثار ڈھونڈے جا رہے ہیں �ور وہاں قدم رکھنےMarsچاند پر پہنچ چکا ہے۔ مریخ ) (پر زندگی کے

کی تیاریاں تیزی سے چل رہی ہیں۔ خلاء میں سیر کرنے کی خو�ہش رکھنے و�لے لوگوں کے لئے یہ �یک

خوشخبری ہے کہ شوقیہ خلاء نوردی کرنے و�لے پہلے خلاء نو رد ٹیٹو �پنے کئی روز ہ تفریحی مشن سے

آ� چکے ہیں �ور �نہوں نے �س معاملے میں لوگوں کے سامنے یہ مثال پیش کی ہے کہ ہر کوئی یہ و�پس

حیرت �ور سحر �نگیز سفر کر سکتا ہے بشرطیکہ �س کے پاس بے شمار دولت ہو۔ ساتھ ہی �چھی صحت

آ�نے و�لے وقت میں کائنات سے متعلق بہت سے ر�زوں کو سامنے لایا بھی۔بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ

جا سکے گا۔�ور زندگی �ور کائنات کے درمیان کے رشتے کو سمجھا جا سکے گا۔

***

Page 20: آئینۂ فلکیات

(۲باب )

فلکیات علم میں صحیفوں آاسمانی

و�ت نے کائنات کو خلق کیا �ور �نسان کو زمین پر �شرف �لمخلوقات بنا کر�سم خالق �رض و

بھیجا �نسان نے �پنے خالق کے زیر سایہ خود کو متمدن تو کر دیا لیکن کائنات کے �سر�رو رموز کی

صدیوں سے تشریح کرنے کے باوجود وہ کائنات کے پوشیدہ ر�زوں کو پانے سے قاصر ہی رہا۔ �ن �سر�ر و ر

موز کو جاننے کے لئے �نسان نے بہت سے طریقے �یجاد کئے۔ جب �للہ نے مختلف قوموں کو مختلف

آ�سمانی صحیفے عطا فرمائے تو �ن قوموں نے �ن کے ذریعہ کائنات کے �سر�ر و رموز کو پانے کی سعی

کی۔

آ�سمانی صحیفے رموز کائنات کو جاننے کے لئے �نسان نے قدیم صحیفوں سے لے کر جدید ترین

آ�ن پاک تک سے مدد طلب کی۔ �نسان نے زمین �ور کائنات کی تخلیق کے متعلق پہلے زبور سے مدد قر

لی۔

زمین کی تخلیق کے بارے میں زبور میں �س طرح �رشاد ہو� ہے۔

( 2 �ور 1آ�یات 24 ) زبور

’’زمین خد�وند کی ہے �ور �س کی معموری بھی جہاں �ور �س کے سارے باشندے �س کے ہیں

�س لئے کہ �س کی بنیاد پانیوں پر رکھی �ور �سے سیلابوں پر قائم کیا گیا ہے ‘‘۔

Page 21: آئینۂ فلکیات

(۱۹۵۶ ) ترجمہ ’’نگار‘‘ ) خد� نمبر ( �ز علامہ نیاز فتح پوری

آ�یات میں زمین کے پانی سے پید� ہونے �ور پانی پر ہی قائم رہنے کی طرف �شارہ ملتا مندرجہ بالا

ہے۔ زبور میں �یک جگہ �ور �رشا ہو� ہے۔

آ�سمان بنے �ور �ن کے سارے لشکر �س کے منھ کے دم ’’خد�وند کے کلام سے

سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ �س نے کہا۔ �ور وہ ہو گیا، �س نے فرمایا �ور وہ برپا ہو گیا۔

آ�یات۳۳ ) زبور ترجمہ ’’نگار‘‘ ) خد� نمبر ( �ز نیاز فتح پوری (۹۔۶

آ�ئی جب �نسان کو بائبل آ�یات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات خد� کے حکم سے وجود میں �ن

عطا ہوئی تو �س نے بائبل سے بھی کائنات کے �سر�ر رموز کو جاننے کی کوشش کی۔

�ور خد� نے کہا’’ �جالا ہو �ور �جالا ہو گیا‘‘

�ور خد� نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہو �ور پانیوں کو پانیوں سے جد� کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ�ئے �ور �یسا ہی ہو آ�سمان کے نیچے کے پانی �یک جگہ جمع ہوں کہ خشکی نظر �ور خد� نے کہا کہ

گیا۔

(۹۸۔۸۷ ترجمہ نگار ) خد� نمبر ( ص ۱ ) بائبل پید�ئش باب

�س باب سے بھی پانی سے زمین کی پید�ئش کا پتہ چلتا ہے۔

میں ہی �یک �ور جگہ �رشاد ہو� ہے کہ۱بائبل باب

آ�سمان �ور زمین کو پید� کیا زمین ویر�ن �ور سنسان تھی، �ور گہر�یوں کے ’’ �بتد�ء میں خد� نے

�وپر �ندھیر� تھا۔ خد� کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی۔

Page 22: آئینۂ فلکیات

(۹۸۔۹۷’’نگار‘‘ ) خد� نمبر ( ص ) ترجمہ

آ�باد آ�سمان خلق ہو� پھر زمین۔ نیز یہ کہ �بتد� میں زمین �س قول سے پتہ لگتا ہے کہ سب سے پہلے

نہیں تھی �ور ہر طرف گہر� �ندھیر� تھا یہاں خد� کی روح کے پانی پر جنبش کرنے کا کیا مفہوم ہے

آ�تا۔ حالانکہ �ہل ہنود میں بھی خد� کا �یک نام نار�ئن لیا جاتا ہے۔ �س کے معنی بھی پانی پر سمجھ نہیں

چلنے و�لے کے ہوتے ہیں۔

ق۔م ( کا قول نقل کیا۶۰۰’’د�ستان د�نش‘‘ میں ڈ�کٹر خلیفہ عبد �لحکیم نے تالیس ) ز مانہ

ہے۔

’’پانی تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے زمین �یک نا پید� کنارے سمندر پر تیرتی ہے �صل عنصر

پانی ہے باقی تمام عناصر �ور �جسام پانی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں ‘‘

(۱۱۷ ) ترجمہ ) خد� نمبر (’’نگار‘‘ ص

آ�ن مجید نے جدید تحقیق کے متعلق زیادہ یہ قول جدید تحقیق کے مطابق معلوم ہوتا ہے لیکن قر

آ�ن پاک ہی آ�سمانی صحیفوں میں جدید ترین صحیفہ �ور متعدد علوم کا گنجینہ قر و�ضح �شارے دیئے ہیں۔

آ�سمانی صحیفہ نازل نہیں ہو گا جتنی و�ضح جدید �ور بلند معیار فلکیاتی ہے جس کے بعد �ب کوئی

آ�ن پاک سے موصول ہوتی ہیں �تنی بلند معیار �ور جدید تحقیقات کو و�ضح کرنے و�لی معلومات معلومات قر

آ�ن مجید نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے �ور نہ کسی �ور صحیفہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ قر

وہ �س لئے نازل ہو� ہے کہ تجرباتی طریقے سے سائنس مرتب کرے بلکہ وہ پوری زندگی کے لئے �یک نظام

پیش کرتا ہے۔

آ�ن بعض کائناتی حقائق کی طرف �شارے بھی کرتا ہے جس کو �پنی عقل و �س کے باوجود قر

آ�ن کے بیان کی تصدیق فلکیات کے ذریعہ کرنا ہمار� مقصد نہیں د�نائی کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ قر

Page 23: آئینۂ فلکیات

آ�ن کی روشنی |لہی ہے۔ یہاں ہمار� مقصد فلکیات کو قر آ�ن تو کلام � ہے �ور ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ قر

اا آ�ن میں تقریب آ�یات ہیں50-40میں جاننے کی کوشش کرنا بھر ہے۔ �یک موٹے �ند�ز ے کے مطابق قر �یسی

آ�یات کے ذریعے علم فلکیات کو سمجھنے جن سے علم فلکیات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ یہاں ہم کچھ

کی کوشش کریں گے۔

آ�یات:۔ ( ۱ ) آ�سمان سے متعلق

آ�یت16، سورۃ 12آ�یت16، سورۃ33آ�یت 14، سورۃ13آ�یت45، سورۃ2آ�یت31، سورۃ 6آ�یت50سورۃ

آ�سمان کے متعلق بہت سی16 آ�یات کے ذریعہ بھی علم فلکیات کی وغیرہ کے علاوہ چند مندرجہ ذیل

معلومات فر�ہم ہوتی ہے۔

( 2آ�یت�13للہ �لذی رفع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ �لشمس و �لقمر ) سورۃ

آ�تے ہوں ، پھر وہ آ�سمانوں کو �یسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر ) وہ �للہ ہی ہے جس نے

آ�فتاب و ماہتاب کو �یک قانون کا پابند کیا ( �پنے تخت پر جلوہ �فروز ہو� �ور �س نے

(65آ�یت22ویمسک �لسماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازیہ، ) سورۃ

آ�سمان کو �س طرح تھامے ہوئے ہے کہ �س کے �ذن کے بغیر وہ زمین پر گر ) �ور وہی ) �للہ (

نہیں سکتا۔ (

( ۵آ�یت10ہو�لذی جعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لقوم یعلمون، ) سورۃ

) وہی ہے جس نے سورج کو �جیالا بنایا �ور چاند کو چمک دی �ور چاند کے گھنٹے بڑھنے کی

منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تا کہ تم �س سے برسوں �ور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ �للہ نے یہ

Page 24: آئینۂ فلکیات

سب کچھ بر حق ہی پید� کیا ہے۔ وہ �پنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے �ن لوگوں کے لئے

جو علم رکھتے ہیں (

آ�سمان سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں �ن معلومات آ�یات سے ہمیں آ�ن کی مندرجہ بالا قر

آ�ن نے کو� نجیل �ور عہد نامہ قدیم میں �تنی گہر�ئی کے ساتھ پیش نہیں کیا جتنی گہر�ئی کے ساتھ قر

پیش کیا ہے۔

آ�ن مجید میں ستارے :۔ مرتبہ �ستعمال ہو� ہے �س کا مادہ �یک �یسا لفظ۱۳لفظ ستارہ قر

آ�یت نے �ور و�ضح کیا ہے۔ ہے جس کا مفہوم ہے ظاہر ہونا یا دکھائی دینا۔ �س بات کو مندرجہ ذیل

( 3-1آ�یت86و�لسماء و�لطارق۔۔۔۔۔۔۔۔�لنجم �لثاقب ) سورۃ

آ�سمان کی �ور ر�ت کو نمود�ر ہونے و�لے کی �ور تم کیا جانو کہ وہ ر�ت کو نمود�ر ) قسم ہے

ہونے و�لا کیا ہے ، چمکتا ہو� تارہ (

آ�ن مجید میں سیاروں کو کو�کب سے ) جو کوکب کیسیارے :۔ �یسا مانا جاتا ہے کہ قر

آ�ن میں لفظ کوکب کے معنوں کی �چھی توضیح �یک جمع ہے ( تعبیر کیا گیا ہے �یسا معلوم ہوتا ہے کہ قر

آ�یت میں کی گئی ہے۔ �س کے گہرے مفہوم کی �متیازی دینی نوعیت �پنی جگہ برحق ہے بہت مشہور

آ�یت یہ ہے۔ علاوہ �زیں یہ ماہر مفسرین کے مابین کافی بحث و تمحیص کا موضوع ہے۔ زیر بحث

|وت۔۔۔۔۔۔۔۔کوکب دری ) سورۃ (35آ�یت �24للہ نور �لسم

آ�سمان و زمین کا نور ہے ) کائنات میں ( �س کے نور کی مثال �یسی ہے جیسے �یک ) �للہ

طاق میں چر�غ رکھا ہو� ہو� چر�غ �یک �یسے فانوس میں ہو فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح

چمکتا تار� (

Page 25: آئینۂ فلکیات

یہاں موضوع کسی �یسے جسم پر روشنی کا �یک ظل ہے جو �سے منعکس کرتا ہے �ور �س کو

�یک موتی کی چمک دیتا ہے مثل �یک سیارے کے جو سورج کی وجہ سے منور ہوتا ہے �ن کے علاوہ

میں بھی �سی طرح کا �شارہ ملتا ہے۔6آ�یت37سورۃ

�نارنیا�لسماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ �لکو�کب

آ�سمان دنیا کو کو�کب سے زینت دی ہے۔ ( ) ہم نے

|لہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کو�کب وہی �جر�م آ�یات کے علاوہ بھی کئی دوسری جگہ �رشاد � �ن

فلکی ہیں جن کو جدید سائنس سیاروں کے نام سے جانتی ہے۔

آ�ن مجید میں جو معلومات ملتی ہیں �ن کا تعلق بنیادی طور پرنظام سماوی:۔ �س موضوع پر قر

نظام شمسی سے ہے تاہم بذ�ت خود نظام شمسی سے ماور�ء جو حادثات رونما ہوئے �ن کے حو�لے بھی

�س میں موجود ہیں۔

( 33آ�یت21وھو �لذی۔۔۔۔کل فی فلک یسجون ) سورۃ

) �ور وہ �للہ ہی ہے جس نے ر�ت �ور دن بنائے �ور سورج �ور چاند کو پید� کیا یہ سب �پنے �پنے

مد�روں پر چل رہے ہیں۔ (

( 40آ�یت36لا �لشمس۔۔۔۔وکلوفی فلک یسبحون ) سورۃ

) نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ چاند کو جا پکڑے �ور نہ ر�ت دن پر سبقت لے جا سکتی ہے

�ن میں سے ہر �یک �پنے �پنے مد�ر پر تیر رہا ہے (

�س جگہ �یک �ہم حقیقت کا و�ضح طور پر �ظہار کیا گیا ہے وہ ہے سورج �ور چاند کے مد�روں

آ�ن کے کئی فر�نسیسی مترجم �س کا کا وجود عربی کے لفظ فلک کا ترجمہ مد�ر بھی کیا گیا ہے۔ قر

Page 26: آئینۂ فلکیات

مفہوم کرہ بیان کرتے ہیں لیکن جدید سائنس سے مطابقت رکھتے ہوئے �س لفظ کا مفہوم مد�ر ہی زیادہ

بہتر معلوم ہوتا ہے۔

دن �ور ر�ت:۔

(29آ�یت�31لم تر�ن۔۔۔۔۔فی �لیل ) سورۃ

آ�تا ہے �ور دن کو ر�ت میں |ی ر�ت کو دن میں پرو تا ہو� لے ) کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ �للہ تعال

ضم کر دیتا ہے۔ (

(5آ�یت29یکور �لیل۔۔۔۔۔۔۔علی �لیل ) سورۃ

|ی ( ر�ت کو دن پر لپٹتا ہے �ور دن کو ر�ت پر لپیٹتا ہے۔ ( ) وہی ) �للہ تعال

آ�یات کے علاوہ سورۃ میں بھی دن �ور ر�ت کے دور کو37آ�یت�36ور سورۃ54آ�یت7مندرجہ بالا

نہایت و�ضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

آ�یتکائنات کا پھیلاؤ:۔ آ�ن کی مندرجہ ذیل |ی ہے۔51سورۃ47قر میں کلام باری تعال

و�لسماء بن ینھا۔۔۔۔۔۔و�نا�لموسعون

آ�سمان کو ہم نے �پنے زور سے بنایا ہے �ور ہم �س میں توسیع کر رہے ہیں ( یہاں لفظ سما کا

آ�سمان ہے �ور �وسع کی مطابقت ہے موسعون سے جس کے معنی ہیں کشادہ پھیلا ہو� یا وسیع کرنا۔ ترجمہ

آ�یت سے کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں معلومات موصول ہوتی ہے۔ �س

نظریہ کشش ثقل:۔

آ�یت ( 54یفشی �لیل �لنھار۔۔۔۔۔۔۔ حتیثا ) سورۃ ) �عر�ف (

Page 27: آئینۂ فلکیات

) وہ ر�ت کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے جو کوشش کرتی ہے کہ �سے تیزی سے جا پکڑے (

یعنی ر�ت کو تیزی سے پکڑنے یا �پنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہے گویا زمین سورج کو

آ�ن حکیم یی ) جنہیں قر �پنی طرف کھنیچتی ہے �ور سورج زمین کو زپنی طرف کھینچتا ہے۔ حضرت عل

آ�یت کو مد نظر رکھتے ہوئے کی معرفت کے �سر�ر رموز سمجھنے �ور بیان میں کمال حاصل تھا ( نے �سی

�یک موقع پر فرمایا تھا۔

’’و�للہ �طور بہ ماسمر سمبر وما �م نجم و�لسماء نجما‘‘

(مطبوعہ تہر�ن (381-380 ) نہج �لبلاغہ ) صفحہ

آ�سمان میں ) خد� گو�ہ ہے کہ میں ہر گز �یسا نہ کروں گا جب تک زمانے کی کہانی جاری ہے

�یک ستارہ دوسرے ستارے کو �پنی طرف کھینچ رہا ہے۔ (

آ�ج نیوٹن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہی وہ کشش ثقل کا نظریہ ہے جو کہ

زمین:۔

آ�یات میں و�ضح کیا گیا ہے۔ زمین کی ساخت کو مندرجہ ذیل

( 20-19آ�یت71و�للہ جعل لکم �لارض۔۔۔۔۔حجاجا ) سورۃ

) �ور �للہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش کی طرح بچھایا ہے کہ تم �س کے �ندر کھلے ر�ستوں پر

چلو (

ا� ) سورۃ ( 7-6آ�یت�78لم نجعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔�وتاد

) کیا یہ و�قعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا �ور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا (

Page 28: آئینۂ فلکیات

(10آ�یت81و�لقی فی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمید بکم ) سورۃ

نے ( زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ ( ) �س نے ) خد�

آ�یات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کی ساخت �س کی حرکت نشیب و فر�ز گردش �ور کشش تمام

آ�ن مجید نے متعدد معلومات فر�ہم کی ہیں جس سے جدید فلکیات کے نظریے کی ثقل کے بارے میں قر

مطابقت و�ضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

اا زمین و پہاڑ کی پید�ئش سورج کارو ��ندچ�س طرح عالم فلکیات کی بنیادی معلومات مثل

آ�ن مجید میں پہلے ہی سے موجود ہے۔ متحرک ہونا �ور سیارگان کا �پنے �پنے مد�ر میں گردش کرنا وغیرہ قر

آ�ج علماء طبقات �لارض صدیوں کی تحقیق کے بعد معلوم کر سکے ہیں۔ �س سے مذہب �سلام جسے

کے علمی معیار کی بلند ی کا ثبوت فر�ہم ہوتا ہے۔ �ور مسلمانوں کے لئے باعث �فتخار ہے کہ �ن کے

آ�ن کریم ہے۔ مذہب کا مضبوط ثبوت قر

Page 29: آئینۂ فلکیات

(۳باب )

تحقیقات فلکیاتی کی مسلمانوں

کہا جاتا ہے کہ یورپ نے فلکیات کی مشعل مسلمانوں سے حاصل کی �ور مغربی دنیا کو منور

آ�ئی۔ �س حقیقت کا کر دیا لیکن یہ �عتر�ف کرنے میں بخل سے کام لیا کہ علم کی یہ روشنی کہا ں سے

ی�عتر�ف دنیا کے مشہور د�نشوروں نے �پنے �پنے طور پر کیا ہے کہ مسلمان سائنسد�نوں نے ہی مشاہد

A short story of (نے �پنی کتاب"Hittiتجربات �ور تحقیقات کی بنیاد ڈ�لی۔ ہٹی )

Arabی میں کسی قوم نے �نسانی ترقی میں �تنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ| " میں لکھا ہے کہ قرون وسط

(نے �س بات کا �عتر�ف کیا ہے کہ �سلام نے کرہHenri Pirmneمسلمانوں نے۔ ہینری پرمنے )

�رض کی شکل ہی بدل دی۔

�ب سو�ل یہ ہے کہ پھر تمام فلکیاتی ترقیاں یورپ سے منسوب کیوں کر ہیں۔ یورپ میں �سلامی

ء۱۸۳۲فلکیاتی ذخیرہ در �صل بغد�د کی بیت �لحکمہ نام کی �نجمن کے ذریعہ پہنچا �س �نجمن کو

میں بغد�د کی حکومت نے قائم کیا تھا �ور �س میں عربوں کی تصنیف شدہ کتابیں لاطینی )

Latin ( یونانی) Greekوغیرہ زبانوں میں منتقل کی جاتی تھیں شاید �س کام کا مقصد یورپ)

میں بھی �پنا نام روشن کرنا تھا لیکن ہو� یہ کہ سب گمنامی کے �ندھیروں میں کھو گئے �ور �ہل یورپ نے

�س سے �ستفادہ کر کے تمام دنیا کو منور کرنے کا �عز�ز حاصل کیا۔

Page 30: آئینۂ فلکیات

جب مسلمان ماہرین فلکیات کی کتابیں یورپ پہنچی تو �نہوں نے یہ خطرناک کام �نجام دیا کہ

اا �ن کے مصنف کے ناموں میں تبدیلی کر کے �نہیں یوروپی �ند�ز میں ڈھال کر پیش کیا۔مثل

(Averroes ) �بن رشد

(Avicenna ) علی سینا بو

(Memunides ) �ور موسی بن میمون کو

لکھا گیا۔ �سی طرح کئی �ور ناموں میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ �س سے لوگوں میں یہ تبدیل ہوئے نام

مشہور ہوئے۔ درحقیقت �ہل یوروپ کی یہ �یک سوچی سمجھی سازش ہی تھی۔ کہ دنیائے سائنس سے

مسلمانوں کی خدمات کے علاوہ �ن کے ناموں سے بھی دور رکھا جائے۔ �ن کی یہ کوشش کافی حد تک

کامیاب بھی رہی لیکن �یسے سیکڑوں تاریخی حو�لے دستیاب ہوئے ہیں جو یہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلاشبہ

آ�ج کا جدید آ�یا �ور ساری دنیا میں پھیل گیا عرب مسلمانوں کے ذریعہ ہی سائنس �ور فلکیات کا سیلاب

فلکیات بھی در �صل مسلمانوں کی تعمیر کردہ بنیاد پر منحصر ہے۔

مسلمان فلکیاتی ماہرین کی خدمات کا تعارف �س طرح ہے۔

ء میں �بر�ہیم بن جندب نے سب سے پہلے عجائب �لفلک کے مشاہدے کے لئے دوربین۷۷۶

�یجاد کی تھی۔ دنیا کا پہلا ماہر فلکیات تھا �حمد بن سجستانی جس نے گردش زمین کا نظر یہ پیش کیا

تھا۔

ء ( نے سورج کی گزرگاہ کا جھکاؤ ساڑھے تئیس درجہ کی جگہ تئیس۸۱۷جابر بنانی ) وفات

ء ( نے �پنے طریقہ سے زمین کی محیط کی۹۰۳منٹ دریافت کیا تھا۔ �حمد کثیر �لفرغانی ) وفات35درجہ

ء ( نے �پنی۱۰۳۷پیمائش معلوم کی تھی جو مسلمہ محیط سے بہت قریب ہے۔ �بن یونس صوفی ) وفات

Page 31: آئینۂ فلکیات

‘‘ میں حرکت کا قانون بیان کیا ہے �س قانون کو یوروپ نے بوعلی سینا کے پانچ سال بعدءکتاب ’’�لشفا

دیا۔ نیوٹن کی �یجاد کے طور پر ساری دنیا میں مشہور کر�

ء ( نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہوتی ہے۱۰۱۱ماہر علم فلکیات �بو �لوفابوز جانی ) وفات

کہ چاند کی گردش زمین کے گردبتایا�ور سورج کی کشش سے �س کی گردش کرتا ہے �س نے یہ بھی

جاتا ہے۔ �سی کو چاند کا گھٹنا �ور بڑھنا سے �س کی گردش میں خلل پڑ ہوتی ہے �ور سورج کی کشش

(سے منسوب کر�Tycobrahiکہا جاتا ہے۔ �س کو سولہویں صدی کے سائنسد�ں ٹائکو بر�ہی )

دیا گیا۔

ریحان �لبرنی نے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی �ور جغر�فیہ د�ں �بو علم فلکیات کا ماہر

کیا تھی، �لبیرونی نے سورج کے مشاہدے کے بعد �رض �لبلد �ور طول �لبلد معلوم کرنے کا طریقہ �یجا د

لبلاد نکالنے کے عام طریقوں کا بیان ہے۔�تھا جس میں سورج کے فاضل ر�سی �ور میلا کے ذریعہ عرض

�لبرونی نے زمین کی محوری گردش کو بھی بیان کیا ہے۔

عمر خیام کو لوگ فلسفی �ور شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن علم ہیئت میں �س کے

تعد�د معلوم کی وہ دور جدید کے ماہر ہونے کو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ �س نے شمسی سال کی جو

سیکنڈ کا فرق ملتا ہے۔ خیام نے شمسی۴۸علماء کی تحقیق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ صرف

منٹ �ور۴۹ گھنٹے ۵ دن ۳۶۵ منٹ کا حساب کیا۔ �ور جدید تحقیق سے ۴۹ گھنٹے ۵ دن ۳۶۵سال

سکنڈ کا ہوتا ہے۔ ۴۸

محمد بن محمد �دریس دنیا کا سب سے پہلا عظیم جغر�فیہ د�ں ہے جس نے �پنی مشہور و

’’نذھت �لمشتاق فی �حتر�ق �لافاق‘‘ میں پہلی بار دنیا کے گول ہونے کی بات لکھی معروف تصنیف

تھی۔

Page 32: آئینۂ فلکیات

وزن سطح زمین پر جتنا ہوتا ہے وہ ہو� میں عبد �لرحمن خازن نے �نکشاف کیا کہ کسی چیز کا

�س سے کم ہو جاتا ہے۔ �سی طرح ہر چیز کا وزن پانی میں کم ہو جاتا ہے۔ �س نے یہ بھی بتایا کہ زمین

کے چاروں طرف ہو� کا غلاف �س لئے ہے کہ زمین �س کو �پنی طرف کھنچتی ہے چنانچہ زمین سے جتنا

�وپر ہوتے جاتے ہیں ہو� کم ہوتی جاتی ہے۔

ء ( نے زمین کے �پنے محور پر سورج کے �طر�ف گھومنے �ور �س کی وجہ۱۲۸۳قزدینی ) وفات

سے موسم بدلنے کا �نکشاف کیا۔ قزدینی نے یہ بھی کہا کہ چاند زمین �ور سورج کے �رد گرد گھوم رہا

ہے �س نے یہ بھی کہا کہ سورج �ز خود بھی حرکت میں ہے۔

�ن کے علاوہ کچھ �یسی بھی دریافتیں ہوئی ہیں جن کا تاریخی پس منظر ہمارے سامنے نہیں ہے

لیکن وہ یوروپی ماہرین فلکیات کے ناموں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ضرورت �س بات کی ہے کہ �ن کی

کھوج کی جائے۔ �ور �ن کو مع ثبوت دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ تاکہ �ن عظیم ماہرین کو �ن کا و�جب

حق حاصل ہو سکے۔ �ور عالم �سلام کا سر بھی فخر سے �ونچا ہو جائے۔

مختصر میں مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے۔

�جر�م سمادی کی حرکات کی زیجوں کا مرتب کرنا۔ ( ۱ )

سب سے پہلے سال کی درست مدت کا تعین کرنا۔ ( ۲ )

چاند کے زیادہ سے زیادہ �رتفاع کا �ختلاف دریافت کرنا۔ (۳ )

آ�فتاب کے فاصلے سے پید� ہوتا ہے �ور ( ۴ ) چاند کے �س تیسرے �ختلاف کا معلوم کرنا جو

ء میں ٹیکو بر�ہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔�۱۶۰۱س جیسے �ختلاف حرکت قمر کہتے ہیں �سکا �کثاف

�ستقبال معدل �لنہار کا ٹھیک معلوم کرنا۔ ( ۵ )

Page 33: آئینۂ فلکیات
Page 34: آئینۂ فلکیات

(۴باب )

ترجمے کے فلکیات کتب

�چھی کتابوں سے �ستفادہ کرنے پر علم میں پختگی �ور نکھار پید� ہوتا ہے۔ �سی مقصد کے

حصول کے لئے کئی دوسری زبانوں سے فلکیات سے متعلق مشہور کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا

�ور �ن کا فائدہ �ٹھا کر کئی ماہرین فلکیات نے نئی کھوجوں کو �نجام دیا۔

سنسکرت سے ترجمہ:۔ (۱ )

فلکیات پر سنسکرت سے قدیم ترین ترجمہ ’’زیج �لارکند‘‘ ہے۔ �رکند سنسکرت لفظ

مندرجات ء میں سندھ میں ترجمہ کیا گیا۔ زیج �لارکند کے زیادہ تر۷۳۵’’�ھر گنڈ‘‘ کی تحریف ہے۔ یہ

میں لکھا تھا۔ �س میں یزدء ۶۶۵’’کھنڈ کھاڈیکہ‘‘ سے ماخوذ تھے۔ کھنڈ کھاڈیکہ کو برھمگپت نے

ء (کی ’’زیج �لشاہ‘‘ کے �ثر�ت پائے جاتے تھے۔ جس کا تعلق کھنڈکھاڈیکہ۶۵۲ء تا ۶۳۲سوم ) جرد

آ�دھی ر�ت سے تھا۔ آ�ردھ ر�تیریکہ‘‘ یعنی آ�ریہ بھٹ کے دبستاں ’’ ہی کی طرح

ء میں ہو�۔ �س کا نام ’’زیج �لھرقن‘‘ رکھا۷۴۲کرت سے عربی میں ترجمہ س�یک �ور زیج کا سن

آ�ریہ بھٹ کے دبستاں ’’�ودیکہ ‘‘ ) طلوع گیا۔ ہندوستانی کتابوں میں یہ �یک بہترین کتاب تھی۔ یہ زیج

ء میں لکھی تھی۔۴۴۹آ�فتاب ( پر مبنی تھی۔ جو �س نے

Page 35: آئینۂ فلکیات

سنسکرت سے عربی میں ہونے و�لے ترجمہ میں سب سے �ہم ترجمہ ’’مہا سدھانت‘‘ کا تھا۔

آ�ریہ بھٹ کا �ثر ثابت ہے۔ یہ ترجمہ بھی تب ہو� جب جس کا تعلق ’’بر�ھم پگستہ‘‘ سے ہے۔ �س پر بھی

ء میں ’’�لمنصور‘‘ کے دربار پہنچی۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ �سکا�۷۷۳یک سفارت سندھ سے بغد�د

ترجمہ �لعز�ری نے کیا تھا۔ �س میں ہندی و �یر�نی نظریات پائے جاتے ہیں۔ �س کے علاوہ �لاہو�زی نے �یک

|ی سنی �لعرب‘‘ بھی مرتب کی تھی۔ یہ آ�س پاس تالیف ہوئی۔ عربی تقویم میں کام۷۹۰’’زیج �عل ء کے

آ�نے و�لی �س زیج کو �ولین فلکیاتی جد �ول قر�ر دیا جا سکتا ہے۔ �یک �ور عالم یعقوب بن طارق بھی

سدھانت سے مستفید ہو�۔ �س نے ’’ترکیب �لافلاک‘‘ �ور ’’زیج نیز کتاب � للعل‘‘ تصنیف کی۔ �ن میں

�یر�نی �ور ہندی نظریات کا �متز�ج ملتا ہے۔ �لعز�ری �ور یعقوب �بن طارق کی یہ تصانیف سند ہند رو�یت کے

آ�ریہ بھٹ کے �یک �ور ترجمہ کو سمجھنے میں۸۰۰لئے بنیاد ثابت ہوئیں۔ ء کے قریب �بو �لحسن �لاھو�زی

کامیاب ہو� جس کو ’’ریج �لازجبہر‘‘ کے نام سے شہرت ملی لیکن یہ موجودہ وقت تک محفوظ نہیں رہ

ء ( کی بھی �س سے و�قفیت تھی۔۸۸۶پایا۔ �یسا بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ ’’�بو معشر‘‘ )

پہلوی سے ترجمے :۔ ( ۲ )

فلکیات پر ساسانیوں کی تصانیف یونانی �ور ہندی نظریات پر مبنی تھیں۔ ساسانیوں کی

|ی کا �یک ترجمہ تیسری فلکیات عربی تر�جم �ور �قتباسات کے ذریعہ �یر�ن پہنچی۔ پہلوی میں �لمجسط

آ�رد ر�تریکہ‘‘ سے متعلق �یک �ور کتاب آ�ریہ بھٹ کے دبستان ’’ ھ میں554صدی عیسوی میں موجود تھا۔

ئ میں بر�ہمیکثہ سے متعلق �یک �ور کتاب بھی دستیاب تھی۔ ’’زیج450دستیاب تھی۔ �س سے پہلے

�لشاہ‘‘ سے ماشاء �للہ نے بھی �ستفادہ کیا لیکن �س کے ترجمہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ �س کا

سوم کے عہد میں ضرور شائع ہو� جس کا عربی میں ترجمہ ’’زیج �لشاہ‘‘ �یک نظر ثانی شدہ نسخہ یزدجرد

کے عنو�ن سے ’’�لتمیمی‘‘ نے کیا۔ �لعرز�ری �ور �بو معشر نے �س سے فائدہ �ٹھایا۔ �بو ریحان �لبیرونی کے

زمانے میں بھی �س کے نسخے مروج و مستعمل تھے۔

Page 36: آئینۂ فلکیات

یونانی �ور سریانی سے ترجمے :۔ ( ۳)

( وہ سب سے �ہم تصنیف ہے جس کا یونانی سے ترجمہ کیا�Almajastieلمجسطی )

گیا۔ �س کی �صل کتاب �ور سریانی ترجمہ دونوں عربی میں منتقل کی گئیں۔ �س کا نام نویں صدی

عیسوی ’’�لحجاج‘‘ نے �نجام دیا۔ جن ماہرین فلکیات کو مامون �لرشید نے �پنے دربار میں جمع کیا تھا

�نہوں نے �س سے بہت �ستفادہ کیا۔ �س کا سب سے مستند ترجمہ ’’�سحاق بن حنین‘‘ نے کیا تھا �ور

یح �ور �صلاح کا کام۔۔ثابت بن قرۃ‘‘ نے �نجا م دیا تھا۔ نویں صدی عیسوی میں ہیح�س کی تص

(کے سہل جد �ول کے علاوہTheon (�ور تیون ) Hypothesesبطلیموس کے مفروضہ )

|ی‘‘ نامی مشہور و معروف مجموعے بھی عربی میں منتقل کئے جا چکے تھے۔ �ن کے ’’�لھدیۃ �لصغر

علاوہ یونانی �ور سریانی ماخذ پر مبنی متعدد رسائل بھی شائع ہوئے۔

�س طرح حاصل شدہ علم سنسکرت �ور پہلوی سے بے طرح متاثر تھا۔ نویں صدی کے بعد

مسلمانوں کا مرکز تصور بھی �س پر موقوف تھا۔

Page 37: آئینۂ فلکیات

(۵باب )

گاہیں رصد مشہور

آ�غاز پر منحصر ہے �نسانی عقل کے �رتقاء نے �جر�م علم �لافلاک کی بنیاد �نسانی زندگی کے

پید� کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئےسفلکی �ور کائنات کے پوشیدہ ر�زوں کو جاننے کا تجس

گاہوں کا �ہم گاہوں کی �یجاد کی دور حاضر میں علم �لافلاک کو فروغ دینے میں رصد �نسان نے رصد

گاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا �رتقاء رصد

آ�ج بھی مشاہد ے �ور تجر ے کئے جابگا۔دنیا کے �لگ �لگ خطوں میں تعمیر کردہ صدر گاہوں میں

رہے ہیں۔

گاہ بنانے کا کام ر�جا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی ہندوستان میں رصد

جنتر منتر کہتے ہیں جے سنگھ �پنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ �س نے گاہ کو تعمیر کردہ رصد

آ�ج بھی جنتریاں تیار کرنے رصد گاہ کی عمارت میں چند �لو�ح تیار کی تھیں۔ جن کا �ستعمال �ہل ہند

گاہ میں �یک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہو� ہے۔ یہ درجہ میں کرتے ہیں �س رصد

مل ہے۔ �س کے علاوہ �یک �ور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ د�رتسنگ مرمر کی محر�بوں پر مش و�ر

نصف د�ئرے کی شکل کی ہے یہ �ن �جر�م فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت

�لر�س کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف �لنہار میں سے ہو کر گزرتا ہے۔ دو� ور عمارتیں بھی قریب

Page 38: آئینۂ فلکیات

آ�دمی مشاہدے کر سکیں۔ ہی و�قع ہیں �ور �یک ہی مقصد کے تحت بنو�ئی گئی ہیں۔ تاکہ بیک وقت دو

�یک نصف د�ئرہ بھی بنا ہو� ہے جس میں نظام شمسی کے بعض معمولی �جر�م کی وضاحتںعلاوہ �زی

ء میں مغل بادشاہ محمد شاہ کے کہنے پر تعمیر کرو�یا گیا تھا۔۱۷۲۴گاہ کو کی گئی ہے۔ �س رصد

(متھر� )Bnaras (بنارس ) Ujjainر�جا جے سنگھ نے �یسی کئی رصد گاہیں �جین )

Mathuraجے پور) (Jaipurمیں بھی بنو�ئی تھیں۔ )

خلیفہ مامون عباسی وہ پہلا شخص تھا جس نے عرب میں رصد گاہ کی تعمیر کر�ئی مامون نے

|ی بن ھ میں �یک عظیم �لشان رصد۲۱۴بمقام شماسیہ ) شام ( میں گاہ قائم کی �س رصد گاہ میں یح

�بی �لمنصور، خالد بن عبد �لملک مروزی، سنہ بن علی عباس بن سعید جو ہری وغیرہ ماہرین فلکیات نے

آ�فتاب کے میل مقد�ر �ور دیگر مشاہد�ت �نجام دیئے �سی رصد گاہ میں زیج جدید بھی سیار�ت، حالات،

تیار ہوئی �س کے علاوہ خلیفہ مامون نے �یک رصد گاہ بغد�د میں بھی بنو�ئی۔ رصد گاہ میں ثابت بن قرہ

آ�فتاب کا مطالعہ کیا۔۹۰۱ تا ۸۳۶حر�نی نے ) ء ( حرکت

|ی بن شا کر کے۸۷۰ء تا ۸۵۰باب �لطاق میں �یک رصد گاہ تعمیر ہوئی جس میں ء تک موس

قند وغیرہ میں مرسنیشاپور �ور بیٹوں محمد، �حمد �ور حسین نے فلکیاتی مطالعہ کیا �سی صدی میں شیر�ز

آ�یا۔ و�ضح رہے کہ باقاعدہ رصد گاہوں کے �ستعمال کی �بتد�ء �یر�ن کے بھی رصد گاہوں کا قیام عمل میں

جنوب مغرب میں و�قع �یک مقام جنید شاہ پور میں ہوئی تھی۔

فاتمی خلیفہ �لعزیز نے قاہرہ میں �یک رصد گاہ قائم کی �سی رصد گاہ نے مصر میں فلکیاتی

مطالعے کی بنیاد ڈ�لی ماہر فلکیات �بن یونس نے �پنی �لزیج �لحا کمی �سی رصد گاہ میں تیار کی تھی۔

نیشا پور میں �یک رصد گاہ جلال �لدین ملک شاہ سلجونی نے بھی قائم کی تھی �س میں �لخز�ئنی نے

�پنی زیج سنجری تیار کی۔

Page 39: آئینۂ فلکیات

ء ( نے شرف �لدولہ کی قائم کردہ رصد گاہ میں �یک ہز�ر عیسوی میں۱۰۲۹ء تا �۹۷۱لجیلی )

آ�لات فلکیات بنانے میں �یک کتاب �صطرلاب پر تحریر کی �سی رصد گاہ میں �لصغانی �ور رستم �لکوہی

کافی مشہور ہوئے۔

آ�ر�ستہ کیا �س میں �بو�لحسن علی آ�لات رصد یہ سے �لحاکم �ور �لعزیز نے مقتم کی رصد گاہ کو

ء تک تجربات کئے۔ �بو �لحسن کو شیار �بن کنان �لجیلی نے بھی �یک رصد گاہ قائم۱۰۰۷ء تا ۹۷۷نے

کی جس میں �س نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج �لجامع‘‘ و�لسامع تصنیف کی۔

ء میں شرف �لدولہ نے شاہی باغ میں �یک رصد گاہ تعمیر کرو�ئی تھی۔ جس میں �بوسہل۹۸۸

ریحان بن رستم �لکوہی �ور �بو�لوفا نے عرصہ در�ز تک حرکات کو�کب سے متعلق مشاہد�ت کیے۔

�لبرونی نے �یک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کرو�ئی تھی �ور یہاں وہ مشاہد�ت �ور تجربات میں

ھ تک ہی غزنی میں رہا �س لئے �س کی تعمیر �س سنہ سے پہلے ہی۴۱۰مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ

ہوئی ہو گی۔ حالانکہ رصد گاہ کے مقام کے بارے میں ڈ�کٹر عبد �لحق �ور برنی کے بیچ �ختلاف ہے

ڈ�کٹر عبد �لحق نے مقام غزنہ �ور برنی نے جرجانیہ بتایا ہے۔ لیکن �لبرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے

کہ رصد گاہ غزنی میں و�قع تھی۔

ء میں یورپ کی پہلی رصد گاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مر�غہ۱۲۵۹

آ�ر�ستہ �یک رصد گاہ تعمیر کرو�ئی �س کے �ندر �یک لائبریری۱۲۵۹میں آ�لات رصدیہ سے ء میں بے بہا

بھی قائم کی گئی تھی جس میں چار لاکھ سے ز�ئد نادر کتابیں بھی موجود تھیں �س رصد گاہ سے فائدہ

قطب �لدین �ٹھا کر ہی خو�جہ ناصر �لدین طوسی نے �یک ’’زیج �یلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگرد

محمد شیر�زی نے بھی �س رصد گاہ میں مشاہد�ت �ور تجربات کیئے۔

Page 40: آئینۂ فلکیات

قند میں تیموری خاند�ن کے سلطان �لغیبگ نے �یک عظیم �لشان رصد گاہ تعمیر مرسء میں ۸۲۳

کر�ئی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ �س نے کئی سال تک رصد گاہ مذکورہ میں تجربات �ور

مشاہد�ت میں حصہ لیا۔

آ� چکا ہے جن کے ذریعہ �ن کے علاوہ بھی تمام دنیا میں ہز�روں رصد گاہوں کا قیام عمل میں

قدرت �ور کائنات کے ر�زوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ �نسان نے فلکیات میں جو ترقی

آ�نے و�لے وقت میں رصد گاہوں کے ذریعہ کی ہے �ن میں رصد گاہوں کی �ہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے

بہت سے نئے �نکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر

لال نہرو نے رصد گاہوں کی ضرورت �ور �ہمیت کو سمجھا �نہوں نے رصد گاہوں سے متعلق �عظم جو�ہر

یلہسں کی طرف کھنچنے کے وؤ�یک تقریر میں کہا تھا ’’ہماری رصد گاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلو

ہیں میں �ن رصد گاہوں کو �س نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو

سکتی ہیں بلکہ �ن کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو �نسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی

ہیں۔‘‘ �س میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ �ن رصد گاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو

آ�ج تک ہو رہے ہیں �ور مستقبل میں �یک حد تک حل بھی کیا ہے۔ تمام رصد گاہوں میں تحقیقی کام

بھی ہوتا رہے گا۔

(۶باب )

Page 41: آئینۂ فلکیات

(Solar System) شمسی نظام

آ�نے کے بارے میں دو نظریے بیان کئے جاتے ہیں۔ پہلے نظریہ کے نظام شمسی کے وجود میں

مطابق �ربوں سال پہلے کوئی تارہ سورج کے قریب ہو کر گزر� �ور �س سے ٹکر� گیا جس کے سبب سورج

کا �یک بڑ� حصہ ٹوٹ کر �لگ ہو گیا جو کہ کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد سور ج کے

�طر�ف گردش کر نے لگا۔ یہی ٹکڑے سیارے کہلائے۔

آ�ئی �یک دوسرے نظریہ کے مطابق نظام شمسی گیس و دھول کے �یک بڑے بادل سے وجود میں

ہے۔ �ربوں سال پہلے نظام شمسی گیس و دھول کے بادلوں کے روپ میں تھا۔ کشش ثقل کی وجہ سے

آ�نے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبےAtomگیس ودھول کے جو ہر ) (لاکھوں سالوں میں قریب

کی شکل میں جمع ہوتے گئے۔ پھر تبا �پنے محور کے گرد گردش کرنے لگا۔ بعد میں �س کے کئی

حصہ کئیفی صدٹکڑے ہو گئے۔ کل مادے کا نوے پرسینٹ حصہ مرکز پر جمع ہو گیا۔ بقیہ دس

جرموں میں ٹوٹ گیا �ور یہ �جر�م مرکز کے �طر�ف گردش کرنے لگے بیچ کے حصے کو سورج �ور �س کے

گرد گھومنے و�لے �جر�م کو سیارے کہا گیا۔

گرم ہونے لگا۔ �سی وجہ سے �س�ور کشش ثقل کی وجہ سے سورج سکڑنے لگا �ور پھر چھوٹا

میں نیوکلیر فیوژن ہونے لگا جس کے نتیجے میں سورج میں حدت و روشنی پید� ہونے لگی۔ دھیرے دھیرے

ء میں فر�نس کے ریاضی د�ں پیرے سائمن�۱۷۹۶س نے سارے نظام شمسی کو منور کر دیا یہ نظریہ

(نے دیا تھا۔ �سی نظریہ کو کچھ ترمیم کے بعد تسلیم کر لیاPieresimon leplasلیپلاس )

گیا ہے۔

نظام شمسی کے رکن �س طرح ہیں۔

Page 42: آئینۂ فلکیات

سورج ( ۱ )

Mercury (عطارA ) سیارے ( ۲ )

( Bزہر�) Venus

( Cزمین) Earth

( Dمریخ) Mars

( Eمشتری) Jupiter

( Fزحل) Saturn

( Gیورینس) Uranus

( Hنیپ چیون) Neptune

( Iپلوٹو) Pluto

( Jدسو�ں سیارہ یا دوسر� سورج)

( Kذیلی سیارہ قمر) moon

( L مجمعہ ستارگاں)

( Mشہاب ثاقب)

( N دمد�ر تارے) Comets

( Oشدرگرہ)

Page 43: آئینۂ فلکیات

کمیترکن کا نام

) زمین (

رکن کا قطر

) کلومیٹر (

�وسط

کثافت

) زمین (

سورج سے �وسط

فاصلہ

) کلومیٹر (

سطح پر

�وسط

تیش )

ºC )

سورج کے گرد

مد�ری حرکت کا

عرصہ

ذیلیمحوری گردش عرصہ

سیارے

0.0عطارد ( ۱) 25

4881.6

0.36

------گھنٹے 59دن18387.97- کروڑ58

0.8زہر� ( ۲) 15

12236

0.89

------گھنٹے 243دن460224.70کروڑ10.82

1.01275زمین ( ۳) 6

1گھنٹے 23.56دن10365.25کروڑ1.014.96

0.1مریخ ( ۴) 07

67630.70

-کروڑ22.858.5

2گھنٹے 24.37دن686.98

317مشتری ( ۵) .88

433200

0.24

16گھنٹے 9.55سال14011.86-کروڑ77.83

.95زحل ( ۶) 17

120000

0.13

22گھنٹے 10.40سال18029.46-کروڑ142.7

.14یورینس ( ۷) 60

51800

0.23

15گھنٹے 17.14سال22084.01- کروڑ287.11

.17نیچون ( ۸) 25

49500

0.29

8گھنٹے 18.30سال230164.79-کروڑ449.2

0.1پلوٹو ( ۹) 0

1گھنٹے 9.18دن6سال240248.43-کروڑ590.98-----3000

Page 44: آئینۂ فلکیات

(۷باب )

طشتری اڑن ( U.F.O. )

آ�رنالڈ ) ۱۹۴۷جون /۲۴منگل (نے �پنےKenneth Arnoldء ! �یک �مریکی کینیتھ

آ�سمان میں طشتریوں جیسی ۹ہو�ئی جہاز میں ’’ر�کی‘‘ پہاڑ کے �وپر سے �ڑ�ن بھری۔ �چانک �س نے

چیزیں دیکھیں۔ �ن میں تیز چمک �ور تیز رفتار تھی۔ �سی وقت �یک دوسرے �مریکی فریڈ جانسن )

Fred Johnsonآ�سمان میں تیز رفتار سے بھاگتی دیکھیں۔ �سی (نے بھی چھ چمکتی طشتریاں

|ی کیا کہ وہ �ڑن طشتری کو دیکھ طرح بہت سی خبریں ہر روز سنائی دینے لگیں۔ ہز�روں لوگوں نے دعو

|ی تھا کہ �نہوں نے �ڑن طشتریوں میں موجود دوسرے کسی سیارے کی مخلوق چکے ہیں۔ سیکڑوں کا دعو

|ی تھا کہ �نہوں نے لوگوں سے ملاقات بھی کی ہے۔ کو دیکھا ہے۔ �ور کچھ کا تو یہاں تک دعو

ا� حرکت �ن خبروں نے دنیا میں سن سنی پھیلا دی۔ تمام دنیا کے سائنسد�ں �ور �خبار نویس فور

آ� گئے۔ سائنسد�نوں کا گروہ �ن کی کھوج میں رو�نہ ہو� تو �خبار نویسوں نے چٹپٹی خبروں سے �خبار میں

رنگ ڈ�لے۔ بہت سے مصنف حضر�ت نے �نوکھی مخلوق کی خیالی کہانیاں لکھ ڈ�لیں۔ �تنا سب ہونے

آ�نا لازمی تھا۔ گورنمنٹ نے �س کی جانچ فضائیہ �فو�ج سے کے بعد �مریکی گورنمنٹ کا حرکت میں

آ�ئے۔ کل معاملوں کی12687کر�نے کا فیصلہ کیا۔ جب جانچ کی گئی تو حیرت �نگیز نتیجے سامنے

Page 45: آئینۂ فلکیات

آ�دھی �دھوری جانکاری ملنے کے سبب کوئی نتیجہ �خذ701تحقیقات کی گئی۔�ن میں معاملوں میں

ا ا� ء میں یہ۱۹۷۰نہیں کیا جا سکا۔ �س کے علاوہ زیادہ تر معاملے جھوٹے �ور بے بنیاد پائے گئے۔ مجبور

جانچ بند کر دی گئی۔

�ب یہ سو�ل �ٹھنا لازمی ہے کہ جب �ڑن طشتری دیکھے جانے کے پختہ ثبوت نہیں پائے گئے تو

آ�نکھوں کا دھوکا یا پھر کوئی خطرناک سازش؟ جب دنیا کے کئی حصوں آ�خر یہ سب تھا کیا؟ محض پھر

میں �ڑن طشتریاں دیکھنے کی رپورٹیں ملی ہیں تو پھر کوئی ثبوت کیوں نہ پایا جا سکا۔ کیا و�قعی �ڑن

آ�ئے خلائی طیارے ہی تھے۔ یا کچھ �ور؟ طشتریاں کسی دوسرے سیارے سے

وقت کے ساتھ یہ بات مان لی گئی کہ دکھائی دینے و�لی چیزیں حقیقت میں �ڑن طشتریاں نہیں

فیصدی معاملوں کو سائنسد�نوں نے شہاب ثاقب �ور۱۰تھیں۔ جانچ کے دور�ن صحیح پائے گئے

آ� کر جل �ٹھنا، بادل �ور ر�کیٹ یا خلائی طیاروں کے چھوڑے مصنوعی سیاروں کا زمین کی فضا میں

د�ر ٹھہر�یا۔ �ڑن طشتریوں کا نکار� جانا �س لئے بھی ممکن ہو� کیونکہ �نہ جانے سے بنے حالات کو ذم

ماہرین فلکیات نے �ن کو دیکھنے کی تصدیق نہیں کی جو ر�ت دن خلاء کے ر�زوں کو جاننے کی

کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نہ ہی کسی خلاء نورد نے �ن کے دیکھنے کی بات قبول کی ہے۔ تب یہ

سو�ل �ٹھتا ہے کہ �ڑن طشتریوں کے بارے میں �خبار �ور رسائل میں چھپی کہانیوں کو کیا سمجھا جائے۔

جھوٹ کا پلندہ۔ یا پھر حقیقت! �ن �خبار نویس �ور مصنفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں �س کا سبب

تھیں۔

ء میں چارلس فورڈ نے حیرت �نگیز و�قعات کو جوڑ کر �یک کتاب شائع کی۔ جس میں۱۹۳۱

آ�سمان میں جلتی آ�و�زوں �ور آ�سمان سے مچھلیوں �ور پتھروں کی بارش خوفناک �ور پوشیدہ ر�کھ کی بارش،

چمکتی چیزوں کے بارے میں مفر وضہ پیش کیا گیا تھا۔ �ن و�قعات کے پیچھے کسی دوسرے سیارے

آ�ئے خلا نوردوں کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی لوگوں نے �س کے �ندر کی باتوں کو سے

Page 46: آئینۂ فلکیات

�پنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔ دھیرے دھیرے �ڑن طشتریوں کی کہانیوں نے لوگوں کے دماغ میں �یسا �ثر

ڈ�لا کہ وہ �ن و�قعات کے رونما ہونے کا �نتظار کرنے لگے۔ جب �نسان کے خلاء میں پرو�ز کرنے کی

آ�یا ا� �یک خیال مصنفین کے دماغ میں آ�نے لگیں تو فور کہ جب زمین سے خلاء میں �نسان جا سکتا خبریں

آ� سکتے بس �سی خیال نے ہے تو دوسری دنیا ) یعنی کسی �ور سیارے ( کے لوگ یہاں کیوں نہیں

مصنفین کو �لٹی خلا نوردی کا پلاٹ تیار کرنے کا موقع فر�ہم کر دیا۔ چونکہ قدرت کی �ن سلجھی باتوں

پر مبنی کہانیاں کافی کشش رکھتی ہیں۔ �س لئے �ڑن طشتری پر لکھی گئی تمام کتابوں �ور کہانیوں نے

(نے قدیم زمانے میں دوسرے سیارےDenkinبہت شہرت حاصل کی۔ �یک جرمن مصنف ڈینکن )

آ�ئے لوگوں کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ بلکہ �نہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مصر کے سے

�ہر�م، کشمیر کا ’’مارتنڈ‘‘ مندر قطب مینار کے پاس کے لو ہے کا کھمبا وغیرہ �نہیں لوگوں نے بنائے ہیں۔

آ�یا تھا �ور �س میں کئی4600ا کچھ مصنف لکھتے ہیں کہ تقریبا سال قبل چین میں �یک خلائی طیارہ

میری‘‘ کا مجسمہ بھی در ’’مدر دوسرے سیارے کے �فر�د بھی تھے �ن کا کہنا ہے کہ جاپان میں نبی

(‘‘ میںPeruحقیقت �نھیں میں سے کسی فرد کا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’پیرو )

ملی کچھ جگہیں خلائی �سٹیشن کے طور پر �ستعمال ہو چکی ہیں۔ جو کہ �ب سیون ونڈرس میں شامل

ہے۔

آ�بجیکٹس )�U.F.Oمریکی فضائیہ نے جن یو �یف �و ) آ�ئڈ ینٹی فائیڈ فلائنگ . (یعنی �ن

Unidentified Flying Objectsکا مشاہدہ شروع کیا تھا وہ بھلے ہی حقیقت ثابت)

آ�ئی کہ �ڑن طشتریاں خلاء میں موجود �جر�مU.F.Oنہیں ہوئیں۔ لیکن .کے مشاہدے سے یہ بات سامنے

آ�ئی ہوئی کوئی چیز نہیں بلکہ نظروں کا دھوکہ تھیں۔ �پنی رپورٹ میں فضائیہ نے کہا کہ ہو فلکی سے

سکتا ہے یہ خلاء میں کئے جا رہے تجربوں کے دور�ن نکلنے و�لے گیس دھول کے بادل ہوں پھر بھی �نکے

صحیح ہونے کا �مکان �بھی بھی موجود ہے۔ میر� ماننا ہے کہ جب �نسان خلاء میں جا سکتا ہے چاند پر

Page 47: آئینۂ فلکیات

پہنچ سکتا ہے مریخ پر بھی جلد پہنچنا چاہتا ہے تو کیوں۔۔۔۔کسی باہری سیارے سے مخلوق زمین پر

آ� سکتی۔ �گر حقیقت میں کسی سیارے پر زندگی ہے �ور وہ �رتقائی تہذیب یافتہ ہے تو پھر کوئی نہیں

آ� کر �س بارے میں جاننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وجہ نہیں ہے کہ وہ ہماری زمین پر

آ�نا رہا ہی ہو� ور وہ بہت چالاکی سے �پنے نشانات مٹا قدیم زمانے سے کبھی کبھی یہاں �ڑن طشتریوں کا

کر و�پس لوٹ جاتے ہوں کہ �ن کی تصدیق ہی نہ کی جا سکے۔ کچھ لوگوں نے جو و�قعات �س سے

متعلق بیان کئیے ہیں وہ صحیح ہو بھی سکتے ہیں۔

.کے بارے میں �س طرح کے خیالات کی �یک �ور وجہ بھی ہے جسے بیان کرناU.F.Oمیرے

ضروری سمجھتا ہوں ، شام کے وقت �پنے شہر سنبھل کے �یک �ونچے ڈھلان پر چڑھ رہا تھا جو کہ محلہ

آ�سمان کی طرف �ٹھی تو میں کوٹ میں موجود ہے۔ سورج غروب ہونے کی تیاری میں تھا۔ میری نظر جب

ا یہ دیکھ کر حیر�ن رہ گیا کہ �یک فٹ لمبی �ور اا آ�گے کو تو 5-4تقریب �نچ چوڑی دودھیا چمک و�لی پٹی

رہی تھی۔ �س کی رفتار زیادہ نہیں تھی۔ آ� کبھی �وپر کو کبھی د�ئیں �ور کبھی بائیں چلتی ہوئی نظر

منٹ میں طے کر لیا تھا �سکے بعد �چانک وہ سمٹنی شروع ہوئی20-15لیکن پھر بھی �س نے کافی فاصلہ

کور حالت �ختیار کر کے غائب ہو گئی۔ �س و�قعہ کا گو�ہ میر� �یک دوست محمد فیضان بھی ہےو�ور چ

جو کہ �س وقت میرے ساتھ تھا۔ میں نے �س بات کی خبر �پنے خط میں کلکتہ نینی تال کی رصد گاہوں

.کلب کو بھی دی تھی۔ �نھوں نے �س بارے میں حالانکہ کوئیU.F.Oکے علاوہ دہلی یونیورسٹی میں

�ڑن طشتری کی طرح کی چیز رہی ہو گی۔ا جو�ب نہیں دیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ یقینا

آ�نے و�لا وقت ہی بتائے گا۔لیکن روز بروز مل �ڑن طشتریوں کے قصوں میں کتنی سچائی ہے یہ تو

رہی جانکاریوں کی مدد سے یہ مانا جانے لگا ہے کہ کسی نہ کسی �جر�م فلکی میں زندگی ضرور موجود

آ�ثار مل رہے ہیں سائنسد�ں �س بات کو ماننے لگے ہیں کہ �پنی فضا میں رہ ہے۔ مریخ پر زندگی کے

سکنے و�لی مخلوق دوسرے سیاروں میں بھی موجود ہے جو زمین تک پہنچنے کی کوشش یا تو کرتی رہی

Page 48: آئینۂ فلکیات

آ�نے و�لے وقت میں ہمار� �س سے سامنا ہونا طے ہے۔ بھلے ہی �ڑن طشتریاں ) آ�جU.F.Oہے یا ) .

آ�نے و�لے وقت میں یہ حقیقت بن کر ہماری فضا کی قدرتی مناظر نگاری کا سبب مانی جا رہی ہوں لیکن

آ�ئیں تو �س میں کچھ بھی حیر�ن کن نہیں ہو گا۔ ہمارے سامنے

Page 49: آئینۂ فلکیات

(۸باب )

ارتقاء و آاغاز سفر کا خلاء

زمین کی فضا جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے خلاء کی پر �سر�ر سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں �ور یہ

آ�غاز ااہر سمت میں نامعلوم فاصلے تک موجود ہیں۔ خلائی سفر کا سال قبل روس کے �سپوتنک )45 تقریب

Sputnik ( نامی خلائی طیارہ ) Space Craftکے ذریعہ ہو� تھا۔ )

آ�غاز فلکیات میں خلاء کا مشاہدہ رصد گاہوں کے ذریعہ ہی ہوتا رہا۔ جو کہ زمین پر بنائی گئیں

تھیں۔ لیکن یہاں سے مشاہدے میں بہت سی دقتوں کا سامنا تھا۔ �سی نے �نسان کو �حساس کر�یا کہ

ء میں روس نے �سپوتنک )�۱۹۵۷کتوبر /۱۴بہتر کام کے لئے خلاء میں پرو�ز �شد ضروری ہے۔ پھر

Sputnik-1کو خلاء میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی یہیں سے خلاء میں کھوج بین کا)

کو خلاء میں بھیجا۲کے ساتھ �سپوتنک۔ (نامی کتیاLicaسفر شروع ہو�۔ �یک ماہ بعد ہی لائیکا )

کھول دیا۔ گیا۔لائیکا کے صحیح سلامت و�پس لوٹنے نے �نسان کے خلاء میں جانے کے ر�ستے کو

فوٹو حاصل ہوئے �س سے جو ( Luna-lll ) ۳ء میں روسی لونا۔ �۱۹۵۹س کے بعد �کتوبر

دیکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ کے ذریعہ چاند ) قمر ( کے دور رہنے و�لے حصے کو پہلی بار

) کے پاس سے گزرتے ہوئے �سVenus (نے زہرہ ) Mariner-llء میں �مریکی میرینز ) ۱۹۶۲

Page 50: آئینۂ فلکیات

Marinerء میں میری نیئر۔ ) ۱۹۶۵کے درجہ حر�رت �ور گھومنے کی �لٹی سمت کا پتہ لگایا۔

lV) ۴ ( نے مریخMarsپر بنے گڈھوں کے بہت سے فوٹو گر�ف بھیجے۔)

�ب خلاء میں کھوج کا کام �پنے عروج کی طرف چل نکلا تھا۔ �پنی سابقہ کوششوں )

Missionsوں کے بعد ریموٹ سے کنٹرول ہونے و�لے مصنوعی سیارے بنا کری ( میں بہت سی تبدیل

)و�نہیں چاند، مریخ �ور زہرہ وغیرہ پر بھیجا گیا۔ �س نے سب سے زیادہ کامیاب مشن و�ئجر �یک �ور د

Voiger-l&llکا رہا جس نے بہت سے مفروضوں میں تبدیلی پید� کر کے �ن کو �صل حقیقت)

دیا۔ میں سامنے لا

۳ سال کا رہا جس میں �نسان کی خلاء میں پرو�ز صرف ۲۳ اشروعاتی زمانہ تقریبا خلاء کا

ءکو روسی�۱۹۶۱پریل /۱۲خلائی طیاروں کی پرو�ز مکمل ہوئی۔ 2400فیصدی ہی ہو سکی۔ �س بیچ تقریبا

( نے پہلی بار کسی �نسان کے طور پر خلاء میں پرو�ز کیYourigagrinخلاء نوردیوری گگرن )

ء میں روسی خلاء نوردوں نے پانچ دن تک خلاء میں پرو�ز کی �س مشن میں۱۹۶۳جون /�۱۶س کے بعد

ء میں دو۱۹۵۵ (نامی خاتون بھی شامل تھیں۔ Velentee Tershkovویلن تین تیرشکوب )

(خلائی طیاروں کی کامیابی سے �مریکہ نے روس کےGeminiآ�دمیوں کے بیٹھ سکنے و�لے جمینی )

ہاتھ سے فلکیاتی قیادت چھین لی۔

(کی کامیابی نے �نسان کو �یک �یسی کامیابی کی طرفMissionsمشنوں ) مندرجہ بالا

آ� رہی کہانیوں �ور رو�یتوں کو بدل ڈ�لا۔ یہ کامیابی تھی جون/۱۲متوجہ کیا جس نے قدیم زمانے سے چلی

آ�رم �سٹرونگ ) ۱۹۶۹ (کاNeil Arm Strongء کو چاند پر �نسان کا پہلا قدم۔ یہ قدم تھا نیل

(کے ذریعہ یہاں پہونچا تھا۔ �س مشن میں �ن کے ساتھ �یڈون �یلڈرن )Apolloجو �پولو )

Edwin Eldrinکر �نہوں نے جو تجربات کئے �ور وہاں سے (�ور کولنس بھی تھے۔ چاند پر پہونچ

لائی گئیں چیزوں سے زمین پر جو نتیجے �خذ کئے گئے �نہوں نے ہمارے پڑوسی سیاروں �ور خلاء کے

Page 51: آئینۂ فلکیات

۱۲پوشیدہ ر�زوں کے ساتھ ساتھ چاند کے بارے میں بھی بہت سی �ہم معلومات فر�ہم کیں۔ �ب تک

�مریکی چاند پر فتح حاصل کر چکے ہیں۔

چاند پر فتح کے بعد �ب �نسان کا �گلا ٹارگیٹ مریخ ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں جو دشو�ریاں ہیں

�ن کو دور کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ موجودہ حالت میں �گر مریخ کا سفر کیا جائے تو �س تک

�یک سال کا عرصہ لگ جائے گا۔ اپہنچنے میں تقریبا

(خلائی �سٹیشنوں نے زمین �ور دوسرے سیاروں کے�Mirمریکن �سکائی لیب �ور روسی میر )

ساتھ ساتھ خلاء کے بارے میں نئی مسلمہ معلومات فر�ہم کی ہیں۔ �ن �سٹیشنوں میں سائنسد�نوں نے بہت

آ�ر�م دہ بنانے کا کام جاری ہے۔ ساتھ ہی سے تجربے کئے ہیں۔ �ن تجربوں کی روشنی میں خلاء نوردی کو

. (پر بھی نشرT.Vخلاء میں کئے گئے سفر �ور تجربوں سے دنیا کو روبرو کرنے کے لئے �ب ٹی وی )

-کی پرو�ز کو سیدھے ٹی وہ پر نشر15ء کو سویوزٹی۱۹۸۶مارچ /۱۳کیا جانے لگا ہے۔ سب سے پہلے

کرنے کی کوشش کامیاب رہی۔

(’’ناسا ‘‘ نے بار بار �ستعمال ہو سکنے و�لا �یک �یسا�Nasaمریکی خلائی �یجینسی )

خلائی طیارہ تیار کیا ہے جو زیادہ لوگوں کو لے جا سکنے کے علاوہ عام طیاروں کی طرح ہی �ڑ�ن بھر

آ� سکتا تھا۔ سکتا ہے۔�ور سطح پر �تر سکتا ہے۔ و�ضح رہے �بھی تک خلائی طیارہ �یک مشن پر ہی کام

�ب مشن پر نئے خلائی طیارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔

(نامی جس خلائی تجربہ گاہ کو خلاء میں بھیجاMirء کو میر ) ۱۹۸۶فروری /۲۰روس نے

تھا وہ حال ہی میں و�پس بلایا جا چکا ہے۔ �س بیچ �س نے �پنے کام کو بہت �چھی طرح �نجام دیا۔

آ� سکتا تھا۔ لیکن روس کی معاشی حالت خر�ب ہو جانے کے سبب �ور �س حالانکہ یہ �ب بھی کافی کام

ء کو �مریکہ کو۱۹۸۶جنوری /۲۹میں بار بار تکنیکی خر�بیوں کا �بھرنا �س کے خاتمے کی وجہ بن گیا۔

Page 52: آئینۂ فلکیات

(خلاء میں ہی پھٹ گیا�Challengerیک بڑ� جھٹکا لگا جب �ن کا �یک شٹل یان چیلنجر )

�س حادثے میں چھ خلاء نوردوں �ور �یک �سکول ٹیچر کی موت ہو گئی۔ لیکن �س حادثے کے باوجود

روس سے �مریکہ کی خلائی جنگ بند نہیں ہوئی۔ �س نے �یک کے بعد �یک کئی خلائی مشنوں )

Missions ۱۹۸۹ ( میں کامیابی حاصل کی۔ ( ء میں نیپچونNeptuneکی کھوج خبر)

(کوYoulisisء میں یولیسس )۱۹۹۰ (سورج کی کھوج میں Discoveryکے لئے ڈسکوری )

ء سے مریخ کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کا کام۱۹۹۲رو�نہ کیا گیا تھا۔ �س کی کامیابی کے بعد �ب

شروع ہو چکا ہے۔

Page 53: آئینۂ فلکیات

(۹باب )

زندگی کی نوردوں خلاء

یہ سو�ل دماغ میں ضرور �لجھن پید� کر سکتا ہے کہ خلاء نورد �پنی پرو�ز کے دور�ن کیسا

محسوس کرتے ہیں ؟ خلاء نوردوں کی زندگی زمین کی زندگی سے بالکل �لگ ہے۔ پرو�ز سے پہلے �ن کو

جسمانی �ور ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ �ن پر کئی طرح کے تجربے بھی کئے جاتے ہیں۔

زمین کے مرکز �ور زمین سے خلاء میں نامعلوم فاصلے پر جانے سے چیزوں کا وزن صفر ہو جاتا

تیرنے جیسی حالت میں محسوس ہوتی ہے۔ �سی طرح جب خلاء نورد خلاء میں پرو�ز پر ہے۔ �ور وہ چیز

وزن صفر ہو جاتا ہے۔ �ور �س طرح وہ تیرنے جیسی حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی وہ ہوتے ہیں تو �ن کا

خلائی طیارے کے فرش یا دیو�روں سے ٹکر� جاتے ہیں تو کبھی چھت سے۔ �س طرح وہ خلاء میں جا کر

بڑی مصیبتوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

خلاء نورد پانی کو گلاس سے نہیں پی سکتے۔ کیونکہ پانی بھی �پنے وزن کو کھو چکا ہوتا ہے۔

پانی پینے کے لئے �یک خاص ترکیب �ستعمال کرنی پڑتی ہے۔ �یک سلینڈر میں پانی بھر کر �سے نلیوں کے

(�ور ٹونٹی کے ذریعہ یہ کام کیا جاتاPumpذریعہ منھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ نلی میں لگے پمپ )

Page 54: آئینۂ فلکیات

ہے۔ �س پانی کو زیادہ دن تک �ستعمال کرنے کے لئے بھی خاص ترکیب سے پانی کی حفاظت کی جاتی

ہے۔

(پہننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ خلاء میںSuitخلاء میں گھومنے کے لئے خاص طرح کا سوٹ )

آ�گے بڑھنے کے لئے پسٹل نما مشین کو �لٹی سمت میں د�غا جاتا ہے۔ خلاء نورد خود کو کسی سمت

رسی سے باندھ کر طیارے سے جڑے رہتے ہیں۔

خلاء نوردوں کو کھانے کی پریشانی سے بچانے کے لئے بھی کئی ترکیبوں کا �ستعمال کیا جاتا

(کی طرح بھر لیا جاتا ہے۔ �ور جب ضرورت ہوتی ہے ٹیوبPestہے۔ کھانے کو ٹیوبوں میں پیسٹ )

کا منھ �پنے منھ میں لے کر ٹیوب کے سرے کو دبایا جاتا ہے۔ جس سے کھانا منھ میں پہنچ جاتا ہے۔

�لگ �لگ کئی طرح کے کھانے ٹیوب میں بھر کر لے جائے جاتے ہیں تاکہ مزہ کی یکسانیت سے بوریت

نہ ہو۔

خلاء میں ر�ت دن �ور موسم کا کوئی پتہ نہیں چلتا ہے۔ چونکہ خلاء میں روشنی کا پرکیرن نہیں

آ�تا ہے۔ خلاء نوردوں کو گرمی �ور سردی ہوتا ہے۔ �س لئے سورج چمکنے کے باوجود وہاں گھنا �ندھیر� نظر

سے بچاؤ کے لئے خلائی طیارے کا درجہ حر�رت کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔

(نیند، دل �ور ہڈی وغیرہ کےMotion Sicknessخلاء نوردوں کو موشن سکنیس )

�مر�ض کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ �سطرح یہ �ند�زہ مشکل نہیں کہ خلائی سفر جتنا پر کشش �ور

آ�تا ہے حقیقت میں �تنا ہی خطرناک �ور دشو�ر بھی ہے۔ خوبصورت نظر

Page 55: آئینۂ فلکیات

( ۱۰باب )

فلکیات ماہرین مشہور چند کے عرب

الفرغانی کثیر احمد( ۱)

فنون کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ �سی دور میں �بو �سلامی تاریخ میں علوم و مامون رشید کا دور

پر ہی حاصل عباس �حمد بن محمد کثیر ترکستان کے شہر فرغانہ میں پید� ہوئے تھے۔ �بتد�ئی تعلیم گھر

فنون کی بعد میں بغد�د کا رخ کیا۔ یہاں �نہوں نے بہت سے �ساتذہ سے ر�بطہ قائم کیا �ور کئی علوم و

کی تعلیم حاصل کی۔ �سی جگہ وہ �پنی صلاحیتوں کے باعث مشہور سائنسد�ں کہلانے لگے۔

آ�ز�د رہ کر مامون رشید علم و فن سے بڑ� شغف رکھتا تھا �ور �ہل علم کو معاشی فکروں سے

آ�ز�دی دیتا تھا �س نے فرغانی کو بھی �پنے علماء کے حلقہ میں شامل کر لیا۔ تحقیق و مشاہدہ کرنے کی

�ور �ن کے حو�لے زمین کے محیط کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کرنے کا کام کیا �حمد کثیر �لفرغانی نے زمین

میل سے کچھ ہی ز�ئد ہے۔ �لفرغانی نے سب سے24858میل بتائی جو کہ مسلمہ محیط25009کی محیط

کام زمین کی محیط کی پیمائش کا کیا جو �س وقت کے لحاظ سے بہت �ہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ بڑ�

آ�لات موجود نہیں تھے۔ �س نے �یک دھوپ گھڑی بھی �یجاد کی تھی۔ آ�ج کے سے �س وقت

Page 56: آئینۂ فلکیات

ء میں مانا جاتا ہے۔�۹۰۳س عظیم ماہر فلکیات جغر�فیہ د�ں کا �نتقال

بوزجانی الوفا ( ابو۲)

ء میں ہر�ت �ور نیشا پور کے قریب �یک گاؤں بوزجان میں پید� ہوئے تھے۔ وہ�۹۴۰بو �لوفابوز جانی

تعلیم یافتہ گھر�نے سے تعلق رکھتے تھے۔ �ور �نہیں پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ �بتد�ئی تعلم �پنے

آ� کر وہ �بو |ی تعلیم کے حصول کے لئے وہ بغد�د چلے گئے یہاں ماموں سے حاصل کرنے کے بعد �عل

|ی �بن کرب کے شاگرد بن گئے۔ دونوں ہی �ساتذہ مشہور ماہرین فلکیات میں سے |ی ماوردی �ور �بو �عل یح

|ی تعلیم کا نصاب مکمل کیا۔ �ور پھر مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہو تھے۔ �س نے �ن کی زیر نگر�نی �عل

گئے۔

ریاضی �ور فلکیات میں بوزجانی نے �پنی ذہانت و محنت کی بنا پر بہت جلد مہارت حاصل کر

آ�ز�د کر کے لی �ور ماہر فلکیات کے طور پر مشہور ہو گئے �نہیں �س وقت کے حکمر�ن نے فکر معاش سے

|ی مقرر کیا گیا۔ وظیفہ مقرر کر دیا ساتھ ہی �ن کو بغد�د کی شاہی رصد گاہ کا ناظم �عل

�بو �لوفابوز جانی نے چاند کی مختلف حرکات کا مشاہدہ کیا �ور �یک حرکت دریافت کی �نہوں

نے چاند کی گردش �ور سورج کی گردش �ور سورج کی کشش کو ثابت کیا۔ �نہوں نے یہ بھی بتایا کہ

سورج کی کشش سے چاند کی گردش میں خلل پڑتا ہے۔ �س کو چاند کا گھٹنا �ور بڑھنا بھی کہا جاتا

ہے۔

Page 57: آئینۂ فلکیات

کے علاوہ بھی دوسرے کئی موضوعات پر کتابیں لکھیں �نہوں نےئتبوز جانی نے ریاضی �ور ہی

کئی یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ’’کتاب ہندسہ‘‘ ، ’’علم �لحساب‘‘ �ن کی مشہور تصانیف

ہیں۔

ء میں ہو� تھا۔ �یسے عظیم سائنسد�ں۱۰۱۱کئی علوم وفنون کے ماہر �بو �لوفابوز جانی کا �نتقال

کو بھلا کون �ور کیونکر بھلا سکتا ہے۔

ادریسی ( محمد ۳)

ء میں �دریسی عندلس کے مشہور شہر سبتہ میں پید� ہوئے تھے۔ یہ شہر چارسو سال پہلے۱۰۹۹

|ی �بن نصیر نے �سے �سپینیوں سے چھین کر �سلامی حدود میں �یک فوجی قلعہ تھا۔ مشہور سپہ سالار موس

ریسی نے �بتد�ئی تعلیم گھر پر حاصل کی �وردد�خل کیا تھا �ور تبھی سے �س شہر کی بڑی �ہمیت تھی۔ �

سال کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے قرطبہ کا رخ کیا۔ قرطبہ پہنچ کر �دریسی نے ماہرین۱۶

فنون کی تعلیم حاصل کی فلسفہ ریاضی، جغر�فیہ �ور علم فلکیات میں �سے دسترس سے مختلف علوم و

حاصل ہوئی۔

(پہنچا۔Saqliah (دوم کے دور میں صقلیہ ) �Rajaras-2دریسی بادشاہ ر�جرس )

جہا ں �س کا شاند�ر خیر مقدم کیا گیا۔ بادشاہ نے �س کا وظیفہ طے کر دیا �ور �سے تجربات و مشاہد�ت

میں لگے رہنے کی �جازت دے دی۔ �س نے علم جغر�فیہ کی نہایت جامع �ور مفید کتاب تیار کی۔ �س

آافاق‘‘ رکھا۔ �س نے ’’رؤض �لانس ونزہت �لنفس‘‘ نامی کا نام �دریسی نے ’’نزہت �لمشتاق فی �حتر�ق �ل

�یک کتاب فلکیات �ور جغر�فیہ کے موضوع پر لکھی۔ �دریسی نے طب �ور جغر�فیہ کو با قاعدہ مدون کیا۔

Page 58: آئینۂ فلکیات

�س نے سب سے پہلے دنیا کے گول ہونے کی بات دنیا کے سامنے رکھی۔ دنیا کا �یک گول مٹول ماڈل

تیار کیا جو چاندی کا بنا تھا جس میں دنیا کے ممالک کو صحیح جگہ پر دکھایا گیا تھا۔

ء میں جغر�فیہ فلکیات �ور طب وغیرہ پر �ہم خدمات �ور کارنامے �نجام دیتے ہوئے محمد۱۱۶۵

�دریسی نے �س د�رفانی سے رخصت پائی۔ �دریسی سریانی، یونانی، فارسی، لاطینی ، عربی �ور بربری کے

ساتھ کئی دوسری زبانوں میں بھی مہارت رکھتا تھا۔

البیرونی احمد ابن محمد ریحان ( ابو ۴)

ریحان محمد �بن �حمد �لبیرونی نہ صرف یہ کہ �پنے زمانے کی ممتاز شخصیتوں میں سے �یک �بو

تھا بلکہ در حقیقت دنیا کے �ن چند ذہین �نسانوں میں سے �یک تھا۔ جنھوں نے علم کے مختلف شعبوں

ء تک کا زمانہ روشن۱۱۰۰ء سے ۹۰۰میں �پنی ذہانت سے تاریخ میں �یک مقام بنا لیا۔ �سلامی تاریخ میں

خیالی �ور سائنسی ترقی کے لئے مشہور ہے۔ �لبیرونی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ �س دور میں پید� ہو�

جبکہ عرب میں ترقی �پنے عروج پر تھی۔ عرب د�نشوروں نے جو کچھ کارنامے �نجام دیئے �لبیرونی نے �س

زمانے کے کثیر تعد�د میں بکھرے ہوئے �ن خیالات کو �کھٹا کر کے سائنسی زبان �ور لہجہ عطا کیا۔ �ور

�ن کو �یک سائنٹفک قطعیت دی۔ �لبیرونی نے �پنے تجرباتی ذہن کا �ستعمال کیا �ور ر�ئج خیالات �ور

نظریات کی �نبار سے سچائی کو ڈھونڈ نکالا۔

Page 59: آئینۂ فلکیات

ء بروز جمعر�ت کو کاث ) خو�رزم ( میں پید� ہو� تھا۔ کاش �س وقت۹۷۳ستمبر /�۴لبیرونی

خو�رزم کا د�ر�لخلافہ تھا �ور �ب خیو� کے نام سے �زبکستان میں و�قع ہے۔�س کے و�لد کا نام �حمد تھا۔

�لبیرونی کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا۔ �س سانحہ نے �لبیرونی کی زندگی کو نئی ر�ہ دکھائی �ور �س کو

خود کفیل �ور خود مختار بنانے میں �ہم رول �د� کیا۔ �لبیرونی کا کہنا تھا کہ ہر گروہ �ور ہر مذہبی فرقہ �س

وقت تک �سے عزیز ہے جب تک کہ وہ علم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ �لبیرونی شیعہ مسلمان تھا۔ یہ تو پتہ

نہیں لگتا کہ مذہبی رسوم کا وہ کہاں تک پابند تھا لیکن وہ کسی مذہب کے خلاف نہ تھا۔

علم کے حصول کے لئے �س نے شادی نہیں کی �ور حصول علم کے لیے وہ جگہ جگہ بھٹکا

ر� جو �س د�ئرہ �لنظر سے پرے تھیں مگر �یک بارزکرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی �ن دیکھی ر�ہوں سے بھی گ

قدم �ٹھا لینے کے بعد �س نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کتابوں کا سرمایہ جہاں کہیں سے بھی دستیاب

ہو� �س نے حاصل کرنے کی سعی کی۔

آ�ثار �لباقیہ‘‘ میں �پنے �ستادوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام ہیں �بو�لنصر �لبیرونی نے �پنی کتاب ’’

منصوری بن علی �ور محمود بن �سحاق۔ �لبیرونی کے تیسرے �ستاد کا نام عبد �لصمد �ول بن عبد �لصمد

تھا۔ ’’کتاب �لہند‘‘ میں �لبیرونی نے �پنے �یک �ور �ستاد کا تعارف کر�یا ہے جن کا نام �بو سہل عبد

�لمنعم �بن علی �بن نوح �لطفلی تھا۔ کئی دیگر �ستاد بھی �لبیرونی کے گذرے ہیں جن کے بارے میں

معلومات زیادہ تفصیلی نہیں ملتی ہے۔ �لبیرونی کا زیادہ تر علم �س کی خود کی کاوشوں �ور تجربوں کا

نتیجہ تھا۔

�لبیرونی ہفت زبان تھا۔ �سے فارسی، عربی، ترکی، خو�رزمی �ور سنسکرت میں عبور حاصل تھا

لیکن عبر�نی، سریانی وغیرہ سے بھی �س کی و�قفیت تھی نیز یہ کہ ماہرین کا قیاس ہے کہ وہ یونانی زبان

بھی �چھی طرح لکھ پڑھ سکتا تھا۔

Page 60: آئینۂ فلکیات

نویس قلم کار تھا۔ لکھنا ہی �س کی زندگی کا سب سے عظیم مقصد تھا۔ �یک �لبیرونی �یک پر

ی وزن �یک �ونٹ بھر تھا۔ یا قوت کا بیان ہے کہ �س نےع�ند�ز ے کے مطابق �س کی تحریروں کا مجمو

�لبیرونی کے کام کی تفصیلی فہرست خود بہت گھنی عبارت میں ساٹھ صفحوں پر مشتمل دیکھی ہے

ہز�ر �ور�ق پر پھیل جائیں گی۔18قیاس کیا جا تا ہے کہ �لبیرونی کی تمام تخلیقات جمع کر لی جائیں تو یہ

صفحوں پر مشتمل ہونگے۔�س طرح6987 ا�یسی کتابیں �ور رسائل ہیں جو تقریبا70تخلیقات میں �183ن

صفحوں پر مشتمل ہو گی۔ سب سے چھوٹا رسالہ ’’مقالہ فی�100ند�زہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر کتاب

طبیعی ر�ئے بطلیموس فی �لسلخد�‘‘ صرف سات �ور�ق پر مشتمل ہے جبکہ سب سے ضخیم کتاب

�ور�ق پر مشتمل ہے جبکہ یہ بھی �ہم بات ہے کہ �ن1250’’�لمسائل �لمفیدۃ و�لجو�باۃ �لسدیدۃ‘‘

آ�ثار70 تخلیقات میں بہت سی دیگر �ور ضخیم کتابیں شامل نہیں ہیں جیسے ’’�لقانون �لمسودی‘‘، ’’

آ�خر نامکمل تخلیق ’’کتاب �لسیدنا‘‘۔ �لباقیہ‘‘ کتاب �لجماہر‘‘ �ور �س کی

�لبیرونی نے خود �پنی تخلیقات کی �یک فہرست کتابی شکل میں پیش کی تھی جس کا عنو�ن

حصوں میں بانٹا گیا تھا۔۱۳تصنیفات کو 114’’رسالۃ فی فہرست محمد بن زکریا �لر�ضی‘‘ تھا۔ �س میں

اا کتابوں میں علم فلکیات سے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ نئی دریافتوں نے38مشتمل پانچ باب پرتقریب

شمار۱۸۳ �س فہرست کے بعد تخلیق کی گئی �لبیرونی کی کتب کو شامل کر کے �س کی کل کتب

کے قلمی نسخے دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔ �ن میں۴۱ کتب میں سے ۱۸۳کی ہیں۔ �ن

کتابیں مکمل طور پر �ور پانچ جزوی طور پر تدوین کی گئی ہیں۔ �ن میں ’’کتاب �لسیدنا‘‘،۲۳سے

آاثار �لباقیہ، عن �لقرون �لخالیہ ’’کتاب �لتفہیم‘‘‘ لی �ول صنعت �لتبجیم۔ کتاب �لہند، �لقانون �لمسودی، �ل

آ�نی �قتباسات پر مشتمل یہ کتاب �ب موجود رسالہ تجریت �لشعات، کتاب �لتحدید، لو�زم �ل حرکتیں ) قر

نہیں ہے۔ ( کتاب �لمجاہر فی معارفات �ل جو�ہر، کتاب �لاستور، تذکرہ فی �لمسافات فی �لمسافر �لمقوی

وغیر ہم ہیں۔

Page 61: آئینۂ فلکیات

�لبیرونی کے کام کا طریقہ تقابلی طریقہ تھا وہ نہ تو فلسفیانہ �ستنحر�حیت کو پسند کرتا تھا �ور نہ

پہنچنے کے لئے وہ �یک با �صول طریقہ �ستعمال کرتا ہی منطق �ستفر�ئیت کو۔ �یک �طمینان بخش نتیجہ پر

تھا۔ �لبیرونی لوگوں کے خیالات جاننے کے لئے �ن سے طرح طرح کے سو�لات کرتا تھا جس سے بعض

مسائل کے سمجھنے �ور �ن کے �حاطہ کرنے میں مدد ملتی تھی۔ �س کی کتابوں میں طویل �قتباسات

ملنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں �ور �پنے خبر ر سانوں کی باتوں کو غور سے سنتا تھا �و ر �نھیں نقل بھی

کر لیتا تھا۔

آ�زمائی کی۔ �س نے بہت سے علوم پر �پنی مختصر یہ کہ �لبیرونی نے علم کے ہر شعبے میں طبع

آ�ثار قدیمہ علم �لارض، نجوم، �لکیمیا وغیرہ پر �س نے قلم کا جادو بکھیر�۔ علم فلکیات، ریاضی، جغر�فیہ،

کافی کچھ لکھا۔ �لبیرونی نے �یک طویل عمر پائی �ور وہ �یک صدی کا تین چوتھائی حصہ صحت مند

ء بروز �تو�ر کو غزنہ میں �نتقال ہو گیا۔۱۰۴۸دسمبر /۱۳زندگی کے ساتھ حیات رہا

Page 62: آئینۂ فلکیات

قزدینی محمد ابن ( زکریا ۵)

ء میں ذکریا بن۱۲۰۳ہارون رشید کے بسائے شہروں میں سے �یک قزدین بھی ہے۔ �سی شہر میں

کریا بن محمد قزدینی زمحمد قزدینی پید� ہوئے۔ �ن کے و�لد محمد یہاں کی �یک مسجد کے �مام تھے۔

آ�ن نے بچپن میں ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ کائنات کے �سر�ر معلوم کرنے کی کوشش کرے گا �س نے قر

نے تمام دینی حفظ کیا تفسیر، فقہ صرف، �لنحو، �ور عروض میں مہارت حاصل کی �ور �س کے بعد �س

علوم بھی حاصل کئے۔ �ب �س نے فلکیات کی طرف رخ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ زمین کے �ندر �ور �وپر کے

سیاحت میں گز�رے �یر�ن کے متعدد تمام پوشیدہ ر�زوں سے وہ پردہ ہٹا دے۔ قزدینی نے دس سال سیر و

علاقے �فغانستان، ترلی خو�رزم وغیرہ کی سیر کی۔ جب وہ و�پس گھر لوٹا تو �س کے و�لد کا �نتقال ہو چکا

تھا۔

آ�ثار �لبلاد و �خبار قزدینی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں عجائب �لبلد�ن، صورۃ�لارض،

�لعباد �ور عجائب �لمخلوقات و غر�ئب �لموجود�ت بہت �ہم ہیں۔ �لموجود�ت جب مکمل ہوئی تو طلبہ �ور

آ�سان �ور عام فہم زبان میں لکھی گئی تھی کہٹ�ساتذہ �س کتاب پر وٹ پڑے تھے۔ یہ کتاب �س قدر

عو�م بھی �س کو پڑھتے تھے۔ بلکہ ناخو�ندہ لوگ بھی دوسروں سے پڑھو� کر سنا کرتے تھے۔

قزدینی نے زمین کی صورت کے گول ہونے �ور �س کے گردش کرنے کا �نکشاف کیا �نہوں نے

بتایا کہ زمین محوری گردش کرتے ہوئے سورج کے �طر�ف بھی گھوم رہی ہے۔ �ور �سی سے موسم بدلتے

ہیں۔ قزدینی کا کہنا تھا کہ چاند زمین کے �طر�ف چکر لگاتا ہے۔ �ن کا خیال تھا کہ سورج بھی ساکت

Page 63: آئینۂ فلکیات

آ�تا آ�سمان �پنے ستاروں کے ساتھ شمالی حصے میں جیسا نظر نہیں ہے۔ �س نے یہ بھی نظریہ پیش کیا کہ

ہے جنوبی حصے میں ویسا نہیں ہے۔

ء میں ہو� تھا۔�۱۲۸۳س عظیم سائنسد�ں کا �نتقال

خازنی الرحمن ( عبد ۶)

بارہویں صدی عیسوی میں منصور نامی شخص کے یہاں �یک بچہ پید� ہو� جس کا نام عبد

�لرحمن رکھا گیا۔ بچپن میں ہی �س کے باپ کا �نتقال ہو گیا تھا۔ باپ کے چند د ن کے بعد �س کی

ماں بھی چل بسی تب �س کی پرورش علی مردزی خان نے کی۔ عبد �لرحمن نے عربی، یونانی، فارسی

زبانوں میں مہارت حاصل کی �ور �پنے دور میں ر�ئج کئی دوسرے علوم بھی سیکھے۔

(قائم کی تاکہ فلکیات�Observatoryیک پہاڑ کی چوٹی پر �س نے �یک رصد گاہ )

کے سلسلے میں �ہم معلومات حاصل کی جا سکیں وہ �پنے مشاہد �ت و تجربات تحریر کرتا جاتا تھا �س

طرح �س نے ’’ سنجر کی معتبر جنتری ‘‘ تیار کی۔ قدیم علم فلکیات میں �س سے بڑی مدد لی گئی۔

نے تو �س کے ذریعہ تاریخ فلکیات پر �یک کتاب لکھ دی۔ �ٹلی کے �یک مشہور سائنسد�ں فلکینو

عبد �لرحمن نے �نکشاف کیا کہ کسی چیز کا وزن سطح زمیں پر جتنا ہوتا ہے وہ ہو� میں �س سے

کم ہو جاتا ہے۔ �س طرح ہر چیز کا وزن پانی میں کم ہو جاتا ہے۔ �س نے یہ بھی �نکشاف کیا کہ زمین

کے چاروں طرف ہو� کا غلاف �س لئے ہے کیونکہ زمین �س کو �پنی طرف کھنچتی ہے۔ چنانچہ زمین سے

جتنا �وپر ہوتے جاتے ہیں ہو� بھی کم ہوتی جاتی ہے۔

Page 64: آئینۂ فلکیات

چونکہ عبد �لرحمن کی کتابیں دستیاب نہیں صرف تاریخی حو�لے ملتے ہیں۔ �س لئے �ن کی

تاریخ پید�ئش �ور وفات کی تاریخوں کا صحیح تعین کرنا مشکل ہے۔

Page 65: آئینۂ فلکیات

کتابیات

آ�ف �سلام جلد نمبر ( ۱) (1980پنجاب یونیورسٹی لاہور ) �14/1نسائیکلوپیڈیا

(1997قومی کونسل بر�ئے فروغ �ردو دہلی ) �lllردو �نسائکلو پیڈیا جلد ( ۲)

(�1992لمامون �ز شبلی نعمانی د�ر �لمصنفین �عظم گڑھ ) ( ۳)

آ�ن کا نظریہ کائنات �ز عبد �لمغنی، مرکزی مکتبہ �سلامی دہلی ) ( ۴) (1993قر

(1985علم جغر�فیہ میں عربوں کا حصہ �ز سید �ظہر عابدی ) ناشر مصنف (۵)

(�2000لبیرونی کے جغر�فیائی نظریات �ز ڈ�کٹر حسن عسکری کاظمی ) ترقی �ردو بیورو دہلی ( ۶)

آ�ن سائنس �ور نجوم �ز ڈ�کٹر محمد �یوب تاجی ) محمد شکیل و نفیس �حمد بک سیلر ( ۷) ( 2000قر

�چھا ساتھی ماہنامہ سرکڑھ بجنور ) سائنس نمبر ( ( ۸)

آ�ن �ور علم �لافلاک �ز پروفیسر کمال �لدین حسین ہمد�نی ) رنگ محل پبلی کیشن مظفر نگر ( ۹) قر

1987)

آ�ن �ور سائنس �ز پروفیسر محمد نجات �للہ صدیقی مرکزی مکتبہ �سلامی دہلی ( ۱۰) قر

(1983جیت لال ) ناشر مصنف �ندر ہمارے سائنسد�ں �ز ( ۱۱)

ماہنامہ ’’�منگ‘ ) مختلف شمارے ( �ردو �کادمی دہلی ( ۱۲)

Page 66: آئینۂ فلکیات

آ�ن �ور سائنس �ز مورس ( ۱۳) بوکایئے مترجم ثناء �لحق صدیقی ) کریسنٹ پبلشنگ کمپنی دہلی بائبل قر

1983)

آ�یات �ور سائنسی حقائق �ز ڈ�کٹر ہلوک نور باقی مترجم سید محمد فیروز شاہ گیلانی عہد �نٹر ( ۱۴) آ�ن قر

(1997پر�ئزز دہلی )

�ردو سائنس، ماہنامہ ) مختلف شمارے ( نئی دہلی ( ۱۵)

(�1993لبیرونی کا ہندوستان مرتبہ قیام �لدین �حمد، نیشنل بک ٹرسٹ دہلی ) ( ۱۶)

|ی حضرت �مام �حمد رضا فاضل بریلوی ) رضا �کیڈمی بمبئی ( ۱۷) فوز مبین در رد حرکت زمین �ز �عل

1997)

18. वि�जञा�न परगवि (�जञा�विनक और औदयो�विगक अन�स�धा�न, नई द�हली�), पवि�क�, वि�भि�नन अ�क

***

مصنف کا شکریہ جنہوں نے فائل کی فر�ہمی کی

�ن پیج سے تبدیلی، تدوین �ور پروف ریڈنگ، �ی بک کی تشکیل: �عجاز عبید

آ�ئی فاسٹ نیٹ ڈ�ٹ کام �ور کتب ڈ�ٹ آ�رگ، کتابیں ڈ�ٹ فری ڈ�ٹ کام کی�250ردو لائبریری ڈ�ٹ

مشترکہ پیشکش

Page 67: آئینۂ فلکیات

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com