137
ہ ت س را کا ن را ق: ار اَ ر م مّ رُ خ د ردہ: ک اری ج ن! ش# ی ن ر& ٹ( ن ا ب ل ک ران ا ف ل ب# ی ت ر ت اول: اب بر سف ی کا گ د ب ر7 ب ق# ی ق ح دہ ب دی ر ی و اب ل ار7 ےD ہ رF ظ ت( من ی کL ب ا ا# ی ت ی دO ئ ت10 ے؟D ہ ا# ی ک ن را ق11 ب مF ظ ع و ب م ح ر شاب ح ے ب12 ں# ی& نور رکاو ا راب ظ خ13 لاوب ب15

قرآن کا راستہ از _خرم مراد

Embed Size (px)

Citation preview

Page 1: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کا راستہ قرررااز: ررم م دخ�لفاران کلب انٹر نیشنجاری کردہ:

ترتیبباب اول: زندگی کا سفر 7ازلی و ابدی زندہ حقیقت 7

آاپ کی منتظر ہے نئی دنیا 10آان کیا ہے؟ قر 11

بے حساب رحمت و عظمت 12�طرات اور رکاوٹیں 13تلاوت 15

باب دوم: بنیادی شرائط 18ایمان: �دا کا کلام 18نیت کا ا�لاص 20

شکر اور حمد کی کیفیت 23قبولیت اور بھروسا 25اطاعت اور تبدیلی 27

رکاوٹیں اور مشکلات 27اعتماد اور بھروسا 29

Page 2: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

31 اپنے قلب کی شرکتباب سوم:قلب کیا ہے؟ 31قلبی دا�لی کیفیات 32

شعور کی حالتیں 33آانی معیار دا�لی شرکت کا قر 33اللہ حاضروناظر ہے 34

اللہ سے سننا 37ہہ راست �طاب اللہ کا برا 38

آاپ کے لئے ہر لفظ 39اللہ سے بات چیت 39

اللہ کے انعامات کی امید اور بھروسا 40قلب اور بدن کے افعال 41

آاپ کے دل کا رد عمل 42آاپ کی زبان کا رد عمل 43آانسو آانکھوں میں آاپ کی 45آاپ کے جسم کا انداز 46ترتیل کے ساتھ تلاوت 47

تزکیہ نفس 48دعا 49اللہ کی حفاطت 50آان کی برکات کی طلب قر 51عمومی دعائیں 52سمجھ کر پڑھنا 53

آاداب باب چہارم: تلاوت کے 55کتنی مرتبہ پڑھیں؟ 55کتنا پڑھا جائے؟ 55کب پڑھا جائے؟ 57

Page 3: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

صحت کے ساتھ تلاوت 58اات حسن قر 59توجہ سے سننا 59

آان �تم قر 61آان حفظ قر 62

باب پنجم:مطالعہ و فہم 64اہمیت و ضرورت 64

ذاتی مطالعہ 65مطالعہ کے �لاف استدلال 66آان کا زور قر 68دور اول کا طریقہ 69

ذاتی مطالعہ میں اندیشے 70فہم کے درجات 72

تذکر 72تدبر 73آاپ کے مقاصد 74

فہم کی سطحیں اور شکلیں 75بنیادی شرائط 75

عربی 75آان پڑھنا پورا قر 76تفاسیر کا مطالعہ 77

منتخب حصوں کا مطالعہ 78با ر بار پڑھنا 79متلاشی ذہن 80

مطالعہ کے معاونات 81مطالعہ کیسے کریں؟ 82معنی کیسے سمجھیں؟ 84

Page 4: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

عمومی اصول 84زندہ حقیقت کے طور پر سمجھئے 84کل کے جزو کے طور پر سمجھئے 86

مربوط، یک جا متن کے طور پر سمجھئے 87اپنے مکمل وجود کے ساتھ سمجھئے 87آان جو بتاتا ہے اسے سمجھئے قر 87آارا کی حدود میں سمجھئے متفق علیہ 88آانی معیارات سے سمجھئے صرف قر 88آان سے سمجھئے آان کو قر قر 89حدیث اور سیرت سے سمجھئے 90عربی زبان سے سمجھئے 90طریق کار کے لیے ہدایات 91

الفاظ کا مطالعہ 91متن کا سیاق 92

تاریخی پس منظر 92اصل معانی 92

اپنی صورت حال پر انطباق 92دور ازکار اور غیر متعلق معانی 93

علم اور ذہانت کی سطح 93موجودہ انسانی علم 93

آاپ سمجھ نہیں سکتے جو 94 سیرت پاک 94باب ششم:اجتماعی مطالعہ 95

اہمیت اور ضرورت 95اجتماعی مطالعے کے طریقے 97چار بنیادی ضابطے 97

حلقہ مطالعہ 98

Page 5: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

شرکا 98حلقہ مطالعہ کس طرح چلایا جائے 99

درس کی تیاری 100درس دینے کا طریقہ 101

آان کے مطابق زندگی باب ہفتم:قر 104آان کی پیروی قر 106

آانی مشن کی تکمیل قر 107ممن الرحیم بسم اللہ الرح

۱زندگی کا سفر

ازلی و ابدی زندہ حقیقتYآانے والے وقتوں میں انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کےا گیا ہے۔ کوئی آان �دائے حی وقیوم کا کلام ہے۔ یہ تما م قرمی سے ہم کلامی کے آا پ اللہ تعال آان کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، آاپ قر کتاب اس کی مثل نہیں ہوسکتی۔جیسے جیسے می کو سننا، اس سے باتیں کرنا اور اس کے راستے پر چلنا ہے۔ یہ زندگی دینے آان پڑھنا، اللہ تعال قریب ہوتے جاتے ہیں۔ قرمہ نہیں ہے، وہ زندہ جاوید ہستی ہے۔ جو نطام کائنات والے کے سامنے زندگی کو پیش کرنا ہے۔ ’’اللہ کے سواکوئی الآال آائی ہے۔۔۔ انسانوں کی ہدایت کے لئے‘‘ ) کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے جو حق لے کر

(۔۳۔۳:۲عمران آان ایک چلتی پھرتی جن لوگوں نے اسے سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اس کے لئے قر

می ان سے ہم کلام ہو رہا ہے۔ ل کے ذریعے، �ود اللہ تعال حقیقت تھی۔ انھیں اس با رے میں ذرہ برابر شبہ نہ تھا کہ رسوآانسو بہتے تھے، ان آانکھوں سے اس لئے وہ جب اسے سنتے تھے تو یہ ان کے د ل اور دماغ پر چھا جاتا تھا۔ ان کی کے جسم کانپنے لگتے تھے۔ وہ اس کے ہر لفظ کو زندگی کے معاملات اور تجربات سے بالکل متعلق پاتے تھے، اورآان نے ان کو ، فرد اور معاشرے کی دونوں حیثیتوں سے، اسے مکمل طور پر اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیتے تھے۔ اس قر

آافریں وجود میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا تھا۔جو بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اونٹوں کی ایک بالکل نئے، زندہ اور حیات گلہ بانی کرتے تھے، معمولی کاروبار کرتے تھے، انسانیت کے رہنما بن گئے۔

آان ہے۔ اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں۔ گھروں میں، مسجدوں میں، منبروں سے دن اور آاج ہمارے پاس وہی قر رات مسلسل اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کے معنی و مطالب کے جاننے کے لئے تفاسیر کے ذ�یرے موجود ہیں۔

آامادہ کرنے کے لئے، تقاریر کا ایک نہ اس کی تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے، اور ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے پر

Page 6: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آانکھیں �شک رہتی ہیں، دلوں پر اثر نہیں ہوتا، دماغوں تک بات نہیں پہنچتی، �تم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن آان کو ماننے والوں کے لئے لکھ دی گئی ہے۔ زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ذلت و پستی قرآان کو زندہ حقیقت کے طور پر نہیں پڑھتے۔ یہ ایک مقدس کتاب ضرور ہے مگرہمارا ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ اب ہم قر �یال ہے کہ یہ ہمیں صرف ماضی کی باتیں بتاتی ہے۔۔۔ کافروں کے بارے میں، مسلمانوں کے بارے میں، عیسائیوںاور

!یہودیوں کے بارے میں، مومنین اور منافقین کے بارے میں۔۔۔۔وہ جو کسی زمانے میں ہوتے تھےآان ہمارے لئے اسی طرح طاقت بخش ہوسکتا ہے جیسا وہ اس وقت تھا؟ یہ اہم آاج، صدیاں گزرنے کے بعد بھی، قر کیا

آان کی رہنمائی میں اپنی تقدیر کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں ترین سوال ہے جس کا ہمیں جواب دینا ہے۔۔۔ اگر ہم قر!تو

آان جس �اص زمانے میں نازل کیا گیا تھا،ہم اس آاتی ہیں، جن میں ایک یہ احساس بھی ہے کہ قر اس میں مشکلات نظر آاگے نکل چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی بڑی چھلانگیں لگائی ہیں، اور انسانی معاشرے میںبڑی سے بہت

آان کے پیروںکاروں میں سے بیش تر عربی نہیں جانتے اور جوجانتے ہیں آاج قر بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں، آانی محاوروں اور استعاروں کو آان کی زندہ زبان کو کم ہی سمجھتے ہیں۔ ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ قر وہ قر

آان کے مطالب کی گہرائیوں کو تلاش کرنے اور جذب کرنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ لیکن اس سمجھیں گے جو قر کے اپنے دعوے کے مطابق، اس کی ہدایت تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے اس لئے کہ یہ ہمیشہمی سچا ہے اور لاریب سچا ہے تو میرے �یال میں ہمارے لئے یہ ممکن ہونا رہنے والے �دا کی طرف سے ہے۔ اگر یہ دعو

آان کو اسی طرح جانیں، سمجھیں اور تجربہ کریں، چاہیئے کہ کسی نہ کسی درجے میں کسی نہ کسی حد تک ہم قرمی کہ ہدایت ہمیں اپنی مکمل شان، کمالات اور جیسا کہ اس کے اولین مخاطبین نے کیا تھا۔ یہ بات کہ اللہ تعال

آان کے زمان ومکان کے ایک �اص لمحے میں ایک �اص انعامات کے ساتھ ملے ہمارا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآان کواب اسی وقت نازل ہوتا ہوا محسوس کرنا چاہیے )کیونکہ اس کا زبان میں نزول کے تاریخی واقعے کے باوجود ہمیں قر پیغام دائمی ہے( اور ہمارے لئے یہ ممکن ہوناچاہئے کہ اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا اسی طرح حقیقی حصہ بنالیں

جس طرح کہ اس پر ایمان لانے والے اولین لوگوں نے بنایاتھا اور اپنے تمام موجودہ حالات اور پریشانیوں میں فوری اورمکمل رہنمائی اسی طرح اس سے پائیں۔

مگر یہ ہم کس طرح کریں؟آان کی دنیا میںاس طرح دا�ل ہوں جیسے کہ اللہ ا گر بالکل صاف صاف کہا جائے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے قرآاج ہم سے مخاطب ہے اور اس کیفیت سے شعوری طور پر گزرنے کے لئے جو شرائط ضروری می اس کے ذریعے اب اور تعال

ہیں انھیں پورا کریں۔

Page 7: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کتنا عظیم ہے، اور ہمارے لئے اس کا کیا اا ہمیں محسوس کرنا چاہیے کہ اللہ کا کلام ہونے کی حیثیت سے قر رول ا مطلب ہے اور پھر اس کے لیے احترام ومحبت اور تعلق کے جذبات اور ارادئہ عمل کو اسی طرح بروے کار لائیں جو اس

احساس کا تقاضا ہے۔ ل نے آان کو اس طرح پڑھنا چاہئے جس طرح یہ چاہتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، جس طرح پڑھنا اللہ کے رسو اا ہمیں قر ثانی

مم اسے پڑھتے تھے۔ آاپ کے صحابہ کرا پ �ود اور آا ہمیں سکھایا ہے، جس طرح اا ہمیں چاہئے کہ زمان و مکان، تہذیب و ثقافت اور تغیرات و تبدیلات کی تبدیلی کی تمام رکاوٹوں کوعبور کرتے ہوئے ثالث

آان کے ہر لفظ کی روشنی میں اپنے موجودہ حقائق اور مسائل کو سمجھیں۔ قرآان ان کے زمانے کا واقعہ تھا۔ اس کی زبان اور اس کاطرز بیان واستدلال، اس کے; اپنے پہلے مخاطبیں کے لئے، قر محاورے اور استعارے، اس کی علامات اور مثالیں، اس کے واقعات و لمحات سب ان کے اپنے ماحول میں پیوست

آان کے پورے عمل کے گواہ بھی تھے جو ان کی پوری زندگی میں مرحلہ بہ مرحلہ مکمل ہوا، اور تھے۔ یہ لوگ نزول قر ایک لحاظ سے شریک بھی۔ ہمیں یہ مقام حاصل نہیں ہے‘ لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ ہمارے لئے بھی سچا ہونا

آاج بھی اسی طرح اپنے زمانے کی آان کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہم بڑی حد تک چاہیے۔ اپنے حالات میں قرچیز سمجھیں گے جیساکے یہ اس وقت تھا۔

اس لئے کہ انسان کی سر شست میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ یہ غیر مبدل ہے۔ انسان کے صرف ظواہر۔۔۔شکلیں، طریقے،آابادی کے مومن اور غیر ٹیکنالوجی تبدیل ہوئے ہیں۔ مکہ کے مشرک، مدینہ کے یہودی، نجران کے عیسائی اور مدینہ کی

مومن، چاہے اب نہ پائے جاتے ہوں مگر یہ کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ ہم ٹھیک اسی طرح انسان ہیں جسآان کے پہلے مخاطب انسان تھے، چاہے اس سادہ سچائی کے گہرے مضمرات سے نبٹنا ہمیںبے حد مشکل لگے۔ طرح قرآائیں جسطرح اولین آان کی طرف اس طرح آاپ ان حقائق کا ادراک کریں، اور ان کی پیروی کریں۔ ایک دفعہ قر ایک دفعہ آاپ کو اسی طرح اپنا شریک کار آاپ کے لئے بھی اسی طرح نازل ہوگا جس طرح ان پر ہواتھا۔ آائے تھے۔ تب یہ مسلمان

بنائے گا جس طرح انھیں بنایا تھا۔ پھر یہ محض ایک قابل احترام کتاب ، مقدس دستاویز اور سحر انگیز سر چشمہ برکت کے بجائے ایک ایسی عظیم طاقت میں تبدیل ہو جائے گا جو ہم کو اپنی گرفت میں لے کر ہلائے اور حرکت دے کر

می کارناموں کے حصول کی طرف راہنمائی کرے، جیسا اس نے پہلے کیا۔ اعلآاپ کی منتظر ہے نئی دنیا

آان کی طرف اور آاپ کی زندگی کا کوئی بھی اقدام قر آاتے ہیں۔ آاتے ہیں تو ایک نئی دنیا کی طرف آان کی طرف آاپ قر آان کے اندر سفر سے زیادہ عظیم، اہم، نازک، با برکت اور نفع بخش نہیں ہو سکتا۔ قر

آاپ کے �الق و آاپکو اس کلام کی نہ �تم ہونے والی مسرتوں اور ان بے پایاں �زانوں کے اندر لے جائے گا جو یہ سفر آاپ کو علم و دانش کے ناقابل بیان �زانوں کا ایک آاپ کے لئے، اور ساری انسانیت کے لیے بھیجے ہیں۔ یہاں مالک نے

Page 8: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کے فکر وعمل کی صحیح صورت گری آاپ کی رہنمائی کرے گا اور جہاں ملے گا، جو زندگی کی شاہراہوں پر آاپ کو اس آاپ کو مالامال کر دے گی اور صحیح راستے پر چلائے گی۔ کرے گا۔ یہاں وہ گہری بصیرت ملے گی جو آاپ کو جذبات کی ایسی حرارت آاپ کی روح کی گہرائیوں کو منور کر دے گی۔ یہاں سے ایسی روشنی ملے گی جو

آانسوبہنے لگیں گے۔ آاپ کے ر�ساروں پر آاپ کے دل کو پگھلادے گی اور ملے گی جو آاپ آان کی دنیا میں سفر کریں گے، ہر قدم پر آاپ قر آاپ کے لئے بے حد اہمیت رکھتی ہے، اس لئے کہ جوں جوں یہ بات

آان کی آازاد مرضی سے �لوص سے یکسو ہو کر قر سے تقاضا ہوگا کہ ایک راہ کا انتخاب کریں اور اللہ کے ہو جائیں۔ آان کے مطابق زندگی گزارنے سے کم نہیں ہے۔ تلاوت کرنا، مکمل طور پر قر

آاپ �دا کی اس پکار کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔ اس لئے آاپ کی پوری زندگی کے نتیجے کا انحصار اس پر ہے کہ آاپ کے وجود کے لئے انسانیت کے لئے اور انسانی تہذیب کے مستقبل کے لئے فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سفر

آاباد ہیں۔ آایات میں سیکڑوں نئی دنیا ئیں اس کی (اس کے لمحات میں کئی کئی صدیاں پنہاں ہیں )اقبال: جاوید نامہ

آا�رت میں بھی کامیابی کی آاپ کو اس دنیا میں بھی اور آان ہی ہے جو آان۔۔۔ اور صرف قر جان لیجئے کہ یہ قرآاگے لے جاتا ہے۔ آاگے ہی منزلوں کی طرف

آان کیا ہے؟ قرآان میں انسان کے لئے جو کچھ ہے، اس کی عظمت اور اہمیت کا ادراک کرنا یا اسے بیان کرنا اس کے قر

آاپ کے لئے اس کی آاپ کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ کیا ہے، آاغاز کرنے کے لئے بس میں نہیں ہے، لیکن رلی وابستگی، مکمل آان کے اندر ڈوبنے کا جذبہ بیدارہو۔۔۔ک آاپ کے اندر اپنے کل وجود کے ساتھ قر کیا اہمیت ہے تاکہ

سپردگی اور مسلسل کوشش کے ساتھ جیسا کہ اس کا تقاضا ہے۔می کے اس آادم علیہ السلام اور ان کی نسلوں سے اللہ تعال آاپ کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ حضرت آان قر وعدے کی تکمیل ہے’’میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں

(۸۳گے، ان کے لئے کسی �وف اور رنج کاموقع نہ ہوگا )البقرہ -آاپ کے آاپ کے کمزور وجود کی مدد ہے۔ اس دنیا میں شر اور باطل کی قوتوں کے مقابلے میں جدوجہد کے لئے یہ

آاپ اندھیروں میں بھٹک رہے ہوں تو کامیابی اور نجات �وف اور پریشانی کو قابو کرنے کے لئے یہی واحد ذریعہ ہے۔ جب آاپ کے چاروں طرف جو اجتماعی آاپ کے نفس کے امراض کے لئے اور کا راستہ تلاش کرنے کے لئے یہی واحد نور ہے۔

آاپ کے �طرات اور آاپ کے منصب و فرائض‘ آاپ کی فطرت اور تقدیر‘ �رابیاں ہیں ان کے لیے واحد شفا ہے۔ یہ انعامات کے لیے مسلسل یاد دہانی اور ذکر ہے۔

Page 9: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاسمانوں میں طاقت ور اور قابل اعتماد ہے تو اس کا پہلا آائی جو جب جبرئیل علیہ السلام کی وہ ہستی اسے لے کر می تھا جو انسانیت کی تاریخ میں بالکل منفرد تھا اور وہ تھا ۔۔ ۔ حضرت محمد صلی اللہ مسکن وہ قلب مصفا و اعل

!علیہ وسلم کا قلب مبارکآاپ کو اس ہستی کے کسی بھی چیز سے زیادہ اپنے �الق سے قریب تر اور نزدیک تر ہونے کا صرف یہی راستہ ہے۔ یہ آاپ سے بارے میں، اس کی صفات کے بارے میں، کائنات پر اور تاریخ پر اسکی حکمرانی کے بارے میں، اس کے آاپ سے ،دوسرے انسانوں سے اور دیگر ہر موجود شے سے تعلق کے آاپ کے اس سے �ود اپنے تعلق کے بارے میں،

بارے میں بتاتا ہے۔آا�رت میں اس سے کئی گناہ بڑھ جائیںگے لیکن سفر کے آاپ کے لئے جو انعامات یہاں منتظر ہیں، یقیناوہ بہت ہیں مگر

آانکھ آاپ کے لیے جو کچھ منتظر ہے،حدیث قدسی کے مطابق :’’وہ نہ کسی ا�تتام پر ، مہاس پر اضافہ کرتے آایا‘‘ حضرت ابو ہر یر نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا �یال

آانکھوں کی ٹھنڈک کا۲۳:۷۱ہیں:اگر چاہو تو سورہ السجدہ ) ( میں پڑھو: پھر ان کے اعمال کی جزا میں جیسا کچھ (سامان ان کے لیے چھپا کررکھا گےا ہے اس کی کسی متنفس کو �بر نہیں )بخاری ،مسلم

بے حساب رحمت و عظمتآان میں جو کچھ پڑھتے ہیں،یہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے ،جو اس نے سب سے زیادہ اہم یہ بات یاد رکھنا ہے کہ ہم قرخن مم رررح رال آاپ کے لیے نازل کیا ہے: رن o محض اپنی مہربانی اور رحمت و ربو بیت کی بنا پر انسانی زبان میں ما خلقر رم ا رل رع o ( ۲۔۵۵:۱الرحمن ) ررحمتہ من ربک )الد�ان آان کی تعلیم دی (تمھارے رب۴۴:۶نہایت مہربان )�دا( نے اس قر

کی رحمت کے طور پر۔می نے آان کی عظمت و شان اتنی پر جلال ھے کہ کوئی انسان اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔اس حد تک کہ اللہ تعال قر

آان کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ اللہ کے �وف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا فرمایا: اگر ہم نے یہ قر(۹۵:۰۲ہے)الحشر

آان کی آاپ کے اندر قر آاپ پر اس کی ہیبت و جلال کے چھا نے کے لیے اور می کی رحمت و عظمت کا یہ ظہور اللہ تعالآارزو اور جدو جہد کے نئی بلندیوں کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ دنیا میں دا�لے کے لیے شکر ،آان �ود اپنے بے پاےا ںکرم آان سے قیمتی اور قابل قدر نہیں ہے۔جیسا کہ قر آاپ کے لیے قر سچ یہ ہے کہ کوئی بھی �زانہ

:کا ذکر کرتا ہےآا گئی ہے۔یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت اسے قبو ل کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔اے نبی کہہ دو کہ یہ اللہ کا فضل اور مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے

Page 10: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

بھیجی ۔اس پر تو لوگوں کو �وشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں ۔)یونس(۔۸۵۔۰۱:۷۵

�طرات اور رکاوٹیںمی کی رحمت برکت اور بخشش و عنایت پرضرور �وب �وشی منانا چاہیے۔ان �زانوں کو ضرور حاصل آاپ کواللہ تعال

آان اپنے دروازے صرف ان کے لیے کھولتا ہے جو مقصد آاپ کی تلاش کے منتظر ہیں۔مگر قر کرنا چاہیے جو اس کے اندر آارزو مندی کی کیفیت اور �صوصی توجہ کے ساتھ جو اس کی اہمیت اور عظمت کے شایان شان ہو۔ کے لیے ا�لاص، اس پر دستک دیتے ہیں۔صرف انھی کو اس کے درمیان چلتے ہوئے اس کے �زانے جمع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے

آاپ کو مکمل طور پر ڈالنے کے لیے ،اور اسے جذب کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش آاگے اپنے جو اس کی ہدایت کے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

آان کی مسلسل تلاوت کریں،اس کے اوراق کو بڑے اہتمام کے ساتھ آاپ قر اس لیے ایسا ہونا با لکل ممکن ہے کہ الٹیں،اس کے الفاظ کی �وش الحانی کے ساتھ قرات کریں،اس کا مطالعہ نہایت عالمانہ انداز سے کریں ۔۔۔لیکن پھرآاپکی شخصیت کو مالامال کرتااور تبدیل کردیتا ہے۔کیونکہ وہ بھی اس کے ساتھ وہ تعلق پیدا کرنے میں ناکام رہیں جو اا وہ نفع حاصل نہیں کرتے جو انھیں حاصل کرنا چاہیے۔کچھ تو برکت سے آان پڑھتے ہیں اس سے لازم سب لوگ جوقر

محروم رہتے ہیں،کچھ لعنت تک کہ مستحق قرار پاتے ہیں۔اس سفر میں جس طرح کے قیمتی اور لامحدود انعامات ہیںاس طرح کے اس میں �طرات بھی ہیںاور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ بہت سے لوگ انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاتے گوکہ یہ کتاب کہیں قریب ہی رکھی ہوتی ہے اور بہت سے اسکے دروازوں سے

واپس کردیے جاتے ہیں ۔بہت سے اسے اکثر پڑھتے ہیںلیکن �الی ہاتھ رہ جاتے ہیں،جب کہ بہت سے دوسرے اس کا مطالعہ کرتے ہیں پھربھی در حقیقت اس کی دنیا میں کبھی دا�ل نہیں ہوتے۔کچھ لوگ کچھ نہیں پاتے،لیکن �ود گمآاواز سنتے ہیں ،یا �دا کے علاوہ آاواز �دا کے کلام میں نہیں سن پاتے۔وہ اس کے بجائے اپنی ہو جاتے ہیں۔وہ �دا کی

دوسروں کی۔آاواز سن تولےتے ہیں ،لیکن اپنے اندر وہ عزم ،وہ ارادہ اور وہ حوصلہ پانے میں ناکام کچھ دوسرے �دا کی

رہتے ہیں،جو اس کا جواب دینے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔کچھ وہ بھی کھودیتے ہیں جو انآاتے ہیںجو ان کو ہمیشہ تکلیف دیتا کے پاس ہوتا ہے اورقیمتی جواہرات جمع کرنے کے بجائے،پتھروں کا کمر توڑ بوجھ لے

رہتا ہے۔آاپ کی روح کے تار مرتعش آائیںاور �الی ہاتھ لوٹ جائیں۔ آان کی طرف آاپ قر یہ کتنا بڑا المیہ اور بد قسمتی ہوگی کہ

آائے،جیسے دا�ل ہوئے تھے ویسے کے ویسے ہی باہر نکل ہوں،نہ دل میں کوئی لہر اٹھے ،نہ زندگی میں کوئی تبدیلی گئے۔

Page 11: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ ان میں سے کتنی لینگے،اس کا انحصار اس ظرف کی وسعت اور آان کی برکتیں شمار نہیں کی جاسکتیں،مگر قرآاپ کو �وب اچھی طرح احساس دلا آ ائیں۔اس لیے بالکل شروع میں ہی،اپنے آاپ اس کے پاس مناسبت پر ہے جو لے کر آان کی اس کی شان آاپکے لئے کیا مرتبہ رکھتا ہے اور اپ سے کیا تقاضے کرتا ہے۔عزم صمیم کیجیے کہ قر آان دیجیے کہ قر

آاپ کاشمار ان لوگوں میں ہو :کے مطابق تلاوت کرینگے ،تاکہ ۲جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسکی اس طرح تلاوت کرتے ہیں،جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے۔ )البقرہ

:۰۲۱)تلاوت

آان اپنے پڑھنے کے عمل کے لیے لفظ تلاوت استعمال کرتا ہے۔کوئی ایک لفظ اس کے مکمل معنی بیان نہیں کرسکتا۔ قر پیروی کرنا ،اسکے بنیادی مفہوم سے قریب ترین ہے۔پڑھنا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ پڑھنے میں بھی الفاظ ایک دوسرے کے

آائے ،یا آاتے ہیں،ایک کے بعد ایک ،قریب قریب،مربوط اور با معنی ترتیب میں۔اگر لفظ دوسرے کے پیچھے نہ پیچھے اگرنظم و ترتیب کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مفہوم الجھ کر رہ جاتا ہے۔

آاگے بڑھنا ،ایک ترتیب میں اسلیے بنیادی طور پر تلاوت کا مفہوم ہے:پیچھے ،قریب ہی حرکت کرنا ، بہنا،تلاش میں جانا،کسی نمونے کو اپنا رہنما،استاد اور قائد ماننا،کسی کو صاحب ا�تیار تسلیم کرنا ،کسی مقصد کو

اپنانا،کسی بات پر عمل کرنا ،کسی کے پیچھے چلنا،زندگی کے کسی راستے کو ا�تیار کرنا ،کسی سلسلہ فکر کومی رکھتے ہیں،وہ اس سے اپنا تعلق آان پر ایمان کا دعو سمجھنا اور اسکا اتباع کرنا۔۔۔یا پیچھے پیچھے چلنا ۔جو لوگ قر

پڑھنے،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے قائم کرتے ہیں۔اا آاپ کی پوری شخصیت،روح،دل،دماغ،زبان اور جسم سب حصہ لیتے ہیں۔مختصر تلاوت ایک ایسا عمل ہے جس میں

آان کی تلاوت میں جسم و دماغ، عقواحساس کی تمیز �تم ہو آاپ کا پورا وجود اس میں شریک ہو جاتا ہے۔قر یہ کہ جاتی ہے،وہ ایک ہو جاتے ہیں۔زبان تلاوت کرتی ہے،اور ہونٹوں سے الفاظ ادا ہوتے ہیں،ذہن غوروفکر کرتا ہے،دل پر اثر ہوتا

آاتے ہیں،دل لرزتا ہے،کھال کانپتی ہے،اور دل کی طرح نرم پڑ جاتی آانسوں امڈ آانکھوں میں ہے،روح جذب کرتی ہے،آاپ کے بال بھی کھڑے ہوجاتے ہیں م کہ :ہے،دونوں کا علیحدہ وجود نہیں رہتا، حتی

آاتا رہ کی ہدایات ہے جس سے وہ چاہتا ہے راہ راست پر لے وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے۔یہ الل(۔۳۲۔۹۳:۲۲ہے)الزمر

آاسان کام نہیں ہے۔مگر یہ بہت مشکل یا ناممکن بھی آان کی اس طرح تلاوت ،جیسا کہ اسے تلاوت کرنے کا حق ہے، قراا ہے۔مگر آادمیوں کے لئے نہ ہوتا،نہ یہ وہ رحمت و ہداےات ہوتا،جو کہ یقین آان ہم جیسے عام نہیں ہے۔اگر یوں ہوتا تو قر

آاتی ہے،اور اس کا تقاضا ہوتا ظاہر ہے کہ اس میں دل و دماغ کو،جذبہ و عقل کواور جسم و روح کو کچھ مشقت پیش ہے کہ کچھ شرائط پوری کی جائیں،کچھ فرائض ادا کئے جائیں۔کچھ دا�لی اور کچھ �ارجی طور پر۔

Page 12: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کی عالی شان دنیا میں دا�ل ہونے سے پہلے انھیں پورا کرنے کی کوشش کرنا آاپ کو ان سب کا علم ہونا چاہئے اور قر چاہیے۔

آاپ کی منتظر آان میں آاپ برکات و انعامات کی وہ پوری فصل حاصل کرسکتے ہیں جو قر اسی صورت میں آاپ کے اندر ر ہے گا۔رحم آاپ کو اندر رہنے دیگا اور آاپ کے لئے کھولے گا۔تب ہی یہ آان اپنے دروازے ہے۔تب ہی قر

آاپ، بنا دیا:سننے والا ،دیکھنے والا اور سوچنے والاوجود۔کیا۹مادر میں گزرنے والے مہینوں نے ایک پانی کے قطرے کو ، آان کے ساتھ گزرنے والی ایک پوری زندگی۔۔۔تلاش کرتے ہوئے ،سنتے ہوئے،دیکھتے آاپ تصور کر سکتے ہیں کہ قر

آاپ کو با لکل نئی ہستی میں تبدیل آان آاپ کو کیا بنا دے گی؟ یہ قر ہوئے،سوچتے ہوئے، جدوجہد کرتے ہوئے ۔۔۔آاگے جھکنے میں فرشتے بھی فخر محسوس کریں۔ کردے گاجس کے

آاپ کو ایک عظیم الشان بلندی کی طرف آان کی دنیا کے اندر اٹھنے والا ہر قدم اور اس کے ساتھ گزنے والا ہر لمحہ قرآان میں زندگی کی طرح دوڑتا ہے۔ آاجائیں گے جو قر لے جائے گا،اپ اس طاقت اور حسن کی گرفت میں

آان کے ساتھی سے کہا جائے لل نے فرماےا:قر حضرت عبدللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسوآان کی تلاوت کیا کرتے او،اتنی ہی سہولت سے ،جتنی سہولت سے تم دنیا میں قر گا :تلاوت کرو اور بلندی کی طرف جااود،ترمذی،احمد ،نسائی(۔ او گے)ابو دا آا�ری تلاوت کے وقت پہنچ جا آا�ری مسکن وہ بلندی ہے جہاں تم تھے ۔تمھارا

۲بنیادی شرائط

آاپ ان کو آاور تعلق کے لئے دل و دماغ کے بعض بنیادی رویے اور حالتیں ضروری شرائط ہیں۔ آان کے ساتھ کسی بار قر جتنا نشونما دے سکتے ہیں دیجیے۔ ان کو اپنے شعور کا جیتا جاگتاحصہ بنا لیجئے، ان کو ہمیشہ زندہ اور فعال رکھئے۔

ان کو اپنے اعمال سے مربوط کر لیجئے، انھیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں دا�ل ہونے دیجئے۔ ان دا�لی وسائل کیآاپ کے آاپ کے سفر میں آان کی برکتوں اور رحمتوں سے اپنا مکمل حصہ نہیں پا سکیں گے۔ یہ آاپ قر مدد کے بغیر

لازمی رفیق بھی ہوں گے۔آاگا ہی اور غور و فکر اور مناسب قول و فعل کے آاپ مسلسل ان دا�لی وسائل کا حصول نہ مشکل ہے نہ نا ممکن۔

آانے آان کے اتنے ہی قریب آاپ جتنا زیادہ یہ کریں گے، قر ذریعے انہیں حاصل کر سکتے ہیں اور نشونما دے سکتے ہیں۔ آائے آاپ کے حصے میں فوائد ومنافع کی فصل آائیں گے، اتنی ہی زیادہ آان کے قریب آاپ قر کے قابل ہو جائیں گے۔ جتنا

گی۔ایمان: �دا کا کلام

آاپ کا �الق اور مالک آائیے کہ یہ اس �دا کا کلام ہے، جو آان کی طرف اس گہرے اور مضبوط اعتقاد کے ساتھ اول: قرہے۔

Page 13: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کی کشش اور طا قت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح کا عقیدہ ضروری اور نا گزیر شرط کیوں ہو؟ بلاشبہ قر اسے ایک عام کتاب کی طرح پڑھنا شروع کر دے تب بھی، اگر وہ کھلے ذہن سے مطالعہ کرے تو اس سے فائدہ اٹھاہہ ہفی رب رری رلا خب مت ہک رک ال ہل مذ غاز اس پر زور جملے سے ہوتا ہے : آا ئے گا۔ مگر یہ کتاب کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ اس کا

( یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔۲ج )البقرہ :آاپ آاپ اس سے اس ہدایت کے طالب ہیںجو آاپ کا مقصد کوئی عام مقصد نہیں ہے۔ اس کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے رم ہقی رت خمس رط ال ہرصرا رنا ال ہد ہاھ آاپ کو صراط مستقیم پر لائے اور اس پر ثابت قدم رکھے کی پوری شخصیت کو تبدیل کردے ،

آاپ کے دل کی پکار ہے جس کا جواب قران ہے۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا، یہ آاپ کے اندر تبدیلی آاپ قران کی تعریف کر سکتے ہیں،اس سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں،لیکن یہ اس وقت تک آاپ کو شفا دینے،اور تبدیل کرنے آاپ کو اپنی گرفت میں لینے، آاپ کو جگانے ، نہیں لا سکتا جب تک اس کے الفاظ آاپ اس کے الفاظ کو قرار واقعی مقام نہ آاپکے اندر نہ اتر جائیں اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں،جب تک کہ کے لئے

!دیں،یعنی اللہ کا کلامآان کے قلب تک پہنچنے اور اس کے آاپ وہ مطلوبہ دا�لی قوت حاصل نہیں کرسکتے جس کی قر اس عقیدے کے بغیر آاپ کے دل میں گھر کرلے،ممکن نہیں کہ یہ آاپ کو ضرورت ہے۔ایک دفع یہ پیغام کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے ررا مقصد میں ا�لاص ،عقیدت و احترام ، محبت و تشکر، بھروسا و اعتماد،سخت محنت کے صفات اور رویے۔۔۔ مثلآاگے سر تسلیم �م کرنا،اس کے احکامات کاکامل اتباع،اور آامادگی،اس کی صداقت پر یقین ،اس کے احکام کے لئے آاپ کی گھات میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ ان �طرات کے �لاف چوکس رہناجو اس کے �زانوں سے محروم کرنے کے لئے

آاپ کی شخصیت کا جزونہ بن جائیں۔آاپ اس کے کلام کے لئے رعب و احترام اور وارفتگی کے اللہ تعالی کی شان و شوکت اور جلال کا تصور کیجیے،

آاپ کا دل اس کے پیغام کے لئے جذبات محسوس کرینگے۔اس کی ربوبیت ،رحم اور ہمدردی کے بارے میںسوچیے،آاپ اس کے احکامات تشکر ،محبت اور تعلق سے بھر جائےگا۔اس کی حکمت،علم اورمہربانی کا علم حاصل کیجیے،

آامادہ،اور بے تاب ہو جائینگے۔ کی پیروی کرنے کے لئے رضامند،آایات میںبھی،اور آاغاز میں ،بہت سی سورتوں کی ابتدائی آان یہ اہم حقیقت بار بار یاد دلاتا ہے،بالکل یہی وجہ ہے کہ قر

اکثر درمیان میں بھی ۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہاپنے عقیدے کا اعلان کریں۔

می ( ۔۲۴:۵۱کہو، اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا)الشورآاواز ہو جاتے ہیں لپ کے اس عقیدے میں مومنین بھی یک آا :

Page 14: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

رسول اس ہدایت پر ایمان لائے ہیں،جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی ہے اور جو لوگ ان کے ماننے والے(۔۲:۵۸۲ہیں،انھوںنے بھی اس ہدایات کو دل سے تسلیم کرلیا ہے)البقرہ

آاپ پڑھ رہے ہیں،تلاوت کر رہے ہیں، سن رہے ہیں، یا آاپ کو یہ شعور ہمیشہ بیدار رکھنا چاہئے،کہ ہر لفظ،جو اس لئے آاپ کے لئے نازل کیا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں،اللہ تعالی انے

آاپ واقعی یہ یقین رکھتے ہیں؟ کیا آاپ کو یہ جواب تلاش کرنے کے لئے ،دور جانے کی ضرورت نہیں۔اپنے دل کو ٹٹولئے،اپنے رویے کا جائزہ لیجیے۔اگر

آارزو اور �واہش کہاں ہے؟اس کو سمجھنے کے لئے کوشش اور سخت محنت آان کا ساتھی بننے کی یقین حاصل ہے تو قرکہاں ہے؟اس کے پیغام کے لئے تسلیم و رضا اور اطاعت کہاں ہے؟

ہم یہ یقین کیسے حاصل کریں،اور کیسے اسے زندہ رکھیں؟اس کے بہت سے طریقے ہیں،میں یہاں صرف ایک کا ذکرآائے کہ ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں،مگر آان کی تلاوت ہے۔شاید ایسا نظر کرونگا۔سب سے موثر طریقہ،�ود قرآاپ بہتر طور پر پہچانیں آاپ کا یہ یقین تازہ ہوتا جائےگا اور آان پڑھیں گےے، آاپ قر ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ جوں جوں

آاپ کے یقین کی شدت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جائیگا۔ گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔۔یوں آایات ان کے سامنے پڑھی سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیںاور جب اللہ کی

(۸:۲جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔)انفال

نیت کا ا�لاصآانا آان کو سوائے اس مقصد کے اور کسی لئے نہ پڑھیے کہ اپنے مالک سے ہدایت حاصل کرنا ہے،اس کے قریب دوم:قر

ہے،اس کی رضا حاصل کرنی ہے۔آاپ کی نیت فیصلہ ںں آاتے ہی آاپ اس کے پاس کس لئے آاپ کیا حاصل کرتے ہیں؟اس کا انحصار اس پر ہے کہ آان سے قر

آاپ غلط محرکات اور برے مقاصد سے اس کے قریب آایا ہے۔اگر آاپ کی ہدایت کے لئے آان کن اہمیت رکھتی ہے،یقینا قرآاپ اس کے پڑھنے سے گمراہ بھی ہو سکتے ہیں۔ آائیںتو

اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھادیتا ہے۔ اور اس سے(۔۲:۶۲گمراہی میں وہ انھی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں)البقرہ

آان اللہ کا کلا م ہے یہ نیت کا اتنا ہی ا�لاص اور مقصد کے لئے اتنی ہی یکسوئی چاہتا ہے جتنی کہ اللہ تعالی کی قرآان کا مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنی عقل کو عبادت و بندگی۔اسے محض ذہنی تفریح کے لئے نہ پڑھیے،بلکہ فہم قرآان کی زبان،طرز، تاریخ، جغرافیہ، قانون اور ا�لاقیات کا مطالعہ کرنے میں بدرجہ اتم استعمال کیجیے۔کتنے ہی لوگ قر

Page 15: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان اکثر ایسے پوری کی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں، لیکن ان کی زندگی پر اس کے پیغام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ قرافراد کا حوالہ دیتا ہے جو علم رکھتے ہیں لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتے۔

آانا چاہیے کہ اپنے نظریات،مفروضات اور نقطہ نظر کے لئے تائید و آاپ کو قران کی طرف اس طے شدہ ارادے سے نہیں آان کو آاواز کی بازگشت اس میں سنیں گے۔قر آاپ ایسا کرینگے تو اللہ کی نہیں �ود اپنی حمایت حاصل کرنی ہے۔اگر آان کی لل نے مذمت کی ہے۔جو کوئی قر سمجھنے اور اس کے معنی جاننے کا یہی وہ انداز ہے جس کی اللہ کے رسو

آاگ بنا لینی چاہیے)ترمذی(۔ تعبیر اپنی ذاتی رائے سے کرے،اسے اپنی جگہ جہنم کی آان کو اپنی ذات کے لئے نام،عزت،شہرت، حیثیت ےا مال و دولت% اس سے بڑی بد نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ قرآاپ کو یہ سب کچھ مل جائے،لیکن اس طرح جیسی دنیاوی چیزیں کمانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ہو سکتا ہے کہ آاپ نہ صرف ایک بیش بہا �زانے کا نہایت حقیر شے سے سودا کر رہے ہونگے،بلکہ اپنے کو ابدی نقصانات اور تباہی

آان کا مطالعہ اس لئے کرے کہ اس طرح میں ڈال رہے ہونگے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماےا:اگر کوئی یہ قر لوگوں سے اپنے لئے روزی حاصل کرے،تو قیامت کے روز وہ اس طرح اٹھایا جائےگا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں

صرف ہڈیاں ہوںگی)بیھقی(۔آان سیکھتا ہے اور اس کی تلاوت یا تدریس کرتا لپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص دنیا میں تعریف و تحسین کے لئے قر آا

آاگ میں ڈالا جائےگا)مسلم (ہے،وہ اا جسمانی امراض کی شفا ،نفسیاتی سکون یا آان کے الفاظ سے،دوسرے کمتر فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں،مثل آاپ قر آان آاپ قر غربت سے نجات۔ان چیزوں کو حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے،لیکن یہی وہ سب کچھ نہ ہو جائے جو

آاپ آاپ کی نیت کے اصل ہدف ہونے چاہیں۔اسلئے کہ ان چندگھونٹوں کو حاصل کرنے میں سے حاصل کرتے ہیںاور نہ یہ آاپ کا ہو سکتا تھا۔ وہ سارا سمندر کھوسکتے ہیں،جو

آان کا ایک ایک حرف پڑھنے کے بڑے انعامات ہیں۔ان تمام انعامات کا شعور رکھیے،اور انہیں اپنی نیت کا مقصد قرآان کے ساتھ گزارنے کے لئے چاہیے۔ آاپ کو وہ مضبوط داعیہ ملے گا جو ساری زندگی قر بنایئے ،اس لئے کے اس سے آان سمجھنے ،جذب کرنے،اور اس پر عمل کرنے پر)اس دنیا میں اور بعد کی دنیا میں(اس مگر یہ کبھی نہ بھولئے کہ قر

آاپ کا اصل مقصد ہونا چاہیے ،سے بہت زیادہ انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔یہ آاجائے ۔۔۔اس کا متن بھی اورسنت آاپکے ہاتھ آان آاپکا مقصد �الص ہو نا چاہیے،بلکہ جب ایک دفعہ قر نہ صرف یہ کہ

آاپکو رہنمائی کے لئے کسی اور مرکز کی طرف نہیں کی شکل میں اسکا زندہ نمونہ بھی ۔۔۔تو پھر آان آان پر اعتماد نہیں ہے،یہ تو قر آاپ کو قر دیکھنا چاہیے۔یہ تو سرابوں کے پیچھے دوڑنا ہوگا۔اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ

کی اہانت ہوگی۔یہ وفاداریاں تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

Page 16: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو اپنے مالک سے قریب تر لانے آاپ کلام الہی کے ساتھ گزارتے ہیںکوئی بھی چیز ان لمحات کے مقابلے میں،جو آاپ آاواز سننے کی منفرد برکت کا لطف اٹھاتے ہیں۔پس آاپ �الق حقیقی کی آان ہی میں والی نہیں،اسلئے کہ صرف قر

آانے کی شدید �واہش ہو۔ آاپ کا واحد محرک اللہ سے قریب تر آان پڑھیں تو جب بھی قرآاپ آاپکی نیت یہ ہونا چاہیے کہ اپنے دل و دماغ اور وقت کو اس ہدایت کے لئے لگا کر جو اللہ نے آا�ری بات یہ ہے کہ

آاگے ڈال دےتے ہیں ،تو اس آاپ کو اللہ کے آاپ اپنے کے لئے بھیجی ہے،اپنے مالک کی رضا حاصل کرنا ہے۔جب آاپ کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے :سودے میں

ملہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے)البقرہ ۲:۷دوسری طرف انسانوں میں سے ہی کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے ا(۔۰۲

آاتے ہیں مقصد اور نیت کسی جسم کے لئے روح یا بیج کی دا�لی قوت کی مانند ہیں۔بہت سے بیج ایک جےسے نظر لیکن جب وہ نشو نما پاتے ہیں اور پھل دیتے ہیں تو ان کے فرق واضح ہو جاتے ہیں۔جتنی �الص اور ارفع نیت ہوگی،اتنی

آاپکی کوششوں کی قدرو قیمت اور اس کا حاصل ہوگا۔ ہی زیادہ آان کیوں پڑھنا چاہیے۔مقصد آاپ کو بتاتے رہیے کہ قر آان کیوں پڑھ رہا ہوں؟برابر اپنے آاپ سے پوچھئے کہ میں قر ہمیشہ اپنے

اور نیت کو �الص اور یکسو رکھنے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے۔شکر اور حمد کی کیفیت

آاپکو اپنے سب سوم: ہمیشہ اپنے اندر اپنے مالک کے لئے انتہائی شکر اور حمد کے جذبات کو تازہ رکھیے کہ اس نے آاپکی آان ۔۔۔سے نوازا ہے اور اس کے مطالعہ اور فہم کے لئے سے بڑے تحفے۔۔۔قر

آاپکا آاپکے ہاتھوں میں کتنا بیش بہا �زانہ ہے،تو ممکن نہیں کہ آاپ کو احساس ہو جائے کہ رہنمائی کی ہے۔ایک دفعہ آاپ کی زبان یوں ساتھ نہ دے آائے،اور :دل فرط مسرت سے جوش میں نہ

تعریف �دا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا،ہم �ود راہ نہ پا سکتے تھے،اگر �دا ہماری رہنمائی نہ کرتا)الا(۔۷:۳۴عراف

آاپ کے جسم کا ہر آان جیسا نہیں۔اگر آاپ کو جن انعامات و اکرامات سے نوازاہے،ان میں سے کوئی بھی قر اللہ تعالی نے آانسوبن جائے،تب بھی آاپ کے جسم کا ہر قطرہ �ون مسرت کا بال زبان بن جائے اور اس کی حمد و شکر کرے،اگر

آان جیسی بے پایاں فیاضی کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ آاپکی حمد و شکر قرآان ہمارے لئے نہ نازل کیا گیا ہوتا،تب بھی اسکا کمال و جمال اور شان و شوکت،ہماری تعریف و تحسین کے اگر قر

حقدار ہوتے۔لیکن یہ بات کہ یہ کامل اور عالیشان تحفہ،جس کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے،صرفہمارے لئے بھیجا گیا ہے، اللہ تعالی کے لئے ہمارے جذبہ تشکر کو بے حد و حساب کردیتا ہے۔

Page 17: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

حمد کی یہ شدید کیفیت ،لامحالہ شکر کے احساس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور شکر سے لبریز اس تعریف کاخہ مرل رناال مد رھ ران آا رل رلو ری ہد رت رنھ ہل رنا ر خک رما رو رذا قف مھ ہل رنا مد رھ ہذی رل ر ہہ ا مرل ہل خد رحم رال ’’حمد‘‘سے بہتر الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا:

(۷:۳۴)الاعراف آان عطا کرنے پر ہم اللہ کا شکر کیوں ادا کریں؟ دراصل اسلئے کہ اسطرح اسنے زندگی کے مقصد و معانی کی طرف قر

آاپ کے لئے اس دنیا میں عزت و قار کا راستہ کھول دیا گیا آایا ہے۔ آاپ کو صراط مستقیم پر لے آاپکی رہنمائی کی ہے اور آاپ اس دنیا میں اللہ کی آان کی پیروی کر کے ہی آاپ اللہ سے باتیں کرسکتے ہیں۔اس دنیا میں قر آان میں ہے۔ قر

مغفرت ،جنت اور رضا حاصل کرسکتے ہیں۔آان عطا آاپ کو قر شکر اور مسرت اعتماد، امید اور اس سے بھی بڑے انعامات کی طرف لے جاتے ہیں۔وہ ہستی جس نے

آاپکی مدد کریگی۔ کیا ہے،وہی یقینا اس کے پڑھنے،سمجھنے اور عمل کرنے میں آان کے مطالعہ کے آاپکو ہمیشہ ایک نئے جوش اور جذبے سے قر شکر اور فرحت ہر دم ایسی تازہ توانائی پیدا کرتے ہیں جو

آان سے ملنے والے �زانے عطا کرتا ہے۔ آاپکو قر آاپ شکر گزار ہوتے ہیں،اتنا ہی زیادہ اللہ آامادہ کرتی ہے۔جتنا زیادہ لئے آاپ کو زیادہ فیاضی کا استحقاق عطا کرتا ہے۔یوں ایک نہ �تم ہونے والا فیاضی سے احساس شکر بیدار ہوتا ہے، شکر

خکم )ابراہیم رن ر رد ہزی را رل ختم رکر رش ہ¥ن رل ( اگر شکر گزار بنوگے تو میں۴۱:۷سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہی �دا کا وعدہ ہے: تمھیں اور زیادہ نوازوںگا۔

آاپ اس نعمت پر شکر کی کیفیت محسوس نہ کرتے ہوں ‘ تو اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے آان ہو اور آاپ کے پاس قر آان آاپ کو قر آاپ انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ دونوں صورتوں میں آان کی برکات سے لا علم ہیں ‘ یا آاپ قر ہیں ۔ یا تو

سے اپنے تعلق کی کیفیت کے حوالے سے فی الواقع پریشان ہو جانا چاہیے۔آاپ کے قلب و دماغ کے ہر گوشے پر طاری ہوں‘ ان کا اظہار الفاظ سے بھی ہونا چاہیے‘ جو شکر کے جو جذبات

آان کے لئے وقت ملنے پر‘ مسلسل جاری ہوں اور افراط سے ہوں ۔اس سفر کے ہر مرحلے پر اللہ کا شکر ادا کیجیے‘ قر اسے درست پڑھنے پر‘ اسے حفظ کرنے پر‘ اس کے معنوں تک رسائی پر‘ اس کے احکام پر عمل کی تو فیق پر۔ شکر کا

اظہار اعمال سے بھی ہونا چاہیے۔ شکر کو اعمال کی شکل ا�تیار کرنا چاہیے۔قبولیت اور بھروسا

آاپ کو جو علم اور ہدایت پہنچاتا ہے‘ اسے کسی شہبے اور ہچکچاہٹ کے بغیر قبول کیجیے‘ اور اس پر آان چہارم : قربھروسا رکھیے۔

آان اللہ کا کلام ہے یا نہیں اور اگر مطمئن نہ ہوں تو اس کے دعوے کو مسترد آازادی ہے کہ قر آاپ کو یہ سوال کرنے کی آاپ ایک دفعہ اسے اللہ کا کلا م تسلیم کرلیں، تو پھر اس کے آازادی ہے۔ لیکن جب کرنے کی

Page 18: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کے پہلے قبول کرنے کی نفی آاپ کے پاس نہیں ہے۔ ایسا کرنا کسی ایک لفظ پر بھی شبہہ کرنے کا کوئی جواز ہوگا۔

آاپ کے اپنے آاپ کو بالکل اس کے سپرد کردینا چاہیے۔ آانی تعلیمات کے سامنے سر تسلیم �م کردینا چاہیے اور اپنے قرآارا کسی کو اس کی کسی بات پر غالب نہ ہونا چاہیے۔ عقائد، فیصلے، مفروضے، تصورات اور

آان ان افراد کی مذمت کرتا ہے جو کتاب کو ایک ورثہ سمجھتے ہیں اور پھر شک و شبہہ کرنے والے حیران و پریشان ، قر ’’مسلمانوں‘‘ جیسا رویہ ا�تیار کرتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس

می (۲۴:۴۱کی طرف بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ )الشورآان بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسے کسی ملاوٹ کے بغیر نازل کرنے اور پہنچانے کے لئے مکمل اہتمام کیا گیا قر

ہے۔آان کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے ۔)بنی اسرائیل ) (۔۷۱:۵۰۱اس قر

آان کو سچ اور مکمل سچ ماننے اور اس پر اعتماد کرنے کا مطلب اندھا اعتماد، بند ذہن، اور تجسس نہ کرنے والی عقل قرآان میں ہے، اس کے بارے میں تحقیق کرنے کا ، غورکرنے کا، سوال کرنے کااور سمجھنے کا ہر حق نہیںہے۔ جو کچھ قراا وہ غلط یا غیر عقلی نہیں ہے۔ ایک ایسی آاپ مکمل ادراک نہیں کرسکتے ، لازم آاپ کو حاصل ہے، مگر جس امر کا

آاپ ان چند آاپ یقین رکھتے ہوں کہ ہر پتھر ایک بیش بہا ہیرا ہے،۔۔۔ اور ایسا ثابت بھی ہوچکا ہو۔۔۔ کان میں جہاں آاپ کے پاس جو اوزار دستیاب آاپ کی نظر متعین نہ کر سکے، یا پتھروں کو پھینک نہیں دیں گے جن کی قدروقیمت

ہیں وہ اس کی قیمت نہ لگا سکیں، یا لگانے کے لئے ناکافی ہوں۔آان کے کسی حصے کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ اذکار رفتہ ہے پرانے فیشن کا بالکل اسی طرح قر

می ہر زمانے کا مالک ہے، تو اس کا پیغام صدیوں بعد کے لئے بھی۴۱ہے، اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ اگر اللہ تعالہے۔

آاپ کے تعلق آان سے آان کے کسی حصے کو ماننا ، اور کسی کو نہ ماننا، پورے کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ قر قر(۔۲:۵۸میں، اسے جزوی طور پر ماننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نہ منطقی طور پر ایسا ہوسکتاہے۔ )البقرہ

آاگے سر تسلیم �م کرنے میں رکاوٹ آان کے پیغام کو قبول کرنے اور اس کے قلب و ذہن کے بہت سے امراض ہیں۔ یہ قرآان میں بیان کر دیا گیا ہے۔ حسد ، تعصب، نفسانی �واہشات ، معاشرے کے رسوم و رواج کی ہوتے ہیں۔ ان سب کو قرآاپ کو اپنی رائے ترک کرنے ، اندھی تقلید ان میں سے چند ہیں۔ لیکن ان میں سب سے بڑا مرض کبر اور استغنا ہیں جو

اللہ کے کلام کو پہچاننے اور عاجزی کے ساتھ اسے تسلیم کرنے میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔

Page 19: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔ وہ �واہ کوئیآائے تو اسے ا�تیار نہ کریں گے، اور اگر نشانی دیکھ لیں، کبھی اس پر ایمان نہ لائیںگے۔ اگر سیدھا راستہ ان کے سامنے

آائے تو اس پر چل پڑیں گے )الاعراف (۔۷:۶۴۱ٹیڑھا راستہ نظر آاسمان کے آایات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے، ان کے لئے یقین جانو جن لوگوں نے ہماری

دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا(۔۷:۰۴۱)الا عراف

اطاعت اور تبدیلیآامادگی پیدا کیجئے، اور جس طرح وہ چاہتا ہے اس آان جو کچھ کہتا ہے اس کی پیروی کے لئے ارادہ ، عزم اور پنجم: قر

کے مطابق ظاہر ی طورپر بھی ، اور باطنی طور پر بھی، اپنی زندگی کو، رویوں اور برتاؤ کو تبدیل کر لیجئے۔آاغاز نہ آان کی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کے لئے تیار نہ ہوں اور اس کا آاپ اپنے �یالات اور اعمال کو قر جب تک

آان کے آاپ کو ہر گز قر آاپ کی ساری محنت اور �لوص بے فائدہ رہے گا۔ محض ذہنی مشقیں اور وجدانی تجربے کردیں، حقیقی �زانوں کے قریب نہیں لائیں گے۔

آان کی پیروی اور زندگی میں تبدیلی لانے میں بشری کمزوریوں ، قدرتی مشکلات اور �ار جی رکاوٹوں کی وجہ سے قرآاپ کا ایسا ارادہ ہی نہیں ہے، یا اس کے لئے کسی قسم کی کوشش نہ ناکامی ایک بات ہے، اور اس لئے ناکامی کہ

آاپ پر اپنے آان کے ایک عالم کی حیثیت سے شہر ت حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ آاپ قر کریں، بالکل دوسری بات ہے۔ آاشکار نہیں کرے گا۔ حقیقی معنوں کو

آان نے ان افراد کی شدید ترین مذمت کی ہے جو �دا کی کتاب پر ایمان کا اقرار کرتے ہیں، لیکن جب ان کو عمل قرآاتی ہے تو وہ اس کی ہدایت کو نظر انداز کردیتے ہیں یا اس کے لئے کہا جاتا ہے، یا فیصلہ طلب صورت حال سامنے

کی طرف سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ انھیں کافر، فاسق اور ظالم قرار دیا گیا ہے۔:رکاوٹیں اور مشکلات

آاپ آان کے �زانوں کی طرف آاغاز کریں گے شیطان قر آان پڑھنے کے کام کا آاپ قر ششم: ہمیشہ �بردار رہیے کہ جو نہی کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ اور مشکل پیدا کرے گا۔

می کی طرف جانے والی صراط مستقیم کا واحد یقینی رہنما ہے۔ اس راستے پر چلنا انسان کی تقدیر ہے۔ جب آان اللہ تعال قرآاگاہ کیا گیا جو انسان کو اپنی تقدیر کی تکمیل کے لم پیدا کئے گئے تو انھیں ان رکاوٹوں اور مشکلات سے آاد حضرت اا ارادے کی کمزوری اور لئے عبور کرنا پڑیں گی۔ اس کی سب کمزوریاں کھول کھول کر سامنے رکھ دی گئیں، �صوص

مہ (۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ سفر کے ہر قدم پر شیطان اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔۰۲:۵۱۱نسیان) ط شیطان نے اللہ سے کہا: اچھا تو جس طرح تونے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے

Page 20: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، (۔۷۱‘۷:۶۱ان کو گھیروں گا۔ تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پانے گا)الاعراف

مہی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میںم ظاہر ہے شیطان کے �لاف ساری زندگی کی لڑائی میں، اور ہدایت الآان کے مطالعے آان ۔۔۔ )منی ھدی میری طرف سے ہدایت( ۔۔۔ تمہارا سب سے زیادہ طاقت ور ساتھی ہے۔ اس لئے قر قر

آاپ کے سامنے بہت سی چالیں آا�ری قدم تک شیطان کے ارادے کے پہلے قدم سے، اس کے مطابق زندگی گزارنے کے آاپ کو عبور کرنا ہوں گی، اور مسترد کرنا ہوں گی۔ ، مکر، حیلے، دھوکے، فریب اور رکاوٹیں لائے گا جو

آان کے معانی اور پیغام سے بے �بر رکھ سکتاہے، ذہن میں آاپ کو قر آاپ کی نیت میں فتور پیدا کرسکتا ہے۔ شیطان آاپ کی روح کے درمیان حجاب حائل کرسکتا ہے، بنیادی تعلیمات شکوک و شبہات پیدا کرسکتا ہے، اللہ کے کلام اور آان پڑھنے کو نظر انداز کرنے آان کا اتباع کرنے سے دور لے جا سکتا ہے یا قر کے بجائے فروعی امور میں الجھا سکتا ہے، قرآان میں وضاحت سے بیان کر دیے گئے آامادہ کر سکتا ہے۔ یہ سب �طرات اور اندیشے �ود قر آایندہ پر ملتوی کرنے پر اور

ہیں۔آاپ کوشش کر آاسان لگتا ہے۔ آان، اور اس کا مطلب سمجھنا ، بہت صرف ایک سادہ سی مثال لیجیے۔ روزانہ تلاوت قر

آاجاتے ہیں، کے دیکھ لیجئے ، اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے، دوسرے اہم کام سامنے آاپ گریز کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ کیوں نہ صرف برکت کے لئے جلدی جلدی پڑھ لیا جائے !توجہ اور ذہن کو مرکوز کرنے سے آان پڑھنے لگو تو شیطان سے اللہ کی آانی حکم: جب تم قر آاپ کی زبان پر قر ان �طرات اور اندیشوں کے شعور کے ساتھ،

( کے مطابق یہ الفاظ جاری ہوں: اعو ذ باللہ من الشیطن الرجیم۔۸۹: ۶۱پناہ مانگو )النحل اعتماد اور بھروسا

آاپ کی رہنمائی کرے آان کے مطالعے کے بھر پور فوائد کی طرف ھفتم: صرف اور صرف اللہ پر بھروسا رکھیے کہ وہ قرآان تک لایا آاپ کو قر آاپ تک لایا ہے اور آان کے ذریعے اپنا کلام گا۔ جس طرح یہ اللہ کی رحمت بے پایاں ہے کہ وہ قر

آاپ کو بہت قیمتی اور معیاری آاپ کی مدد گار ہوسکتی ہے۔ ہے، اس طرح اس کی رحمت ہی اس اہم اور نازک کام میں آاپ آاپ کو بے انتہا �طرات درپیش ہیں جن کو عبور کرنا مشکل ہے۔ آاسان نہیں ہے۔ اشیا درکار ہیں، ان کو حاصل کرنا آاپ کی رہنمائی کرے۔ آاپ کے راستے پر آاپ کا ہاتھ پکڑے اور می کے علاوہ کس کی طرف دیکھ سکتے ہیںکہ اللہ تعال

آاپ اپنا راستہ کامیابی آاپ کی �واہش اور کوشش لازمی ذرائع ہیں لیکن اللہ کی مدد اور توفیق یقینی ضمانت ہیں جن سے آاپ کو زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ پر اور نفع کے ساتھ طے کر سکتے ہیں۔ سچے مومن کی حیثیت سے

آان سے زیادہ اہم تر کون سی بھروسہ رکھنا چاہیے۔زندگی کی ہر چیز کے لئے صرف اس کی طرف رخ کرنا چاہئے اور قرآاپ جو کچھ کررہے ہیں ‘ اس پر فخر کا احساس نہ کیجیے۔ ہمیشہ اپنی کمزوریوں اور حدود کا آان کے لئے چیز ہے! قر

شعور رکھیے‘ ایک ایسے کام کے لئے جس کی کوئی مثل نہیں۔

Page 21: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کی طرف جاتے ہوئے عجزو انکسار اور �دا پر مکمل اعتماد اور بھروسے کے احساس کے ساتھ‘ ہر قدم پر اس پس قرآاہنگ کر کی مدد اور سہارے کو طلب کرتے ہوئے تو کل ‘ حمد اور شکر کے احساسات کے ساتھ ‘ زبان اور قلب ہم

آاغاز کیجیے :کے تلاوت کا بسم اللہ الرحمن الرحیم

آایت ‘ آاغاز میں موجود ہے۔ ساتھ ہی دعا کیجیے‘ اللہ ہی سے پناہ۴۱۱یہ میں سے ایک کے سوا تمام سورتوں کے :چاہتے ہو ئے

پر وردگا ر ! جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ہمیں

آال عمران (۔۸: ۳اپنے �زانہ فیض سے رحمت عطا کر‘ تو ہی فیاض حقیقی ہے ) ۳

اپنے قلب کی شرکتآان سے اپنے تعلق کو بلندی کی سطح آاپ قر آاپ کی پوری شخصیت کو شامل ہونا چاہیے۔ اس طرح آان کی تلاوت میں قر

آان پر سچا ایما ن رکھنے والا قرار دیا جائے۔ ’’ وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے آاپ کو قر تک لے جا سکیں گے کہ آاتے ہیں‘‘۔)البقر (۔۰۲:۱۲۱ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لے

قلب کیا ہے؟ آان اس کو قلب کہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب آاپ کا نفس ہے۔ قر آاپ کی شخصیت کا اہم تر حصہ

ملہی کا پہلا مسکن تھا۔ مبارک وحی ا یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ اسے لے کر تمھا رے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تم ان لوگوں میں شامل

(۔۴۹۱ -۶۲:۲۹۱ ۱ہو جاؤ جو �دا کی طرف سے �لق کو متنبہ کرنے والے ہیں )الشعرآاپ اس کام میں اپنے قلب کو آان کی برکتیں اور مسرتیں مکمل طور پر اس وقت حاصل ہوں گی جب آاپ کو تلاوت قر

مکمل طور پر شامل کریں گے۔آارزوؤں ‘ آاپ کے احساسات‘جذبات ‘ محرکا ت ‘ تمناؤں ‘ آاپ کے جسم کا لوتھڑا نہیں ‘بلکہ آانی لغت میں قلب ، قر

( یا سخت ہو کر پتھر جیسے ہو جا تے۹۳:۳۲یا دوں اور توجہات کا مرکز ہے: یہ قلوب ہیں جو نرم پڑجا تے ہیں )الزمر ہیں)البقرہ( ، یہ اندھے ہو جاتے ہیںاور حق کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں)الحج(، ان کا کا م سمجھنا اور استدلال

(۔۰۲:۰۱(۔تما م امراض کی جڑ قلوب میں ہوتی ہے۔ )البقر۰۵:۷۳‘ ق۲۴‘ الحج ۷:۹۷۱کرنا ہوتا ہے۔)الاعراف قلوب ایمان کا مسکن ہوتے ہیں )المائدہ( اور نفاق کا بھی )التوبہ(، یہ قلوب ہی ہیں جو ہر اچھی اور بری بات کا مرکز ہو

آازمائشوں کے مقابلے کی طاقت )التغابن ۳۱:۸۲تے ہیں‘ �واہ یہ قناعت اور سکون ہو )الرعد ‘)۴۲:۱۱‘ )

Page 22: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

می )الحجرات ۸:۳۶(‘ برادرانہ محبت )الانفال ۷۵:۷۲رحم)الحدید (‘ یا شک اور۲۲:۲۳‘ الحج۹۴۰۴(‘تقو آال عمران ۹:۰۴ہچکچاہٹ)التوبہ آا�ری بات یہ ہے کہ ہم۹:۵۱( اور غصہ )التوبہ۳:۶۵۱(‘ پچھتاوے ) ( ہو۔۔۔

آائے گا، نجات کا مستحق درحقیقت دل کے معاملات کے لئے جواب دہ ہوں گے۔ جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر قرار پائے گا۔

جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے(۔۲:۵۲۲ہو، ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا )البقرہ

جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا، نہ اولاد ، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر(۔۸۸:۹۸۔۶۲ہو )الشعرا¥

آاپ کے ساتھ رہے۔ وہ دل نہیں، جو گوشت آاپ کا دل آان کے ساتھ ہیں، آاپ قر آاپ کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ جب تک آاپ کچھ باتوں کا شعور رکھیں اور قلب و جسم کے بعض افعال کا آان قلب کہتا ہے۔ اگر کا ٹکڑا ہے، بلکہ وہ جسے قرآاپ کی دا�لی شخصیت کی مکمل شرکت آان میں �یال رکھیں تو جو سات شرائط پہلے بیان کی گئی ہیں وہ مطالعہ قر

کی بنیا د رکھتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ، کچھ دوسرے اقدامات، دل کی اس شرکت کی کیفیت اور شدت میں �اصااضافہ کردیں گے۔

قلبی دا�لی کیفیات۔آاپ کے قلب پر چھا آاپ کو دا�لی شرکت کی مرحلہ بہ مرحلہ کیفیات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے: کس، طرح حق

جاتا ہے؟آاپ کو حق کا پتا چلتا ہے۔ اول:

آاپ کی زندگی سے متعلق ہے۔ آاپ اسے پہچانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حق ہے اور دوم: آاپ اس حق کو جتنا کثر ت سے یا د رکھ سکتے ہیں یا در کھتے ہیں۔ سوم:

آاپ کی دا�لی شخصیت کی گہرائیوں میں رچ بس جاتا آاپ اسے جذب کرتے ہیں یہاں تک کہ یہ چہارم: آاپ کے اندر ہے۔حق سدا بہار شعوری کیفیت میں ڈھل جاتا ہے ۔ قلب مستقل اس کیفیت میں رہتا ہے۔ جب کوئی حق

کی دنیا میں اس طرح رچ بس جاتا ہے، تو پھر قول و عمل کی دنیا میں باہر نکل پڑتا ہے۔آاپ کی دا�لی آاپ ظاہری طور پر اپنی زبان اور ہاتھ پاؤں سے جو کچھ کرتے ہیں، وہ یہاں یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ

شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی کے اقوال اور اعمال اس کی اندر کی کیفیت کے جھوٹے گواہ ہو سکتے ہیں لیکنآاپ کے شعور پر آاپ کے علم کو مطلوب یہ ہے کہ اندر کی کیفیت ایمان کی طرح قول و فعل میں اپنا اظہار پائے اور

نقش کر کے، اسے ایک مستقل کیفیت میں تبدیل کردے۔

Page 23: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ مذکورہ امور کا لحاظ رکھیں اور ان اصولوں جو اقدامات یہاں تجویز کیے گئے ہیں، اسی صورت میں موثر ہوں گے کہ کی پیروی کریں۔شعور کی حالتیں

آاپ کو نشوونما دینے کی کوشش کرنا چاہیے: کچھ باتوں کو یاد رکھ کر، انھیں شعور کی سات حالتیں ہیں جنھیں آاپ کو اکثر ان کی یاد دلا کر۔ جذب کر کے اور اپنے

آانی معیار دا�لی شرکت کا قرآاپ سے کہیے رول: اپنے :ا

آان کا پڑھنا صحیح معنوں میں تلاوت نہ ہوگا، جب تک میرا اندرونی وجود اس میں اس طرح حصہ نہ لے جس طرح میرا قرآان بہت سے مقامات آان کے ساتھ کیا رویہ ا�تیار کرنا چاہیے؟ قر آاپ کو قر اللہ چاہتا ہے کہ یہ حصہ لے۔ اللہ کیا چاہتا ہے؟

مہ اور ان لوگوں نے جن کے قلوب اس کی گرفت ل اور ان کے صحاب پر �ود بڑی وضاحت سے بتاتا ہے کہ اللہ کے رسوآان پڑھیں تو آایات یاد کرلیں اور جب بھی قر آانی آاپ کوکوشش کرنا چاہیے کہ ایسی قر آان کا اثر لیا۔ میں تھے، کس طرح قر

آایات میں سے کچھ یہ ہیں :ان کو دہرائیں، ان پر غور و فکر کریں۔ ان انا ) انفال رما ہ ای خھم خت رد رزا خہ خت می ما ہھم رلی رع ریت ہل خت رذا ہا رو خھم خب خلو خق خت رل ہج رو خہ مرل رر ال ہک خذ رذا ہا رن ہذی رل رن ا خنو ہم خمو رما ال رن ر (۲: ۸ہا

آایات ان کے سامنے پڑھی سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔

ہہ )الزم مرل ہر ال ہذک ملی ہا خھم خب خلو خق رو خھم خد خلو خج خن ہلی رت ر رم خث خھم ج خرب رر رن رشو ریخ رن ہذی رل خد ا خلو خج خہ ہمن خر ہع رش (۳۲: ۹۳رتق اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے

دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ادا ررج خس ہن رقا را ذ ہلل رن خررو ہخ ری ہھم رلی رع ملی خیت رذا ہا o اا خعول رمف رل رنا ہرب رر خد روع رن رکا ہ ان آا رن ہرب رر رن مح خسب رن خلو خقو ری رو ر o ہن رقا راذ ہ لل رن خررو ہخ ری رو

اا خشوع خ� خھم خد ہزی ری رو رن خکو ریب o ( ۹۰۱ ۷۱۷۰۱بنی اسرائیل

انھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کاوعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا �شوع اور بڑھ جاتا ہے۔

اریا ہک خب رو ر ادا ررج خس خرروا ر� ہن مم رررح خت ال می ما ہھم رلی رع ملی ختت رذا ہا o ( ۸۵ ۹۱مریم )

آایات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی ہرق ) المائدہ رح رن ال ہم خفوا رر رع ررما ہم ہع رردم رن ال ہم خض ہفی رت خھم رن خی راع مری آ رت ہل خسو ررر رلی ال ہا رل ہر خان آا رم خعوا ہم رس رذا ہا (۵:۳۸رو

آانسوؤں آانکھیں پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسولسے تر ہوجاتی ہیں۔

Page 24: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

اللہ حاضر و ناظر ہےآاپ سے کہیے :دوم: اپنے

میں اللہ کے حضور میں ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔آاپ اس کے آان کی تلاوت کر رہے ہیں، آاپ قر آاپ کو اس حقیقت کا ہمیشہ ادراک رہنا چاہیے کہ جن لمحات میں

آاپ جہاں بھی ہوں، آاپ کے ساتھ ہے، آاپ کے لئے نازل کیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہمیشہ حضور میں ہیں جس نے یہ کلام آاپ جو کچھ بھی کر رہے ہوں، اس کا علم ہر شے پر محیط ہے۔

آان میں اس بارے میں جو کچھ فرمایا ہے‘ اسے آاپ کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ اللہ نے قر شعور کی یہ حالت آایا آان کی تلاوت کرنے والے ہوں ‘ یا کر رہے ہوں تو اس کے دوران ان آاپ قر آایا ت کو یاد کر لیجئے اور جب سنیے۔ ان

آان کی تلاوت میں ‘ بلکہ آاپ کو جس چیز سے زیادہ مدد ملے گی۔۔۔ نہ صرف قر ت کو دہرایئے اور ان پر غور کیجئے۔ اس کے مطابق زندگی گزارنے میں ۔۔۔اور اس حقیقت کو جتنا زیا دہ ممکن ہو یا د رکھنا اور اس پر غور کرنا ہے۔آارام کر رہے ہوں یا آاپ تنہا ہوں یا لوگوں کے ساتھ ہوں ‘ �اموش ہوں یا محوگفتگو ہوں ‘ گھر پر ہوں یا کام پر ہوں ‘

آاواز سے کہیے: اللہ تعالی یہاں ہے میرے ساتھ‘ دیکھ رہا ہے‘ سن رہا ہے‘ جانتا ہے‘ مصروف ہوں ‘ �اموشی سے یا بلند آایا ت کو یاد کیجیے آان کی ان :سب محفوظ کر رہا ہے۔۔۔ اور قر

رر ہصی ر ب رن خلو رم رتع رما ہب خہ مرل روال ختم خکن رما رن رای خکم رع رم رو خھ رو o ( ۷۵:۴الحدید )

وہ تمھارے ساتھ ہے‘ جہاں بھی تم ہو۔ اور جو کام بھی تم کرتے ہو اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ہد )ق ہری رو ہل ال رحب ہمن ہہ رلی ہا خب رر راق خن رنح (۰۵:۶۱رو

ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔رما رن رای خھم رع رم رو خھ ررلا ہا رر رث را ک آا رل رو رک ہل مذ ہمن منی راد آا ہل رو خھم خس ہد رسا خھورابعھم ولا �مستہ الا ھو ررلا ہ ا ہہ رثت مل رث موی ررنج ہمن رن خکو ری رما

خنو ) المجا دلہ (۸۵:۱رکاآادمیوں میں سرگوشی ہو آادمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو ۔ یا پانچ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین اور ان میں چھٹا اللہ نہ ہو۔ �فیہ با ت کر نے والے �واہ اس سے کم ہوں یا زیادہ‘ جہاں کہیں بھی وہ ہوں ‘ اللہ ان کے

ساتھ ہوتا ہے۔ہ مہ مط مری ) را رو رمع راس آا رم خک رع رم ہنی رن ر (۰۲:۶۴ا

می و ہارون(ساتھ ہوں‘ سب کچھ دیکھ رہا ہوں‘ سن رہا ہوں ۔ میں تمھارے )موسرنا )الطور ہن خی راع رب رک ررن ہا (۲۵:۸۴رف

تم ہماری نگاہ میں ہو۔میسن ہن۔) ہبی خرم ہم رما ہا ری ہف خنہ رصی راح ہ¥ رشی ررل خک رو خھم، رر رثا روا خمو ا ررد رق رما خب خت رنک رو متی رمو ہحی ال خن خن رنح رنا ر (۶۳:۲۱ہا

Page 25: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

ہم یقینا ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں‘ جو کچھ افعال انھوں نے کیے ہیں‘ وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں اورآاثا ر انھوں نے پیچھے چھوڑے وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں۔ جو کچھ

می ہر جگہ ہے اور ہر چیز دیکھ رہا ہے نہ آایت یہ ہے۔ یہ اس حقیقت کو کہ اللہ تعال اس حوالے سے مرکزی نوعیت کی آان کی تلاوت کے عمل کا تذکرہ کرتی ہے۔ صرف پر زور طریقے پر بیان کرتی ہے بلکہ �اص طور پر‘ قر

رعن خب خز ریع رما رو ہہ۔ ہفی رن خضو ہفی خت ہاذ ادا خشھو خکم رلی رع رنا ر خک ررلا ہا ہل رم رع ہمن رن خلو رم رتع را ررو ل ہن ما آ خقر ہمن خلو امنہ رتت رما ررو ہن رشا ہفی رن خکو رت رما رو ہ¬ رر ر رز ہل رقا رمث ہ ہمن رک ہرب رر ر

ہن۔)یونس ہبی خرم ہب مت ہک ہفی ررلا ہا رر رب راک آا رل رو رک ہل مذ ہمن رر رغ راص رلا رو ہ¥ آا رم ررس ہ فی ال رلا رو ہض را ر (۰۱:۱۶ہفی الآان میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو اور لوگو ! تم جو کچھ بھی کرتے ہو ی ! تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قر اے نب

آاسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے‘ نہ چھوٹی نہ بڑی‘ اس سب کے دوران ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔کوئی ذرہ برابر چیز جو تمھارے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔

آان کی تلاوت کرتے ہو‘ میں تمھارے پا س ہوتا ہوں ۔ یہ بات کبھی نہ بھولیے۔ می ہمیں �ود بتاتا ہے: جب تم قر اللہ تعال ہم کو می ترین کمال حاصل کرنے کا راستہ اللہ کی عبادت ہے۔ اللہ کے رسول آان عبادت کا ایک عمل ہے۔ اعل تلاوت قر

آانکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ‘ تو یہ بتاتے ہیں: اللہ کی عبادت کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے اپنی آاپ اللہ کے پاس حاضر ہیں‘ بلکہ جب تصور کرسکتے ہو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ علا وہ ازیں یا درکھیے کہ نہ صرف

آاپ کو یا د کرتا ہے۔ آان کی تلاوت کرتے ہیں وہ آاپ قر تک خکم )البقرہ خکر راذ ہنی خرو خک (۲:۲۵۱رفاذ

تم مجھے یا د رکھو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔آان کی تلاوت کرنا ہے۔ بلا شبہ اللہ کو یا د کرنے کا بہترین طریقہ قر

­آ اللہ سے سنناآاپ سے کہیے :سوم: اپنے !میں اللہ سے سن رہا ہوں

آاپ یہ سوچنے کی کوشش کریں کہ اپنی اندرونی ذات کو شامل کرنے کی اپنی کوشش کے ایک حصے کے طور پر‘ آاپ اسے دیکھ نہیں سکتے آان اللہ کا کلام ہے۔ جس طرح آان کو �ود نازل کرنے والے سے سن رہے ہیں۔ قر آاپ قر جیسے

آاپ اسے سن نہیں سکتے جب کہ وہ بول رہا ہو۔ چھپے ہوئے آاپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کہ وہ ہر وقت آایئے۔ جوں آاپ کو بولنے والے کے قریب لے آاواز کو پس منظر میں جانے دیجیے‘ اور اپنے الفاظ‘اور تلاوت کرنے والے کی

آاپ کے‘اس کے حضور میں ہونے کے شعور میں اضافہ ہوگا‘ احساس بیدار ہوگا اور زیادہ مضبو ط ہوگا۔ جوں

Page 26: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان ­ اپنی تصنیف احیا ¥ العلوم میں ایک شخص کے بارے میں بیا ن کرتے ہیں کہ اس نے کہا : ’’ میں نے قر اما م غزالی ل اللہ اسے اپنے صحابہ کو کی تلاوت کی لیکن اس میں مٹھاس نہیں پائی۔ پھر میں نے اس طرح پڑھا کہ جیسے رسو

آان کو اس طرح پڑھا جیسے کہ میں اسے جبرئیل سے سن رہا ہوں جب آاگے بڑھا اور قر سنارہے ہوں ۔ پھر میں ایک قدم اور آاگے بڑھایا۔۔۔۔میں نے اس طرح اس کی ل اللہ کو پہنچا رہے تھے۔ پھر �دا نے مجھے ایک قدم اور کہ وہ اسے رسو

تلاوت شروع کر دی جیسے کہ میں اسے �ود بولنے والے سے سن رہا ہوں‘‘۔آان مکمل طور پر چھا آاپ کی اندورنی ذات پر ‘ قر آاپ کے اندر ایسی مسر ت اور مٹھا س بھر دیں گے کہ یہ احساسات

جائے گا۔اللہ کا براہ راست �طاب

آاپ سے کہیے :چہارم : اپنے

کے ذریعے براہ راست �طا ب کرتا ہے۔ می مجھ سے اپنے رسول آان کی تلاوت کرتا ہوں ‘ اللہ تعال جب قرآاپ تک یہ بالواسطہ طور پر مختلف آان تاریخ کے ایک �اص مرحلے میں �اص وقت پر نازل کیا گیا تھا‘ اور بلاشبہ ‘ قر

آان‘ اللہ حی و قیوم کا کلا م ہے۔ جو ابد مقامات پر ‘ مختلف زمانوں میں ‘ مختلف افراد کے ذریعے پہنچا ہے۔۔۔۔لیکن قر تک کے لئے ہے اور ہر شخص سے �طاب کرتا ہے۔ اس لئے درمیانی واسطوں کو تھوڑی دیر کے لئے پس منظر میں جانے

آاپ سے‘ ایک فرد اور ایک اجتماع کے جزوکی حیثیت سے آان کی اس طرح تلاوت کیجئے کہ جیسے یہ دیجیے اور قرآاپ کے اپنے زمانے میں ‘ مخاطب ہے۔

آاپ پڑھ رہے ہیں ‘ اس کی گرفت میں آاپ کے قلب کو‘ جو کچھ اس طرح براہ راست مخاطب ہونے کا محض تصور ہی رکھے گا۔

آاپ کے لیے ہر لفظ آاپ سے کہیے :پنجم: اپنے

آان کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ قرآاپ کو اس کا ہر پیغا م اس طرح لینا چاہیئے جیسے آاپ سے مخاطب ہے ‘ تو آاج یہ آان ابد تک کے لئے ہے‘ اور اگر قرآاپ کی زندگی اور معاملا ت سے با لکلیہ اور فوری طور پر متعلق ہے۔۔۔ �واہ یہ کوئی معلومات ہوں‘ کردار یا مکالمہ یہ

ہو‘ وعدہ یا نتیجہ ہو‘ امر یا نہی ہو ‘ یا کسی اصول و ہدایت کا بیان ہو۔آاسکتے ہیں کہ اپنے آان زندہ‘ با مقصد ‘ اور حرکی ہو جائے گی۔ کچھ مسائل اس میں پیش آاپ کی تلاوت قر اس طرح سے مختلف افراد کے لئے جو ہدایات ہیں‘ انھیں اپنی ذات اور مسائل کے لئے کس طرح قابل اطلاق بنایا جائے؟ لیکن

درست اور مخلصانہ کوشش سے یہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

Page 27: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

اللہ سے بات چیتآاپ سے کہیے :ششم: اپنے

جب میں تلاوت کرتا ہوں تو اللہ سے بات چیت کررہا ہوتا ہوں ۔آاپ کے ہونٹوں پر ہوتے آاپ کے لیے ہے۔ اس کے الفاظ آاپ سے �طاب ہے‘ آان اللہ کا کلام ہے‘ قر

آاپ کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔ یہ آاپ کے دل پر نقش ہوتے ہیں ‘ لیکن یہ اللہ اور انسان کے درمیان ‘ اللہ اور ہیں ‘ آاپ کی یا اللہ کی مکالمہ مختلف شکلیں ا�تیار کرتا ہے۔ یہ واضح بھی ہو سکتا ہے‘ اور اس مفہوم میں �فی بھی کہ

طرف سے کوئی جواب مضمر ہو۔ اللہ نے ایک حدیث قدسی میں نہا یت �وب صورت مثال دی ہے۔ یہ مضمر بات چیت کس طرح ہوتی ہے؟ رسول

میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ نصف میرے لئے‘ اور نصف اس کے لئے ہے۔ میر ا بندہ وہ پائے گا جو مانگے گا۔ جب بندہ کہتا ہے: الحمداللہ رب العلمین ۔ اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ۔ جب بندہ کہتا ہے : الرحمن الرحیم۔ اللہ فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری عظمت بیان کی ۔ جب

بندہ کہتا ہے۔ ملک یوم الدین۔ اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری شان بیان کی ۔ یہ میرا حصہ ہے۔ جب بندہ کہتا ہے۔ایا ک نعبدوایاک تستعین یہ میرے اور اس کے درمیان ہے جو مانگے گا اس کو دیا جائے گا۔ جب وہ کہتا ہے۔

اھدناالصراطالمستقیم‘ اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کا حصہ ہے۔ میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے ما نگا ہے۔)مسلم ترمذی‘ احمد(۔

آایات کے مضمون اورپیغام کا جواب دیا کرتے تھے۔ اپنے کس طرح مختلف آاگے چل کر دیکھیں گے کہ رسول آاپ آان کو غیر معمولی حسن اور گہرائی عطا کرے گا۔ آاپ کی تلاوت قر �الق و مالک سے اس طرح کی گفتگو کا شعور ‘

اللہ کے انعامات کی امید اور بھروساآاپ سے کہیے :ھفتم: اپنے

آان کی تلاوت اور اس پر می مجھے ان سب انعامات سے نواز ے گا جن کا اس نے اپنے رسول کے ذریعے قر یقینا اللہ تعالعمل کرنے پر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

آان میں بہت سے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ زندگی میں روحانی انعامات : ہدایت‘ رحم ‘علم ‘ دانش‘ شفا‘ ذکر‘ قر نور اور ساتھ ہی دنیاوی انعامات : عزت و وقار‘ �وش حالی وفارغ البالی اور فتح و کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے۔ ابدی

آان پر عمل کر نے والوں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ رحمتیں مثلا مغفرت ‘ جنت او ر رضوان بھی قر نے بہت سے دوسر ے انعا مات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ حدیث کی کوئی کتاب۔۔۔ بخاری‘ مسلم‘ اللہ کے رسول

آاپ کو وہا ں مل جائیں گے۔ ان میں آان سے متعلق ابواب کا مطالعہ کیجئے‘ یہ مشکوہ ریاض الصالحین۔۔۔لیجئے اور قرآا�ر میں ۔ مثال کے طور پر :سے کچھ اس کتا ب میں ملیں گے‘ �صوصا

Page 28: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آا�رت کے روز آان کی تلاوت کر و کیوں کہ یہ آان کو سیکھے اور سکھائے) بخاری(۔ قر تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآان سے زیادہ نہ ہوگا۔ )شرح آائے گا)مسلم(۔ کسی شفاعت کرنے والے کا مرتبہ قر اپنے پڑھنے والوں کا مدعی بن کر

آایت پڑھنے تک وہ بلندی آا�ری آان پڑھنے کے لئے کہا جا ئے گا اور آان کے ساتھی سے قر الاحیائ(۔ قیامت کے روز قر کی طرف سفر جاری رکھے گا )ابوداود(۔ ہر پڑھے ہوئے لفظ کے بدلے دس گنا اجر ملے گا ) تر مذی(۔اس طر ح کے

جتنے زیا دہ وعدے اپنے حافظے میں محفوظ کرنا ممکن ہیں‘کر لیجئے‘ اور جب بھی ممکن ہو جو حصے متعلق ہوں ‘می سے امید رکھیے‘اعتماد کیجئے اور اپنے لئے ان وعدوں کے ایفا کی دعا کیجئے۔ اس طرح انھیں یا د کریں ۔ اللہ تعالآاپ کے اعما ل کی حقیقی قدرو قیمت بہت زیادہ بڑھ جا تی اا کہتی ہے( اا واحتساب کے اقدام سے )جسے حدیث ایمان

نیکیاں ہیں۔ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک ا جر کی امید‘ اور وعدے پر اعتبا ر۰۴ہے۔ ایک حدیث کے مطابق می نیکی اتنی معمولی ہے جیسے کرتے ہوئے انجام دیتا ہے تو اللہ اسے جنت میں دا�ل کردے گا۔ ان میں سب سے اعل

پڑوس کے ہاں کچھ دودھ تحفہ بھیجنا )بخاری(۔قلب اور بد ن کے افعال

آان میں جذب کرنے میں بہت مدگا ر آاپ کی اندرونی ذات کو تلاوت قر قلب اور بدن کے سات افعال ایسے ہیں جو آاپ کر رہے ہوں گے ‘ لیکن ان کا مکمل فائدہ اس لئے حاصل نہ کرپا رہے ہوں ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ان میں سے بعض

آاپ ان سے کیا حا صل آاپ کو اس کا شعور نہ ہو گا کہ آاپ ان کو منا سب انداز سے نہ کر رہے ہوں گے یا گے کہ یا تو آاپ کو انھیں سیکھ لینا چا ہیے۔ آاپ نہیں کررہے ہو ں گے ۔ یہ افعال اہم ہیں اور کر سکتے ہیں ۔ کچھ

آان کو دے رہے ہوں گے۔ ان آاپ اس وقت تلاوت قر ان میں سے کسی کے لئے بھی اس سے زیا دہ وقت درکار نہ ہوگا جتنا کے لئے صرف مزید توجہ کی زیادہ ارتکاز کی‘ شعوری طور پر کچھ اقدام کرنے کی اور منا سب انداز سے کرنے کی

ضرورت ہے۔آاپ کے دل کا ردعمل

آان جو کچھ کہے ‘ وہ اس کا جواب دے۔ اول : اپنے قلب کو قلب بیدار بنا لیں کہ قرآان میں جو کچھ بھی پڑھیں ‘ اسے اپنے دل تک جانے دیں تاکہ وہ اس میں نئی زندگی اور روح پھونک دے ۔ آاپ قر اپنے دل کو کلام اللہ کے بیاں کے مطابق ان تمام کیفیات سے گزرنے دیں :حمد ‘ شکر‘ حیرت ‘ رعب‘ محبت ‘

آاپ کی آاپ یہ نہ کریں گے‘ اعتماد ‘ صبرامید و �وف ‘ رنج و حسرت‘ تدبر‘ یاددہانی‘اطاعت ‘تسلیم ورضا۔۔۔ جب تک آائے گا۔ آاپ کے ہونٹوں کی حرکت سے زیادہ کچھ نہ آاپ کے حصے میں تلاوت سے‘

:مثال کے طو ر پرآاپ کا دل شکر ‘ محبت‘ رعب اور دوسری مناسب کیفیات سے بھر آاپ اللہ کا نام اور اس کی صفات سنیں ‘ جب

جانا چاہیے۔

Page 29: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

O آارزو بیدار ہوجانی چایئے آاپ کے دل میں ان کی پیروی کرنے کی آاپ اللہ کے پیغمبر وں کا تذکرہ سنیں جب اور ان لوگوں سے نفرت ہو جنھوں نے ان کی مخالفت کی۔

O آارزو کرے‘جہنم میں ‘ ایک لمحہ کے لئے ہی آاپ کا دل جنت کی آا�رت کا ذکر پڑھیں ‘ تو آاپ روز جب آاپ فاسق قوموں اور افراد کے بارے میں پڑھیں جو سہی ‘ پھینکے جا نے کے تصور ہی سے کا نپ کانپ جا ئے۔ جب

آاپ ان جیسا بننے کو سخت نا پسند کریں۔ گمراہ ہوئے اور اللہ کے عذاب کے مستحق ٹھہرے‘ O آاپ ان جیسا آاپ ان متقی افراد کے بارے میں پڑھیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے‘ اور انعام سے نوازتا ہے‘ جب

بننا چاہیں۔O آا�ر ت میں آاپ مغفر ت اور رحمت کے وعدے پڑھیں ‘ اس دنیا میں برکت و عزت کے وعدے پڑہیں ‘ جب آاپ کا دل ان مقاصدکے لئے کام کرنے اور ان کا مستحق بننے کے لئے اس کی رضا اور قرب کے وعدے پڑھیں ‘ تو

تڑپے۔O آان سے لا تعلق ہیں ‘ جو اسے قبول نہں کرتے ‘ جو اس کے مطابق زندگی آاپ ان کا ذکرپڑھیں ‘ جو قر جب

آاپ عزم کریں کہ ایسے نہیں ہوں گے۔ آاپ ان جیسے نہ ہوجائیں، اور آائے کہ آاپ کو �وف نہیں گزارتے ،O آاپ اپنے عزم کو آاپ اس کی پکار سنیں کہ اللہ سے اپنا عہد پورا کرو، اس کی راہ میں جدوجہد کرو، تو جب

آاپ کے پاس ہے، اس کے حضور پیش کردیں۔ تازہ کریں اور جو کچھ آاپ سے آاپ کے اندر کوئی چنگاری روشن کردے تو قلب میں ایسی کیفیات آایت بعض اوقات جب کو ئی �اص لفظ یا آاپ کوئی مناسب آاپ کو ایسی کیفیات پیدا کرنے کے لیے ارادی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر آاپ پیدا ہوتی ہیں۔ بعض وقت

اا نہیں پاتے ، تو ذرا ٹھہر جائیں، جو حصہ تلاوت کر رہے تھے ،ردعمل فورآایت کو بار بار آاپ پالیں۔ اپنے دل کے تقاضے پر کسی �اص اسے بار بار تلاوت کریں یہاں تک کہ یہ کیفیت

آاپ آاپ ارادہ کر کے دہرائیں، وقفہ کریں، اور غور و فکر کریں تو آاپ کے اندر سے �واہش ہوگی، لیکن اگر دہرانے کی آاپ کے دل کی پیاس اور طلب بڑھ گئی ہے۔ محسوس کریں گے کہ

نے ایک دفعہ کہا :اس کیفیت کا حصول اتنا اہم ہے کہ اللہ کے رسولآاہنگ نہ ہوں تو تم درحقیقت تلاوت آاہنگ ہوں۔ اگر یہ ہم آان کو صرف اس صورت میں پڑھو کہ تمھارے دل اس سے ہم قر

نہیں کررہے ہو، اس لیے اٹھ جاؤ اور پڑھنا چھوڑ دو)بخاری، مسلم(۔آاپ کی زبان کا ردعمل

آاپ کی زبان سے الفاظ میں ہونا چاہیے۔ آان میں جو کچھ پڑھیں، اس پر مناسب ردعمل کا اظہار آاپ قر دوم:

Page 30: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان جو اندرونی احساسات پیدا کرتا ہے، اس کے اظہار کے لیے مناسب زبان پر الفاظ بے سا�تہ جاری ہو جانا چاہییں۔ قرآاوازیں، آاتے ہیں۔ مسرت یا پریشانی کی آاجاتے ہیں، جس طرح وہ دوسرے جذبات کے لیے آاپ زبان پر کلمات اپنے آائیں، تو کوشش کر کے لائیے۔ آاپ زبان پر نہ آاپ سے شکر ، محبت ،�وف اور کرب کے الفاظ۔۔۔ لیکن اگر یہ

مہ بیان کرتے ہیں آان اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ حضرت حذیف رات کے وقت قر :رسول اللہآایت میں آاغاز کیا۔ جب آان کی تلاوت کا آاپ نے سورہ بقرہ سے قر ل اللہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ ایک رات میں نے رسو

اس سے اللہ کی پناہ چاہتے۔اللہ آاپ آاتا، اس کو طلب کرتے، اللہ کے عذاب کا ذکر آاپ آاتا ، اللہ کی رحمت کا ذکر اس کی عظمت بیان کرتے )سبحان اللہ کہہ کر( )مسلم(۔ آاپ آاتا کی شان کاذکر

ل اللہ کے ساتھ حضرت میمونہ کے حجرے میں ایسا ہی بیان حضرت عبداللہ بن عباس کا ہے، جنھوں نے ایک دفعہ رسوتہجد کی نماز پڑھی جو حضرت عبداللہ بن عباس کی �الہ تھیں)بخاری، مسلم(۔

آا�ری اللہ نے ہدایت دی ہے۔ مثال کے طور پر جو سورہ التین کی آایات پر متعین ردعمل ہوناچاہیے، جیسا کہ رسول کچھ مشھدین۔ بے شک اور می ذلک من ال می وانا عل رن کی تلاوت کرے، تو یہ جواب دے: بل ہمی ہک مح ہم ال رک راح ہب خ مرلہ رس ال رلی را آایت:

ملی ۔کہے اور۵۷میں اس پر گواہ ہوں۔ جو سورہ القیامہ ) متی پڑھے توب رمو ری ال ہح خری ران ملی رع ہر ہد مق ہب رک ہل مذ رس رلی را آایت: آا�ری ( کی ۷۷جو المرسلات ) آایت: فبای حدیث بعدہ یومنون۔ پڑھے تو کہے: امناباللہ )ابو داؤد(۔ روایت ہے کہ رسول آا�ری ( کی

ہن۔کہا تو جنوں نے۵۵اللہ نے فرمایا کہ جب انھوں نے جنوں کو سورہ رحمن ) مب رز رک خت رما خک رب رر ہ¥ آا رال ری ہ را ہب رف ( سنائی تو جب بھی آاپ کے لیے ہیں۔ آاپ کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ ساری تعریفیں جواب دیا: ہم

آاپ کے لیے یہ ل اللہ کی مثال اور تعلیمات سے جو کچھ معلوم ہے، اس میں سے یہ چند بیان کی گئی ہیں۔ ہمیں رسو مشکل نہ ہونا چاہیے کہ تھوڑی سی محنت سے ان مثالوں کی روشنی میں تعریف ، تائید انکار یا تسلیم کے لیے �ود اپنے

مہ الا اللہ کہا کریں اور توبہ کریں، استغفار کریں، اس کے ردعمل کا تعین کریں۔۔۔ سبحان اللہ،الحمدللہ، اللہ اکبر، لاالآاگ سے پناہ مانگیں، اور جنت میں اس کے قرب کی �واہش کریں۔ غضب اور دوزخ کی

آانسو آانکھوں میں آاپ کی آان میں آاپ نے قر آانسو ، جو کچھ آانکھوں کے راستے بہنے دیجیے، �وشی یا �وف کے سوم:اپنے دل کے جذبات کو

!پڑھا ہے، اس کا جوابآانکھوں میں آاپ کی آاپ تلاوت کر رہے ہیں، اس کے مطابق کیفیات کی گرفت میں ہے تو آاپ کا دل، جو کچھ اگر

آانکھیں �شک رہ سکتی ہیں۔ ہمیشہ �وف کی آانے چاہییں۔ صرف ایک غیر متوجہ ، بنجر یا مردہ دل کے ساتھ ہی آانسو وجہ سے نہیں، بلکہ سچائی پانے پر �وشی میں، اس کی رحمت و کرم کا احساس ہونے پر، اس

آانکھوں کی اس شرکت پر زور دیتا ہے۔ آان آانکھیں تر ہوجاتی ہیں۔ قر کے وعدے پورے ہوتے دیکھ کر بھی آانسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں)المائدہ آانکھیں (۔۵:۳۸تم دیکھتے ہوکہ حق شناسی کے اثر سے ان کی

Page 31: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

(۔۷۱:۹۰۱وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر جاتے ہیں)بنی اسرائیل آان پڑھتے تھے تو اکثر روتے آان کی حقیقت کا احساس رکھتے تھے جب قر م اور وہ لوگ جو قر ، صحابہ کرام رسول اکرم

آان کی تلاوت کرو تو اپنے کو غم زدہ بناؤ )ابو آان حزن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، جب تم قر ل اللہ نے فرمایا: قر تھے۔ رسوآائے، تو کوشش کر کے آاپ رونا نہ آان کی تلاوت کرو اور روؤ۔ اگراپنے می،ابو نعیم(۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق: قر یعل

روؤ)ابن ماجہ(۔آانکھوں میں آاپ سے کچھ کہہ رہاہے تو آان کیا کہہ رہا ہے، اور تصور کریں کہ آاپ غور کریں اور سوچیں کہ قر ایک دفعہ

آاپ پر ڈالتا ہے، آان آاپ ان بھاری ذمہ داریوں کا احساس کریں جو قر آاکر ، ر�ساروں پر بہتے دیر نہیں لگے گی۔ اگر آانسو آا واز بلند روئیں گے۔ آاپ ب آاپ تک پہنچاتا ہے، تو آان اور ان بشارتوں اور وعیدوں کا تصور کریں جو قر

آاپ کے جسم کے اندازآاپ کے احترام ، وارفتگی اور تسلیم و چھارم : ایسا ظاہر ی انداز ا�تیار کیجیے جس سے اپنے مالک کے کلام کے لیے

رضا کی کیفیات کا اظہار ہوتا ہے۔آان اس طرح کے انداز کے بارے میں متعدد مقامات پر بیان کرتاہے۔ سچے صاحب ایمان ، زمین پر پیشانی ٹیک دیتے قر

ہیں، سجدہ کرتے ہیں، �اموش ہوجاتے ہیںاور سنتے ہیں، جب تلاوت کرتے ہیں تو ان کی کھالیں نرم پڑجاتی ہیںاور کانپنےآاپ جو کچھ پڑھ آایات کی تلاوت پر سجدہ تلاوت کرنے کا حکم صاف طور پر بتاتا ہے کہ آان کی بعض لگتی ہیں۔ قر

رہے ہیں، جسم سے اس کا اظہار ہوناچاہیے۔جسم کے انداز کیوں اہم ہیں؟

انسان کا ظاہر اس کے باطن پر ، غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم کی حاضری ، دل کو بھی حاضر رکھتیآاپ کے جسم کا رویہ اس رویے سے بالکل مختلف ہونا چاہیے جو ایک عام کتاب کا آان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہے۔ قر

آاداب تجویز کیے گئے ہیں۔ مطالعہ کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ اسی لیے تلاوت کے لیے بہت سے آاواز میں پڑھیں ، قبلہ رو ہوں، سر جھکا ہوا ہو۔ آاپ وضو کیے ہوئے ہوں، پر سکون ہوں، نرم ­ کہتے ہیں کہ امام غزالی

لاابالی انداز سے نہ بیٹھیے بلکہ اس طرح بیٹھے جس طرح اپنے استاد کے سامنے بیٹھتے ہیں۔­ی کچھ مزید اضافہ کرتے ہیں: منہ کو اچھی طرح صاف کرنا چا ہیے۔ جگہ پاک صاف ہو، چہرے کتاب الاذکارمیں نوو

کا رخ قبلے کی طرف ہو، اور جس سے عاجزی اور �ودسپردگی کا اظہار ہو۔ترتیل کے ساتھ تلاوت آان کو ترتیل سے پڑھیے۔ پنجم: قر

Page 32: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

ہماری زبان کا کوئی ایک لفظ ترتیل کا مکمل مفہوم ادا نہیں کرسکتا۔ عربی میں ا س کا مطلب ہے کہ کسی قسم کی جلدی کے بغیر ، واضح طور پر ، سکون سے، نپے تلے لہجے میں، غور و فکر کے ساتھ۔۔۔ جس میں زبان ، دل اور

آاہنگ ہوں ۔ اعضاے جسمانی سب مکمل طور پر ہم ل کو بالکل ابتدا¥ میں اس وقت دی جب انھیں یہ تلاوت قرن کا وہ مطلوب طریقہ ہے جس کی ہدایت اللہ نے اپنے رسو

آان پڑھنے کا حکم دیا گیا )المزمل آان کو بتدریح مرحلہ بہ۳۷:۴رات کا بیش تر حصہ نماز میں کھڑے ہو کر قر ( ۔ قر مرحلہ نازل کرنے کی حکمت اللہ نے یہ بیان کی: تاکہ ہم اس کو اچھی طرح تمھارے ذہن

(۔۵۲:۲۳نشین کرتے رہیں )الفرقانآان سے جوڑنے اور قوت اور زور پیداکرنے میں ترتیل کا اہم حصہ ہے۔ جلدی جلدی پڑھنے کے مقابلے میں دل کو تلاوت قر ترتیل سے پڑھنے میں رعب و جلال کا اظہار ہوتا ہے، غور و فکر اور تدبر کے لیے موقع ملتا ہے، اور روح و وجدان پر انمٹ

نقش قائم ہوتا ہے۔آال عمران آان پڑھنے کے مقابلے میں سورہ بقرہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں جلدی جلدی مکمل قرآال عمران کے مقابلے میں القارعہ اور الزلزال ترتیل اور تدبر کے کو تر تیل سے پڑھنا اپنے لیے بہتر سمجھتا ہوں یا البقرہ اور

ساتھ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔آاہنگی شامل ہے، بلکہ ساتھ ہی بعض الفاظ ترتیل میں نہ صرف سکون، وضاحت ، وقفے ، تدبر اور جسم و روح کی ہم آایت میں جذب ہوکر یک جان ہوجاتا ہے، آایات کی بار بار تلاوت کی لازمی تحریک ہوتی ہے۔ جب دل کسی �اص اور

تو بار بار پڑھتے ہوئے، ہر دفعہ ایک نیا ذائقہ اور لطف محسوس ہوتا ہے۔ پھر جیساکہ ہم نے کہا ہے بار بار کی تلاوت سےآاپ تلاوت کر رہے ہیں۔ آاہنگ ہوجاتی ہے، جس کی دل کی کیفیت اس مضمون سے ہم

نے ایک دفعہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آاپ کے بارے میں روایت ہے کہ دفعہ دہرائی)احیا¥ العلوم( ۔ ایک۰۲رسول اللہخم )المائدہ ہکی رح رزال ہزی رع رت ال ران رک ررن ہا رف خھم رل ہفر رتغ ہان رو رکج خد ربا ہع خھم رن ر ہا رف خھم ہب ہرذ رع خت ہان آایت بار بار پڑھتے رہے: آاپ پوری رات یہ دفعہ

آاپ غالب اور دانا ہیں )نسائی،۵:۸۱۱ آاپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آاپ انھیں سزا دیں تو وہ (۔ اب اگر ابن ماجہ(۔

آاج کے دن تم الگ آایت بار بار پڑھتے رہے: وامتا زو الیوم، ایھا المجرمون اے مجرمو! م بن جبیرایک دفعہ یہ حضرت سعیدآانسو بہاتے رہے )احیا¥ العلوم(۔ ہوجاؤ اور روتے رہے،

تزکیہ نفسششم: جس حد تک ممکن ہو، اپنے کو پاک کیجیے۔

Page 33: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

رن ۔)الواقعہ خرو ررھ رط خم ررلا ال ہا خ خرسہ رم ری رلا آان کو چھونے کا حق رکھتے ہیں: (۔۶۵:۹۷آاپ جانتے ہیں کہ صرف پاک افراد ہی قر آایت کو لفظی مفہوم میں لیا جائے تو اس کا مطلب رسمی طہارت ہے۔ احادیث اور اجما ع سے یہ ثابت ہے آانی اس قر

کہ تلاوت کے لیے وضو کے ذریعے طہارت حاصل کی جاتی ہے۔آاپ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ نیت جسم اور لباس اور جگہ کی صفائی کے علاوہ طہارت کے کئی دوسرے پہلو ہیں۔ آان اور ارادے کی پاکی کتنی اہم ہے۔ قلب اور اعضا¥ و جوارح کی ان گناہوں سے پاکی برابر کی اہمیت رکھتی ہے جو قر

نازل کرنے والے کے غضب کا سبب بن سکتے ہیں۔آاپ کوشش کریں کہ جتنا ان سے بچ سکتے ہیں ، بچیں۔ کوئی انسان گناہوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکتا۔ لیکن آاپ سے کچھ گناہ سر زد ہوجائیں تو جتنی جلد ممکن ہوسکے، ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیجیے اور اور اگر

آان کر رہے ہیں، تو حرام کھانا نہیں کھارہے، آاپ تلاوت قر اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ یہ بھی �یال رکھیے کہ جب آاپ آاپ کا دل اتنا ہی آاپ جتنے پاک ہوں گے، حرام لباس نہیں پہن رہے اور حرام مال سے ضروریات پوری نہیں کر رہے۔ آاپ ان لوگوں کی طرح آان کے لیے زیادہ کھلے گا، اسے سمجھے گااور اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ اور کا ساتھ دے گا، قر

ہن۔ خنو خک ررم ہب مت ہک ہفی ہریم۔ رک آان خقر رل خہ رن ر ہا آان کو جو محفوظ کتاب میں ثبت ہے ) زیادہ پاک /بلند ہوجائیں گے جو بلند پایہ قر( چھونے کا حق رکھتے ہیں۔۶۵:۷۷۸۷الواقعہ

دعاآان پڑھیں تو اللہ کی مدد ، اس کی رحمت ، ہدایت اور حفاظت کے لیے دعا کیجیے۔ آاپ قر ھفتم:جب

iمی آاپ کو بالکلیہ صرف اور صرف اللہ تعال آان کے سفر میں دعا مانگیے، اپنے دل سے، زبان سے، اور اپنے اعمال سے۔ قرآاپ اس کا اظہار بھی کریں۔ اپنے سفر کے ہر مرحلے پر آاپ پر غالب ہی نہ ہو، پر توکل کرنا چاہیے۔ اس توکل کی کیفیت

آان کے دوران دل کو حاضر رکھنے اور اس پر عمل کرنے میں اس سے مدد مانگیے۔ اپنی آاپ اس کو پکاریں۔ مطالعہ قر �امیوں اور کوتاہیوں پر اس سے معافی مانگتے رہیے۔ اللہ کے کلام کے قریب ہوتے ہوئے بھی اللہ سے بے نیازی، اس کےآاپ کو عاجزی کی ضرورت ہے نہ کہ کبر کی، توکل کی ضرورت ہے نہ کہ شائبے سے بھی بچئے ۔ یہ کبیرہ گناہ ہیں۔

اللہ کے سامنے �ودمختاری کی کیفیت کی۔آاپ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر آاپ مانگیں گے، دیا جائے گا ، ہمیشہ یہ امید اور اعتماد اور یقین کہ جو کچھ

آایات پر نظر آان کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے۔ ذرا ان آاپ کے لیے زیادہ فائدہ مند نہ ہوگی۔ یہ قر آاپ کی دعا :ڈالیے

(۔۸۲:۴۲پروردگار ، جو �یر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں)القصص (۔۵۱:۶۵اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں )الحجر

Page 34: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاکر میری عبادت سے منہ اور تمھارا رب کہتا ہے، مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں (۔۰۴:۰۶موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و �وار ہوکر جہنم میں دا�ل ہوں گے )المومن

میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہذا انھیں چاہیے(۔۲:۶۸۱کہ میری دعوت پر لبیک کہیں، مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پالیں )البقرہ

آائیے ، دیکھیں کہ ہمیں اللہ سے کن الفاظ میں دعا مانگنا چاہیے۔اللہ کی حفاظت

اعو ذ باللہ من الشیطن الرجیممیں شیطان مردود سے اللہ کی پنا ہ چاہتا ہوں۔

آان نے اسے لازم کیا ہے )النحل (۔۶۱:۸۹ہم بیان کر چکے ہیں کہ شیطان سے پناہ طلب کرنا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ قر آاپ کو اا یا طلسمی فارمولے کے طور پر ادا نہ کیجیے۔ اس بات کو محسوس کیجیے کہ بس یہ ہے کہ ان الفاظ کو رسم

آاپ کی محنت کے پھل سے آاپ کو آاپ کا سب سے بڑا دشمن ہے جو اپنے کام میں شدید �طرات درپیش ہیں، شیطان آاپ کو اس سے بچا سکتاہے۔ محروم کرنے کے لیے ہر ممکن کام کرے گا، اور یہ اللہ ، صرف اللہ ہی

آاتی ہیں آان میں اا طویل دعا کرنا چاہیں جو قر آاپ نسبت کبھی کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ شیطان سے پناہ چاہنے کے لیے آا�ری دونو ں سورتیں الفلق )۳۲:۷۹)المومنون آاپ اللہ نے دی ہے۔ ( اور الناس )۳۱۱(۔ یا جن کی تعلیم رسول

( بھی پڑھ سکتے ہیں۔۴۱۱آاپ کے دل کو راہ راست پر رکھے آاپ کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ وہ :گاہے گاہے

اے ہمارے پروردگار ، ہمیں ہدایت بخشنے کے بعد ، پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنےآال عمران (۔۳:۸پاس سے رحمت عطا کر، بے شک تو ہی سب کچھ دینے والا ہے)

آان کا منشا آاغاز کرتے ہوئے اللہ کی پناہ چاہنا اور اس کے سایہ رحمت کا طلب گار ہونا لازمی ہے، لیکن قر آان کا تلاوت قر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مستقل اور مسلسل جاری عمل ہونا چاہیے۔ لیکن جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،

آان کا فہم حاصل کرنا چاہیں۔ آاپ قر آاپ کو اکثر انھیں پڑھنا چاہیے وہ وقت ہے جب اور جہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔آایت کل سورتوں میں سے سوائے ایک کے، ہر ایک۴۱۱اس کی اہمیت اور معنویت پر پہلے گفتگو کی جاچکی ہے۔ یہ

ہس آاپ کے احسا آان سے سرفراز کرنے پر آاپ کو نعمت قر آاغاز کرنا ایک طرف آائی ہے۔ اس کے نام سے آاغاز میں کے تشکر اور دوسری طرف ہر ممکن مددکے لیے اس پر اعتماد و توکل کی علامت ہے۔

آان کی برکات کی طلب قر

Page 35: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو کچھ دوسری دعائیں بھی سیکھنا چاہییں :مہ مط اا ) ہب زدنی علم (۰۲:۴۱۱ر

اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما۔آان کے نزول کے وقت صبر اور ہ کو تعلیم دی کہ ان الفاظ میں عاجزی سے دعا کریں۔ساتھ ہی قر می نے رسول الل اللہ تعال

آان کے معنی آان تم پر نازل ہورہا ہو۔ جب کوئی شخص قر استقامت کی طرف توجہ دلائی: اور جلدی نہ کرو جب قر سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتو اللہ کے نام سے استعانت طلب کرنا �اص طور پر مفید ہے۔ صرف صبر اور اللہ کی مدد

آان پر عمل کرسکتا ہے۔ سے ہی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں اور انسان قر:ایک دوسری �وب صورت دعا ہے

اللھم انی عبدک ، ابن عبدک، ابن امتک ناصیتی بیدک ، ما ض فی حکمک ، عد ل فی قضا¥ ک اسا لک بکل اسم ھولک، سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک ، او علمتہ احد من �لقک او استا ثر ث بہ فی علم الغیب عندک ، ان

آان ربیع قلبی، ونور صدری وجلا¥ حزنی وذھاب ھمی وغمی )مسند احمد ابن حبان (تجعل القر �دایا! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے، مجھ پر تیرا’’

ہی حکم نافذ ہے۔ میرے حق میں تیرا فیصلہ عین انصاف ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے جو تیرے لیے سزا وار ہے، جو تونے اپنے لیے رکھا ہے، یا تو نے اپنی کتاب میں ’اتارا ہے، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتایا

آان کو میرے دل ہے، یا تونے اپنے پاس اپنے �زانہ غیب میں اسے پوشیدہ ہی رہنے دیا ہے،۔۔۔ یہ در�واست کرتا ہوں کہ قرکی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کا مداوا اور میری فکر و پریشانی کا علاج بنادے‘‘۔

آان کی تلاوت مکمل کرتا ہے، لیکن اس کا مضمون اتنا اا اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی شخص قر درج ذیل دعا عموممی کو ان الفاظ سے پکارنا یقیناباعث برکت ہوگا اا اللہ تعال اا فوقت :جامع ہے کہ وقت

آان العظیم واجعلہ لی اماما ونورا وھدی ورحمتہ، اللھم ذکرنی منہ ما نسیت، وعلمنی منہ ما جھلت، وارزقنی اللھم ارحمنی بالقرتلاوتہ انا ¥ اللیل و انا ¥ النھا ر واجعلہ لی حجتہ یا رب العلمین۔

آان عظیم کے واسطے سے اپنی رحمت سے سرفراز فرما۔ اس کو میرے لیے قائد، روشن اور ہدایت بنادے، اے مجھے قر میرے اللہ! میں اس میں سے جو بھول گیا ہوں مجھے یاد کرادے، اور جو کچھ میں نہیں جانتا اس کے ذریعے مجھے اس کا علم عطا فرمادے، اور مجھے دن اور رات کے تمام اوقات میں تلاوت کی توفیق عطافرما۔۔۔اور اے دونوں جہاں

آان کو میرے حق میں دلیل بنادے۔ کے پالنے والے! اس قرآاغاز کرتے ہوئے،ا�تتام پر، اور درمیان میں بھی، جن الفاظ میں چاہیں، اللہ سے استغفار بھی کرتے آان کے مطالعے کا قر

آال عمران آانی دعائیں ان مقامات پر ملیں گی۔ آال عمران ۳۲:۸۱۱، المومنون ۳:۶۱رہیے۔ استغفار کے لیے تین قر ،۳

۔۳۹۱:

Page 36: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

عمومی دعائیںآاپ اللہ کی طرف رجوع کر کے �ود اپنے الفاظ میں اس سے ان صفات مخصوص الفاظ کی ان دعاؤں کے ساتھ ساتھ،

آاپ کو ضرورت ہے۔ آان سے استفادہ کرنے میں اور رویوں کا سوال کرسکتے ہیں جن کی قرآائے، مجھے روشنی عطا کر کہ میں تیرے آائے، باطل باطل نظر آانکھیں کھول دے، مجھے حق حق نظر اے اللہ! میری

آاگے راستے کو پہنچان سکوں، میری کوششوں میں میری مدد کر، میرے ارادوں کو مضبوط کر دے، اپنے کلام کے مجھے عاجزی عطا کر، تیری رحمت اور ہدایت ملنے پر مجھے فرحت و �وشی ہو، تمام پریشانیوں،فیصلوں اور معاملات

میں رہنمائی فرما، مجھے ہر طرح کے لالچ کے مقابے میں کھڑے ہونے کا حوصلہ دے، سب اچھے کام کرنے کی طاقت عطا کر، سستی و کاہلی دور کردے، تیرا کلام میری فکر و عمل کو قوت بخشے ، میری ہر ضرورت کو پورا کردے، جب

میں پریشان ہوں تو سکون عطا کر، تکلیف میں ہوں تو راحت فراہم کر، تیرا اور تیری ہدایت کا مطالعہ کرنے، سمجھنے، جاننے اور سیکھنے میںمدد دے، مجھے استقلال عطا کر، کامیابی سے پہلے میرے قدم نہ رکیں ، تعصبات سے مجھے

نجات دے، عاجزی عطا کر، جو کچھ میں سیکھوں اسے تسلیم کرنے ، اس کی پیروی کرنے اور اس کے مطابق زندگیآان نے جو مشن سپرد کیا ہے اسے پورا کروں۔ گزارنے کی توفیق عطاکر، مجھے اس قابل بنا کہ قر

سمجھ کر پڑھناآاپ کو اپنے آان میں پڑھ رہے ہیں، اسے سمجھنے کے لیے، آاپ قر آا�ری بات ، جو کم اہم نہیں ہے، یہ ہے کہ جو کچھ

اندر کی شخصیت کو اس عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ اس کے لیے، سب سے اہم اور موثر ذرائع میںسے ایک ہے۔

آان اس سے کہا کہہ رہا ہے؟ لیکن آان کا پیغام پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ معلوم ہو کہ قر اگر چہ کسی کے دل تک قرآان کی برکات میں سے کچھ حصہ بھی نہ پائے ۔ یہ ایسی ناگزیر شرط نہیں ہے کہ اس کے بغیر انسان ، قر

آان کے لیے بند رہتے ہیں۔ بہت سے ہیں جو اس آان کا ہر لفظ سمجھتے ہیں لیکن ان کے دل قر بہت سے ایسے ہیں جو قر کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے لیکن انھیں اللہ سے تعلق ، محبت اور قرب ، اطاعت اور وارفتگی کی روح پر ور

آان سے تعلق کا انحصار کئی اور عناصر پر ہے۔ سات پہلے بیان کیے کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ قرآاتا ہوگا، جاچکے ہیں جن میں سے’ سمجھنا‘ ایک ہے، ہمیشہ لاکھوں افراد ایسے رہیں گے جنھیں عربی کا ایک لفظ نہ نہ ترجمہ پڑھ سکتے ہوں گے، نہ اس طر ح کے کاموں کے لیے ان کے پاس وقت ہوگا ۔ تاہم انھیں ناامید نہ ہونا چاہیے۔

آان کو سمجھنے کے لیے ذرائع ا�تیار کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہیں، جب تک کہ وہ ضروری جب تک وہ قرآان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی پر �لوص شرائط کے ساتھ اس کو سمجھنا چاہیں،جب تک کہ وہ قر

آان کو پڑھتے رہیں، �واہ انھیں اس کے آائیں،جب تک کہ وہ قر کوشش کرتے رہیں جو ان کے علم میں دوسرے ذرائع سے آاتے ہوں، وہ اس کی برکات میں سے اپنا حصہ پانے کی توقع کرسکتے ہیں۔ معنی نہ

Page 37: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ سے کہتا ہے اسے سمجھنے کی بے انتہا اہمیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آان جو کچھ لیکن ان سب سے ، قرآاتی۔ یہاں ہم ، سمجھنے، کا لفظ اس مفہوم میں استعمال کر رہے ہیںکہ الفاظ کا مطلب معلوم ہو۔ غور و فکر ، تدبر ،

آاگے چل کر گفتگو کریں گے۔ مکمل معانی تک پہنچنا، حالات پر اطلاق کرنا، ان امور پر ہم براہ راست مفہوم سمجھنا کیوں ضروری ہے؟

آاپ کو اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنے میں بہت بڑی مدد دے گا۔ اس سے شعور کی آان کے براہ راست معنی کا فہم اا قر اولآاپ کے اندرونی وجود کو مختلف حالتوں کو تحریک ملے گی، قلب اور جسم سے ایسے افعال صادر ہوں گے جن کی

آان سے روبہ رو کرنے میں ضرورت ہے۔ قرآاپ اپنا ایمان حاصل آاغاز کرسکیں جس سے آاپ اس قابل ہوں گے کہ الفاظ کے ذریعے اس عمل کا اا، سمجھ کر ہی ثانی

آان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔ آاپ اس ایمان کی روشنی میں قر کریں اور اسے تقویت دیں تاکہ ۴

آاداب تلاوت کے آارزوؤں اور مشاغل میں سے ایک ہوجانا چاہیے۔ اس کی تلاوت جتنی آاپ کی محبوب ترین آان کے ساتھ طویل رفاقت قراا رات کے آاپ کو مل سکے، �صوص آاپ کر سکتے ہیں، کریں۔ جتنا زیادہ وقت کثرت سے اور جتنی زیادہ سے زیادہ

آان کے ساتھ بسر کیجیے۔ اوقات ، قرآان جو بھاری بوجھ اور ذمہ داری کے رفقا کی روحانی تربیت اسی طرح اللہ کی راہ میں کی گئی تاکہ قر آاپ ہ اور رسول الل

ان پر ڈال رہا ہے، اس کے لئے وہ تیار ہوسکیں۔کتنی مرتبہ پڑھیں؟

آان ضرور پڑھنا چاہیے۔ اپنی زندگی کے کسی دن کو مکمل نہ سمجھئے جب تک کہ اس آاپ کو روزانہ کچھ نہ کچھ قر آان کے ساتھ صرف نہ کرلیا ہو۔ کبھی کبھار طویل حصے پڑھنے کے مقابلے میں یہ بہتر آاپ نے قر کا کچھ نہ کچھ حصہ

ہے کہ پابندی سے روزانہ مختصر حصہ ہی پڑ ھا جائے۔ نے فرمایا کہ اللہ کو وہ کام پسند ہیں جو باقاعدگی سے کیے جائیں، �واہ تھوڑے ہوں)بخاری ، مسلم(۔ اللہ کے رسولآاسانی سے ضائع آان باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے، ورنہ جو کچھ حاصل کیا ہے وہ نے �اص طور پر �بردار کیا کہ قر آاپ

آان کے ساتھی کی مثال اس سے بندھے اونٹ کی سی ہے، انسان کے پاس وہ اس وقت تک ہے جب تک ہوجائے گا۔ قروہ اس کی نگہداشت کرتا ہے، اور اگر کھلا چھوڑ دے تو وہ بھاگ جاتا ہے)بخاری مسلم(کتنا پڑھا جائے؟

اس کا کوئی متعین جواب نہیں۔ یہ ہر فرد کے لئے مختلف ہوگا، مختلف حالات میں مختلف ہوگا۔ رہنما اصول وہآاسانی سے پڑھ می نے ، تمام بشری عذرات کو سامنے رکھ کر �ود بیان کیا ہے: پڑھو، جو کچھ تم ہونا چاہیے جو اللہ تعال

(۔۳۷:۰۲سکو)المزمل

Page 38: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان دو ماہ میں �تم کرلیا کرتے تھے، اس حوالے سے صحابہ اور تابعین کے عمل میں �اصا فرق تھا۔ کچھ لوگ پورا قرآاپ درج ذیل حدیث کو معیار کچھ ایک مہینے میں، کچھ دس دن میں، کچھ ایک ہفتے میں، کچھ ایک دن میں۔۔۔آان �تم کرتا ہے، وہ اسے سمجھتا نہیں )ابو داؤد، ترمذی(۔ ایک کے طور پر سامنے رکھیے: جو تین دن سے کم میں قر

آان �تم کرنے کے لئے فرمایا۔۔۔ کم وقت میں �تم اللہ نے ان سے ایک ماہ میں قر مر نے۔۔۔جب رسول دفعہ حضرت ابن عم نے فرمایا: سات دن میں پڑھو اور اس سے کم نہ کرو۔ کرنے پر اصرار کیا تو اللہ کے رسول

آان کی سات منزلوں میں اور پاروں میں تقسیم سے بھی کچھ اشارہ ملتا ہے کہ کیا مناسب ہے۔ اس سلسلے میں۰۳قر­ی کی ہدایت بہت مناسب ہے۔ وہ شخص جو غورو �وض سے گہرے معافی تک پہنچ سکتا ہے، اسے کم پڑھنا امام نوو چاہیے۔ اسی طرح جن کو تعلیم و تدریس، معاملات حکومت، یا اسلام کے تفویض کردہ اہم فرائض انجام دینے ہیں، وہ

بھی کم پڑھ سکتے ہیں )کتاب الا ذکار(۔آان کے ساتھ وقت صرف کرنا چاہتے آاپ قر مطالعے کی مقدار کا بڑی حد تک انحصار مطالعے کے مقصد پر ہوگا۔ اگر آاپ تیز رفتاری سے پڑھ سکتے ہیں، اور اس لیے زیادہ پڑھ سکتے ہیں۔ ہیں ، یا صرف ایک طائرانہ نظر ڈالنا چاہتے ہیں تو ­ی آاپ کو سست رفتاری سے پڑھنا ہوگا، اس لیے کم پڑھیں گے۔ امام غزال آاپ غور و فکر اور تدبر کرنا چاہتے ہیں تو اگر

جب کسی کا یہ قول نقل کرتے ہیں تو ان کا مطلب یہی ہوتا ہے:’’میں بعض اوقات ہر جمعے کو بعض اوقات ہر ہفتے،آان پڑھتا ہوں لیکن دوسری طرف گزشتہ برس سے )ایک �اص انداز سے( مطالعہ کر رہا ہوں بعض اوقات ہر سال مکمل قر

لیکن ابھی تک مکمل نہیں کرسکا ہوں )احیا¥ العلوم(۔آان �تم کرنے۸ہمارے موجودہ حالات میں، میرا �یال ہے کہ ہم میں سے بیش تر کو ہر ماہ میں ایک دفعہ قر

منٹ سے زیادہ صرف نہیں ہوں گے، اس کا انحصار اس بات پر۵۱ سے ۵کا ہدف ضرور رکھنا چاہیے۔ اس میں روزانہ آاپ معنی براہ راست سمجھ رہے ہیں یا ترجمے کی مدد لے رہے ہیں۔ مگر زندگی میں کبھی کبھار سات دن میں ہوگا کہ آاہستہ آاہستہ ہہ رمضان میں۔۔۔ کچھ وقت اا ما ایک مکمل تلاوت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یا ایک ماہ میں، �صوص

پڑھنے کے لیے مختص کرنا چاہیے تاکہ غور و فکر اور تدبر ہوسکے۔۔۔ ضروری نہیں کہ ایسا روزانہ ہو۔کب پڑھا جائے؟

آاپ آان کے لیے نامناسب نہیں ہے۔ نہ بیٹھنے کا کوئی ایسا انداز ہے جس میں دن اور رات کا کوئی بھی حصہ تلاوت قرمی فرماتا ہے :تلاوت نہ کریں۔ اللہ تعال

(۔۶۷:۵۲اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کیا کرو )الدھر آال عمران (۱۹۱: ۳جو اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ )

­ی کہتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین دن اور رات کے آان ہے۔ امام نوو می کا ذکر کرنے کا بہترین طریقہ یقینا تلاوت قر اللہ تعالآان پڑھا کرتے تھے، �واہ وہ ایک جگہ مقیم ہوں، یا سفر کر رہے ہوں۔ تاہم کچھ اوقات زیادہ پسندیدہ ہیں ہرحصے میں قر

Page 39: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

نے انھیں تجویز کیا ہے۔ یہ لمحات زیادہ اجر کا باعث اور زیادہ مفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح آان اور رسول اکرم اس لیے کہ قرکچھ جسمانی حالتوں کی سفارش کی گئی ہے۔

تلاوت کے لیے بہترین وقت رات کا ہے اور بہترین جسمانی حالت نماز میں قیام کی ہے۔ یہ بات ابتدائی سورتوں میں سےآال عمران ، بنی اسرائیل:۳:۳۱۱ایک، المزمل کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔دوسرے مقامات پر بھی یہی بتایا گیا ہے۔ )

(۹۳:۹، الزمر ۷۱:۹۷آان کے کچھ حصے حفظ کرلیں اور رات کے دوران کچھ دیر کے لیے جاگ کر آاپ قر یہ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ

آان ان مجبوریوں آاپ سب کے لیے ہمیشہ ایسا کرنا کئی وجوہ سے ممکن نہ ہو گا۔ قر انھیں دہرائیں۔ آاسانی سے تلاوت کر سکتے ہو‘‘ ۔ اس کا مطلب ہوا جتنا آاپ کو اجازت دیتا ہے:’’جتنا تم کو تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے

حصہ چاہیں، جس وقت چاہیں، جس طرح چاہیں لیٹ کر ، بیٹھ کر، پڑھ لیں۔آان کی تلاوت کے بے انتہا فوائد ہیں اور اس کی بڑی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کچھ نہ کچھ رات کو نماز کے دوران قر

آاپ کو ضرور مختص کرنا چاہییں تاکہ طے شدہ وقفوں کے ساتھ وقت ، کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، چند منٹ سہی، اا ہفتہ وار، ماہانہ۔ مثالی صورت سے ممکنہ حد تک باقاعدگی سے تلاوت کریں، وقفے کتنے ہی طویل کیوں نہ ہوں، مثل

آافتاب کے وقت یا رات آاپ فجر اور عشا¥ کی نماز سے پہلے یا بعد ، یا صبح طلوع قریب رہنے کے لیے یہ اچھا ہوگا کہ آان نے صبح سویرے کی تلاوت کے لیے �اص طور پر کہا ہے)بنی اسرائیل آان کریں۔ قر بستر پر جانے سے پہلے تلاوت قر

۷۱:۸۷)آان پڑھنا پسندیدہ نہیں، مگر منع بھی نہیں۔ کسی �اص وجہ کے تکیے سے ٹیک لگا کر، بستر یا صوفے پر لیٹ کر قر

آان پڑھنے سے بالکل ہی محروم رہے آاپ ہر گز ایسا نہ کریںنہ اسے اپنی عادت بنائیں۔ تاہم، اگر کوئی شخص اس لیے قر بغیر کہ وہ ایک �اص طرح بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو یقینا وہ ایک بہت قیمتی شے کا نقصان کر رہا ہے۔

صحت کے ساتھ تلاوتآان کو صحیح صحیح پڑھنا چاہیے، تجوید کا فن نہ بھی سیکھ سکیں تب بھی اعراب اور حروف کی ادائیگی آاپ کو قر صحت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ عربی ایسی زبان ہے کہ پڑھتے ہوئے اعراب کی معمولی غلطی سے بعض اوقات معنی میں

بڑی تبدیلی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات معنی بالکل مسخ ہوجاتے ہیں اور ایسا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے جو کفر کے مصداق ہوتاہے۔

ایک ماہ تک ایک گھنٹہ روز کا مسلسل مطالعہ کسی پڑھے لکھے شخص کو اس کے لیے کم سے کم ضروری ابتدائیمہارت حاصل کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔

آان کی تلاوت کرنے کی پر �لوص کوشش سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا ۔ لیکن کوئی شخص بھی صحت کے ساتھ قرآاپ ایسا نہیں کر سکتے،تلاوت ترک کرنے کی وجہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک غیر آاپ سیکھ رہے ہوں، تو یہ بات کہ جب

Page 40: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

ہ آاپ کو سیکھنے کا موقع نہ ملے۔ رسول الل عرب صحت سے پڑھنے کے فن کا ماہر نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نے حضرت جبرئیل سے کہا: اے جبرئیل، میں ان پڑھ لوگوں میں بھیجا آاپ کو ان مشکلات کا احساس تھا۔ اسی لیے

گیا ہوں۔ ان میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں ہیں، لڑکے اور لڑکیاں، اور وہ لوگ جنھوں نے کبھی کوئی کتاب نہیںپڑھی)ترمذی(۔

آاپ یاد ضرور رکھیں، لیکن کسی بھی طرح انھیں سیکھنے اللہ کے اطمینان دلانے والے یہ الفاظ اس حوالے سے رسول:کی کوششوں کو ترک کرنے یا کم کرنے کا بہانہ نہ بنائیں

آان پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے)وہ ان( معزز و مکرم فرشتوں کے ساتھ ہے جو وحی الہی لے کر اترتے ہیں۔ جو جو شخص قر پڑھنے میں غلطی کرتا ہے، اور درست پڑھنے میںدقت محسوس کرتا ہے، اسے’ دہرا اجر ہوگا)پڑھنے کا، اور کوشش کرنے

کا( )بخاری، مسلم(۔اات حسن قر

اات کا فن سیکھا جائے تاکہ اسے حسن کے ساتھ پڑھا آان کو صحت کے ساتھ پڑھنے کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ قر قرآاواز میں۔ متعدداحادیث اس طرف اشارہ کرتی ہیں :جائے۔ �وش گوار، مترنم انداز اور میٹھی

آاوازوں سے زینت دو)ابو داؤد(۔ آان کو اپنی قرآان تلاوت کرنے کو آاواز سے قر می کسی بات کو اتنی اچھی طرح نہیں سنتا، جتنی کسی نبی کے بلند اللہ تعال

)بخاری ،مسلم(۔آاواز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں)بخاری(۔ مگر یاد رکھیے کہ اصل حسن وہ ہے جو دل میں آان مترنم جو قر

آاپ اسے تلاوت آاواز سب سے زیادہ �وب صورت ہے کہ جب آاتا ہے: اس شخص کی تلاوت و آاواز میں مہی سے �شیت الکرتے ہوئے سنیں تو �یال کریں کہ اسے اللہ کا �وف ہے۔

توجہ سے سنناآان پڑھا جائے، متوجہ ہوجائیے اور �اموش ہوکر سنیے۔ جب بھی قر

آان نے �ود اس کا حکم دیا ہے :قرآان تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور �اموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)الاعراف (۔۷:۴۰۲جب قر

آاپ کو �اموش ہوناچاہیے۔ لیکن عربی کا لفظ ’’سمع‘‘ صرف آاپ سے بات کر رہا ہے تو می ظاہر بات ہے کہ جب اللہ تعالسننے کے مشینی فعل کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ توجہ اور قبول کرنے کی ایک �اص کیفیت کا اظہار بھی کرتا ہے۔

آان پڑھا جارہا ہو، کوئی اس کا مطب یہ ہے کہ کوئی بھی کام ، جو اس ہدایت کے �لاف ہو، نہ کیا جائے: جس وقت قرآان آان کے کیسٹ بطور پس منظر موسیقی کے چلانا، سرگوشیاں کرنا جب کہ قر اور بات کرنا، دوسرے کام کرتے ہوئے قر

آان سے کرنا جب کہ کوئی اس طرف متوجہ نہ ہو اور کوئی سن نہ رہا ہو۔ آاغاز تلاوت قر پڑھا جارہا ہو، تقاریب کا

Page 41: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاواز سے کی آان کی تلاوت بلند آاپ کے نزدیک ہی قر بعض فقہا تو اس وقت نماز پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں، جب آاواز کم کرے یا �اموشی آان کی تلاوت کر رہا ہو وہ اپنی آاتا ہے کہ جو شخص قر جارہی ہو۔ اس قاعدے سے یہ بھی لازم

آاس پاس افراد پر ایسے تقاضے عائد کرے جنھیں پورا کرنا ان کے لیے مشکل یا آاواز، اس کے سے پڑھے، اگر اس کی بلند ناممکن ہو۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا یہ بھی ایک پہلو ہے۔ مزید یہ کہ اگر لوگوں کو �واہش نہ ہو تو انھیں

آان آان سننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ان لوگوں سے جو قر قرآان تلاوت کروانا، اور سننا اات کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں �ا ص طور پر فرمایش کر کے قر صحت کے ساتھ اور حسن قر

آاپ کو اچھی طرح یا د رکھنا چاہیے کہ آان سنتے تھے۔ مہ سے فرمایش کرکے قر اپنے صحاب بڑی اچھی بات ہے۔ نبی کریم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے :نبی اکرم

آایت بھی سنتا ہے، اسے دہرا اجر دیا جائے گا اور جو تلاوت کرتا ہے، یہ قیامت کے روز اس کے لیے آان کی ایک جو قرنور ہوگا)احمد(۔

آان �تم قرآان کی تلاوت �تم کریں، اور یہ کتنا ہی بار بار کیوں نہ ہو، تو یہ وقت �وشی منانے اور نماز آاپ مکمل قر جب کبھی

آاداب بیان کرتے ہیں جن کی بنیاد وہ معمولات ہیں جو صحابہ و تابعین ­ اس بارے میں کچھ پڑھنے کا ہے۔ امام نوویآاپ ا�تیار کرسکتے ہوں، ا�تیار کریں۔ ا�تیار کرتے تھے۔ یہ لازمی نہیں ہیں،لیکن مطلوب ہیں۔ انھیں جتنی کثرت سے

آاغاز کیا جائے، اور جمعرات کی رات کو �تم کیا جائے۔ کچھ لوگ پیر رول : بہتر ہے کہ جمعہ کی رات کو تلاوت کا اآاغاز کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ بعض دوسرے، دوسرے اوقات کا انتخاب کرتے تھے۔ اس طرح کوئی بھی کی صبح

وقت ایسا نہیں جو برکت سے �الی ہو اور قیامت کے روز گواہی نہ دے۔اا اگر �تم تنہائی میں کر رہے ہیں۔ آا�ری حصہ، نماز کے اندر پڑھیے، �صوص دوم:

سوم: �تم کے وقت دوسرے لوگوں کو جمع کریں اور ساتھ ملا کر عاجزی سے دعائیں کریں۔آان �تم کرتے تو اپنے اہل �انہ کو جمع کرتے اور دعائیں کرتے)ابو داؤد(۔ مس بن مالک کا معمول تھا کہ جب قر حضرت ان

حاکم ابن عتیبہ سے روایت ہے: ایک دفعہ مجھے مجاہد اور عبادہ ابن ابی لبابہ نے بلایا اور مجھ سے کہا: ’’ہم نےآان �تم کرنے والے ہیں اور �تم کے وقت کی گئی دعائیں قبول کی تمھیں اس لیے دعوت دی ہے کہ ہم قر

آان �تم ہونے کے وقت اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں‘‘۔ جاتی ہیں‘‘۔ ایک دوسری روایت میں انھوں نے کہا: ’’قرآان �تم کرنے کا ارادہ کررہے ہیں، روزہ رکھیں۔ آاپ قر چھارم: جس دن

آاغاز کردیں یعنی سورہ الناس کے بعد الفاتحہ اور البقرہ کی ابتدائی آان کا آا�ری سورہ پڑھتے ہی دوسری تلاوت قر پنجم: آایات۔

Page 42: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

مس بن مالک کی اس حدیث کی تعمیل ہوجائے گی کہ افضل عمل یہ ہے کہ قیام کیا ایک مفہوم میں اس سے حضرت انآان �تم کرنا اور پھر آاپ نے فرمایا: ’’قر جائے اور ر�صت ہوا جائے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو

شروع کرنا‘‘۔آان کے وقت دعائیں کریں اور عاجزی سے روئیں اور گڑ گڑائیں۔ ششم: �تم قر

آان اس وقت دعا قبول ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے، یہ بات بہت زور دے کر بتائی گئی ہے۔ جب کوئی قرآامین کہتے ہیں۔۰۴کی تلاوت کر کے دعا کرتا ہے تو ہزار فرشتے

دعائیں کیجیے۔۔۔�دا سے ڈرتے ہوئے، امیدوں کے ساتھ، نرمی اور اصرار کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ۔۔۔ اپنے لیے دعااا امت کے اجتماعی مسائل کے لیے، اس کی عزت و وقار کے کیجیے، ہر ضرورت کے لیے اور ہر ایک کے لیے،�صوصمی کے امور یا باہمی لیے، اس کے حکمرانوں کی بہتری کے لیے، دشمنوں سے اس کی حفاظت کے لیے، صلاح و تقو

تعاون اور اتحاد کے لیے، راہ حق پر ان کی استقامت کے لیے۔آان حفظ قر

آان اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ �ود تقاضا کرتا ہے کہ یاد آان کا جتنا حصہ حفظ کر سکتے ہیں، ضرور کیجیے۔ قر قررکھا جائے اور حفظ کیا جائے۔

لفظ حفظ، اب یاد کرنے کے محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جب کہ فہم و عمل بھی اس کے مفہوم میںشامل ہے۔ دوسری زبانوں میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو اس کے مفہوم کو ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔

می آان کے نفوذ کے لیے حفظ ایک ضروری ذریعہ ہے۔ یہ کوئی مشینی رسمی طریقہ نہیں ہے، بلکہ ایک اعل اپنے اندر قرآاپ ان الفاظ کے ذریعے اپنے آان کو نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں اور جب آاپ قر روحانی عمل ہے۔ حفظ ہی کے ذریعے ، سے ہم کلام ہونے والے کے سامنے کھڑے ہوں تو ان کے معانی پر غور کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر، اس طرحآاپ کا ہر آاپ کے ذہن نشین رہتا ہے۔۔۔ اور آاپ کے قلب میں جاگزیں رہتا ہے، اور آاپ کی زبان پر جاری رہتا ہے، آان قرآاپ محسوس کریں گے کہ اس کی تلاوت میں آاپ جوں جوں زیادہ حفظ کریں گے وقت کا مستقل ساتھی بن جاتاہے۔ آاسان تر آاپ کے ذہن کے لیے اس کا مطالعہ اور مفہوم کو سمجھنا آاپ کی اندرونی ذات کی شرکت ہوتی جاتی ہے اور

نے اس پر مختلف طرح سے زور دیا ہے :ہوتا جاتا ہے۔ نبی کریمآان ہوگا ) شرح السنہ(۔ می اس دل کو عذا ب نہیں دے گا جس میں قر آان حفظ کرو، اللہ تعال قر

آان کا کوئی حصہ نہ ہو وہ ایک اجڑے ہوئے مکان کی طرح ہے)ترمذی(۔ جس شخص کے اندر قرآاپ نے جو وقت مختص کیا ہے، اس کا کچھ حصہ حفظ میں لگایئے،اسے منظم انداز سے کیجیے۔ اپنے آان کے لیے قر

م آاپ کی فہرست میں وہ سب حصے شامل ہونے چاہییں جن کی نبی اکر اہداف کو مدت کے ساتھ مربوط کیجیے۔ مہ کو ہدایت اا نمازوں میں یا دن اور رات کے �ا ص اوقات میں تلاوت کرتے تھے، یا جن کی تلاوت کی اپنے صحاب عموم

Page 43: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان باقاعدگی سے پڑھیں گے، تو کچھ حصوں میں آاپ قر کرتے تھے، یا جن کے فضائل کا تذکرہ کرتے تھے۔ جب آاپ کو انھیں بھی حفظ کرنا چاہیے۔ لامحالہ کشش محسوس کریں گے، اور

۵مطالعہ و فہم

اہمیت و ضرورتآاپ اس کے معنی سمجھنے میں آان کی حقیقی اور مکمل برکات اس وقت تک نہیں سمیٹ سکتے جب تک کہ آاپ قر

آاپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ بلا شبہہ جو لوگ معنی نہیں آاپ کا پیدا کرنے والا آاپ کو نہ لگائیں اور معلوم نہ کریں کہ اپنے آاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی ایک عظیم سمجھ سکتے، ان کے حصے میں بھی کچھ نہ کچھ برکتیں ضرور

اکثریت عربی نہیں جانتی اور بہت سے لوگوں کی زبان میں ترجمہ بھی دستیاب نہیں ہے، لیکن اگر وہ ا�لاص و محبتآان کی تلاوت کریں گے تو وہ اس کے فوائد میں سے کچھ نہ کچھ حصہ پانے سے محروم نہ رہیں گے۔ اور احترام سے قر

آاپ اس کی زبان نہ سمجھتے آاپ کو محبت ہو، اگرچہ کیوں کہ کسی ایسی ہستی کی رفاقت میں وقت گزارنا، جس سے آاپ یہ سمجھیں بھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو یہ تعلق مضبوط تر ہوگا آاپ کے اس تعلق کو گہر ا کرتا ہے لیکن اگر ہوں،

اور برکات عظیم تر ہوں گے۔آان سنا، م کی اپنی زبان سے قر دوسری طرف محض معنی سمجھنا بھی بے فائدہ ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے نبی اکرآان کا ہر لفظ وہ اس کا ہر لفظ سمجھتے تھے، پھر بھی مزید گمراہ ہوئے۔ لاکھوں لوگ ہیں جن کی زبان عربی ہے، وہ قر

آان کے سمجھتے ہیں، لیکن اس کا ان کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں ہے۔ بے شمار مسلمان اور غیر مسلم اسکالر قر مطالعے میں زندگیاں صرف کر دیتے ہیں، ان کے مطالعے میں کوئی نقص مشکل ہی سے نکالا جا سکتا ہے،لیکن وہ

آان کے حقیقی لمس سے محروم رہتے ہیں۔ قرآان ایک آان سمجھنے کی کوشش میں لگ جانے کی اشد ضرورت باقی رہتی ہے۔ قر آاپ کے لیے قر لیکن اس کے باوجود،

آایا ہے۔ یہ صرف ثواب کمانے کے لیے نہیں ہے۔ نہ ہدایت، ذکر ، تنبیہ اور شفا کے طور پر آاپ کے اندر انقلابی آایا ہے کہ صرف یہ ایک قابل احترام قدیم شے، مقدس سحر یا کتاب اسم ہے بلکہ یہ تو اس لیے

آان کو سمجھنا اس نئی زندگی کو پانے کی یقینی آاپ کی رہنمائی کرے۔ قر آائے اور ایک نئی زندگی کی طرف تبدیلی لے آان کے حقیقی مقصد کے حصول اور انسانیت کو اس کی طرف دعوت دینے کا ضمانت نہیں ہے، لیکن اس کے بغیر قر

کام بے انتہا مشکل رہے گا۔ذاتی مطالعہ

آان کا مطالعہ اور اس کے معانی پر غور و فکر کیوں کریں؟ کیا یہ کافی نہیں کہ ہم کسی عالم سے ہم اپنے طور پر �ود قراس کی تلاوت اور تفسیر سن لیں؟

Page 44: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو اپنی سی پوری کوشش کرنا یقینا یہ کافی نہیں ہے، گو یہ بھی ضروری ہے۔ ایک نہایت اہم اور �اص وجہ سے آان محض معلومات کی یا ’’یہ کرو، وہ آاپ معلوم کریں اور اس میں جذب ہوجائیں۔ قر آان جو کچھ کہتا ہے وہ چاہیے کہ قرآاپ سے کیا چاہتا ہے آاپ کو صرف یہی نہیں بتاتا کہ �د اہے اور وہ آان نہ کرو‘‘ کے احکامات کا مجموعہ نہیں ہے۔ قرآاپ آاشنا کرے اور اللہ سے آاپ کو نئی زندگی سے آاپ کی شخصیت کو اپنی گرفت میں لے، بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ

آاپ کے ایمان میں، ارادے میں اور صبر میں اضافہ کرنا چاہیے اور انھیں کا ہمہ گیر تعلق قائم کردے۔ اس لیے اسے آاپ کا تزکیہ کرنا چاہیے، سیرت کی تعمیر کرنا چاہیے اور رہن سہن کو اپنے رنگ میں ڈھالنا مضبوط کرناچاہیے۔ اسے

می بلندیوں تک لے جانا چاہیے۔ می سے اعل آاپ کو اعل آاپ کو مسلسل جذبہ و تحریک دینا چاہیے، اور چاہیے۔ آان کے ساتھ مطالعے، تفہیم اور غوروفکر کا ایک بالکل ذاتی تعلق قائم آاپ قر یہ سب اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ

آاپ کا عمل اس راستے پر نہیں چل سکے آاپ کے �یالات اور آاپ کا دل، کریں۔ اس کی ہدایت پر غور وفکر کے بغیر آاپ کی زندگی پر اثر انداز آاپ اسے جذب نہیں کرسکتے، نہ یہ گا۔ ان ہدایات پر غور و فکر اور تدبر میں ڈوبے بغیر

ہوسکتا ہے۔آاپ سمجھ سکیں آان کی تلاوت ترتیل کے ساتھ کیوں لازم کی گئی؟ سوائے اس کے کہ اس طرح آاپ پر قر ذرا سوچیے!

آاپ کیا پڑھ آاپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ ہن تلاوت وقفہ کیا کریں۔ اگر آاپ سے کیوں چاہا گیا ہے کہ دورا اور تدبر کر سکیں۔ آان نے اتنا زور دیا ہے۔ رہے ہیں تو وہ مناسب اندرونی، جسمانی اور زبانی ردعمل کیسے دے سکتے ہیں جن پر قر

مطالعہ کے �لاف استدلالaمگر کیا یہ اندیشہ نہیں ہے کہ ایک شخص کسی عالم کی رہنمائی اور مطالعے کے ضروری لوازم کے بغیر �دا کی

کتاب کو �ود سے سمجھنے کے بہت بڑے کام کو اپنے سر لے تو وہ غلطی کر بیٹھے۔ وہ گمراہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں،آاپ سرے سے اا اس صورت میں کہ اسے اپنے اہداف اور حدود کا علم نہ ہو۔ لیکن اگر اس کا امکان ہے، �صو ص

آاپ کے لیے اور امت کے لیے بڑا �سارہ ہے۔ �ود سے مطالعہ کرنے کے �طرات کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں، تو آاگے نہیں جائیں گے، کم کیا جاسکتا آاپ اپنی حدود و اہداف سے احتیاطی تدابیر ا�تیار کر کے اور یہ یقینی بنا کر کے

ہے لیکن مطالعہ ترک کرنے کے نقصان کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ لاللہ کے اس واضح ارشاد آان کے معنی �ود سے سمجھنے کی کوشش کرنا، رسو کچھ لوگوں کا استدلال ہے کہ کیا قر

آان کی تفسیر اپنی رائے سے کرے،جہنم میں اپنا مقام بنالے‘‘)ترمذی(۔ کے �لاف نہیں ہے: جو قر ظاہر ہے کہ یہ حدیث اس مطالعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں کوئی اپنی ذاتی رائے یا پہلے سے طے شدہ

آاگے آان کی ہدایت کے آان کو استعمال کرے، نہ کہ اگر کوئی کھلے ذہن سے اپنے کو قر تصورات کی تائید کے لیے قرڈال دے۔ یا وہ کوئی ایسی تفسیر کرنے کی کوشش کرے جس کے لیے وہ ضروری علم نہ رکھتا ہو۔

Page 45: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کا ل اللہ نے اپنے صحابہ کو تاکید نہ کی ہوتی کہ قر ­ی بہ اصرا ر کہتے ہیں، رسو دوسری صورت میں، جیسا کہ امام غزالمطلب سمجھنے میں �ود کو لگائیں، اور نہ انھوں نے ایسا کیا ہوتا )جیسا کہ انھوں نے کیا(، نہ انھوں

آاپ سے نہیں سنے تھے)جیسا کہ انھوں نے بیان کیے( اور نہ ان کی تفاسیر میں وہ نے ان مطالب کو بیان کیا ہوتا جو ا�تلاف ہوئے ہوتے )جو کہ ہوئے(۔

آان کا ترجمہ پڑھنے سے بھی منع کرتے �طرات کے اندیشے سے، بعض مذہبی رہنماکسی عالم کی رہنمائی کے بغیر ، قر ہیں۔ یا وہ انفرادی مطالعے کے لیے ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو محض چند افراد ہی غیر معمولی محنت کر کے پورا

آان آاپ کو ان �زانوں سے محروم رکھنے پر منتج ہوتے ہیں جو قر کرسکتے ہیں۔ ایسے مشورے ، نیک نیتی کے باوجود، اپنے ہر طالب کو دیتا ہے۔ اگرچہ بعض صورتوں میں وہ �طرات حقیقی ہیں، لیکن ممانعت کی کوئی بنیاد یا منطق نہیں

ہے۔gآا�ر ایک غیر عرب آان کے لفظی معنی سمجھنے سے روک سکتے ہیں؟ پھر آاپ کسی عرب کو قر ذرا سوچیے: کیا

آان کیوں نہ پڑھے۔ پھر کیا وہ کسی شخص کو، جو کچھ وہ پڑھے، اس کے معنی و مفہوم معلوم کرنے سے روک ترجمہ قرآا�ری آان کا مطالعہ کرنے اور اس کا مفہوم سمجھنے کی کوششوں کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ سکتے ہیں؟ پھر قر

آان کے اولین مخاطبوں کے بارے میں ، وہ کافر ہوں یا مسلمان، کیا کہیں گے۔ وہ نا�واندہ بدو اور تاجر بات یہ کہ قرآان سن کر مسلمان ہوئے، کسی تفسیر تھے، جنھیں مطالعے کی کوئی سہولت مہیا نہ تھی، پھر بھی کئی کافر، محض قر

کا مطالعہ کیے بغیر، اور صرف پہلی دفعہ سننے کے نتیجے میں۔مم کی زندگیوں کا، جو ایمان دعوت اور اور صحابہ کرا می ترین اعزازحاصل تھا کہ نبی اکرم بلاشبہ انھیں یہ منفرد اور اعل

آان پر عمل کر رہے تھے، مشاہدہ، کریں۔ ہمیں یہ اعزاز نہ حاصل ہے، نہ ہم یہ حاصل کر جہاد کی بھٹیوں سے گزر کر قر سکتے ہیں۔ لیکن اسے ہماری حوصلہ شکنی کا سبب نہ بننا چاہیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جب ہم شرائط پوری کردیں ،اورمم نے گزاریں جیسا کہ بار بار زور دیا جا رہا ہے، ہم بھی ایمان دعوت اور جہاد کی زندگی گزار یں جیسی کہ صحابہ کراآان کو سمجھنے کی ہر کوشش کی نفی کر کے صرف کسی عالم کے آان ہمارے لیے اپنے دروازے نہ کھول دے۔ قر تو قر

قدموں میں بیٹھنے سے گم راہ ہوجانے سے تحفظ نہیں ہوسکتا ۔ اصل علاج صحیح طریقہ کار ا�تیار کرنے میں ہے۔آان کے ضروری علم، یا اہل اور قابل اعتماد اساتذہ سے سیکھنے اس کا مطلب یہ نہیں کہ عربی زبان اور دوسرے علوم القرآاپ آاگاہ ہونے کی لازمی ضرورت سے انکار کیا جارہا ہے۔ یہ اہم ہیں لیکن اسی حد تک کہ یا معاصر انسانی علوم سے آاپ کے ہدف حاصل کرنے کے آاپ کے پاس وہ اوزار ہونے چاہییں جو آان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے مطالعہ قرآان کو سمجھنے کی کسی بھی کوشش سے محض اس لیے اپنے کو بری نہیں کر سکتے آاپ قر لیے ضروری ہیں۔ لیکن

آاپ کسی سکہ بند استاد کے پاس نہیں جا سکتے۔ آاپ کو یہ سب اوزار میسر نہیں ہیں، یا کہ

Page 46: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو اچھے استاد یا آاپ عربی نہیں جانتے، نہ سیکھنے کا کوئی موقع ہے۔ آاپ ایک جزیرے پر ہیں۔ تصورکیجیے کہ آان کا آاپ کو قر آاپ یہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ ان حالات میں اچھی تفسیر جیسے وسائل بھی میسر نہیں ہیں۔ نہ صحیح صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے مناسب قابلیت پیدا کرنے کی ضرورت تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے لیے ہر

آاپ کے لیے اللہ کی جانب سے رہنمائی ہے۔ آان ممکن کوشش کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود ، قر �وش قسمتی سے، ہم میں سے کوئی بھی ایسے جزیرے پر نہیں رہتا ۔ ایسے ’’جزیرے‘‘ ہماری سستی و کاہلی، بے

آان کو سمجھنے توجہی، بے عملی، اور ہمارے اس یقین میں کمی کی وجہ سے ہمارے تصورات میں وجود رکھتے ہیں۔قر کے لیے اس کے ساتھ ذہن و قلب کی رفاقت ہماری زندگی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح جسم کے لیے

آان کا ایک نسخہ ہاتھ میں لیے کسی جزیرے پر واقعتا غذا۔ جو بات یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص قرآانی علوم میں مہارت رہتا ہے یا نہیں، جس کے لفظی معنی وہ کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہے، یا کسی شخص نے قر

آان پر غور و فکر کے لیے ذاتی طور پر دل و جان سے لگ جانے کی ضرورت اور حاصل کرلی ہے یا نہیں۔۔۔بہر حال قرمطالبہ قائم رہتا ہے۔

آان کا زور قرآان ہر شخص کے لیے رہنما، اس کا استاد اور مربی ہے۔ اس لیے اس کو سمجھنے کی بڑی اہمیت ہے ورنہ اس کی قر

آان کے پیغام کے لیے کھولنے میں، ذاتی کوششوں کی حیثیت ایک مقدس دستاویز سے زیادہ نہ ہوگی۔ دل و دماغ کو قرآان نے وضاحت سے بیان کر دی ہے۔ مرکزی اہمیت �ود قر

آان کے فہم کے لیے اپنے دلوں پر قفل لگانے کی شدید حماقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے :ہمیں قرآان پر غور نہیں کیا ، یا ان کے دلوں میں قفل چڑھے ہوئے ہیں )محمد (۔۷۴:۴۲کیا ان لوگوں نے قر

آان کے ہر صفحے پر موجود ہے۔ تم سنتے کیوں نہیں؟ تم آان پر غور و فکر کے لیے تدبر و تفکر کی دعوت قر اس لیے قر دیکھتے کیوں نہیں؟ تم سوچتے کیوں نہیں؟ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ دعوت ہر

!ا س انسان کے لیے نہیں جو سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو کس کے لیے ہےآان اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ نہایت اصرار کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ قر

آایات پر غور کریں ی ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو اے نب(۔۸۳:۹۲اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں)ص

آان ، عباد الرحمن کی یہ صفت بیان کرتا ہے :اسی طرح ، قرآایات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں رہ جاتے)فرقان جنھیں اگر ان کے رب کی

آانکھوں، کانوں اور قلوب کو۵۲:۳۷ (۔ اس کے بر�لاف ان لوگوں کو حیوانات سے بھی بدتر قرار دیتا ہے جو اپنی دیکھنے ، سننے اور غور و فکر کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

Page 47: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آانکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں

(۔۷:۹۷۱جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں)ال عراف آاپ سے کیا کہہ رہا ہے اور جب تک اسے جاننے آان کے معنی نہ سمجھیں، جب تک یہ نہ جانیں کہ اللہ آاپ قر جب تک

آان کے حقیقی �زانے اور عظیم برکات حاصل نہیں کر سکتے۔ آاپ قر کے لیے ذاتی طور پر �وب کوشش نہ کریں، رول کا طریقہ ہر ا دو

آان کو سمجھنے کی آان �تم کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، دراصل قر وہ حدیث، جس میں تین دن میں قر ضرورت واضح کرتی ہے یعنی اس صورت میں )تین دن میں( سمجھ نہیں پاؤ گے۔ جو شخص معنی نہیں سمجھتا یا جو اس پر غور و فکر نہیں کرتا اور اس ہدایت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ امام غزالی نے احیا¥ العلوم میں متعدد مثالیں

آاپ کو اس کام کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ مم اور تابعین کس طرح اپنے دی ہیں کہ صحابہ کراآان ایسے شخص پر آان پڑھتا ہے ، لیکن قر مس بن مالک نے کہا: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص قر ایک دفعہ حضرت انآان سمجھنا ایمان کی علامت مر کے نزدیک قر لعنت کرتا ہے، کیوں کہ وہ اسے سمجھتا نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمآان آاگیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کو ایمان لانے سے قبل مکمل قر ہے۔ بہت زمانہ گزر چکا ہے ۔ ایسا وقت آا�ر تک تمام صفحات پڑھ جاتا ہے۔ نہ اسے اس کے احکامات کی �بر ہوتی ہے، نہ ڈراووں دیا جاتا ہے۔ وہ فاتحہ سے کی اور نہ ان مقامات کی جہاں اسے توقف کرنا چاہیے۔ وہ اس پر سے اس طرح پھلانگتا ہے، جس طرح کوئی جلوس

آان کو بڑ بڑانے کے انداز سے پڑھتے سنا تو فرمایا: اس مہ نے ایک شخص کو قر میں بھاگنے والا پھلانگتا ہے۔ حضرت عائشآان کے پڑھنے پر غور نہ کیا جائے ،اس کے پڑھنے م کا قول ہے: جس قر آان کو پڑھا ، نہ �اموش رہا۔ حضرت علی نے نہ قر

آایت تلاوت کرتا ہوں اور پھر راتیں اس کے ساتھ بسر۴،۵میں کوئی �یر نہیں۔ ابو سلیمان دارانی کہتے ہیں: میں ایک آایت پر اس کرتا ہوں، اگلی

آایت پر اپنا تدبر مکمل نہیں کر لیتا۔ آاتا جب تک کہ زیر غور وقت تک نہیں آان ہر شخص کے لیے کتاب ہدایت ہے تو جس طرح ایک سرتاپا عالم فاضل ہدایت پانے کا استحقاق ظاہر ہے کہ اگر قر

رکھتا ہے اسی طرح ’جزیرے‘ کا ایک باشندہ بھی ہدایت کا مستحق ہے۔ اساتذہ یا کتابیں نہ ہوں تب بھی اس کا مفہومآاپ کو اس پر اپنا وقت لگانا چاہیے تاکہ اس آانا چاہیے۔ اجتماعی طور پر ، اور انفرادی طور پر واضح طور پر سمجھ میں کا فہم حاصل کریں، سمجھیں اور غور و فکر کر کے، اپنی زندگی کے لیے اس کے معنی سمجھیں اور معلوم کریں کہ

آاپ سے کیا کہتا ہے۔ �دا ذاتی مطالعے میں اندیشے

Page 48: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آانا لازمی ہیں، ان کو �وب اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور ان سے ضروری ہے کہ اس طرح کام میں جو �طرات پیش بچاؤ کے لیے مناسب اقدامات کر لیے جائیں۔

آان کا سمجھنا ایک وسیع اور کثیر الاطراف عمل ہے جس کی قسمیں ، سطحیں، درجات اور کئی رول: یا د رکھیے کہ قر اآاپ کو ان سب سے واقف ہونا چاہیے۔ اس لیے سمجھنا کہ دل کو غذا فراہم ہو اور اس لیے سمجھنا کہ فقہی پہلو ہیں۔

اا فرق ہوگا۔ نکات کا استنباط کیسے ہوتا ہے، ان دونوں میں لازمآاپ کو جانچئے اور اپنی صلاحیتوں اور �امیوں کو اچھی طرح پہچان لیجیے۔ مثال کے طور پر : ہدایت کے دوم: اپنے

آاپ کی پہنچ۔۔۔ ان سب آاپ کی نظر، مصادر تک آاپ کی گرفت، حدیث اور سیرت پر آانی ضابطے کا فہم، عربی پر قرکے بارے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ کر لیجیے۔

سوم: اپنے مقاصد کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیجیے اور اپنے مطالعے کے واضح اہداف طے کر لیجیے۔ کبھی بھی ایسا کامآاپ عربی زبان نہیں آاپ کی صلاحیتوں اور حدود سے ماورا ہو۔ مثال کے طور پر ، اگر کرنے کی کوشش نہ کیجیے جو

آاپ آاپ کو صرف درست لفظی معنوں تک محدود رکھیے۔ اگر جانتے تو صرف و نحو کے مسائل میں نہ ’الجھیے، اپنے آان سے آاپ قر کو اسباب نزول ، ناسخ منسوخ اور قدیم تفسیروں سے واقفیت نہیں ہے تو

آامد نہ کریں، یا کسی �اص موقف کی تائید یا اس پر تنقید نہ کریں۔ اپنی ذاتی فقہ برہج مطالعہ امت کے تسلیم شدہ مفہوم سے مختلف ہوں، ان کو حتمی نہ سمجھیں، نہ اس کی- آاپ کے جو نتائ چھارم:

آاپ کو اپنی رائے رکھنے سے منع کیا جارہا ہے، نہ اس کا انکار کیا جارہا اشاعت شروع کردیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آاپ ہے کہ علماکی رائے غلط ہوسکتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ اس کو مسترد کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے،

آاپ جو آاپ کو اس ذمہ داری سے بری نہیں کرتا ہے کہ کو زیادہ نہیں تو ان کے برابر قابلیت کا مالک ہونا چاہیے۔ یہ آان سے ا�لاقی طور پر درست پاتے ہیں، اس پر عمل کریں، اور جسے ا�لاقی طور پر غلط پاتے ہیں اس سے کچھ قر

احتراز کریں۔آاپ اکثر اپنے نتائج کے بارے میں شبہے میں ہوں گے۔ ایسی صورت میں جب تک پنجم: اپنے محدود علم کی وجہ سے آان کے کسی �دا ترس عالم باعمل سے اس پر گفتگو نہ کرلیں، اپنے �یالات آاپ مکمل تقابلی مطالعہ نہ کرلیں، یا قر کہ

کو حتمی شکل نہ دیں۔فہم کے درجات

آایت کے مطابق دو درجوں۔۔۔ تذکراور تدبر میں تقسیم کر سکتے ہیں آان کی درج ذیل آان کے مطالعے کو قر :ہم قرآایات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں)ص (۔۸۳:۹۲تاکہ یہ لوگ اس کی

تذکر

Page 49: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان میں کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مختلف طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے: متنبہ ہونا، نصیحت پانا، یاد تذکر قرآان کے پیغام اور اس کی آاپ قر کرنا، سبق حاصل کرنا، دل پر اثر لینا۔ اس سے وہ عمل مراد لیا جا سکتا ہے جس میں

آاپ کے لیے آاپ یہ جانیں کہ تعلیمات کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آاپ سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ اسے دل تک جانے دیا جائے تاکہ قلب و ذہن اور عمل کے حوالے ان کا مطلب کیا ہے، وہ

آا�ری بات یہ کہ متعین کیا آائے، اس کے مطابق عمل کرنے کا عزم ہو۔ اور سے مناسب تبدیلی ہو۔ جو کچھ علم میں جائے کہ دوسرے انسانوں کو کیا پیغام پہنچانا ہے۔

می درجے کی معاونات کی تذکر فہم کی ایسی قسم ہے جسے اپنی اصل نوعیت کے حوالے سے حصول علم کے اعلآاپ کو ہر لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں، تمام اہم اور کلیدی الفاظ کے مکمل مفہوم کو جاننے کی حاجت نہیں ہے۔

آاپ کے لیے ہے۔۔۔ زندگی اا وہ پیغام جو آایت نہ سمجھتے ہوں لیکن مجموعی پیغام ، �صوص آاپ ہر قابلیت نہ رکھتے ہوں، آاجائے۔ کیسے گزاری جائے؟ واضح اور روشن ہو کر سامنے

آان کو سب سے پہلے سننے والوں نے اس کو سب سے زیادہ سمجھا اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ وہ شہر قر کے تاجر، کاشت کار، گلہ بان، شتر سوار اور بدو تھے۔ ان کی بغلوں میں تفاسیر، لغت اور صرف و نحو کی موٹی موٹی

آاثار قدیمہ، بشریات اور عمرانی اور فطری علوم پر دست رس حاصل کتابیں نہ تھیں۔ نہ انھیں فلسفے، تاریخ، جغرافیے، آان کے پیغام کو دل سے قبول آان سمجھنے میں سب سے زیادہ کامیاب تھے۔ انھوں نے قر تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ قر کیا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا شروع کردی۔ اس لیے فہم کی یہ قسم، ہر اس شخص کے لیے دستیاب ہے، اور ہونا

چاہیے جو اس کے لیے کم سے کم ضروری شرائط پوری کرتا ہے۔ وہ کیا پاتا ہے، اس کی شدت اور درجہ اس کی صلاحیت اور کوشش پر منحصر ہوگا۔ یقینا حصول علم کی معاون چیزوں سے اس عمل میں نئے پہلوؤں کا اضافہ ہوگا،

زیادہ رسوخ حاصل ہوگا، نئی بصیرت ملے گی۔۔۔لیکن یہ لازمی نہیں ہیں۔آاسان ہے ، ہر مخلص متلاشی کے لیے یہ موجود ہے اگر وہ صرف آان واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ اسے سمجھنا قر

آان ہر دیکھنے والے سننے والے سوچنے والے کو سمجھ کر پڑھے ، اور اس پر غور کرے۔ یہ وہ تذکرہے جس کی طرف قرآایات اس مفہوم میں ہیں :دعوت دیتا ہے۔ یہ

آاسان ذریعہ بنا دیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا )القمر آان کو نصیحت کے لیے ہم نے اس قر۔(۴۵:۷۱

(۔۴۴:۸۵ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں سہل بنادیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں)الد�ان آائیں)الزمر آان میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں (۔۹۳:۷۲ہم نے اس قر

(۰۵:۷۳اس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا توجہ سے سنے)ق

Page 50: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کا اصل بنیادی مقصد ہے۔ تذکرکے ذریعے ہدایت نور اور شفا حاصل تذکر فہم کی کوئی نچلی سطح نہیںہے۔ یہ قرآاپ �ود ذاتی طور پر ایسے ذر و آاپ کو اپنی پوری زندگی کوشش کرنی ہوگی اور اس عمل کے ذریعے کرنے کے لیے

جواہر جمع کرتے رہیں گے جو کبھی �تم نہ ہوں گے۔تدبر

آایت اور سورہ کے مکمل معنی معلوم کرنے کی آاپ ہر لفظ، ہر فہم کا ایک دوسرا درجہ تدبر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آاپ متن کا نظم اور اس میں جاری کوشش کریں۔ اہم الفاظ ، تشبیہات اور مثالوں میں پنہاں مکمل معنی دریافت کریں۔

آاپ مرکزی موضوعات کا تعین کریں، شان نزول ، تاریخی پس منظر اور لغت کی باریکیوں میں جائیں۔ وحدت معلوم کریں۔آاپ اور ارد آاپ بندے کے، اپنے �دا، دوسرے انسانوں، �ود اپنے آاپ مختلف تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کریں۔ پھر یہ کہ آاپ افراد اور معاشرے کے لیے قوانین اور ا�لاقی اصول مستنبط گرد کی دنیا سے تعلق کے تمام مضمرات دریافت کریں۔

کریں۔ ریاست و معیشت کے لیے قواعد و ضوابط، تاریخ اور فلسفے کے اصول اور انسانی علم کی موجودہ سطح کے لیےآان کے مختلف علوم کا آاپ کے اہداف و مقاصد کے لحاظ سے قر مضمرات معلوم کریں۔ اس طرح کے مطالعہ کے لیے

وسیع اور گہرا علم درکارہو گا۔تذکر اور تدبر، فہم کی دو ایسی علیحدہ قسمیں نہیں جن کا ایک دوسرے سے تعلق نہ ہو یہ ایک دوسرے میں شامل

ہوتی ہیں۔آاپ کے مقاصد

آاپ کے مقاصد کیا ہونا چاہییں؟آان ظاہر ہے کہ ہر فرد کے مقاصد مختلف ہوں گے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق، تذکر ہر مسلمان کے لیے فرض ہے جو قر

سمجھنے کا اہل ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس لیے، ایک اوسط تعلیم یافتہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو اپنی صلاحیتوں اورآاپ کا اولین اور اہم ترین مقصد تحدیدات کی روشنی میں اللہ سے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے، تذکر

ہونا چاہیے۔آاپ کو دے آان جو پیغام آاپ دراصل اپنے ذہن و قلب کو جلا بخشنے، ایمان میں اضافہ کرنے، قر یاد رکھیے کہ تذکر میں

رہا ہے اسے معلوم کرنے، اس طرف دل کو متوجہ کرنے اور اسے یاد کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنی ساری محنتوں کےآاپ کیا بنیں اور کیا کریں۔ آاواز سننے کے قابل ہونا چاہیے: وہ کیا چاہتا ہے کہ آاپ کو �دا کی نتیجے میں

فہم کی سطحیں اور شکلیںآان کی مختلف سطحیں ہوسکتی ہیں آاپ کے فہم قر :

آاتی آاپ کو آاپ کوئی ایسی کتاب پڑھیں جس کی زبان آاپ اس کا سادہ لفظی مفہوم اس طرح سمجھیں جیسے کہ رول: اآان پڑھ کر سمجھے۔ ہے، جیسے کوئی عربی جاننے والا قر

Page 51: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ معلوم کریں کہ اہل علم نے اس سے کیا سمجھا ہے: ان کے بیان سن کر، یا ان کی تفاسیر اور دوسرے ما�ذ دوم: سے استفادہ کر کے۔

آاپ تذکر کی آاپ مطالعے اور غور و فکر کے ذریعے اس کا مفہوم معلوم کریں اور اسے جذب کریں تاکہ سوم: ہس ضرورت ہے، تو تدبر کی سطح حاصل کریں۔ آاپ کے اندر صلاحیت اور احسا سطح تک پہنچیں۔ اگر

آاپ کو سونپتا ہے، انھیں پورا کر کے اس کے چھارم: اس کے احکامات کی اطاعت کر کے اور جو فرائض اور مشن یہ حقیقی معنی دریافت کریں۔

بنیادی شرائطاپنی کوششوں کو مفید اور نتیجہ �یز بنانے کے لیے کچھ بنیادی شرائط کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔

عربیآان کے معنی سمجھ سکیں۔ یہ پہلا آاپ قر رول: اتنی عربی سیکھنے کی کوشش کریں کہ کسی ترجمے کی مدد کے بغیر ا

قدم ہے اور سب سے ضروری شرط۔ یہ بہت مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایک دفعہ سنجیدگی اور لگن سے شروع کردیا جائے تو نیم �واندہ افراد بھی محض چند ماہ میں یہ مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی استاد یا صرف کسی مناسب کتاب کی مدد

آاپ یہ۴ گھنٹے )۰۲۱سے مطالعہ کے گھنٹے روز کے حساب سے ایک ماہ( سے زائد اس کے لیے درکار نہ ہوں گکہ آان کے مطالعے کی اپنی کوششوں کو عربی جاننے تک ملتوی نہ آاپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ لیکن قر آان جان سکیں کہ قر

آان پڑھنے کیجیے۔ کوئی اچھا ترجمہ، یا جو بہترین دستیاب ہے، لیجیے اور اپنا کام شروع کردیجیے۔ یہ، سمجھے بغیر قرسے، بہرحال بہتر ہے۔

آان پڑھنا پورا قرآاتی ، تو آان پڑھ ڈالیے۔ اگر عربی نہیں آا�ر تک پورا قر دوم: سب سے پہلے صرف لفظی معنی سمجھتے ہوئے شروع سے

ترجمے کی مدد سے۔آان پاک کی ایک مہینے میں مکمل تلاوت کا �صوصی منصوبہ بنائیں۔ اس میں روزانہ آاپ قر ۲اچھا تو یہ ہے کہ

آاہستہ کرسکتے ہیں مگر اس طرح کا طائرانہ آاپ اپنی سہولت کے مطابق رفتار گھنٹے سے زیادہ نہ لگیں گے۔ اس کے بعد آاداب آاپ کے لیے مناسب ہو)جیسا کہ مطالعہ کے آاپ کو ساری زندگی جاری رکھنا چاہیے، جس رفتا ر سے بھی مطالعہ

آاپ پڑھ چکے ہیں(۔ کے حوالے سے آاپ کو آان کی ایک ابتدائی باترجمہ تلاوت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے آان کے گہرے مطالعے سے قبل، پورے قر قر

آان کے مجموعی پیغام، اس کی زبان اور طرز بیان، دلیل، استدلال اور تعلیمات اور احکامات کا کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ قرآان سے مانوس ہوجاتے ہیں، اس کی مربوط وحدت کو محسوس کرتے ہیں، اور اس کو ایک آاپ قر باقاعدہ مطالعے سے

Page 52: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کسی چیز کی اکائی کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے مطالعے سے اس بات کا اندیشہ کم ہوجاتا ہے کہ آان تک اس کے مضامین اور سیاق سے اپنی واقفیت آان کے مجموعی مفہوم کے مطابق نہ ہو۔ جو قر ایسی تعبیر کرلیں جو قر

آان کے متن سے کے بجائے محض اشاریوں کے ذریعے پہنچنا چاہتے ہیں، وہ اپنی تعبیر میں غلطی کر سکتے ہیں۔ قرآایات اور الفاظ کے علیحدہ علیحدہ معنی باقاعدہ ربط میں رہنا اس کے مجموعی فہم کے لیے ضروری کلید ہے۔ یہ

آان کی عبارت کو آاپ قر سمجھنے میں بہت زیادہ مددگار ہوگا۔ مسلسل اور دیر پا تعلق کے نتیجے میں اکثر ایسا ہوگا کہ اچانک اپنے سے باتیں کرتا ہوا اور اپنے سوالوں کا جواب دیتا ہوا محسوس کریں گے۔

آان کے لیے مختلف طریقے ا�تیار آاپ مطالعہ قر درحقیقت کسی ایک ہی وقت میں، مختلف مقاصد حاصل کرنے کے لیے آاپ تیز تیز پڑھنے میں مصروف ہو سکتے ہوں گے یا کسی کر رہے ہوں گے۔۔۔ کسی متعین وقت میں �تم کرنے کے لیے آایت کا مفہوم معلوم کرنے کے لیے گھنٹوں صرف کر رہے ہوں گے۔ ایک ہی حصے کے مفہوم ایک لفظ، یا کسی ایک

آاہستہ ، یا ایک دفعہ پورے میدا ن سے آاپ بار بار اس کی تلاوت کر رہے ہوں گے، کبھی تیز، کبھی پر غور کرنے کے لیے آان کے صفحات ’الٹ پلٹ رہے ہوں آاپ پورے قر واقف ہونے کے بعد کسی ایک موضوع پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آاپ �ود غور وفکر کر رہے ہوں تو کم وقت لگے گا، لیکن طویل اور مختصر تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کر رہے ہوں تو گے۔

مختصر حصے کے مطالعے میںبھی بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

تفاسیر کا مطالعہآاپ کو مناسب لگتی ہے، اا کم رفتار سے جو آان کو ایک دفعہ سمجھ کر پڑھ چکے ہیں اور اب نسبت آاپ پورے قر سوم:

باقاعدہ مطالعہ کررہے ہیں۔ اس مرحلے پر کوئی مختصر قابل اعتبار تفسیر یا حواشی لے لیں اور اس کا مطالعہ کریں۔ عربی،’اردو اور دوسری زبانوں میں متعدد مختصر تفاسیر موجود ہیں۔

آان کے آاپ نے اب تک �ود حاصل کیا ہے، مختصر حواشی کا مطالعہ اس کی نسبت زیادہ تفصیلی نظر قر جو کچھ آاپ �ود اپنے غوروفکر سے دریافت نہیں آاپ کو دے گا۔ یہ بعض ایسے اہم میدانوں تک پہنچائے گا جنھیں بارے میں

آاپ کی بعض غلطیوں کی اصلاح کرسکتے تھے: زبان، طرز بیان، استد لال، تاریخی پس منظر، تفصیلی مفہوم۔ اس سے بھی ہو سکتی ہے۔

آاپ مختصر تفاسیرتک ہی آاپ کو مدد کی ضرورت ہو تو آان کے ذاتی تفصیلی مطالعے میں جب کوشش کریں کہ قرآاغاز میں طویل اور مفصل تفاسیر میں نہ الجھیں۔ ان کی طویل بحثیں اکثر �دا کے کلام سے محدود رہیں۔ کم سے کم

آاپ کے براہ راست زندہ تعلق میں دیوار بن جاتی ہیں۔ اگر مکمل تفسیر دستیاب نہ ہوتو جزوی تفاسیر پڑھیے۔ اسلامی آان پر مرکوز ہو، اسے �صوصی طور پر توجہ سے دیکھیے۔ لٹریچر کے مطالعے کے دوران، مباحث اور نتائج میں جو چیز قر

آان میں بڑی مدد ملے گی۔ آاپ کو اس طرح کے لٹریچر سے، بہت منتشر ہونے کے باوجود ، فہم قر

Page 53: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

یاد رکھیں کہ ایمان کو تقویت دینے کے لیے اور زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہدایت طویل تفاسیر کے مطالعے کے بغیرآاپ کو مل سکتی ہے۔ صرف کسی الجھن کو دور کرنے، کسی باریک نکتے کی تحقیق کرنے، یا کسی شبہ کو دور ہی

آاپ کو تفسیر سے مدد لینے کی ضرورت پڑے گی۔ کرنے کے لیے

منتخب حصوں کا مطالعہآاپ میں آا�ر تک جائیں۔ انشا¥ اللہ آان کا مطالعہ شروع کریں اور آاغاز سے قر آاپ بالکل چھارم: مثالی صورت تو یہ ہے کہ آاپ میں سے بیش تر کے لیے یہ دن ابھی بہت دور ہو، یہ آاغاز کریں گے، لیکن شاید سے کچھ ضرور ایک دن اس کا

آاپ کو اپنا مطالعہ جتنی جلد ہو سکے شروع کر دینا چاہیے۔ آائے ہی نہیں۔ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دن آایت ہی کا انتخاب کریں اور ان کا تفصیل سے مطالعہ اس مقصد کے لیے کچھ مختصرحصوں، مخصوص سورتوں یا ایک

آاپ کے لیے ضروری ہوگا۔ آاپ دعوت اور اپنی تربیت کے کام میں مصروف ہیں تو بعض حصوں کا مطالعہ کریں۔ اگر آاپ تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں گے۔ آاجائیں گے جن کا بعض اوقات باقاعدہ مطالعے کے دوران ایسے حصے سامنے

آاپ کسی ایک مرکزی موضوع کی مناسبت سے بنائے ہوئے باقاعدہ نصاب کے مطابق بھی یہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔ لیکن آاپ کو معلوم ہوکہ مطالعہ کیسے کرنا ہے، اس کی نہیں کہ کس جگہ آاغاز کر دیں اور اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ

آاغاز کریں۔ )اس کتاب کے ا�تتام پر بعض حصے تجویز کیے گئے ہیں (سے مطالعے کا آاپ کو بہت سے فائدے ہوں گے آاغاز کے لیے منتخب حصوں سے :مطالعے کے

آاپ پیش آان کے ساتھ اپنے سفر کے اہم ترین مرحلوں میں سے ایک میں تذکرکا نہایت ضروری تعلق قائم کرکے الف۔ قررفت کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ غیر معین مدت تک کے لیے انتظار کریں۔

آان کے ان حصوں کو سمجھنے میں مدد آاپ کو قر آاجائیں گے جو آاپ کو ایسے اہم طریقے، کلیدیں اور سراغ ہاتھ ب۔ آان اپنے پیغام کو مختلف شکلوں میں بیان کرتا اا تفصیل سے نہیں کرسکتے۔ اسی لیے قر آاپ فور دیں گے جن کا مطالعہ

(۔۹۳:۳۲ہے)الزمر آان کو صحیح راستے پر رکھنے کے آا پ کے فہم قر آان کے مجموعی نظام کا بہتر تصور حاصل کر لیں گے جو آاپ قر ج۔

لیے ضروری ہے۔آان کا پیغام پہنچانے کے لیے بہتر اہلیت حاصل کر لیں گے۔ آاپ دوسرے انسانوں کو قر د۔

منتخب حصوں کا تفصیلی مطالعہ عام مطالعے کا بدل نہیں ہوسکتا، جس کے فوائد ، نوعیت اور اہمیت کے لحاظ سےآان کے طویل حصوں کی تلاوت کو کبھی ترک نہ کریں۔ جیسا کہ پہلے بھی زور دے کر بتایا گیا مختلف ہیں۔ اس لیے قر

آاپ کا فہم اور تصورات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہے، تفصیلات پر توجہ دینے اور مجموعی کل کو نظر انداز کرنے سے بار بار پڑھنا

Page 54: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو اسے بار بار پڑھنا چاہیے۔ اس کو ایسا معمول بنالیں آاپ نے مطالعہ کے لیے منتخب کیا ہے، پنجم: جو حصہ جس کی ہمیشہ پابندی کرنا ہے۔ جتنی دیر ممکن ہو اس کے ساتھ ٹھہریں، اس کے ساتھ رہیں، اس میں سکونت ا�تیار

کریں اور اپنے دل و دماغ کو اس کا مسکن بن جانے دیں۔ اس طرح کا طویل تعلق حقیقی معانی سمجھنے کے لیےآاپ کو ان پر غور و فکر آاپ کی زبان پر رہیں، آاپ کے دل پر نقش ہوں اور آانی الفاظ لازمی کلید ہے۔ جیسے جیسے قر

آاپ نے مطالعے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، بلکہ کرنا ، سہل تر محسوس ہوگا۔ پھر صرف اس وقت پر ہی نہیں جو آاپ کے آایات آان کے الفاظ اور آاشکار کرے گا، اس لیے کہ قر آاپ پر آان اپنا مفہوم روزمرہ زندگی میں چلتے پھرتے بھی قر

آاتے رہیں گے۔ ذہن میں پلٹ پلٹ کر متلاشی ذہن

آاپ ششم:سوال کرنے والے ذہن ، تلاش کرنے والی روح اور معانی کے لیے بے تاب دل کو نشوونمادیجیے۔ جیسا کہ کانوں اور قفل لگے دماغوں سے آان اندھے اعتقاد کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اسے بند ذہنوں اور جانتے ہیں ، قر

آان میں پھیلا ہوا موضوع ہے۔ آان کا سب سے زیادہ پر زور اور سارے قر مطالعہ نہ کیا جائے۔ غوروفکر کی دعوت قر یاد رکھیں سوال کرنا، معنی سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی کلید ہے۔ اس لیے ہمیشہ جتنے بھی ضروری سوال ہیں،

آایت کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اس سے کیا دوسرے معانی مراد لیے ضرور اٹھائیے۔۔۔مثال کے طور پر: اس لفظ یا آایت کا سیاق و سباق کیا ہے؟ جاسکتے ہیں؟ تاریخی پس منظر اور شان نزول اگر معلوم ہے تو کیا ہے؟ ہر لفظ ،حصے یا

آایات کے مفہوم سے کیا ربط ہے؟ کس دا�لی نظم اور موضوعاتی وحدت کو تلاش کیا آایت کا پہلے اور بعد کی ہر جاسکتا ہے؟ کیا کہا گیا ہے؟ کیوں کہا گیا ہے؟ اس کے عام و �اص مضمرات کیا ہیں؟ بڑے موضوع کیا ہیں؟ مرکزی

آاج اس کا کیا پیغام ہے؟ اپنے سوالات کو نوٹ کر لیں اور جیسے جیسے مطالعہ موضوع کیا ہے؟ میرے لیے، ہمارے لیے، جاری رکھیں، ان کے جواب تلاش کرتے رہیں۔

آاپ حاصل کر سکیں نہ کسی کی مدد اا نہ ملیں، نہ �ود آاپ کو ان کے جوابات فور سوالات اٹھانے سے ڈریے نہیں۔ آاپ جو کچھ بھی پائیں، اس سے فائدہ ہی ہوگا۔ سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جواب حاصل کرنے کی کوشش میں

آاپ کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔ آاپ بعض اصولوں کا �یال رکھیں تو اگر آال عمران ( سے۳:۷الف۔ ایسے سوالات نہ پوچھیں جن کے جواب انسانی فہم سے بالا ہیں یا جن کا تعلق متشابہات )

اا عرش کس طرح کا ہے۔ ہے مثلآاپ کی زندگی سے ب۔ بال کی کھال نہ نکالیں، اور نہ ایسے سوالات پوچھیں جن کا زیر مطالعہ حصے کے حوالے سے

کوئی تعلق بھی نہ ہو۔ج۔ ایسے جواب نہ دیں جو مناسب یا ضروری علم یا مضبوط استدلال پر مبنی نہ ہوں۔

Page 55: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ اپنی بہترین کوشش کے باوجود سمجھ نہ سکیں، انھیں آاپ جواب نہ پاسکیں، جنھیں د۔ ایسے سوالات جن کے آاپ کو کسی کتاب یا استاد آائے گا کہ آان کی دوسری باتوں کی طرف توجہ دیں۔ وقت کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیں اور قر

سے رہنمائی ملے گی یا �ود ہی جواب مل جائیں گے۔آان کے اندر کافی مثالیں موجود ہیں کہ اولین ایمان لانے والے کس طرح سوالات کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سی �ود قر

اور ان کے صحابہ سوالات اور غورو فکر کی حوصلہ افزائی کرتے اہم اور راہ نما مثالیں ہیں کہ کس طرح حضور نبی کریمتھے۔

مطالعہ کی معاوناتآاپ کو فراہم آاپ کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ کوشش کیجیے کہ جتنی ھفتم:مطالعے میں مدد دینے کے لیے

ہوسکتی ہیں ہو جائیں۔۔۱ آاپ کو ضرورت ہوگی۔ یہ تلاوت آان ہونا چاہیے۔ یہ کم سے کم ہے جس کی آاپ کے پاس ایک اردو ترجمہ قر کے لیے اور مطالعہ کے لیے استعمال کیجیے۔ اگر یہ مناسب سائز کا ہے تو مختلف حصے حفظ کرنے کے لیے بھی

استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ �یال رہے کہ یاد کرنے کے لیے ہمیشہ یہی ایک نسخہ استعمال کیجیے، ورنہ دہرانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ یہ یاد رکھیے کہ کوئی بھی ترجمہ نہ کامل ہوسکتا ہے نہ بالکل صحیح ہوسکتا ہے۔ ہر ترجمے میں مترجم کی

آان کا ’’مستند‘‘ ترجمہ نہ ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ جانب سے تفسیر و تعبیر کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ قر۔۲ آاپ کے آان حاصل کیجیے۔ لیکن ایک اسی نسخے میں مختصر تشریح ہو، یا اس مقصد کے لیے کوئی دوسرا قر

آاپ کے ابتدائی بنیادی مقاصد کے لیے کافی ہونا چاہییں ۔ پاس ہونا ضرورچاہیے۔ ایک ترجمہ اور ایک قابل اعتماد تفسیر ۔۳ آاپ کے پاس ایک سے زائد ترجمے اور تفسیریں ہوں آاپ کو مفید محسوس ہوگا کہ یہ ضروری تو نہیں ہے، لیکن

آاپ الفاظ کے دو مختلف معنی تلاش کر سکیں جو مختلف مفسرین نے سمجھے ہیں۔ تاکہ ۔۴ آاپ کے پاس ایک مفصل تفسیر ہونا چاہیے۔ زیادہ گہرے مطالعے کے لیے

۔۵ آاپ الفاظ کے معنوں کی آاپ کے پاس ہو، تاکہ آانی لغت، اا قر عربی کی ایک اچھی لغت، ترجیحگہرائی میں جاسکیں۔

۔۶ آا�ر میں ملے ایک اشاریہمعجم بھی رکھیے۔ مطالعے کے لیے کچھ دوسری ، معاونات کا تذکرہ اس کتاب کے (گا

مطالعہ کیسے کریں؟ کسی منتخب حصے کے تفصیل سے مطالعہ کرنے کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ طریق کار ذیل میں تجویز کیا جاتاہے۔ اس کےآاپ کو شاید بہتر لگے کہ اپنی صلاحیتوں اور تحد یدات کے مطابق �ود اپنا کوئی لیے کوئی متعین قوائد و ضوابط نہیں۔

Page 56: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاغاز کریں آاپ ایک منظم طریقے سے آاپ کے لیے زیادہ مفید ہو۔ اصل اہمیت اس با ت کی ہے کہ طریق وضع کریں جو :اور ذیل میں درج ترتیب کے مطابق چلنے کی کوشش کریں

ہت آاپ سمجھ سکتے ہیں، اسے سمجھنے کے لیے معاونا اا جو کچھ آاپ زیر مطالعہ حصے کا �ود مطالعہ کریں۔ ثانی اا اولاا دونوں ذرائع سے اپنے مطالعے کو زیادہ سے زیادہ مکمل مطالعہ سے مدد لیں یا کسی اہل استاد کے پاس جائیں۔ثالث

مطالعے تک ، جس حد تک ممکن ہے، لے جانے کی کوشش کریں۔پہلا مرحلہ: اپنے کو مانوس کیجیے اور اپنے مسائل کو متعین کیجیے۔

۔۱ آاپ کو یا د ہو اسے جلدی جلدی ذہن میں دہرا بنیادی شرائط اور دا�لی شرکت کے حوالے سے جو کچھ آاپ جو کچھ مطالعہ کرنے والے ہیں، اس آاپ کے ساتھ ہے، اس سے دعا کیجیے کہ لیجیے۔ محسوس کیجیے کہ اللہ

آاپ کی مدد کرے۔ میں وہ ۔۲ آاپ اس کے مطلب سمجھتے ہوئے کم سے کم تین دفعہ اس کی تلاوت کیجیے، یا اتنی دفعہ کہ بغیر دیکھے،

آاپ نے گویا انھیں جذب کرلیاہے اور جب چاہیں ان پر غور و فکر کر سکتے بنیادی مضامین کو ذہن میں لاسکیں۔ اب ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ الفاظ کی تعبیر کی تلاش شروع کرنے سے پہلے ان کے معانی �وب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں۔

۔۳ آاپ سمجھ سکتے ہیں، انھیں لکھ لیجیے۔پھر ان کا متن سے تقابل متن کو پڑھے بغیر ، تمام اہم نکات جو کر کے نظر ثانی کیجیے۔

۔۴ آائے تو اسے لکھ لیجیے۔ اگر کوئی مرکزی موضوع نظر ۔۵ آاپ کے �یال میں ایک ہدایت یا ہدایت کے ایک عبارت کو اتنے مختصر حصوں میں تقسیم کر لیجیے جو

مجموعے کے حامل ہیں۔۔۶ آاپ معنی سمجھنے میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں، ان سب پر نشان جن الفاظ، یا جملوں کو

لگالیجیے۔۔۷ سوالات قائم کریں، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور انھیں لکھ لیجیے۔

آاپ نے جو پڑھا ہے، اس پر غور کر کے اپنے سوالات کے جواب �ود دینے کی کوشش کیجیے۔ اگلے دوسرا مرحلہ: حصے میں جو رہنما �طوط دیے گئے ہیں ان کی روشنی میں اس کا مفہوم اور پیغام سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

۔۸ معلوم کریں کہ اہم الفاظ کا کیا مطلب ہے؟۔۹ آایت کے ٹکڑے کا مفہوم متعین کیجیے۔ آایت یا ہر

۔۰۱ آائی ہے۔ کیا نظم اور وحدت آائی ہے، یا بعد میں کیوں ان کے باہمی ربط پر غور کیجیے، کوئی بات پہلے کیوں پائی جاتی ہے۔

Page 57: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

۔۱۱ آان کے مجموی سیاق میں معلوم عبارت کا مطلب، فوری سیاق میں ، سوالات کے وسیع تر سیاق میں،اورقرکیجیے اور سمجھئے۔

متعین کیجیے کہ اس سے کیا کیا مختلف ہدایات اور تعلیمات ا�ذ کی جاسکتی ہیں۔ ۔۲۱۔۳۱ سوال کیجیے یہ مجھ سے کیا کہتا ہے؟ اس کا تقاضا ہمارے زمانے سے کیا ہے؟

۔۴۱ آاپ سے ، امت مسلمہ سے اور پوری انسانیت سے کیا کرنے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ سوچیے کہ آاپ کے پاس ہیں ان کی مدد سے اور اساتذہ کی مدد سے تیسرا مرحلہ :جو کچھ بھی مطالعہ کی معاون چیزیں

آاپ نے جو کچھ �ود سے سمجھا تھا اس پر نظر ثانی کر۸۴۱معنی معلوم کیجیے اور مرحلہ دوم ) ( سے گزر جائیے۔۔۔ لیجیے، تصحیح کر لیجیے، تبدیل کر لیجیے، اضافہ کر لیجیے، توثیق کر لیجیے یا مسترد کر دیجیے۔

آاپ اس طرح سمجھے ہیں، اسے لکھ لیجیے یا قلب و ذہن میں محفوظ کر لیجیے۔ جو سوالات چوتھا مرحلہ: جو کچھ آاپ مطالعہ جاری رکھیں گے تو مزید رہ گئے ہیں، انھیں نوٹ کر لیجیے۔ کسی مفہوم کو حتمی اور مکمل نہ سمجھئے۔

معنی معلوم ہوتے رہے گے اور نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔معنی کیسے سمجھیں؟

آان کے معنی سمجھنے میں جو اصول اور رہنما �طوط پیش نظر رہنے چاہییںوہ متعدد ہیں اور ان سب پر تفصیل سے قر گفتگو کے لیے ضخیم کتاب کی ضرورت ہوگی۔ یہاں ہم نہایت ا�تصار سے صرف چند اہم اصولوں کی طرف توجہ

آاپ کے پیش نظر رہنے چاہییں۔ آان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے دلائیں گے جو قرعمومی اصول

زندہ حقیقت کے طور پر سمجھئےآاج کے جدید دور کے لیے آاج نازل کیا جارہا ہے۔ اس کو آان کے ہر لفظ کو اس طرح سمجھئے کہ جیسے یہ رول : قر ا

اتنی ہی متعلق اور زندہ کتاب سمجھئے جتنی یہ چودہ صدی پہلے اس وقت تھی جب نازل کی گئی تھی۔ ایک لحاظآان کی کسی سے، اگر یہ غیر متبدل اور ابد تک کے لیے ہے ، تو اب کوئی مختلف پیغام نہیں دے سکتی۔ اس لیے قر

آاپ اسے ہمیشہ زندہ رہنے والے اور ہر لمحہ اپنی مخلوقات کی حیات کا آایت کو محض قصہ ماضی نہ سمجھئے۔تب ہی انتظام کرنے والے حی و قیوم �دا کا زندہ کلام تصور کریں گے۔

آان آاپ کے ذہن اور عقل کو بھی قر آاپ کے قلب کی شرکت لازمی ہے۔ آاپ کے مطالعہ میں آاپ نے دیکھا ہے، جیسا کہ کے بارے میں سوچتے ہوئے اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس کے مضمرات

آان کی ہر بات کا اطلاق کر سکیں گے اور اپنی دنیا کو اس کی روشنی میں دیکھ آاپ قر بے پناہ ہیں۔ اس کی وجہ سے سکیں گے۔ کوشش کیجیے کہ یہ اطلاق اپنی زندگی سے اس کا تعلق اس روشنی میں قائم کر کے ہو۔ موجودہ پریشانیاںآان میں ملنا چاہیے۔ آاپ کے اسی زمانے کے علم اور ٹکنالوجی، تجربات اور سطحیں۔۔۔ سب کا جواب قر اور مسائل ، اور

Page 58: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کی برادری سے ہے۔ ایک دفعہ آاپ سے اور آان کے ہر پیغام کا �طاب دوم: اہم تر بات یہ ہے کہ یہ سمجھئے کہ قرآاپ کی ذاتی صورت حال میں کیا پیغام آایت آانی آاگے بڑھ جائیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہر قر آاپ کچھ جب آاپ نے پہلے دیکھا ہے کہ اپنی دا�لی شرکت بڑھانے کے لیے کس طرح پیش رفت کی جانی چاہیے۔ اب دے رہی ہے۔

آان سے قر آاپ کے ذہن کو کس طرح کھول دیتا ہے۔ ایک شخص رسول اللہ آان کے لیے آاپ دیکھیں گے کہ یہ فہم قر ان الفاظ تک پہنچے من یعمل مثقال ذر¬۔۔۔ تو اس آاپ نے اس کو سور¬ الزلزال کی تعلیم دی۔ جب آاپ آایا۔ سیکھنے پ نے فرمایا: یہ شخص ایک فقیہہ کی حیثیت سے واپس گیاہے۔ آا آادمی نے کہا: یہ میرے لیے کافی ہے۔ اور چلا گیا۔

)ابو داؤد(۔آاپ کے لیے کوئی ذاتی پیغام نہ آان کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں بلا شبہہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ قرآاپ کے اندر اسے تلاش کرنے کی فکر اور نظر ہونی چاہیے۔ �دا کی ہر صفت کا تقاضا ہے کہ اس کے مطابق ہو۔ بس اس سے تعلق استوار کیا جائے۔ زندگی بعد موت کا ہر بیان چاہتا ہے کہ اس کے لیے تیاری کی جائے۔ اس کے انعاماتآاپ کو اپنے اند ر شریک کی تمنا کی جائے۔ اس کی تکلیفوں سے بچنے کی �واہش اور کوشش کی جائے۔ ہر مکالمہ آاپ پیروی کریں یا پیروی کرنے سے بچیں۔ ہر حکم آاپ کے سامنے ایک نمونہ لاتا ہے کہ جس کی کرتا ہے اور ہر کردار

آاپ کے لیے کچھ پیغام رکھتا ہے ۔ عمومی آاپ کی موجودہ صورت حال میں بظاہر ناقابل اطلاق ہو، پھر بھی آانی، چاہے قرآاپ کے لیے �صوصی معانی رکھتے ہیں۔ �صوصی بیانات، واقعات اور حالات ہمیشہ ایسے عمومی اصولوں تک بیانات

آاپ اپنی زندگیوں میں اطلاق کر سکتے ہیں۔ لے جاتے ہیں جن کا کل کے ایک جزو کے طور پر سمجھئے

آایا ہے آان �ود اپنے اندر ایک اکائی ہے۔ یہ ایک وحی ہے۔ اگرچہ پیغام متفرق اور بہت زیادہ شکلوں میں سوم:مکمل قر لیکن فی الحقیقت ایک ہی پیغام ہے۔ اس کا ایک عالمی نظریہ ہے۔ ہدایت کا ایک مجموعی فریم ورک ہے۔ تمام حصے

رزل من اللہ ہونے کی ایک علامت ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ اس کے’ منآان پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ ا�تلاف پاتے)النسا¥ ۴کیا یہ لوگ قر

(۔۲۸:آاپ کو ہر چیز آاجائے ۔ پھر آا پ کی گرفت میں آاپ کوکوشش کرنی چاہیے کہ یہ واحد پیغام اور فریم ورک مکمل طور پر

آایت ہو، پیراگراف ہو آان کا ایک جزو سمجھنا چاہیے �واہ یہ ایک لفظ ہو، ایک کو اس پیغام یعنی ایک کتاب : مکمل قرآاپ جن آانی فریم ورک سے کوئی حصہ الگ نہ کیجیے ورنہ مسخ شدہ مفہوم تک پہنچیں گے۔ یا ایک سورت ہو۔ پورے قر

معنوں تک بھی پہنچیں، انھیں مطابقت کے لیے مجموعی سیاق و سباق میں رکھ کر جانچئے۔آاپ کو ان کا تجزیہ کر کے، الگ الگ کر کے، ہر لفظ اور ہر جملے کو علیحدہ منتخب حصوں کا مطالعہ کرتے ہوئے

آائے گی۔ پھر اس آاپ کے سامنے یک جا تصویر علیحدہ سمجھنا ہوگا مگر ان کو واپس ساتھ جوڑنا نہ بھولیے، اسی سے

Page 59: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ کو متضاد آاپ کا منتخب حصوں کا مطالعہ آان کے مجموعی پیغام کے سیاق میں رکھیے۔ اس کے بغیر تصویر کو قرآان کے حقیقی نقطہ نظر کی طرف رہنمائی پانے آاپ منتخب حصوں سے قر سمتوں میں لے جا سکتا ہے ۔ یہ نہ کریں تو

کے بجائے انھیں اپنے نقطہ نظر کی تائید میں استعمال کرنے کی غلطی میں پڑ سکتے ہیں۔آاپ کو آاپ کے زمانے اور حالات پر منطبق ہوسکیں، آاپ ان معانی کو تلاش کر رہے ہوں جو جس وقت

آان کی روشنی میں اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے آاپ قر آان کو بھی اپنے مطالعے میں لانا چاہیے۔ بصورت دیگر پورے قرآان کو عصری فکر کے مطابق ڈھالنے کی سنگین غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ بجائے، قر

آاپ نے آاغاز معجم کے ذریعے کیا جائے۔ جب تک آان کے مطالعہ کا درج بالا کی روشنی میں یہ مناسب نہیں ہے کہ قرآان کو کئی دفعہ �ود نہ پڑھ لیا ہو اور اس کے مجموعی فریم ورک کو مکمل طور پر نہ سمجھ گئے ہوں۔ کسی موضوع قرآاپ آایات جمع کرکے کسی موضوع کو زیر مطالعہ نہ لائیے۔ اسے تب ہی استعمال کیجیے جب کو معجم کے ذریعے

اپنے مطالعہ کی بنیاد پر حوالوں کی ضرورت محسوس کریں۔مربوط، یک جا متن کے طور پر سمجھئے

می پیمانے کا نظم اور آان میں اعل آاپ ظاہر ی طور پر ایک طرح کا عدم ربط دیکھتے ہیں، اس کے باوجود قر آان میں چھارم:قرآایت سے اور ہر سورت دوسری سورت سے مربوط ہے۔ آایت دوسری ربط موجود ہے۔ ہر حصہ دوسرے حصے سے، ہر

کا تبین موضوعات کی ظاہری تبدیلی کے پیچھے انھیں جوڑنے والا ایک دھاگہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہوحی کو ہدایت دیتے تھے کہ کس وحی کو کس مقام پر رکھا جائے۔

آاپ اس تک نہ پہنچ سکیں بلکہ آاپ کو یہ اندرونی ربط تلاش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے �واہ پہلی کوشش میں آان کو اس ربط کے حوالے سے سمجھا جائے گا آاپ پر اپنے کو ظاہر کرنے میں طویل وقت لے۔جب قر ہوسکتا ہے کہ یہ

آاپ پر ظاہر کرے گا۔ تب ہر حصہ اپنے مکمل تر معانی اپنے مکمل وجود کے ساتھ سمجھئے

آاپ آان کے مطالعے میں اپنے پورے وجود کو لگا کر معانی سمجھئے۔ دل و دماغ اور احساس و دانش نے مل کر پنجم: قرآان کوئی ایسا پارسل نہیں ہے جسے ذہن کی مدد سے کھولا جائے، نہ محض کوئی ایسا نمونہ کی شخصیت بنائی ہے۔ قر

آان کی طرف ایک منقسم شخص کی طرح نہ جائیں، جب حسن ہے کہ جمالیاتی لطف اٹھایا جائے۔ قرآانے دیں۔ آاپ اس کا مطالعہ کریں تو اپنی عقل یا جذبات کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑ دیں، دونوں کو ساتھ

آان جو بتاتا ہے، اسے سمجھئے قرآان کی طرف اس لیے نہ آان کو بتاتے ہیں۔ کبھی بھی قر آاپ قر آاپ کو بتاتا ہے اسے سمجھئے، نہ کہ وہ جو آان ششم:جو قرآاپ ہمیشہ کھلے ذہن جائین کہ اپنی رائے کی تائید، اپنے نقطہ نظر کی تصدیق، یا اپنے مقدمے کا ثبوت حاصل کریں۔

آاگے سر تسلیم �م کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آاواز سننے اور اس کے سے جائیں اور �دا کی

Page 60: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آارا کی حدود میں سمجھئے متفق علیہ Qآاپ سے پہلے افراد کا ایک سلسلہ ہے جنھوں آادمی نہیں ہیں۔ آاپ پہلے آان کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے والے ھفتم: قرآان کے قریب اس طرح آاپ کو قر آاپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لیے نے یہ کام کیا ہے اور قیمتی ورثہ تیار کیا ہے۔ نہ جانا چاہیے جیسے کوئی اس سے پہلے اس کے قریب نہ گیا ہو اور نہ اپنا راستہ سابقہ تفسیروں سے باہر بنانا چاہیے۔ ایسا

آاپ کی سنت کے �لاف ہو یا جو امت کے �لاف ہو۔ کے فرمان یا مفہوم بھی درست نہیں ہوسکتا جو رسول اللہآانے والے قیمتی ورثے سے بالکلیہ مختلف ہوں یا نئے ہوں، ان کی اساس علمی طور پر ایسے نتائج جو نسل بعد نسل

مضبوط ہونا چاہیے۔آانی معیارا ت سے سمجھئے صرف قر

آاپ ہے۔ اس کی اپنی زبان اور محاورہ ہے۔ آان پاک دوسری کتابوں کی طرح نہیں ہے۔ یہ ہر لحاظ سے اپنی مثال ھشتم: قر طرز ، منطق اور استدلال ہے اور سب سے بڑھ کر منفردمقصد اور اپروچ ہے۔ اس کو ایسے انسانی معیارات سے سمجھنا

آانی نہ ہوں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنے �الق کی طرف رہنمائی کی جائے اور �دا کے لاحاصل ہوگا جو قرساتھ ایک بالکل نیا تعلق قائم کرکے اس میں انقلابی تبدیلی پیدا

کر دی جائے۔ ہر بات اسی مقصد سے وابستہ ہے اور اسی مقصد کے گرد گھومتی ہے۔:اس کے کچھ اہم مضمرات ہیں

۔۱ اس کے معنی کے سمندر کی نہ کوئی تہہ ہے نہ کوئی کنارا۔ سچائی کے ایک عام متلاشی کے لیے کہ وہآائے، زندگی کیسے گزارے، جو معانی کافی ہیں وہ جب بھی صحیح جذبے سے اور صحیح طریقے سے اس کی طرف

آاسانی سے سمجھ سکتاہے۔ کسی نہ کسی درجے میں انھیں ۔۲ آادمی سمجھ سکتا ہے۔ اس نے وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو روز مرہ اس کی زبان ایسی ہے کہ ایک عام

زندگی میں استعمال ہوتے ہیں اور عام ہیں۔ یہ نئی ناقابل فہم اصطلاحات وضع نہیں کرتا، نہ فلسفہ ، سائنس، منطق یادوسرے علوم کی فنی اور علمی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ پرانے عام الفاظ کو بالکل نئے معانی دیتا ہے۔

۔۳ نہ یہ تاریخ کی کتاب ہے نہ سائنس کی۔ نہ فلسفہ کی نہ منطق کی۔ یہ ان سب کو استعمال کرتی ہے لیکنآان سے کرنے کی کوشش نہ انسان کو راستہ دکھانے کے لیے۔ اس لیے کسی حالیہ انسانی معلومات کی تصدیق قر

کیجیے۔ یہ معلومات اس کا مفہوم پانے کے لیے ضروری نہیں، گو فہم کو وسیع کرنے کے لیے ان سے ہمیشہ مدد لی جاسکتی ہے۔

۔۴ آان کا طرز استدلال انسان کے فطرت، تاریخ اور �ود اپنی ذات کے تجربات پر مبنی ہے۔ یہ اپنے سننے والوں قر کے لیے اسی دنیا سے بحث کرتا ہے جس کو وہ پہنچانتے ہیں اور ان مقدمات سے کام لیتا ہے جن کو وہ تسلیم کرتے

ہیں۔ اس میں یہ منفرد ہے۔ اس طرح وہ ان کے دل و دماغ کو فتح کرتا ہے اور ان کو تبدیل کر دیتا ہے۔

Page 61: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان سے سمجھئے آان کو قر قرآان ہے۔ بظاہر یہ اپنے بہت سے الفاظ اور مباحث کی تکرار کرتا ہے آان کی بہترین تفسیر �ود قر ،نھم: قر

اا کسی نئے مفہوم پر روشنی ڈالتی ہے یا لیکن یہ تکرار �وامخواہ نہیں ہوتی۔ کسی �اص لفظ یا بحث کی تکرار عمومآاپ کو کوشش کرنا چاہیے۔ کسی نئے پہلو پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ معانی سمجھنے کی

مہ، دین، آان کے اندر دیکھیے۔ مثال کے طور پر رب، ال آایت یا حصے کے معانی سمجھنے کے لیے �ود قر کسی لفظ، آان نے انھیں آاپ اگر ان مختلف سیاق میں مطالعہ کریں جن میں قر عبادت، کفر، ایمان، ذکر جیسے کلیدی الفاظ کو

استعمال کیا ہے تو ان کا مفہوم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔حدیث اور سیر ت سے سمجھئے

آان کی تشریح تھا۔ یہ انھوں نے اپنے قول و عمل سے کیا۔ اس لیے کے اہم فرائض میں سے ایک قر دھم: رسول اللہآان فہمی کا قیمتی ذریعہ ہے۔ نہ صرف وہ حدیث جس میں تفصیلی نکات ہیں بلکہ تمام حدیث و سیرت کا پورا سرمایہ قر

آایات کو سمجھنے آان کی ان احادیث مفید ہیں۔ مثال کے طورپر ایمان، جہاداور توبہ جیسے موضوعات پر احادیث ، قرآاپ کو بہت مدد دیں گی جہاں یہ موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔ میں

عربی زبان سے سمجھئےآاپ کی پہلی کلید زبان ہے۔ آان کے لیے یاز دھم: قر

۔۱ آان زبان سے اپنے کو واضح ، زندہ ک کے ساتھ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ قر آان کے فہم کے لیے سیرت پا یہ قرآاپ کے علم میں ہونی آان میں جو عربی استعمال کی گئی ہے ۔ اس کی کچھ �صوصیات اور قابل فہم بناتا ہے۔ قر

چاہییں۔آان کا انداز �طابت کا ہے، تحریر کا نہیں۔ ایک �طاب میں بہت سی باتیں اس مفروضے پر بیان نہیں کی جاتیں رول: قر ا

کہ براہ راست سننے والے انھیں بغیر کہے بھی سمجھنے میں کوئی دقت محسوس کریں گے۔ اس سے اس کی تاثیر اورطاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس لیے کہ سننے والے، مقر ر کے الفاظ اور اپنے ماحول

سے مسلسل رابطے میں ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ تفصیلات کسی تقریر کو بے اثر بنا دیتی ہیں۔ بعض وقت صیغے بھیآاپ کو ان تبدیلیوں کے لیے چوکنا ہونا چاہیے اچانک تبدیل ہوجاتے ہیں، اس سے بھی عبارت کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔آاپ کو ان مقامات کو اور متعین کرناچاہیے کہ کون کس سے مخاطب ہے۔ سلسلہ کلام اچانک منقطع بھی ہو جاتا ہے۔

پہچانناہوگا۔ دوم: یہی نہیں کہ عربی زبان اپنے بیان میں بڑی بلیغ ہے، اکثر اس میں جوڑنے والے الفاظ اور ٹکٹرے نہیں ہوتے۔ اس لیے

آاپ آاپ کو محتاط رہنا ہوگا۔ یہ ابہام ہوتا ہے، حذف ہوتا ہے اور اسی طرح کی دوسری �صوصیات جن کے بارے میں اپنے اساتذہ سے یا تفسیر کی کتابوں سے سیکھ سکتے ہیں۔

Page 62: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

سوم: الفاظ اور جملوں کے براہ راست لغوی معنی ان الفاظ یا جملوں کو الگ سے سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔آان کے محاورے ، ادبی انداز اور اس کے مجموعی فہم کا احساس اور شعور حاصل کرنا ہوگا۔ نزول وحی کے آاپ کو قر آاپ کی اس تک وقت کے عربی ادب سے واقفیت بہت زیادہ مدد گار ہوسکتی ہے۔ تاہم ایک مبتدی ہونے کی وجہ سے

رسائی نہ ہوگی۔طریق کار کے لیے ہدایت

آاپ کے لیے مفید ہوں گی۔ مذکورہ بالا عمومی اصولوں کے فریم ورک میں طریقہ کار کے حوالے سے کچھ ہدایت الفاظ کا مطالعہ

آاپ متن کے فہم کے لیے ضروری رول: سب سے پہلے ان الفاظ کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کیجیے جنھیں اآاپ کو اس سے رہنمائی ملے گی۔ ڈکشنری بھی آاپ کے پاس جو ترجمہ اور مختصر تفیسر ہے ابتدا میں سمجھتے ہیں۔ آان اور اس کا تصور دیکھیے لیکن ڈکشنری کے معانی کو کافی نہ سمجھئے۔ لفظ کا سیاق و سباق بحیثیت مجموعی قر

آاپ کا بہترین رہنما ہوگا۔(world view) جہاںمتن کا سیاق

آانی حصے کو اس کے متن کے سیاق میں پڑھیے اور یہ دوم: الفاظ اور ان کے راست لغوی معانی سمجھنے کے بعد قرآارہی سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ سابقہ اور مابعد حصے پڑھیے اور سمجھنے میں دقت پیش

ہو تو پوری سورت پڑھیے۔

تاریخی پس منظرآاپ حاصل کر سکتے ہوں، جمع کر لیجیے لیکن یہ یقینی طور پر سوم: جس قدر ضروری اور متعلقہ تاریخی معلومات

آاپ کو قیمتی معلومات آاپ کو ایسی احادیث ملیں گی جن میں اسباب نزول کا بیان ہے۔ یہ مستند ہوں۔ اس حوالے سے دیں گی مگر ذہن میں تین باتیں رکھیے: پہلی یہ کہ یہ احادیث نزول وحی کے وقت کے واقعے کو ہمیشہ ٹھیک ٹھیک

بیان نہیں کرتیں، بلکہ ان حالات کو بیان کرتی ہیں جن میں اس کو متعلق اور قابل اطلاق سمجھا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ نزول وحی کے حوالے سے متن کی گواہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، تاریخی معلومات قبول کرتے ہوئے اسے نظر انداز نہ کرناآاپ کے فہم میں رکاوٹ نہیں چاہیے۔ تیسرے یہ کہ متن کو اپنے موجودہ حالات پر منطبق کرتے ہوئے تاریخی معلومات کو

بننا چاہیے۔اصل معانی

چھارم: لغوی معانی سمجھنے کے بعد جہاں تک ہوسکے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ اس کے پہلے سامعین نےآاسان کام ہوسکتا ہے، لیکن چودہ صدیوں بعد دوسرے تہذیبی پس اس کا کیا مطلب سمجھا تھا۔لغوی معانی جاننا ایک

Page 63: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ منظر میں اصل معانی معلوم کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ ان مشکلات پر بحث کا یہ مقام نہیں ، میں صرف کو محتاط کررہا ہوں۔

اپنی صورت حال پر انطباقآاپ کا دوسرا کام یہ ہے کہ متن کو اپنی صورت حال کے حوالے سے پڑھیں اور سمجھیں۔ یہ بھی اتنا ہی بڑا کام ہے پنجم:

آان کے اندر اپنے مطلب کے معانی تلاش کرنے کے چکر میں نہیں پڑنا آاپ قر اا اگر جتنا اصل معانی کا تعین، �صوص چاہتے ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس حوالے سے تعبیر کے پیچیدہ مسائل پریہاں بحث کی جائے۔ نہ میں ان کو غیر اہم

آاپ صرف ایک بنیادی آاپ نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ بچ سکتے ہیں۔ اگر سمجھتا ہوں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جسے آائیں اور اس سے وہ ہر گز نہ آان کی طرف کھلے ذہن سے اصول کا �یال رکھیں اور اس کی پابندی کریں، یعنی یہ کہ قر

آاپ ایسے پھندوں سے بچ جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پیچیدہ فقہی آاپ کے �یال میں درست ہے، تو کہلوائیں جو اور ا�لاقی مسائل کے بجائے اپنی زندگی کے لیے ضروری پیغام پر توجہ رکھیں ۔ بعض وقت یہ ممکن ہوتا ہے بلکہ بعض

آاج کل کی آان کے حقیقی مقصد اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے وقت ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے حالات میں قر اصطلاحات استعمال کی جائیں۔ لیکن یہ اسی حد تک کیا جائے کہ براہ راست واضح معانی برقرار رہیں اور اصل

اصطلاحات گم نہ ہوجائیں۔دور ازکار اور غیر متعلق معانی

آادمی کبھی نہ سمجھ سکے نہ ایسے معانی کی ششم: ایسے ’دور از کا ر معانی ڈھونڈنے میں نہ پڑئیے جو ایک عام آان پر اولین ایمان لانے والوں کی زندگیوں سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ آاپ کی زندگی سے اور قر طرف جائیے جن کا

علم اور ذہانت کی سطحآاپ کے علم اور ذہانت کی جو سطح ہے اسی پر معانی کو سمجھیں۔ لیکن اس کے پہلے مخاطبین کی جو ھفتم:

آان میں اپنے مفہوم پڑھنے شروع آاپ قر آاپ گمرا ہ نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ علمی سطح تھی اس کو نظر انداز نہ کیجیے تاکہ کردیں۔

موجودہ انسانی علمآان سمجھنے میں اپنے علم کو استعمال کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ھشتم: اس حقیقت سے مفر نہیں کہ ہر شخص قر

آانی معیارات سے ان مسائل کا تنقیدی جائزہ لے سکیں جو یہ اٹھاتا ہے، ان پر آاپ قر آاپ کے پاس یہ علم ہونا چاہیے تاکہ آان کو اپنے زمانے کے محاورے میں سمجھ سکیں۔ میں پھر کہوں گا کہ اپنے آان سے رہنمائی حاصل کر سکیں اور قر قرآان سے تصدیق نہ کرائیں۔ موجودہ زمانے کے آان سمجھنے میں مدد لیں لیکن جدید علم کی قر علم سے ہر طرح سے قر

اا محتاط رہیں، اس آان سے پیش گوئی نہ کرائیں۔ سائنسی نظریات کے بارے میں �صوص تمام سائنسی اکتشافات کی قر

Page 64: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان میں پڑھنا اتنا ہی غلط ہے آائن سٹائن ،کو پرنیکس ، نٹشے یابرگساں کو قر لیے کہ یہ ریتیلی سطح کی طرح بدلتے ہیں۔ جتنا ارسطو، بقراط اور افلاطون کو پڑھنا۔

آاپ سمجھ نہیں سکتے جو آاپ نہیں سمجھ سکیں گے۔ ایسا اس آایات ہوں گی جو ہر طرح کی کوشش کے باوجود نھم:بہت سے ایسے الفاظ اور آاپ کا علم کافی نہیں ہے یا یہ زیادہ مشکل ہیں۔ ایسی صورتوں میں اپنی مشکلات کو ایک جگہ رکھ لیں لیے ہوگا کہ آاپ کی صلاحیت آاگے بڑھ جائیں۔ ایسی باتوں میں الجھنے میں وقت نہ صرف کیجیے جو کسی �اص مرحلے پر اور

سے بالا ہوں۔ ک سیرت پا

کی آاپ آاسکتے ہیں۔ آاپ آانا چاہیے جتنا م کے اتنا قریب آاپ کو رسول اکر آان کو سمجھنے اور جذب کرنے کے لیے قرآان کی بہترین تصویر ہے اور اس کے مفہوم اور پیغام کے حیات طیبہ قر

آان کو دیکھنا چاہتے ہیں، صرف پڑھنانہیں ، تو رسول آاپ قر آان ہے۔ اگر لیے سب سے زیادہ یقینی رہنما ہے۔ یہ زندہ قر پ آا آان۔ م نے فرمایا: کان �لقہ القر اللہ کو دیکھیے جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ

ک کو آان فہمی میں ان جریر ابن کثیر، کشاف اور رازی کی عظیم تفاسیرکے مقابلے میں سیرت پا آاپ قر آان تھا۔ کا’�لق قر کی زندگی یعنی سیرت آاپ کے اقوال یعنی حدیث پڑھیے اور آاپ آانے کے لیے سے قریب زیادہ معاون پائیں گے۔ رسولآان میں اگر چہ سوانحی تفصیلات نہیں ہیںلیکن سیرت کا آاپ دیکھیں گے کہ قر کا جتنا مطالعہ کرسکتے ہوں، کیجیے۔ آان کو سمجھیں آاپ انھیں یعنی قر ل کی پیروی کی کوشش کیجیے۔ اس طرح بہترین بیان ہے۔ دوسرے یہ کہ سنت رسو

گے۔:مزید یہ کہ

’’ آال عمران (۔۳:۱۳تم اللہ سے محبت کرو گے اور اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ ) ۶

اجتماعی مطالعہاہمیت اور ضرورت

آاپ حق کے متلاشی دوسرے افراد کے ہمراہ شریک سفر بن جائیں۔ یہ تو آان کی جستجو میں ضروری ہے کہ فہم قرآان کے مفہوم اور مطالب کی آاپ قر آان مجید کا مطالعہ کرتے رہیں، لیکن جب آاپ انفرادی طریقے پر قر ضروری ہے کہ آاپ کے استفادے کے تلاش اور جستجو کرنے والے دوسرے اہل ایمان کے ساتھ مل کر اجتمائی مطالعہ کرتے ہیں، تو

ثمرات دگنے ہوجاتے ہیں۔ اجتمائی مطالعے میں دل و دماغ کی قوت ا�ذ بڑھ جاتی ہے اور وہ زیادہ صحیح طریقے سےآان کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے آاپ قر آاتے ہیں ۔ جس طرح باہمی رفاقت میں مفہوم اور مطالب کو اپنی گرفت میں لے

Page 65: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاسانی سے طے ہوجاتاہے۔ اس طرح عمل پیرا آان کے تقاضے پورے کرنے کا مرحلہ بھی ہیں اسی طرح باہمی رفاقت میں قرآان کے دروازے بھی آان کی برکتوں سے پوری طرح مستفید ہوسکتے ہیں اور فہم قر آاپ قر ہونے اور تقاضے پورے کرنے سے

زیادہ کھل جاتے ہیں۔gم نے نزول وحی کے ساتھ ہی ایک ایسی آان کا تخاطب �صوصیت کے ساتھ اجتماعیت یا جماعت سے ہے۔ نبی اکر قر

نے آاپ آان ہو۔ اپنی حیات طیبہ کا ہر لمحہ جماعت قائم کرنے کی کوشش شروع کردی تھی جس کا مرکز اور محور قر اس مقصد کے لیے صرف کردیا۔ اقرا¥ کے حکم کے ساتھ ہی ’قم فانذر )اٹھو اور ڈراؤ( کا حکم بھی نازل ہوا۔ اسی ، تمھارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے، اس کی طرح جہاں یہ حکم نازل ہوا: اے نبی

آایت میں یہ حکم نازل ہوا: اور اپنے دل کو ان لوگوں۸۱:۷۲تلاوت کرو )پڑھو اور پھیلاؤ( )الکھف ( ، تو اس سے اگلی کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بنکر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہر گز نگاہ

(۔۸۲: ۸۱نہ پھیرو)الکھف آان کی تلاوت اور ایک متحد و مربوط گروہ )معاشرہ( قائم کرنے کے درمیان ربط آایت واضح اور موثر انداز میں قر آان کی یہ قر

قائم کر رہی ہے۔آان پڑھے مکمل نہیں ہوتی، اور کوئی نماز بلا عذر شرعی بغیر جماعت کے ادا نہ کرنے کی تاکید کی کوئی نماز بغیر قر

آان مجید کے پڑھنے کا کیا فائدہ ، جب اس کو نہ سنا جائے، نہ سمجھا جائے اور نہ اس پر غور ہی گئی ہے۔ نماز میں قرآان فہمی کا مقصد آان کا موقع ہے، اور اس طرح قر آان اجتماعی فہم قر کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ باجماعت نماز میں تلاوت قر

دن میں پانچ مرتبہ اجتماعی طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے۔آان کو اجتماعی طور پر پڑھا جائے آان کی دعوت کو سارے انسانوں تک پہنچانے کا تقاضا بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ قر قرمی‘ ‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے: سنانا، پہنچانا، اور سمجھا جائے۔ لفظ ’’تلاوت‘‘ جب حرف ’’علآان مجید کی تلاوت کرنا نبوت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور اسی لیے ’امت مسلمہ کے نشر کرنا، اشاعت کرنا۔قر

مقاصد میں بھی شامل ہے۔ ی کی بیویو! آان مجید بالواسطہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ اس کو گھر وں اور �اندانوں میں پڑھا جائے۔ فرمایاگیا: نب اسی طرح قر

آایات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمھارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں )الا حزاب (۔۳۳:۴۳یاد رکھو، اللہ کی آان کی تلاوت کریں اور اس کا مطالعہ کریں، وہ مبارک ہیں۔ ان پر اللہ کے فرشتے جو لوگ اس لیے جمع ہوتے ہیں کہ قر

نے فرمایا ہے :اللہ کی رحمت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ نبیآان مجید کی تلاوت کرنے اور اس کو ایک دوسرے کے جب کبھی لوگ اللہ کے گھروں میں جمع ہوتے ہیں، قر

ساتھ مل کر پڑھنے اور پڑھانے کے لیے، ان پر برکت نازل ہوتی ہے، رحمت ان کو گھیرے میں لے لیتی ہے، فرشتے ان پرسایہ کرتے ہیں اور اللہ اپنی محفل میں ان کا ذکر کرتا ہے )مسلم(۔

Page 66: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کو تنہا پڑھ کر مطمئن نہ ہونا چاہیے بلکہ دوسرے متلاشیان حق کو جمع کر کے اجتماعی طور پر اس لیے قرسعادت کا یہ کام انجام دینا چاہیے۔

اجتماعی مطالعے کے طریقے:اجتماعی مطالعے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں

۔۱ آان کا مطالعہ کرتا ہے کہ ہر شریک اس مطالعے جب ایک مختصر سا گروہ ایک جگہ جمع ہو کر اس طرح قر میں سرگرمی سے حصہ لے۔ اس میں بعض بعض سے زیادہ صاحب علم ہوتے ہیں اور کوئی ایک زیادہ علم والا فردان کی

رہنمائی کرتا ہے۔ اس کو ہم حلقہ یا حلقہ مطالعہ کہیں گے۔۔۲ جب ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ایک جگہ جمع ہوتا ہے اور کسی صاحب علم کا درس سنتا ہے ۔اس میں سامعین

آان کہیں گے۔ صرف سوالات کر سکتے ہیں۔ اس کو ہم درس قرآاپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حلقہ کس طرح چلایا جاتا ہے، اور در س کی تیاری کس طرح کی جاتی ہے۔ یہاں ہم صرف

عمومی ہدایت پر گفتگو کریں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس کام کے لیے نہ کوئی معین معیار ہوسکتا ہے اور نہ کوئیمعین طریقہ کار۔ مختلف افراد اپنا �اص انداز اور �اص طریقہ کار ا�تیار کر سکتے ہیں۔

درج ذیل ہدایت دراصل اشارات ہیں جن کو مخصوص حالات اور اپنی استعداد کے مطابق ا�تیار کیا جا سکتاہے۔چار بنیادی ضابطے

:اجتماعی مطالعے کے لیے چار بنیادی ضابطے ضروری ہیں۔۱ حلقہ میں شرکت یا درس کی ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیاری کرنا چاہیے۔ سرسری نظر ڈالآا�ری لمحے تک مو�ر کرتے چلے جانا بھی درست نہیں۔ یہ غلط فہمی نہیں لینے سے تیاری نہیں ہوتی۔ تیاری کرنے کو

آان کے متعلق آاجائے گا۔ قر ہونی چاہیے کہ ایک نظر ڈالنے سے سب کچھ یاد آاپ نے جو کوئی بات غوروفکر کیے بغیر زبان سے نہیں نکالنی چاہیے۔ زیادہ مناسب طریقہ یہ ہے کہ ا س سلسلے میں

آاپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اسے نوٹ کرلیں۔ مطالعہ کیا ہے اور ۔۲ آاپ آاپ درس دے رہے ہوں یا حلقہ میں شرکت کر رہے ہوں، بہر کیف آاپ �واہ مبتدی ہوں یا صاحب علم،

اپنے طور پر ان حصوں کا مطالعہ ضرور کریں جو حلقہ یا درس کا موضوع ہوں۔۔۳ آان کو سمجھنا ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے، اور یہ ہمیشہ اپنی نیت �الص رکھیے یعنی یہ کہ مقصد قر

می راضی ہوجائے۔ سب اس لیے کہ اللہ تعال۔۴ اجتماعی مطالعہ تفریح کے لیے، یا علمی نکات بیان کرنے کے لیے، یا بحث و تکرار کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔آان کی شکل میں ظاہر ہوناچاہیے اور اس دعوت کو پھیلانے کی لگن بھی پیدا ہونا چاہیے جو آان کا نتیجہ اتباع قر مطالعہ قر

آان اپنے قاری کے سپرد کرتا ہے۔ قر

Page 67: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

حلقہ مطالعہ:درج ذیل رہنما �طوط اجتماعی مطالعے کو موثر بنا سکتے ہیں

شرکا۔۱ ہونا چاہیے۔ ان کی علمی و ذہنی سطح میں بہت زیادہ تفاوت نہ ہو۔ کوئی بھی چیز۰۱ تا ۳شرکا کی تعداد

کم ہوتو یہ مکالمہ بن جائے گا، کوئی بھی چیززیادہ ہوئی تو ہر شریک کی سرگرم شرکت متاثر ہوگی۔۔۲ زور ہمیشہ پیغام ، سیاق و سباق اور جو کچھ سبق اور رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے اس پر رہنا چاہیے۔ ان

باریک نکات میں ہر گز نہ الجھیے جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیںہے۔۔۳ آاگاہ ہونا چاہیے۔ سب شرکا کو اپنے مقاصد ، حدود اور طریق کار سے مکمل طور پر

۔۴ سب شرکا کو اپنے کام سے ضروری وابستگی ہونا چاہیے اور یہ احساس ہوناچاہیے کہ اس کے لیےوقت، توجہ اور محنت مطلوب ہوگی۔

۔۵ آان کے ذریعے اپنا راستہ کس طرح تلاش کریں۔ )اس کتاب کا مطالعہ اس سب شرکا کو معلوم ہونا چاہیے کہ قر(کے لیے مفید ہوسکتاہے

۔۶ آان پر ایمان کے مشترک رشتے میں بندھے ہوئے شرکا کو ایک دوسرے کے لیے اجنبی کی طرح نہیں بلکہ قربھائیوں کی طرح ہونا چاہیے جو اس کا فہم حاصل کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔

حلقہ مطالعہ کس طرح چلایا جائے۔۱ سب سے پہلے ایک شریک اپنا حاصل مطالعہ پیش کرے۔

۔۲ اس کے بعد دوسرے شرکا کو شامل ہو کر مزید تشریح، تصحیح، ترمیم کرنا، سوالات اٹھانا اور جواب فراہم کرناچاہیے۔

۔۳ آاپ پہلے سے کسی ایک کو پیش کرنے کا کہہ دیں۔ اس سے پیش کش اگر سب شرکا کو مطالعہ کرنا ہے تو کا معیار بہتر ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عین وقت پر کسی شریک حلقہ سے مطالعہ پیش کرنے کے لیے

کہیں، اس صورت میں ہر شخص چوکنا رہے گا اور محنت کرے گا۔۔۴ یہ بات ہمیشہ مفید ہوگی کہ شرکا میں سے ایک زیادہ باعلم اور ما�ذ تک پہنچ رکھنے والاہو۔ پیش کش میںہن بحث ’دور کر سکتا ہے۔گفتگو کے انداز اور رخ کو متعین کر سکتاہے۔ جو کمی یا �امی رہ گئی ہے، وہ اسے دورا

۔۵ آاغاز میں مدا�لت نہ کرے، اسے چاہیے کہ شرکا جو کچھ آان کا اچھا علم رکھتا ہے تو وہ اگر کوئی شریک قر کہنا چاہتے ہیں انھیں کہنے دے اور پھر اگر وہ غلطی کریں تو شائستگی سے ان کی اصلاح کردے یا ان کے علم میں

اضافہ کرے۔ اس کا رویہ توجہ دلانے والے اور سوال اٹھانے والے فرد کا ہونا چاہیے، نہ کہ بحثکرنے والے کا۔

Page 68: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

۔۶ ا�تتام پر کسی شریک )بہتر ہے کہ نگران یا استاد( کو ہمیشہ زیر مطالعہ حصہ کا عمومی پیغام ، سارےموضوعات اور عمل کی دعوت کو ا�تصار سے بیان کرنا چاہیے۔

درس کی تیاری:اجتماعی درس کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات معاون ثابت ہوں گی

۔۱ سب سے پہلے سامعین کی نوعیت اور استعداد کے متعلق صحیح اندازہ لگانا چاہیے۔ ان کا علم ، ان کی فہمو فراست ، ان کا درجہ ایمان، ان کے تفکرات اور پریشانیاں اور ان کی �واہشات و ضروریات کیا ہیں؟

۔۲ آایات کی آاپ کے پاس چند آایات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر سامعین کو سامنے رکھ کر موزوں تیاری موجود ہے، بس اس کو پیش کردیا ، �واہ اس کا تعلق سامعین کے حالات اور تقاضوں سے ہو یا نہ ہو۔

۔۳ اسی طرح زبان ، طرز بیان، اظہار بیان میں بھی سامعین کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔۔۴ آان کا صحیح مفہوم پاسکیں اور اسے آاپ قر آاپ کو توفیق بخشے کہ می سے دعا بھی کیجیے کہ وہ اللہ تعال

سامعین کے سامنے بیان کر سکیں۔۔۵ آاپ کہنا کیا چاہتے ہیں، پورا مضمون کس آایات کا مطالعہ کیجیے اور نوٹس تیار کیجیے۔ یہ سوچیے کہ پہلے

آاغاز کس طرح کریں گے اور ا�تتام کیسے ہوگا؟ ترتیب سے پیش کرنا چاہتے ہیں، ۔۶ آاپ کے ذہن میں کتنے ہی قابل آاگے نہ بڑھیے، �واہ وقت کا پورا لحاظ رکھیے۔ طے شدہ وقت سے زیادہ ہر گز آاپ کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ سامعین کے آاپ کو انھیں پیش کرنے کا شوق بھی ہو۔ قدر نکات موجود ہوں اور

آاپ کے علم و فضل کے مداح تو یاد رکھنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ وہ آاپ سے زیادہ سیکھیں گے نہیں۔ بن جائیں گے مگر

طویل حصے کو مختصر سے وقت میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے اور مختصر سے حصے کو طویل وقت میں بھی۔ یہ سبآایات سے درحقیقت سامعین کو سنانا کیا چاہتے ہیں۔ آاپ زیر درس اس بات پر منحصر ہے کہ

۔۷ آا�ر میں درس کا پیغام واضح الفاظ میں سامعین کے سامنے پیش کر دیجیے تاکہ وہ ان کے ذہنوں میں محفوظ آایات زیر درس کے مرکزی مضمون سے ہونا چاہیے۔ رہے، اور وہ اس پر غور کرتے رہیں۔ اس پیغام کا تعلق

درس دینے کا طریقہ۔۱ :درس دیتے ہوئے صرف دو مقاصد پیش نظر ہونے چاہییں

الف۔ اللہ کا کلام ، اللہ کے بندوں کو سنانے سے صرف اللہ کی رضا مقصود ہو۔آان کا پیغام واضح انداز میں اور موثر زبان میں پیش ہوناچاہیے۔ ب۔ قر

۔۲ آاپ کی زبان سے سامعین آان کا پیغام می کے ہاتھ میں ہے کہ وہ قر یہ بات ہمیشہ پیش نظررہے کہ یہ صرف اللہ تعالآاپ کی اپنی یہ ذمہ داری کم نہیں می کے ساتھ محتاجی کی اس نسبت سے کے دل و دماغ میں اتار دے۔ لیکن اللہ تعال

Page 69: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کے پیغام کو زندہ اور آاپ کما حقہ تیاری کریں، اور بہترین طریقے سے درس دینے کی کوشش کریں۔ قر ہوجاتی کہ متحرک پیغام کے طور پر پیش کریں اور پیغام کا تعلق وقت کے حالات سے اور مسائل سے جوڑتے چلے جائیں تاکہ اس

کی اہمیت واضح ہو۔می معیار کا حامل ہو۔ سیدھے آاپ کا بیان فصاحت و بلاغت کے اعل طرز ادا کی تاثیر کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ

آاپ کی تیاری کی ہے۔ آاپ کی نیت اور سادے انداز میں بیان کیجیے تو زیادہ موثر ہوگا۔ اصل اہمیت ۔۳ آایات کی تلاوت کریں، پھر ترجمہ سنائیں ، پھر تشریح و تفسیر بیان پہلے سامعین کے سامنے ساری

آایت کی آایات کو دوبارہ پڑھ کر تشریح کریں یا نہ کریں، یا پہلے ایک مختصر تمہید بیان کردیں، پھر ایک ایک کریں۔ آاپ اپنے لیے کوئی طریقہ ا�تیار کر سکتے ہیں۔ اگر آاپ کے پاس ہو، اسی کے پیش نظر تشریح کرتے جائیں۔۔۔ جتنا وقت

آاغاز میں تلاوت کرنا بھی ضروری نہیں۔ یہ وقت سامعین کی توجہ مبذول کرانے اور ان آایات کا وقت مختصر ہو تو تمام کو ذہنی طور پر تیار کرنے میں صرف کریں کہ کیا چیز ان کے سامنے پیش کی جانے والی ہے۔

۔۴ آاپ کے آایات اکٹھی، جیسے چاہیں ترجمہ اور تشریح بیان کریں۔اصل چیز یہ ہے کہ آایت لیں، یا چند ایک ایک آایت کا مضمون پیدا آایت سے دوسری بیان سے سامعین پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ یہ مربوط بیان ہے اور ایک

ہورہاہے۔۔۵ آایات کو دوبارہ پڑھ کر ان کا ترجمہ ا�تتام پر �لاصہ اور نتیجہ ضرور پیش کرناچاہیے۔ اگر وقت باقی ہو تو تمام آایات کے ترجمے سے درس کا ربط سامعین کے ذہن میں تازہ ہوجائے گا۔ آان کی سنانا بھی مفید ہوسکتا ہے۔ اس طرح قر

۔۶& آان بڑی تاثیر رکھتا ہے، �اص طور پر آایات �ود بولیں۔ تفسیر کے بغیر بھی قر آان کی آاپ اپنا بیان نہ پیش کریں، قر آان کو بولنے سے روک دینے کے مترادف آارا کو ضرورت سے زیادہ دا�ل کرنا دراصل قر اہل زبان کے لیے۔ بیچ بیچ میں اپنی آایات کے مطلب پر اس کی توجہ ہے۔لمبی لمبی تشریحوں کا نقصان یہ ہے کہ سامع کا ذہن تشریح میں گم ہوجاتاہے، اور آایت دہرا کر اس سے نہیں رہتی۔ اس لیے تشریح مختصر ہو۔ جہاں ضروری ہوجائے وہاں اگر بیان طویل ہو، تب بھی بار بار

آان اور سامعین کے ذہنوں کے درمیان فاصلہ نہ پیدا ہو۔ ربط قائم رکھنا ضروری ہے۔ کوشش یہ کیجیے کہ قر۔۷ آان کے نمونے اور انداز پر اپنا درس پیش کرنے کی کوشش کیجیے۔ کامیابی کا یہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ قر

آان کو بار بار پڑھا آاسان ہوجائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قر آاغاز میں کچھ دشواری محسوس ہوگی مگر بتدریج راہ جائے، اس کے حصے ازبر کیے جائیں اور اس کے اسلوب بیان کو جذب کیا

جائے۔آاپ کو معلوم ہونے چاہییں آانی اسلو ب کے درج ذیل حقائق :قر

یہ دل و دماغ ، عقل اور جذبات یعنی کل انسان کو �طاب کرتا ہے۔ (الف)اس کا انتخاب شخصی ہے، براہ راست ہے، مختصر ہے اور اس میں اپیل اور دعوت عمل پائی جاتی ہے۔ (ب)

Page 70: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

اس کی زبان اور بیان بھی اتنا ہی زور دار ہے جتنا اس کا پیغام زوردار ہے۔ یہ سیدھا دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ (ج)آاسانی سے سمجھ سکیں۔ یہ دلائل روزمرہ کی زندگی اور مشاہدے سے فراہم (د) یہ ایسے دلائل دیتا ہے جو سامعین

کیے جاتے ہیں۔ یہ زودہضم ہوتے ہیں۔ یہ تخیلی ، تجریدی یا منطقی نہیں ہوتے۔آان کی دعوت کو زندہ و متحرک بنا کر ۔۸ تجریدی انداز نہ ا�تیار کیجیے، نہ فلسفہ بنا کر پیش کیجیے بلکہ قر

آان کا پیغام پہنچانے میں نظم اور کسی قدر تصورات کا استعمال بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے عام فہم پیش کیجیے۔ قرزبان استعمال کیجیے تاکہ ہر شخص سمجھ سکے۔

۔۹ آاپ کے درس کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ تاریخ کا عمل کی دعوت دینا ، تجدید عہد کرانا، عزم نو پیدا کرنا، ذکر ہو یا مظاہر فطرت کا تذکرہ، کوئی امرونہی ہو یا کوئی بیان اور مکالمہ، ہر حال میں درس پیش قدمی کرنے، اطاعت

کرنے اور عمل کرنے پر ’ابھارنے میں معاونت کرے۔۔۰۱ آان کے تابع بنائیں۔ آامد کریں بلکہ اپنے نظریات قر آان سے اپنے نظریات نہ بر قر

۔۱۱ آان کی قدرو قیمت اور محبت دلوں میں پیدا ہوجائے۔ آان سامعین کے دل میں ’اتر جائے۔ قر بیان ایسا ہو کہ قراحسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات دل میں موجزن ہوں۔ درس میں ان مقاصد کا حصول پیش نظر رہنا چاہیے۔

۔۲۱ سامعین کے ردعمل پر بھی توجہ دیتے رہنا چاہیے۔ ان کے ردعمل کی روشنی میں اپنی گفتگو کو مختصر یا�تم یا کوئی نئی بات جس کی ضرورت ہو ، جیسا حالات کا تقاضاہو، وہ کرناچاہیے۔

صاحب درس کو اپنا منفرد طریقہ کار، طرز بیان اور اسلوب بیان پیدا کرنا چاہیے۔

۷آان کے مطابق زندگی قر

آان کی پیروی قرآاگے کامل سپردگی میں اپنے اندر تبدیلی لانا اور اپنی زندگی کی تعمیر نو/ آاپ پہلے ہی لمحے سے اس �دا کے اگر آاپ کے حصے میں آاپ کو بہت تھوڑا فائدہ ہوگا، آان پڑھنے سے آان دیا ہے تو قر آاپ کو قر کرنا شروع نہ کردیں جس نے آاسکتی ہے۔ اگر عمل کے لیے قوت ارادی اور کوشش نہ ہوتو قلب کی کیفیات، روح کی وجد نقصان اور پریشانی بھی آاپ اس کے آاپ کے اعمال پر کوئی اثر نہ ڈالے اور آان آاپ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اگر قر آافرینی اور علم میں اضافے سے آان کے قریب نہیں آاپ قر احکامات کی اطاعت نہ کریں اور جو وہ منع کرتا ہے، اس سے نہ رکیں تو پھر سمجھ لیجیے

ہورہے ۔آان کے ہر صفحے پر سر تسلیم �م کرنے، اطاعت کرنے، عمل کرنے اور تبدیلی لانے کی دعوت ہے۔ جو اس کے حکم قر

(۔ جن لوگوں کو اللہ کی کتاب دی گئی ہے۵:۴۴:۷۴تسلیم نہ کریں، انھیںکافر، ظالم اور فاسق کہا گیا ہے )المائدہ

Page 71: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

لیکن وہ نہ اس کو سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں انھیں ایسے گدھے قرار دیا گیا جو بوجھ لادے ہوئے ہیں مگر(۔۲۶:۵جو کچھ لادے ہوئے ہیں، نہ اس کو جانتے ہیں نہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں )الجمعہ

آان کو قیامت کے روز فریاد کریں گے: اے میرے رب ، میری قوم نے اس قر یہ وہ لوگ ہیں جن کے �لاف اللہ کے رسول(۔۵۲:۰۳پس انداز کردہ چیز بنا لیاتھا )الفرقان

آان کو ترک کردینا ، ایک طرف رکھ دینا اس کا مطلب ہے اس کو نہ پڑھنا، نہ سمجھنا ، نہ اس کے مطابق زندگی قرآان کی نے قر گزارنا۔ اس کو ایک قصہ پارینہ سمجھنا جس کا اب کوئی کام نہیں رہاہے۔ رسول اللہ

آاپ نے فرمایا :پیروی پر زور دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آان پڑھنے والوں میں سے ہوں گے۔ )احمد (میری امت کے بہت سے منافق قر

آان کا سچا ماننے والا نہیں ہے جو اس کے حرام کیے ہوئے کو حلال سمجھتا ہے۔ )ترمذی (وہ شخص قرآان کی تلاوت کرو تاکہ تم جو کچھ وہ منع کرتا ہے، اس سے رک سکو۔ اگر یہ تمھیں اس قابل نہ بنائے کہ تم رک جاؤ قر

(تو تم نے اس کی حقیقی معنوں میں تلاوت نہیں کی ہے۔ )طبرانیآان سیکھنے کا مطلب ، اس کو پڑھنا ، اس پر غور و فکر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہوتا تھا۔ روایت مم کے لیے قر صحابہ کرا

ہے کہمد جیسے لوگ جب ایک دفعہ من ابن عفان اور عبداللہ بن مسعو آان پڑھنے میں مشغول تھے، بتاتے ہیں کہ عثما جو لوگ قرآایات میں علم اور عمل کے حوالے سے جو کچھ ہوتا تھا، اسے آایات سیکھ لیتے تھے تو جب تک ان سے دس رسول

آان اور علم ایک ساتھ سیکھا ہے۔ آاگے نہیں بڑھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے قر واقعی نہیں سیکھ لیتے تھے، آان(۔ اس طرح بعض وقت وہ صرف ایک سورت سیکھنے میں کئی برس صرف کرتے تھے)سیوطی: الا تقان فی علوم القرآان کے مختلف مراحل سے گزرنے کے لیے ­ی کہتے ہیں: ’’تم نے رات کو ’اونٹ سمجھ لیا ہے جس پر تم قر حسن بصر سواری کرتے ہو۔ تم سے پہلے والے لوگ اسے اپنے مالک کے پیغامات سمجھتے تھے۔ رات کو اس پر غور و فکر کرتے

(تھے اور دن اس کے مطابق گزارتے تھے‘‘۔)احیا¥ العلومآاپ کی زندگی کو ڈھلنا چاہیے۔ یہ آاپ کے دل میں ایمان پیدا ہونا چاہیے۔ اس ایمان کے مطابق آان کے مطالعے سے قر

آان پڑھنے میں، پھر اسے سمجھنے میں، پھر ایمان آاپ پہلے کئی برس قر کوئی تدریجی مرحلہ وار عمل نہیں ہے جس میں مہی سنتے ہیں یا تلاوت کرتے ہیں آاپ کلام ال مضبوط کرنے میں صرف کریں۔ اور پھر اس کے بعد اس پر عمل کریں۔ جب

آاپ کی زندگی بدلنی شروع آاپ کے اندر ایمان کی چنگاری روشن ہوجاتی ہے۔جب اندر ایمان دا�ل ہوجاتا ہے، تو تو آاپ کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہوجاتی ہے۔ جو بات

آاپ ایک بڑا فیصلہ کریں۔ دوسرے جو کچھ بھی آان کے مطابق زندگی گزارنے کا سب سے زیادہ بنیادی تقاضا یہ ہے کہ قرآاپ کو اپنی زندگی کا آاس پاس کوئی بھی افکار غالب ہوں، آاپ کے کررہے ہوں ، معاشرے کے مطالبات کچھ بھی ہوں،

Page 72: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان کو �دا کا کلام تسلیم کرکے آاپ قر راستہ مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوتاہے۔ یہ فیصلہ عظیم قربانیاں چاہتا ہے۔ لیکن اگر آان کے ساتھ صرف کر رہے ہیں، اس کا کوئی اچھا آاپ جو وقت قر اس پر ایمان لا کر چھلانگ لگانے کو تیار نہ ہوں تو

آائے گا۔ نتیجہ سامنے نہیں آان صرف ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو �دا کی مرضی پہلے قدم پر، پہلے ہی لمحے یہ بالکل واضح کردیاگیا ہے کہ قر کے �لاف زندگی گزارنے کے نقصانات، اور اس کی ناراضی مول لینے سے بچنے کے لیے عمل کرنے کو تیار ہیں اور جو

(۔۵۔۲:۱نتائج پر یقین رکھتے ہیں، یہی متقی ہیں )البقرہآان علم اور عمل کے درمیان اور ایمان اور عمل صالح کے درمیان کوئی دوری او رفاصلہ تسلیم نہیں کرتا۔ قر

آانی مشن کی تکمیل قرآان کے مطابق زندگی گزارنے کا ایک ضروری اور اہم حصہ یہ ہے کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں تک اس کا پیغام پہنچائیں۔ قر

پ نے اسے عوام تک پہنچانے کے عظیم کام کا احساس کرلیا۔ آا پر جیسے ہی پہلی وحی نازل ہوئی اللہ کے رسولآان کو پہنچانا ، ل پر یہ واضح کیا گیا کہ قر آائی۔ پھر متعدد مقامات پر رسو دوسری وحی ’قم فانذر کا حکم لیے ہوئے

کی زندگی کا مشن ہے )الا نعام آاپ پ کا اولین فریضہ اور آا :۵۲، الفرقان ۶:۹۱اسے سنانا اور اس کی تشریح کرنا، (۷:۷۵۱، الاعراف ۹۱:۷۹، مریم ۵:۷۶، المائدہ ۶:۵۰۱، الانعام ۱

آان کے پیروکار ہونے اور اللہ کی کتاب کے حامل ہونے کی حیثیت سے یہی مشن ہمارے سپرد ہے۔ ہمارے پاس قر آاپ اب آان سننے کا مطلب ہے کہ اسے سنائیں۔ ہمیں اسے پوری ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم اسے اپنے اور دوسرے تک پہنچائیں۔ قر

انسانیت پر واضح کرناچاہیے اور بتانا چاہیے اور چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے۔ ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیاتھا کہ تمھیں کتا ب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا،

انھیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا۔ مگر انھوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا۔ کتنا براآال عمران (۔۳:۷۸۱کاروبار ہے جو یہ کررہے ہیں )

آاگ لگی ہے آاپ کے اندر کوئی آاپ کے قلب میں اور ہاتھ میں کوئی چراغ ہے تو اس کی روشنی پھیلنی چاہیے۔ اگر اگر آاگ سے بھر تو اس کی تپش پھیلنی چاہیے۔ جو عارضی دنیاوی مقاصد کے لیے ایسا نہیں کرتے وہ درحقیقت اپنے پیٹ

رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیاوی فائدوں

آاگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں وہ دراصل اپنا پیٹ :انھیں پاکیزہ ٹھہرائے گا۔ وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ہوں گے

Page 73: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاں حالے کہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات کو چھپاتے ہیں در اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت

(۔۲:۹۶۱بھیجتے ہیں )البقرہ آاجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے البتہ جو اس روش سے باز

(۲:۰۶۱لگیں ، ان کو میں معاف کردوں گا )البقرہ لیکن اگر وہ اسی حالت میں مرگئے تو ان پر سب کے سب لعنت کریں گے۔جن لوگوں نے کفر کا رویہ ا�تیار کیا اور کفر

(۲:۱۶۱کی حالت میں ہی جان دی ان پر اللہ، فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت ہے )البقرہ :اللہ ان کی طرف نظر نہیں ڈالے گا

آا�رت میں کوئی حصہ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہداور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں تو ان کے لیے آال عمران :۳نہیں ہے ۔ اللہ قیامت کے روز ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا)

(۔۷۷آان# آاج کل کے مسلمانوں کو دیکھیے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دن رات لاکھوں افراد قر آاپ پر نظر ڈالیے، اب، اپنے کی تلاوت کرتے ہیں، اس سے ہمارے حالات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا تو اسے ہم پڑھتے ہیں اور سمجھتے نہیں ہیں، یا اگر سمجھتے ہیں تو اسے تسلیم نہیں کرتے یا اس پر عمل نہیں کرتے، یا اگر ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو ہم اس کا ایک حصہ تسلیم کرتے ہیں اور ایک مسترد کرتے ہیں، یا جس وقت ہم اسے پڑھنے میں اور اس کے کسی ایک حصہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں تو ہم اسے چھپانے کا اور اس کی روشنی دنیا تک نہ پہنچانے کے بد ترین جرم کا ارتکاب

کر رہے ہیں۔آارزوؤں کا مجموعہ �یال کرتے ہیں اور محض وہم و گمان پر مہی کو صر ف اپنی ان میں بعض ان پڑھ ہیں جو کتا ب ال چلے جارہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرتے ہیں۔ پھر لوگوں

آایا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں )البقرہ ۲:۸۷۹سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے

(۔۷ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ

آا�رت میں شدید ترین عذاب ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دینا کی زندگی میں ذلیل و �وار ہوکر رہیں اور (۔۲:۵۸کی طرف پھیر دئیے جائیں)البقرہ

آان کے گواہ ہونے کی سب سے اہم ذمہ داری ادا نہیں ہمارے ذہنوں میں ذرہ برابر شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب تک ہم قرآان کا حق ہر گز ادا نہیں کرسکتے۔ آاتی ہے ، ہم قر کریں گے، جو ہم پر اس کا حامل ہونے اور اسے پڑھنے کی وجہ سے

Page 74: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آان آائی ہے جو ہم قر آائی ہے صرف اس رویے کی وجہ سے بے عزتی، ذلت و تحقیر اور پس ماندگی جو ہمارے حصے میں کے ساتھ اور جو مشن اس نے ہمارے سپرد کیا ہے اس کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔

آان سے بعض قوموں کو زوال عطا کرتا ہے اور بعض کو عروج ۔کاش انھوں نے تو رات اور انجیل اور ان می اس قر اللہ تعالدوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا

(۔۵:۶۶کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا )المائدہ آان کے مکمل اور حقیقی معانی سمجھنے اور دریافت می علمی معیار حاصل کرلیں، ہم قر آان کے بارے میں کتنا ہی اعل ہم قر

آان کی اطاعت نہ کریں۔ کرنے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم قرمہ سے فرمایا: ’’تم لوگوں میں ایسے لوگ ہوں گے کہ جب تم اپنی نمازوں کا ان کی نمازوں سے اپنے ل نے اپنے صحاب رسو

روزوں کاانکے روزوں سے، اپنے اچھے اعمال کا ان کے اچھے اعمال سے مقابلہ کرو تو تمھیں اپنے اعمال بہت کم ترآان پڑھتے ہوں گے لیکن یہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا )بخاری(۔ محسوس ہوں گے۔ وہ قر

آان کے حقیقی مشن کی تکمیل کے لیے ہی نہیں ، اس کا مفہوم سمجھنے کی بھی یقینی کلید ہے۔ تسلیم و اطاعت قرآان کا مشاہدہ آاپ قر آاپ محض غوروفکر سے ہرگز نہیں پا سکتے۔ پھر آاتے ہیں جنھیں پیروی کرنے سے ایسے معانی سامنے

­ی کے یادگار الفاظ میں جو بھلائے نہیں جاسکتے :کرنے لگتے ہیں۔ سید مودوداا آاشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عمل آان کی روح سے پوری طرح آادمی قر آان کی ان ساری تدبیروں کے باوجود لیکن فہم قرآارام کرسی پر بیٹھ کر آاپ آایاہے۔ یہ محض نظریات اور �یالات کی کتاب نہیں ہے کہ آان وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرہ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور نہیں ہے کہ مدرسے اور �انقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔۔۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔آاتے ہی ایک �اموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر �دا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے اس نے آاواز اٹھوائی اور وقت کے علمبردار ان کفر وفسق ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے �لاف اس سے

گھر گھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کوہن حق سے ان کی جنگ اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پر ور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیا

مہیہ کے قیام تک پورے تیئیس سال یہی کتا ب اس ہت ال ہد واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے �لاف کرائی۔ ایک فرعظیم الشان

تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کشمکش کے دوران میں ایک ایک منزل اورایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بنائے۔

ہع کفر و دین اور معرکہ¥ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم آاپ سرے سے نزا اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آان کے الفاظ پڑھ آاپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قر ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا

Page 75: قرآن کا راستہ از _خرم مراد

آاپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں آاپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔ اسے تو پوری طرح پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح

آائے تھے۔ مکہ اور آان کے وقت پیش آائیں گے جو نزول قر آاپ کو پیش قدم اٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آا پ کے آاپ دیکھیں گے اور بدروا’حدسے لے کر’ حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی حبش اور طائف کی منزلیں بھی

آاپ کو ملیں گے، اور آاپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آائیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی سامنے آاپ دیکھ بھی لیں گے اور بر ت بھی لیں گے۔ یہ سابقین اولین سے لے مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آانی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس ہک قر ایک اور قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے جس کو میں ’’سلو

آاپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ آاکر آایتیں اور سورتیں �ود سامنے آان کی کچھ آاپ گزرتے جائیں گے، قر منزل سے آائی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے اسی منزل میں ’اتری تھیںاوریہ ہدایت لے کر آان اپنی روح کو اس کے سامنے بے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں ، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قر

نقاب کرنے سے بخل بر ت جائے۔آان کے احکام ، اس کی ا�لاقی تعلیمات ، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے پھر اسی کلیہ کے مطابق قر

آاہی نہیں سکتے آادمی کی سمجھ میں اس وقت تک مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین اا ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی جب تک کہ وہ عمل

آاشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی آازاد کر رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے کو اس کی پیروی سے آان، جلد اول، ص (۵۳ تا ۳۳اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے �لاف چل رہے ہوں)تفھیم القر

تمت بالخیر