“ظلم کے ہاتھ”قوں پاکستان کے قبائلی عور طالبان میں مسلح افواج اصہ خ- زیادتیاں کی

Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

Embed Size (px)

DESCRIPTION

See page 37 for information on use of Actions in Aid of Civil Power and the Frontier Crimes Regulation for illegal detention and violation of human rights. Also see recommendations at end of report regarding repeal of FCR and other suggestions.

Citation preview

Page 1: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

“ظلم کے ہاتھ”

پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج اور طالبان

کی زیادتیاں - خالصہ

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 1 10/12/2012 15:57:40

Page 2: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

“پہلے پانچ دن انہوں نے ہمیں چمڑے کی بیلٹ سے کمر پر مسلسل پیٹا، درد اتنا تھا کہ بیان نہیں کیا

جاسکتا ہے،” خوفزدہ نیاز کا فوج کے ہاتھوں تفتیش کے بارے میں کہنا تھا۔ نیاز اور ان کے بھائی ایوب ان ہزاروں مردوں اور لڑکوں میں شامل ہیں جنہیں طالبان

کے سابق زیر کنٹرول عالقوں میں کارروائیوں کے دوران مسلح افواج نے پکڑا تھا۔

“پانچ فوجی ہمیشہ ہر تفتیشی سیشن کے دوران موجود رہتے۔ تمام فوجی یونیفارم میں ملبوث ہوتے لیکن ان

میں سے ایک فوج کی پنجاب ریجمنٹ کے یونٹ ایف ایف 6 سے صوبیدار )نان کمیشنڈ افسر( بولتا تھا۔

وہ مجھے طالبان کا حصہ ہونے کا اقرار نہ کرنے پر مار دینے کی دھمکی دیتا تھا۔ میں انہیں بتاتا تھا

کہ میرا ایک چچازاد شدت پسند تھا لیکن نہ میں اور نہ ایوب طالبان کا حصہ تھے۔ ہم محض کسان ہیں۔ یہ

تردید سن کر صوبیدار چیخ پڑتا، تمھارا بھائی آج رات مر جائے گا! اگر تم اسے آخری مرتبہ نہیں دیکھنا

چاہتے تو سچ بول دو۔”

اپریل دو ہزار دس کی ایک صبح، بھائی کے ساتھ گرفتاری کے دس روز بعد نیاز کو وادی سوات میں

ایک فوجی اڈے کے حراستی مرکز سے رہا کر دیا گیا۔ “یہ اتنا جلد ہوا کہ مجھے ایوب کو خدا حافظ کہنے کا

موقع بھی نہیں مال۔”

نیاز کی رہائی کے چند گھنٹوں کے اندر اس کے کزن بالل نے اسے بتایا کہ ایوب کو ایک مقامی ہسپتال منتقل

کر دیا گیا ہے۔ نیاز وضاحت کرتے ہیں: “میں سمجھا کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے جوکہ خوشی کی بات ہے۔”

لیکن دوپہر بالل کا فون ایک بری خبر کے ساتھ آیا۔ “اس نے کہا کہ اس کے پاس ایوب کی الش ہے۔”

بالل کے مطابق اسے ایک فوجی افسر نے بتایا کہ وہ سیدو ٹیچنگ ہسپتال آجائے اور جب وہ وہاں پہنچا اور اس نے ایوب کی الش دیکھی تو اسے فوجی افسر نے بتایا کہ وہ فوجی حراست میں “حرکت قلب” بند ہونے

کی وجہ سے فوت ہوگیا ہے۔

جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کو معلوم ہے، پاکستان فوج نے نیاز اور ایوب پر مبینہ تشدد یا ایوب کی دوران

فوجی حراست ہالکت کی کوئی تحقیقات نہیں کروائی ہیں۔

ایک دہائی کے تشدد، کشیدگی اور مسلح تصادم کے بعد، پاکستان کو افغان سرحد پر واقع شمال مغربی

خطے میں حقوق انسانی کے جاری بحران کا سامنا ہے جہاں ریاستی اور غیرریاستی عناصر بغیر کسی روک

ٹوک کے کارروائیاں کر رہے ہیں۔

پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حراستوں، جبری گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں اور دوران

حراست ہالکتوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ طالبان بالامتیاز حملے اور مغوی سپاہیوں

اور جاسوسی کے الزام میں پکڑے ہوئے افراد کا غیرقانونی قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی عالقوں میں حکومتی رٹ کی عدم موجودگی میں امریکہ بغیر

پائلٹ “ڈرون” طیاروں کے ذریعے “نشانہ بنا کر ہالک” کرنے کا ایک پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے جو

حقوق انسانی کی خالف ورزیوں کی وجہ سے تشویش کا باعث بن رہا ہے خصوصا کیونکہ یہ پروگرام شفاف

نہیں ہے۔

قبائلی عالقوں میں قانون کی حکمرانی میں بہتری کے لیے بجائے اس کے کہ پاکستان کے کرمنل جسٹس نظام

میں حقوق انسانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کی جاتی، حکام نے نیا سالمتی قانون ایکشنز

)ان ایڈ آف سول پاور( ریگولیشن 2011 )اے اے سی پی آر( متعارف کرایا ہے۔ یہ قانون سکیورٹی فورسز کو طویل، بالامتیاز اور انسدادی حراست کی اجازت

دیتا ہے جوکہ حقوق انسانی کے بین القوامی معیار کی خالف ورزی ہے۔

ہائی کورٹس کے دائرے اختیار کو خصوصا حقوق انسانی کی پامالیوں کے مقدمات میں نہ بڑھانے سے یہ ریگولیشنز اس عالقے میں گرفت سے آذادی کے کلچر

کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس خطے

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

“ظلم کے ہاتھ کی پہنچ تو قبائلی عالقوں تک ہوسکتی ہے لیکن انصاف کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔”

غالم نبی، وکیل پشاور ہائی کورٹ

جاد س

مدمح

و/ وٹ

ی فے پ

© ا

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 2 10/12/2012 15:57:41

Page 3: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

میں رونما ہونے والی دوران حراست ہالکتوں، جبری گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں کے مقدمات کا

بامعنی احتساب نہیں ہوسکا ہے۔

درج ذیل ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ “ظلم کے ہاتھ”: پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج اور طالبان

.)ASA 33/019/2012( کی زیادتیاں کا خالصہ ہے۔

تمام متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے مدنظر تبدیل کر دئے گئے ہیں۔

فوجی حراست میں ہالکتفروری دو ہزار گیارہ میں شام کی نماز سے کچھ دیر قبل جہانزیب کو، جو خیبر پختونخوا کے صوابی میں پولٹری فارمنگ کرتا تھا، گھر پر فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب گھر والوں نے انہیں

زندہ دیکھا۔ ایک سال بعد ستائیس جون 2012 کو جہانزیب کی الش ضلع ہری پور میں ملی جو ان کے گھر سے اسی کلومیٹر کی دوری پر ہے، جہاں سے

انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

آج تک اس موت میں مسلح افواج کے مبینہ کردار کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ تاہم کئی شاہدین

نے آخری مرتبہ انہیں فوجی حراست میں دیکھا اور پشاور ہائی کورٹ میں جہانزیب اور دوسروں کی

غیرقانونی حراست سے متعلق پٹیشن میں بیان جمع کرایا ہے۔ اس مقدمے میں تحقیقات نہ ہونا یہ ثابت کرتا

ہے کہ کیسے سکیورٹی فورسز ان عالقوں میں بغیر کسی پابندی کے سرگرم ہیں۔

ایمنٹسی انٹرنیشنل نے ایوب اور جہانزیب جیسے کئی واقعات کی تفصیالت جمع کی ہیں۔ ان تمام کیسوں میں

سکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار افراد اپنے خاندان کو یا تو مردہ حالت میں لوٹائی گئیں یا پھر ان کی الشیں شمال مغربی پاکستان کے دور دراز عالقے میں پھینک دی گئیں۔ حکام ان اموات کی وجوہات کے

“ظلم کے ہاتھ“پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج

اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

3

پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان کے قبائلی عالقے کھجوری کٹ کی چوٹی پر پوزیشن سنبھالتے ہوئے۔ جوالئی

دو ہزار گیارہ۔ ایکشنز )ان ایڈ آف سول پاور( ریگولیشن 2011 پاکستان کی مسلح افواج کو شورش زدہ قبائلی

عالقوں میں وسیع اختیارات دیتا ہے۔ ہزاروں بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لیے گئے ہیں۔ ان افراد پر تشدد

اور دیگر بدسلوکیوں کا بلکہ دوران حراست ہالکت کا خطرہ ہے۔

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 3 10/12/2012 15:57:41

Page 4: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

بعض خاص تحصیلوں )ضلعوں( یا دیہات میں تقریبا ہر ماہ آپ ایک الش دیکھتے ہیں جس کے ساتھ ایک نوٹ ہوتا ہے جن میں جاسوسی کا الزام

عائد کیا گیا ہوتا ہے۔خیبر ایجنسی میں فرنٹئر کنسٹیبلری کے ایک افسر

رہیں، ناکام میں تحقیقات کرانے میں جامع بارے رشتہ داروں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا اور نہ ملوث افراد کے خالف قانونی کارروائی کا

کیا۔ اہتمام

گرفتار افراد جنہیں زندہ رہا کر دیا جاتا ہے ان کو دوران حراست سلوک کے بارے میں کھل کر بات

کرنے کی صورت میں ان کے اہل خانہ سمیت جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس سے وہ

اور کسی احتساب کا بھی ہیں اذیت میں مبتال رہتے نہیں۔ امکان کوئی

مقصد مسلح کا ریگولیشنز نئے پر ظاہری طور دیگر اور قبائلی عالقوں میں طالبان افواج کو

اندر رہتے قانون کے مسلح گروہوں کے خالف لیکن خالف ورزیوں کی ہوئے کارروائی کریں۔ تشویش ناک تعداد جس میں اموات اور تشدد اور

یا جرم سرزد کرنے والوں کے لیے متاثرین

انصاف کی عدم موجودگی واضح کرتا ہے کو کمزور قانون کی حکمرانی یہ ریگولیشنز کہ

ہیں۔ کرتے

ایک میں سے ترین عالقوں پسماندہ پاکستان کے بھی تحت آئین کے پاکستان کے قبائلی عالقے ایسی ہیں۔ بنیادی حقوق کے تحفظ سے عاری

انسانی کی میں حقوق ضمانت کی عدم موجودگی و غیرریاستی عناصر کی ریاستی اور پامالیاں، خالف ورزیوں کی اگر معنی خیز طریقے سے

چھان بین نہیں کی جاتی اور اس میں ملوث افراد کو قرار واقع سزا نہیں دی جاتی ہے جس سے اس

مزید سنگین بحران کا انسانی میں حقوق خطے گیا ہے۔ اختیار کر صورت

میں اصالحات 2011 اگست پاکستان نے حکومت کے ایک محدود پیکج کا اعالن کیا تھا جس میں

بہتری معمولی میں ریگولیشن کرائمز فرنٹئر کا برطانیوی دور یہ متعارف کروائی گئی۔

آج بھی عالقے میں انصاف ہے جو نوآبادیاتی نظام رائج ہے۔ لیکن یہ اصالحات ضرورت سے بہت

پر قوانین القوامی بین انسانی کے ہیں جو حقوق کم اور ریگولیشنز ہیں بنا سکتی یقینی کو درآمد عمل

ہیں۔ متاثر کرتی مزید اسے

“ظلم کے ہاتھ“پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج

اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

4

گلزار جان

کیا۔ طلب لیے کے گچھ پوچھ پر بنیاد کی الزام ان کے اہل خانہ نے انہیں اس کے بعد دوبارہ زندہ اڑھائی برس تک مداخلت کی کو دیکھا۔ حکام نہیں درخواستیں بےنتیجہ ثابت ہونے کے بعد سولہ اگست نے شخص ایک کے گاؤں صبح کی بارہ ہزار دو گلزار کے والد کو بتایا کہ اس کی الش مقامی تھانے میں الئی گئی ہے۔ “جب میں نے اپنے بیٹے کو فوج کے حوالے کیا تو اس وقت وہ صحت مند تھا، اس کا وزن پچاسی کلوگرام تھا،” ان کے والد نے ایمنٹسی انٹرنیشنل کو بتایا۔ “جب ان کی الش حوالے کی گئی تدفین سے قبل تھا۔ نہیں رہا تہائی بھی تو وہ ایک

جب ہم اُسے غسل دے رہے تھے تو میں نے نوٹ کیا کہ اس کی کمر پر کوڑوں کے نشانات تھے۔ پولیس نے صرف اتنا کہا کہ وہ قید کے دوران بیمار ہوئے اور مر گئے۔” جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل آگاہ ہے، حکام نے ورثاء کی درخواستوں کے باوجود گلزار کی موت کے بعد پوسٹ مارٹم یا تحقیقات نہیں کروائیں۔

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 4 10/12/2012 15:57:42

Page 5: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

طالبان زیادتیاں طالبان وسیع پیمانے پر حقوق انسانی کی خالف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ پکڑے جانے والے سپاہیوں اور مبینہ

جاسوسوں کے غیرقانونی قتل اور پاکستان بھر میں بالامتیاز حملے میں ملوث ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہالک اور

زخمی ہوئے ہیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ خودکش حملے اور بم دھماکے خودساختہ بموں

)آئی ای ڈیز( کی مدد سے مارکیٹوں، مساجد، سکولوں اور دیگر پرہجوم مقامات پر کرتے

ہیں جو جان بوجھ کر یا پھر غیرارادی طور پر شہریوں کی ہالکت کا سبب بنتے ہیں۔

جن عالقوں میں ان کی گرفت ہے وہاں طالبان لوگوں کو غیرقانونی طور پر قتل کر رہے ہیں۔ وہ بعض اوقات نیم عدالتی کارروائی اور باقی مواقعوں پر کسی کارروائی کے بغیر ایسا کر

رہے ہیں۔ بعض مواقعوں پر طالبان نے غیرقانونی طور پر لوگوں کو جاسوسی کا الزام عائد کرکے

یا فوجیوں کو پکڑ کر ہالک کیا۔ یہ قتل بین القوامی انسانی قوانین کی خالف ورزی اور زندہ رہنے جیسے حقوق انسانی کی پامالی کے زمرے میں

آتے ہیں۔ طالبان کی نیم عدالتی کارروائی بین القوامی حقوق انسانی کے معیار اور قوانین کے تحت منصفانہ سماعت کے بنیادی معیار کو بھی

پورا نہیں کرتے۔

“ظلم کے ہاتھ“پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج

اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

5

نذر

عالقے قبائلی صبح کی گیارہ ہزار دو مئی پندرہ لیے کے فوج پاکستان کو نذر کے وزیرستان شمالی الزام میں طالبان نے غیرقانونی طور پر جاسوسی کے قتل کر دیا۔ طالبان کے ایک جالد قاری ظفر کے جنہوں نے طالبان کی الش کی نذر مطابق دیکھا قتل یہ نے

بےحرمتی کی۔

نے “میں کہا: کرتے وضاحت نے ظفر قاری سے مدد کی جنگجوؤں )طالبان( دو دیگر کو نذر تھیں۔ ہوئی بندھی پر پشت کی ان کالیاں کی ان پکڑا۔ جانب بائیں کی سر کے اس اسے نے جنگجو ایک ہوگیا۔ ہالک ہی پر موقع وہ اور ماری گولی سے کئے ٹکڑے کے الش کی اس میں بعد نے جنگجوؤں جاسوسی جو پر طور کے عبرت لیے کے لوگوں ان

کریں گے۔”

اس صبح بعد میں نذر کے بھائی امجد نے الش حاصل کی۔ اسے تھا جیسے تازہ کا جسم “اس تھا: کہنا کا امجد چند گھنٹوں قبل ہی ہالک کیا گیا ہو۔۔۔ لیکن الش انتہائی پر پٹی کن بائیں کی اس بظاہر اسے تھی۔ شدہ مسخ گولی ماری گئی تھی۔ اس کا گلہ جزوی کاٹا گیا تھا۔ اس نشانات کے کاٹنے خنجر سے پر جگہ جگہ کے جسم کمر ٹخنوں، ہاتھوں، اس کے نشان کٹ کے دو تھے۔

اور ٹانگوں پر اور نو کٹ کے نشان گردن پر تھے۔”

امجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے سینے پر پشتو میں ایک نوٹ چسپاں تھا جس میں لکھا تھا: “وہ سب جو جاسوسی کر رہے ہیں ان کا یہی حشر ہوگا۔” ان کا مزید قتل ہاتھوں کے ان اور خوف کے طالبان کہ تھا کہنا ہونے والوں کی بدنامی کی کیفیت یہ ہے کہ نذر کا جنازہ

کسی نے بھی پڑھنے سے انکار کر دیا۔

طالبان جنگجو پاکستانی سپاہیوں کو جنہیں ٹانک سے چار جنوری دو ہزار بارہ میں اغوا

کیا گیا تھا ہالک کرتے ہوئے۔

ٹ آو

ینڈا/ہ

یڈی م

مر/ع

رزائٹ

ر©

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 5 10/12/2012 15:57:42

Page 6: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

انصاف کی راہ میں روکاوٹیںپاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی عالقوں میں بغیر کسی روک ٹوک کے سرگرم ہیں۔ ایسے میں انہیں ایک ایسے قانونی فریم ورک کی مدد حاصل ہے

جس میں آئین اور نئے ریگولیشنز ملکی ہائی کورٹس کو قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی پر عمل درآمد

کو یقینی بنانے سے روکتے ہیں۔ پاکستانی حکام اور عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی،

تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی عالقوں میں دوران حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہالک کرنے کے مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی ہے۔ ان میں وہ کیس بھی شامل ہیں جن کی نشان دہی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کی گئی تھی۔

نئے ریگولیشنز میں کسی بھی زیرحراست شخص کو ان سے سلوک کے متعلق شکایت کرنے کی گنجائش

موجود ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی واقعے میں یہ نظام تشدد

اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے موثر نہیں کیونکہ یہ آذاد نہیں اور فوجی اہلکار عدالتی کارروائی سے

مستثنی ہیں۔ اس کے عالوہ یہ ریگلولیشز زیر حراست افراد کو ان کے حقوق سے محروم بھی کرتے ہیں

کیونکہ یہ انہیں ان کے خاندان اور وکیل تک رسائی کی ضمانت نہیں دیتے ہیں۔

قانونی اور عملی مسائل کے باوجود رشتہ دار پاکستانی عدالتوں میں مقدمات الئے ہیں، جن میں

پاکستانی آئین میں بنیادی حقوق کے ضمانت کے قانون کی بنیاد پر مسلح افواج کی جانب سے غیرقانونی

حراست کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کے باوجود عدالتوں نے ان مقدمات میں دائرے اختیار کا سہارا

لیا ہے۔

جون دو ہزار گیارہ میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں حکام سے ریگولیشنز کے تحت زیر حراست 1930 افراد کو فوری طور پر رہا کرنے یا

انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکام نے بعد میں عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 1035 افراد کو بےقصور ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا ہے۔ 1930 میں سے کم از کم 895 افراد “حراستی

مراکز” میں ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کی موت کا خطرہ ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں عدالتوں میں

پیش کیا بھی جائے گا یا نہیں اور اگر کیا جائے گا تو کب۔

جنہیں رہا کیا گیا ہے انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے فوجی حکام کے خوف سے حراست کے دوران سلوک کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان مردوں اور لڑکوں کے وکالء کا کہنا ہے کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

6

“پشاور ہائی کورٹ میں تمام دائر ہونے والی پٹیشنوں جن میں یہ

الزام ہوتا ہے کہ فالں کو ریاست نے اٹھایا ہے وزارت دفاع اور

داخلہ کو بھیجی جاتی ہیں جو بعد میں دیگر وزارتوں اور سالمتی

کے اہلکاروں کو مطلع کرتے ہیں۔۔۔ اکثر وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان

کے پاس نہیں ہیں۔”اقبال مہمند، ڈپٹی اٹارنی جنرل، خیبر پختونخوا

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 6 10/12/2012 15:57:44

Page 7: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

اور ہیں جنہیں حراست میں بغیر کسی عدالت میں پیشی کے رکھا جا رہا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ بھی

اس سے بظاہر آگاہ ہے کہ کئی ابھی میں حراست میں ہیں: نومبر 2012 میں اس نے حکام کو حکم دیا کہ وہ اس کے سامنے زیر حراست افراد کی مکمل اور حتمی فہرست پیش کرے۔ یہ فہرست ابھی تک پیش

نہیں کی گئی ہے۔

ASA 33/020/2012 :دسمبر ایمنٹسی انٹرنیشنل فھرست 2012

7انتہائی دائیں: فوجی کی جانب سے شمال مغربی پاکستان میں حراست میں لیے جانے والے مردوں اور لڑکوں کے

رشتہ دار پشاور ہائی کورٹ میں اپنے پیاروں کے اتے پتے کی امید میں منتظر, اگست 2012.

بائیں: ہر ماہ بےچین فضل خالق پشاور ہائی کورٹ کے میں سماعت کی تفصیل ٹٹولتا ہے اس امید میں کہ سرکاری وکیل

اس کے بھائی فدا حسین سے متعلق کوئی معلومات پیش کریں گے۔ اکتوبر دو ہزار بارہ فضل اور حسین دونوں کو

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شمالی مغربی ضلع نوشہرہ میں خیر آباد کے بازار سے گرفتار اور زیر حراست میں لیا

تئیس مارچ دو ہزار بارہ کو۔ فضل کو اسی شب رہا کر دیا گیا لیکن حسین آج تک الپتہ ہے۔

نلیش

رنانٹ

ی ٹس

یمن© ا

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 7 10/12/2012 15:57:44

Page 8: Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

سفارشاتایمنسٹی انٹرنیشنل حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی

ہے کہ وہ:

وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی عالقوں

میں نافذ ایکشن )ان ایڈ آف سول پاور( ریگولیشنز 2011 منسوخ کیا جائے۔

فرنٹئر کرائمز ریگولیشن 1901 کو منسوخ کیا جائے یا اس میں ترامیم کریں تاکہ اسے پاکستان

کی حقوق انسانی سے متعلق عالمی ذمہ داریوں کے مطابق بنایا جاسکے۔

پاکستان کی ہائی کورٹس اور پارلیمان کے دائرہ اختیار کو پارلیمان کے ایکٹ کے تحت وفاق کے

زیر انتظام قبائلی عالقوں تک بلترتیب پارلیمان کے ایکٹ اور صدر کے ایگزیکٹو حکم سے بڑھایا

جائے۔

قبائلی عالقوں میں انتظامی حراستوں کے نظام کو ختم کیا جائے۔

دوران حراست ہالکت اور تشدد اور بدسلوکی، جبری گمشدگیوں کی فوری، آذادنہ، غیرجانبدارانہ جامع تحقیقات کروائی جائیں اور اس بات کو یقینی

بنائیں کہ ان تحقیقات کا عوامی جانچ پڑتال بھی ممکن ہو۔

قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں الیا جائے۔

ان میں مسلح افواج کے ملزم قرار دیے جانے والوں اور طالبان بھی شامل ہوں۔ ان کے خالف منصفانہ مقدمہ چلے جس میں سزِاے موت کی

گنجائش نہ ہو۔

ایمنٹسی انٹرنیشنل ایک عالمی تحریک ہے۔ اس کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک اور خطوں میں تیس الکھ حامی، اراکین اور سرگرم کارکن حقوق انسانی کی

شدید خالف ورزیوں کے خاتمے کے لیے متحرک ہیں۔

ہماری کوشش ہے کہ ہر شخص کو وہ تمام حقوق میسر ہوں جن کا ذکر حقوق انسانی کے عالی اعالمیے اور انسانی حقوق کے بین القوامی معیار میں ہے۔

ہم کسی بھی حکومت، سیاسی نظریے، اقتصادی مفاد یا مذہب سے آذاد ہیں اور ہمارے اخراجات ممبرشپ اور عوامی عطیات سے پورے کئے جاتے ہیں۔

ASA 33/020/2012 :دسمبر Urdu

فھرست 2012Amnesty International

International Secretariat Peter Benenson House

Easton Street 1 London WC1X 0DW

United Kingdom

amnesty.org

نتیجہایمنسٹی انٹرنیشنل اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر شورش

جیسے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ حکومت کو ان عالقوں میں سول اختیار بحال کرنا تھا۔ اسے یہاں

اس لڑائی اور تین برسوں کے مسلسل سیالب سے تباہ حال انفراسٹرکچر کو بحال کرنا تھا۔ البتہ مسلح افواج کی جانب سے خالف ورزیوں کو ریگولیشنز

کے تحت قانونی تحفظ دینا اور قانون کے ہاتھوں کو قبائلی عالقوں تک نہ بڑھانے سے حکام نے

سکیورٹی فورسز اور طالبان کو حقوق انسانی کی

پامالیوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی کو

یقینی بنانے کے لیے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس خطے کے الکھوں لوگ القانونیت کی دلدل میں

پھنسے رہیں گے۔

دائیں: پشاور ہائی کورٹ میں ایک عورت اپنے الپتہ بیٹے کی تصویر ہوئے ہے۔ اگست دو ہزار بارہ۔ وہ وہاں منتظر ہوتی ہے بیٹے سے متعلق کسی خبر کی۔ ان کے بیٹے کو مبینہ طور پر

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔ فرنٹ کور: ایک سپاہی پاکستان کے شمال مغربی عالقے خیبر ایجنسی میں میڈیا کے سامنے چہرے چھپائے ہوئے

افراد کی نگرانی کر رہا ہے۔ دسمبر 2012۔ فوج کا کہنا ہے کہ یہ لوگ شدت پسند ہیں جنہیں قبائلی عالقوں میں کارروائی

کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ © رائٹرز/کے۔پرویز

نلیش

رنانٹ

ی ٹس

یمن© ا

Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 8 10/12/2012 15:57:46