29
بيگمحمدی م قاديانی مرزا آنجہانی نبوت مدعی جھوٹےستان دا عبرتناک کی ہوس و عشق ناکام کے رسوائی و ذلتميشہ ہ ليے کے قاديانی ہر جو گی رہے نمونہ کا ندامت و شرمندگی اور خالد متينحمد م عشر و عيش وه کہ ہے چلتا پتہ سے پﮍھنے زندگیِ ت حا کے نبيوں جھوٹے ميں تاريخ غايت اور ت تھی۔ پسندی تعيش کی ان کمزوری بﮍی سے سب کی ان تھے۔م غ کےہشات خوا نفسانی لگام بے درجہ اور خوبصورت والی آنے ميں ارادت حلقۂ کے ان تھے۔ نہ قائل سے سرے کے قدروںقی اخ وه پي کے ان ليکن رہيں، اترتی گھاٹ کے ہوس شيطانی کی ان کے کر ايک ايک لﮍکياںوجوان ن يہ کار رو

MuhammadiBegum

Embed Size (px)

DESCRIPTION

MuhammadiBegum

Citation preview

Page 1: MuhammadiBegum

محمدی بيگم

جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قاديانی

کے ناکام عشق و ہوس کی عبرتناک داستان

جو ہر قاديانی کے ليے ہميشہ ذلت و رسوائی

اور شرمندگی و ندامت کا نمونہ رہے گی

محمد متين خالد

ت اور غايت تاريخ ميں جھوٹے نبيوں کے حاالت زندگی پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وه عيش و عشر

درجہ بے لگام نفسانی خواہشات کے غالم تھے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کی تعيش پسندی تھی۔

وه اخالقی قدروں کے سرے سے قائل نہ تھے۔ ان کے حلقۂ ارادت ميں آنے والی خوبصورت اور

رو کار يہ نوجوان لڑکياں ايک ايک کر کے ان کی شيطانی ہوس کے گھاٹ اترتی رہيں، ليکن ان کے پي

Page 2: MuhammadiBegum

سب کچھ ديکھتے ہوئے بھی ان کی اندھی محبت اور عقيدت ميں ان کی مدح کے گيت االپتے رہے۔

جھوٹا مدعی نبوت آنجہانی مرزا قاديانی بھی اپنے پيش روؤں کی طرح اسی کردار کا مالک تھا۔ وه دن

خواب ميں بھی کو غير محرم عورتوں کے جھرمٹ ميں بيٹھا خوشی سے پھولے نہ سماتا تو رات کو

ايسی ہی رنگينيوں اور سنگينيوں کا نظاره کرتا۔ مرزا قاديانی کی پہلی شادی اس کے ماموں مرزا

جمعيت بيگ کی لڑکی حرمت بی بی سے ہوئی جس سے دو لڑکے فضل احمد اور سلطان احمد پيدا

بہت مہربان ہو ہوئے۔ بعدازاں انگريز کی حمايت اور جہاد کی مخالفت کے عوض انگريز سرکار اس پر

گئی۔ اس کے حاالت بدل گئے اور وه الکھوں ميں کھيلنے لگا۔ دولت کی فراوانی نے اسے شراب و کباب

کا رسيا بنا ديا جس سے اس کی صحت خراب رہنے لگی۔ ليکن اس کے باوجود اس نے دہلی کے ايک

االنکہ بقول مرزا سالہ الھڑ خاتون نصرت جہاں سے شادی رچائی۔ ح 16آزاد خيال گھرانے کی ايک

قاديانی ان دنوں اس کی حالت مردمی کالعدم تھی۔ حکيم نور الدين کے کشتوں نے اسے ازسرنو عارضی

4، 2طور پر جوان کر ديا۔ نصرت جہاں سے اس کے کئی بچے پيدا ہوئے۔ دوسری شادی کے تقريبا

پر پڑی تو وه ’’ حمدی بيگمم‘‘سال بعد اس کی نظر خاندان کی ايک نوخيز اور نہايت خوبصورت لڑکی

دل پر قابو نہ رکھ سکا۔ ان کی جنسی ہوس کی رال ٹپکنے لگی۔ وه اپنے خوابوں اور خياالت ميں

محمدی بيگم کا تصور ال کر تنہائی ميں نجانے کيا کيا احمقانہ حرکات کرتا۔ انہی دنوں مرزا قاديانی کو

:الہام ہوا

’’ از مرزا قاديانی 416ہامات طبع چہارم صفحہ تذکره مجموعہ وحی و ال(’’ بستر عيش۔ )

:پھر اپنا ايک رنگين و سنگين خواب اس طرح بيان کرتا ہے

’’ ذی الحجہ روز شنبہ۔ آج ميں نے بوقت صبح صادق چار بجے خواب ميں ديکھا کہ ايک 30مطابق

مشک سفيد حويلی ہے۔ اس ميں ميری بيوی والدۀ محمود اور ايک عورت بيٹھی ہے۔ تب ميں نے ايک

رنگ ميں پانی بھرا ہے اور اس مشک کو اٹھا کر اليا ہوں اور وه پانی ال کر ايک گھڑے ميں ڈال ديا

ہے۔ ميں پانی کو ڈال چکا تھا کہ وه عورت جو بيٹھی ہوئی تھی، يکايک سرخ اور خوش رنگ لباس

سر تک سرخ لباس پہنے ہوئے ميرے پاس آ گئی۔ کيا ديکھتا ہوں کہ ايک جوان عورت ہے، پيروں سے

پہنے ہوئے۔ شايد جالی کا کپڑا ہے۔ ميں نے دل ميں خيال کيا کہ وہی عورت ہے جس کے ليے اشتہار

ديے تھے۔ ليکن اس کی صورت ميری بيوی کی صورت معلوم ہوئی۔ گويا اس نے کہا، يا دل ميں کہا کہ

بغلگير ہوئی۔ اس کے بغلگير ميں آ گئی ہوں۔ ميں نے کہا يا هللا آ جاوے۔ اور پھر وه عورت مجھ سے

تذکره مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ (’’ ہوتے ہی ميری آنکھ کھل گئی۔ فالحمد علی ذالک۔

)از مرزا قاديانی 159

Page 3: MuhammadiBegum

:ايک اور خواب ميں ديکھتا ہے

’’ سال ديکھا کہ ميں ايک پيڑھی پر بيٹھا ہوں تو ايک عورت نوجوان عمده لباس پہنے ہوئے تيس بتيس

کی ميرے سامنے آئی اور اس نے کہا کہ ميرا اراده اب اس گھر سے چال جانے کا تھا۔ مگر تمھارے

از مرزا قاديانی 535تذکره مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ (’’ ليے ره گئی ہوں۔ )

رمائيںپھر مرزا قاديانی، محمدی بيگم کے عشق ميں گرفتار ہو کر عشقيہ اشعار کہنے لگا۔ مالحظہ ف :

عشق کا روگ ہے کيا پوچھتے ہو اس کی دوا’’

ايسے بيمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

ابھی کچھ پاؤ گے! کچھ مزا پايا مرے دل

تم بھی کہتے تھے کہ الفت ميں مزا ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سبب کوئی خداوندا بنا دے

کسی صورت سے وه صورت دکھا دے

کرم فرما کے آ او ميرے جانی

ئے ہيں اب ہم کو ہنسا دےبہت رو

( از مرزا بشير احمد ايم اے، ابن مرزا قاديانی 232سيرت المہدی جلد اول صفحہ )

انہی دنوں محمدی بيگم کی ياد ميں مرزا قاديانی کو احتالم ہونے لگا۔

احتالم ’’ يت ڈاکٹر مير محمد اسماعيل صاحب نے بيان کيا کہ حضرت صاحب کے خادم مياں حامد علی کی روا

ہے کہ ايک سفر ميں حضرت صاحب کو احتالم ہوا۔ جب ميں نے يہ روايت سنی تو بہت تعجب ہوا

کيونکہ ميرا خيال تھا کہ انبيا کو احتالم نہيں ہوتا پھر بعد فکر کرنے کے اور طبی طور پر اس مسئلہ پر

دوسرا شيطانی غور کرنے کے ميں اس نتيجہ پر پہنچا کہ احتالم تين قسم کا ہوتا ہے ايک فطرتی،

Page 4: MuhammadiBegum

خواہشات اور خياالت کا نتيجہ اور تيسرا مرض کی وجہ سے۔ انبيا کو فطرتی اور بيماری واال احتالم

ہوسکتا ہے مگر شيطانی نہيں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتالم کو شيطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط

اديانیاز مرزا بشير احمد ابن مرزا ق 242سيرت المہدی، جلد سوم صفحہ(’’ ہے۔ )

’’ نامی کتاب ميں مرزا بشير احمد نے اپنے باپ مرزا قاديانی کے تمام حاالت زندگی اور ’’ سيرت المہدی

ذاتی کردار تفصيل سے بيان کيا ہے۔ اس ليے اس کی تمام روايات قاديانيوں کے نزديک مستند ہيں جن

يث اور سنت کی کتاب ہے کيونکہ يہ حد) نعوذ با(سے وه انکار نہيں کر سکتے۔ قاديانيوں کے نزديک

حديث و سنت ) نعوذ با(جو کچھ مرزا قاديانی نے کہا اور کوئی عمل کيا ہے، قاديانيوں کے نزديک وه

ميں ہر حديث شريف ) بخاری و مسلم وغيره(کے زمرے ميں آتا ہے۔ جس طرح ہماری حديث کی کتابوں

ضرت ابوہريره نے کہ نبی کريم عليہ الصلوة کے شروع ميں درج ہوتا ہے کہ مثال روايت کيا ہے ح

والسالم فرماتے ہيں۔۔۔ اس کی نقل اتارتے ہوئے مرزا بشير احمد نے اس کتاب ميں درج تمام روايات کے

نے کہ حضرت مرزا غالم احمد مسيح ) مرزا قاديانی کی بيوی(روايت کيا ہے ‘‘شروع ميں لکھا کہ مثال

نعوذ با(’’ ماتے ہيں۔۔۔موعود عليہ الصلوة والسالم فر )

اس کتاب ميں کافی چھان بين اور ‘‘ء کے مطابق 1929ستمبر 14قاديان مورخہ ’’ الفضل‘‘روزنامہ

غور و خوض کے بعد مرزا قاديانی کے خصائص و شمائل و سيرت کے متعلق نہايت ثقہ روايات درج

الفضل‘‘ء کے 1924فروری 19’’ کی گئی ہيں۔ ايت کتب حديث کی طرز پر بيان ہر رو‘‘کے مطابق ‘‘

کی گئی ہيں۔ ہر روايت پڑھنے سے ايسا معلوم ہوتا ہے کہ جيسے حديث کی کتاب پڑھی جا رہی ہے۔ ہر

‘‘احمدی کے پاس اس کتاب کا ہونا الزم ہے۔

يہ کتاب قاديانی حلقے ميں مستند اور معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ نہايت دلچسپ بھی ہے۔ اس کتاب کی

ميں مرزا بشير نے اپنی والده نصرت جہاں بيگم ) ء1923مطبوعہ دسمبر (کے پہلے ايڈيشن پہلی جلد

’’سے روايت کرتے ہوئے سہاگ رات کی کی دلچسپ کارروائی تفصيال بيان کی ہے۔ ’’ خلوت صحيحہ

’’اس نے لکھا کہ نے فرمايا کہ سہاگ رات کو کچھ بھی نہيں ہوا۔ مرزا صاحب ’’ حضرت اماں جان

تر پر آن ليٹے اور ہزار کوشش کے باوجود کچھ نہ ہونے پر شرمسار ہو کر ساری رات ميرے بس

‘‘کروٹيں ليتے رہے۔

حضرت مسيح ’’اس ايڈيشن ميں ايک اور اہم واقعہ جو نصرت جہاں بيگم سے ہی روايت کيا گيا کہ

تھے۔ موعود، ايک نوخيز اور خوبصورت لڑکی محمدی بيگم کے عشق ميں بری طرح مبتال ہو گئے

پريشانی کے عالم ميں انھيں اک پل چين نہ آتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسيح موعود، ايک مالزمہ کے

ذريعے محمدی بيگم کے حيض والی سلوار منگوا کر اسے سونگھتے، چومتے اور آنکھوں سے لگاتے

Page 5: MuhammadiBegum

سلوار ہے، کتاب ميں درج اصل روايت ميں لفظ (’’ تو انھيں چين آتا۔ يہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔

ناقل(شلوار نہيں۔ )

جب ان خرافات پر شور اٹھا تو فوری طور پر سيرت المہدی کی پہلی جلد حکما واپس لے لی گئی۔ بعد

ء کو شائع کيا گيا۔ پھر 1935دسمبر 23ازاں اس کتاب ميں ترميم و اضافہ کے ساتھ اس کا دوسرا ايڈيشن

ت المہدی کے اس متذکره ايڈيشن ميں اس کے عالوه اس کے بعد يہ کتاب آج تک شائع نہيں ہوئی۔ سير

بھی بہت سارے تلخ حقائق و واقعات ہيں جن سے قاديانی قيادت گھبراتی اور شرماتی ہے۔ وه جانتے ہيں

کہ اگر اس کتاب کا پہال اصل ايڈيشن شائع ہوگيا تو مخالفين کے ہاتھ ميں قاديانيت کو رسوا کرنے واال

ے انحراف ممکن نہيں۔ايسا مواد آ جائے گا جس س

کا خطاب دے کر ’’ پارسا طبع اور نيک سيرت اہليہ‘‘کچھ عرصہ بعد مرزا قاديانی نے محمدی بيگم کو

درج ذيل خدائی الہام بيان کيا۔ مزيد کہا کہ يہ بات هللا تعالی کے ہاں طے ہو چکی ہے کہ محمدی بيگم

:ميرے نکاح ميں آئے گی۔ مالحظہ فرمائيں

’’ اه کا عرصہ ہوا کہ اس عاجز پر ظاہر کيا گيا تھا کہ ايک فرزند قوی الطاقتين، کامل الظاہر شايد چار م

والباطن تم کو عطا کيا جائے گا۔ سو اس کا نام بشير ہوگا۔ اب تک ميرا قياسی طور پر خيال تھا کہ شايد

ہ عنقريب ايک اور وه فرزند مبارک اسی اہليہ سے ہوگا۔ اب زياده تر الہام اس بات ميں ہو رہے ہيں ک

نکاح تمھيں کرنا پڑے گا اور جناب الہی ميں يہ بات قرار پا چکی ہے کہ ايک پارسا طبع اور نيک

سيرت اہليہ تمھيں عطا ہوگی۔ وه صاحب اوالد ہوگی۔ اس ميں تعجب کی بات يہ ہے کہ جب الہام ہوا تو

و آم کے تھے۔ مگر ايک پھل سبز ايک کشفی عالم ميں چار پھل مجھ کو ديے گئے۔ تين ان ميں سے ت

رنگ بہت بڑا تھا۔ وه اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہيں تھا۔ اگرچہ ابھی يہ الہامی بات نہيں۔ مگر

ميرے دل ميں يہ پڑا ہے کہ وه پھل جو اس جہان کے پھلوں ميں سے نہيں ہے، وہی مبارک لڑکا ہے

بکہ ايک پارسا طبع اہليہ کی بشارت دی گئی کيونکہ کچھ شک نہيں کہ پھلوں سے مراد اوالد ہے اور ج

اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل ديے گئے، جن ميں سے ايک پھل الگ وضع کا ہے تو يہی سمجھا

‘‘جاتا ہے۔ وهللا اعلم بالصواب۔

( از مرزا قاديانی 113، 112تذکره مجموعہ وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ )

ضروری ہے کہ يہ معلوم کر ليا جائے کہ محمدی بيگم اور اس کے آگے بڑھنے سے پہلے! قارئين کرام

خاندان کی مرزا غالم احمد قاديانی سے کيا رشتے داری تھی؟

محمدی بيگم کا والد مرزا احمد بيگ، مرزا قاديانی کا ماموں زاد بھائی تھا۔

( ی کی کيا لگتی تھی؟قارئين خود غور فرماليں کہ ماموں زاد بھائی کی بيٹی رشتے ميں مرزا قاديان )

Page 6: MuhammadiBegum

محمدی بيگم کی والده عمر النساء، مرزا قاديانی کی چچا زاد بہن اور مرزا امام الدين کی حقيقی ہمشيره

تھی۔

مرزا امام الدين، مرزا قاديانی کا چچا زاد بھائی اور محمدی بيگم کا حقيقی ماموں تھا۔

کے چچا زاد بھائی کی بيٹی ) پھجے دی ماں(محمدی بيگم، مرزا قاديانی کی پہلی بيوی حرمت بی بی

تھی۔

محمدی بيگم، مرزا قاديانی کے لڑکے فضل احمد کی بيوی کی ماموں زاد بہن تھی۔

سلطان احمد اور فضل احمد، مرزا قاديانی کی پہلی بيوی حرمت بی بی کے بطن سے تھے۔

د بيگ کی سگی بھانجی تھی۔عزت بی بی، مرزا قاديانی کے بيٹے فضل احمد کی اہليہ اور مرزا احم

مرزا علی شير بيگ، عزت بی بی کے والد اور مرزا قاديانی کا سمدھی تھا۔

عزت بی بی کی والده، مرزا احمد بيگ کی ہمشيره اور مرزا غالم احمد کی سمدھن تھی۔

عزت بی بی کی والده يعنی فضل احمد کی ساس، محمدی بيگم کی پھوپھی تھی۔

ت موالنا حافظ محمد اقبال رنگونی اپنی کتاب ميں لکھتے ہيںمعروف عالم دين حضر :

کسی آدمی کا شادی کے ليے کسی لڑکی کا انتخاب کرنا اور اس کے ليے پيغام دينا کوئی بری بات ’’

نہيں ہے۔ ليکن ايک پچاس سالہ بوڑھے کا ايک کم سن بچی پر نظر رکھنا اور اس کی طلب و ہوس ميں

ف ہونے کا پتہ نہيں ديتا۔ پھر يہ مسئلہ اس وقت اور بھی شديد ہو جاتا ہے جب دن رات تڑپنا اس کے شري

اس لڑکی کا والد اپنی کسی اور مجبوری ميں اس شخص کے پاس آئے اور وه اس شخص کی مجبوری

سے فائده اٹھا کر اس لڑکی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور طرح طرح کے اللچ اور انعام کے

ت کی دھمکيوں پر اتر آئے۔ يہ پرلے درجے کی بداخالقی اور غنڈه گردی ہے وعدے کرے اور پھر مو

اور معاشره ايسے شخص کو بے حيا اور بدمعاش کہتا ہے۔ پھر يہ بات اس وقت اور بھی سنگين ہو جاتی

ہے جب اس قسم کی اوچھی حرکتيں کرنے واال شخص مامور من هللا ہونے کا مدعی ہو اور اس لڑکی

ا کے نام سے خبر دے۔کو پانے کی خد

خدا تعالی کے محبوبين اور مقبولين، اخالق و کردار کی اس بلند ديوار پر کھڑے ہوتے ہيں جس پر خدا

کے معصوم فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے۔ مخالفين ان کے دعوی کی تکذيب تو کرتے ہيں ليکن کبھی

کے ان محبوبين کے اعلی اخالق و کردار ان کے اخالق زير بحث نہيں التے۔ شديد ترين مخالفين بھی هللا

کو تسليم کرتے ہيں اور انھيں امين و صادق اور عفيف مانے بغير انھيں چاره نہيں ہوتا۔ اس کے مقابل

جو لوگ خدا کے نام پر جھوٹی آواز لگاتے ہيں، وه افترا علی هللا اور افتراء علی الرسول کے مجرم

بار سے اس قدر گرے ہوتے ہيں کہ کوئی مہذب معاشره ايسے ہوتے ہيں۔ وه اخالق و کردار کے اعت

Page 7: MuhammadiBegum

آدميوں کو شريف کہنا گوارا نہيں کرتا۔ وه اول مرحلے پر ہی اپنے آپ کو اس قدر ننگا کر ديتے ہيں کہ

ذرا سی سمجھ رکھنے واال انسان يہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جو شخص اس قدر بداخالق اور

هللا تو کجا ايک شريف انسان کہالنے کے بھی قابل نہيں۔ جب ايک دھوکہ باز بدکردار ہے، وه مامور من

آدمی کو کوئی شخص صالح اور پرہيزگار نہيں کہہ سکتا تو ايسے بدکردار آدمی کو مامور من هللا کيسے

تسليم کيا جا سکتا ہے؟ موالنا روم نے ايسے ہی فراڈی قسم کے لوگوں کے بارے ميں يہ کہا تھا

طان مے کند نامش ولیکار شي

گر ولی ايں است لعنت بر ايں ولی

قاديانی، مرزا غالم احمد کو خدا کا نبی اور اس کا مامور مانتے ہيں اور مسلمانوں کو کہتے ہيں کہ اس

پر ايمان الؤ گے تو جنت ميں جاؤ گے اور اسے نہ ماننے واال حرام زاده ہے۔ اہل اسالم تو سرے سے

جھوٹا سمجھتے ہيں اور اس کے دعوی نبوت کی بنا پر اسے اسالم سے خارج ہی اسے پرلے درجے کا

جانتے ہيں۔ ليکن جو لوگ اسے مانتے ہيں، انھيں غور کرنا چاہيے کہ انھوں نے کس کے ہاتھ ميں اپنا

ہاتھ ديا ہے؟

ے ايک مرتبہ مرزا غالم احمد کی نظر ايک کمسن لڑکی پر پڑی جو اس کے دل کو بھا گئی۔ يہ اس ک

اپنے ايک قريبی رشتہ دار کی بچی تھی۔ کچھ عرصہ بعد اس بچی کے والد کو اپنی زمين کے ہبہ نامہ

کے سلسلہ ميں مرزا غالم احمد کے پاس آنا پڑا۔ مرزا غالم احمد نے مختلف بہانوں کے ذريعہ اسے

ں ايک شرط پر ٹالنے کا کھيل کھيال مگر جب وه کسی طرح بھی نہ ٹال تو مرزا قاديانی نے کہا کہ مي

تمہارا يہ کام کرنے کے ليے تيار ہوں کہ خدا تعالی کی طرف سے مجھ کو يہ الہام ہوا کہ تمہارا يہ کام

اس شرط پر ہو سکتا ہے کہ تم اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو۔ يہ شخص احمد بيگ تھا اور يہ بچی

نی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ ايک محمدی بيگم تھی۔ احمد بيگ نے جب مرزا غالم احمد کی يہ بات س

ايسا شخص جو اپنے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے، اس عمر ميں ايک معمولی کام کے ليے ميری کم سن

بچی مانگ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے مرزا قاديانی کی يہ شرط ماننے سے انکار کر ديا اور بغير کام

مختلف ذرائع سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کرائے واپس چال آيا۔ مرزا قاديانی نے احمد بيگ کو

کی مگر غيرت مند باپ کسی طرح بھی اپنی بچی کا نکاح مرزا قاديانی سے کرنے کے ليے تيار نہ ہوا۔

مرزا قاديانی نے اس بچی کو پانے کے ليے خدا کی وحی آنے کی خبر دی اور احمد بيگ کے خاندان

اہم پيشگوئياں اور ان کا جائزه از حافظ محمد (’’ دی۔ کو رحمتوں اور برکتوں کے ملنے کی خوشخبری

(اقبال رنگونی

قارئين کرام سے گزارش ہے کہ وه مرزا قاديانی کی يہ عبارت توجہ سے : (مرزا قاديانی لکھتا ہے

Page 8: MuhammadiBegum

!(پڑھيں۔ شکريہ

’’ ن يہ لوگ جو مجھ کو ميرے دعوی الہام ميں مکار اور دروغ گو خيال کرتے تھے اور اسالم اور قرآ

شريف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس

وجہ سے کئی دفعہ ان کے ليے دعا بھی کی گئی تھی۔ سو وه دعا قبول ہو کر خدا تعالی نے يہ تقريب

ی يہ قائم کی کہ والد اس دختر کا ايک اپنے ضروری کام کے ليے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ تفصيل اس ک

کی ايک ہمشيره ہمارے ايک چچا زاد بھائی غالم حسين نام کو بياہی گئی ) احمد بيگ(ہے کہ نامبرده

تھی۔ غالم حسين عرصہ پچيس سال سے کہيں چال گيا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمين ملکيت

احمد بيگ(جس کا ہميں حق پہنچتا ہے، نامبرده ميں درج کرا دی کی ہمشيره کے نام کاغذات سرکاری (

گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست ميں جو ضلع گورداسپور ميں جاری ہے، نامبرده يعنی ہمارے خط کے

نے اپنی ہمشيره کی اجازت سے يہ چاہا کہ وه زمين جو چار ہزار يا پانچ ہزار ) احمد بيگ(مکتوب اليہ

کرا ديں چنانچہ ان کی ہمشيره کی روپيہ کی قيمت کی ہے، اپنے بيٹے محمد بيگ کے نام بطور ہبہ منتقل

طرف سے يہ ہبہ نامہ لکھا گيا۔ چونکہ وه ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بيکار تھا، اس ليے مکتوب

)اليہ نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کيا، تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ) احمد بيگ

ستخط کر ديتے ليکن يہ خيال آيا کہ جيسا کہ ايک مدت ہبہ نامہ پر دستخط کر ديں۔ اور قريب تھا کہ د

سے بڑے بڑے کاموں ميں ہماری عادت ہے جناب الہی ميں استخاره کر لينا چاہيے۔ سو يہی جواب

مکتوب اليہ کو ديا گيا۔ پھر مکتوب اليہ کے متواتر اصرار سے استخاره کيا گيا۔ وه استخاره کيا تھا گويا

کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدائے تعالی نے اس پيرايہ ميں ظاہر کر ديا۔آسمانی نشان کی درخواست

کی دختر کالں ) احمد بيگ(اس خدائے قادر حکيم مطلق نے مجھے فرمايا کہ اس شخص ( ) محمدی بيگم

کے نکاح کے ليے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط

يہ نکاح تمھارے ليے موجب برکت اور ايک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام سے کيا جائے گا اور

ء ميں درج ہيں ليکن اگر نکاح 1888فروری 20برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار

سے انحراف کيا تو اس لڑکی کا انجام نہايت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بياہی جائے

ے اڑھائی سال تک اور ايسا ہی والد اس دختر کا تين سال تک فوت ہو جائے گا اور گی، وه روز نکاح س

ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصيبت پڑے گی اور درميانی زمانہ ميں بھی اس دختر کے ليے

‘‘کئی کراہت اورغم کے امر پيش آئيں گے۔

( از مرزا 287تا 285صفحہ 5لد مندرجہ روحانی خزائن ج 287تا 285آئينہ کماالت اسالم صفحہ

(قاديانی

Page 9: MuhammadiBegum

نے اسے ککھ سے ہوال کرديا۔ ايک رشتہ ’’ خدا‘‘مگر کس قدر افسوسناک بات ہے کہ مرز قاديانی کے

دار عورت سے نکاح ايسی ناممکن بات نہيں ہوتی مگر ہر طرح کے پاپڑ بيلنے کے باجود مرزا

نے مرزا قاديانی کی ايسی ’’ خدا‘‘ر رہا۔ جس قاديانی، محمدی بيگم کو حبالۂ عقد ميں النے سے قاص

مرزا قاديانی کا ! جگ ہنسائی کرائی، اس پر بھروسہ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے يا نہيں؟ اے کاش

سچے خدا سے زنده تعلق ہوتا تو وه يوں عالم ميں رسوا نہ ہوتا۔ مرزا قاديانی کا بيٹا مرزا بشير احمد ايم

تصديق کرتے ہوئے لکھتا ہےاے اپنے والد کے مؤقف کی :

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسيح کی حقيقی ہمشيره مراد بی بی، مرزا محمد بيگ ’’

ہوشيارپوری کے ساتھ بياہی گئی تھيں۔ مگر مرزا محمد بيگ جلد فوت ہو گئے اور ہماری پھوپھی کو

رويا و کشف تھيں۔ مرزا باقی ايام زندگی بيوگی کی حالت ميں گزارنے پڑے۔ ہماری پھوپھی صاحب

محمد بيگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا احمد بيگ ہوشيارپوری کے ساتھ حضرت مسيح موعود کے

چچيرے بھائيوں يعنی مرزا نظام الدين وغيره کی حقيقی بہن عمر النساء بياہی گئی تھيں، ان کے بطن

يره پرلے درجہ کے بے دين اور دہريہ سے محمدی بيگم پيدا ہوئی۔ مرزا نظام الدين و مرزا امام الدين وغ

طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بيگ مذکور ان کے سخت زير اثر تھا اور انھيں کے رنگ ميں رنگين

رہتا۔ يہ لوگ ايک عرصہ سے حضرت مسيح موعود سے نشان آسمانی کے طالب رہتے تھے کيونکہ

بيگم يعنی مرزا احمد بيگ ان کے اسالمی طريق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والد محمدی

اشاره پر چلتا تھا۔ اب واقعہ يوں ہوا کہ حضرت مسيح موعود کا ايک اور چچا زاد بھائی مرزا غالم

حسين تھا جو عرصہ سے مفقود الخبر ہو چکا تھا، اور اس کی جائداد اس کی بيوی امام بی بی کے نام ہو

کی بہن تھی۔ اب مرزا احمد بيگ کو يہ خواہش پيدا ہوئی چکی تھی۔ يہ امام بی بی مرزا احمد بيگ مذکور

کہ مسمات امام بی بی اپنی جائداد اس کے لڑکے مرزا محمد بيگ برادر کالں محمدی بيگم کے نام ہبہ

کر دے۔ ليکن قانونا امام بی بی اس جائداد کا ہبہ بنام محمد بيگ مذکور بال رضا مندی حضرت مسيح

اس ليے مرزا احمد بيگ بتمام عجز و انکساری حضرت مسيح موعود کی موعود نہ کر سکتی تھی۔

طرف ملتجی ہوا کہ آپ ہبہ نامہ پر دستخط کر ديں۔ چنانچہ حضرت صاحب قريبا تيار ہو گئے۔ ليکن پھر

اس خيال سے رک گئے کہ دريں باره مسنون استخاره کر لينا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ نے مرزا احمد

ا کہ ميں استخاره کرنے کے بعد، دستخط کرنے ہوں گے تو کر دوں گا۔ چنانچہ بيگ کو يہی جواب دي

اس کے بعد مرزا احمد بيگ کے متواتر اصرار سے استخاره کيا گيا۔ وه استخاره کيا تھا، گويا آسمانی

نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھا جس کو خدا تعالی نے اس پيرايہ ميں ظاہر کر ديا۔ چنانچہ

اس شخص کی دختر ‘‘ه کے جواب ميں خداوند تعالی نے حضرت مسيح موعود سے يہ فرمايا کہ استخار

Page 10: MuhammadiBegum

کالں کے نکاح کے ليے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی

شرط سے کيا جائے گا اور يہ نکاح تمھارے ليے موجب برکت اور ايک رحمت کا نشان ہوگا، اور ان

ء ميں درج ہيں۔ ليکن اگر 1886فروری 20م برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار تما

نکاح سے انحراف کيا تو اس لڑکی کا انجام نہايت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بياہی

جائے گی وه روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ايسا ہی والد اس دختر کا تين سال تک فوت ہو جائے

گا، اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصيبت پڑے گی، اور درميانی زمانہ ميں بھی اس دختر

از مرزا 115، 114سيرت المہدی جلد اول صفحہ (’’کے ليے کئی کراہت اور غم کے امر پيش آئيں گے۔

(بشير احمد ايم اے، ابن مرزا قاديانی

اپنے ايک اشتہار ’’ هللا تعالی سے بشارت پا کر‘‘ہ ميں مرزا قاديانی نے محمدی بيگم سے نکاح کے سلسل

:ميں لکھا

پھر خدائے کريم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تيرا گھر برکت سے بھرے گا۔ اور ميں ’’

اپنی نعمتيں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتين مبارکہ سے جن ميں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے

وگی اور ميں تيری ذريت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان ميں گا، تيری نسل بہت ہ

سے کم عمری ميں فوت بھی ہوں گے اور تيری نسل کثرت سے ملکوں ميں پھيل جائے گی اور ہر ايک

شاخ تيرے جدی بھائيوں کی کاٹی جائے گی اور وه جلد الولد ره کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وه توبہ نہ

خدا ان پر بال پر بال نازل کرے گا۔ يہاں تک کہ وه نابود ہو جائيں گے۔ ان کے گھر بيواؤں کريں گے تو

سے بھر جائيں گے اور ان کی ديواروں پر غضب نازل ہوگا۔ ليکن اگر وه رجوع کريں گے تو خدا رحم

ے آباد کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تيری برکتيں اردگرد پھيالئے گا اور ايک اجڑا ہوا گھر تجھ س

ء کے اشتہار ميں شائع ہو 1888يہ ايک پيشگوئی کی طرف اشاره ہے جو دہم جوالئی [ حاشيہ]کرے گا۔

چکی، جس کا ماحصل يہ ہے کہ خدا تعالی نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق

ہے، اگر ميں نشان کے طور پر يہ پيشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان ميں سے جو ايک شخص احمد بيگ نام

وه اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہيں دے گا تو تين برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قريب فوت ہو

جائے گا اور وه جو نکاح کرے گا وه روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ ميں فوت ہوگا۔ اور آخر

ہوا گھر وه عورت اس عاجز کی بيويوں ميں داخل ہوگی۔ سو اس جگہ اجڑے ہوئے گھر سے وه اجڑا

طبع جديد از مرزا قاديانی 96مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ (’’ مراد ہے۔ )

قاديانيوں کو مرزا قاديانی کی باتوں پر يقين نہيں آ رہا تھا۔ وه تذبذب کا شکار تھے کہ کيا واقعی هللا تعالی

يں۔ اس پر مرزا قاديانی نے مرزا قاديانی کو محمدی بيگم سے نکاح کے سلسلہ ميں يقين دہانياں کرائی ہ

Page 11: MuhammadiBegum

:نے کہا

’’ ہے ويسئلونک احق ھو قل ای وربی انہ لحق وما انتم بمعجزين۔ زوجنا کھا ال مبدل ) ہوا(يہ بھی الہام

محمدی (تجھ سے پوچھتے ہيں کہ کيا ) لوگ(لکلماتی۔ وان يروا ايۃ يعرضوا و يقولوا سحر مستمر۔ اور

مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ يہ سچ ہے اور تم اس ! ہ ہاںيہ بات سچ ہے؟ کہ) بيگم سے نکاح والی

سے تيرا عقد نکاح باندھ ) محمدی بيگم(بات کو وقوع ميں آنے سے روک نہيں سکتے۔ ہم نے خود اس

ديا ہے۔ ميری باتوں کو کوئی بدال نہيں سکتا اور نشان ديکھ کر منہ پھير ليں گے اور قبول نہيں کريں

مندرجہ روحانی 40آسمانی فيصلہ صفحہ (’’ ئی پکا فريب يا پکا جادو ہے۔گے اور کہيں گے کہ يہ کو

از مرزا قاديانی 350صفحہ 4خزائن جلد )

:مرزا قاديانی نے مزيد کہا

خدائے تعالی نے پيشگوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمايا کہ مرزا احمد بيگ ولد مرزا گاماں ’’

کار تمھارے نکاح ميں آئے گی اور وه لوگ بہت عداوت کريں بيگ ہوشيارپوری کی دختر کالں انجام

گے اور بہت مانع آئيں گے اور کوشش کريں گے کہ ايسا نہ ہو ليکن آخرکار ايسا ہی ہوگا۔ اور فرمايا کہ

خدا تعالی ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف الئے گا باکره ہونے کی حالت ميں يا بيوه کر کے اور ہر

سے اٹھاوے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہيں جو اس کو روک ايک روک کو درميان

‘‘سکے۔

( از مرزا قاديانی 305صفحہ 3مندرجہ روحانی خزائن جلد 305ازالہ اوہام صفحہ )

نکاح آسمانی ہو مگر بيوی نہ ہاتھ آئے

رہے گی حسرت ديدار تا روز جزا باقی

ے مزيد لکھتا ہےمرزا قاديانی اپنے الہام کے حوالہ س :

’’ جيسا کہ اب (اس جگہ مطلب يہ ہے کہ جب يہ پيشگوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہيں ہوئی تھی

تو اس کے بعد اس عاجز کو ايک سخت بيماری ) ء ہے، پوری نہيں ہوئی1891اپريل 16تک بھی جو

وصيت بھی کر دی گئی۔ آئی يہاں تک کہ قريب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے ديکھ کر

اس وقت گويا پيشگوئی آنکھوں کے سامنے آ گئی اور يہ معلوم ہو رہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل

جنازه نکلنے واال ہے۔ تب ميں نے اس پيشگوئی کی نسبت خيال کيا کہ شايد اس کے اور معنی ہوں گے

ہام ہوا الحق من ربک فال تکونن من جو ميں سمجھ نہيں سکا۔ تب اسی حالت قريب الموت ميں مجھے ال

‘‘الممترين يعنی يہ بات تيرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کيوں شک کرتا ہے۔

( از مرزا قاديانی 306صفحہ 3مندرجہ روحانی خزائن جلد 306ازالہ اوہام صفحہ )

Page 12: MuhammadiBegum

بنا ليا جائے تو وه اسی طرح فريب ديا کرتا ہے۔’’ خدا‘‘اپنے نفس کو

حمدی بيگم سے نکاح کے سلسلہ ميں اپنی وحی بيان کرتے ہوئے لکھتا ہےمرزا قاديانی م :

’’ (ترجمہ) کی بڑی لڑکی کے نکاح کے ) احمد بيگ(هللا تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی کہ اس شخص

ليے درخواست کر اور اس سے کہہ دے کہ پہلے وه تمھيں دامادی ميں قبول کرے اور پھر تمھارے نور

رے اور کہہ دے کہ مجھے اس زمين کے ہبہ کرنے کا حکم مل گيا ہے، جس کے سے روشنی حاصل ک

تم خواہش مند ہو بلکہ اس کے ساتھ اور زمين بھی دی جائے گی اور ديگر مزيد احسانات تم پر کيے

جائيں گے۔ بشرطيکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دو۔ ميرے اور تمھارے درميان يہی عہد

گے تو ميں بھی تسليم کر لوں گا۔ اگر تم قبول نہ کرو گے تو خبردار رہو۔ مجھے خدا نے ہے۔ تم مان لو

يہ بتاليا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا تو نہ اس لڑکی کے ليے يہ نکاح

مبارک ہوگا اور نہ تمھارے ليے۔ ايسی صورت ميں تم پر مصائب نازل ہوں گے، جن کا نتيجہ موت

ہوگا۔

پس تم نکاح کے بعد تين سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قريب ہے اور ايسا اس لڑکی کا

شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ يہ حکم هللا ہے۔ پس جو کرنا ہے کر لو۔ ميں نے تم کو

مرزا احمد بيگ(نصيحت کر دی ہے۔ پس وه ‘‘تيوری چڑھا کر چال گيا۔ (

( از مرزا قاديانی 573، 572صفحہ 5روحانی خزائن جلد 573، 572اسالم صفحہ آئينہ کماالت )

حکيم نور الدين کے پاس ايک ) محمدی بيگم کا حقيقی بھائی(مرزا احمد بيگ کا بڑا لڑکا محمد بيگ

بيماری کے سلسلہ ميں زير عالج تھا۔ اس لڑکے نے مرزا قاديانی کو کئی خطوط لکھے کہ آپ حکيم

و ميری سفارش کر ديں کہ وه مجھے محکمہ پوليس ميں نوکر کروا ديں۔ اس پر مرزا قاديانی نور الدين ک

:نے حکيم نورالدين کو حسب ذيل خط لکھا

!مخدومی مکرمی اخويم مولوی حکيم نور دين صاحب’’

يگ محمد بيگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے۔ آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد ب! السالم عليکم

بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت و کينہ رکھتا ہے اور ايسا ہی اس

کی والده بھی، چونکہ خدا تعالی نے بوجہ اپنے بعض مصالح کے اس لڑکے کی ہمشيره کی نسبت وه

وں ميں حد الہام ظاہر فرمايا تھا کہ جو بذريعہ اشتہارات شائع ہو چکا ہے، اس وجہ سے ان لوگوں کے دل

سے زياده جوش مخالفت ہے اور مجھے معلوم نہيں کہ وه امر جس کی نسبت مجھے اس شخص کی

ہمشيره کی نسبت اطالع دی گئی ہے، کيونکر اور کس راه سے وقوع ميں آئے گا اور بظاہر يہ معلوم

کن تاہم کچھ مضائقہ نہيں ہوتا ہے کہ نرمی کارگر نہ ہوگی، يفعل هللا مايشاء کرتا ہے جو هللا چاہتا ہے، لي

Page 13: MuhammadiBegum

کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض ميں نرمی اختيار کر کے ادفع بالتی ھی احسن کا ثواب حاصل کيا

جائے اس لڑکے محمد بيگ کے کتنے خطوط اس مضمون کے پہنچے کہ مولوی صاحب پوليس کے

محکمہ ميں مجھ کو نوکر کرا ديں۔

نے بہت ) غالم احمد قاديانی(ھائيں کہ تيری نسبت انھوں آپ براه مہربانی اس کو بال کر نرمی سے سمج

يہاں حکيم (سفارش لکھی ہے اور تيرے ليے جہاں تک گنجائش اور مناسب وقت ہو، کچھ فرق نہ ہوگا۔

غرض آنمکرم ميری طرف سے اس کے ذہن ) نوردين کو جھوٹ بولنے پر مجبور کيا جا رہا ہے۔ مرتب

تاکيد کرتے ہيں، اگر محمد بيگ آپ کے ساتھ آنا چاہے تو ساتھ لے نشين کر ديں کہ وه تيری نسبت بہت

‘‘آويں۔۔۔ زياده خيريت ہے۔

ء1891مارچ 21والسالم۔ خاکسار غالم احمد، لدھيانہ محلہ اقبال گنج

اس خط سے مرزا قاديانی کی ذہنيت کا اندازه خود بخود ہو جاتا ہے کہ وه کس طرح محمدی بيگم کے

اللچ دے کر اس کی برين واشنگ کر رہا ہے کہ مناسب وقت يعنی محمدی بيگم کا بھائی کو مالزمت کا

مرزا قاديانی سے پہلے نکاح ہو جائے، پھر مالزمت کی کوشش کی جائے گی لہذا پہلے تم مرزا قاديانی

کے نکاح کے سلسلہ ميں کوشش کرو۔

ں کو بھی خطوط لکھے اور مرزا قاديانی نے محمدی بيگم سے شادی کے سلسلہ ميں اپنے رشتہ دارو

انھيں مجبور کيا کہ لڑکی کے والد احمد بيگ کو اس نکاح کے ليے تيار کيا جائے اور خود احمد بيگ

ء کو ايک اللچ بھرا خط لکھا کہ اگر تم نے اپنی بچی کا نکاح ميرے ساتھ کر ديا تو 1888فروری 20کو

بلکہ تمھيں جائيداد بھی ملے گی اور ميں نہ صرف ان کاغذات پر دستخط کرنے کے ليے تيار ہوں

:تمھارے لڑکے کو پوليس کی مالزمت بھی دال دوں گا۔ مرزا قاديانی کا خط مالحظہ فرمائيے

’’ السالم عليکم! مکرمی مخدومی اخويم مرزا احمد بيگ !

ہ ابھی ابھی مراقبہ سے فارغ ہی ہوا تھا تو کچھ غنودگی سی ہوئی اور خدا کی طرف سے يہ حکم ہوا ک

احمد بيگ کو مطلع کر دے کہ وه بڑی لڑکی کا رشتہ منظور کرے، يہ اس کے حق ميں ہماری جانب

سے خير و برکت ہوگا اور ہمارے انعام و اکرام بارش کی طرح اس پر نازل ہوں گے اور تنگی اور

نہ سختی اس سے دور کر دی جائے گی اور اگر انحراف کيا تو مورد عتاب ہوگا اور ہمارے قہر سے

بچ سکے گا۔ اور ميں نے اس کا حکم پہنچا ديا تاکہ اس کے رحم و کرم سے حصہ پاؤ اور اس کی بے

بہا نعمتوں کے خزانے تم پر کھولے جائيں اور ميں اپنی طرف سے تو صرف يہی عرض کرتا ہوں کہ

بزرگ تصور ميں آپ کا ہميشہ ادب و لحاظ ہی ملحوظ رکھتا ہوں اور آپ کو ايک دين دار اور ايمان دار

کرتا ہوں اور آپ کے حکم کو اپنے ليے فخر سمجھتا ہوں اور ہبہ نامہ جب لکھو، حاضر ہو کر دستخط

Page 14: MuhammadiBegum

کر جاؤں اور اس کے عالوه ميری امالک خدا کی اور آپ کی ہے، اور ميں نے عزيز محمد بيگ کے

تاکہ وه کام ليے پوليس ميں بھرتی کرانے کی اور عہده دالنے کی خاص کوشش و سفارش کر لی ہے

ميں لگ جاوے اور اس کا رشتہ ميں نے ايک بہت امير آدمی جو ميرے عقيدت مندوں ميں ہے تقريبا کر

ء 1888فروری 20’’ ديا ہے فقط خاکسار غالم احمد لدھيانہ اقبال گنج

بقول مذکوره باال خط کا جواب نہ ملنے پر مرزا قاديانی نے درج ذيل دوسرا خط روانہ کيا۔ ياد رہے کہ

:مرزا قاديانی انھوں نے يہ خط بھی هللا تعالی کے ايما اور اشاره سے احمد بيگ کو لکھا

( آپ کو کيا ہو گيا ہے کہ آپ ميری سنجيده بات کو لغو ! بسم هللا الرحمن الرحيم۔ اے عزيز سنيے) ترجمہ

کہ ميں آپ کو تکليف سمجھتے ہيں اور ميرے کھرے کو کھوٹا خيال کرتے ہيں۔ بخدا ميرا يہ اراده نہيں

دوں۔ انشاء هللا آپ مجھے احسان کرنے والوں ميں سے پائيں گے اور ميں يہ عہد استوار کے ساتھ لکھ

رہا ہوں کہ اگر آپ نے ميرے خاندان کے خالف مرضی ميری بات کو مان ليا تو ميں اپنی زمين اور باغ

اع اور اختالف رفع ہو جائے گا اور خدا ميں آپ کو حصہ دوں گا اور اس رشتہ کی وجہ سے آپس کی نز

ميرے کنبہ اور خاندان کے قلوب کی اصالح کر دے گا۔۔۔ اگر آپ نے ميرا قول اور بيان مان ليا تو مجھ

پر مہربانی اور احسان اور ميرے ساتھ نيکی ہوگی۔ ميں آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کی درازی عمر

کروں گا اور آپ سے وعده کرتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو کے ليے ارحم الراحمين کے جناب ميں دعا

اپنی زمين اور مملوکات کا ايک تہائی حصہ دوں گا اور ميں سچ کہتا ہوں کہ اس ميں سے جو کچھ

مانگيں گے، ميں آپ کو دوں گا۔ صلہ رحم عزيزوں سے محبت اور رشتہ کے حقوق کے بارے ميں آپ

مجھے مصيبتوں ميں اپنا دستگير اور بار اٹھانے واال پائيں کو مجھ جيسا کوئی شخص نہيں ملے گا۔ آپ

گے۔ اس ليے انکار ميں اپنا وقت ضائع نہ کيجيے اور شک و شبہ ميں نہ پڑيے۔

ميں اپنا يہ خط اپنے پروردگار کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ اپنی رائے سے نہيں۔ آپ ميرے اس خط کو

ور امين کی جانب سے ہے۔ هللا تعالی جانتا ہے کہ اپنے صندوق ميں محفوظ رکھيے۔ يہ خط بڑے سچے ا

ميں اس ميں سچا ہوں اور جو کچھ ميں نے وعده کيا ہے، وه هللا تعالی کی طرف سے ہے اور ميں نے

جو کہا ہے وه ميں نے نہيں کہا بلکہ هللا تعالی نے مجھ سے اپنے الہام سے کہلوايا ہے اور يہ مجھے

اس ليے ميں نے اسے پورا کيا۔ ورنہ مجھے آپ کی يا آپ کی لڑکی ميرے پروردگار کی وصيت تھی۔

کی کچھ حاجت نہيں تھی۔۔۔ اگر ميعاد گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو تو ميرے گلے ميں رسی اور

پاؤں ميں زنجير ڈالنا اور مجھے ايسی سزا دينا کہ تمام دنيا ميں کسی کو نہ دی گئی ہو۔ يہ خط ميں نے

‘‘ھ ميں لکھا تھا۔1304احمد بيگ کو

( از مرزا قاديانی 574، 573صفحہ 5روحانی خزائن جلد 574، 573آئينہ کماالت اسالم صفحہ )

Page 15: MuhammadiBegum

مرزا قاديانی کی ان تحريروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وه محمدی بيگم سے شادی کے سلسلہ ميں کس قدر

ہا ہے کہ آپ کو اپنی زمين اور بے تاب تھا۔ وه لڑکی کے باپ کو ہر قسم کا اللچ اور دھمکی بھی دے ر

باغ ميں سے حصہ دوں گا۔ آپ کی لڑکی کو جائيداد ميں سے حصہ ملے گا۔ آپ کے ليے لمبی عمر کی

دعا کروں گا۔ اگر يہ سچ نہ ہوا تو ميرے گلے ميں رسی ڈال کر ايسی سزا دينا جو کسی کو نہ دی گئی

ر ايسا نہ کيا تو لڑکی کا باپ مر جائے گا، ہو۔ بس تم جلدی محمدی بيگم کی شادی مجھ سے کر دو۔ اگ

آپ خود بتائيں کيا يہ باتيں نبی تو کجا کسی شريف آدمی کو ! لڑکی کا شوہر مر جائے گا۔ قارئين کرام

جس کے دل ميں ذرا بھی شرم و حيا ہو، زيب ديتی ہيں؟

فضل احمد کی اس کے بعد مرزا قاديانی نے اپنے سمدھی مرزا علی شير بيگ کو خط لکھا جو مرزا

بيوی عزت بی بی کا والد تھا۔ اس خط ميں بھی مرزا قاديانی نے رشتہ کے سلسلہ ميں بے حد منت

مرزا قاديانی کا خط پڑھيے اور ان ! سماجتيں کی ہيں اور خود کو ذلت کی حد تک پستی ميں گرايا۔ آئيے

!کی بے بسی کا اندازه لگائيے

مشفقی مرزا علی شير بيگ صاحب

هللا تعالی خوب جانتا ہے کہ مجھ کو آپ سے کسی طرح سے فرق نہ تھا اور ميں آپ کو ! ليکمالسالم ع

ايک غريب طبع اور نيک خيال آدمی اور اسالم پر قائم سمجھتا ہوں۔ ليکن اب جو آپ کو ايک خبر سناتا

ہوں آپ کو اس سے بہت رنج گزرے گا۔ مگر ميں محض ان لوگوں سے تعلق چھوڑنا چاہتا ہوں جو

مجھے ناچيز بتاتے ہيں اور دين کی پرواه نہيں رکھتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مرزا احمد بيگ کی لڑکی

کے بارے ميں ان لوگوں کے ساتھ کس قدر ميری عداوت ہو رہی ہے۔ اب ميں نے سنا ہے کہ عيد کے

ره ميں دوسری يا تيسری تاريخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے واال ہے اور آپ کے گھر کے لوگ اس مشو

ساتھ ہيں۔ آپ سمجھ سکتے ہيں کہ اس نکاح کے شريک ميرے سخت دشمن ہيں۔ بلکہ ميرے کيا دين

اسالم کے سخت دشمن ہيں۔ عيسائيوں کو ہنسانا چاہتے ہيں۔ ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہيں اور هللا

ں نے پختہ رسول کے دين کی کچھ بھی پرواه نہيں رکھتے، اور اپنی طرف سے ميری نسبت ان لوگو

اراده کر ليا ہے کہ اس کو خوار کيا جائے، ذليل کيا جائے، روسياه کيا جائے۔ يہ اپنی طرف سے ايک

تلوار چالنے لگے ہيں، اب مجھ کو بچا لينا هللا تعالی کا کام ہے۔ اگر ميں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے

پنے بھائی کو سمجھاتے تو کيوں نہ سمجھ بچائے گا۔ اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کر کے ا

سکتا۔ کيا ميں چوہڑا يا چمار تھا، جو مجھ کو لڑکی دينا عار يا ننگ تھی بلکہ وه تو اب تک ہاں سے ہاں

مالتے رہے اور اپنے بھائی کے ليے مجھے چھوڑ ديا اور اب اس لڑکی کے نکاح کے ليے سب ايک

غرض، کہيں جائے، مگر يہ تو آزمايا گيا کہ جن کو ميں ہو گئے۔ يوں تو مجھے کسی کی لڑکی سے کيا

Page 16: MuhammadiBegum

خويش سمجھتا تھا اور جن کی لڑکی کے ليے چاہتا تھا کہ اس کی اوالد ہو، وه ميری وارث ہو۔ وہی

ميرے خون کے پياسے، وہی ميری عزت کے پياسے ہيں اور چاہتے ہيں کہ خوار ہو اور اس کا روسياه

روسياه کرے مگر اب وه مجھے آگ ميں ڈالنا چاہتے ہيں۔ ميں نے ہو۔ خدا بے نياز ہے جس کو چاہے

خط لکھے کہ پرانا رشتہ مت توڑو۔ خدا تعالی سے خوف کرو۔ کسی نے جواب نہ ديا بلکہ ميں نے سنا

ہے کہ آپ کی بيوی نے جوش ميں آ کر کہا کہ ہمارا کيا رشتہ ہے، صرف عزت بی بی نام کے ليے

شک وه طالق دے دے، ہم راضی ہيں۔ اور ہم نہيں جانتے کہ يہ شخص فضل احمد کے گھر ميں ہے۔ بي

کيا بال ہے۔ ہم اپنے بھائی کے خالف مرضی نہيں کريں گے۔ يہ شخص کہيں مرتا بھی نہيں۔ پھر ميں نے

رجسٹری کرا کر آپ کی بيوی صاحب کے نام خط بھيجا۔ مگر کوئی جواب نہ آيا اور بار بار کہا کہ اس

تہ باقی ره گيا ہے، جو چاہے کرے۔ ہم اس کے ليے اپنے خويشوں سے اپنے بھائيوں سے کيا ہمارا رش

سے جدا نہيں ہو سکتے۔ مرتا مرتا ره گيا ابھی مرا بھی ہوتا۔ يہ باتيں آپ کی بيوی صاحب کی مجھے

پہنچی ہيں۔ بے شک ميں ناچيز ہوں، ذليل ہوں اور خوار ہوں۔ مگر خدا تعالی کے ہاتھ ميں ميری عزت

۔ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اب جب ميں ايسا ذليل ہوں تو ميرے بيٹے سے تعلق رکھنے کی کيا حاجت ہے

ہے۔ لہذا ميں نے ان کی خدمت ميں خط لکھ ديا ہے کہ اگر آپ اپنے اراده سے باز نہ آويں اور اپنے

حمد بھی آپ بھائی کو اس نکاح سے روک نہ ديں۔ پھر جيسا کہ آپ کی خود منشا ہے، ميرا بيٹا فضل ا

کی لڑکی کو اپنے نکاح ميں رکھ نہيں سکتا بلکہ ايک طرف جب محمدی کا کسی شخص سے نکاح ہو

گا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طالق دے دے گا۔ اگر نہيں دے گا تو ميں اس کو عاق

س کا بند کرا دو اور الوارث کروں گا اور اگر ميرے ليے احمد بيگ سے مقابلہ کرو گے اور يہ اراده ا

گے تو ميں بدل و جان حاضر ہوں اور فضل احمد کو جو اب ميرے قبضہ ميں ہے، ہر طرح سے درست

کر کے آپ کی لڑکی کی آبادی کے ليے کوشش کروں گا اور ميرا مال ان کا مال ہوگا۔ لہذا آپ کو بھی

ے خط لکھيں کہ باز آ جائيں لکھتا ہوں کہ آپ اس وقت کو سنبھال ليں۔ اور احمد بيگ کو پورے زور س

اور اپنے گھر کے لوگوں کو تاکيد کريں کہ وه بھائی کو لڑائی کر کے روک ديوے۔ ورنہ مجھے خدا

تعالی کی قسم ہے کہ اب ہميشہ کے ليے يہ تمام رشتے ناطے توڑ دوں گا۔ اگر فضل احمد ميرا فرزند

گھر ميں رکھے گا اور جب آپ کی بيوی کی اور وارث بننا چاہتا ہے تو اسی حالت ميں آپ کی لڑکی کو

خوشی ثابت ہو۔

ورنہ جہاں ميں رخصت ہوا۔ ايسا ہی سب ناطے رشتے بھی ٹوٹ گئے۔ يہ باتيں خطوں کی معرفت

مجھے معلوم ہوئی ہيں۔ ميں نہيں جانتا کہ کہاں تک درست ہيں۔

ء1891مئی 4راقم خاکسار غالم احمد۔ از لودھيانہ اقبال گنج

Page 17: MuhammadiBegum

واب علی شير بيگ صاحب نے دو روز بعد يوں لکھا اور اس ميں جو ادبيت اور نہايت اس خط کا ج

لطيف طنز ہے، وه قابل ستائش ہے،

!اخويم مرزا غالم احمد

گرامی نامہ پہنچا غريب طبع يا نيک جو کچھ بھی آپ تصور کريں آپ کی مہربانی ہے۔ ! السالم عليکم

نبوت کا قائل نہيں ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ہاں مسلمان ضرور ہوں، مگر آپ کی خود ساختہ

مجھے سلف صالحين کے طريقے پر ہی رکھے اور اسی پر ميرا خاتمہ بالخير کرے۔۔۔ باقی رہا تعلق

چھوڑنے کا مسئلہ تو بہترين تعلق خدا کا ہے، وه نہ چھوٹے اور باقی اس عاجز مخلوق کا ہوا تو پھر

مد بيگ کے متعلق ميں کر ہی کيا سکتا ہوں، وه ايک سيدھا ساده مسلمان کيا، نہ ہوا تو پھر کيا اور اح

آدمی ہے جو کچھ ہوا، آپ کی طرف ہی سے ہوا، نہ آپ فضول ايمان کو گنواتے اور الہام بانی کرتے

اور نہ مرنے کی دھمکياں ديتے اور نہ وه کناره کش ہوتا۔۔۔ يہ ٹھيک ہے کہ خويش ہونے کی حيثيت

لب کيا مگر آپ خيال فرمائيں کہ اگر آپ کی جگہ احمد بيگ ہو اور احمد بيگ کی سے آپ نے رشتہ ط

جگہ آپ ہوں، تو خدا لگتی کہنا کہ تم کن کن باتوں کا خيال کر کے رشتہ دو گے؟ اگر احمد بيگ سوال

کرتا اور وه مجمع المرائض ہونے کے عالوه پچاس سال سے زياده عمر کا ہوتا اور اس پر وه مسيلمہ

کے کان بھی کتر چکا ہوتا تو آپ رشتہ ديتے؟ آپ کو خط لکھتے وقت يوں آپے سے باہر نہيں ہونا کذاب

چاہيے، لڑکياں سبھی کے گھروں ميں ہيں اور نظام عالم انہی باتوں سے قائم ہے، کچھ حرج نہيں اگر

ا سياه داغ مول آپ طالق دلوائيں گے تو يہ بھی ايک پيغمبری کی نئی سنت دنيا پر قائم کر کے بدنامی ک

ليں گے۔ باقی روٹی تو خدا اس کو بھی کہيں سے دے ہی دے گا تر نہ سہی خشک، مگر خشک بہتر ہے

جو پسينہ کی کمائی سے پيدا کی جاتی ہے۔ ميں بھائی احمد بيگ کو لکھ رہا ہوں بلکہ آپ کا خط بھی اس

کر سکتا اور بيوی کا کيا حق کے ساتھ شامل کر ديا گيا ہے، مگر ميں ان کی موجودگی ميں کچھ نہيں

ہے کہ وه اپنی بيٹی کے ليے بھائی کی لڑکی کو ايک دائم المريض آدمی کو جو مراق سے خدائی تک

پہنچ چکا ہو کس طرح لڑے۔۔۔ ہاں اگر وه خود مان ليں تو ميں اور ميری بيوی حارج نہ ہوں گے، آپ

نے کا عادی ہو چکا ہے، اس سے جہاں تک خود ان کو لکھيں مگر درشت اور سخت الفاظ آپ کا قلم گرا

ء۔1891مئی 4ہو سکے احتراز کريں اور منت سماجت سے کام ليں۔ خاکسار علی شير بيگ از قاديان

مرزا علی شير کے اس خط ميں مرزا قاديانی کے کردار کی صحيح تصوير کھينچی گئی ہے۔ اسے

کہ مرزا قاديانی کی نبوت خود ساختہ ہے اور کہتے ہيں گھر کا بھيدی لنکا ڈھائے۔ خط ميں لکھا گيا ہے

وه اپنے دعوی ميں مسيلمہ کذاب سے بڑھ کر ہے۔ بليک ميلنگ ميں بھی ان کا کوئی ثانی نہيں۔ وه

جسمانی بيماريوں کا مجموعہ اور مراقی ہے۔

Page 18: MuhammadiBegum

احمد ايم اے مرزا امام الدين، مرزا قاديانی کا چچا زاد بھائی اور محمدی بيگم کا ماموں تھا۔ مرزا بشير

کی ايک روايت کے مطابق احمد بيگ اس کے تابع تھا اور بالکل اس کے زير اثر ہو کر اس کے اشارے

پر چلتا تھا۔ مرزا قاديانی نے محمدی بيگم سے شادی کے بارے ميں اس سے خط کتابت کی اور اسے

ں انعام دوں گا۔ اس سلسلہ اللچ ديا کہ اگر تم ميرا يہ رشتہ کروا دو گے تو ميں تمھيں دولت کی شکل مي

:ميں مرزا بشير احمد ايم اے لکھتا ہے

بيان کيا مجھ سے مياں عبدهللا سنوری نے کہ ايک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جا کر قريبا ايک ماه ’’

ٹھہرے تھے اور ان دنوں ميں محمدی بيگم کے ايک حقيقی ماموں نے محمدی بيگم کا حضرت صاحب

کوشش کی تھی مگر کامياب نہيں ہوا۔ يہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی سے رشتہ کرا دينے کی

بيگم کا والد مرزا احمد بيگ ہوشيارپوری زنده تھا، اور ابھی محمدی بيگم کا مرزا سلطان محمد سے

رشتہ نہيں ہوا تھا۔ محمدی بيگم کا يہ ماموں جالندھر اور ہوشيارپور کے درميان يکے ميں آيا جايا کرتا

اور وه حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا۔ اور چونکہ محمدی بيگم کے نکاح کا عقده تھا

زياده تر اسی شخص کے ہاتھ ميں تھا، اس ليے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعده بھی کر

‘‘ليا تھا۔

( از مرزا بشير احمد ايم اے 193، 192سيرت المہدی جلد اول صفحہ )

ادت بآواز بلند اعالن کر رہی ہے کہ محمدی بيگم کے ساتھ نکاح کرانے کے ليے مرزا يہ گھر کی شہ

خدا کے ليے غور ! قاديانی، محمدی بيگم کے ماموں کو انعام يا رشوت دينے کے ليے تيار تھا۔ مرزائيو

وت کرو کہ پہلے هللا تعالی کے نام سے محمدی بيگم کے نکاح کی پيشگوئی شائع کرنا، پھر انعام، رش

اور روپے کے اللچ سے نکاح کی کوشش کرنا کسی راستباز انسان کا کام ہوسکتا ہے؟

خانہ بربادی

مرزا قاديانی کو شک تھا کہ ان کی پہلی بيوی کے دونوں بيٹے سلطان احمد اور فضل احمد محمدی بيگم

رہے ہيں۔ سے نکاح کے بارے ميں اپنے والد کی حمايت کرنے کے بجائے دوسرے فريق کا ساتھ دے

ء کو ايک خاص اشتہار کے ذريعے انھيں دھمکی دی کہ اگر محمدی 1891مئی 2لہذا مرزا قاديانی نے

بيگم کا نکاح کسی اور جگہ ہو گيا تو نہ صرف وه ہر قسم کی جائيداد وغيره سے عاق ہوں گے بلکہ ان

:کی والده کو بھی طالق ہو جائے گی۔ مالحظہ فرمائيں

’’ وگا کہ اس عاجز نے ايک دينی خصومت کے پيش آ جانے کی وجہ سے ايک نشان ناظرين کو ياد ہ

کے مطالبہ کے وقت اپنے ايک قريبی مرزا احمد بيگ ولد مرزا گاماں بيگ ہوشيارپوری کی دختر کالں

کی نسبت بحکم و الہام الہی يہ اشتہار ديا تھا کہ خدا تعالی کی طرف سے يہی مقدر اور قرار يافتہ ہے کہ

Page 19: MuhammadiBegum

لڑکی اس عاجز کے نکاح ميں آئے گی۔ خواه پہلے ہی باکره ہونے کی حالت ميں آ جائے اور يا خدا وه

تعالی بيوه کر کے اس کو ميری طرف لے آوے۔ چنانچہ تفصيل ان کل امور مذکوره باال کی اس اشتہار

نائب تحصيلدار الہور ميں درج ہے۔ اب باعث تحرير اشتہار ہذا يہ ہے کہ ميرا بيٹا سلطان احمد نام جو

ميں ہے اور اس کی تائی صاحبہ جنھوں نے اس کو بيٹا بنايا ہوا ہے، وہی اس مخالفت پر آماده ہو گئے

ہيں۔ اور يہ سارا کام اپنے ہاتھ ميں لے کر اس تجويز ميں ہيں کہ عيد کے دن يا اس کے بعد اس لڑکی کا

فانہ کارروائی ہوتی تو ہميں درميان ميں کسی سے نکاح کيا جائے۔ اگر يہ اوروں کی طرف سے مخال

دخل دينے کی کيا ضرورت اور کيا غرض تھی۔ امر ربی تھا اور وہی اس کو اپنے فضل و کرم سے

ظہور ميں التا۔ مگر اس کام کے مدار المہام وه لوگ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی

ط لکھے کہ تو اور تيری والده اس کام سے الگ اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھايا اور بہت تاکيدی خ

ہو جائيں، ورنہ ميں تم سے جدا ہو جاؤں گا اور تمہارا کوئی حق نہيں رہے گا۔ مگر انھوں نے ميرے

خط کا جواب تک نہ ديا اور بکلی مجھ سے بيزاری ظاہر کی۔ اگر ان کی طرف سے ايک تيز تلوار کا

ر صبر کرتا۔ ليکن انھوں نے دينی مخالفت کر کے اور دينی بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا ميں اس پ

مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستايا اور اس حد تک ميرے دل کو توڑ ديا کہ ميں بيان نہيں کر

سکتا اور عمدا چاہا کہ ميں سخت ذليل کيا جاؤں۔ سلطان احمد ان دو بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا۔ اول يہ

کے دين کی مخالفت کرنی چاہی، اور يہ چاہا کہ دين اسالم پر تمام مخالفوں کا �کہ اس نے رسول هللا

حملہ ہو اور يہ اپنی طرف سے اس نے ايک بنياد رکھی ہے اس اميد پر کہ يہ جھوٹے ہو جائيں گے اور

دين کی ہتک ہو گی اور مخالفوں کی فتح۔ اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چالنے ميں کچھ فرق

کيا اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خداوند قدير و غيور اس دين کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی نہيں

حامی۔ وه اپنے بنده کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ اگر سارا جہان مجھے برباد کرنا چاہے تو وه اپنی

احمد نے رحمت کے ہاتھ سے مجھ کو تھام لے گا، کيونکہ ميں اس کا ہوں اور وه ميرا۔ دوم سلطان

مجھے جو ميں اس کا باپ ہوں سخت ناچيز قرار ديا اور ميری مخالفت پر کمر باندھی اور قولی اور

فعلی طور پر اس مخالفت کو کمال تک پہنچايا اور ميرے دينی مخالفوں کو مدد دی اور اسالم کی ہتک

جمع کيا۔ اپنے خدا کا بدل و جان منظور رکھی۔ سو چونکہ اس نے دونوں طور کے گناہوں کو اپنے اندر

تعلق بھی توڑ ديا اور اپنے باپ کا بھی۔ اور ايسا ہی اس کی دونوں والده نے کيا۔ سو جبکہ انھوں نے

کوئی تعلق مجھ سے باقی نہ رکھا، اس ليے ميں نہيں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی

نے ميں معصيت نہ ہو۔ لہذا ميں آج کی تاريخ رہے اور ڈرتا ہوں کہ ايسے دينی دشمنوں سے پيوند رکھ

ء ہے، عوام اور خواص پر بذريعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر يہ لوگ اس اراده 91کہ دوسری مئی

Page 20: MuhammadiBegum

سے باز نہ آئے اور وه تجويز جو اس لڑکی کے ناطہ اور نکاح کرنے کی اپنے ہاتھ سے يہ لوگ کر

س شخص کو انھوں نے نکاح کے ليے تجويز کيا ہے اس کو رہے ہيں اس کو موقوف نہ کر ديا اور ج

رد نہ کيا بلکہ اسی شخص کے ساتھ نکاح ہو گيا تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محروم

االرث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والده پر ميری طرف سے طالق ہے۔ اور اگر اس کا بھائی فضل

والد لڑکی کی بھانجی ہے اپنی اس بيوی کو اسی دن جو اس کو احمد جس کے گھر ميں مرزا احمد بيگ

نکاح کی خبر ہو اور طالق نہ ديوے تو پھر وه بھی عاق اور محروم االرث ہوگا۔ اور آئنده ان سب کا

کوئی حق ميرے پر نہيں رہے گا اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقات خويشی و قرابت و ہمدردی دور ہو

يکی، بدی، رنج راحت شادی اور ماتم ميں ان سے شراکت نہيں رہے گی کيونکہ جائے گی۔ اور کسی ن

انھوں نے آپ تعلق توڑ ديے اور توڑنے پر راضی ہو گئے۔ سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعا حرام

‘‘اور ايمانی غيوری کے برخالف اور ايک ديوثی کا کام ہے۔مومن ديوث نہيں ہوتا۔

طبع جديد از مرزا قاديانی 187، 186ل صفحہ مجموعہ اشتہارات جلد او ) )

:اس ضمن ميں مرزا بشير احمد ايم اے اپنی والده کے حوالہ سے لکھتا ہے

بيان کيا مجھ سے حضرت والده صاحبہ نے کہ جب محمدی بيگم کی شادی دوسری جگہ ہو گئی اور ’’

ف کوشش کرتے رہے قاديان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خال

اور سب نے احمد بيگ والد محمدی بيگم کا ساتھ ديا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری

جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد دونوں کو الگ الگ خط

لق نہيں رہا اور لکھا کہ ان سب لوگوں نے ميری سخت مخالفت کی ہے۔ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تع

ان کے ساتھ اب ہماری قبريں بھی اکٹھی نہيں ہو سکتيں۔ لہذا اب تم اپنا آخری فيصلہ کرو۔ اگر تم نے

ميرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کرنا ہوگا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر

ميں تم کو عاق کرتا ہوں۔ والده صاحبہ نے ميرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہيں ره سکتا۔ ميں اس صورت

فرمايا کہ مرزا سلطان احمد کا جواب آيا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہيں۔ ان سے قطع تعلق

نہيں کر سکتا۔ مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ ميرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے، ان کے ساتھ کوئی

کو جواب ديا کہ اگر يہ درست ہے تو اپنی بيوی بنت تعلق نہيں۔ حضرت صاحب نے مرزا فضل احمد

طالق دے دو۔ مرزا ) جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بيگ کی بھانجی تھی(مرزا علی شير کو

فضل احمد نے فورا طالق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر ديا۔ والده صاحبہ فرماتی ہيں

پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بيوی کی فتنہ پردازی سے کہ پھر فضل احمد باہر سے آ کر ہمارے

‘‘آخر پھر آہستہ آہستہ ادھر جا مال۔

Page 21: MuhammadiBegum

( از مرزا بشير احمد ايم اے 29، 28سيرت المہدی جلد اول صفحہ )

:مرزا بشير احمد ايم اے مزيد لکھتا ہے

’’ ل سے ہی مرزا فضل بيان کيا مجھ سے حضرت والده صاحبہ نے کہ حضرت مسيح موعود کو اوائ

کہا کرتے تھے، بے تعلقی سی تھی جس ’’ پھجے دی ماں‘‘احمد کی والده سے جن کو لوگ عام طور پر

کی وجہ يہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دين سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان

نے ان سے کی طرف ميالن تھا اور وه اسی رنگ ميں رنگين تھيں۔ اس ليے حضرت مسيح موعود

مباشرت ترک کر دی تھی، ہاں آپ اخراجات وغيره باقاعده ديا کرتے تھے۔ والده صاحبہ نے فرمايا کہ

ميری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انھيں کہال بھيجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا، اب

ں رکھوں گا تو ميں ميں نے دوسری شادی کر لی ہے، اس ليے اب اگر دونوں بيويوں ميں برابری نہي

گنہگار ہوں گا۔ اس ليے اب دو باتيں ہيں يا تو تم مجھ سے طالق لے لو اور يا مجھے اپنے حقوق چھوڑ

دو۔ ميں تم کو خرچ ديے جاؤں گا۔ انھوں نے کہال بھيجا کہ اب ميں بڑھاپے ميں کيا طالق لوں گی۔ بس

ه صاحبہ فرماتی ہيں۔ چنانچہ پھر ايسا ہی مجھے خرچ ملتا رہے۔ ميں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔ والد

ہوتا رہا۔ حتی کہ محمدی بيگم کا سوال اٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بيگم کا

نکاح دوسری جگہ کرا ديا اور فضل احمد کی والده نے ان سے قطع تعلق نہ کيا بلکہ ان کے ساتھ رہيں۔

۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا يہ طالق تب حضرت صاحب نے ان کو طالق دے دی

ء کو شائع کيا تھا اور جس کی سرخی 1891مئی 2دينا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے

اشتہار نصرت دين و قطع تعلق از اقارب مخالف دين۔‘‘تھی ‘‘ ( از 34، 33سيرت المہدی جلد اول صفحہ

(مرزا بشير احمد ايم اے

کہا ہے’’ کنجريوں کی اوالد‘‘يانی نے اپنے مخالفوں کو مرزا قاد :

ميری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے ديکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائده ‘‘: ترجمہ

بدکار عورتوں (اٹھاتا ہے اور ميری دعوت کی تصديق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجريوں

يں کی۔کی اوالد نے ميری تصديق نہ) ‘‘

( ، 547صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 548، 547آئينہ کماالت اسالم صفحہ از مرزا 548

(قاديانی

مذکوره باال عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا قاديانی کے بيٹوں مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد

ور حمايت کی۔ قاديانيوں سے نے نہ صرف مرزا قاديانی کی مخالفت کی بلکہ اس کے مخالفين کی بھرپ

سوال ہے کہ کيا مذکوره باال عبارت کی موجودگی ميں مرزا قاديانی کے بيٹوں کا شمار کنجريوں کی

Page 22: MuhammadiBegum

:اوالد ميں ہوتا ہے؟ مرزا قاديانی لکھتا ہے

جس کی ) بيگم(آج خواب ميں ميں نے ديکھا کہ محمدی ‘‘ھ 1309محرم 20ء مطابق 1892اگست 14’’

ہے، باہر کسی تکيہ ميں معہ چند کس کے بيٹھی ہوئی ہے اور سر اس کا شايد منڈا ہوا نسبت پيشگوئی

ہے اور بدن سے ننگی ہے اور نہايت مکروه شکل ہے۔ ميں نے اس کو تين مرتبہ کہا ہے کہ تيرے سر

ارے منڈی ہونے کی يہ تعبير ہے کہ تيرا خاوند مر جائے گا اور ميں نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر ات

ہيں اور پھر خواب ميں، ميں نے يہی تعبير کی ہے اور اسی رات والدۀ محمود نے خواب ميں ديکھا کہ

سے ميرا نکاح ہو گيا ہے اور ايک کاغذ مہر ان کے ہاتھ ميں ہے جس پر ہزار روپيہ مہر ) بيگم(محمدی

تذکره مجموعہ (’’ ہے۔لکھا ہے اور شيرينی منگوائی گئی ہے۔ اور پھر ميرے پاس وه خواب ميں کھڑی

از مرزا قاديانی 160وحی و الہامات طبع چہارم صفحہ )

يہ خواب تو مرزا قاديانی نے سخت ردعمل ميں جان بوجھ کر ديکھا ہے۔

:مرزا قاديانی محمدی بيگم کے خاوند کی موت کی پيش گوئی کرتے ہوئے لکھتا ہے

’’ بت پيشگوئی جو پٹی ضلع الہور کا باشنده ہے مرزا احمد بيگ ہوشيارپوری کے داماد کی موت کی نس

ء ہے، قريبا گياره مہينے باقی ره گئی ہے۔ يہ تمام 1893ستمبر 21جس کی ميعاد آج کی تاريخ سے جو

شہادة (’’ امورجو انسانی طاقتوں سے بالکل باالتر ہيں ايک صادق يا کاذب کی شناخت کے ليے کافی ہيں۔

از مرزا قاديانی 375صفحہ 6زائن جلد مندرجہ روحانی خ 79القرآن صفحہ )

مرزا قاديانی کی تمام تر کوششوں، دھمکيوں، ترغيبات، تحريصات اور جھوٹے الہامات کے باوجود

ء کو بڑی دھوم 1892اپريل 7احمد بيگ نے اپنی بيٹی محمدی بيگم کا نکاح مسمی سلطان محمد سے

رزا قاديانی کے گھر ميں ماتم برپا تھا۔ مرزا قاديانی دھام سے کرديا۔ ادھر شہنائی بج رہی تھی، ادھر م

کے قريبی دوست تو بخوبی جانتے تھے کہ مرزا قاديانی نے خدا کے نام پر جتنی باتيں کہی ہيں، ان کی

کوئی حقيقت نہيں، يہ سب مرزا قاديانی کی اپنی اختراع ہے جو وه خدا کے نام پر پيش کر رہا ہے ليکن

س طرح سمجھايا جائے کہ ان کے نبی کی آسمانی منکوحہ کسی اور کے نکاح ميں نادان قاديانيوں کو ک

’’دی جا چکی ہے اور کے فيصلے پر انسانی فيصلے غالب آ چکے ہيں۔ مرزا قاديانی ميں اتنی ’’ خدا

ہمت نہ تھی کہ وه اپنی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد سے چھين سکے اور نہ اس کے کسی مريد ميں

کہ وه اپنے نبی کی آسمانی بيوی کو کسی غير کی منکوحہ ہونے سے روک سکے۔ مرزا يہ جرأت تھی

قاديانی ذلت و حسرت کی تصوير بنا اپنی آسمانی منکوحہ کی رخصتی پر آنسو بہاتا رہا اور دانت پيستا

رہا اور اس کے مريدوں کے منہ پر اس کی بے بسی اور شرمندگی کی گہری چھاپ صاف دکھائی دے

ی۔رہی تھ

Page 23: MuhammadiBegum

مرزا قاديانی نے اس نازک صورت حال کو ديکھتے ہوئے اعالن کيا کہ اسے خدا نے وحی کی ہے کہ

اس بارے ميں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہيں ہے۔ يہ صحيح ہے کہ خدا نے اس کا نکاح آسمان پر

منکوحہ بنا تمھارے ساتھ ہی پڑھايا ہے۔ وه تمہاری ہی منکوحہ ہے۔ اب اس دنيا ميں اگر کوئی اسے اپنی

چکا ہے تو يہ اس کی عارضی منکوحہ ہوگی۔ يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ خدا اسے مرزا قاديانی کی

منکوحہ بنائے اور کوئی دوسرا اسے لے اڑے۔ سو وقت آئے گا کہ اس آسمانی منکوحہ کا عارضی

ئی کے ساتھ شوہر مرے گا اور خدا پھر اسے تمھارے پاس ہی لے آئے گا۔ مرزا قاديانی نے پوری ڈھٹا

يہ اعالن کيا اور اشتہاروں پر اشتہار لکھے تاکہ اس کی جماعت سے نکلنے والے قاديانی واپس آ جائيں

:اور اسے اپنی آمدنی سے حصہ ديتے رہيں۔ مرزا قاديانی نے خدا کے نام سے يہ اعالن کيا

’’ ہے جو کسی طرح ٹل نفس پيشگوئی يعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح ميں آنا يہ تقدير مبرم

۔ يعنی ميری يہ نہيں سکتی کيونکہ اس کے ليے الہام الہی ميں يہ فقره موجود ہے کہ التبديل لکلمات هللا

بات ہرگز نہيں ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالی کا کالم باطل ہوتا ہے۔۔۔ اس نے فرمايا کہ ميں اس

تجھے دوں گا اور ميری تقدير کبھی نہيں بدلے گی عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس الؤں گا اور

اور ميرے آگے کوئی بات انہونی نہيں اور ميں سب روکوں کو اٹھا دوں گا جو اس حکم کے نفاذ سے

‘‘مانع ہوں۔

( طبع جديد از مرزا قاديانی 399مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ )

ا قاديانی نے اس عبارت ميں کی ہے؟ اس سے بڑھ کر بھی کوئی صاف گوئی ہو گی جو مرز! ناظرين

فرمائے؟ ’’ التبديل‘‘بات بھی صحيح ہے کہ خدا جس امر کی بابت خبر دے، پھر اس کی تاکيد کے ليے

پھر وه تبديل ہو جائے تو خدائی کالم کے جھوٹ ہونے ميں کچھ شک رہتا ہے؟ اب سوال يہ ہے کيا يہ

ڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ نفی ميں ديا جاتا ہے اس کا جواب ب! نکاح مرزا قاديانی سے ہو گيا؟ آه

ء کے دن بے چاره اس حسرت کو 1908مئی 26کہ تاحيات مرزا قاديانی کا نکاح نہيں ہوا۔ يہاں تک کہ

اپنے ساتھ قبر ميں لے گيا۔

اب مرزا قاديانی نے محمدی بيگم اور اس کے خاندان کے ليے بددعائيں کرنا شروع کر ديں۔ اس نے خدا

نام پر کہاکے :

( تيرے (ميں نے بڑی عاجزی سے خدا سے دعا کی تو اس نے مجھے الہام کيا کہ ميں ان ) ترجمہ

کا نام ) محمدی بيگم(لوگوں کو ان ميں سے ايک نشانی دکھاؤں گا۔ خدا تعالی نے ايک لڑکی ) خاندان کے

سے تين سال تک فوت ہو لے کر فرمايا کہ وه بيوه کی جاوے گی اور اس کا خاوند اور باپ يوم نکاح

‘‘جائيں گے اور پھر ہم اس لڑکی کو تيری طرف الئيں گے اور کوئی اس کو روک نہ سکے گا۔

Page 24: MuhammadiBegum

( ، مندرجہ روحانی خزائن 1سرورق آخر نمبر’’ کرامات الصادقين‘‘مرزا قاديانی کا الہام، مندرجہ تاليف

162صفحہ 7جلد )

کھتے ہيںجناب حافظ محمد اقبال رنگونی اپنی کتاب ميں ل :

مرزا قاديانی کی مذکوره تصريحات اور پھر اس کی تشريحات سے يہ بات واضح ہے کہ محترمہ ’’

محمدی بيگم کی شادی ہو جانے کے باوجود مرزا قاديانی نے اس خاتون کی آبرو کا کوئی خيال نہيں کيا

ا۔ آپ ہی بتائيں کہ اور سالہا سال تک ايک غير محرم خاتون کی عزت کو اچھالنے کا مشغلہ جاری رکھ

کيا مرزا قاديانی کو اس کی اجازت تھی کہ وه کسی دوسرے کی منکوحہ کے بارے ميں بار بار يہ

اشتہار شائع کرے کہ وه ميری بيوی بنے گی، ميرے گھر آئے گی، اس کا شوہر مرے گا، وه ميری ہی

س قسم کی باتيں کرنے منکوحہ ہے، کچھ ہی ہو جائے، اسے ميرے ہی پاس آنا ہے۔ ہر شريف آدمی ا

والے شخص کو بڑا بے شرم آدمی کہتا ہے مگر افسوس کہ قاديانيوں نے اسے خدا کے نبی کا درجہ

!دے رکھا ہے۔ چہ نسبت ناپاک رابعالم پاک

مرزا قاديانی کو اس بات کا تو حق تھا کہ وه محمدی بيگم کے شوہر کے انتقال کر جانے کے بعد پھر

تا اور وه بھی عدت گزرنے کے بعد اور پھر اسے اللچ اور دھمکيوں کے سے اپنے رشتہ کی بات چال

ذريعے اپنی منکوحہ بناتا مگر اسے يہ حق ہرگز نہ تھا کہ وه ايک شخص کی منکوحہ کے بارے ميں

مسلسل يہ دعوی کرے کہ يہ اسی کی بيوی ہے، اور اس کا شوہر مر جائے گا، يہ واپس ميرے پاس آ

گفتگو اور اشتہارات اس بات کے شاہد ہيں کہ مرزا قاديانی کو شريف آدمی کہنا بھی جائے گی۔ يہ انداز

شرافت کے خالف ہے۔ ہاں يہ بات اور ہے کہ قاديانيوں کے ہاں شرافت کا معيار مرزا قاديانی کا گھناؤنا

کردار ہے، اور ايسے ہی لوگ ان کے ہاں سب سے بڑے شريف سمجھے جاتے ہيں۔ اسالم ميں تو خاوند

کے فوت ہونے کے بعد بھی عدت گزرنے سے پہلے بيوه کو نکاح کا پيغام نہيں ديا جا سکتا چہ جائيکہ

خاوند زنده ہو، مرا بھی نہ ہو اور يہاں اس کے نکاح ثانی کے پيغام ديے جا رہے ہوں۔

ں بيگم ان دنوں محمد بخش جعفر زٹلی نے اپنے رسالہ ميں يہ اعالن شائع کيا کہ وه عنقريب نصرت جہا

سے بياه رچانے واال ہے۔ اس کا مطلب يہ تھا کہ مرزا قاديانی کی موت کے بعد ) مرزا قاديانی کی بيوی(

نصرت جہاں ميرے نکاح ميں آئے گی۔ پھر اس نے اپنے اعالن کی تائيد ميں چند خواب بھی سنائے اور

کے سرخ ہو گيا اور اس نے بشارتيں بھی نقل کيں۔ مرزا قاديانی نے جب يہ اعالن پڑھا تو مارے غصہ

:لکھا

ميری بيوی کی نسبت شيخ محمد حسين کے دوست جعفر زٹلی نے محض شرارت سے گندی خوابيں ’’

بنا کر سراسر بے حيائی کی راه سے شائع کيں اور ميری دشمنی سے اس ميں وه لحاظ و ادب بھی نہ

Page 25: MuhammadiBegum

ولوی کہالنا اور يہ بے حيائی کی رہا جو اہل بيت رسول کی پاک دامن خواتين سے رکھنا چاہيے۔ م

) !!حرکات افسوس ہزار افسوس 199صفحہ 17حاشيہ جلد 56تحفہ گولڑويہ صفحہ )

اگر جعفر زٹلی اس ليے بے حيا ہے کہ وه مرزا قاديانی کی بيوی کے بارے ميں خواب سناتا ہے اور

ده بے حيا ہے کہ وه کسی وقت اس کے نکاح ميں آنے کی خبر ديتا ہے تو مرزا قاديانی اس سے زيا

مدعی نبوت ہو کر سلطان محمد کی بيوی محترمہ محمدی بيگم کے بارے ميں الہامات سناتا ہے اور

کسی دوسرے کی بيوی کو اپنے نکاح ميں النے کے بارے ميں اشتہار شائع کرتا ہے۔ اگر جعفر زٹلی

فرين ٹھہرے۔ ہے کوئی قاديانی اس وجہ سے الئق نفرت ہيں تو مرزا قاديانی اس سے بدرجہ اولی الئق ن

جو انصاف کا دامن تھامے اور مرزا قاديانی کو برسرعام بے حيا مانے؟ مرزا قاديانی نے جب خدا کے

نام سے احمد بيگ کو اپنی لڑکی کا رشتہ دينے کے ليے کہا تو اسے يقين تھا کہ احمد بيگ اپنی

نے غيرت کا مظاہره کيا۔ مرزا قاديانی مجبوری کے پيش نظر اس کی بات مان لے گا ليکن احمد بيگ

نے ديگر ذرائع سے اللچ اور دھمکياں ديں۔ وه بھی بے اثر ثابت ہوئيں اب جبکہ لڑکی کا نکاح کسی اور

جگہ ہو چکا اور وه لڑکی کسی کی بيوی بن چکی، پھر بھی بار بار يہ بات دہرانا کہ اس کا شوہر مر

ہے۔ مرزا قاديانی کے خيال ميں محمدی بيگم کس طرح بيوه جائے گا، ہميں کسی اور بات کی خبر ديتا

ہو سکتی تھی، اس وقت ہم اس پر بحث نہيں کر رہے، ہم صرف مرزا قاديانی کی غير شريفانہ ذہنيت کی

نشاندہی کر رہے ہيں تاکہ قاديانی عوام اس سے عبرت حاصل کريں اور وه جان پائيں کہ مرزا قاديانی

گر چکا تھا۔بداخالقی کی کس سطح تک

مرزا قاديانی نے محمدی بيگم کے ساتھ نکاح کو نہ صرف خدائی پيغام بتايا بلکہ اسے اپنے صدق و

کذب کا اہم عنوان بھی بنا ديا۔ اپنے اس عنوان صدق کی الج رکھنے اور اپنے عوام کو بے وقوف بنانے

ختيار تک سے اجتناب نہ کيا۔ کے ليے کہ يہ خدائی معاملہ ہے، مرزا قاديانی نے اوچھی حرکتوں کے ا

ايک ظالم اور اللچی شخص کوئی چيز حاصل کرنے کے ليے جتنا کچھ کر سکتا ہے، مرزا قاديانی نے

وه سب راه عمل اپنائے تاکہ وه کسی طرح يہ کہنے ميں کامياب ہو جائے کہ يہ خدائی معاملہ ہے اور وه

جو اہميت دی ہے، اسے مرزا قاديانی کے بيٹے اپنے دعوی ميں سچا ہے۔ مرزا قاديانی نے اس رشتہ کو

:مرزا بشير احمد نے اس طرح بيان کيا ہے

’’ جن کا تعلق محمدی بيگم سے ہے(هللا تعالی کی طرف سے وه الہامات ’’ پيشگوئی کا بنيادی پتھر ہيں۔ (

195سيرت المہدی جلد اول صفحہ ( )

س کی بنياديں کس طرح ہلتی ہيں اور مرزا قاديانی آئيے ديکھيں کہ يہ بنيادی پتھر کس طرح ٹوٹتا ہے۔ ا

کس طرح اپنی بات ميں جھوٹا نظر آتا ہے۔ مرزا قاديانی نے اپنے صدق و کذب کا معيار محمدی بيگم

Page 26: MuhammadiBegum

کے ساتھ نکاح کو ٹھہرايا اور کھلے طور پر اعالن کيا کہ اگر يہ پيش گوئی پوری ہو جائے تو وه اپنے

اور اگر محمدی بيگم اس کے نکاح ميں نہ آئے تو وه جھوٹا ہے اور اس دعوی نبوت ميں سچا ثابت ہوگا

‘‘کے گلے اور پاؤں ميں رسی ڈال کر اسے ذليل کيا جائے۔

(اہم پيش گوئياں اور ان کا جائزه از حافظ محمد اقبال رنگونی)

حمد ء ميں محمدی بيگم سے اپنے نکاح کی پيش گوئی کی تھی جبکہ ا1888مرزا قاديانی نے فروری

اپريل 7بيگ نے اپنی بيٹی محمدی بيگم کا نکاح سلطان محمد سے 1892 آئينہ کماالت (ء کو کر ديا۔

اکتوبر 6اس حساب سے ) از مرزا قاديانی 280صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 280اسالم صفحہ

ء ميں فوت 1948ء کا دن مرزا سلطان محمد کی زندگی کا آخری روز ہوتا مگر وه زنده رہا اور 1894

ہوا۔ حاالنکہ اس عرصہ ميں وه فرانس کی جنگ عظيم ميں شريک ہوا جس ميں اس کے سر ميں گولی

بھی لگی مگر وه زنده رہا۔ اس طرح مرزا قاديانی اپنی اس پيش گوئی ميں دوسری پيش گوئيوں کی طرح

اقت کا نشان ٹھہرايا جھوٹا نکال۔ محمدی بيگم سے نکاح کی پيش گوئی جسے مرزا قاديانی نے اپنی صد

تھا، مرزا قاديانی کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھال نشان ثابت ہوا۔ اس پيش گوئی کے معاملے ميں

ايک اور حربہ جو مرزا قاديانی نے استعمال کيا، وه يہ تھا کہ وه ايک ايسے جھگڑے کو جس کا تعلق

ا اہم دينی معاملہ ہے اور اصل مقابلہ ذاتی خواہشات سے تھا، ايسے رنگ ميں پيش کيا جيسے يہ ايک بڑ

مرزا قاديانی اور احمد بيگ ميں نہيں بلکہ اسالم اور عيسائيت کے درميان ہے۔ مرزا قاديانی اور اس کے

پيروکار اس پيش گوئی کے پورا نہ ہونے پر بے حد ذليل و رسوا ہوئے، اور پريشانی کے عالم ميں اس

وئی کے بارے ميں مرزا قاديانی کا ايک بھی دعوی سچا کی مختلف تاديالت کرتے رہے۔ اس پيش گ

ثابت نہ ہوا۔ مرزا سلطان محمد جس کو پيش گوئی کے مطابق اڑھائی سال کے اندر اندر مرنا تھا، وه

ء ميں فوت ہوا اور محمدی بيگم جو مرزا قاديانی کے 1948سال تک زنده رہا اور 56نکاح کے بعد

ء کو بحالت اسالم الہور ميں فوت ہوئيں۔ ان کی مرقد الہور کے 1966ر نومب 19کذب کا کھال نشان تھی،

معروف اور تاريخی قبرستان ميانی صاحب ميں ہے۔ مرزا قاديانی کو خوش گمانی تھی کہ محمدی بيگم

26بيوه ہو کر ان کے نکاح ميں آجائے گی مگر اس کی يہ حسرت بھی پوری نہ ہو سکی۔ مرزا قاديانی

يضہ کے مرض سے آنجہانی ہوا جبکہ محمدی بيگم مرزا قاديانی کے مرنے کے ء کو ہ1908مئی

چاليس سال بعد تک سلطان محمد کے نکاح ميں رہی۔ اس پيش گوئی کے بارے ميں مرزا قاديانی نے کہا

تھا کہ هللا تعالی نے بذريعہ وحی مجھے يہ خبر دی کہ اگر محمدی بيگم کا نکاح ميرے ساتھ نہ ہوا تو

ميں تفرقہ اور مصيبتيں آئيں گی جبکہ محمدی بيگم کا نکاح سلطان محمد سے ہوا۔ اب ديکھتے اس گھر

ہيں کہ تفرقہ اور مصيبتيں کس گھر ميں آئيں؟

Page 27: MuhammadiBegum

مرزا قاديانی کے بيٹے مرزا فضل احمد کا گھر برباد ہوا۔ يہاں تفرقہ پڑا۔ اس نے اپنے باپ کے کہنے 1-

پر مجبورا اپنی بيوی کو طالق دی۔

مرزا قاديانی نے اپنے بيٹے سلطان احمد کو محروم االرث کيا اور اسے عاق کيا۔ 2-

مرزا قاديانی نے فضل احمد اور سلطان احمد کی والده کو طالق دی حاالنکہ وه پہلے سے ہی بے 3-

گھر بيٹھی ہوئی تھی اور جس کے کوئی حقوق پورے نہ ہو رہے تھے۔ يہ وہی خاتون ہے جسے مرزا

کہہ کر طنز کے تير چالتا ہے اور اس طرح اپنی سوتيلی والده کی ’’ پھجے دی ماں‘‘يم اے بشير احمد ا

توہين کرتا ہے۔

فضل احمد کی وفاداری مرزا قاديانی کی نگاه ميں مشکوک رہی۔ انھيں ہميشہ يہ شک رہا کہ فضل 4-

ا قاديانی نے فضل احمد کا تعلق مرزا احمد بيگ کے خاندان سے قائم ہے۔ اس ناراضی کی بنا پر مرز

احمد کو مرنے کے بعد بھی معاف نہ کيا بلکہ اس کی نماز جنازه ميں بھی شريک نہ ہوا۔

قاديانی کہتے ہيں کہ محمدی بيگم کے خاوند سلطان محمد نے توبہ کر لی تھی۔ ہم انھيں مرزا قاديانی ہی

مثال اگر کافر ہے تو ‘‘: ا ہےکے الفاظ ميں دکھاتے ہيں کہ توبہ کسے کہتے ہيں؟ مرزا قاديانی کا کہن

’’ سچا مسلمان ہو جائے اور اگر ايک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے۔

از مرزا قاديانی 401ء، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 1894ستمبر 6اشتہار ( )

پنے خسر کی موت سے اس کی رو سے سلطان محمد کی توبہ يہ تھی کہ وه نکاح کرنے کے بعد اور ا

متاثر ہو کر محمدی بيگم کو طالق دے ديتا ليکن ايسا نہيں ہوا، کيونکہ نکاح سے پہلے نہ ڈرنا تو مرزا

7قاديانی کی تحرير مذکوره باال سے بھی ثابت ہے اور نکاح سے بعد نہ ڈرنا محتاج دليل نہيں۔ يوم نکاح

رت پر قابض و متصرف رہا اور خدا نے اسے سال وه اس عو 60ء تک تقريبا 1948ء سے 1892اپريل

اسی محمدی بيگم کے بطن سے مرزا قاديانی کی تحرير کے خالف ايک درجن کے قريب اوالد بھی

بخشی۔ حاالنکہ مرزا قاديانی نے لکھا تھا کہ اس سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے ليے

ال۔بابرکت نہ ہوگا۔ پس پيش گوئی کا يہ جزو بھی جھوٹا نک

محمدی بيگم کا خاوند ايک مرفہ الحال رئيس تھا۔ معقول پنشن ليتا تھا۔ اسے مرزا قاديانی کے خداوندان

نعمت سے، باوجود ان کے رقيب ہونے کے، مربعے بھی عطا ہوئے۔ بعض فرزند بھی معقول روزگار

قاديانی کے پر تھے۔ غرض يہ نکاح اس کے ليے بہت بابرکت ہوا ہے اور مرزا سلطان محمد، مرزا

کو غلط ثابت کر رہا تھا۔ ليکن قاديانی نہايت بھولے بن کر يا دنيا بھر کے لوگوں کی ’’ بستر عيش‘‘الہام

آنکھوں ميں دھول جھونک کر اور ان کو بے عقل جان کر يہی ہانکے جا رہے ہيں کہ مرزا سلطان

ر اس کی توبہ کيا چاہيے تھی؟ کيا اس اس کا گناه کيا تھا او! محمد تائب ہو گيا۔ اس ليے وه بچ گيا۔ جناب

Page 28: MuhammadiBegum

کی خواہش و ’’ بستر عيش‘‘نے اس گناه سے توبہ کی؟ اس کا قصور يہی تھا کہ وه مرزا قاديانی کے

’’ بستر عيش‘‘تمنا کے پورا ہونے ميں حائل تھا۔ اگر مرزا قاديانی کی غايت تمنا نکاح نہ تھی تو الہام

ل قوع بتايا جائے کہ کيا ہے؟کے کيا معنی اور اس کا شان نزول اور مح

ء سے محمدی بيگم کی چاہت پيدا ہوئی اور اس نے اس قدر تکليف و محنت، رنج 1888مرزا قاديانی کو

برس تک چلتا رہا۔ انتھک کوششيں اور التعداد الہامات، 19و غم اور صدمے اٹھائے جن کا سلسلہ

يات، ترغيبات، تحريصات، نوازشات، روانہ پيشگوئياں، اشتہارات، خطوط، قاصد، ناصح، دھمکياں، عنا

کرنے ميں پيہم سعی کی اور چونکہ دل ميں تسلی تھی اور اوائل ميں يہ وہم و خيال بھی کبھی نہ گزرا

تھا کہ يوں ناکامی ہوگی۔ اس ليے وه قوت مردمی کے ليے بيش قيمت مرکبات بھی نوش کرتا رہا جس

جس کے ارمان ميں ! سے بھی بڑھ گئی۔ مگر افسوس کے نتيجہ ميں اس کی طاقت پورے پچاس مردوں

مرا تھا، وه محبوب ہاتھ نہ آيا اور قسمت ميں بات تک کرنا بھی نصيب نہ ہوأ۔ دل کی امنگ کہ ظالم موت

نے آدبوچا اور آنکھيں ديدار کو ترستی ہوئی کھلی کی کھلی ره گئيں اور وه راہی ملک عدم ہوا۔

ليے آنکھيں کھلی ہوئی ہيں پس مرگ اس

جانے کوئی کہ طالب ديدار مر گيا

مرزا قاديانی کے ديرينہ ساتھی اور الہوری قاديانی جماعت کا امير مولوی محمد علی الہوری اس

:پيشگوئی کی نسبت جو رائے رکھتا ہے، وه قابل ديد و شنيد ہے۔ وه لکھتا ہے

’’ ہے کہ نہيں ہوا۔يہ سچ ہے کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ نکاح ہوگا اور يہ بھی سچ ‘‘

( 3کالم 5صفحہ 1912جنوری 21اخبار پيغام صلح الہور )

کوئی بھی بات مسيحا تيری پوری نہ ہوئی

نامرادی ميں ہوا تيرا آنا جانا

Page 29: MuhammadiBegum

قاديانيوں سے ايک سوال؟؟؟ہے۔ آنجہانی مرزا قاديانی کا کہنا تھا کہ محمدی بيگم سے اس کا نکاح هللا تعالی نے آسمان پر کرديا

قاديانيوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اگر مرزا قاديانی کا نکاح محمدی بيگم سے ہوا ہے تو اس طرح

تمام قاديانيوں کی ماں ہے۔ کيونکہ نبی کی بيوی اس کے امتيوں کے ليے ماں ’’ آسمانی منکوحہ‘‘اس کی

گم کو ايک محمدی بي’’ ماں‘‘کا درجہ رکھتی ہے۔ يہ عجيب بات ہے کہ تمام قاديانيوں کی غير ’’

سلطان احمد بياه کر لے گيا۔ کسی قاديانی ميں اتنی غيرت و ہمت پيدا نہ ہوئی کہ اسے روک ’’ احمدی

سکتا۔ انگريزوں کی بھرپور سرپرستی ہونے کے باوجود کسی عدالت ميں کيس دائر کيا گيا نہ کسی

ہے اور دوباره نکاح نہيں پوليس اسٹيشن ميں رپٹ درج کروائی گئی کہ محمدی بيگم کا نکاح ہوچکا

ہوسکتا۔ اس سوال پر قاديانی بڑی ڈھٹائی سے يہ جواب ديتے ہيں کہ مرزا قاديانی کے ساتھ محمدی بيگم

کی رخصتی قيامت کے روز ہوگی۔ يعنی اتنی لمبی تاريخ دو کہ کوئی مسلمان اس موضوع پر مزيد بحث

تی قيامت کے دن ہوگی تو سوال پيدا ہوتا ہے نہ کرے۔ اگر مرزا قاديانی کے ساتھ محمدی بيگم کی رخص

مرزا قاديانی کو نبی نہ ماننے (کہ قاديانی عقيده کے مطابق مرزا قاديانی جنت ميں ہوگا اور محمدی بيگم

جہنم ميں ہوگی۔ قاديانی بتائيں کيا مرزا قاديانی کی بارات جنت سے جہنم ميں جائے گی؟ ) کے نتيجہ ميں

الد احمد بيگ نے يہ مطالبہ کرديا کہ رخصتی تب ہوگی اگر مرزا قاديانی اور اگر محمدی بيگم کے و

بننے پر راضی ہو۔۔۔۔۔۔ تو پھر کيا ہوگا؟’’ گھر جوائی‘‘