229
The Teaching of The Teaching of Hazarat Muhammad Hazarat Muhammad By The Late Allama Immad-ud-Din Lahiz مدیّ ح مِ م ی ل ع ت مدیّ ح مِ م ی ل ع ت ہ ف ن ص م ز ہ لا ن ی الد ماد ع وی ل و م لامہ ع وم ح ز م ز ہ لا ن ی الد ماد ع وی ل و م لامہ ع وم ح ز م ے ن ے ن ی3 ٹ5 ئ وسا س ج ل و ن ن ی> چ س ر ک اور ھا لک ے5 لئ ے ک دہ عام5 ائ ف1880 ا وائ> پ ھ> چ ے ن ز س ت ز م س ا تر> پ ان ت س دو ت ہ ل ت ک ن و میwww.muhammadanism.org ( Urdu )

The Teaching of Muhammadmuhammadanism.org/Urdu/book/imad_lahiz/documents/... · Web viewفصل گناہ کی تعریف ۳۹ ۶۔ فصل گناہ کا سرچشمہ کہاں ہے ۴۰

  • Upload
    vodan

  • View
    270

  • Download
    10

Embed Size (px)

Citation preview

The Teaching ofThe Teaching of

Hazarat MuhammadHazarat MuhammadBy

The Late Allama Immad-ud-Din Lahiz

ح�مدی م� م ح�مدیتعلی م� م تعلیمصنفہ

مرحوم علامہ مولوی عماد الدین لاہز مرحوم علامہ مولوی عماد الدین لاہز فائدہ عام کےلئے لکھا اور کرسچین نولج سوسائٹی نے نے

1880میں وکیل ہندوستان پریس امرتسر نے چھپوایا

www.muhammadanism.org(Urdu)

م� م�مدی م� م�مدیفہرست مضامین تعلی فہرست مضامین تعلیصف�ہمضمون۱دیباچہ

۲مقدمہ تعلی� کے اقسام وتعریفات کے بیان میں

پہلا بابپہلا بابعقائد اسلامیہ کے بیان میںعقائد اسلامیہ کے بیان میں

حول فصل ایمان کے بیان میں ۱۲اتتب سابقہ کےذکر میں ۲۰دوسری فصل انبیاء ک

آان کے بیان میں ۳ ۲۷۔ فصل قر۳۲۔ فصل تقدیر کے بیان میں ۴۳۹۔ فصل گناہ کی تعریف ۵۴۰۔ فصل گناہ کا سرچشمہ کہاں ہے۶۴۰۔ فصل گناہ کے اقسام ۷آایا خدا کو گناہ سے نفر ت ہے یا نہیں ۸ ۴۱۔ فصل ۴۳۔ فصل خیالی گناہ کے بیان میں ۹

تاس کی سزا ۱۰ ۴۷۔فصل فعلی گناہ اور ۵۳۔ فصل وتبدیل دل کے عقیدہ میں ۱۱۵۸۔ فصل قیامت کے بیان میں ۱۲۵۸۔ فصل قیامت کے بیان میں ۱۳۵۹۔ فصل علامات قیامت کےبیان میں ۱۳یی کے نزول کے بیان میں ۱۴ ۶۳۔ فصل حضرت عیس۶۷۔ فصل مسیح کی عدم صلیب وعدم الوہیت کے بیان میں۱۵

دوسرا بابدوسرا باب

عبادات اسلامیہ کے بیان میںعبادات اسلامیہ کے بیان میںحول طہارت کے بیان میں ۷۱فصل ا

۷۳۔ فصل غسل کے بیان میں ۲۷۴۔ فصل حیض کے بیان میں ۳۷۶۔ فصل وضو کے بیان میں ۴تخف کے بیان میں ۵ ۷۹۔ فصل تیم� ومسح ۸۱۔ فصل مسواک کے بیان میں ۶۸۳۔ فصل ایام متبرکہ کے بیان میں ۷۸۷۔ فصل عیدوں کے بیان میں ۸۹۶۔ فصل نمازوں کے بیان میں ۹

۱۱۰۔فصل مکروہ وقت نماز کے ۱۰۱۱۳۔ فصل نماز کے کپڑوں کا ذکر ۱۱۱۱۵۔ فصل نماز کے مکانوں کا ذکر ۱۲۱۱۹۔ فصل جماعت کی نماز کا بیان ۱۳۱۲۱۔ فصل اذان کا بیان ۱۴۱۲۴۔ فصل دعاؤں کا بیان میں ۱۵۱۳۲۔ فصل روزوں کے بیان میں ۱۶۱۳۷۔ فصل اعتکاف کا بیان ۱۷آان خوانی کے بیان میں ۱۸ ۱۳۹۔فصل قر۱۴۱۔ فصل حج کےبیان میں ۱۹۱۴۳کے بیان میں ة۔ فصل زکوا۲۰۱۴۶۔فصل صدقہ فطر کے بیان میں ۲۱

تیسرا بابتیسرا بابمعاملات م�مدیہ کے بیان میںمعاملات م�مدیہ کے بیان میں

حول کمائی اورکسب حلال کے بیان میں ۱۴۸فصل ا۱۵۰۔ فصل سود کے بیان میں ۲۱۵۲۔ فصل بعض چیزوں کی بیع ناجائز ہے ۳۱۵۳۔ فصل احتکار کے ذکر میں ۴۱۵۳۔ فصل نکاح کے بیان میں ۵۱۵۵۔ فصل نکاح موقت کے بیان میں ۶۱۵۸۔ فصل نکاح غیر موقت کے بیان میں ۷۱۵۹۔ فصل حرام عورتوں کے بیان میں ۸۱۶۵۔ فصل مہر کے بیان میں ۹

۱۶۶۔ فصل سب اقسام کی ضیافتوں کے بیان میں ۱۰۱۶۸۔ فصل عورتوں کی باری مقرر کرنا ۱۱۱۶۸۔ فصل عورتوں سے خوش مزاجی کرنا ۱۲۱۷۵۔ فصل طلاق کے بیان میں ۱۳۱۷۷۔ فصل خلع کے بیان میں ۱۴۱۷۸۔ فصل طلاق مغلظ ومخففہ کے بیان میں ۱۵۱۷۸۔ فصل لعان کے بیان میں ۱۶۱۷۹۱۷۹۔ فصل عدت کے بیان میں ۱۷۱۸۰۔ فصل عتق کے بیان میں ۱۸۱۸۱۔فصل قس� کے بیان میں ۱۹۱۸۲۔ فصل عورتوں کی عقل اور دین کے بیان میں ۲۰۱۸۴۔ فصل تعلی� دین کے مقدار میں ۲۱۱۸۷۔ فصل منتر پڑھنے کابیان ۲۲۱۸۸۔ فصل نظر بد کا علاج ۲۳۱۸۹۔ فصل بچھو کے کاٹے کا علاج۲۴۱۹۰۔ فصل نیک فال اوربدشگون کا ذکر ۲۵۱۹۲۔ فصل خواب کے بیان میں ۲۶

۱۹۵۔ فصل ملاقات کا دستور ۲۷۲۰۰۔ فصل تعظی� وتواضح کا ذکر ۲۸۲۰۱۔ فصل بیٹھنے اور چلنے وسونے کا ذکر ۲۹۲۰۲۔ فصل نام رکھنے کا دستور ۳۰۲۰۶۔ فصل چہینک وچبائی کےبیان میں ۳۱۲۰۷۔ فصل ہنسی ٹھٹھے کے بیان میں ۳۲۲۰۹۔ فصل خوش بیانی و شعر خوانی کے بیان میں ۳۳۲۱۱۔ فصل راگ اورباجے کے بیان میں ۳۴۲۱۳۔ فصل فخر نسبی کے بیان میں ۳۵۲۱۵۔ فصل والدین واقارب سے سلوک کے بیان میں ۳۶۲۱۷۔ فصل کے ساتہہ معاملہ کے بیان میں ۳۷۲۲۴۔ فصل بیماری کے ذکر میں ۳۸۲۲۵۔ فصل دوا کے ذکر میں ۳۹۲۲۸۔ فصل تلقین کے ذکر میں ۴۰۲۲۹۔ فصل تکفین وتجہیز کے بیان میں ۴۱۲۳۰۔ فصل مشی ونماز وتدفین کے ذکر میں ۴۲۲۳۴۔ فصل دفن کا دستور ۴۳۲۳۳۔ فصل قبر ستان کے بیان میں ۴۴۲۳۵۔ فصل قبر کے اندر کا احوال۴۵۲۳۸۔ فصل انبیاء واولیا کے جس� کی بابت ۴۶۲۴۱۔ فصل مرنے کا اچھا وقت ۴۷۲۴۲۔ فصل قبروں کی زیارت کے بیان میں ۴۸۲۴۴۔ فصل روح کہاں جاتی ہے ۴۹۲۴۷۔ فصل بچوں کی موت سے والدہ کو اجر ملنا ۵۰۲۴۸۔ فصل مردوں پر رونے کے بیان میں ۵۱

چوتھا بابچوتھا بابقصائیص م�مدیہ کے بیان میںقصائیص م�مدیہ کے بیان میں

آادم وحوا کا ۱ ۲۵۱۔ قصہ ۲۵۶۔ جنون اور شیطان کا ۲۲۵۷۔ میثاق کا قصہ ۳۲۵۹۔ شیش کا قصہ ۴۲۶۰۔ ادریس کا قصہ ۵۲۶۰۔ ہاروت وماروت کا قصہ ۶۲۶۲۔ نوح کا قصہ ۷۲۶۵۔ عوج بن عنق کا قصہ ۸۲۶۶۔ ہود کا قصہ ۹

۲۶۷۔ شدید وشداد کا قصہ ۱۰۲۶۸۔ صالح پیغمبر کا قصہ ۱۱۲۷۰۔ ابراہی� کا قصہ ۱۲ترج بابل کا قصہ ۱۳ ۲۷۵۔ ب۲۷۷۔اسماعیل کا قصہ ۱۴۲۷۸۔ ابراہی� کے بیٹے کی قربانی کا قصہ ۱۵۲۸۳۔ لوط کا قصہ ۱۶۲۸۵۔ اص�اق کا قصہ ۱۷۲۸۶۔ یعقوب ویوسف کا قصہ ۱۸۲۸۹۔ زلیخا کا احوال۱۹۲۹۳۔ یوسف کا عزیز مصر ہونا ۲۰۲۹۴۔ بھائیوں کی ملاقات کا قصہ ۲۱۲۹۷۔ یوسف کی باپ سے ملاقات کرنا ۲۲۲۹۸۔ ایوب کا قصہ ۲۳

۳۰۱۔ شعیب کا قصہ ۲۴یی کا قصہ ۲۵ ۳۰۴۔ موس۳۰۵۔ قتل قبطی کا قصہ ۲۶آانا ۲۷ یی کا مصر میں پھر ۳۰۷۔ موسیی کا طور پر جاکر کتاب لانا ۲۸ ۳۰۹۔ موس۳۱۱۔ سامری کا قصہ ۲۹۳۱۳۔ قارون ملعون کا قصہ ۳۰۳۱۴۔ گاؤ کا قصہ ۳۱۳۱۵۔ خضرکا قصہ ۳۲۳۱۸۔ بلع� بن باعور کا قصہ ۳۳یی کی موت ۳۴ ۳۱۹۔ بیابان کا ذکر اور موس۳۲۲۔ الیاس کا قصہ ۳۵۳۲۹۔ یونس کا قصہ ۳۶۳۳۱۔ طالوت وجالوت کا قصہ ۳۷۳۳۴۔ داؤد کا احوال۳۸۳۳۶۔ سلیمان کا قصہ ۳۹یی کا قصہ ۴۰ ۳۴۱۔ ذکریا وی�ی�۳۴۳۔ مری� ومسیح کے تولد کا احوال۴۱آاسمان پر جانا ۴۲ یی کا ۳۴۸۔ عیس۳۵۰۔ نتیجہ ان سارے بیانوں کا ۴۳

تمام شد

تعلی� م�مدیدیباچہ

یی کی حم�دو ثن�اء اورش�کر کے بع�د ن�اظرین کت�اب ہ��ذا کی خ�دمت میں بن�دہ خدا تع�الآادمی اپنے افعا ل واقوال تبرا بھلا کمترین عماد الدین لاہز عرض پرداز ہے۔ کہ دنیا میں ہر آادمی کے پہچ��اننے ک��ا تبرے بھلے س��ےثابت ہ��وا کرت��اہے اس کے س��وا اور ک��وئی قاع��دہ

ہمیں معلوم نہیں ہے۔ م�م�د ص�احب ک�ا من ج�انب اللہ ن�بی ہون�ا ی�ا نہ ہون�ا بھی اس�ی قاع��دہ س�ے دریافت ہوسکتاہے جیسے کہ انبیاء سلف ک��ا من ج��انب اللہ ہون��ا اوردوس��رے معلم��وں ک��ا جو بائبل مق��دس س��ےالگ ہیں من ج��انب اللہ نہ ہون��ا بھی اس��ی قاع��دہ س��ے ث��ابت کی��ا

جاتاہے۔ )جو ہماری ویب سائٹ پراس کتاب کے پہلے حصہ میں جس کا نام تواریخ م�مدی

ہے جو ناظرین پر م�مد صاحب کے افعال ظاہر ہ��وچکےہیں کہ وہ ک�ام خ�دادستیاب ہے( کے پیغمبروں کو لائق نہیں ہیں ۔ اس کت��اب میں جس ک��ا ن��ام تعلی� م�م��دی ہے ج��و تلخیص الاحادیث کا دوسرا حصہ ہے حضرت م�مد صاحب کی تعلی� ک��ا بی��ان کرت��ا

ہے۔ میری یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو دکھ پہنچاؤں یا کسی کی اہ��انت کروں مگر چونکہ میں نے خ�وب معل�وم کرلی�اہے کہ ص�رف بائب�ل ہی خ�دا ک�ا کلام ہے اوربائب��ل ہی والے پیغم��بر خ��دا کے رس��ول ہیں انہی ہی کی اط��اعت س��ے ش��فاعت دارین حاصل ہوتی ہے۔ اسلئے میں اس کلام کا منادہوں اورسب لوگوں کو خداکے پ��اک کلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں پر اہل اسلام جوم��یرے ق��دیمی بھ��ائی ہیں م�م�د ص��احب ک�ویی تعلی� بغ���یر فک���ر ک���ئے ج���ان بیٹھے ہیں ۔ خ���دا ک���ا ن���بی اوراس کی تعلی� ک���و الہ

اسلئےواجب ہے کہ انہیں خبردار کیا ج��ائے یہ تعلی� م�م��دی اللہ کی ط��رف س��ے نہیں ہے اور ہ� ج��و اس��ے اللہ کی ط��رف س��ے نہیں ج��انتے ہیں اس ک��ا کی��ا س��بب ہے پس یہ س��ب ت��الیف اور تص��نیف م��یری م�ض خ��یر خ��واہی اور دوس��تی وم�بت کےل��ئے ہے نہ کسی کی تکلیف کے لئے پر اگر حق بات کہ��نے س��ے ک��وئی ن��اراض ہ��و ت��و خ��یر میں

معذور ہوں۔

مقدمہمقدمہتان کی تعریفات کے بیان میں تان کی تعریفات کے بیان میںتعلی� کے اقسام اور تعلی� کے اقسام اور

میں دیکھتا ہوں کہ اکثر تعلی� یافتہ لوگ بھی عمدہ تعلی� کے معنوں س�ے ک� واقف ہیں اوراس لئے بھی انہیں حق بات کا دری��افت کرن��ا مش��کل ہے بلکہ وہ ی��وں بھی کہ��تے ہیں کہ ہ��ر تعلی� کی عم��دیت اس کے اہ��ل کی م�زاج اور س��میات پ�ر موق��وف ہےتری تعلی� ہے اور دوس��رے لوگ��وں کےل��ئے اا گاؤ کشی اس وقت کے ہنود کے سامنے ب مثل

تری بات نہیں بلکہ مباح امر ہے۔ کچھ ب اور بعض ہیں جو اس امر میں کچھ فکر ہی نہیں کرتے بلکہ ابائی تقلی��د کےتری ب��اتیں بھی اچھی معل��وم ہ��وتی ہیں۔ غ��رض کہ س��بب س��ے انہیں اپ��نے مرش��دوں کی ب�� عمدہ تعلی� کی تعری��ف بتلان��ا نہ��ایت ض��روری ب�ات ہے اور اس پ�ر فک�ر کرن�ا بھی س��ب حق پرستوں پر فرض عین ہے۔ اچھی تعلی� سچے نبی ک��ا ای��ک ب��ڑا نش��ان ہے یہ��اں ت��ک کہ معج��زات او رپیش��یگوئیاں بھی اگ��ر ک��وئی ک��رے اور فرش��توں کیس��ا چ��ال چلن بھییی رس��الت ک��ا ک��رے مگ��ر اس کی تعلی� میں نقص��ان ہ��و ی��ا بن��اکر دکھلادے اور دع��واا آادمی پیغمبر خ�دا ک�ا ہون�ا عقل اسکی تعلی� عمدہ تعلی� کی تعریف سے خارج ہو تو وہ م�ال ہے اور اس کا قب�ول کرن�ا گم�راہی میں پڑن��ا ہے ۔ اس��لئے میں ع��رض کرت�ا ہ��وں کہ

معل� وہ ہے جو کسی بات کی تعلی� اپنے قول یا فعل سے دے۔

تعلی� وہ ب��ات ہے ج��و کس��ی معل� نے س��کھلائی خ��واہ خی��ال ہ��و ی��ا رس���آانکھیں دنی��ا میں چ��ار قس��� کی تعلیمیں دیکھ��تی ہیں ودستور ۔ وغیرہ ہمارے خیال کی

جھلی وعقلی نفسانی وروحانی۔ ۔( تعلی� جھلی وہ تعلی� ہے جو ص�یح اور کشادہ عقل کے خلاف ہ��و ی��ا۱)

تاس کی ت����اریکی آام����یزش ہ����و اور عق����ل ص�����یح کی روش����نی تاس میں ن����ادانی کی تبت پرستی اور قبر پرستی اورنادانی کے عقیدے وغیرہ۔ دکھلاسکے جیسے

آادمی کی عق��ل کے مواف��ق ہ��وتی ہے اوریہ۲) ۔( تعلی� عقلی وہ تعلی� ہے ج��و تعلی� پہلی تعلی� سےبہتر ہے مگر کافی نہیں ہے۔ امک��ان غلطی کے جہت س��ے اوراسآادم کی عقلیں م�دارج مختل�ف رکھ��تی ہیں اور گھٹ��تی وبھ��ڑتی بھی سبب س�ے کہ ب�نی آادمی ذہن میں تان خی�الات ک�ا خ�زانہ ہے ج�و ہیں۔ واض�ح رہے کہ عق��ل س�ے م�راد یہ��اں جمع کرتے ہیں پ�ر وہ عق��ل ج�و روح کی ص�فت ی�ا اس�تعداور وحی ہے جس��ے روح کیآادمی کی عق��ل ب��الائی آانکھ کہنا چاہیے اس کی ہ��دائیتیں البتہ مفی��د ہیں ت��وبھی جب آادمی درس��ت س��وچتاہے پ��ر آافتاب صداقت سے منور ہوکر فک�ر ک�رتی ہے ت��و روشنی عینی آامیزش س��ے وہ ک��ام میں لائی ج��اتی ہے ت��و جب ذہن کےکھوٹے کہرے مقدمات کی آاتی ہیں۔ آاج تک چار طرف غلطیاں صاف نظر تاس میں بھی غلطی کا امکان ہے بلکہ

۔( تعلی� نفس���انی ہے یہ وہ تعلی� ہے ج���و نفس کی خواہش���وں کے مواف���ق۳)آادمی ک��ا نفس دیجاتی ہے بعض معل� اپنے نفس کی خواہش��وں کے مغل��وب ہیں اور ہ��ر شہوت پرستی اور عیاشی اورجسمانی لط�ف اور غ�رور اورحک�ومت اور غلبہ ک�ا ط��الب ہےاا آادمی پ����ر عقل اور روح کی خواہش����یں ضرورجس����� کی خواہش����وں کے خلاف ہیں ہ����ر واجب ہے کہ نفس کی خواہشوں کو مارے اور روح کی خواہش��وں کی تکمی��ل ک��ا فک��ر کرے پر بعض معل� نفس کے مغلوب ہیں اورانہوں نے اپنے نفس کی خواہشوں کو حتی المق��دور پ��ورا بھی کی��ا ہے او رویس��ی ہی تعلی� بھی دی ہےاگ��رچہ اپ��نی نفس��انی تعلی�

پرکہیں کہیں عقلی تعلی� کا ملمع بھی چڑھا یا ہے تاکہ نادانوں کو پھیلادیں توبھی انتفر ہے۔ کی تعلی� صاف ظاہر ہے یہ تعلی� سب تعلیمات سے زیادہ تر م

آادمی کی روح کی اصل اس��تعد دا۴) ۔( تعلی� روحانی ہے یہ وہ تعلی� ہے جو اور اسکی سب عمدہ خواہشوں سے علاقہ رکھتی ہے۔

توضیح اس کی یوں ہے کہ انسانی روح ع��ال� تج��رد ک��ا ای��ک لطی��ف ج��وہرہے عال� اجسام کی ترکیب سے متولد نہیں ہے چنانچہ اس کی خصائص سے ظاہر ہے اوراا اس کے خصائص ایسے ہیں کہ اس جہان کی چ��یزوں س��ے تکمی��ل نہیں پاس��کتے مثلتاس کی خوش��ی ک��و وہ خوشی کی طالب ہے اوراس جہان کی کوئی چیز یاکل جہ��ان پورا نہیں کرسکتا مگر صرف عال� بالا کی خوشی س��ے اس کی س��یری ہ��وتی ہے اس��ی ط��رح وہ انص��اف دوس��ت ہے اوربے انص��افی س��ے اس میں ای��ذا پہنچ��تی ہے اور کام��لآاپ ک��و تاس��ی خ��دا میں ہے ۔ پ��ر وہ اس وقت مق��ام خ��وف میں تام��دی انص��اف کی تاسے خدا تس��لی نہ دے اس ک��ا خ��وف دورنہیں ہوس��کتا ۔ اس��ی دیکھتی ہے جب تک تاس کے اور ۔ اور خصائیص بھی ہیں پس جو تعلی� اس کی تشنگی کو بجھادے طرح تاس تعلی� ک�و ہ� تعلی� اوراس کے سوالوں کا جواب دے ایسا کہ اس کی تس�کین ہ�وئے تام��ور روحانی کہتے ہیں اوریہ بھی واض��ح رہے کہ عقلی تعلی� اگ��رچہ ایس��ی ہے کہ بعض میں جہاں تک عقل کی رسائی ہے ایسی ہدائیتیں ملتی ہیں کہ کسی ق��در روح تس��لیتان خواہشوں کی تکمیل ج��واس جہ��ان س��ے علاقہ نہیں رکھ��تی پاسکتی ہے پر روح کی ہیں عقلی تعلی� سے ہرگ��ز نہیں ہوس��کتی ہے اور روح انس��انی میں ای��ک اورہی قس��� ک��ا تعقل ہے جس سے وہ اپنے دیس کی باتوں کو پرکھ��تی ہے اس��ی ل��ئے س��یدنا مس��یح نے

( جو کوئی خدا کی مرضی پر چلنا چ��اہے وہ اس تعلی� کی۱۷: ۷یوں فرمایا ہے )یوحنا آادمی کی بابت سمجھ جائیگا کہ کیا خدا سے ہے یا میں اپنی کہتا ہ��وں ۔ یع��نی جس تان��گ اس میں زن��دہ ہے وہ روح کا تعقل زنگ خوردہ نہیں ہے بلکہ حقیقی خوش�ی کی

اس روحانی تعلی� کو جو میں دیتا ہوں سمجھ سکتاہے کہ یہ ب��اتیں انس��انی عق��ل کیتصنیف سے نہیں ہیں اللہ سے ہیں۔

پس بی��ان ب��الا کے بع��د معل��وم کرن��ا چ��اہیے کہ دین کی س��چائی کےل��ئے یہ چوتھی قس� کی تعلی� مطلوب ہے اورجب ہ� یوں کہتے ہیں کہ صرف بائبل مق��دس ہی کی تعلی� عمدہ ہے اورس��ب جہ��ان کی تعلیم��ات دین کے مق��ابلہ میں اس کے س��امنے ہیچ ہیں توہم���ارا یہی مطلب ہے کہ ص���رف بائب���ل مق���دس ہی کی تعلی� روح���انی ہے اورچونکہ روحانی تعلی� عقل سے تولد نہیں ہوس��کتی ہے اورنہ انس��ان کے روح س��ے پی��دایی الہام سے ہ��وتی ہے پس ہوسکتی ہے اگرچہ امراض روحانی کا معالجہ ہے پس وہ الہ الہام کی شناخت کےلئے روحانی تعلی� کا ہونا پوری اورکامل شرط ہے جو معجزے اور پیشینگوئیاں اور معل� کی خوش چلنی یہ سب دوسرے قس�� کی مہ�ریں ہیں خ�دا س�ے اگرہ� ایک اشرفی ہاتھ میں لے کر دری��افت کرن��ا چ�اہیں کہ یہ کھ��وٹی ہے ی�اکھری ت�واس کے سونے کا کھرا ہونا دریافت کرنا پہلی بات ہے اوراس کے سکہ اور چھرہ پر فکر کرنا دوسری بات ہے اگ��راس ک��ا س��ب کچھ درس��ت ہے ت��و وہ ص���یح ہے پ��ر ہوس��کتا ہے کہآاپ دیانت�دار کھوٹے س�ونے پ�ر ک�وئی جعلس�از بادش�اہ ک�ا چھ�ڑہ اور س�کہ لگ�ادے اور جوہری ظ�اہر ہ�وکے لوگ�وں ک�و ف��ریب دے اس�لئے بھ��ائیو تعلی� کی عم�دیت ک�ا دیکھن�ا

پہلے ضرور ہے۔ اب میں ص��اف کہت��ا ہ��وں کہ ہ� م�م��د ص��احب کی تعلی� ک��و عم��دہ نہیں پاتے ہیں۔ اگر م�مد صاحب کی تعلی� خدا سے ہوتی ہے تو میں اپنے پی��ارے مس��لمانآارام ک�و چھ��وڑ ک��ر اس عیس��ائیوں کی حق��یر جم�اعت میں رشتہ داروں ک�و اوراپ�نے ق��ومی جہاں صدہا قس� کے دکھ بھی اٹھارہا ہوں ہر گ��ز ش�امل نہ ہوت�ا میں خ�وب ج�ان گی��اکہ صرف عیسائی دین خدا سے ہے اس لئے سب کچھ اس کے واسطے سہنے کو حاض��ر

ہوں تاکہ خدا کے سامنے مقبول ٹھہروں۔

تان جب میں نے م�مد صاحب کی تعلی� پر فکر کیا تو تین قس��� کی تعلی� یی کی وال��دہ م��ری� اا حضرت عیس�� کی پائی کچھ تعلی� ناواقفی سے علاقہ رکھتی ہے مثلیی کے بیٹے اورہارون کی بہن بتلانا وغ��يرہ اورکچھ ب��اتیں ص��رف عق��ل کو عمران پدر موساا حزب بما ل��دلھی� فرح��ون ہ��ر ف��رقہ اپ��نی ح��الت میں خ��وش ہے سے علاقہ رکھتی ہیں مثلاا عورتوں کا بے نہ��ائت وغیرہ اور کچھ باتیں نفسانی خواہشوں سے علاقہ رکھتی ہیں مثلتان کی بہت ک��ثرت س��ے ہے۔ مگ��ر چ��ونکہ وہ بھی تعثق وغ��یرہ اوریہ تین قس��� کی تعلی� تان میں بھی انسانی روح تھی جس کے واقعی خصائیص عمدہ ہیں اس انسان تھے اور کی کشش سے اوراس دعوے کےل�اظ سےجوانہوں نے حص�ول دنی��ا کے ل�ئے کی��ا تھ��ا انہیں ض�رور تھ�اکہ کچھ ب�اتیں روح�انی بھی ب�ولیں س�و انہ�وں نے خ�دا کی کلام س�ےآان میں ب��ولی ہیں بعض عمدہ باتیں بھی نصرانی غلاموں کے وسیلہ س��ے معل��وم ک��رکے ق��رتان کی رہ��بر نہ تھی ص��رف انس��انی عق��ل س��ے یہ یی روح اس مع��املہ میں اور چ��ونکہ الہتان مض��امین کی نق��ل ک��رنے میں اور ت��رتیب دی��نے میں اور نت��ائج انتظ��ام تھ��ا اس ل��ئے نکالنے میں جگہ جگہ انہوں نے بہت ہی دھوکے کھائے ہیں اوربہت باتیں غلط ط��ورپر سنائی ہیں اس کے سوا وہ عمدہ مغ��ز روح��انی ب��اتوں کے ج�و روح انس�انی کی تس��لی کا ب�اعث ہیں اور وہ خ��دا ہی کی م�دد س�ے س�مجھے بھی ج��اتے ہیں انہ�وں نے ہ��ر گ�زتانہ��وں نے انتخ��اب یی س��ے مم الہ نہیں سمجھے اس ل��ئے وہ عم��دہ ب��اتیں بھی ج��و کلاآاکر روح کے لئے تسلی بخش نہ رہیں کیونکہ کہیں آان میں تان کے قر کی ہیں وہ بھی کہیں سے ٹکڑے اڑائے ہوئے مفید نہیں ہوسکتے ہیں۔ اوریہ بات تو خ�وب ظ��اہر ہے کہ ہر جسمانی معل� اور وہ جو دھوک��ا دیت��اہے کبھی دنی��ا میں نہیں دیکھ��ا گی��ا کہ یہ س��ب کچھ غلط ہی بولے ہاں ایسے معل� غلط اور ص�یح باتیں ملا کر ب��ولا ک��رتےہیں اگ��ر وہ سب کچھ غلط ب��ولیں ت��و ک��ون ان کی س��نیگا۔ اوریہ ب��ات بھی مس��ل� ہے کہ جباا ص�یح ہیں قب��ول کوئی دنیاوی عقلمند تعلی� دیتا ہے تو اس کی وہ سب باتیں جو عقل

ہوتی ہیں اورجہاں پر اس کی غلطی ظ�اہر ہ�وتی ہے وہ ب�ات چھ�وڑ ی ج�اتی ہے اس ل�ئے کہ وہ انسانی عقل سے بولتا ہے اور انس�ان ہے اس ل�ئے اپ�نی بھ��ول پ��ر بہت ملامت کےیی نب��وت کے س��اتھ تعلی� دے اورکہے کہ خ��دا س��ے لائ��ق نہیں ہے پ��ر جوش��خص دع��و پاکر تمہیں سکھلاتا ہ��وں اس�کی تعلی� میں س��ب کچھ ص���یح ہوناچ��اہیے اگ��راس کی تعلی� میں تھ��وڑی س�ی بھی غلطی ظ��اہر ہ��و ت�و وہ معل� خ�دا کی ط��رف س��ے نہیں ہے مگر م�مد صاحب کی تعلی� میں تو نہ ص�رف تھوڑیس�ے غلطی مگ�ر بہت س�ی غلطی اور تھوڑی سی ص��ت ہے اور اس تھ��وڑی س��ی ص��ت ک��ا ماخ�ذ بھی معل�وم ہے ج�و کامل ص�ت اپ��نے ان�در رکھت��اہے اس ل��ئے م�م��د ص��احب کی نب��وت ک��ا انک�ار کرن��ا

یی کی تصدیق کرنا نہایت ضروری بات ہے۔ مم الہ فرض عین ہے اور کلا ایک بات اور بھی ناظرین کتاب ہذا کو یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ یہ ہے کہ دنی��اآادمی��وں نے س��ب ب��اتوں پ��ر اع��تراض ک��ئے ہیں راس��تی پ��ر بھی اع��تراض ہ��وئے ہیں اور میں آادمی�وں ناراستی پر بھی اعتراض ہ��وئے ہیں یہ�اں ت�ک کہ خ�دا کی ذات پ�اک ک�و بھی نے بغیر اعتراضوں کے نہیں چھوڑا پس کسی بات کو صرف اعتراضوں ہی ک��ودیکھ ک��ر ہ� نہیں چھ��وڑ س��کتے۔ کی��ونکہ ش��ائد اع��تراض غل��ط ہ��وں اورکس��ی نے ن��ادانی س��ے ی��اتان اعتراض��وں کے جواب�وں پ��ر پہلے تعصب سے اعتراض کئے ہ��وں اس��لئے واجب ہے کہ تان غور کیا جائے اگر روح گواہی دے کہ جواب ص���یح ہیں اور اع��تراض غل��ط ہیں ت��و اعتراضوں کی ہ� کچھ پروا ہ نہیں ک��رتے اور اگ��ر اع��تراض ص���یح ہیں اور ج��واب غل��طتان کے ہیں تو معترض سچا ہے دیکھو بائبل پر بھی ہزارہا اعتراض لوگوں نے کئے ہیں پ��ر آان اور ایسے شافی جواب موجود ہیں جو اعتراضوں کو فی ال�قیقت اڑادیتے ہیں مگر ق��ر تعلی� م�م��دی اورنب��وت م�م��دی پ��ر ج��و اع��تراض ہ��وئے ہیں ن��اظرین ک��و چ��اہیے کہتان س���ے ان تان کے جواب���وں ک���ودیکھیں اور علم���اء م�م���دیہ کی تص���نیفات میں اعتراضوں کی ب�ابت ب�ات چیت بھی ک�ریں انہیں خ�و دہی معل� ہوجائيگ�ا کہ اع��تراض

ص���یح ہیں اور ج��واب غل��ط ہیں دیکھ��و مول��وی رحمت اللہ ص��احب نے اور حاف��ظ ولیآاگرہ کے مولوی س��ید م�م��د ص��احب اللہ لاہوری نے اوردہلی کے امام صاحب نے اور نے اورلکھنو کے مجتہد صاحب نے اور، اور لوگوں نے بھی عیسائیوں کے جواب میںآاپ ہی انص��اف س��ے کہہ س��کتےہیں کہ کی��ا حقیقت کی��ا کی��ا کچھ لکھ��اہے ن��اظرین تان میں عیسائیوں کےل��ئے ج��واب ہوگ��ئے ہیں ہرگ��ز نہیں ہ� ت��وبہت خ��وش ہیں کہ ل��وگ کی کتابوں کو ہماری کتابوں کے ساتھ ملا کر پ�ڑھیں اور انص�اف ک�ریں کہ ح�ق ک�دھر ہے۔ اب میں م�م��د ص��احب کی تعلی� دکھلان��ا چاہت��ا ہ��وں اوریہ ان کی تعلی� چ��ار قس� پر منقس� ہے عقائد اورعبادات اور معاملات اور قصص اس لئے اس کتاب میںآات��اہے ت��اکہ چ��ار ب��اب مق��رر ہ��وتے ہیں اوران کی تعلی� کی س��ب ض��روری ب��اتوں ک��ا ذک��ر

ناظرین پوری مسلمانی سے واقف ہوں کہ کیاہے۔

پہلا بابپہلا بابعقائد اسلامیہ کے بیان میںعقائد اسلامیہ کے بیان میں

عربی زبان میں عقیدہ کےمعنی ہیں گروہ لگائی ہ��وئی انس��ان پ��ر واجب ہے کہ ص���یح خی��الات کے س��اتھ اپ��نے روح ک��و بان��دھے اور وہ ب��اتیں جن کے س��اتھ روح بان��دھی ج��اتی ہے عقائ��د کہلاتے ہیں اوریہ عقائ��د س��اری دین��داری کی ج��ڑ ہ��وتے ہیںتان ب��اتوں کے س��اتھ روح کی بن��دش ہوج��و ق��ائ� ودای� اور س��چائی کی ہیں چ��اہیے کہ آائیگاکہ سب بطلان دفع ہونگے وہ سچائي جو خ�دا س�ے اورخ�دا کی کیونکہ ایک وقت آادمی کی روح سچائی ذات میں ابد تک قائ� ہے وہی باقی رہیگی ۔ پس ضرور ہے کہ کی طرف ہمیشہ تاکتی رہتی ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ پیوستگی حاصل کرے تاکہ

یی کا طوفان تمام بطلان کے برب��اد ک��رنے ک��و زور م��ارتے توہم��اری روحیں جب قہر الہ تاس سچائی کے ستون ک��و پک��ڑے ہ��وئے ق��ائ� رہیں۔ اس��ی واس��طے ہ��ردین م��ذہب ک��ا معل� کچھ عقائد اپنے شاگردوں کو سکھلایا کرت��اہے م�م��د ص��احب نے بھی کچھتتب عقائد دیکھنے س��ے معل��وم ہوس��کتاہے عقیدے سکھلائے ہیں مگر اہل اسلام کی ک کہ صرف چند ضروری ب��اتیں وہ��اں م�ذکور ہیں ج��و خ��دا کی نس��بت اورم�م��د ص��احبتتب انبیاء اور قیامت اور دوزخ بہشت کی نسبت ہیں باقی کی نسبت اوردیگر انبیاء اورکحول کون ہے علی یا اب��وبکر یہ اا خلیفہ ا اوربیان جو وہاں ہیں وہ توجہ کےلائق نہیں ہیں مثلاا کچھ علاقہ ایمان سے نہیں رکھتی ہے۔ اسی طرح یہ کہ یزید کا فر تھا ی��ا بات عقل مسلمان۔ ی��ا جب حض��رت علی عائش��ہ س�ے ل��ڑے تھے ت�و ج�انبین میں س��ے کس کےتردے بہشت میں گئے تھے ایس��ی ایس��ی ب��اتیں ان اہ��ل تردے دوزخ میں اورکس کے م م اسلام کے سب فرقوں میں جدی جدی ملتی ہیں۔ مگر میں ضروری باتوں کا ذک��ر کرت��ا

ہوں۔

حول حولفصل ا فصل اایمان کے بیان میںایمان کے بیان میں

ایم��ان س��اری دین��داری کی بنی��اد ہے مگ��ر یہ ایم��ان دنی��ا میں س��ب فرق��وں میںآادمی ک��ا ف��رض عین ہے م�م��د مختل��ف ہیں اس ل��ئے ص���یح ایم��ان حاص��ل کرن��ا ہ��ر آادمی نج��ات پائیگ��ا چن��انچہ آان میں فرم��اتے ہیں کہ ایم��ان اور اعم��ال س��ے ص��احب ق��ر

تج���ری من ت�تھ���ا الانھ���ارة لکھ���اہے والش���رالذین امنووعمل���و الص���ال�ات ان لھ� جناتان کےل��ئے ب��اغ ہیں تان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک کام کئے خوشخبری سنادی

جنکے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اورایم��ان کےمع��نی م�م��د ص��احب کی اص��طلاح میں یہ ہیں کہ کلمہ لا الہیی اللہ م�م��د رس��ول اللہ ک��ا زب��ان س��ے اق��رار اور دل س��ے یقین ہ��وئے یع��نی وح��دت الہ

اوررسالت م�مدی کا یقین اور اقرار ایم��ان ہے اورنی��ک اعم��ال یہ ہیں کہ بع��د ایم��ان کےآان اور حدیث کےحکموں پر چلے اوراس کی ہدائیتوں کے موافق کام کرے ایسا آادمی قر

آادمی نجات پائے گا اورایسے ہی کو نجات کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ علماء م�مدیہ میں اختلاف ہےکہ اعمال نیک ایمان میں شامل ہیں ی��ا ایم��ان سے خارج ہیں۔ م�مد صاحب نے بھی کبھی اعمال کو ایمان سے خارج ک��رکے بی��ان کیا ہے اورکبھی شامل کرکے دکھلایاہے۔لیکن اس بات پر حضرت کا زور ہے کہ اعمال

ایمان سے خارج ہیں اورایمان اوربات ہے اوراعمال اوربات ہے۔ مشکوات کتاب الایمان میں بخاری ومسل� کی متف��ق علیہ ای��ک ح��دیث ابیتاس وقت س��فید آای��ا ذر س��ے ی��وں لکھی ہے ابی ذر کہت��اہے کہ میں حض��رت کے پ��اس آای��ا توبی��دار بیٹھے تھے پس چ��ادر اوڑے س��وتے تھے تب میں واپس چلا گی��ا جب پھ��ر فرمانے لگے کہ جو کوئی لا الہ اللہ اوراس پر قائ� رہے ک��ر م��رے وہ بہش��ت میں داخ��ل ہوگا )یعنی صرف خدا کی توحید کے اقرار سے ب��د ونی��ک اعم��ال کے( ابی ذر نے کہ��ا اگر وہ زنا اور چوری کیا ک��رے ت��و بھی بہش��ت میں جائیگ��ا فرمای��ا زن��ا اور چ��وری ک��رکے بھی بہش��ت میں جائیگ��ا ابی ذر نے تین ب��ار اس ب��ات ک��و تعجب ک��رکے پوچھ��ا تب حضرت نے فرمایا زن�ا اور چ�وری ک�رکے بھی بہش��ت میں جائیگ�ا ۔ ض�رور جائیگ�ا ت�یری ناک پر خاک ڈال کے )جب ابوذر اس حدیث کو س��نایا کرت��ا تھ��ا ت��و اس کے س��اتھ یہ

بھی کہا کرتا تھاکہ تیری ناک پر خاک ڈال کے ( دوس��ری ح��دیث اس��ی ب��اب میں مس��ل� نے اب��وہریرہ س��ے ی��وں بی��ان کی ہے کہ جب م�مد صاحب بنی نج��ار کےب��اغ میں تھے اب��وہریرہ انہیں تلاش کرت��ا ہ��وا ب��اغ کیآاپ کی تلاش میں تان کے پ��اس پہنچ��ا اورکہ��ا حض��رت ہ� س��ب اص���اب م��وری س��ے پھ��رتے ہیں دیکھ��و دی��وار کی اس ط��رف س��ب دوس��ت حاض��ر ہیں اس وقت حض��رت نے فرمایا کہ یہ م�یری جوتی��اں بطورنش�انی کےہ��اتھ میں لے اورچلا ج��ا ج��و ک�وئی تجھے اس

دیوار کے پیچھے ملے اس سے کہہ کہ جو کوئی کہے لاالہ اللہ یقین کرکے وہ بہشتتاس���ے عم���ر خلیفہ ملے جب اب���وہریرہ نے یہ میں داخ���ل ہوگ���ا پس اب���وہریرہ چلا پہلے خوشخبری سنائی اورجوتیاں دکھلائیں تو عمر نے اس کی چھاتی پر ایس��ی لات م��اری کہ ابوہریرہ چوتڑوں کے بل گر پڑا اور چیخ م��ار کے روی��ا پھ��ر م�م��د ص��احب کے پ��اسآاکے کہا یا حض��رت یہ ب��ات نہ س��ناؤ ل��وگ اس آاکر فریاد کی تب عمر نے پیچھے سے کے بھروسہ پر عمل کرنا چھوڑدینگے تب حض��رت ب��ولے اچھ��ا نہ س��ناؤ عم��ل ک��رنے دو۔تجدے ہیں اور کہ نج��ات ص��رف ایس��ی روائ��تیں دکھلاتے ہیں کہ اعم��ال ایم��ان س��ے مل عل� مس��لمانوں نے بھی ایم��ان پ��ر ہے نہ اعم��ال پ��ر )ف( مجھ س��ے ک��ئی ب��ار بعض اہ��آادمی مسیح پر ایم��ان لائے اورس��اری ب��دکاریاں کی��ا ک��رے ت��و سوال کیا ہے کہ اگر کوئی کیا اس کی نجات ہوگی۔ ان کا یہ مطلب تھاکہ اگرہ� کہیں ہوگی تو وہ ٹھٹھا مارینگےتبری تعلی� ہے اور ج���و ہ� کہیں گے اعم���ال کی بھی ض���رورت ہے ت���و وہ کہ یہ کیس���ی کہیں گے کہ یہ نجات نہ صرف ایمان پ��ر ہے مگ��ر اعم��ال پ��ر ہے۔ یہ خی��ال ان کے دلآات��اہے کہ وہ حقیقی ایم��ان کےمع��نی س��ے ن��اواقف ہیں م�م��دی ایم��ان اور میں اس ل��ئے آائن��دہ س��طروں میں اس ک��ا مسی�ی ایمان کا ایک ہی مطلب جانتے ہیں پر ن��اظرین ک��و فرق معلوم ہوجائے گا یہاں صرف یہ معلوم کرن�ا چ�اہیے کہ م�م�د ص�احب خ�ود فرم�اتے ہیں کہ ساری بدکاری کرے اور صرف اللہ کی وحدت کا قائل ہ��و ت��و بھی بہش��ت میںآایت ب��الا کے ظ��اہری مع��نی کے خلاف ہیں ت��وبھی آان کی جا ئیگا۔ اگرچہ یہ حدیثیں قرآان کی ص����یح مس���ل� اور ص����یح بخ���اری میں لکھی ہیں معت���بر ح���دیثیں ہیں اور ق���ر

آان کی باطنی حالت کے مخالف نہیں ہیں۔ تفسیریں اور قر پھر مشکوات باب الکبائر میں ترمذی وابوداؤد سے ابوہریرہ کی یوں روائت ہےآادمی زن��ا کرت��اہے ت��و اس ک��ا ایم�ان اس کے دل میں س�ے فرمایا حضرت نے جب ک��وئی

نکل کے اس کے سر پر سائبان کی طرح کھڑا ہوجاتاہے جب وہ زنا کرچکتا ہے ت��و پھ��رآاجاتا ہے۔ ایمان دل میں

حول حض��رت م�م��د کی ان س��ب ب��اتوں س��ے ک��ئی ای��ک ن��تیجے نکل��تے ہیں ا تعلی� میں ایک فقرہ ہے یعنی کلمہ جس کے مضمون کا اقرار اور یقین ایمان ہے اوراس فق��رہ کی دو ج��ز ہیں پہلا لا الا للہ یع��نی ک��وئی اللہ نہیں مگ��ر ای��ک اللہ ہے کبھی ت��و صرف اسی جز کو ایمان بتلای�ا ہے اورکبھی دوس�را ج�ز بھی اس کے س�اتھ ملای�ا ہے کہتجز ک�و ہ� بس�ر وچش��� قب�ول م�مد الر سول اللہ یعنی م�م�د اللہ ک�ا رس�ول ہے۔ پہلی تاس س��ے م��راد نہ ہ��و بلکہ ک��رتے ہیں ۔بش��رطیکہ وح��دت وج��ودی اور وح��دت حقیقی

وحدت سے وہ وحدت مراد ہوئے جس کی کہنہ معلوم نہیں ہے۔اا موجب نجات نہیں ہوسکتا ہے سب ش��یاطین اا ونقل توبھی یہ اکیلا جز عقل بھی ج�انتے ہیں کہ خ�دا واح�د ہے پس جب ان کے ح�ق میں یہ ج�ز مفی�د نہیں ہے ت�و ہمیں کس طرح مفید ہوگا اورم�مد صاحب بھی اس اکیلے جز ک�و مفی��د نہیں ج�انتے ہیں اگرچہ کبھی کبھی مفید بتلایا ہے پر کبھی کبھی اس کے ساتھ دوسرا جز ملاتے ہیں یع��نی م�م��د الرس��ول اللہ مگ��ر یہ ج��ز ثب��وت رس��الت ک��ا م�ت��اج ہے ج��و م���ال ہےآان اوریہ حدیث اوریہ تواریخ م�مدی دنیا میں نہ ہوتی اورم�مد صاحب بالفرض اگریہ قر کی رس��الت ث��ابت بھی ہ��وتی ت��و بھی یہ ج��ز پہلی ج��ز کے س��اتھ ک��افی نہ تھ��ا ک��وئی اورب��ات بھی مطل��وب تھی جس س��ے نج��ات کی خصوص��یت اور اس��ت�قاق کلمہ کے

مضمون میں پیدا ہوتا۔آاپ دوس��ری ب�ات یہ معل��وم ہ��وئی کہ یہ ایم��ان انس��ان ک�ا ک��ام ہے یع��نی انس��ان

اس کو پیدا کرکے تھامے رہے۔تجدے ہیں۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اعمال حسنہ ضرور اس ایمان سے

چوتھی یہ معلوم ہوا کہ یہ ایم��ان کچھ م��دد نہیں کرس��کتا ہے جب کس�ی ک��ا نفس امارہ سرکشی کرتا ہے تو یہ ایمان زنا کے وقت اپنا گھر چھوڑ کر س��ر پ��ر ج��ا کھ��ڑا

تاس میں داخل ہو۔ ترچکے تاکہ پھر ہوتا ہے اور منتظر رہتاہے کہ کب وہ زنا ک پ��انچویں یہ معل��وم ہ���واکہ اس ایم��ان ک��و حض��رت ب��اعث نج���ات بتلاتے ہیںآان میں اوراعمال حسنہ کو بطور مصل�ت کے کرنے دیتے ہیں ۔ ان ح��دیثوں میں اور ق��رآان کی تفسیر ہیں ایمان واعمال ہر دو کو موجب نجات بتلاتے ہیں پس حدیثیں جو قرتاس��ی اا ہے پر نج��ات ص��رف آان میں بھی اعمال کی قید مصل�ت تان سے معلوم ہوگیاکہ قر ایمان پر ہے یہ مختصر بیان م�م�دی ایم�ان ک�ا ہے اگ�ر ک��وئی اس�ے پس�ند کرت��ا ہے ت�و

قبول کرے۔

اب مسی�ی ایمان کا مختصر حال سنواب مسی�ی ایمان کا مختصر حال سنوآادمی تاس سچے اوربرحق زندہ خ��دا پ��ر ایمان کا مغز یا ایما کی جان یہ ہےکہ تخدا پر دل ٹھہرے اورتکاؤ حاصل ک��رے۔ مگ��ر تفص��یل کے دل کا بھروسہ قائ� ہوجائے آاپ کو بائب��ل میں ظ��اہر کی�ا ہے اس�ی ط��رح اس کی یوں ہے کہ جس طرح خدا نے اپنے سے اس کی نسبت یقین کیا جائے کہ خدا ایک ہے اورا سکی یکتائی میں اقانی� ثلثہ ہیں یعنی باپ بیٹا روح القدس ای��ک واح��د خ��دا ہے اور یہ وح��دت اس کی قی��اس س��ےآادمی یی انکشاف سے ہم��اری روح��وں پ��ر یہ بھی��د منکش��ف ہوت��اہے ک��وئی باہر ہے پر الہ اپنی قوت فک��ریہ س��ے اس ک��و س��مجھ نہیں س��کتا پ��ر خ��دا جس ک��و س��مجھادیتا ہے وہ سمجھ جاتاہے اورقبول کرتاہے تب یہ ایمان عقل سے متولد نہیں ہوتا مگر خدا بخش��تاآاپ بتلات���اہے کہ میں کیس���ا ہ���وں پس یہ ایم���ان خ���دا کی بخش���ش ہے جس���ے ہے وہ مرحمت ہو انسان کا صرف اتن��ا ف��رض ہے کہ خ��دا س��ے ص���یح ایم��ان م��انگے پس جب انسان کی طرف سے ایمان ص�یح کی طلب اپنےد رجوں پر ہو ت�و وہ ایم�ان ج�وتخدا اس کو ضرور بخش دیتاہے جب تک طلب میں خل��وص نہ ہ��و وہ آاسمانی تاثیر ہے

تان کو بھی مل جاتاہے جو نہیں ڈھونڈتے پ�ر ایس�ی ب��ات خ��دا نہیں ملتا ہاں بعض وقت کی پوشیدہ حکمت سے متعلق ہے پ�ر وہ قاع��دہ کہ ج�و ک�وئی ڈھون�ڈتاہے پات�اہے ع��ام انتظام کے س�اتھ علاقہ رکھت��اہے اوراس��ی ل�ئے انس�ان طلب میں قص�ور کے س�بب مل�زم

بھی ہوتاہے۔آادمی ک��ا کی��ونکہ خ��دا اس ص��ورت میں حقیقی ایم��ان خ��دا ک��ا کلام ہے نہ آادمی کے دل ک��و اپ��نی ط��رف کھینچت��ا ہے اوراپ��نی ذات پ��اک ک��و اس کی روح کےآادمی ک�ا دل خ�دا پ�ر ق��ائ� ہوت�اہے اورجیس��ے بچہ ن�و پی�دا جب سامنے ظ��اہر کرت�ااور ی�وں والدہ اس کے منہ میں چھاتی دیتی ہے وہ شیر ک�و کھینچت�اہے اس�ی ط��رح جب ہمیں یہ ایم��ان اللہ س��ے ملت��اہے ت��وہ� اس ایم��ان کے وس��یلہ س��ے خ��دا س��ے ق��وت کھینچ��تے ہیں اورس��ارے نیکی کے ک��ام ک��رنےکی ط��اقت پ��اتے ہیں اورس��اری بدخواہش��وں ک��و دب��انے اورمارنے کا زوربھی پاتے ہیں اوریوں ہم�اری س�اری پارس�ائی اور تم�ام اعم�ال حس�نہ اس�ی ایمان کے پھل ہوتے ہیں جہاں یہ ایمان ہوتاہے وہاں نیک اعمال ض��رور پ��ائے ج��اتے ہیں بغیر اس کے اعمال حس�نہ ہ��و نہیں س��کتے اورنہ وہ بغ��یر اعم��ال حس�نہ کبھی کہیں پای�اآازم��ائش اک��ثر امت���انوں کے جاسکتا ہے ایمان واعمال لازم وملزوم ہیں اوراس ایم��ان کی وقت ہ��وا ک��رتی ہے کہ وہ موق��ع پ��ر اپ��نی ط��اقت دکھلات��ا ہے یہی مس��ی�ی زن��دہ ایم��انتامید پیداکرتاہے۔ اس مسی�ی ایمان کی بھی حقیقت میں دو ہی بڑے جز آادمی میں آاپ ک�و الہ��ام س�ے ظ��اہر ہیں پہلا اللہ کی ذات کو ویسے ہی قب��ول کرن�ا جیس�ے اللہ نے کیاہے کہ وحدت اقانی� ثلثہ میں ہے اور اق��انی� ثلثہ وح�دت میں ہمیں دوس�را یہ کہ اقن��وم ثانی نے جس� کو اختیار کیا اورہمارے لئے سب فرائض ادا کئے اورہمارے گناہوں ک��ا کف��ارہ ہ��وا پس وح��دت فی التثلیث اور کف��ارہ ک��ا یقین اور اق��رار کرن��ا بی��ان ہے اس دلیآای��اہے ٹکاؤ کا جو اللہ سے عنائت ہوا ہے اورا س ایم��ان میں جس میں کف��ارہ ک��ا ذک��ر

نج��ات پ��انے کی وجہ بھی ص��اف ص��اف م��ذکور ہے یع��نی کف��ارہ، عیس��ائی ایم��ان ک��اکلمہ یہ ہے جسے رسولوں کا عقیدہ کہتے ہیں۔

آاسمان وزمین ک��ا پی��دا ک�رنے مر مطلق باپ پر جو میں اعتقاد رکھتا ہوں خدا قاد والا ہے۔ اوراس کے اکلوتے بیٹے ہمارے خداوند یس��وع مس��یح پ��ر ج��و روح الق��دس س��ے پیٹ میں پڑ ا کنواری مری� سے پیدا ہوا ۔پینطس پیلاطس کی حکومت میں دکھ اٹھای��ا صلیب پر کھینچا گیا مرگیا اور دفن ہوا اورعال� ارواح میں جا اترا اور تیس�رے دن م�ردوںمر مطل��ق ب��اپ کے دہ��نے ہ��اتھ بیٹھ��ا آاسمان پر چڑھ گی��ا اور خ��دا ق��اد میں سے جی اٹھا آائیگ�ا۔ میں اعتق�اد رکھت�ا ہ�وں تردوں کی عدالت ک�رنے ک�و ہے جہاں سے وہ زندوں او رم روح القدس پر پاک کلیسیا ئے جامع پر مقدس��وں کی رف�اقت گن��اہوں کی مع�افی جس��

کے جی اٹھنے اورہمیشہ کی زندگی پر۔ سب عیسائی فرقے اس پر متفق ہیں بعض فرقے اس عب��ارت ک��و حف��ظ رکھ��تےتاس کے مضامین پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس عقی��دہ ک��ا ہ��ر ج��ز نہ��ائت ہیں اور بعض صرف تجدی مضبوط اور قوی دلیل سے ثابت کیا گیا ہے اور ہر چ��یز پ��ر دلائ��ل کی کت��ابیں تز ایم�ان تان دلائل پر سوچے تو جانیگا کہ اس عقی�دہ ک�ا ہ��ر ہ��ر ج� موجود ہیں اگر کوئی

حقیقی کا ایک ایک رکن ہے اور زندگی کی تصویر اس میں منقش ہے۔تانہ��وں آاسمان کا ف��رق ہے اورج�و ایم�ان م�مدی ایمان اوراس ایمان میں زمین مل فکر کےلئے تسلی کا ب��اعث نہیں ہیں بلکہ گھ��براہٹ ک��ا ب��اعث نے پیش کیا ہے وہ اہ ہے ۔پ��ر یہ مس�ی�ی ایم��ان جس پ�ر س�ب پیغم�بر بھی متف��ق ہیں نہ��ائت تس�لی بخش اور

موثر ہے۔

دوسری فصلدوسری فصلتتب سابقہ کے ذکر میں تتب سابقہ کے ذکر میںانبیاء وک انبیاء وک

م�مد صاحب نے یہ عقیدہ بھی سکھلایا ہے کہ سب نبیوں اور پیغمبروں پرآائے بھی ایمان لانا چاہیے یعنی اقرار کرناکہ سب رسول جو اللہ کی طرف سے دنی��ا میں تانکی آان ح��دیث میں م��ذکور ہیں اور تان میں س��ے بعض مش��ہور ن��ام بھی ق��ر برح��ق تھے تان کے درج�وں میں بھی ف��رق دکھلای�ا گی��ا تعداد کے باب میں مختلف حدیثیں ہیں اور

ہے بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ انکی کتابوں کی نسبت بھی حضرت کا یہ بیان ہے کہ وہ سب کت��ابیں ج��ونازل ہوئیں برحق ہیں یہ اعتقاد ہر مسلمان کو رکھنا ضرور ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہے۔

پھر ان کتابوں میں بعض کو ص�ائف یعنی چھوٹی کت��ابیں بتلای��ا ہے اور چ��ارآان آان پ�ر اس وقت ق��ر تان ک��ا ق��ر بڑی کتابیں بیان ہوئی ہیں۔ توریت، انجیل ، زب�ور اورچوتھ��ا

کو چھوڑ کر پہلی کتابوں کا ذکر ہے۔ پس اگلے پیغمبروں اوران کی کتابوں کی نسبت جو اہل اسلام کا اعتق��اد ہےتان ک�ا یہ بی�ان کہ اگلے کہ وہ سب برحق ہیں یہ نہائت سچا اور پاک عقیدہ ہے۔ مگ�ر تان پر عمل نہ کرو کی��ونکہ وہ منس��وخ ہوگ��ئی پیغمبروں اورکتابوں کو برحق تو جانو لیکن

ہیں یہ خوفناک عقیدہ ہے اورکوئی اہل فکر اس کو قبول نہ کریگا۔ )ف( بعض مسلمان کہا کرتے ہیں کہ دیکھو ہ� کیسے ص��لح ک��ار ہیں ہم��ارا یہ اعتقاد ہے امنت باللہ وملائیکتہ وکتبہ ورسلہ میں ایمان رکھتا ہوں اللہ اور اسکے فرش�توں اوراس کی سب کتابوں اوراس کے سب رس��ولوں پ��ر۔ مگ��ر عیس��ائی م�م��د ص��احب ک��وتان کی حقیقت کے قائ��ل آاپ ص��رف قب��ول نہیں ک��رتے ہیں دیکھ��و یہ کیس��ا مغ��الطہ ہے ہوتے ہیں پر ان کی اطاعت سے منع کرتے ہیں ہمیں کہتے ہیں کہ ت� م�مد ص��احب کی حقیقت کے بھی قائل بنو اوران کی اطاعت بھی کرو کی�ا عم�دہ حیلہ س�ے ہمیں

پیغمبروں کی سنگت سے الگ کیا چاہتے ہیں۔

واض��ح ہ��و کہ مس��لمانوں کے اس عقی��دہ میں بھی بہت س��ے خ��وف خط��رےیی کس��ی مس��لمان س��ے پ��وچھے کہ کی��ا ت��ونے واق��ع ہیں اگ��ر ع��دالت کے دن خ��دا تع��ال میرے پیغمبروں کو نہیں پہچانا ت��و وہ کہہ س��کتاہے کہ بے ش��ک میں انہیں جان��ا کہ وہتان پر عمل نہیں کیا برحق ہیں اورتیری سب کتابوں کو بھی برحق سمجھالیکن میں نے میں نے پیغم��بروں ک��و اور کت��ابوں ک��و دی��دہ ودانس��تہ پہچ��ان ک��ر چھ��وڑ دی��ا دیکھ��و یہ شخص اقرار کرتاہے کہ میں پ�ورا س��رکش ہ��وں میں نے ج��ان لی��ا ت�وبھی عم�ل نہ کی��ا اب

اس شخص کے پاس کیا عذر ہے۔آان ک��و تان کتابوں کو منسوخ سمجھا تھا اور قر البتہ ایک عذر ہے کہ میں نے یی اس ک��و ی��وں قائ��ل ناس��خ جان��ا تھ��ا م�م��د ص��احب کے ارشادس��ے۔ لیکن خ��دا تع��ال کرسکتاہے کہ کیا میں صادق القول اور قدی� وازلی ابدی نہیں ہ��وں کی��ا م��یرا کلام ق��دی� نہیں ہے کیا میں دنیاوی حکام کی مانند اپنے عہد کو بدلا کرتا ہ��وں کی��ا ت��ونے نہیںآاسمان اور زمین جو مخلوق ہیں ٹل سکتے ہیں مگ��ر م��یراکلام ج��و ق��دی� ہے سنا تھا کہ ٹ��ل نہیں س��کتا پھ��ر ت��ونے اس کی نس��بت منس��وخ ہ��ونے ک��ا گم��ان کی��وں کی��ا اگ��ر میں

منسوخ ہوجاؤں تو میراکلام بھی منسوخ ہوسکتاہے پر میں تو قائ� دائ� ہوں۔تان میں کیا صرف م�مد صاحب کے کہنے سے تونے اعتق��اد کی��ا پس ت��ونے کونسی نشانی رسالت کی پائی جس س��ے س��مجھا کہ وہ م��یرے رس��ول ہیں اور کونس��یآان میں دیکھی جس پر تو فریفتہ ہوا کیا صرف لفظی فص��احت معرفت کی بات تونے قرآان س جو سب شعراء کی کلام میں ہوتی ہے اس کے سوا یہ ان ک��ا کہن��ا کہ م��یرے ق��ریی منس�وخ ہ�وا ہے ۔ یہی ای�ک دلی�ل ع�دم نب�وت کی تھی ج�و ت�ونے س�نی سب کلام الہ اوراس پر نہیں سوچا۔ اب بتلاؤ کہ اس عقیدہ والے کے پاس کونسا ع��ذر ب��اقی ہے جس

سے وہ بچے ۔

ایک اوربات ہے کہ م�مد ص��احب نہ ص��رف یہ س��کھلاتے ہیں کہ وہ کت��ابیںتان کے پڑھنے سے بھی منع ک��رتے ہیں دیکھ��و مش�کوات ب�اب الایم��ان منسوخ ہیں بلکہ میں دارمی سے جابر کی روائت یوں لکھی ہے کہ عمر خلیفہ حض��رت کے پ��اس ای��کتچپ کرگئے توریت شریف لائے اورکہا یا حضرت یہ توریت کا ایک نسخہ ہے حضرت تاسے پڑھنے لگا تب تو حضرت کا چہ��رہ غص��ہ س��ے ب��دل گی��ا پ�اس س��ے اورعمر خلیفہ ابوبکر خلیفہ نے عمر کو خطاب کرکے یوں کہا تجھے روویں مات� کرنے والایاں یعنی تو مرجاے پڑھے جاتاہے اور رسول اللہ کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تب عمر نے حضرت ک��ا چہرہ بدلا ہوا دیکھا اور ڈر کرکہا خدا اور رسول کے غصہ سے خدا کی پناہ ہ� راضی ہوئے اللہ سے کہ وہ ہمارا رب ہے اور اسلام سے کہ وہ ہم��ارا دین ہے اورم�م��د س��ے کہ وہ ہم��ارے رس��ول ہیں تب حض��رت ب��ولے کہ مجھے اس کی قس��� جس کے ہ��اتھ میںیی تمہ��ارے س��امنے ہوت��ا ت��و ت� مجھےچھ��وڑ ک��ر اس کے تابع��دار م��یرانفس ہے اگ��ر موس��یی جیتا رہت��ا اور م�یرا وقت پات��ا ت��و م��یرا ہوجاتے اورگمراہ ہوتے سیدھی راہ سے اور اگر موس

تابعدار ہوتا۔آان ح��دیث ک��و اس ح��دیث س��ے علم��اء م�م��دیہ یہ ن��تیجہ نک��التے ہیں کہ ق��ر

یی اورحکماء کی کتابوں پر رجوع کرنا منع ہے۔ چھوڑ کر یہود اور نصار اور میں یہاں سے یہ نتیجہ نکلتا ہوں کہ م�مد صاحب جو توریت ، انجیل ،تاس��ی خ��دا کےکلام کےپڑھ��نے اورس��ننے س��ے نف��رت زب��ور کوخ��داکلام بتلاتے ہیں اورپھ��ر رکھتے ہیں تو ض��رور یہ خ��دا کے رس��ول نہیں ہیں ورنہ اپ��نے بھیج��نے والے کےکلام س��ے

انہیں بعض نہ ہوتا ۔ اگر کوئی کہے وہ کتابیں منسوخ ہیں اور عدم نسخ کی دلیل بالا پ��ر ت��وجہ نہآای��ات آان میں کس ق��در کرے تو ہمارا یہ جواب ہے کہ اگربالفرض ایسا ہے تودیکھو کہ قرتان کے پڑھنے سے حضرت منسوخہ موجود ہیں جنہیں حضرت نے خود منسوخ کیا ہے

تانہیں خ��ارج نہیں ک��رتے آان سے خ��ارج کی��وں نہ کی��ا اگ��ر نے کیوں منع نہ کیا اورانہیں قرتتب مقدس��ہ ک��و آان کے س��اتھ ک اورنماز میں بھی پڑھ��تے ہیں ت��و انہیں بھی پڑھ��و بلکہ ق��ر

بھی مجلد کرو۔تان میں ت�ریف ہوگ�ئی ہے تواس�کا ثب�وت پیش کرن�ا چ�اہیے اورم�م�د اورجو کہ صاحب تو توریت شریف میں ہرگز ت�ری��ف لفظی کے قائ�ل ہی نہیں ہیں دیکھ��و تفس��یر فوز الکبیر جومسلمانوں نے بمبئی میں چھاپی ہے اس میں درمی��ان مخاص��مہ کے یہ��ودآان بک��ارمے کی نس��بت یہ عب��ارت لکھی ہے)ام��ات�ریف لفظی درت��رجمہ ت��وریت وامث��ال

بروندنہ دراصل پیش این فقیر این چنیں م�قق شد ہو تو قول ابن عباس۔ یعنی ابن عباس کے قول سے مجھ فقیر ک�و )مول��وی ولی اللہ م���دث دہل�وی پ�در مول��وی ش��اہ عب��دالعزیز ص��احب ک�و( یہ ث��ابت ہ��واہے کہ اص��ل ت��وریت میں ت�ری��ف

نہیں ہوئی مگر ترجمہ میں ت�ریف لفظی یہودی کیا کرتے تھے۔آان کے س��اتھ پس م�مد ص��احب ک�و لازم تھ��اکہ اص�ل ت��وریت ع��بری اپ�نے ق��ر مجلد کرتے اوراس کے پڑھنے سے ناراض نہ ہ��وتے جیس�ے ہ� نے انجی��ل کے س�اتھ تم�ام

کتب الہامیہ سابقہ کو مجلد کیاہے۔ اس کے سوا یہ بات ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک تنسیخ ص��رف بعض احک�امتتب مقدس��ہ منس��وخ ہیں میں ہوتی ہے اورکسی مضمون میں نہیں ہوسکتی بالفرض اگ��ر کیی تو یہ نس�خ ان کے احک�ام کی نس�بت ہوگ��ا نہ ک�ل کت��اب کی نس��بت پس کلام الہ کے قصجات اورخدا کی ذات پاک اورارادے اورعہود کا ذک��ر اور روح��انی ہ��دائیتیں اورتان کے عقیدہ کے موافق معرفت کے بھید جو اس میں بشدت بھرے ہیں وہ سب تو تان بعض احکام کےلئے س��اری پ��اک کت��اب س��ے بغض بھی منسوخ نہیں ہوسکتے پس

یی ہے یہ کونسی انصاف کی بات ہے۔ رکھنا اورپھر یہ بھی کہنا کہ یہ برحق کلام الہ

تان پ�ر عم�ل نہ ک�رنے والا پس ناظرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ انکا اق��رار ک�رکے اس کی نسبت جس نے نہیں پہچانا زیادہ س��زا کے لائ��ق ٹھہریگ��ا کی��ونکہ یہ اپ��نے ہ��اتھ آاپ کاٹنے ہیں پس یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہ� سب نبیوں پر اور ان کی کت�ابوں پ�ر

تان پر عمل نہیں کرتے خوفناک اور مضر عقیدہ ہے۔ ایمان رکھتے ہیں مگر تان کی کت��ابوں کی بہت ع��زت کی ہے سیدنا مسیح نے اگلے پیغمبروں کو اور اور توریت ش��ریف کی نس��بت فرمای��اکہ اس ک��ا ای��ک شوش��ہ نہ ٹلیگ��ا اورپول��وس رس��ول نے گواہی دی کہ سارا نوشہ الہام سے ہے اورانسان کی بہتری کے لئے شروع سے مسی�ییی س�مجھا اور جماعت نے سارے پیغمبروں کی کت��ابوں ک��و انجی��ل کے براب��ر کلام الہ سارے پیغمبروں کی سب کتابوں کو انجی��ل کے مجم��وعہ کے س��اتھ ای��ک جل��د میںآاج ت��ک جس مل��ک میں یی کا وسیلہ جانا اور باندھ کر ایمان اور عبادت اور قربت الہ جاتے ہیں سارے پیغمبروں کی کتاب ک��ا مجم��وعہ پیش ک�رتے ہیں کہ یہ اللہ ک��ا کلام

ہے دیکھو یہ راستی ہے یا وہ راستی ہے جو م�مد صاحب نے سکھلائی ہے۔ البتہ م�مدیوں میں اور عیسائيوں میں اس معاملہ کے درمی��ان ای��ک ف��رق ہے وہ یہ ہے کہ عہدجدی��د کی تعلی� پ��ورا علاقہ رکھ��تی ہے عہ��دعتیق کی تعلی� س��ے کی��ونکہ ایک ہی مصنف اس مجم�وعہ ک�ا ہے۔ مگ�ر م�م�دی تعلی� اس مجم��وعہ س��ے کام�ل جدائی رکھتی ہے اوراس کے سامنے اس کی روشنی تاریک ہوجاتی ہے اس ل��ئے وہ اس ک��و دور دور ک��رتے ہیں اورم�م��د ص��احب ج��انتے ہیں کہ اس مجم��وعہ کی ہ��دایتوں کےآادمی کے دل میں ٹھہ��ر نہیں س��کتا ہے اس ل��ئے اس کے پڑھ��نے س��ے روک��ا آان سامنے قر

آایا۔ اورخدا کاکلام سن کے غصہ تان کے یی کے پڑھ�نے س�ے ڈرتے ہیں مگ�ر عیس�ائی تان کےآاج ت�ک مس�لمان کلام الہ یی کے پڑھ�نے س�ے ڈرتے ہیں مگ�ر عیس�ائی آاج ت�ک مس�لمان کلام الہآان سے نہیں ڈرتے خوب پڑھتے ہیں خیالات وہی درست ہیں ج��و کس��ی کے اکھ��اڑنے آان سے نہیں ڈرتے خوب پڑھتے ہیں خیالات وہی درست ہیں ج��و کس��ی کے اکھ��اڑنےقر قر س��ے اکھ��ڑنہ س��کیں اوریہ کی��ا ب��ات ہے کہ وہ ب��ات نہ س��نو تب یہ ب��ات ق��ائ� رہیگی ۔س��ے اکھ��ڑنہ س��کیں اوریہ کی��ا ب��ات ہے کہ وہ ب��ات نہ س��نو تب یہ ب��ات ق��ائ� رہیگی ۔

صاحب خدا کا دین وہی ہے جو سب کچھ س�ننے کے بع��د بھی ق�ائ� رہت�اہے مس�ی�یصاحب خدا کا دین وہی ہے جو سب کچھ س�ننے کے بع��د بھی ق�ائ� رہت�اہے مس�ی�ییی ییلوگ تمام جہان کے مذہبوں کی کتابوں کو پڑھ��تے ہیں اورس��ب اع��تراض ج��و کلام الہ لوگ تمام جہان کے مذہبوں کی کتابوں کو پڑھ��تے ہیں اورس��ب اع��تراض ج��و کلام الہ

پر ہوتے ہیں سنتے ہیں توبھی قائ� ہیں کیونکہ یہ خدا کا دین ہے۔پر ہوتے ہیں سنتے ہیں توبھی قائ� ہیں کیونکہ یہ خدا کا دین ہے۔

تیسری فصلتیسری فصلآان کے بیان میں آان کے بیان میںقر قر

آان خ��دا ک��ا کلام ہے ج��و مجھ حضرت م�مد نے یہ بھی تعلی� دی ہے کہ قر پر نازل ہواہے اللہ کی طرف سے لفظ بہ لفظ خدا نے بھیج��ا ہے بعض ع��ال� کہ��تے ہیں کہ عبارت اور مض�امین دون��و خ��دا س��ے ہیں اور بعض کہ��تے ہیں ص��رف مض�امین ق��دیمہ

آان پہلے۱۶خدا سے ہیں اورس��ب جس��� ک��ا ک��ام ہے۔ اتق��ان ن��وع میں لکھ��اہے کہ یہ ق��ر لوح م�فوظ میں تھا وہاں سے سب کا سب یکمشت فرش��تے رمض��ان کےمہی��نے میںآاس��مان دنی��اپر لارکھ��ا اور یہ��اں س��ے آان میں بھی لکھ��ا ہے(اور اس اٹھ��الائے )جیس��ے ق��ر

ب�رس ی�ا۲۰ٹکڑے ٹکڑے ہوکر حسب ض�رورت حض�رت م�م�د پ�ر ن�ازل ہون�ا ش�روع ہ��وا آاتا رہا۔۲۵برس یا ۲۳ برس تک

آان تین دفعہ جمع آان میں لکھاہے کہ قر مظاہر ال�ق جلد دوم کتاب فضایل القرآان�ضرت کے سامنے جمع ہوا تھا مگر ایک جل��د میں نہیں متف��رق ورق��وں ہوا ہے۔ پہلے حول نے ای��ک جل��د میں جم��ع کی��ا تھ��ا۔ پ��ر لکھ��ا گی��ا تھ��ا۔۔۔ دوس��ری ب��ار اب��وبکر خلیفہ ا تیسری بار عثمان نے جمع کیا تھا اور قریش کے م�اورات میں لکھا)اورم�م��د ص��احبآان بھی جلادیا( پ��ر وہی عثم��ان ک��ا جم��ع کی��ا کے عہدکے ورقے اور ابوبکر کا مجلد قر

ہوا اب تک مسلمانوں کے پاس موجود ہے)جس کے م�اورات میں تصرف ہے(۔آان میں ) ( س��ورتیں ی��ا ب��اب ہیں اوراس۱۱۴( پ��ارے ی��ا ٹک��ڑے ہیں اور )۳۰ق��ر

تان س��ب عل��وم پ��ر میں ساری چیزوں کا بیان ہے اور س��ارے عل��وم اس میں ہیں )میں نے مل اسلام نےدکھلائے ہیں غور کئے ہیں یہ ب��ات ہ��ر گ��ز درس��ت آان سے نکال کے اہ جو قر

نہیں ہے کہ اس میں سارے عل�وم ہیں بلکہ س�اری ش��ریعت م�م�دی بھی اس میں نہیںمل اسلام کو اح��ادیث واجم��اع امت اور قی��اس کی بھی ض��رورت ہے ہے اسی لئے تو اہ

آان میں نہیں ہے۔ کیونکہ ساری شریعت قر اور وہ علوم جو لوگوں نے نکال کے فہرست دکھلائی ہے وہ کچھ ب��ات نہیںاا وہ��اں لکھ��اہے ال�ف لام تانہوں نے ایک ایک لفظ کو ایک ایک عل� سمجھا ہے مثل ہے می� کسی نے کہا کہ یہ جبر مق��ابلہ ہے میں نہیں جانت�ا کہ یہ�اں س�ے ج�بر مق��ابلہ کسآای��ا ت��و کس��ی نے کہ��ا کہ وہ��اں تردوں کے مال کی تقسی� ک��ا ذک��ر طرح نکلا پر جب مآای�ا ت�و وہ��اں س��ے عل� طلب نکلا۔ سے عل� حساب نکلا اور جب زیتون وانجیر کا لفظ آان کی عبارت اور فقروں کی تقسی� اور ص��رف ون���واور ص��نائیع ب��دائیع ک��ا اور زیادہ تر قرآائیتیں ہیں اور عورتوں آائیتیں ہیں اور دن کی کون کون ذکر اوریہ کہ رات کی کون کون آائیتیں نازل ہ�وئیں ج�اڑے میں ک�ون ک�ون اور گ�رمی میں کے پاس سوتے وقت کون کون آان کے علوم بتلاتے ہیں اور کون کون نازل ہوئیں ایسی بہت سی باتوں کا مجموعہ کو قرتاس میں ہیں جس مع��نی س�ے اورجس ط��رح پ�ر کہ دعوے یہ ہے کہ ساری دنیا کے علوم آان سے علوم نکلتے ہیں اس طرح سے تو دنیا کی ہر ایک کتاب میں سب جہ��ان کے قر

آاتے ہیں پس یہ بات کچھ جان نہیں رکھتی ہے۔ علوم بھرے ہوئے نظر آان کی نس��بت ہمارا خیال جوہ� خدا کو حاظر وناظر جان کے بے تعصب ق��رآان ای�ک کت�اب ہے م�م�د ص�احب کے ملفوظ�ات عثم�ان نے اس رکھتے ہیں یہ ہےکہ قرآاسمان سے ہر گ��ز ن��ازل نہیں ہ��وا کچھ ب��اتیں حض��رت نے یہودی��وں میں جمع کئے ہیں اور عیسائيوں سےس��ن ک��ر لکھی ہیں اوران کے س��مجھنے میں بھی کہیں کہیں غلطی کھ��ائی ہے اورکچھ اپ��نے مل��ک ع��رب کے دس��تور اورکچھ ق��رب وج��وار کے علاق��وں کےتاس میں درج ہیں اور کچھ اپ�نے دوس�توں کی ص�لاح ومش�ورہ کی ب�اتیں دس�تور اورب�اتیں

اور عورتوں کے ذکر اور لڑائی وغیرہ کی باتیں اور تقسی� اموال لوٹ وغیرہ کی باتیں جوآائیں اس میں لکھی گئ ہیں۔ وقوع میں

یی کے مواف��ق ہیں س��ب درس��ت تاس ساری کتاب میں جو جو ب��اتیں کلام الہمل کت��اب اور ع��وام وخ��واص س��ے معل��وم اوربجا ہیں مگر وہ حض��رت ک��ا الہ��ام نہیں ہیں اہ��تان کی کی اپ��نی ب��اتیں ک��رکے لکھی گ��ئی ہیں۔ پ��ر جوب��اتیں کلام کے خلاف ہیں وہ آان ہیں وہ ایسی کمزور ہیں جو خود ظاہر کرتی ہیں کہ خدا سے نہیں ہیں جب تک قر میں کچھ ایس�ی خصوص��یات نہ دکھلائی ج��ائے جس س��ے اس ک�ا من ج�انب اللہ ہون�اآان ک��امن تان ہم��ارے خی��الات ک��و نہ ت��وڑ ڈالا ج��ائے جن س��ے ق��ر ث��ابت ہ��و اورجب ت��ک آان خ��دا س��ے ہے قب��ول نہیں ج��انب اللہ نہ ہون��ا ث��ابت ہے تب ت��ک اس عقی��دہ ک��و کہ ق��ر کرس��کتے ہیں اور س��ب ن��اظرین پ��ر بھی واجب ہے کہ یہی ط��ور اختی��ار ک��ریں کی��ونکہ جیسے ہر ایک ص�یح عقیدہ ہماری روحوں کو فائدہ بخش ہے اسی طرح ہر ایک باطل

عقیدہ روحوں کو سخت مضر بھی ہے۔ بائبل کی نسبت ہم��ارا اعتق��اد ہے کہ وہ خ��دا ک��ا کلام ہے ہ� نہیں کہ��تے کہ لفظ بہ لف��ظ ک�ا کلام ہے کہیں کہیں خ�دا کے منہ س�ے بھی بعینہ الف��اظ مرق�وم ہیں پ�ر اکثر عبارتیں پیغمبروں کی ہیں مضامین اللہ سے ہیں اوراس مجموعہ کا نہ ایک ش��خصآادمی مص�نف ہے مگ�ر بہت س�ے پیغم�بر اس کے مول�ف ہیں لیکن ای�ک ہی روح ک�وئی تان سب مصنفوں میں بولتی تھی جو متفرق زمانوں میں تھے اورای��ک ہی حقیقی اللہ کے

مطلب پر سب بولتے تھے۔مد جدی��د ک��و آاخر میں مرتب کیا اورکلیسیا نے عہ�� مد عتیق کو عزرا کاہن نے عہ

ترتیب دی اور اختلاف نسخ بھی اب تک موجود رکھی۔ پر اس کلام میں ہ� یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے س�ارے عل�وم بھی بھ��رے ہیںیہی ارادے اور خ���دا کی پوش���یدہ ہ���اں تم���ام روح���انی تعلی� اور زن���دگی کی ب���اتیں اورال

تاس میں م�ذکور ہیں دنی��ا کے س��ب عل��وم اس��ے س��جدہ حکمتیں اور قدرتیں اور انتظ��ام آاکے وہ کلام کھرا ٹھہرتا ہے اوریہی کرتے ہیں اور سب پرکھیوں اور نقادوں کے ہاتھ میں ایک کلام ہے جو خدا کی ساری خدائی کا ثبوت کرتاہے اورانسان کی بہ��تری کی راہ دکھلاتاہے اوربہت سی خصوصیتیں اپنے اندر رکھتاہے جس سے اس کا من جانب اللہ ہونا ظاہر ہوتاہے اوربہت سی طاقتیں بھی اپنے اندر رکھت��ا ہے جس س��ے اپ��نے مخ��الفوںآادمی�وں کی س�مجھ کے کے باط��ل خی��الات ک�و ت�وڑ ڈالت�اہے وہ ہ�ر ای�ک درجہ کے س�اتھ علاقہ بھی رکھت�اہے اورس�ب کے ل�ئے ہ�دائت بخش اور مفی�د ہے وہ ح�دیثوں ک�اتامت کا اور قیاس کا م�تاج نہیں ہے پر خدا کی پ��وری مرض��ی ظ��اہر ک��رنے اوراجمائع پر قادر کلام ہے اوراس ہمارے دعوے کے ثب��وت میں پہلے ت��ویہی کہن��ا ک��افی ہے کہ اس کلام کو خود پڑھ کر دیکھ لو پھر یہ کہ��تے ہیں کہ وہ س��ب تص��نیفات ج��و ص��دہا ب��رس س��ے اس کلام کی خوبی��وں کے اظہ��ار میں ہم��ارے بھ��ائیوں نے لکھی ہیں دیکھ��وتان کے جواب��وں کے ملاحظہ ک��رو ج��و دش��منوں اوردوس��توں کی تان جملوں پر بھی معہ اور ط��رف س�ے مرق�وم ہیں پ�ر اس س�ب کے س�اتھ دلی انص��اف ش��رط ہے اگ�ر ط��بیعت میں

آادمی جو چاہے کہے۔ انصاف اور حق پسندی نہ ہو تو

چوتھی فصلچوتھی فصلتقدیر کے بیا ن میںتقدیر کے بیا ن میں

یی نے س��ب کی حضرت م�م��د نے یہ عقی��دہ بھی س�کھلایا ہے کہ خ��دا تع��الآاگے مق��رر کی ہیں اوریہ بی��ان آاس��مان کی پی��دائش س��ے پچ��اس ہ��زار ب��رس تق��دیریں زمین تان مشکوات باب القدیر میں عبد اللہ بن عم�ر س�ے مس�ل� کی ح��دیث میں لکھ��ا ہے اوریی یع��نی نیکی اور ب��دی کی تق��دیر کے عقائ��د میں ہے والق��در خ��یرہ وش��رہ من اللہ تع��ال خدا کی طرف س��ے ہے اور اس��ی ب��اب میں مس��ل� س��ے یہ ح��دیث بھی لکھی ہے ق��الآادم نص��یبہ من الزن��ا م��درک لام���التہ لکھ��ا گی��ا ہے خ��دا کی ط��رف س��ے تتب علی ابن ک

آادمی کا زنا میں ضرور وہ کرے گا پھ��ر اس��ی ب��اب میں ابی ال��درداء س��ے روائیت حصہ ہے ان اللہ عزوجل فرغ الی کل عبدمن خلقہ من خمس من اجلہ وعملا ومضجعہ واث��ر ہ ورزقہ خدا فارغ ہوچکا ہر بندہ کی نسبت پانچ باتوں میں موت عمل جائے سکونت اور پھ��رنے کی جگہ اور رزق میں اوراس عقی��دہ کے م��اننے کی ایس��ی تاکی��د ہے کہ منک��رمن عم��ر س��ے تق��دیر س��ے مع��املہ رکھن��ا بھی مس�لمانوں ک�و ناج��ائز ہے۔ اس��ی ب�اب میں ابتامت کے مجوسی ہیں اگ��ر وہ روائت ہے فرمایا حضرت نے تقدیر کے منکر لوگ میری تان کی لاش کے ترس�ی نہ ک�رو اورج�و مرج�ائیں ت�و تان کی بیم�ار پ وہ لوگ بیم�ار ہ��وں ت�و

ساتھ مت جاؤ۔ پھر اس تقدیر کے مق��دمہ میں حض�رت م�م�د نے ب�ث ک�رنے ک�و بھی من�ع

کیا ہے۔ مل اسلام میں نسبت اور تعلیمات کے زیادہ پائی ج��اتی اس تعلی� کی تاثیر اہتامی�د کے یی میں ی�وں ہی تھ��ا اورہ��ر ہے ہر مص�یبت کے وقت وہ کہ�تے ہیں کہ تق�دیر الہ ساتھ کہتے ہیں کہ اگر تقدیر میں ہوگا تو ملیگا اورب��دی ک��رکے کہ��تے ہیں کہ خ��دا نے

یہ کرنا ہماری قسمت میں لکھا تھا۔ اس عقیدہ میں کچھ کچھ تو سچائی ہے اورکچھ کچھ غلطی ہے بلکہ ب��ڑیآایاہے ہ� بھی م�مد غلطی بھی ہے خدا کی کلام میں بھی تقدیر کا ذکر کہیں کہیں ص��احب کے س��اتھ اس مع��املہ میں متف��ق ہیں کہ تق��دیر کے ب��ارہ میں ب�ث کرن��ا اچھ��ا نہیں ہے کیونکہ یہ خ��دا کی پوش��یدہ حکمت س��ے متعل�ق ہے اورہ� اس کی دان�ائی کی اوراس کے پوشیدہ انتظاموں کو دریافت نہیں کرس�کتے اس ل�ئے اس میں فک�ر کے بع��د

فائدہ نہیں شائد کچھ نقصان ہوجائے۔ تو بھی کوئی قول فیص�ل اس مع��املہ میں بولن��ا مناس�ب ہے س�و معل�وم ہوج��ائےتاس تق��دیر پ��ر ج��و بائب��ل کے بعض مقام��ات س��ے ث��ابت ہ��وتی ہے غ��ور کی ہے کہ ہ� نے

آان ح�دیث میں م�م�د ص�احب س�ے بی�ان ہ�وئی تاس تقدیر پر بھی فکر کیا ہے جو ق��ر اور ہے اور ان دون��وں میں بہت ہی ف��رق پای��ا ہے اور دون��وں بی��انوں کی ت��اثیریں بھی مختل��فآاتی ہیں اس ل�ئے ہ� کہ�تے ہیں کہ م�م�د ص�احب ک�ا بی�ان ط��ورپر دونوفرق�وں میں نظ��ر تق��دیر کے ب��ارہ میں کچھ زی��ادتی کے س��اتھ ہے اور بعض ایس��ی زی��ادتی ہے ج��و خ��دا کی ذات پاک کولائق نہیں ہے البتہ ہمیں یہ معل��وم ہوت��ا ہےکہ جن ام��ور میں مط��البہ اورترے منصوبے وہ ہر گز خدا کی طرف سے مواخذہ ہے یعنی انسان کے بد اعمال اورب نہیں ہیں انسان کی طرف سے ہیں کیونکہ انسان فعل مختار پی��دا کی��ا گی��ا ہے وہ اپ��نےیی تق��دیر ک��ا مجب��ور نہیں ہے اگ�رچہ ق��درت اعم�ال کی خ�دا کی ط��رف اعم��ال میں الہتاس ک��ا اس��تعمال اس کے اختی��ار میں ہے اوراس��ی واس��طے ج��زا اور س��زا سے پائی ہے پر

کے لائق ٹھہرتا۔اا عمر ق��دقامت رن��گ پر جن امور میں مطالبہ اورمواخذہ اورجزاوسزا نہیں ہے مثلتاس میں ش��اکر ہون��ا چ��اہیے )ف(م�م��دی یی تق��دیر س��ے ہیں روپ وغ��يرہ وہ س��ب الہ عالموں نے اس بات میں دھوکا کھای�اہےکہ اگ��ر انس�ان اپ�نے ب�د افع��ال ک��ا خ��الق ہے ت�و خدا کے سوا ایک دوسرا خالق بھی ثابت ہوا حالانکہ ای��ک ہی خ��دا س��ب چ��یزوں ک��ا خالق ہے مگر معلوم کرنا چاہیے کہ خالق وہ ہے جو اپنی قدرت سے کسی چیز کو پیدا کرت�اہے اور جب دوس�رے کی ق��درت مفوض�ہ ک�وہ� بے ط�ورپر اس�تعمال ک�رکے م�رتکب افعال بد کے ہوتے ہیں تو ہ� اپنے افعال کے دوسرے خالق نہیں ہیں مگر مرتکب اج��رام

ہیں اورمرتکب وخالق میں فرق ہے۔آادمی��وں ک��و ہمیش��ہ کی )ف( خدا کے کلام میں لکھ��ا ہے کہ خ��دا نے بعض تچن لی��ا ہے۔ اس��کا مطلب ل��وگ دوط��رح پ��ر س��مجھتے ہیں ک��وئی آاپ زن��دگی کےل��ئے تچن لی���ا ہے نہ ارادے میں یع���نی اس نے اپ���نے ارادہ س���ے انہیں یہ کہت���اہے کہ عل� میں یی مرض��ی حصہ نہیں دیا ہے مگر عل� ازلی سے ج��ان لی��ا ہے کہ فلاں فلاں ش��خص الہ

پر عمل کرکے بہشت میں جائیں گے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ارادے اورعل� دونو سے ( عقی��دوں۳۹چن لیا ہے اوریہ قول زیادہ تر موافق ہے خدا کی کلام کے دیکھو ہمارے )

عقیدوں کو( جو نماز کی کتاب میں خ��دا کی کلام کے مواف��ق لکھ��اہے۱۷میں سے ) اور ضرور بعض عزت کے برتن اور بعض بے عزتی کے برتن��وں کی مانن��د بن��ائے گ�ئے ہیں پر یہ باطنی انتظام خدا کی پوش��یدہ حکمت س��ے علاقہ رکھت��اہے۔ یہ ہماراک�ام نہیں ہےآاگ��اہ نہیں ہیں کہ ہ� خدا کی پوشیدہ حکمت میں ہاتھ ڈالیں جس س��ے فرش��تے بھی ہمارا واجب یہی ہے کہ ہ� خدا کے وعدوں پر بھروسہ رکھیں اور اس کے وعیدسے ڈریں اوراس کی مرض����ی کی اط����اعت اس کے کلام کے مواف����ق اپ����نے ایم����ان اورافع����ال اورخیالات سے ک�ریں۔ نہ یہ ہے کہ وہ ہم�ارا واجب جوہزارہ��ا مق��ام پ�ر کلام میں ص�افتان دس پ�انچ مق��ام کے درپے ہ�وں ج�و ازلی برگزی�دگی کے صاف بیان ہ�واہے چھ��وڑ ک�ر بیان میں ہیں اورسمجھ سے باہر ہیں اگرچہ خداکا باطنی ارادہ ہوکر زی�د ک�و ج��و بیم��ار ہے مار ڈالیگ��ا ت��وبھی ہم��ارا ف��رض ہے ہ� انتظ��ام جہ��ان کے مواف��ق اس کے مع��الجہ میں

قصور نہ کریں۔ م�مدی تعلی� کے درمیان اس تعلی� کے بارہ میں جو ج��و قص��ور ہمیں معل��وم

ہوتے ہیں وہ یہی ہیں ۔ جیسے کہ خدا ساری نیکی کا بانی ہے ویسے ہی م�مد ص��احب خ��دا ک��و تم��ام ب��دیحول ٹھہرت��اہے ج��و ق��دوس ہے اور ک��ا ب��انی بھی ٹھہ��راتے ہیں اس ص��ورت میں خ��دا ش��ریر احول ش�یطان ک�و بتلات�اہے نہ خ�دا ک�و بعض مق��ام بائب�ل میں بھی خ�دا ک�ا ک�اکلام ش�ریر ااا فرع��ون ک��ا تبرا کام کیا مثل ایسے ملتے ہیں جن کے ظاہر سے معلوم ہوتاہے کہ خدانے یہ آادمی دل خ��دا نے س��خت کردی��ا مگ��ر دوس��رے مق��ام اس کی تفس��یر دکھلاتے ہیں کہ جب بدی پ�ر بش�دت راغب ہے اورنیکی ک�و نہیں چاہت��ا ت�و خ�دا اس�ے چھوڑدیت��اہے کہ جس چیز کو وہ پسند کرتاہے اس�ی ک�و ک�رے اورہلاک ہ�و اور ی�وں وہ ب�دی میں زی�ادہ

سخت ہوجاتاہے اسی معنی سے فرعون کی نسبت لکھاہے کہ خ��دا نے اس کے دل ک��وتاس کے دل پر سے اپنی برکت اٹھالی اس لئے وہ اپنی مرغوب ب��دی سخت کردیا یعنی میں مضبوط ہوگیا پر بائبل سے یہ نہیں ثابت ہوتاکہ خدا بدی کا بانی ہے جیسے م�مد صاحب نے یہ لفظ کہ خدا بدی کا بانی ہے ش�رہ کی قی��د س�ے ع��ام خ�اص لوگ��وں کے عقیدہ کا ایک جزقرار دی�اہے اس ص�ورت میں مب�داء ش�رارت خ�دا ٹھہرت�اہے اوریہ اعتق�اد نہایت خطرناک بات ہے اگر اس کو قبول کریں تو خدا کی بے ع��زتی ہ��وتی ہے نہ قب��ول کریں تو م�مدی نہیں رہ سکتے بہتر ہے کہ م�مدی نہ رہیں پ��ر خ��دا کی ع��زت ک��ریں

جس کے ساتھ ہماری زندگی متعلق ہے۔آادمی ک�و ب�دی میں ب�ڑی ج��رات پی��دا ہ��وتی ہے کہ وہ۲) ۔( ایس�ی تق��دیر کی تعلی� س�ے

یی س��ے اس��ے س��مجھ کے اپ��نی روح میں نہ گن��اہ ک��رکے پش��یمان نہ ہوگ��ا اور تق��دیر الہآائیگا۔ رویگا اوریوں ہلاک ہوج

حافظ شیرازی نے اس بات کا ذکر یوں کیاہے۔گناہ اگرچہ نبوداختیار ماحافظ تو درطریق ادب گوش گناہ منست

یعنی اگرچہ گناہ ہمارے اختیار س�ے نہیں ہے خ�دا کی تق�دیر س�ے ہے ت�وبھی تجھے ادب کی راہ سے کہنا چ�اہیے کہ م�یرا گن�اہ ہے۔ یع�نی حقیقت میں ہ� گنہگ�ارآاپ ہی کراتاہے پر ادب کے ل�اظ سے گناہ کو اپنی طرف منس��وب کرن��ا نہیں ہیں اللہ

چاہیے یہ مضمون ٹھیک م�مدی شریعت کے موافق ہے۔یی میں لکھ��ا ہے کہ اگ��ر ت� اپ��نے گن��اہوں ک��ا پ��ورا اور س��چا اق��رار نہ کلام الہاا ہ� نے کروگے تو تمہاری بخشش ہرگز نہ ہوگی اور مراد سچے اقرار سے یہ ہے کہ یقین�� گناہ کیا نہ خدا نے گناہ کیا اور میں ادب س��ے اس عیب ک��و اپ��نے اوپ��ر لیت��ا ہ��وں ت��اکہآاپ خدا کے عیب کو اپنے اوپ�ر لگ�اؤں اوری�وں ریاک��اری کی تعظی� ک�روں۔ اب ن�اظرین ہی انص��اف ک��ریں کہ کی��ا اس تق��دیر کے م��اننے والے پ��ورا اق��رار گن��اہ ک��ا کرس��کتے ہیں

بائبل کے ماننے والے پورا اقرار کرسکتے ہیں اوریہ بات تو تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے کہجب پورا اقرار گناہ کا نہیں ہوتا تو دل گناہ کے بوجھ سے ہلکا بھی نہیں ہوسکتا ہے۔

( یہ تعلی� ان رن��ڈیوں اورکس��بیوں اوزناک��ار لوگ��وں میں ج��و ان ب��د افع��ال میں۳)آاپ کو خدا کی طرف سرگرم ہیں بڑی بڑی تسلی کا باعث ہے وہ سب اس کام کےلئے سے مقرر سمجھ کر اس میں مض��بوطی حاص��ل ک��رتے ہیں گوی��ا خ��دا ک��ا ارادہ بج��الاتے ہیں اوراس طرح شیطان کا مطلب اس تعلی� سے خوب نکلتاہے ہ� نے کئی ای��ک ایس��ے لوگوں سے سنا کہ خدا نے ہمیں اسی ک�ام کےل��ئے پی�دا کی�ا ہے اوریہی م�م��دی تق��دیر

کے ذکر انہوں نے سنائے ہیں۔یی ایسے لوگوں کو سزا دیکے کیا ظال� اورج��ابر۴) ۔( عدالت کے دن خدا تعال

نہ ٹھہریگا اس کی خدائی کی شان کے خلاف ہے کہ اپ��نی تج��ویز کے ک��ام پ��ر کس��یکو سزا دے۔آان ج��و ب��دی س��ے من��ع۵) ۔( اگ��ر یہ س��اری ش��رارت خ��دا ک��ا ک��ام ہے اوریہ ق��ر

تاسی کا کلام ہے تو خدا کے قول اور فع��ل میں مط��ابقت نہیں ہے اور کرنیکا مدعی ہے چ��اہیے کہ ض��رور مط��ابقت ہوجیس��ے تم��ام جہ��ان کے انتظ��ام اوربائب��ل کی ہ��دائتوں میںآانکہ تقدیر وہ��اں ت��ک ص���یح ہے جہ��اں ت��ک خ��دا کی کلام موافقت ہے حاصل کلام سے ثابت ہے مگر اس بارہ میں حضرت م�مد کی زیادتی جو موجب ہلاکت ہے ہرگز

قبولیت کے لائق نہیں ہے۔

پانچویں فصلپانچویں فصلگناہ کی تعریف کیاہےگناہ کی تعریف کیاہے

م�مدی لوگ م�مد ش��رع س�ے ان���راف ک�و گن�اہ کہ��تے ہیں مگ�ر گن��اہ کی میں ی��وں لکھی ہے )کہ ہ��ر ناراس��تی گن��اہ ہے( اور۱۷باب ۵خط ۱کامل تعریف یوحنا

آایت ۳ میں ہے )گناہ عدول شرع ہے( اس تعریف ک�و س�ب ل��وگ قب��ول ک�رتے ہیں۴باب

توبھی اس کے سمجھنے میں " ہمارے اوراہل اسلام کے درمی��ان کچھ ف��رق ہے وہ ل��وگ صرف م�مدی شرع سے ان�راف ک��و گن��اہ ج��انتے ہیں انجی��ل ت��وریت کے ان���راف ک��وآاخ��رین گناہ نہیں جانتے ہیں مگر کلام سے ث��ابت ہے کہ خ��دا نے ای��ک ہی ش��رع اولین ویی پ�ر متف�ق ہیں پس ج�و کے واس�طے مق��رر کی ہے اورس�ارے پیغم�بر ای�ک ہی ش�رع موس�یی ش��رع بائب��ل میں مفص��ل یی شرع کا ان�راف کرتاہے گناہ کرتاہے اور وہ الہ کوئی اس الہ لکھی ہے اوراسکا خلاصہ ہر بشر کی تمیز میں پایا جاتاہے کس�ی نہ کس�ی ق�در ص�دہا برس سے جس شریعت کو سب پیغمبروں نے پیش کی��ا اورجس س��ے ان���راف ک��و گن��اہ بتلایا اب حضرت م�مد اس کے ان�راف کو کہ��تے ہیں کہ گن��اہ نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ اسے چھوڑیں اور حضرت کی نئی شرع کو قبول کریں اس بات کو ک��وئی بیفک��ر

آادمی قبول کرسکتاہے۔

چھٹی فصلچھٹی فصلگناہ کا سرچشمہ کہا ں ہےگناہ کا سرچشمہ کہا ں ہے

م�مدی شریعت میں گناہ کا سرچش�مہ منب��ع جس کے س�بب دنی�ا میں گن�اہیی کو بتلایا ہے کی��ونکہ ش�راس کی ط��رف س�ے ہے جس ک�ا ذک�ر تق��دیر کے آایا خدا تعال بیان میں ہوچک�ا ہے پ�ر خ��دا ک�اکلام ی�وں کہت�اہے کہ خ�دا پ��اک ہے اور ش�ریر اول ای��کآاپ گناہ کیا خدا ک��و روح ہے جس کو شیطان کہتے ہیں اس نے قدرت اختیاری پاکے آادمی��وں کے تاس��ے کام��ل س��زا ملیگی اور اس کے کاموں سے نفرت ہے ع��دالت کے دن آای��ا۔ اب دیکھ ل��و کہ ج��و اص��ولی ب��اتیں تاس��ی ش��یطان س��ے گن��اہ آادم کے درمیان بوس��یلہ دین���داری کی ہیں ان میں خ���دا کی کلام کے س���اتھ م�م���د ص���احب کی کس ق���در

اا بھی حضرت کی یہ باتیں قبولیت کے لائق نہیں ہیں۔ مخالفت ہے اورہر گز عقل

ساتویں فصلساتویں فصل

گناہ کے اقسامگناہ کے اقسام م�مد صاحب نے گناہ کی کئی ایک قسمیں بتلائی ہیں کفر ، شرک ،فی��قتاس کے کسی س��چے پیغم��بر تاس کے کلام کا یا ، نفاق، کفر کےمعنی ہیں خدا کا یا کا انکار کرنا۔شرک ہے خدا کی ذات یا ص�فات میں کس�ی ک�و ش�ریک کرن�ا۔ ف�ق ہے زنا چوری جھوٹ وغیرہ ب�دی کرن�ا۔ نف��اق ہے ظ��اہر میں ایمان�دار پ�ر ب�اطن میں بے ایم�ان

رہنا۔ پھر م�م�د ص�احب نے گن�اہ کے دو حص�ے ک�ئے ہیں ص�غیرہ اورکب�یرہ یع��نی چھوٹا اوربڑا گناہ ۔ یہ تقسی� حضرت کے پیغمبروں کے بیان س�ے مخ��الف نہیں ہے اوریہ س��ب بی��ان حض��رت ک��ا درس��ت ہے اوریہ الف��اظ تقس��ی� بھی لوگ��وں کے م���اورے میں حض��رت کی پی��دائش س��ے پہلے ع��رب میں ج��اری تھی اور ہ��ر معل� دین کی تعلی� میں

ایسے م�اورات بولنے ضرور پڑتے ہیں۔

آاٹھویں فصلآاٹھویں فصلآایا خدا کو گناہ سے نفرت ہے یا نہیںآایا خدا کو گناہ سے نفرت ہے یا نہیں

آان میں بیان کیا ہے کہ خدا کو گناہ سے نفرت ہے چنانچہ کافرین حضرت م�مد نے قر مش��رکین اورمن��افقین س��ے وہ م�بت نہیں رکھت��ا تعجب کی ب��ات ہے کہ جب وہ خ��ودآاپ کراتاہے تو پھر ب��دی کے مظہ��روں س��ے کی��وں نف��رت بدی کا بانی ہے اورساری بدی آان میں ہے اس کے س��وا مش��کوات ب��اب الاس��تغفار میں کرت��اہے یہ حقیقی تن��اقض ق��ر مسل� کی روائت ابو ہریرہ سے یوں لکھی ہے والذی نفس�ی بی�دہ ل�ول� تذنبوال�ذ ھب اللہ بک� ولجا بق��ومہ ی��ذبنون فیس��تغفرون واللہ فیتغف��ر لھ� مجھے اس ش��خص کی قس��� جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے اگر ت� گن�اہ نہ ک�رو ت�و خ�دا ض�رور تمہیں نیس�ت کریگ�ا اور

ایک ایسی ق��وم پی��دا کریگ�ا ج�و گن�اہ ک�رکے خ�دا س�ے مع��افی م�انگیگی اور خ�دا انہیںبخشدیگا۔

پھر بخاری ومسل� کی ص�یح حدیث ابوہریرہ س��ے اس��ی ب��اب میں ی��وں ہے ۔ آادمی گناہ کرتاہے پھر کہتاہے کہ اے رب میں نے گناہ کیا تو مع��اف ک��ر خ��دا کہت��اہے کہ یہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی خدا ہے جو گناہ بخش�نے اور مواخ�ذہ ک��رنے پ�ر ق��ادر ہے اس لئے خدا بخشدیتا ہے وہ پھر کرتاہے اورس��ی قاع��دہ س��ے بخش��والیتا ہے پس اس��ی

طرح جب تک اس کا دل چاہے گناہ کرکے بخشوالیا کرے۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ اسے گناہ سے بڑی نفرت نہیں ہے بلکہ گناہ ک��رکےتاسے پسند ہے یہ بیان درست نہیں ہے ۔ خدا کو گناہ سے پوری نفرت ہے معافی مانگنا اس نے گناہ کے سبب طوفان بھیج کر س��اری دنی��ا ک��و ای��ک ب��ار غ��رق کردی��ا تھ��ا اورابتاس کا قہر بھڑکتاہے ہاں وہ ب��ڑا ہے بخش��ندہ بھی گناہ کےسبب نافرمانی کے فرزندوں پر بھی ہے توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو بخش دیتاہے مگر وہ جن کے گناہ بخشے گئے یوں کہتے ہیں کہ )پس ہ� کیا کہیں کیا گناہ میں رہیں تاکہ فضل زي��ادہ ہ��وہرگز نہیں ہ�

(۔پھر حض��رت۲تا ۱: ۶تو گناہ کی نسبت موئے ہیں پھر کیونکر اس میں جئیں)رومیوں سکھلاتے ہیں کہ یہ طریقہ جاری رہنا چاہیے کہ گناہ کرکے معافی مانگا کریں اور ایس��ا نہ کریں تو خدا ہمیں ہلاک کرکے ایسی دوسری قوم پی��دا کریگ��ا کلام میں لکھ��اہے کہ خدا نے گناہ کے سبب موت بھیجی ہے ۔ حضرت م�مد فرماتے ہیں کہ گناہ نہ ہو توآائے پس اپنے قیام کےلئے ہمیں ضرور ہوگاکہ گناہ کرکے معافی م��انگیں ورنہ ہلاک موت

ہونگے یہ بیان حضرت کا درست نہیں ہے۔

نویں فصلنویں فصلخیالی گناہ کے بیان میںخیالی گناہ کے بیان میں

گناہ کی دو قسمیں ہیں فعلی وخیالی پس ان دونوں قسموں کے گناہ کا بیانتان س�ے دری�افت ک�رنیکے لائ�ق ہے۔ واض�ح ہ��وکہ حضرت م�م�د کی�ا ک�رتے ہیں یہ ب�ات گناہ خیالی کو وسوسہ ی�ا باط��ل منص�وبہ بھی کہ��تےہیں علم�اء م�م�دیہ نے اپ�نی عق��لسے خیالی گناہ کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ہواجس، خواطر ، عوازم، اختیارات ۔

آاتے ہیں یہ وسوس��ے مس��لمانوں کے ہواجس وہ وسوسے ہیں جو اعتبار دل میں تامتوں ک��و بھی مع��اف تھے یع��نی خیال میں سب اہل اسلام کو معاف ہیں اوراگلی سب

خدا اسقس� کے وسوسوں پر کسی کا م�اسبہ نہیں کرتا۔ آاکر دل میں ٹھہرتے ہیں اور خلجان پیدا کرتے ہیں خواطر وہ وسوسے ہیں جو تامت��وں ک�و مع��اف نہ تھے یع��نی اوروں یہ وسوسے صرف م�مدیوں کومع��اف ہیں مگ�ر اور

کا مواخذہ ایسے وسوسوں پرہوگا پر م�مد صاحب کے لوگوں کا نہ ہوگا۔ آاک��ر ٹھہ��ریں اورہمیش��ہ دل میں خلج��ان اختیارات وہ وسوسے ہیں جو دل میں تانکی م�بت اور ل�����ذت بھی پی�����دا ہوج�����ائے یہ س�����ب آادمی کے دل میں رکھیں بلکہ آاویں صرف دل میں رہنے سے مواخ��ذہ مسلمانوں کو معاف ہیں جب تک عمل میں نہ

نہ ہوگا۔تان گن���اہوں کے ک��رنے ک���ا دل میں پی���دا ع���وازم وہ وسوس��ے ہیں کہ پک��ا ارادہ تان کے ک�رنے اس�باب موج�ود نہ ہ�وں اگراس�باب موج�ود ہ�وتے ت�و وہ ش�خص ہوجائے مگ�رتان گن��اہوں ک��و کرت�ا پس ایس�ے وسوس�وں پ�ر مس�لمانوں ک�ا تھ�وڑا س��ا مواخ��ذہ اللہ ض�رور کریگا پوری سزا ان کی بھی نہیں دیگ�ا اس ل��ئے کہ وہ مس�لمان ہیں اس��لام کی رع�ائت

ہوگی۔آات��اہے آادمی کے دل میں واضح ہو کہ یہاں بیان عقلی ہے کیونکہ جو بدخیال تاس��ی ک�و ہ��وا جس آانکھ کے س�امنے س�ے گ�ذرجاتا وہ یا ت�و جھپ��ک کی مانن�د دل کی کہتے ہیں ۔ یا ذرا ٹھہرتا ہے اس کو خواطر کہتے ہیں ی��ا زی��ادہ ٹھہ��ر ک��ر کچھ پ��رورش

پات��اہے اور دل میں ق��ائ� ہوجات��اہے وہی اختی��ارات ہیں اورجب وہ زی��ادہ ق��وی ہ��و کے دل میں مضبوطی کے ساتھ جڑ پکڑ جاتے ہیں تو وہ ع��وازم کھلاتے ہیں ان چ��اروں قس��موں کی نس��بت علم��اء م�م��دیہ کے فت��وے اوپ��ر م��ذکور ہوگ��ئے کہ پہلی قس��� ت��و س��ارے جہان کے لوگوں کو معاف ہے دوسری وتیسری قس� مسلمانوں کو مع��اف ہے نہ کس��ی

اور مگر چوتھی قس� پر تھوڑی سی سزا مسلمان بھی پاسکتے ہیں۔ لیکن مش��کوات ب��اب الوسوس��ہ میں بخ��اری اورمس��ل� کی ص���یح ح��دیث ابوہریرہ سے یوں لکھی ہے کہ ان اللہ تجاوز عن امتی ماوسوست بہ ص��دورھا م�ال� تعم�لآاتے ہیں وہ سب خ��دا تامت کے لوگوں کےد لوں میں جو وسوسے بہ اوتتکل� یعنی میری

تان پر عمل نہ یا جائے یا منہ سے نہ بولے جائیں۔ نے معاف کردئیے ہیں جب تک حضرت م�مد کی عبارت سے ظ��اہر ہے کہ وہ س��ب قس��� کے وسوس��وں کیتامت ک��و مع��اف ہیں تان پر عم��ل نہ کی��ا ج��ائے وہ م��یری نسبت فرماتے ہیں کہ جب تک پس معل��وم ہ��واکہ خی��الی گن��اہ حض��رت م�م��د کی ش��ریعت میں مع��اف ہیں یہ ب��ڑی

خوفناک تعلی� ہے ۔آات��اہے اورپیچھے آادمی کرت��اہے پہلے اس ک��ا خی��ال دل میں دیکھو ہر گناہ جو اس کا ظہور فعل میں ہوتاہے پس وہ بد خیال اس گناہ کی جڑ ہوتی ہے اوراس ک��ا وق��وع وہ درخت ہے جو اس چھوٹے سے تخ� سے پیدا ہوا ہے پس جب کہ گناہوں کی جڑیں اور تخ� مس��لمانوں ک��و بلاوجہ مع��اف ہیں ت��و اس تعلی� س��ے دیکھ��و ش��رارت کی تخ�

ریزی کس قدر کی گئی ہے۔ ( میں لکھا ہے خواہش حاملہ ہوکے گن��اہ پی��دا۱۵: ۱خدا کے کلام )یعقوب

کرت ہے اورگناہ جب تمامی کو پہنچا تو موت کو جنتاہے۔ ( میں ہے انہیں زیالک��اری ک��ا حم��ل ہے اوربیہ��ودگی ک��و۳۵: ۱۵)پھ��ر ای��وب

تان کے پیٹ میں فریب بنتاہے۔ جنتی ہیں اور

تاس�ے پیٹ۱۴: ۷)زبور تاسے بدکاری کی دردلگی اورگن�اہ ک�ا ( میں ہے دیکھو :۱۰، ہوس��یع ۴۰: ۵۹رہ��ا اور جھ��وٹ ک��و جنت��ا ہے اس��ی ط��رح کے مض��امین )یس��عیاہ

(۔ میں بھی ملتے ہیں اور سیدنا مس�یح فرم�اتے ہیں کہ زن�ا ک�ا۴۲تا ۴۱: ۶۔ ورومیوں ۱۳تمج�رم بنات�اہے لیکن حض�رت م�م�د ص�احب ان آادمی ک�و مث��ل زناک�ار کے خی�ال بھی

آادمی کو سزا سے بری کرتے ہیں۔ بدخیالات کو معاف بتلاتے ہیں اوراس پھر اسی ابوہریرہ سے مسل� کی روائیت ہے کہ لوگ حضرت م�مد کے پ��اس آائے اورکہا یا حضرت ہم�ارے دل�و ں میں ایس�ی ایس�ی ب�اتیں پی�دا ہ�وتی ہیں کہ ہ� انہیں زبان پر لانابڑی بھاری بات جانتے ہیں۔ پس حضرت نے فرمایا ذلک صریح الایمان یہ ت��وتانہیں یہ آان�ا ص�ریح ایم��ان ٹھہ�را اور تبری ب�اتوں ک�ادل میں صریح ایمان ہے۔ دیکھ��و جب تعلی� دی گ��ئی کہ س��ب وسوس��ے مع��اف ہیں ت��و وہ ل��وگ دلی گن��اہوں پ��ر کب افس��وستان س��ے کش��تی تان سے توبہ ک��رینگے اور کی��وں تان سے ڈرینگے اورکیوں کرینگے اورکیوں تان سے کشتی کرتے ہیں۔ پس یہ تعلی� حضرت کو قبول کرینگے جیسے مسی�ی لوگ آادمی اس کے س��امنے گنہگ��ار ہیں کرنے کے لائق نہیں ہے خ��دا ق��دوس ہے اور س��ب خیال میں فعل میں قول میں خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ مب��ارک وہ ج��و پ�اک دل ہیں کیونکہ خدا ک��و دیکھیں گے ب��اطنی ق��ربت ج��و انس��ان کی روح اللہ س��ے ہ��وتی ہے اس کے ل���ئے دل کی پ���اکیزگی ض���رور ہے اوردل کی پ���اکیزگی اورکی���ا ہے مگ���ر یہ کہ ص�یح اعتق��اد اوراچھے خی��ال دل میں بس��یں اور ب��د خی��الات ج��و نف��رتی ش��ے ہیں دل

سے نکلیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دلی وسوسوں کو حضرت م�مد بھی گناہ ت��و ج��انتےتامت کا م�اسبہ ایس��ے تامت کو معاف ہیں۔ خدا میری ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ میری گن��اہوں پ��رنہ کریگ��ا ص��رف اس ل���اظ س��ے کہ یہ م�م��دی ل��وگ ہیں اور س��ب دنی��ا ک��اتامت کے لوگ��وں کے تم��ام تان میں ہوگ��ا س��یدنا مس��یح یہ فرم��اتے ہیں کہ م��یری م�اسبہ

تان میں گن��اہ خ��واہ فعلی ہ��وں ی��ا خی��الی عم��دی ہ��وں ی��ا س��ہوی بش��رطیکہ اس کے کہ ص�یح ایما زندہ اور موثر ہوئے اور وہ میری روح میں سے حصہ پائیں تو م�اس��بہ میںآاپ اٹھ��ائی ہے اورمیں نے اپ��نی تان کے گناہوں کی سزا آائینگے اس لئے کہ میں نے نہ تان کے کف��ارہ میں دی ہے یہ ب��ات ق��ول ہوس��کتی ہے کی��ونکہ بادلی��ل دع��وے ہے ج��ان م�مد صاحب کہ��تے ہیں کہ جیس��ی ک��رنی ویس��ی بھ��رنی ہے اور میں کس��ی ک��ا کف��ارہتامت کے گناہوں کا ایک حصہ معاف ہے یہ بات ہرگز قبولیت نہیں ہوں پھر بھی میری

کے لائق نہیں ہے۔

دسویں فصلدسویں فصلتان کی سزا کا ذکر تان کی سزا کا ذکرفعلی گناہوں کے بیان میں اور فعلی گناہوں کے بیان میں اور

آاچکے ہیں ان کا تدارک حضرت م�م��د نے فعلی گناہ وہ ہیں جو عمل میں یہ کیا ہے جو مشکوات کت��اب الایم�ان میں عم�روبن ع��اص س�ے مس�ل� کی روائت ہے۔

تھدم ما کان قبلھ��ا وان ال�ج یھ��دم ماک��ان قبلہة ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ وان الھجراسلام اور ہجرت اورحج اپنے اپنے مقابل کے گناہوں کو گرادیتے ہیں۔

آادمی مس���لمان ہوج���ائے ت���و اس علم���اء م�م���دیہ کہ���تے ہیں کہ اگ���ر ک���وئی کےپیچھلے سارے گناہ خواہ اللہ کے ہوں یا انسان کے س��ب کے س��ب مع��اف ہوج��اتے ہیں ۔ اور بعداسلام کے اگرپھر گناہ کرے تو ہجرت اورحج اورنماز جہادو خ��یرات وغ��یرہ عبادات سے بخشے جاتے ہیں بشرطیکہ یہ سب صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ ہوں اور ج��وآان میں سزا مقرر ہے تو وہ گن��اہ اس س��زا کے اٹھ��انے کبائر یعنی بڑے گناہ ہوں جن پر قر

سے بخشے جاتے ہیں۔ جب کوئی مسلمان مرد یا عورت حضرت کے وقت میں زنا ک��ا م��رتکب ہوت��ا تھا تو حضرت اس کو پتھروں سے مرواڈالتے تھے اور س��مجھتے تھے کہ یہ ش��خص اسآائت ایسی نہیں ہے جس میں پتھروں سے آان میں کوئی سزا سے پاک ہوا ہے۔ مگراب قر

آایت تھی الشیخ والشیختہ اذازنی��ا ف��ار جموھ��ا آان میں یہ مارنے کا حک� ہو لیکن پہلے قرتان ک�و ض��رور البتتہ لک��ا الامن اللہ واللہ عزي��ر حکی� ۔ ب��ڈھا ی��ا ب�ڈھی جب زن��ا ک�ریں ت��و

پتھروں سے مارو یہ اللہ کا عذاب ہے اوراللہ ہے عزیز حکی�۔آان میں تھی اوراب خ��ارج ہے اگرکس��ی ک��و اس ب��ات میں آایت ج��و پہلے ق��ر یہ حول میں دیکھ لے۔ وہ��اں یہ شک ہو تو مظاہر ال�ق جلد سوم کتاب ال�دود کی فص��ل اآائت کی تلاوت موق��وف ہوگ��ئی ہے ت��وبھی حک� اس ک��ا بھی لکھ��ا ہے کہ اگ��رچہ اس باقی ہے اوریہ حک� شخص م�صن کے حق میں ہے یعنی ج�و نک�اح والا ہ��و۔ مگ�ر وہتان کے حق شخص زانی جو جورو والا نہ ہو یا عورت جو خص� والی نہ ہو اور زنا کرے

حول میں ہے ت¤میں وہ حک� ہے ج����و س����ورہ ن����ور کے ا يي من يحزا مني ال يحزا تدوا يوال���� مل جج يحل يفا ت§دد مح يما يوا ت© جن حم ي¤ م يئ دة مم يد جل زن��ا ک��رنے والی ع��ورت اور زن��ا ک��رنے والے م��رد کے س��و س��ويج

تان پر رح� نہ کرو۔ ایس��ے شخص��وں کے حض��رت سوس��و ک��وڑے م��ارا ک��رتے کوڑے مارو تھے اورایک ماہ کے لئے شہر سے بھی خارج کردیا ک��رتے تھے پھ��ر ان س��و ک��وڑوں میں

بھی تفات ہے انسان کی طاقت کے موافق سخت یا نرم سزا دی جاتی ہے۔ شرح سنہ وابن ماجہ کی روایت سعید بن س��عد س��ے اس��ی ب��اب میں ی��وں ہےآادمی کسی لونڈے سے زنا کرتا ہوا پکڑ گیا اور حضرت کے سامنے لای��ا کہ کوئی بیمار تاس کے ایک گیا حک� ہواکہ ایک کھجور کی لکڑی جس میں سوشاخیں ہوں لے کر

دفعہ ماروتاکہ سو کوڑے کا حک� ادا ہوجاوے۔ پر مرد کے ساتھ جب مرد روسیاہی کرتے ہیں توایسے لوگوں کی سزا مختلف ہے ابن عباس کی روائت اسی باب میں یوں ہے کہ حضرت نے فرمای��اکہ ج��و ک��وئی ق��ومآادمی��وں لوط کے سے کام کرے وہ ملعون ہے۔ اورایک روائت میں ہے کہ علی نے ایس��ے آاگ میں جلادیا تھا اورابوبکر نے ایسے لوگوں پر دیوار کرادی تھی۔ اورجانور س��ے زن��ا کو

کرنے والے کو بھی سزادیتے ہیں۔

آایت ۶چور کی وہ سزا ہے ج��و مائ��دہ کے تق میں ہے ۳۸ رک��وع کی مر يحسا يوالت¤ يق مر يحسا جا يوال تعو يط جق يما يفا ت© يي مد جي چ���ور م���رد اور چ���ور ع���ورت کے ہ���اتھ ک���اٹ ڈال���و پسيªا

م�مدیوں میں حضرت کی ایک حدیث کے موافق دس درہ� تک کی چوری پ�ر ہ��اتھتہنی ت�ک کاٹے جاتے ہیں۔ جلالین میں لکھاہے کہ ای�ک ب�ار ک�وئی چ�وری ک�رے ت�و ک دہنا ہاتھ کا ٹا جائے دوسری بار چوری کرے تو بایاں پیر گھٹنے ت��ک کاٹ��ا ج��ائے۔ پھ��ر بھی اگر وہ چوری کرے تو جابر کی حدیث موجود ہے جو مشکوات باب قطع الس��رقہآادمی کو میں لکھی ہے کہ حضرت نے مارڈالنے کا حک� دیا ہے راوی کہتاہے کہ ایک

ہ� نے اسی طرح کنوئیں میں ڈال کر پتھروں سے مارا تھا۔آان حدیث میں دیکھ کر جب ہ� توریت شریف کی طرف دیکھ��تے یہ باتیں قرتجرموں کے لئے کچھ سزا ئیں وہاں پ��ر بھی لکھی ہیں مگ��ر ہیں تو معلوم ہوتاہےکہ ایسے یی کی مع��رفت خ��دا کے ک��ئے ہ��وئے مل��تے ہیں مد ع��تیق میں دوقس��� کے انتظ��ام موس�� عہتایسے ملکی اورظاہری انتظام جو ظاہری بادشاہت سے علاقہ رکھتاہے اور اسی کے لئے آادمی��وں کی روح��وں کی ترم��وں پ��ر ایس��ی س��زائیں مق��رر ہیں دوس��را روح��انی انتظ��ام ج��و ج پ��اکیزگی اوربہ��تری کےل��ئے ملکی انتظ��ام س��ے مل��ک ک��ا بندوبس��ت تھ��ا اور روح��انی انتظام س��ے روح��وں ک��ا بندوبس��ت تھ��ا ملکی انتظ��ام کے ل��ئے ایس��ی س��زائیں مق��رر تھیں روحانی انتظام کے لئے قربانیاں مقرر تھیں پس گن��اہوں کی مع��افی خ��دا کے حض��ور میں قربانیوں کے وسیلہ سے حاصل کی جاتی تھی نہ انتظ��امی س��زاؤں کے وس��یلہ س��ے جب یہودی��وں کی س��لطنت ج��اتی رہی ت��و وہ س��زائیں بھی اس کے س��اتھ اڑگ��ئیں جب وہتان پ��ر واجب آاوارہ ہوئے تو صرف روحانی انتظام گناہوں کی معافی کےلئے ملکوں میں

تان کی سلطنت کے ساتھ تھیں۔ تان سزاؤں کا اجرجو تھا نہ جب سیدنا مسیح ظاہر ہوئے ت�و انہ��وں نے ص�اف کہ��ا ہے کہ م�یری بادش�اہتآاسمانی اور روحانی ہے اورگن��اہوں کی مع��افی ک��ا اس جہان کی نہیں ہے میری بادشاہت

تاسی پ�رانے انتظ�ام کی اص�ل ہے ج�و م�یرا کف�ارہ ہے۔ پ�ر ظ��اہری انتظام خدا کے سامنے ترد ہیں وہ اپ�نی تجرموں پ�ر ظ��اہری س�زائیں ج�و ہیں وہ بادش�اہوں کے اور ح�اکموں کے س�پتان تان کے مل�ک میں خل�ل نہ واق�ع ہ�و اور تمیز کے موافق انصاف سے عدالت کریں تاکہ مد جدی��د میں یہ بھی بتلای��ا گی��ا کہ س��اری کی سب رعیت امن چین سے رہے اور عہ حکومتیں خدا سے ہیں یہ سب حاک� اور بادشاہ خدا کی طرف س��ے ہیں اور وہ اس��ی

واسطے تلوار رکھتے ہیں کہ بدکاروں کو سزادیں اورنیکوں کاروں کی تعریف کریں۔ حضرت م�مد ضرور اپ��نے عہ��د میں بادش��اہ تھے اورانہیں ض��رور تھ��اکہ اپ��نےتان کی ترم�وں پ�ر ج��و ملک کا انتظام اپنی تمیز کےموافق ک�ریں پس یہ س��زائیں ایس�ے جتان کے مل��ک کے انتظ��ام کےل��ئے تان کے دلی انصاف کے مواف��ق شریعت میں مقرر ہیں ہیں یہاں تک تو ہ� انصاف کی راہ سے قبول کرسکتے ہیں پر ان ک�ا یہ بی��ان کہ گن�اہوںتان س��زاؤں کے اٹھ��انے س��ے اس��لام وحج آال��ودگی ہے وہ س��ب کے س��بب ج��و روح��انی وہجرت وغیرہ نیک اعمال سے خدا کے سامنے حاصل ہوتی ہے یہ بیان ہ� ہر گز قب��ول نہیں کرسکتے اس لئے کہ سب پیغمبروں کے روح��انی انتظ��ام کے خلاف ہے کی��ونکہآال��ودگی ک�ا دفعیہ قرب��انی ک��و بتلاتے ہیں نہ کس��ی اور چ�یز ک�و اوریہ مع��الجہ وہ سب اس لاکھوں روحوں پر موثر بھی پای��ا جات��ا ہے نہ وہ مع��الجہ ج��و حض��رت م�م��د نے نک��الا

ہے۔آادمی��وں پ��ر ف��رض ہے کہ اپ��نے خی��الی اور فعلی گن��اہوں ک��ا ت��دارک اس��ی س��ب زندگی میں جلدی کریں اورجب تک گناہوں کا بوجہ دل پر سے اسی زن��دگی میں دف��عیی برکات کا نزول دلوں میں نہ پایا جائے تب تک ہر گز تسلی نہ پائیں سو نہ ہو اورالہ

یہ بات بدوں مسی�ی کفارہ کے ہر گز نہیں ہوسکتی ہے۔آانے والے غضب اور عدالت کی خ��بر دی جس الہام نے روح بشر کی بقا اور تاس��ی الہ��ام ک��ا ک��ام ہے کہ گن��اہ س��ے ہے اورجس نے گن��اہ کی تش��ریح بھی س��نائی ہے

تانے عہد ن��امہ نے اوراس کے وبال سے بچنے کی راہ بھی بتلادے سونئے عہدنامہ اور پر مسیح کے کف��ارہ ک��و گن��اہوں کی مغف��رت ک��ا ط��ریقہ اللہ کی ط��رف س��ے مق��رر کی��ا ہ��وا بتلایاہے اور صدہا برس سے جب سے کہ یہ راہ ظاہر ہوئی ہے اس کی مومنین باص��فاکی اس ترکیب کی تاثیردلوں میں دیکھی ہے اس لئے ہ� کہ�تے ہیں کہ یہی راہ مغف��رت کی

ہے۔یی کی خ��بر یہ ب��ڑی غلطی ہے کہ روح کی اب��دیت ک��ا خی��ال اور ع��دالت الہ

توالہام سے قبول کی جائے اورگناہ کا تدارک اپنی عقل سے انسان تجویز کرے۔

گیارھویں فصلگیارھویں فصلتبدیل دل کے عقیدہ میںتبدیل دل کے عقیدہ میں

آادمی نی��ک ہوس��کتے ہیں واجب ہے کہ اس بات پر بھی فکر کیا جائے کہ بد یی کی�ا خبردیت�اہے اگ�ریہ ہوس�کتا ہے ت�و آان اوراح�ادیث اورکلام الہ ی�ا نہیں اس ام�ر میں ق�رآان میں ایس��ی کوشش کی جائے اورجو یہ ہو ہی نہیں س��کتا ت��و کوش��ش بےفائ��دہ ہے۔ ق��ر ب��ات ک��ا ذک��ر ص��اف ص��اف نہیں ہے ۔ مگ��ر ح��دیثوں میں مفص��ل بی��ان ہے مش��کوات کتاب الایمان باب عذاب البقر میں احم��د کی روایت ابی ال��درداء س��ے ی��وں لکھی ہے اذا سمعت� بجبل زال عن مکانہ فصہ قوہ واذ اس��تمعت� برج��ل تغ��یر عن خلقہ فلاتص��د ق��وہ فانہ یصبران ماجبل علیہ اگر ت� سنو کہ ایک پہاڑی اپنی جگہ س�ے ٹ�ل گی��ا ت��و اس ب�اتآادمی کا خلق ب��دل گی��ا ت��و اس ب��ا ک��ا ہ��ر گ��ز کو یقین کرلینا پر جب سنو کہ ایک ایک

یقین نہ کرنا کیونکہ انسان اپنی عادت جبلی پر مائل ہوجاتاہے۔تان کے نزدی��ک م���ال ہے یہ��اں س��ے تب��ادرہے کہ انس��ان کے خل��ق ک��ا ب��دلنا آادمی کے عادات اوراخلاق کے دو حص��ے ہیں ای�ک وہ حص��ہ لیکن ایک اوربات ہے کہ ہے جو ترکیب عناصر سے کچھ علاقہ رکھتاہے دوس��را حص��ہ وہ ہے ج��و ت�ص��یل اش��یاء خارجہ سے متعلق ہے اگر یہ حدیث پہلے حصہ کی نسبت ہے تو شائد اس میں کچھ

تاس میں ب�ڑی حجت ہے اور ہرگ��ز س��چائی ہ��و اور ج�و دوس��رے حص��ہ کی نس��بت ہے ت��و سچائی نہیں ہے پر ظاہر ایسا ہے کہ دوسرے ہی حصہ کی نسبت حض��رت نے یہ فرمای��ا

ہے دووجہ سے ۔حول یہ ہے کہ ایک اور حدیث اسی معاملہ میں صاف صاف وارد ہے ج��و وجہ ا مشکوات باب الاعتصام میں مسل� کی روائت ابوہریرہ سے ہے کہ الناس معادن کمعادنآادمی ایس��ے الذھب والفضتہ خیارھ� فی الجاھیلتہ خی��ارھ� فی الاس��لام اذا فقھ��ا ت��رجمہ: ہیں جیسی چاندی سونے کی کانیں ہ��وتی ہیں ج��و ل��وگ ح��الت کف��ر میں اچھے ہیں وہ

حالت اسلام میں بھی اچھے ہیں جب سمجھ جائیں۔تان کی عادات پر حملہ نہیں کرس��کتا بلکہ اگ��ر وہ اچھے ع��ادات یعنی اسلام ترے ع��ادات لے ک��ر آائے ہیں ت��و اس��لام میں بھی اچھے ہیں اورج��و ب�� لے ک��ر اس��لام میں تبرے ہیں بہ سبب اپنی جبلی ع��ادت کے دوس��ری آائے ہیں تو اسلام میں بھی اسلام میں آان سے بھی ث�ابت ہوت�اہے کہ حض�رت م�م�د س�ب ع��ادات کی نس�بت وجہ یہ ہے کہ قرآان میں لکھا ہے م�م�د بلکہ خاص دوسرے حصہ کی نسبت ایسا فرماتے ہیں چنانچہ قرتان الرسول اللہ والدین معہ اشدء علی الکفاررحماء بینھ� م�مد رسول اللہ اور وہ لوگ جو آاپس میں ایک دوسرے پر رح� کرتے کے ساتھ ہیں کافروں پر سختی کرنے والے ہیں اور

ہیں۔تان کے س�اتھیوں کے اخلاق ک�ا ذک�ر ہے یہاں حض��رت م�م�د کی ع��ادت اورتان میں ہے جو سب دنیاداروں اورجس��مانی م��زاج لوگ��وں میں ہ��وتی ہے کہ کہ وہی عادت یی ع��ادت یہ نہیں ہے وہ اپن��ا اپنے لوگوں کو پیار کرنا اور مخالفوں ک��و دکھ دین��ا مگ��ر الہتبروں پر چمکاتا ہے اور ہر زمین پر مینہ برساتاہے اور سب پر مہرب��ان ہے سورج سب بھلوں مسی�ی دین اس عادت کو پہلے حص��ہ میں داخ��ل نہیں س�مجھتا بلکہ دوس��رے حص��ہتاس کی تب��دیل کی کوش��ش میں ہے بلکہ اس��ے ب��دلواتا ہے حض��رت میں ق��رار دیت��ا ہے اور

م�مد فرماتے ہیں کہ میرے اور میرے مس��لمانوں کی یہ ع��ادت نہیں ب��دلی تب ص��افتان کی عام اخلاق ہیں نہ صرف پہلا حص��ہ اس ل��ئے ہ� معلوم ہوگیا کہ اخلاق سے مراد آادمی کے اخلاق کی تبدیل ہی کے قائل نہیں اس صورت آان اورحدیث کہتے ہیں کہ قر

میں اسلام سے کیا فائدہ ہے۔ شائد کوئی کہے کہ اگریہ مطلب ہے توپھر حضرت کا ہ��دائت کرن��ا بے فائ��دہ ہے اور س��ب پیغم��بروں ک��ا ہ��دائت کرن��ا بھی بے فائ��دہ ہوگ��ا س��و ج��واب یہ ہے کہ س��ب پیغمبر تبدیل اخلاق کے قائل ہیں اس لئے ان کا ک�ام بے فائ�دہ نہیں پ�ر ض�رور حض�رت م�مد جو تب�دیل اخلاق کے قائ��ل نہیں ہیں ان ک�ا ک��ام بے فائ�دہ ہوگ��ا پ�ر وہ ی�وں کہہآائے ہیں انہیں کے ل��ئے ج��و بھلے ہیں لیکن س��کتے ہیں کہ ہ� ازلی برگزی��دوں کے ل��ئے خدا کا کلام کہت�اہے بھلے چنگ�وں ک�و حکی� کی ح�اجت نہیں ہے اس ل�ئے حض�رت

کے افعال اور اقوال میں تناقض حقیقی ہے۔ سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ جب تک ک�وئی ن��ئے س��رے س�ے پی��دا نہ ہ��و خ��دا

آایت میں نہ ص��رف تب��دیل ک��ا۳: ۳کی بادشاہت میں داخ�ل نہیں ہوس��کتا )یوحن��ا ( اس یی ق��درت۳: ۱پطرس ۲امکان مگر وجوب بیان ہواہے پھر ) ( میں لکھاہے کہ اس کی الہ

تاس کی پہچان سے نے ہمیں سب چیزیں جو زندگی اور دینداری سے علاقہ رکھتی ہیں عنائت کیں جس نے ہ� کو جلال اورنیکی سے بلایا جن کے وس��یلہ نہ��ایت ب��ڑے اورتاس زن�دگی س�ے ج�و دنی�ا میں تان کے وس�یلے قیمتی وعدے ہ� س�ے ک�ئے گ�ئے ت�اکہ

یی میں شریک ہوجاؤ۔ تری خواہش کے سبب سے چھوٹ کے طبیعت الہ ب اس کے بع��د س��یدنا مس��یح کے ش��اگردوں کے واقع��ات دیکھ��نے س��ے ص��افآادمیوں میں تبدیل ہوگ��ئی ہے بلکہ عیس��ائی ہ��ونے ک��ا مطلب یہی ہے ظاہر ہے کہ لاکھوں کہ تبدیل ہوگئی۔ اس کے بعد چونکہ خ�دا کے کلام میں نہ ص�رف تھ�وڑا س�ا تب�دیل ک�اتاس کے سب پہل��و اوراط��وار اور علام��ات ذکر ہے مگر تبدیل مزاج کے سارے مدارج اور

اور بواعث بشدت تسلی بخش ط��ورپر م��ذکور ہیں اورک��ثرت س��ے وہ س��ب نم��ونے ج��ات میں بھی م�ذکور ہیں جن میں تب�دیلی ہوگ�ئی ہے۔ پ�ر دیکھ��و کہ�اں حض�رت م�م�د ک�ا بی��ان اور کہ��اں یہ بیان��ات اورکس ق��در خ��وبی اورتس��لی یہ��اں ہے اورکس ق��در مایوس��ی اور حرم�ان وہ�اں ہے۔ اور عق�ل انس�انی بھی س�وائے تب�دیل دلی کے اور ک�وئی ط�ریقہ انس�انی کی بہتری کا قبول نہیں کرسکتی ہے جس کا حضرت م�مد انک�ار ک�رتے ہیں پ�ر اسآائی جیس��ے کہ اس تان کے فہ� ش��ریف میں نہیں ک��ا س��بب یہی ہے کہ یہ ن��ازک ب��ات

آاتاہے۔ آادمیوں کی سمجھ میں یہ نہیں وقت بھی ہزارہا جسمانی پھ��ر یہ ج�و حض�رت م�م�د نے فرمای�ا کہ پہ�اڑ ک�ا ٹلن�ا خل�ق کے ب�دلنے س�ے آاسان ہے اسی بات کا ذکر سیدنا مسیح نے بھی یوں فرمایا ہے کہ اگ��ر تمہ��ارے درمی��ان رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو پہاڑ کو کہوگے کہ ٹل جا تو وہ ٹ��ل ج��ائے گ��امق انسانی ہیں جن کوم�مد صاحب بھی پہاڑ پہاڑ سے مراد سیدنا مسیح کی وہی اخلا

سے زیادہ بھاری بتلاتے ہیں۔آادمی مجھ��ر ذرا بھی ایم��ان رکھت��اہے اس میں مسیح ک��ا مطلب یہ ہے کہ ج��و اس ایمان کے وسیلہ سے ایسی طاقت پیدا ہ��وتی ہے کہ وہ اپ��نے اخلاق ب��دکے چھ��وڑنے پر قادر ہوجاتاہے جو پہاڑ کے موافق سخت اور نہ ٹل�نے والے معل�وم ہ��وتے ہیں پ�ر اگ�ر وہ چاہے توایمان کے وسیلہ خدا سے طاقت پاکے انہیں چھوڑ سکتا ہے ناواقف لوگ بازاوں میں غریب عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہارے اندر ایمان ہے تونہ پہاڑ مگر صرف یہ ایک اینٹ معجزہ کے طورپر اٹھاکے بتلا ؤ وہ بےفکر لوگ نہیں ج��انتے کہ معج��زے کرنا ہر زمانہ میں کسی قوم ک�ا خاص�ہ نہیں ہے نہ مطل�ق ایم�ان ک�ا نش�ان ہےورنہ معج��زہ معجزہ نہیں رہ سکتا اور وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ پہاڑ سے م��راد اخلاق ہیں پ��ر ابتامی��د ہے کہ ص��احب فک��ر مس��لمان اس بھی��د ک��و بھی ح��دیث ب��الا کے دیکھ��نے س��ے

سمجھیں گے۔

بارھویں فصلبارھویں فصلقیامت کے بیان میںقیامت کے بیان میں

تردے جی آائیگی م����� حض�����رت م�م�����د نے یہ تعلی� بھی دی ہے کہ قی�����امت آاپ انصاف کریگا ترازو رکھی جائے گی لوگوں کے نیک وبداعمال ت��و اٹھینگے اور خدا تان یی بہت س��نیگا اور ان ک��و معہ لے جائینگے ۔ اورحضرت م�م�د کی ب�ات خ��دا تع��التامت کے س��ب س��ے پہلے بہش��ت میں داخ��ل کریگ��ا وہ��اں خوبص��ورت ع��ورتیں اور کی لون��ڈی اور ش��راب اورکب��اب اور س��ب عیش کے س��امان بخ��وبلی ملیں گے۔ لیکن ش��ریر مسلمان معہ کافروں کے دوزخ میں جائینگے اورکچھ عرصہ کے بعد بڑا ع��ذاب اٹھ��ا ک��رآاج�ائینگے ب�اقی پھر حضرت م�مد کے وسیلہ س�ے وہ ش�ریر مس�لمان بھی بہش�ت میں

کافر لوگ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اوربڑے بڑے عذاب ابد تک اٹھائیں گے۔آان تان سب بی�انوں ک�ا اس میں بعض ب�اتیں ت�و ق��ر یہ خلاصہ ہے اس بارے میں تان کے کثرت سے مبالغے پ��ائے میں مذکو رہیں اور بعض حدیثوں میں ہیں اوربیانوں میں آادمی کا نفسانی دل مانگتاہے وہاں مل��نے ک��ا وع��دہ کی جاتے ہیں اور وہ چیزیں جن کو گئی ہیں حضرت م�مد کے اس سارے بی��ان میں بعض ب��اتیں بہت ص���یح بی��ان ہ��وئیتانہ��وں نے اپ��نی ہیں کیونکہ اگلے پیغمبروں کی کتاب سے منقول ہیں پر بعض باتیں ج��و

طرف سے سنائی ہی وہی قبولیت کے لائق نہیں ہیں۔ قیامت کے بیان میں خدا کے کلام کے درمیان میں بھی بہت کچھ مذکورمر قی��امت میں اس مع��املہ کے درمی��ان ج��و مناس��ب س��مجھا ہے آاثا ہے مگر میں نے رسالہ

ذکر کیا ہے اگر کوئی چاہے تو وہاں پڑھے۔

تیرھویں فصلتیرھویں فصلعلامات قیامت کے بیان میںعلامات قیامت کے بیان میں

آانے والے وقت کی تانہ��وں نے آان مگ��ر ح��دیثوں میں حض��رت م�م��د نے نہ ق��ر ب��ابت کچھ علامیں اورنش��ان بھی بی��ان ک��ئے ہیں اور قس��� قس��� کی ب��اتیں ہیں چن��انچہحول میں بخاری ومسل� کی روایت عمر بن خطاب س��ے مشکوات کتاب الایمان فصل ا یوں مرقوم ہے کہ جبریل فرشتہ نے حضرت م�مد سے قیامت کے نش��ان پ��وچھے کہ کی��ا ہیں فرمای��ا کہ بان�دی س�ے بچے ک��ثرت س�ے پی��دا ہ��ونگے اور کمی��نے ل��وگ ننگے بھ��وکے

بکریاں چرانے والے اونچے اونچے گھر بنائینگے۔ اس وقت ہ� دیکھتے ہیں کہ غلام رکھنے کا دستور دنیا سے بہت اٹھ گیا ہے پھر کیونکہ غلاموں کی ترقی ہوگی ۔ شائد پھردنیا میں یہ دستور جاری ہ��و۔ اور غرب��اء ک��ا آاسودہ حال ہونا حضرت کے گمان میں قیامت کا نش�ان ہے اگ�ر یہ دوعلام�تیں قی�امت

کی کسی کی عقل قبول کرسکتی ہے توکرے۔ پھر مشکوات باب اش��راط الس��اعتہ میں انس س��ے بخ��اری ومس��ل� کی روایت ہے کہ )عل� جاتا رہیگا جہالت وزناکاری اورمے نوشی کی کثرت ہوج��ائیگی اور ع��ورتیں بہت ہونگی مرد ک� ہوجائیں گے یہاں تک کہ پچ�اس عورت�وں ک�ا ای�ک ش�خص منتظ�

ہوگا۔یہی سے سن ک�ر کچھ تص��رف کے س�اتھ بی�ان یہ علامت حضرت نے کلام ال کی ہے کیونکہ وہ سیدنا مسیح نے فرمایا تھ��اکہ بے دی��نی پھی�ل ج��انے کے س��بب بہت�وں

۱ب��اب ۴کی م�بت ٹھن��ڈی ہوج��ائیگی اور عورت��وں کی ک��ثرت کے ب��ارے میں یس��عیاہ آایت میں لکھاہے کہ سات عورتیں ای�ک م�رد س�ے کہینگی کہ ہ� ص�رف ت�یرے ن�ام کی

کہلاتی ہیں پس حضرت نے ان خبروں میں کچھ تصرف کیاہے۔تاس��ی ب��اب میں ہے کہ دولت وم��ال لوگ��وں پھ��ر مس��ل� س��ے اب��وہریرہ کی روایت کے پاس کثرت سے ہوجائیگا یہاں تک کہ صدقہ لینے والا فقیر بھی نہ ملیگ��ا اور ع��ربیی میں لکھاہے کہ ق�ط پر ق�ط ہونگے۔ کی زمین باغ وبہار ہوجائیگی۔ لیکن کلام الہ

پھ���ر اب���وہریرہ کی روایت بخ���اری ومس���ل� س���ے ہے کہ ف���رات ن���دی خش���ک ہوج��ائیگی اور وہ��اں س��ے خ��زانہ نکلیگ��ا مگ��ر اہ��ل اس��لام ک��و وہ لین��ا ج��ائز نہیں ہے۔ یہ پیش��ینگوئی خ��دا کے کلام میں س��ے نک��ال کے حض��رت م�م��د نے س��نائی ہے دیکھ��و

( پ��ر اس ک��ا مطلب اور ہے یہ۳۶، ۵۱، ۳۸: ۵۰ک��و اور یرمی��اہ ۱۲: ۱۶)مکاش��فات مطلب نہیں ہے جو حضرت م�مد نے سمجھا ہے ۔

پھ��ر اس��ی ب��اب میں بخ��اری کی انس س��ے روایت ہے کہ قی��امت کی پہلیآادمیوں کو جم��ع ک��ریگی اس آاگ اٹھیگی اور مشرق مغرب تک علامت یہ ہے کہ ایک

( میں کچھ ہے۔۷: ۱تسھلنکیوں ۲خبر کی اصل بھی ) پھر انس سے ترمذی کی روایت اسی باب میں ہے کہ قیامت سے پہلے ای��ک برس ایک مہینے کے برابر ہوگا اورایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اورای��ک دن ای��ک گھ��ڑی

آاگ کی مانند ہوگی۔ کے برابر ہوگا اورایک گھڑی ایک شعلہ اس خ���بر کی اص���ل ص���رف اس ق���در کلام میں ہے کہ وہ دن مقدس���وں کی

( اس ک�ا مطلب یہ نہیں ہیں کہ س�ورج کے گ�رد۲۲: ۲۴خاطر گھٹائے جائینگے )م�تی جو زمین ک�ا دورہ س��الانہ اور م���ور پ�ر ج�و ش�بانہ روز ک�ا ہے اس میں اس ق��درمبالغہ کی کوتاہی ہوجائیگی پ�ر ظ��اہر ایس�ا ہے کہ وہ مص�یبتیں جل�دی تم�ام ہوج�ائینگی دی�ر ت�ک نہ

رہیں۔ پھ��ر اس��ی ب��اب میں عب��داللہ بن ح��والہ س��ے روایت ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے )اے ابن حوالہ جس وقت میری بادشاہت بیت المقدس میں ات��ر ج��ائیگی پس ج��ان لےتاس دن آاپہنچے اور قی��امت تام��ور آائی اور فتنہ وفس��اد اورب��ڑے ب��ڑے کہ قی��امت نزدی��ک لوگ��وں س��ے ایس��ی نزدی��ک ہ��وگی جیس��ے یہ م��یرا ہ��اتھ اس وقت م��یرے س��ر کے پ��اس ہے

س�و( ب�رس کے ق��ریب۱۳خلیفہ عمر نے بیت المقدس پ�ر قبض��ہ کی��ا تھ��ا اس وقت ت�ک )آائی مگ�رکلام میں ایس�ا لکھ��ا ہے ب�رس ت�ک۱۲۶۰ہوتے ہیں مگر اب ت�ک قی��امت نہیں

یروشلی� پامال کرنے کے ل��ئے غ��یر قوم��وں ک��و دی�ا گی��ا ہے پ��ر س��ال س��ے م��راد کس ق��در عرص��ہ ہے ک��وئی نہیں جانت��ا چ��اہیے کہ اس پام��الی کے بع��د وہ ش��ہرا ن کے قبض��ہ س�ے

آائیگی۔ آاخرت تاس کے بعد واقع ہونے پر ہیں ہوجاویں تب نکلے اور پیش گویاں جو ای��ک اورخبراس��ی ب��اب میں چن��د ح��دیثوں کے درمی��ان م��ذکور ہے وہ یہ ہے کہ )ایک شخص جس کا لقب امام مہدی ہے یعنی پیش��وا م�م��دی دین ک��ا ظ��اہر ہوگ��ا اور وہ فاطمہ کی اولاد سے ہوگا یعنی سید اوراس کا ن��ام م�م��د ہوگ��ا اور اس کے ب��اپ ک��اتاس نام عبداللہ ہوگا صورت اس کی م�مد صاحب کے مانند ہوگی مگر تم��ام خص��لتیں آان کی ہ��دائت کے مواف��ق کی حضرت م�مد کی مانند نہ ہونگی وہ س��اری زمین ک��و ق��رتاس کے زم�انہ آاٹھ ی�ا ن�وبرس بادش�اہت کریگ�ا عدل اور انصاف سے بھردیگا اورس��ات ی�ا

آارام سے رہیگی۔ میں دنیا عیش خدا کے کلام میں ایسی ب��ات ک��ا ذک��ر نہیں ہے مگ��ر زور کے س��اتھ یہ بی��انآائیگ��ا اور ای��ک جھ��وٹے ن��بی ک��ا بھی ذک��ر ہے۔ ہ��واہے کہ ای��ک ش��خص مخ��الف مس��یح

(۔۲۰، ۱۹، ۱۰: ۲۰)مکاشفات

چودھویں فصلچودھویں فصلیی کے نزول کے بیان میں یی کے نزول کے بیان میںحضرت عیس حضرت عیس

آاس��مان س��ے یی پھ��ر حض��رت م�م��د نے یہ بھی خ��بردی ہے کہ حض��رت عیس��آام�دثانی ک��ا چرچ��ا حض��رت آائینگے۔ لیکن سب لوگ جانتے ہیں کہ مس��یح کی زمین پر م�م�د کی پی��دائش س�ے چھ س�وبرس پہلے س�ے ابت�ک ہے پس یہ کچھ ن��ئی خ�بر نہیں

ہے۔ البتہ حض��رت ک��ا اس ق��دربیان نی��ا ہے ج��و مش��کوات کت��اب الفتن ب��اب ن��زولیی میں عبد اللہ بن عمر س��ے ابن ج��وزی کی روائت کت��اب الوف��ا س��ے لکھی ہے کہ عیس

آائے گا اورنک�اح کریگ�ا اوربچے پی�دا ہ��ونگے اور یی بن مری� زمین پر ب�رس زمین پ�ر۴۵عیس

رہیگا پھر مرجائيگا اورمدینہ کے درمیان حض��رت م�م��د کے مق��برہ میں م��دفون ہوگ��ا پھ��ریی بھی اس مق��برہ کی آائیگی تو حضرت م�مد اوراب��وبکر وعمرحض��رت عیس�� جب قیامت

قبروں میں سے نکلیں گے۔ ج��ائز ہے کہ ہ� حض��رت م�م��د ک��و مخ��الف مس��یح کہیں کی��ونکہ انہ��وں نےیی کی مخالفت پر بڑی کمر باندھی ہے ان کے س��ارے دین کی مخ��الفت حضرت عیس میں ایک شریعت اپنی ظاہر کی ہے اور تم��ام دین مس��یح کے ب��رخلاف عقی��دے تج��ویز کئے ہیں صلیب کا انکار تثلیث کا انکار کفارہ ک�ا انک��ار مس��یح کی ال��وہیت ک�ا انک�ار اوراس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں اوریہ سارے مجموعہ بائبل کیآام��دثانی کی بص��ورت ک��وبھی مخالفت ہے اسی طریقہ پر حضرت م�مد نے مس��یح کی آادمی قب��ول بدلا ہے پر جو باتیں وہ خدا کی کلام کے ب��رخلاف س��ناتے ہیں ان ک��و وہی

کریگا جو خدا سے نہیں ڈرتا ۔آاکے مریگ�ا( مگ�ر خ��داکا رس�ول )وہ مسیح کی موت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ

( میں کہتاہے کہ وہ نہ مریگا اور موت پھر اس پر تسلط نہیں رکھتی۔۹: ۶)رومیوں پھر اس کے نکاح ک��ا ذک��ر ک��رتے ہیں ش�ائد حض�رت م�م��د نے )مکاش��فات

آائیں تجھے دولہن یع��نی ب��رہ کی۹: ۲۱ ( ک��و الٹ��ا س��مجھا ہے جہ��اں لکھ��اہے کہ ادہ��ر آاکے جوروکریگ��ا لیکن یہ���اں کلیس��یا ج��ورو دکھلاؤں اس ک��ا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اورمسیح کا ذک��ر ہے کہ ان میں خاون��د اوربی بی کی نس��بت ہے بل���اظ پی��ار اور پ�رورش کےلیکن حضرت نے اپ��نی مرغ��وب چ�یز ک�ا ذک�ر اس ق��دوس کی نس��بت بھی کردی��ا ہے اوریہ بھی فرمای��ا ہے کہ اس کے بچے پی��دا ہ��ونگے ( ش��ائد حض��رت م�م��د نے )یس��عیاہ

( کا مطلب الٹا سمجھا ہے وہاں لکھاہے کہ وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ مگر۱۰: ۵۳تاس سے نی��ا جن� حاص��ل کی��ا ہے اور خ��دا وہاں نسل سے مراد وہ مومنین ہیں جنہوں نے

ب��رس کی عم��ر بھی۴۵(۔ پھر حض��رت نے اس کی ۱۳تا ۱۲: ۱کے فرزند ہوئے )یوحنا

وغ��یرہ(۱۸ت�ا ۱۷: ۱۔ مکاش��فات ۱۰: ۵۳۔یس��عیاہ ۴۴: ۲تجویز فرمائی ہے مگر)دانی��ال بہت مقام ہیں جہاں اس کی ابدیت کا ذکر ہے۔

یی ہم�ارے س�اتھ س��ب م�ردوں پھر حضرت فرماتے ہیں کہ قیامت کے د ن عیس میں اٹھیگ��ا۔ مگ��ر وہ خ��ود فرمات��اہے کہ ع��ال� غیب اورم��وت کی کنجی��اں م��یرے پ��اس

آاپ ہی قی��امت اور زن��دگی ہ��وں)یوحن��ا ۱۸: ۱ہیں)مکاشفات (۔۲۵: ۱۱(۔ اوریہ کہ میں آاس��مان اور زمین پ��ر مجھے دی��ا گی��ا ہے)م��تی (۔ دیکھ��و۱۸: ۲۸اوریہ کہ س��ارا اختی��ار

حضرت نے خدا کےکلام کو ہر گز نہیں سمجھا یہ کس مرتبہ کا بی��ان ہے اور حض��رتکیا فرماتے ہیں۔

دوس��ری ب��ات اس��ی ب��اب میں بخ��اری ومس��ل� س��ے اب��وہریرہ کی روایت ہے کہآائینگے تو صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور س��ور ک��و قت��ل ک��رینگے اور یی )جب حضرت عیس

جزیہ اٹھائیں گے اور اس زمانہ میں مال بہت ہوگا۔ رومن کیتھولک گرج��وں میں حض��رت نے لوگ��وں کوص��لیب کی پرس��تش ک��رتےتان صلیبوں کو توڑ ڈالیگا۔ اور اگر حضرت آاکے دیکھا ہے اس لئے فرماتے ہیں کہ مسیح آاکے اٹھائیگ��ا۔ کی یہ م��راد ہے کہ وہ دین جس کی بنی��اد مس��یح کی ص��لیب ہےمس��یح تویہ بات حضرت نے بموجب اپنے اس عقیدے کے بیان کی ہے کہ وہ مسی�ی صلیب کے منکر ہیں فرماتے ہیں کہ وہ مصلوب ہی نہیں ہوا پر یہ بیان تو حضرت کا بہت س��ی دلیلوں سے غلط ثابت ہ��واہے اس ل��ئے اس کی یہ ف��رع بھی غل�ط ہے کہ ص��لیب ک��و ت�وڑ

ڈالیگا۔ مگر سور کے قتل کرنے کا کیا منشا ہے یہ مطلب ہے کہ بعض مسی�ی لوگ سور کا گوشت کھایا کرتے ہیں اور حض��رت کی ش��ریعت میں س��ورحرام ہے جب مس��یح آائیگا تو س��وروں ک�و قت��ل ک��ر ڈالیگ�ا کہ نہ رہیں اورنہ ل��وگ کھ��ائیں اور مس�یح کی ط��رفیی سنیں مگر میں پوچھت��ا ہ��وں کہ اگ��ر وہ س��وروں ک��و نیس�ت سے اس کی حرمت کا فتو

کر ڈالیگا تو خرگ�وش اور اونٹ�وں ک�و کب چھوڑیگ�ا ج�و مس�لمان بھی براب�ر کھ��اتے ہیںیی کی شریعت میں منع ہیں اور سور کے برابر ہیں پھر یہ کہ جزیہ اٹھائیگا ۔ یا تو اورموس اس لئے کہ سب لوگ مسلمان ہوجائینگے جن س�ے ج��زیہ لین��ا ج�ائز نہ ہوگ��ا ی��ا اس وقت دنیا میں مال کی ک��ثرت ہوگ��ا ج��زیہ کی ح��اجت نہ رہیگی۔ ہ� ج��انتے ہیں کہ اس کے آانےکے وقت پ��ر عی��د کف��ارہ ہ��وگی س��ب موم��نین کف��ارہ کی خوش��ی من��ائیں گے کہ توہمارے لئے مو ا تھا صلیب پر ہمارے لئے جان دی تھی اور اس صورت میں ص��لیب کی عزت غیر قوموں پر بھی خ��وب ظ��اہر ہ��و کے اوربہت پچھت��ائینگے کہ ہ� ص��لیب پ��ر پہلے سے ایمان کو نہ لائے کہ ہ� بھی نجات پاتے ۔ اوریہ سب رس��می ش��ریعتیں کہ یہآائينگے اور اس وقت مس��لمان بھی ج��انیں کہا اور وہ نہ کہا کام��ل ط��ورپر روح��انی نظ��ر گے کہ روحانی معنی مسی�ی لوگ درست بتلاتے تھے اور سور اوربکری میں کچھ ف��رقتری عادتوں سے بچیں۔ اوروہ اپنے بندوں ک��و آادمی ب تاس کا مطلب اورہی تھا کہ نہ تھا پر آارام میں اپ��نے س��اتھ لیگ��ا اورس��ارے س��ب ظ��الموں کے ہ��اتھ س��ے بچ��ائے گ��ا اورحقیقی بادش��اہوں ک��و ٹک��ڑے ٹک��ڑے کریگ��ا اوراپ��نی اب��دی باش��اہت ک��و ق��ائ� کریگ��ا اورس��چے عیسائی جن کا بھروسہ مسیح پر ہے سارے جہان پر فت�ی��اب ہ��ونگے۔ خ��دا کےس��ارے

کلام کا نتیجہ یہ ہی ہے۔

پندرھویں فصلپندرھویں فصلمسیح کی عدم صلیب وعدم الوہیت کے بیان میںمسیح کی عدم صلیب وعدم الوہیت کے بیان میں

حضرت م�مد کی تعلی� میں اس بات پر زور ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا جیسے خدا کے کلام میں اس ب��ات پ��ر زور ہے کہ ض��رور مس��یح مص��لوب ہ��وا اورنہ��ایت

ضرور تھا کہ وہ دکھ اٹھائے۔یی کو م��ارا اورنہ اس��ے ص��لیب دی مگ��ر۱۲سورہ نساء رکوع میں ہے کہ نہ عیس

یی کی صورت پر ایک اور شخص ہوگیا تھا۔ تان کے سامنے عیس

تتب سابقہ اس یہ اعتقاد حضرت کا ہر گز قبولیت کے لائق نہیں ہے کیونکہ ک (اور وہ۲۶: ۹۔ دانی�ال ۹ت�ا ۵: ۵۳کے مارے ج�انے پ�ر پیش گوئی��اں ک�رتی ہیں )یس�عیاہ

تان۲۱: ۱۶خود اپنے مرنے سے پہلے باربار فرماتا تھا کہ م��یرا مرجان��ا ض��رور ہے )م��تی ( اور (۔ اوریہ�ودی ل�و۱۰: ۴کے شاگرد گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہمارے سامنے مارا گیا )اعم�ال

گ اب تک گواہی دیتے ہیں کہ اس ک��و ہم��ارے ب��اپ دادوں نے ض��رور م��ارا تھ��ا۔ اوراس کی تعلی� بلکہ تمام بائبل کی تمام اس کی موت کی بنیاد پر قائ� ہے پھ��ر بتلاؤ کہ ان

پانچ دلیلوں کو جو اپنی ذات میں کامل ثبوت رکھتے ہیں ہ� کس طرح غلط جانیں۔تا س وقت اور حضرت م�مد کی بات جن کی نہ نبوت ثابت ہے اور نہ خ��ود حاض��ر تھے بلکہ چھہ س��و ب��رس بع��د پی��دا ہ��وئے اور غ��ير مل��ک کے ش��خص ہیں اورکلامیی س��ے بھی پ��وری واقفیت نہیں رکھ��تے اور غ��رض بھی رکھ��تے ہیں کہ ص��لیب کے الہتان کی بات کو قب��ول برخلاف ایک دین جاری کیا چاہتے ہیں کون دوراندیش دانا ہےکہ

کریگا۔ حض��رت م�م��د س��یدنا مس��یح کی ال��وہیت کے بھی منک��ر ہیں س��ورہ مائ��دہ

رک��وع میں ہے )مس��یح م��ری� ک��ا بیٹ��ا ای��ک رس��ول تھ��ا( یع��نی اس میں ال��وہیت نہ تھی۱۱ صرف انسان تھا اور پیغمبر یہ عقیدہ بھی حض�رت ک��ا خ�دا کے کلام کے ب��رخلاف ہےیی کی��ا ہے اوراپ��نی ال��وہیت اور انس��انیت کیونکہ ضرور س�یدنا مس��یح نے ال��وہیت ک��ا دع��و ظ��اہر کی ہے اورس��اری ش��ان ج��دائی کی اپ��نے ان��در دکھلائی ہے اس کی پ��اکیزگی اورتاس کی خ��دائی ک��ا ثب��وت اس کے ک��اموں اور خی��الوں اورارادوں اور ق��درت وط��اقت س��ے تاثیروں سے بخوبی کیا گیا ہے ۔ چنانچہ عہدنامہ جدید کے پڑھنے والوں کوخوب معلومآانے والا نج��ات دہن��دہ ج��و مس��یح ہے اس میں ہے اور پران��ا عہ��دنامہ بھی دکھلات��اہے کہ ال��وہیت بھی ہ��وگی چن��انچہ یہ س��ب بیان��ات ہم��اری دوس��ری کت��ابوں میں کچھ مفص��لتان تفسیروں کو بلاتعصب پڑھے لکھے گئے ہیں اگر کوئی چاہتاہے تو خاص کر ہماری

ج�و اب ت�ک چھپ چکی ہیں اس�ے معل��وم ہوج��ائے گ��ا کہ ض�رور اس میں خ�دائی بھیتاس کا انکار کرن��ا مش��کل ہے انص��اف ک��ا ک��ام نہیں ہے۔ واض��ح ہ��وکہ حض��رت تھی اور تاس میں ال��وہیت نہ تھی یہ م�مد کا یہ قول کہ مسیح صرف انس��ان تھ��ا اورای��ک پیغم��بر آان ح��دیث یی ہے اوراس کے ثب��وت کی کچھ دلیلیں بلکہ ای��ک دلی��ل بھی ق��ر ای��ک دع��و میں نہیں ہے۔ اوریہ اعتق��اد کہ مس��یح انس��ان اور خ��دا بھی ہے ص��دہا دلیل��وں کے س��اتھ اناجیل وغیرہ میں مذکورہے۔ اب کیونکر ہوسکتاہے کہ ای��ک بے دلی��ل ب��ات س��ے بادلی��لاا عقیدہ چھوڑدیں۔مگ��ر حض�رت م�م��د نے چ�ونکہ مس��ی�ی دین کی مخ��الفت پ��ر عم��دیی اور واقع��ات مس��ی�یہ اور واقع��ات انبی��اء س��ے ن��اواقفی کے کم��ر بان��دھی ی��ا کلام الہ س��بب س��ے وہ ایس��ی ب��اتیں بول��تے ہیں اس ل��ئے وہ نہ ص��رف عیس��ائی دین کی مخ��الفتتان کی تتب س��ماوی اورس��ب سلس��لہ انبی��اء کے خلاف بول��تے ہیں کرتے ہیں مگ��ر تم��ام کتان کو جو س�لامتی اب�دی کے ط��الب ہیں بہت ہوش��یار ہون�ا چ�اہئیے باتیں خطرناک ہیں

اوربہت فکر کے ساتھ سب باتوں کو دریافت کرکے قبول کرنا مناسب ہے۔

دوسرا بابدوسرا بابعبادات اسلامیہ کے بیان میںعبادات اسلامیہ کے بیان میں

تان افعال اور رسوم اور ترتیبوں کو کہتے ہیں جو خدا کی پرستش س��ے عبادات آادمی خ��دا کے س��اتھ ق��ربت حاص��ل کرت��اہے یہ علاقہ رکھ��تی ہیں جن کے وس��یلہ س��ے آادمی خدا کی عباد ت کرے۔ لیکن ضرورہے کہ عب��ادت کے نہائت عمدہ بات ہے کہ اطوار خدا سے معلوم کئے جائیں کی��ونکہ مفی��د عب��ادت وہی عب��ادت ہے ج��و الہ��ام س��ے خدا نے بتلائی یا خدا کی روح نے انس��ان کے دل میں ڈال کہ اس کے س��امنے وہ اس ط���رح س���ے جھکے۔ م�م���دی م���ذہب میں اطوارعب���ادت ک���ا بھی ای���ک ب���ڑا س���ا دف���ترتان کی ہ��ر ہ��ر عب��ادت ک��ا کرت��ا لکھاہواہے جس میں سے بطور خلاصہ کے مختص�ر بی�ان

ہ��وں۔ اورچ��ونکہ خ��دا کےکلام میں م�م��دی م��ذہب کی نس��بت بلکہ س��ب جہ��ان کے مذہبوں کی نسبت زیادہ ت��ر خ��دا کی عب��ادت کے اط��وار اوراس کے پہل��و بی��ان ہ��وئے ہیںتان عبادتوں کے ساتھ کچھ کچھ مقابلہ بھی کی��ا ج�ائے اس لئے م�مدی عبادات کا آادمی خدا کے دین کی عبادتوں کے اطوار سے واقف ہونا چاہے گا اگرکوئی خدا پرست

تو اسےچاہیے کہ نماز کی کتاب کو پڑھے۔

حول حولفصل ا فصل ا

طہارت کے بیان میںطہارت کے بیان میں طہارت عبادت میں داخل ہے۔ حض��رت نے بہت زور کے س��اتھ طہ��ارت کی ضرورت کا بی��ان کی��ا ہے اوراک�ثر اس کے دقیق��وں ک��و ظ��اہر کی��ا ہے اور یہ بی��ان کچھ ت�و

آان میں ہے پر بہت سے ذکر حدیثوں میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : قرچھہ باتوں کے سبب طہارت کی بڑی ضرور ت ہے۔

حول: نماز بغیر طہارت کے ہونہیں سکتی۔ اآان کو بغیر طہارت کے ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ دوم: قرسوم: مسجد میں بغیر طہارت داخل نہیں ہوسکتے۔

چہارم: حج کے لئے طہارت ضرور ہے۔پنج�: حضرت م�مد پر درود پڑھنے کےلئے طہارت چاہیے۔

آادمی کو چاہیے کہ اکثر طہارت سے رہا کرے کیونکہ بغیر طہ��ارت کے شش�: پرہیز گارتاس کے قب��ول آادمی پ��ر ن��ازل نہیں ہ���وتی ہے اورنہ بعض عب���ادت بغ���یر خ��دا کی ب��رکت ہوس���کتی ہے مش���کوات کت���اب الطہ���ارت کی پہلی ح���دیث یہ ہےکہ " الطھ���ور ش���طرآادھ��ا ایم��ان ہے۔ اب معل��وم کرن��ا چ��اہیے کہ طہ��ارت کی��اچیز ہے الایم��ان یع��نی طہ��ارت

دوقس� کی طہارت ہے۔

حقیقی طہارتحقیقی طہارتیہ ہے کہ بدن اورکپڑے کو نجاست دیدنی سے پاک رکھنا۔

حکمی طہارتحکمی طہارت یہ ہے کہ بغ��یر نجاس��ت دی��دنی کے نادی��دنی نجاس��ت س��ے ب�ک� ش��رع کے

اا وضو غسل تتمی� وغیرہ سے۔ پاکی حاصل کرنا مثل خدا کےکلام میں بھی بہت سا ذکر طہارت کا ہے اور موس��وی ش��ریعت میں جسمانی طہارت کی تعلی� بہت ہوتی تھی اور روحانی طہارت کا بھی بہت ذکر ہواہے پر یہودیوں نے جسمانی طہارت کی بہت پیروی کی اور روحانی طہارت سے غافل رہے مگ��ر س��یدنا مس��یح نے دلی طہ��ارت پ��ر زور دی��ا اوریہ دکھلای��اکہ جس��مانی طہ��ارت کی تعلی� روحانی طہارت کےلئے بطور نمونہ کے تھی نہ��ائت ض��رورت روح��انی طہ��ارت ہےیی آادمی ک��ا دل کف��ر غض��ب، دش��منی، حس��د ، لالچ وغ��یرہ س��ے پ��اک ہ��و تب الہ کہ

(۔ مب��ارک وہ ج��و پ��اک دل ہیں کی��ونکہ خ��دا۸: ۵برک��ات ک��ا مہب��ط ہوس��کتاہے)م��تی ک��ودیکھیں گے پس انجی��ل بھی طہ��ارت کی ض��رورت بتلاتی ہے لیکن یہ کہ��تی ہےکہ

حقیقی طہارت دل کی پاکیزگی ہے اورمجازی طہارت جسمانی طہارت ہے۔ دیکھ��و ہزارہ��ابے ایم�ان اگ�رچہ کیس�ے ص�اف س�تھرے کی�وں نہ رہیں خ�دا کے نزدیک مکروہ ہیں اور وہ غریب ایماندار ج�و اپ�نی غ��ربت اور تنگدس�تی کے س��بب میلے

کپڑے پہنے ہیں ایمان اور دل کی صفائی کے سبب خدا کے مقبول ہیں۔آاتاہے پ��ر آادمی خوب نظر ہاں جسمانی طہارت سے جس� کی ص�ت ہے اور یی تق��رب کے ل��ئے دل کی طہ��ارت مطل��وب ہے پ��ر حض��رت م�م��د نے اپن��ا س��ارا زور الہ جسمانی طہارت پر خرچ کیاہے۔ توبھی یہودیوں کی جسمانی طہارت سے ہرگ�ز ف��وقیت نہیں لے گ��ئے جنہ��وں نے مس��یح س��ے ص��رف جس��مانی طہ��ارت پ��ر ملامت اٹھ��ائی کہ

پیالے اوررکابیوں کو باہر سے دھوتے ہو پر اندر لوٹ سے بھرے ہیں ۔

فصل دومفصل دوم

تغسل کے بیان میںتغسل کے بیان میں ہمبستری کے بعد اوراحتلام کی ح�الت میں حض�رت م�م�د نے غس�ل ک�رنے کا حک� دیا ہے اسی طرح عور ت کو حیض ونفاس سے پاک ہونے کے بعد بھی غسلیی کی شرع میں بھی انکا ذکر ہے ۔ اور دنیا کی ضرور ہے یہ باتیں مناسب ہیں اورموس سب قومیں اپنی تم�یز کے مواف�ق ایس�ی ص�فائی ک�رتے ہیں۔ لیکن م�م�دی ش�رع میں چونکہ یہ امر عب��ادت میں داخ��ل ہیں اس ل�ئے ب�ڑے ب�ڑے بی�ان علم�اء نے ان کے ک��ئے ہیں اوربے حیائی کے ذکر ایسے موقع��وں پ��ر بہت ہیں پ��ر ہ� اس ب��ارے میں اور ت��و کچھیی مس��یح نہیں کہتے مگر یہ کہ حضرت م�مد ک�ا زور جس��مانی طہ��ارت پ��ر ہے۔ عیس��آال��ودہ دل��وں اور روح��وں ک��و مس�یح کی پ�اک قرب��انی کے خ�ون کے کے ل�وگ اپ�نے گن��اہ سوتے میں دھوتے ہیں تاکہ وہ پاکیزگی جو خدا کو پسند ہے کریں اوراسی پر انجیل میں زور ہے ہ��اں وہ ل��وگ اپ��نے ب��دن اور ک��پڑوں ک��و بھی نجاس��ت جس��مانی س��ے پ��انی میںیی کے ل��ئے مگ��ر دفعہ ک��راہت اور ص���ت ب��دنی کے ص��اف ک��رتے ہیں پ��ر نہ ق��ربت الہ لئے ۔ اور خوب جانتے ہیں کہ ت�وریت اورانجی�ل میں کچھ ف��رق نہیں ہے وہ�اں جس�مانی

آائندہ روحانی طہارتوں کے نمونے ہوں۔ طہارتیں اس لئے مقرر نہیں کہ

فصل سومفصل سوم

حیض کے بیان میںحیض کے بیان میںتمدت میں تین دن س��ے حیض کی حالت میں عورت ناپاک ہے اوراس ناپاکی

تان کی شرع میں نہیں ہے۔ ک� اور دس دن سے زيادہ عورت حائیضہ کو نماز معاف ہے اور وہ مسجد میں ق��دم نہیں رکھ س��کتی۔تاس ک��و چھ��و س��کتی ہے مگ��ر آان پ��ڑھ س��کتی نہ کعبہ ک��ا ط��واف نہیں کرس��کتی نہ ق��ر

یی کی توریت میں سے غلاف کے ساتھ ۔ ایسی باتیں حضرت م�مد نے حضرت موس کچھ تصرف کے ساتھ اخذ کی ہیں جو مس��ی�ی ب��اطنی طہ��ارت کے نم��ونے تھے۔ پ��رآاگیا ہے اورباپ)پروردگار( کی پرستش روح اورراستی س�ے ہ��ونے لگی آازادگی کا زمانہ اب تاس وقت کی رسمی شریعت ایک خاص حکمت پر مب��نی تھی جس کی حکمت اب کھل گئی ہے ۔ لیکن حضرت م�مد کا اب ایسا بیان کس حکمت پر مبنی ہے ک��وئییی کےل��ئے نہیں ج��و حکمت نہیں ہے مگر صاف بتلایا گیا ہے کہ ایسے کام تق��رب الہ

تمیز پسند نہیں کرتی ہے۔ ہاں حضرت م�مد نے عورت حائیضہ سے ہ� بستر ہونے سے بھی منع فرمایااا مگ��ر خ��ود حض��رت م�م��د نے اس پ��ر عم��ل نہیں کی��ا۔ ہے اوریہ اچھی ب��ات ہے عقل چنانچہ مشکوات باب ال�یض میں حض��رت عائش��ہ بی بی حض��رت م�م��د کی فرم��اتی ہیں کہ عین حیض کی حالت میرے ساتھ مباشرت کرتے تھے۔ اوراس بی بی کا یہ قول ہے کہ " کان یامرنی فاترز فیبا شرنی وان�ا حیض" ۔اگ�رچہ یہ��اں ب�الائے مباش�رت ک�ا ذک�ر

تامت کو بھی دیا ہے۔ ہے اورایسا ہی حک� حضرت نے تمدت حیض کی حض��رت اس مق��ام پ��ر میں ص��رف اتن��ا کہت��ا ہ��وں کہ اک��ثر

( بی بی��اں۱۸م�مد نے دس یوم مقرر کئے ہیں پھر بھی ایسی بے ص��بری ہے ح��الانکہ )اوربھی موجود ہیں یہ باتیں مقدسوں کو لائق نہیں ہیں۔

( میں فرمات��اہے کہ بی��اہی ہ��وئی ایس��ی۲۹: ۷کرنتھی��وں ۱خدا کا س��چا رس��ول ) ہوجیس��ی بن بی��اہی یع��نی ج��انوروں کی ط��رح اک��ثر ش��ہوت پرس��تی میں مص��روف رہن��اآاپ ہی انص��اف مقدسوں کو لائق نہیں ہے چہ جائیکہ رسولوں کا یہ حال ہو اب ناظرین ک��ریں اور رس��ول کی اس تعلی� ک��و حض��رت م�م��د کی اس تعلی� س��ے مق��ابلہ ک��رکے

سوچیں۔

فصل چہارمفصل چہارم

وضو کے بیان میںوضو کے بیان میںآادمی وض��و بھی ای��ک طہ��ارت ہے نجاس��ت حکمی س��ے وہ یہ کہ مس��لمان یی کے لائ��ق ہوج��ائے اور قاعدہ مقررہ کے موافق منہ ہاتھ پیر وغیرہ دھوئے تاکہ عب��ادت الہ ص��فت وض��و کی یہ ہے کہ ج��و مش��کوات کت��اب الطہ��ارت میں بخ��اری ومس��ل� نےتاس کے س��ارے ب��دن آادمی اچھی طرح وضو ک��رے عثمان سے روایت کی ہے )کہ جو تاس کے ن��اخنوں کے نیچے کے گن��اہ بھی ب��اقی کے گناہ دفع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ

نہیں رہتے۔یی کے بھی خلاف ہے گن��اہ ج�و ای�ک آاتی اورکلام الہ یہ ب��ات عق��ل میں نہیں نجاست روحانی ہے وہ جس� کی صفائی سے کس ط�رح نک�ل س�کتاہے البتہ پ�انی س�ے

بدن کا میل چھوٹ سکتاہے پر روح کا میل پانی سے دھویا نہیں جاسکتا۔تاسی کت��اب انجیل میں مذکور ہے کہ بپتسمہ سے گناہ دفع ہوسکتے ہیں مگر آاگ کے بپتسمہ سے جو مسیح دیتاہے یہ ہوت��اہے نہ پ��انی س��ے سے ثابت ہے کہ روح اور تاس کا نشان ہے مگر حض��ر ت م�م��د پ��انی س��ے اس نج��ات ک��ا دفعیہ بتلاتے ہاں پانی ہیں انجی��ل ص��اف بتلاتی ہے کہ نہ عب��ادت س��ے نہ ریاض��ت س��ے نہ عقائ��د س��ے بلکہ )ایمان( سے بھی نہیں مگر روح سے جو بوسیلہ ایم��ان کے اللہ بخش�تا ہے یہ گن�اہ دفعہ ہوتے ہیں اوریہ بات عقل اور نقل سے مسل� ہے پر یہ عام بات جو بے اص��ل ہے کہ پ��انی

سے گناہ دفع ہوں اگر کسی کی تمیز قبول کرسکتی ہے توکرے۔آاجائے پر یہ وضوٹوٹ جاتاہے جب کوئی نجاست دیدنی بدن سے نکلے باقی آاواز بلند ہنسے یا بے ہوش ہوجائے یا سوجائے وغیرہ اس صورت میں دوسری ب��ا آادمی ب یا

روضو کرنا پڑتاہے ۔ مشکوات الطہارت فصل سوم میں لکھاہے کہ )کہ ایک دفعہ حض��رت م�م��د نے امام ہوکے نماڑ پڑھوائی اور سورہ روم کو پڑھا مگر پڑھتے پڑھتے ایک جگہ بھول گ��ئے

جب نم��از ہ��وچکی ت��و فرمای��ا کی��ا ح��ال ہے لوگ��وں ک��اکہ اچھی ط��رح وض��و نہیں ک��رتےآان تان کے اچھے وضو نہ ہونے کے سبب ہ� قر آاجاتے ہیں اورہمارے ساتھ نماز پڑھنے کو

کو پڑھتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔آان ک��و بھولادی��تے ہیں یہ��اں ترے وضو ہمارے اندر تاثیر کرکے ق��ر تان کے ب یعنی تامت کی راس�تبازی پیش�واکی راس�تبازی ک�و کام�ل ک�رتی ہے یانقص�ان س�ے ظ�اہر ہے کہ

تامت کے نقصان کو کامل کرے۔ پہنچاتی ہے یہ نہیں ہے کہ پیشوا کی راستبازی ترے وض��و کے آادمی��وں کے ب�� اس تعلی� س��ے یہ خ��وف پی��دا ہ��واکہ جب بعض آان ک��و بھ��ول گ��ئے ت��و قی��امت سبب اس وقت خدا کی حضوری میں حض��رت م�م��د ق��رآادمی بالک��ل ف��رائض کے روز جب خ��دا اپ��نے جلال اور دب��دبہ میں ظ��اہر ہوگ��ا اور ہزارہ��ا تاس وقت کی�ا شکن اور بدیوں س�ے بھ��رے ہ��وئے حض�رت م�م�د کے پیچھے ہ�ونگے ت�و حال ہوگا ایسا نہ ہو کہ ساری نبوت ہی گ� ہوج��ائے پس اب ہ� کی��ونکر ایس��ے ش��خص کے پیچھے چلیں ج��و ہم��ارے اعم��ال ص��ال�ہ س��ے من��ور ہ��وکے ہم��ارے س��امنے چمکن��ا

چاہتاہے۔ پ��ر تم��یز ص��اف کہ��تی ہے کہ حض��رت نے اپ��نے بھ��ول کی ش��رم دف��ع ک��رنے

کوعلی العموم لوگوں پر یہ عیب لگایا تھاکہ وہ اچھی طرح وضو نہیں کرتے۔ :۶۔ ۲۳: ۵اب مسی�ی وضور پر بھی خیال کرنا چ��اہیے کہ وہ کی��ا ہے)م��تی

( ک��و پڑھ��و کہ دوس��روں کے قص��ور مع��اف ک��رکے اوربے ری��اہوکر عب��ادت کرن��ا چ��اہیے۵آادمی خ���دا کی حض���وری حاص���ل نہیں کرس��کتا۔ اوراس مخ���الف رکھ���نے والا اوریاک���ار آادمی کیسا ہی گنہگار کیوں نہ جب ایم��ان کے س��اتھ مطلب سے توانجیل بھرپور ہےکہ تاس کے س��ارے گن��اہ دف��ع س��یدنا مس��یح کے پیچھے ج��ائے ت��و مس��یح کے وس��یلہ س��ے تاس کی سب اندرونی تاس کے گناہ دھوئے جاتے ہیں اور ہوجاتے ہیں اور وہ منور ہوجاتاہے تاس میں داخ��ل ہ��وتی ہے اور خ��دا کی آالائش ج��ل ج��اتی ہے اور ن�ئی زن�دگی اور روش��نی

آانکہ ہمارا نقصان پیش��وا کے ذہن میں س��ے بھی خ��دا کی مرضی اس پر ظاہر ہوتی ہے نہ مرضی کو اڑادے۔

فصل پنج�فصل پنج�تمی� اور مسح خف کے بیان میںتمی� اور مسح خف کے بیان میں

حضرت م�م��د نے یہ تعلی� بھی دی ہے کہ اگ��ر پ��انی نہ ملے ی��ا بیم��اری کے خوف سے غسل ووضو نہ کرسکے یا جاڑے خوف سے پانی کی طہ��ارت م�ذکور عم�ل میں نہ لاسکے تو بجائے پانی کی طہارت کے خاک پر یا پتھر پ��ر ی��ا چ��ونے پ��ر دون��وں ہاتھ مارے اور منہ پر ایک دفعہ اور دوس��ری دفعہ ہ��اتھوں پ�ر ہ��اتھ پھ��یر لے پس وہ ش�خص

ترچکا اب وہ شخص نماز وغيرہ سب کام کرسکتا ہے یہ تمی� ہے۔ غسل یا وضو ک مسح خف یہ ہے کہ سردی کے موس��� میں جب وض��ور ک��رے اور پ��یروں میں چمڑے کے موزے ہوں ت��و پ��یر نہ دھ��وے بلکہ پ��انی س��ے بھیگی ہ��وئی انگلی��اں ہ��اتھ کی م��وزوں پ��ر پھ��یر لے اورس��مجھے کہ پ��یر بھی دھ��وئے گ��ئے ۔ یہ نم��ونے ہیں عین کے عین توپانی ہی چاہے کہ اس سے پاکیزگی حاصل کی جائے پ�ر ع��دم موج�ودگی اور ض�رورتتاس کے کی حالت میں پانی سے عوض یہ کام کرے یعنی جب اصل چیز نہیں ہے ت��و تان کی شریعت یہ کہ��تی ہے کہ ان نمونے سے کام نکالے یہ کارروائی کی بات ہے مگر تاس شخص کے جس نے عین یعنی اصل شے سے نمونوں سے کام نکالنے والا برابر ہے

کام کیا۔یی کی ش�ریعت میں پ�انی کی اس مق��ام پ�ر میں ص�رف اتن�ا کہت�ا ہ��وں کہ موس� جس��مانی طہ��ارت مس��یح کی روح��انی ب��اطنی طہ��ارت ک��ا نم��ونہ تھ��ا اور اص��ل اس میںآامد ہوئی اور جب تک اص��ل روحانی صفائی تھی جونمونوں کے وسیلہ سے اس وقت کارتاس طہارت کا سرچشمہ جو مسیح کا خون ہے کھولا نہ گیا خ��دا نے اپ�نے لوگ��وں ک�و آایا یعنی مسی�ی خون کا سرچش�مہ کھ��ولا کے نمونوں سے برکات بخشیں پر جب عین

آام�د وتمی� برخواس�ت اور وہ عین ج�و ظ��اہر ہ��وا آاب گیا تو پہر س�ب نم�ونے اوڑگ�ئے کہ تاس کے ل�ئے پھ��ر کس�ی ح�الت میں نم�ونے کی ح�اجت نہ رہی ایسا کامل ظ�اہر ہ�وا کہ اب انسان خواہ بیمار ہو یا ب�ڑی تنگی میں ہ�و ی�ا ف�راخی میں ہ��ر ح�الت میں ایم�ان کے ہاتھ سے مسی�ی خون کے سرچشمہ میں دلی طہارت حاصل کرتاہے۔ لیکن حضرتتان س��ابقہ نمون��وں کے ع��وض میں اورنم��ونے تانہ��وں نے م�مد اس بھید کو نہ سمجھے تان نمونوں کو عین اور اصل ٹھہرایا اگر پانی کی طہ��ارت اص��ل ش��ے ہے تجویز کئے اورتاس کا نمونہ وقائ� مق��ام ہے ت��ویہ اص��ل کیس��ی ناکام��ل ہے کہ زمین پ��ر اپ��نی اور تتمی� موجودگی حالت میں بھی بعض اوقات نم�ونے کی م�ت��اج ہے پ�ر مس�ی�ی خ�ون ک�اآای�ا تھ�ا جب تاس ح�الت میں نم�ونے میں ظ�اہر ہ�وا تھ��اکہ جب وہ وق�وع میں نہ سرچشمہ ظ��اہر ہ��وا ت�و مطل��ق نم��ونے ہٹ گ��ئے۔ پ��ر م�م�د ی تعلی� میں ہ� کچی بنی��اد پ�ر کچی

عمارت دیکھتے ہیں۔

فصل شش�فصل شش�

مسواک کے بیان میںمسواک کے بیان میں مسواک یا دانتن کرنا حضرت م�مد کی بڑی ع��ادت تھی اوریہ اچھی ع��ادتیی میں داخل سمجھتے مشکوات باب المس��واک ہے پر حضرت اس کو بھی عبادت الہ فص��ل ث��انی میں عائش��ہ س�ے ش��افعی وغ��یرہ کے روائت ی��وں ہے " المس��واک مطہ��رہ للھ� مرض��ات لل��رب مس��واک منہ کی پ��ا کی ہے اور خ��دا کی رض��امندی ہے۔اس��ی ب��اب کیآای��ا تب فصل ثالث میں ہے فرمایا حضرت نے کہ جب کبھی جبرئیل فرشتہ م��یرے پ��اس ہی مسواک کا حک� لایا یہاں تک کہ مجھے اپن��ا منہ چھ��ل ج�انے ک��ا خ�وف ہ��وا۔ پھ��رتاس وض��ور س��ے پ��ڑھی ج��ائے جس میں مس��واک عائشہ کی حدیث میں ہےکہ )جونماز تاس نم�از س�ے جس کے وض�و میں مس�واک نہ کی گئی ہے وہ نماز س�تردرجہ زی�ادہ ہے

ہو۔

مل اسلام میں مسواک کی بڑی اس تعلی� کے سبب سے امام شافعی کا فرقہ اہ ضرورت سمجھتا ہے بلکہ بعض مسلمان مسواک ہر وقت پ��اس رکھ��تے ہیں پ��ر اور فرق��وں

کے مسلمان وضو کے وقت اس کا استعمال کرتے ہیں۔ میں اس تعلی� پر صرف اتنا کہتا ہوں کہ مسواک خوب چیز ہے پر وقت معین پ��ر خل��وت میں بہ��تر ہے نہ ع��ام مجلس��وں میں اوریہ کہ یہ ام��ر بھی جس��مانی ب��ات ہے نہتان کے ب��ارے میں م��یری روح��انی۔ لیکن حض��رت م�م��د ج��وبہت مس��واک ک��رتے تھے تم��یزکی یہ گ��واہی ہے کہ حض��رت م�م��د بہ س��بب عورت��وں کے اس ک��ا اس��تعمال زی��ادہ کرتے تھے اوریہی سبب ہے کہ مسواک کے سارے بیان میں رات کی مسواک ک��ا ذک�رحول عب��ارت کی تفس��یروں میں ای��ک قص��ہ م�ذکورہ ہےکہ عورت��وں ہے۔ اورسورہ ت���ری� کی اآاتی ہے۔ اوراسی واسطے حض��رت کچ��ا پی��از اور نےکہا کہ اے م�مد تیرے منہ سے بدبو لہس��ن بھی نہ کھ��اتے تھے اور عطری��ات اورخوش��بو س��ے ک��پڑے اورب��دن ک��و بھی معط��ریی رکھتے تھے پس مسواک کی ک�ثرت کس�ی اورمطلب پ�ر مجھے معل�وم ہ��وتی ہے پ�ر الہ

عبادت کے پیرایہ میں حضرت نے اس کی تعلی� دی ہے۔ خ��دا کی عب��ادت کےل��ئے ج��و مس��واک ی��ا دین کی ص��فائی ہے وہ یہ ہے کہ آادمی اپنی زبان کو بدبات بولنے س��ے ب��از رکھے اورگالی��اں وٹھٹھہ ب��ازی اور چغ��ل خ��وری

باب تمام(۔ یہ روحانی مس�واک ہے ج�و عب�ادت۳اور کوسنا ولعنت کرنا چھوڑے)یعقوب ہے پر جسمانی مسواک جس� کےلئے صفائی ہے۔

فصل ہفت�فصل ہفت�

مم متبرکہ بیان میں مم متبرکہ بیان میںایا ایا حض��رت م�م��د نے یہ تعلی� بھی دی ہے کہ ب��رس کے ب��ارہ مہین��وں میں س��ے

رکوع میں لکھا۵چار مہینے خدا کے نزدیک زیادہ عزت دار ہیں چنانچہ سورہ توبہ کے

آاس�مان زمین ک�و تاس نے ہے کہ )خدا کے دفتر میں سال کے بارہ مہینے مق�رر ہیں جب تان بارہ میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ پیدا کیا تھا

وہ یہ ہیں ، رجب ذیعقدہ ذی ال�جہ م���رم۔ یہ چ��ار مہی��نے ق��دی� س��ے ع��رب میں متبرک خیال کئے جاتے تھے ان میں وہ لوگ لڑائی اور فساد نہ ک��رتے تھے حض��رتآان میں اپنے اباء کےدستور پر انہیں مبارک بتلایا ہے اور ہر مہینے کی تعری��ف ب��ڑے نے قرتتب اح����ادیث میں مل����تی ہے اور کچھ روزے اور دع����ائیں ب����ڑے مب����الغوں کے س����اتھ ک

اورنمازیں ان میں مقرر ہیں۔ ان چار کے سوا دو اورمہی�نے حض�رت نے اپ�نی ط�رف س�ے مع�زز ٹھہ�رائے ہیںآان ح��دیث میں بہت یعنی شعبان اور رمضان پس یہ چھ مہینے ہیں کہ ان کی تعریف ق��ر

ہے۔حول جمعہ ک�ا بعض خاص دن بھی ہیں جن ک�و حض�رت نے ب�زرگ بتلای�ا ہے اآاٹھویں تاریخ چہ��ارم ذی ال�جہ کی دن ، دوئ� شوال کی پہلی تاریخ سیوم ذال�جہ کی نویں تاریخ پنج� ذال�جہ کی دسویں تاریخ بلکہ یک� ذی ال�جہ سے دسویں ت�اریخ ت��ک سارا عشرہ مبارک ہے شش�� م���رم کی دس��ویں ت�اریخ ہے اور ان کے س�وا اوربھی دن ہیں

جو ک� مشہور ہیں۔حول ش��ب ب��رات ج��و ش��عبان بعض راتیں بھی حض��رت نے مب��ارک بتلائی ہیں اآاتی ہے مگ��ر آاتی ہے دوم لیلتہ القدر یہ رات معل��وم نہیں کہ کب کی چودھویں تاریخ کو تمردوں کی س��ال میں ک��وئی رات ہے ۔ س��وم ہ��ر جمع��رات جس میں پ��یروں فق��یروں اور

روحوں کے نام پر لوگ کھانا دیتے ہیں۔ ایک گھڑی یا س�اعت بھی حض�رت نے مب�ارک بتلائی ہے ج�و ہ�ر جمعہ کے

آاجاتی ہے۔ دن صبح سے شام تک کسی وقت

ان مہینوں اور دنوں اور راتوں کا بیان ح��دیثوں میں اس ک��ثرت س��ے ہے کہ استاس بی��ان میں ک��وئی مفی��د ب�ات نہیں ہے بیان میں ایک مجلد کتاب تیارہوس��کتی ہے پ��ر

صرف مبالغوں میں ثوابت کا ذکر ہے۔تروج ہے جس��ے دع��ا وعمی� کی عیس��ائی کلیس��یا میں ج��و نم��از کی کت��اب م��تان میں تاس میں بھی بعض مہین��وں اوردن��وں اور رات��وں ک��ا ذک��ر ہے اور کت��اب کہ��تے ہیں بعض دعائیں اورنمازیں اورنص�ی�تیں خ�اص مق�رر ہیں اور پول�وس رس�ول نے بھی )رومی��وں

( میں یوں لکھاہے کہ کوئی ایک دن کو دوسرے سے بہ��تر جانت��اہے اورک��وئی۶تا ۵: ۱۴ سب دنوں کو برابر جانتاہے ہر ایک اپنے اپنے دل میں پورا اعتقاد رکھے اور وہ جودن ک��و مانتاہے سو خداوند کےلئے مانگت��اہے اورج��و دن ک�و نہیں مانت�ا س�وخداوند کےل�ئے نہیں

مانتاہے۔ پس ہ� دنوں کے تقرر کے بابت حض�رت م�م�د پ�ر بھی اع��تراض نہیں ک�رتےآادمی خدا کے کلام پر ہیں لیکن صرف اس قدر ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ اگر کوئی تاس��ے یہ اورنماز کی کتاب پر فکر کے اورحضرت م�مد کے ایام متبرک پر بھی سوچےتو بات خوب معلوم ہوجائے گی کہ سواء سبت کے اورکسی دن میں خ��دا کی ط��رف س��ے

کچھ خصوصیت مقرر نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ بائب��ل میں لکھ��اہے کہ خ��دا نے چھ دن میں س��ب کچھ پی��دا کی��ا اور

آان میں بھی لکھاہے )اعراف رکوع میں۷ساتویں دن فراغت کی اورحضرت م�مد نے قر ہے(اللہ ال��ذی خل��ق الس��موات الارض فی س��تتہ ای��ام ث� الس��توی علی الع��رش اللہ وہ ہےآاسمان اور زمین کوچھ دن میں پیدا کیا اورپھر تخت پ��ر بیٹھ گی��ا۔پس یہ تخت جس نے پر ف�راغت پ�اکے بیٹھ ج�انے ک�ا دن ج�و براب�ر انبی�اء میں مان�ا گی�ا ض�رور خ�دا س�ے مق�رر

اورمخصوص ہے۔

آاپ ہی چھوڑ دیا ہے اوراس کے عوض جمعہ اگر چہ م�مد صاحب نے اسے آاپ ہی فرم��اتے ہیں کہ جمعہ خ��دا کی تعطی��ل ک��ا کا دن تعطیل کےلئے مقرر کی��ا ہے اورتان کے ق��ول کے مواف��ق پ��ر ہ� آادم پیدا کیا گی��ا تھ��ا دن نہیں تھا کیونکہ جمعہ کے دن یی علی العرش کا ی��وم ہے یع��نی س��بت تاسی یوم کی عزت کرتے ہیں جو الستو سب انبیاء تاس دن ن��ئی پی��دائش تاس کے عوض ہ� اتوار کو اب م��انتے ہیں اس ل��ئے کہ کا دن۔ ہاں تمردوں میں سے جی اٹھا تھا اوریہ سبت کا کام تمام کرکے اقنو ثانی نے فرصت پائی اور مس��ی�ی کلیس��یا ک��ا ہ��وا جیس��ے وہ س��بت یہ��ودی کلیس��یا ک��ا تھ��ا اس دن کے س��وا اور دوسراکوئی دن کلام میں مخصوص نہیں ہے جو اخلاقی شریعت میں داخل ہوکے تمام

جہان کے استعمال کےلئے پیش کیاگیا ہو۔آانے والا ہے لیکن ہ��اں بعض ای��ام اوربھی ت��وریت میں تھے جن ک��ا ذک��ر کچھ آائن��دہ تان کی خصوص��یت بعض واقع��ات ایسے مخص�وص نہ تھے جیس��ا س��بت تھ��ا پ��ر تان کی خصوص�یت بھی آاگ�ئے ت�و اب کےنمونے پر تھی اورجب وہ واقعات ظہ�ور میں آام��د تمی� برخواس��ت کے قاع��دے س��ے۔ ہ��اں اب نم��از کی کت��اب میں آاب ج��اتی رہی بعض ایام کلیسیا نے مخصوص کررکھے ہیں صرف واقعات گذشتہ کی یادگاری میں نماز کی کتاب ہرگز ہرگز نہیں کہتی ہے کہ یہ ای��ام اپ��نے نفس میں کچھ ب��رکت رکھ��تےتان خ��اص تان دن�وں میں ہیں بلکہ وہ تو سب دنوں کے برابر دن ہیں لیکن ب�ات یہ ہےکہ اا مس�یح تاص�ول ہیں مثل واقعات ک�و بغ��ور اوربالخص�وص ہ� ی�اد ک�رتے ہیں ج�و دین کے کی پیدائش کا دن اورموت ک��ا دن اورجی اٹھ��نے ک��ا دن اور روح کی ن��زول ک��ا دن استان کی یادگ�اری بہ ت�رتیب س�ال میں کی دنیا میں جو یہ بڑے بڑے امور واق��ع ہ��وئے تھے تان واقع��ات کے جاتی ہے اگر سب مل کے ان دنوں کے عوض میں اوردن یادگ��اری کے تاس کے ان واقع��ات کی ل��ئے مق��رر ک��ریں ت��و کت��اب نم��از ک��ا ان���راف نہیں ہے غ��رض

تان خاص دنوں سے۔ یادگاری سے ہے نہ

پر حضرت م�مد کی تعلی� میں دن مخصوص ہیں دنوں اور گھڑیوں اور رات��وںتان ایام میں کئے ج��اتے ہیں بلکہ تان کاموں میں جو اور مہینوں میں برکت ہے نہ صر ف تان اوقات کے نہ نسبت اور تاس دن میں واقع ہونے سے بہ سبب خصوصیت وہ کام اوق��ات کے وہ زی��ادہ مقب��ول ہیں یہی ف��رق م�م��دی اوق��ات مت��برکہ اور عیس��ائی ای��ام یادگ��اری میں ہے اب ن��اظرین س��وچ س��کتے ہیں کہ اس تعلی� میں بھی کتن��ا ف��رق ہے اور

معرفت کے رتبہ سے کس قدر یہ تعلی� حضرت کی گری ہوئي ہے۔

فصل ہشت�فصل ہشت�عیدوں کے بیان میںعیدوں کے بیان میں

یی حضرت م�مد کی تعلی� میں دوعیدوں کا بیان ہے عیدالفطر اور عید الض�یعنی عید وبقرعید۔

یی عرب عید الفطر کی رس� خاص حضرت م�مد کی ایجاد ہے پر عیدالض�آاتی ہے ۔ میں پہلے سے

آاج عید الفطر اس لئے ہے کہ ماہ رمضان خیر س��ے گ��ذرا اور بعض روزوں کے مغف��رت حاص��ل ہ��وئی ح��دیث میں ہے عب��ادی ل ص��مت� ولی ص��لیت� انص��رفوا مغف��ورالک�تان س��ے ی��وں کہت��اہے کہ )اے آاتے ہیں تو گویا خ��دا جب مسلمان عید کی نماز پڑھکے میرے بندو ت� نے میرے لئے روزے رکھے اور عید کی نماز پڑھی پس چلے جاؤ بخشے

ہوئے اپنے گھروں کو۔ اس عید کا یہ دستور ہے کہ صاف کپڑا پہ��نے ہ��وئے کچھ کھ��ا ک��ر گھ��ر س��ے

نکلیں اور عیدگاہ میں نماز پڑھیں اور صدقہ فطردیں اور خوشی کریں۔ لیکن بقر عید کو گھر سے باہر بغیر کھائے نہار منہ نکلیں اور بعد نم��از گھ��ر

آاکر قربانی کریں اورکھائیں اور خیرات دیں۔ پر

مش��کوات ب��اب ص��لوات العی��دین میں لکھ��اہے انس س��ے اب��وداؤد کی روایتمل آائے تھے تودیکھ��ا کہ اہ�� ہےکہ جب حض��رت ہج��رت ہج��ر ک��رکے مکہ س��ے م��دینہ میں م��دینہ س��ال میں دور روز عی��د کی��ا ک��رتے ہیں مہرج��ان میں اور ن��و روز کے دن۔ مہرج��انخزاوں کا مہینہ ہے اورنوروز سال کا پہلا دن ہے یہ دوروز عید کے مدینہ میں مقرر تھے۔ حضرت نے اہل مدینہ سے کہ��ا کہ ان دو روز میں خوش��ی کرن��ا چھ��وڑدو اس کے ع��وض

میں خدا نے ہمیں عید اور بقر عید کا دن بخشاہے۔ جمعہ کا دن بھی مسلمانوں میں ایک عید کا دن ہے بموجب مشکوات باب

الجمہ فصل ثالث کی اس روایت کے جو ابن عباس سے ترمذی نے نقل کی ہے۔آان میں لکھ��اہے کہ جمہ کی اور اس دن کی ب��ڑی ب��زرگی بی��ان ہ��وئی ہے اور ق��ر

آانا چاہیے۔ نماز کی اذان کے وقت بیع اور خریدفروخت بند کرکے مسجد میں اوراسی باب میں عبداللہ بن عمر س��ے روایت ہےفرمای�ا حض��رت نے ج��و ک��وئی

مرجائے جمعہ کو یا جمعرات کو تو وہ عذاب قبر سے بچ جاتاہے۔آادم جمعہ کے دن پی��دا جمہ کی وجہ خصوصیت ک��ئی ای��ک ہیں یع��نی یہ کہ کیا گیا تھا اورجمہ ہی کو بہشت سے نکالا گیا اور جمہ ہی کو وہ مرا بھی تھ��ا اورجمہآائیگی۔ لیکن نہ��ائت آاتی ہے اور قی��امت بھی جمہ کے دن کے دن ای��ک مقب��ول گھ��ڑی حول درست بات اس دن کی خصوصیت کےلئے وہ ہے جو مشکوات ب��اب الجمہ فص��ل ااا والنص�اری میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے والناس لنافیہ تبع الیھ��ود ع��ذآادمی ہم��ارے پیچھے ہیں دد یع��نی خ��دا نے ہمیں جمہ ک��ا دن بتلای��ا ہے س��ب بع��د ض��آاگے یہودی سنیچر کو عبادت کرتے ہیں اورعیسائی اس کے بعد اتوار ک��و ہ� س��ب س��ے

ہیں کہ جمعہ کو مانتے ہیں۔ بیان گذشتہ سے معل�وم ہ��وا کہ یہ تین عی��دیں اہ��ل اس�لام کی م�ض مخ��الفت دیگر اقوام پر قائ� ہیں عید اور بقرعید حضرت نے مدینہ کے مہرجان اور نوروز کے بدلے

تان کی رس� اجاڑے اوران کی رس�� ق�ائ� رہے اور تیس�ری عی�د ج�و میں قائ� کی ہیں کہ جمعہ ہے وہ یہودی اورعیسائی لوگ��وں کی مخ��الفت میں ہے کہ ہ� ان دون��وں فرق��وں س��ے کس��ی ط��رح پیش دس��تی ک��ریں یہ��اں س��ے ظ��اہر ہےکہ تین��وں عی��دوں کی بنی��اد مخ��الفت

نفسانی پر قائ� ہے پھر کیونکر ان میں برکت ہوگی۔ خدا کے کلام میں بھی عی��دوں ک�ا ذک�ر لکھ�اہے پ�ر وہ عی��دیں نہ کس�ی کی مخالفت پر قائ� ہیں اورنہ انسان کی تجویز سے ہیں پر خدا کے پاک بھیدوں ک��ا عکس

(۔ میں ہے کہ یہ خداوند کی عیدیں اور مقدس منادیاں ہیں۔۴: ۲۳ہیں جیسے )احبار پہلی عی��د ہفتہ ہے یع��نی س��نیچر ک��ا س��بت اس کی خ��اص وجہ وہی ہے ج��وآان میں بھی لکھی ہے کہ خ��دا نے چھ دن میں س��ب کچھ پی��دا یی میں اور ق��ر مم الہ کلاآارام س�ے بیٹھ گی�ا۔ اور خ�دانے حک� دی�اکہ کیا اور س�اتویں دن ف�راغت کی ی�ا تخت پ�ر آادمی بھی چھ روز دنیاوی کام کریں ساتویں دین سب کچھ چھ��وڑ ک�ر میرے نمونے پر آائے یع�نی اللہ سےدل لگائیں اور عبادت کریں بہت ٹھی��ک ط��ورپر یہ��ودی اس�ے م�انتے ہفتہ ہی کے روز سبت کرتے رہے۔ پر عیسائی لوگوں نے اتوار کو سبت ق��رار دی��ا اس ل��ئےتاس دن مس��یح ق��بر س��ے نکلا اوریہ��ودی س��بت کی تکمی��ل کہ نجات کا کام پورا کرکے

کردی۔آاؤ ہ� یہودی��وں س��ے س��بقت عیسائیوں نے یہ نفسانی خیال کبھی نہیں کی��اکہ تاس وقت ت��و مس��لمان پی��دا بھی نہ ہ��وئے تھے لے جانے کےلئے جمعہ کو اختیار ک��رلیں اگر عیسائی چاہتے تو جمعہ کو لے سکتے تھے پ�روہ اپ�نی مرض�ی س�ے دین نہیں بن��اتے ہیں وہ خدا کے الہام کے تابع ہیں اورجب وہ خ��دا کے ت��ابع ہیں تب ہی ت��و خ��دا انہیں عمدہ برکتیں دیتا ہے کہ اس نے انہیں اتوار بخش��ا کہ ن��ئی زن��دگی کے ل��وگ اپ��نی ن�ئی

زندگی کے پہلے دن کو خدا کی عبادت کے لئے مخصوص جانیں۔

( کے مواف��ق یع��نی پہلے مہی��نے۶، ۵: ۲۳(عی��د فس��ح اور فط��یر ہے )احب��ار۲)تاس میں برہ ذبح کی��ا جات��ا۱۴کی تاریخ زوال وغروب کے درمیان مخلصی کی عید ہے

ت�اریخ ک��و عی��د فط��یر ہ��وتی تھی جس میں س��ات دن ت�ک۱۵تھا اور دوس��رے روز یع��نی فطیری روٹی کھاتے تھے۔

آانے والا تھ��ا خ��دا نے یہ عی��د س��یدنا مس��یح کی یادگ��اری میں ج��و دنی��ا میں بجے س�ے تین بجے۱۲یہودیوں کو بتلائی تھی سیدنا مسیح ٹھیک اسی عی�د کے وقت

( اب یہ عید تکمی��ل پ��اگئی یع��نی اس۴۵: ۲۷تک خدا کا برہ ہوکے صلیب پر موا)متی عید کا مطلب ظ��اہر ہوگی��اکہ یہ تھ��ا اور ض��رور ب��ڑا بھ��اری مطلب اس میں تھ��ا اوراس کے سب قواعد خوب اس میں پورے ہ��وئے پس یہ عی��د کی��ا تھی مس��یح کی م��وت ک��ا ای��کتان کے ہاتھ میں تھا نہ نوروز کی مخالفت تھی نہ مہرجان کی نقشہ کھینچا ہوا اللہ کا ترجلال نقشہ یاجہان کے نجات نامہ کی تصویر تھی پر آائندہ م�بت کا پ پر خدا کی آای��ا جس کی تص��ویر تھی ہ� نے تص��ویر ک��و ہ��اتھ درس��ت مطلب جب کھلا جبکہ وہ میں لے ک��ر س��ب کچھ اس میں جس کی تص��ویر تھی درس��ت پای��ا۔ اوراس کے بع��د یہ

تاریخ سے سات دن تک ہوتی تھی سات ک��ا ع��دد کم��ال پ��ر اش��ارہ کرت��اہے پس۱۵فطیر آاخ��ر ت��ک ش��رارت کے خم��یر س��ے کلیس��یا پرہ��یز ک��رتی ہے قی��امت کے دن ت��ک یہ عی��دیی پورے ہوں گے جب تک تمام ریاکاری رہیگی اور قیامت کو یہ سات دن ب�ساب الہکا خمیر دور کرتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے روحانی فطیری روٹی کھاتے ہیں۔

تان۱۶عید پولا ہلانے کی تھی اوروہ اسی مہی�نے کی ت�اریخ ک�و ہ�وتی تھی کہ ایام میں زراعت پک جاتی تھی مگر گ�اٹنے س�ے پہلے یہ عی��د ہ��وتی تھی اس عی��د کے بعد کاٹنا شروع ہوتا تھا مگر اس عید کے دن پ��ر ای��ک پ��ولا یع��نی اپ��نی زراعت ک��ا پہلا حاصل کاہن کے وسیلہ سے خدا کے حضور میں پیش کی��ا ک��رتے تھے بم��وجب )احب��ار

( کے۔۱۰: ۲۳

تردگ��ان کے کہ��تے ک��ا پہلا پھ��ل تاس��ی دن س��یدنا مس��یح تم��ام زمین کے م سو ت�اریخ ک�و عی�د فس�ح کے دن۱۴ہوکے قیامت کی زندگی سے زندہ ہوکے جی اٹھا تھ��ا۔

( تاریخ کو اس کی منادی ہوئی کہ سات دن ت��ک ک��وئی خم��یر ک��ا اس��تعمال نہ۱۵موا) کرے یعنی اب جہان سے شرارت اورریاکاری متروک ہ��وئے قی��امت ت��ک کی��ونکہ حقیقی

آائی کہ اللہ کے س��امنے اپ��نی زراعت۱۶کفارہ ہوگیا پر) (تاریخ جب پ��ولا ہلانے کی عی��د تاس دن مس��یح م��ردوں میں س��ے جی اٹھ��ا یہ ک��ا پہلا پ��ولا ش��کر گ��زاری میں پیش ک��ریں آانس��ووں کے س��اتھ بوی��ا آای��ا اب ج��و کچھ دکھلا کے کہ اب مردوں کے اٹھنے ک�اوقت تھا وہ خوشی کے ساتھ کاٹ کے گہر میں لائینگے پس مسیح میں قی��امت ک��ا ش��روع

(۔ پس یہ عی��د بھی کام��ل ہوگ��ئی اور۲۰: ۱۵کرنتھی��وں ۱۔ ۱: ۲۸ہوگی��ا )دیکھ��و م��تی تاس عید کی کچھ حاجت نہ رہی جس کی تص��ویر تھی شریعت کا بھید ظاہر ہوگیا اب

آایا۔ وہ عی��د پینتکوس��ت تھی ج��و تیس��رے مہی��نے کی پ��انچ ت��اریخ ک��و ہ��وتی تھی

( کے یع��نی عی��د فس��ح س��ے پچ��اس ی��وم کے بع��د اس۲۱، ۱۵: ۲۳بم��وجب )احب��ار حول کے اور ۱۵حساب سے کہ یوم ماہ س��یوم کے ملا۵یوم ماہ دوم کے اور ۳۰ یوم ماہ ا

کر برابر پچاس کے ہوتے ہیں اور یہ عید شریعت کی یادگاری میں تھی کہ خدا نے اس دن شریعت موسوی عنائت کی تھی۔ مگر ٹھیک اسی عید پ�ر خ�دا کی روح مس�یح نے آاسمان پر شاگردوں پر ن�ازل کی تھی اورانہیں برک��ات روح��انیہ س��ے بھ��ر دی�ا تھ��ا اور تم��ام

س�ے۱: ۲عہدنامہ جدی�د کی ب�اتیں روح س�ے ش�اگردوں ک�و بتلائی گ�ئی تھیں )اعم�ال ( پس یہ عید بھی یہودیوں کی کامل ہوگ��ئی یہ چ��اروں عی�دیں یہ��ود کی مس�یح کی۱۳

حول سے متعلق تھیں سو پوری اورکامل ہوگئی اورجہان سے اٹھ گئیں کیونکہ ان ک��ا آامد اآاگیا۔ عین

کے سواس عید کا بھی��د انجی��ل۱: ۲۹عید نرسنگے کی تھی بموجب گنتی آائیں گے تب وہ عید بھی پ��وری ہ��وگی شریف میں یوں ظاہر کیا گیا کہ جب مسیح پھر

( اور چونکہ ساتویں مہینے کی پہلی ت�اریخ وہ عی�د تھی پس جب۳۱، ۳۰: ۲۴)متی آائیگ��ا یع��نی جب دنی��ا ک��ا چھ دن ک�ا چھ مہینے پورے ہوجائیں گے اور ساتواں مہینہ آائے گا تو اس کی پہلی تاریخ وہ عی��د بھی ہ� آارام کا کام پوراہوجائے گا اور ساتواں دن کرینگے۔ خدا کا فرشتہ نرسنگا پھونکے گا اور لوگ قبروں سے نکلیں گے ت��اکہ خداون��د

کے سامنے حاضر ہوں اور خوش کی عید کریں۔ عید کفارہ تھی اور وہ س��اتویں مہی��نے کی دس�ویں ت��اریخ ہ��وتی تھی بم��وجب

تمردوں کے جی۶: ۲۳)احبار آانے پر اورمس��ی�ی (۔ کے یہ عید ابھی باقی ہے مسیح کے تاس کے فوائ��د اوراس اٹھنے کے بعد یہ کامل ہوگی جب مس��ی�ی کف��ارہ کی کیفیت اور کی قیمت س��ب ایمان��داروں اوربے ایم��انوں پ��ر بھی روش��ن ہوج��ائیگی جب وہ ل��وگ ج��و کفارہ س��ے پ�اک ہ��وئے ہیں نہ��ایت خوش��ی ک�ا منہ دیکھیں گے اور وہ جنہ��وں نے کف��ارہ کی ت�قیر کی ہے پشیمان ہونگے اور حسرت س��ے کہیں گے کہ ہ��ائے ہ� اپ��نی ن��ادانی اور سرکش��ی کے س��بب کف��ارہ کی ب��رکت س��ے م���روم رہے اور اب اب��د ت��ک ہ� پ��ر افسوس اور افسوس ہے اورکچھ چارہ نہیں اس روز کفارہ کی عید ہوج�ائیگی پ�ر س�اتویںآاوری کےکچھ تھ��وڑے مہی��نے کی دس��ویں ت��اریخ یہ ہوگ��ا کہ یع��نی مس��یح کی تش��ریف

عرصہ کے بعد ۔ ت��ک ہ��وتی تھی۲۴ت��اریخ س��ے ۱۵عی��د خیمہ تھی یہ عی��د س��اتویں مہی��نے کی

تان۳۲: ۲۳بم��وجب احب�ار تاس وقت کم�ال ک�و پہنچے گی کہ جب ( کے س��و یہ عی�د آادمی��وں کے س��اتھ ہوگ��ا)مکاش��فات (۔ک��و۳: ۲۱س��اری عی��دوں کے بع��د خ��دا ک��ا خیمہ

دیکھو۔

پس ان سات عیدوں میں سے جو یہودی��وں کی کت��ابوں میں ہم��ارے م��ولا کی تص�ویروں کے ط�ورپر م�ذکور ہیں ای�ک عی�د ہفتہ ہفتہ ات�وار ک�و کی ج�اتی ہے کی�ونکہ وہ

مقدسوں سے علاقہ رکھتی ہے کہ باپ کے نمونے پر ہمیشہ کام کریں۔تان عیدوں کا مطلب پورا ہوگیا یعنی فس�ح اور پ�ولا ہلانے کی دوعیدیں ہوچکی عید تمام ہ��وئیں چ��وتھی عی��د۔ ہ��ورہی ہے کہ انجی��ل س��نائی ج��اتی ہے اور ل��وگ خ��دا کی روح پ��اتے ہیں اورکلیس��یا میں ش��امل ہ��وتے ج��اتے ہیں اور دنی��ا کی ح��دوں ت��ک یہ س��نائیآادم س�ے علاقہ رکھ��تی ہیں۔ جن جائيگی پانچویں چھٹی ساتویں عید مسیح کی دوسری آاس���مان کی ط���رف ت���اکتے ہیں کہ کب وہ کی انتظ���اری میں ہم���اری روحیں رات دن تاس نے تین عی��دیں پ��وری کی ہیں یہ آائے اور انہیں پ��ورا ک��رے جیس��ے مال��ک المل��ک

خلاصہ توریت کی عیدوں کا ہے۔ اب دیکھ لو کہ م�مدی عیدوں کا مغز اور ان عیدوں کا بھید کس قدر ف��رقآادمی کے خیال اور خ��دا تاسی قدر فرق آادمی میں اور خدا میں ہے رکھتاہے اور جتنا فرق کے خیال میں ہے۔ اب جو ہ� عیسائی لوگ عی�دیں م�انتے ہیں وہ س�ب ہم�اری روح��انی

زندگی یا مسیح کے واقعات کی یادگاری کے دن ہیں۔

فصل نہ�فصل نہ�نمازوں کے بیان میںنمازوں کے بیان میں

آادمی ک��و نم��از پڑھ��نی حض��رت نے یہ تعلی� بھی تاکی��د کے س��اتھ دی ہے کہ تان کی دو قس� پر ہیں۔ چاہیے اورنمازیں

حول نماز ا جو ہر مسلمان بالغ عاقل پر فرض عین ہے اور وہ پانچ نمازیں ہیں فجر، ظہ��ر،

عصر، مغرب اور عشا۔

ایک نماز میں دو یا تین ی��ا چ��ار رکعت ہ��وتی ہیں رکعت کے مع��نی ہیں ٹک��ڑا نماز کا بشرطیکہ اس میں جھکنا بھی پڑے پس کھڑا ہونا اورجھکنا اورسجدہ کرنا معہتان میں مق��رر ہیں ای�ک رکعت کہلاتی ہے۔ ص�بح ک�و تان دع�اؤں کے ج�و نیت نماز اور اا غ��روب دورکعت ، بع��د دوپہ��ر کے چ�ار رکعت کچھ دن ب�اقی رہے اورچ��ار رکعت ۔ ف�ور

رکعت کچھ رات گئی چ��ار رکعت مق��رر ہیں یہ س��ب خ��دا کی ط��رف س��ے۳کے بعد آادمیوں پر بطور فرض کے رکھی گئی ہیں ۔ یہی پانچ نمازیں ہیں جو مشہور ہیں۔

حول میں اب��وہریرہ س��ے مس��ل� وبخ��اری کی مش��کوات کت��اب الص��لوات فص��ل ا روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے اگر کسی کے دروازہ پر نہ��ر ہ��و او روہ پ��انچ دف��ع ہ��ر روزتاس کے بدن پ�ر کچھ می�ل رہ س�کتا ہے لوگ�وں نے کہ��ا نہیں تاس میں غسل کرے توکیا

تان کے سبب سے سب گناہ بخشے جاتے ہیں۔ فرمایا یہ حال ان پانچ نمازوں کا ہے مگ��ر علم��اء م�م��دیہ کہ��تے ہیں کہ ص��رف چھ��وٹے چھ��وٹے گن��اہ بخش��ے جاتےہیں پر بڑے گناہ نہیں بخشے جاتے لیکن حضرت م�مد کی عبادت میں چھوٹے

بڑے گناہ کی کچھ قید نہیں ہے۔ شائد یہ نہر کی تمثیل حضرت م�مد نے اپنی پانچ نمازوں کی نس��بت پہلے زبور میں سے الٹ کے اخذ کی ہے وہاں نمازوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ مغف��رت گن��اہوںیی میں رات دن س��وچنے والا اس درخت کی مانن��د ہے مگ��ر یہ ذک��ر ہے کہ کلام الہتاس کے پ�تے مرجھ�اتے نہیں وہ جو نہر کے کنارے پر ہے جو ہر وقت سرس�بز رہت�اہے اور پھولت��ا پھلت��ا رہت��ا رہیگ��ا یہ مض��مون ت��و پس��ند کے لائ��ق ہے پ��ر نم��ازوں میں ایس��ی کی��ا

خصوصیت ہے۔

تنت تنتدوم نماز س دوم نماز س یعنی وہ نماز ج�و حض�رت م�م�د نے اپ�نی مرض�ی س��ے پ�ڑھی ہیں اگ�ر ک�وئیتان کی ب��ابت نہیں ہے کہ ض��رور پ��ڑھی انہیں پڑھے تو بڑا ثواب پاتاہے پ��ر خ��دا ک��ا حک�

جائیں توبھی باسیدثواب حضرت کے ارشاد کے موافق ہ��ر ف��رض نم��از کے س��اتھ کس��یقدر سنت نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔

سوم تراویح یہ وہ خاص نماز ہے ج��و ص��رف رمض��ان کے مہی��نے میں براب��ر رات ک��و پ��ڑھیتاس کی بیس رکع��تیں ہیں۔ یہ ب��ڑی لم��بی نم��ازیں ہیں اور کبھی کبھی ض��رور ج��اتی ہے آاتی ہے۔ آان ان میں خت� کیا جائے۔ پس فی یوم ایک س��پارہ کی اوس��ط ہوتاہے کہ سارا قراا آاجاتی ہے مگر فور دن بھر روزہ کھا تھا شام کو کچھ کھایا جس سے بدن میں سستی آاتی ہیں معمولی نماز کے سوا یہ دیر ت��ک کی اٹھ��ا بیٹھی لوگ��وں کے ل��ئے یہ تراویح پیش

بڑی تکلیف کا باعث ہے پر لوگ بھی لاچاری سے اسے تمام کرتے ہیں۔آاپ کبھی براب��ر مہی��نے بھ��ر نہیں حضرت م�م��د نے یہ نم��از ج��و تکلی��ف ہے

کچھ دن پڑھ کر چھوڑدی تھی۔حول میں زی��د بن ث��ابت کی روائیت مش��کوات ب��اب قی��ام ش��ہر رمض��ان فص��ل ا بخاری ومسل� سے یوں لکھی ہے کہ )حضرت نے مسجد میں چٹ��ائی ک��ا ای��ک حج��رہ بنایا اوراس حجرہ میں کئی رات اکیلے نماز پڑھتے رہے جب لوگوں نے یہ حال دیکھا توتان کے ساتھ نماز ف��رض اور ت�راویح پڑھ�نے لگے پس ک�ئی آانے لگے اور حضرت وہ بھی رات کے بعد ایک رات کو حضرت حجرہ س��ے ب��اہر نہ نکلے ل��وگ ب��اہر کھ��ڑے کھ��ڑےآائیں اورنم��از ک��ریں لیکن آاواز سن کر باہر آاکر کہنگہار نے لگے کہ شائد حضرت تنگ آائے مگر کہہ دیا کہ تمہارا شوق اس نم�از پ�ر ہمیش�ہ رہن��ا چ�اہیے پ�ر میں اس حضرت نہ یی اس نم��از ک�و بھی ت� پ�ر آات�ا کہ مب��ادا خ��دائے تع��ال لئے اس نماز کے لئے ب�اہر نہیں فرض نہ کردے اوراگر یہ فرض ہوگئی تو ت� اس کو ادانہ کرسکوگے پس اے لوگ��و بہ��تر

ہے کہ ت� اس نماز کو اپنے اپنے گھروں میں پڑھ لیاکرو۔

حضرت م�مد خود جانتے تھے کہ یہ بھاری نماز تکلیف کا باعث ہے اس��ی ل�ئے ت�و فرم�اتے ہیں کہ ت� ادا نہ کرس�کوگے ۔ اوریہ بھی ظ��اہر ہے کہ حض�رت اس ب�وجھ کے اٹھانے سے ضرور تھک گئے تھے چنانچہ اس تھکاوٹ کا مزہ مسلمان ک��و خ��وب معلوم ہے۔ مگر حضرت کا یہ عذر کہ میں اس لئے اب اس نماز کو ترک کرتا ہ��وں کہ مبادا خدا ہ� پر اس نماز کو ف�رض نہ ک�ردے ص�اف ظ�اہر ہے کہ یہ کس قس�� ک�ا ع�ذر ہے یہ ای���ک حیلہ ہے نہیں فرم���اتے کہ یہ بھ���اری ب���وجھ میں نے بان���دھا ہے خ���ود نہیں

( بالفرض اگ�ر یہ س�چا ع�ذر تھ�ا۴: ۲۳اٹھاسکتا پر دوسروں کی گردن پر رکھتا ہوں)متی جو تعجب کی بات ہے کہ یہ کیسا خدا ہے اوریہ کیسے نبی ہیں کیا یہ خدا اس نبیتامت پر فرض کردیا کرت��ا کو ایک کام پر مداومت کرتے ہوئے دیکھ کر وہ کام اس کی ہے نہ اپنی کسی خاص حکمت کے سبب مگر نبی کی مداومت کے سبب حالانکہتان ک�و اس امت پ��ر ف��رض نہیں اوربہت کام اس نبی کی مداومت میں ہیں اور اس نے کیا۔اوریہ کیس��ے ن��بی ہیں کہ اپ��نے خ��دا کے س��اتھ بھی داؤ برت��تے ہیں اورحکمت عملی س��ے چل�تے ہیں یہ ت�و ایس�ی ب��ات ہے جیس�ے ک�وئی کہے کہ م��یرا ص��ندوقچہ ذرا ان�درآات�ا ہے ش�ائد ص�ندوقہ س�امنے دیکھ ک�ر کچھ روپیہ ق��رض طلب نہ اٹھ�اکے رکھ دو زی�د کرے۔ یہ تو خدا کے ساتھ دل کی اچھی نسبت نہیں ہے اور نہ خدائی کی ش��ان کے

تاس کی نسبت گمان ہے۔ موافق پس اب��وبکر کے عہ��د میں اور عم��ر کے عہ��د کے اوائ��ل میں یہ دس��تور رہ��ا کہ لوگ جمع ہوکر اس نماز کو نہ پڑھتے تھے جس ک�ا دل چاہت��ا اپ��نے گھ��ر میں پڑھ�ا کرت��اآاس�مان س�ے حک� تھ��ا۔ پ�ر خلیفہ عم�ر نے کہ�ا اب ت�و حض�رت م�م�دانتقال کرگ�ئے اور تاترنے بند ہوگئے ہیں اب اس کا خوف نہ رہا کہ خدا اس کو ف��رض نہ ک�ردے۔ پس اب چاہیے کہ مسلمان مسجدوں میں جمع ہوکر اسے پڑھا کریں تب سے پھر اس کا دس��تور

جاری ہوا۔

چہارم نماز شکرالوضوچہارم نماز شکرالوضو وضور کے ش��کر میں ج�و نم�از پ�ڑھی ج�اتی ہے وہ ش�کر الوض�و ہے مش�کواتحول میں اب��وہریرہ کی ح��دیث بخ��اری ومس��ل� س��ے کتاب الصلوات باب تس��طوع فص��ل ا یوں لکھی ہے کہ ای��ک روزص��بح کی نم��از کے وقت حض��رت نے بلال س��ے کہ��ا اے بلال تومجھے بتلاکہ کونسا نیک کام تونے کیا ہے جس س��ے ت��و ایس��ا مقب��ول ہوگی��ا کہآاگے سنی )یعنی رات کو تو بہش��ت آاواز بہشت میں ،میں نے اپنے تیری جوتیوں کی آاگے جوتی��اں کھڑکات��ا ہ��وا پہنچ گی��ا( بلال ب��ولا میں نے جب وض��و میں مجھ س��ے بھی تاس سے کچھ نماز پ��ڑھی ہے یع��نی نم��از ش��کر الوض��و کے س��بب س��ے یہ کی ہے ضرور

رتبہ پایاہے۔آاسان بات س��مجھا ہے کہ ای��ک ادنی حضرت م�مد نے بہشت کو بہت ہی آادمی تھ��ا آادمی وہ��اں پہنچ س�کتا ہے بلال ای�ک س�یدھا س�ادہ سے بات کے وس�یلہ س�ے تاس نے بھی کچھ کہہ دیا مگ��ر ی��اد جب حضرت نے اپنے کسی خواب کا ذکر کیا تو رکھنا چاہیے کہ ایسے فقروں سے جیسا فقرہ حضرت م�مد نے یہاں سنایا ہے اس وقت بھی مشائیخ اور گورو لوگ عوام سامعین اور خدام کے دلوں ک��و اپ��نی س��مت کھینچ��ا کرتے ہیں کچھ ایسی باتیں اپنی باتوں میں ملا ک��ر ب�ولا ک�رتے ہیں کہ لوگ��وں ک��و گم��ان

پیدا ہوجائے کہ یہ بہت پہنچے ہوئے شخص ہیں۔

یی ہے یی ہےپنج� نماز صلوات الکبر پنج� نماز صلوات الکبر یعنی چاشت کی نماز اس کےل��ئے دورکعت س��ے ب��ارہ رکعت ت�ک تع��داد ہے اوراس ک��ا

وقت پہر دن چڑھے سے دوپہر تک ہے اوراس کا بھی بڑا ثواب لکھاہے۔

یی ہے یی ہےشش� نماز صلوات الصغر شش� نماز صلوات الصغر

رکعت تک ہے ایک گھڑی دن۶اس کو اشراق بھی کہتے ہیں دورکعت سے چڑھے سے پہر دن چڑھے تک اس کا وقت ہے۔

ہفت� نماز صلوات التسبیح ہےہفت� نماز صلوات التسبیح ہے اس میں چار رکعت ہیں۔ ہر رکعت میں ال�مد اور ک��وئی س��ورہ پ��ڑھ ک��ر پن��درہ دفعہ ی��وں کہے س��ب�ان اللہ وال�م��د اللہ والاالہ اللہ اللہ اک��بر ۔رک��وع میں دس ب��ار کہے رکوع سے اٹھ کر دس بار کہے سجدہ میں دس بار کہے سجدے سے اٹھ کر دس ب��ار

( دفعہ۷۵کہے پھر سجدہ دوی� میں دس بار کہے پھر سر اٹھائے اور دس ب�ر کہے یہ )( بار وہ عبارت پڑھے۔۳۰۰ہوا اسی طرح پر چہار رکعت میں )

آادمی کےاگلے اورپچھلے پ��روانے اور ن��ئے ث��واب اس ک��ا یہ بتلای��ا گی��ا ہے کہ عمدے اور سہوی چھوٹے اوربڑے سب گناہ بخشےجاتے ہیں۔

خواہر روز کوئی اس کو ایک دفعہ پڑھا کرے یا ہر جمعہ کو یاہر مہینے میں یاہر برس میں یا ساری عمر میں ایک بار پڑھے۔

تاس ح��دیث ک��ا ج��و مش��کوات کت��اب الص��لوات ب��اب ص��لوات یہ خلاص��ہ ہے التسبیح میں ابودادؤد اورابن ماجہ اوربیہقی وترمذی کی سند سے لکھی ہے۔

واضح ہو کہ ہ� نے جہاں تک گناہوں کی معافی کے ب��ارہ میں کلام س��ے اور عق��ل س��ے اورطالب��ان نج��ات کی ح��الت پ��ر س��وچنے س��ے معل��وم کی��ا ہے وہ یہ ہے کہ نہآادمی معافی حاص��ل ک��رے توجہان میں کوئی ایسی عبارت ہے کہ جس کے پڑھنے سے اور نہ کوئی ایسا زہدوریاضت ہے اور نہ کوئی ایسی خیرات ہے اور نہ کوئی ایسا ش��خص ہے جس سے یہ برکت پائیں مگ�ر ص�رف س�یدنا مس�یح ک�ا خ�ون ہے جس س�ے ہ� اپ�نے گناہوں کی معافی حاصل کرسکتے ہیں ۔ جنہوں نے خدا کی معرفت حاص��ل نہیں کی وہ ہمیشہ یہ س�مجھتے ہیں کہ گن�اہوں کی مع��افی ب�ڑی ریاض�ت اٹھ�انے س�ے اور وظیفے پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے مگرایسے ہی موقعوں کےب��ارہ میں مس��یح نےفرمای�ا ہے کہ

تان کی سنے گا پ��ر ت� ایس��ا نہ ک��رو)م��تی غیر قوم سمجھتی ہے کہ بہت بولنے سے خدا (۔۷: ۶

میں جو اس کتاب کا لکھنے والا ہوں پیدائش سے س��ن وق��وف ت��ک مس��لمانتان دن��وں میں ، میں نے خ��ود ب��ڑی م�نت تھا اور دین عیسائی سے بالک��ل واق��ف نہ تھ��ا تان کے ساتھ اور ریاضتیں بھی بہت اٹھائی ہیں پر تمدت تک ان نمازوں کو پڑھا اور سے کچھ روحانی برکت ان کے وس�یلہ س�ے حاص�ل نہ ہ��وئی نہ ت�و دل گن��اہ کے ب�وجھ س�ے ہلکا ہوا اورنہ گناہ کی تاریکی دل پر س�ے ہ��ٹی پ��ر جب س�یدنا مس�یح پ�ر ایم��ان لای�ا تبآاث��ار روح میں نمای��اں تاس کے ن��ام س��ے حاص��ل ہ��وئی اور مع��افی کے گن��اہوں کی مع��افی

ہوئے اورخدا کی مرضی معلوم ہوئی اورپوری تسلی پائی۔

ہشت� نماز سفر ہےہشت� نماز سفر ہے یہ وہی ہے فرض نماز ہے جس کا پہلے ذکر ہوا۔ مگر یہ نماز سفر میں نصف نص��ف پ��ڑھی ج��اتی ہے او رنص��ف خ��دا کی ط��رف س��ے بط��ور ص��دقہ کے مس��افروں ک��و

معاف ہے اور نصف سے مراد یہ ہے کہ جہاں چار رکعتیں ہیں وہاں دو پڑھی جائیں۔

نہ� نماز جمعہ ہےنہ� نماز جمعہ ہےتاس کے ع��وض جمہ کی نم��از پ��ڑھی جمعہ کے دن ظہر کی نماز معاف ہے تاس دن خطبہ پڑھ���ا جات���اہے اورخطبہ میں کچھ خ���دا کی تعری���ف اورکچھ ج���اتی ہے۔ تان کے خلف��اء ک��ا ذک��ر خ��یر ہے اور وقت کے بادش��اہ حضرت م�مد کا ذک��ر اورکچھ آان س��ے ی��ا ح��دیث اسلام کے حق میں دعا لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وعظ ہوتاہے ق��ر

سے۔

دہ� نماز خوف ہےدہ� نماز خوف ہے

وہ اس وقت پڑھی جاتی ہے کہ جب کس�ی دش�من جنگی ک�ا خ�وف ہوت�ا ہےاوراس کی صورتیں مختلف ہیں۔

یازدھ� نماز عیدین ہےیازدھ� نماز عیدین ہے ش��عبان کی پہلی ت��اریخ اور ذی ال�جہ کی دس��ویں ت��اریخ ہ��ر س��ال میں دو

تاس کی دورکعتیں ہیں اورخطبہ بھی پڑھا جاتاہے۔ دفعہ پڑھی جاتی ہے

دوازدھ� نماز خوف ہےدوازدھ� نماز خوف ہےجب چاند گرہن ہوتاہے تویہ نماز پڑھی جاتی ہے۔

سیزدھ� نماز کسوف ہےسیزدھ� نماز کسوف ہے یہ نماز سورج گہن کے وقت پڑھی ج��اتی ہے اور بعض دع��ائیں بھی ہ��وتی ہیں

اور صدقہ وخیرات بھی دیا جاتاہے۔

چہاردھ� نماز استقامت ہےچہاردھ� نماز استقامت ہےآاسمان سے پانی نہیں برستا تب بامیدبارش یہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ جب

حضرت م�مد نے نمازیں توبہت س��ے بتلائیں ہیں اورہ� ج��انتے ہیں کہ اص��ل منشا نمازوں کا بہت اچھا ہے اس لئے کہ انسان پر فرض ہے کہ اپنے خ��دا کی عب��ادتآادمی��وں کے دل اس تاس کی پرس��تش ک��ریں اور بھی کرے یہ خ��دا ک��ا ح��ق ہے کہ ل��وگ بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خالق کی عبادت ضرور ہے اور اس لئے دنیا کی ہر ق��وم میں تان کی تجویزوں کے موافق خ��دا کی عب��ادت کی ج��اتی ہے پ�ر تس��لی بخش اور مفی��داا وہی ط�ور عب�ادت ک�ا اچھ��اہے ج�و خ�دا نے اا ونقل اور قربت وقبولیت کے لائ�ق عقل

آادمیوں کو بتلایا او رجس پر انبیاء سلف عمل کرتے تھے۔ الہام سے لیکن اس وقت م�مدی نمازوں کی نسبت ناظرین دوباتوں پر فکر ک��ریں کہ تان کی شکل کیا ہے اوران کا مطلب کیا ہے۔ مطلب تو صاف ہے کہ دل کی حضوری

س��ے خ��دا ک��و س��جدہ ک��ریں چن��انچہ وہ بھی فرم��اتے ہیں کہ لا ص��لوات ال�ض��ور القلبیعنی جب تک دل حاضر نہ ہو نماز درست نہیں ہے۔

آادمی ک��ا پ��اک ہ��و نجاس��ت پر ش��کل ان نم��ازوں کی یہ ہے کہ ک��پڑے اورب��دن ظاہری سے اوروہ جگہ بھی پاک ہو جہاں کھڑا ہے اور منہ خاص کعبہ کی ط��رف ہ��و اورتاس�ی ش�مار کے مواف��ق موق�ع پ�ر پ�ڑھے اور س�اری قواع�د خاص دع�اؤں ک�و ج�و مق��رر ہیں جسمانی بھی ٹھیک موقع پ�ر ادا کی ج��ائے اورٹھی��ک وہی ع��رب کے لف��ظ ب��ولے ج��ائیں جو بتلائے گئے ہیں کوئی ایک لفظ بھی اپنی طرف سے خ��دا کے س��امنے نہ ب��ولے اب یہ نماز پڑھنے والا س��وائے اس خی�ال کی حض�وری کے کہ میں خ�دا کے س�امنے کچھ کررہا ہ��وں خ�دا کی حض�وری میں اپ�نے دل ک�و حاض�ر نہیں کرس��کتا ہے کی��ونکہ دوک��ام ایک ہی وقت میں انسان سے نہیں ہوسکتے یہ ش��خص اداء قواع��د میں دل ک��و حاض��ر

رکھتاہے نہ خدا میں۔ اچھی صورت نماز کی وہ ہے جو خ��دا کے کلام میں م��ذکور ہے کہ روح اورآازادگی کے س��اتھ خ��دا کی پرس��تش ک��ریں نہ جس��مانی قواع��د اور رس��وم کے راستی سے س��اتھ پ��ر لکھ��اہے کہ روح ہے وہ ج��و چلاتی ہے جس��� س��ے کچھ فائ��دہ نہیں ہے پس جسمانی حرکات اور خیلات او رزیادہ گوئی اورظاہر پرس��تی عب��ادت میں مض�رین عب��ادت یہ ہے کہ انس��ان کی روح شکس��تہ دلی س��ے خ��دا کی ص��فت وثن��ا اوراپ��نی ب��دحالت پ��رآاپ خدا کے سامنے اپ��نی زب��ان میں بی��ان ک��رے اور روح آارزو کو افسوس اوراپنی تمنا اور

آازادگی پاکے۔ تاس کے سامنے جھکے جسمانی قیود ورسوم سے آاپ پس اس نم���از میں اورم�م���دی نم���از میں یہ ف���رق ہے کہ مس���ی�ی نم���ازیوں سکھلاتی ہے کہ انسان کی روح کو حرکت کرنا چاہیے اورجو حرکت وہ کرے بموجبتاس حرکت کا مظہر زبان اور بعض اعضا کو ہونا چ��اہیے اپنی خواہش اوراپنے درد کے تو

اگر روح چاہے ورنہ خیر۔

لیکن م�م�دی نم�از یہ س�کھلاتی ہے کہ جس�مانی قی��ود وحرک�ات اور قواع�د مقررہ کا مظہر خوروح کو ہونا چاہیے یعنی چاہیے کہ قواعد اورحرکات مقررہ ک��ا اث��ر روح پر ہو نہ روح ک�ا اث�ر جس�� پ�ر۔ پس یہ جس�� کی ت�اثیر روح پ�ر ہے او روہ روح کی ت�اثیر

جس� پر ہے۔تان کے وس��یلہ س��ے نج��ات حاص��ل آادمی م�مدی نم��ازوں ک��ا منش��ا یہ ہے کہ کرے۔ لیکن عیسائی نمازوں کا یہ منشا نہیں ہے۔ کیونکہ نجات نہ اعمال پر ہے مسیح کے نام سے ہے تب یہ نماز یں نجات ی�افتہ لوگ�وں کی اس ل��ئے ہیں کہ خ��دا کی ش�کر گزاری ہو اور مدد روحانی پاکر جس� پر غلبہ حاصل کریں اور خدا سے باتیں ک��رکے دل

میں خوشی پائیں اور انواربرکات دل پر نازل ہوں۔آاہ��نی میں کوش��ش ک��رے کہ کس��ی ط��رح یہ ایسی بات ہے جیسے چڑی��ا قفس باہر نکلوں یہ م�مدی نماز ہے۔ پر وہ چڑیا جس کے قفس کا دروازہ کسی نے باہر س��ےآازادگی س��ے خوش��ی من��اتی اوراپ��نی مرض��ی س��ے آاکے کھول دیا اورخوشی س��ے نکلی اور

اوڑتی ہے اور قفس کشا کی شکر گزاری میں چہچاتی ہے یہ نماز مسی�ی ہے۔ خاص کلام یہ ہےکہ نماز سے پہلے نجات ضرور ہے تاکہ نماز پ��ڑھ س��کیں نہ پہلی نماز ہے تاکہ نجات پائیں پہلے ہاتھ پیر جو بندھے ہیں کھول دو تاکہ کچھ ک��ام کرس��کیں نہ کہ ہ��اتھ پ��یر بان��دھ کے ہ� س��ے ک��ام کے ط��الب ہ��و کہ ہ� ک��ام ک��ریں تب

کھولے جائیں گے ۔ حضرت م�مد یہ تو خوب ج��انتے ہیں کہ بے ایم�ان اورک�افر کے ل�ئے بہش�ت میں جان��ا ایس��ا مش��کل ہے جیس��ا س��وئی کے ن��اکے میں اونٹ ک��ا داخ��ل ہون��ا چن��انچہ

يا رک��وع میں ۵اع��راف ين يول تلو تخ جد ي¤ يي حن ي يج جل يحتى ا يج يح مل تل يي يم يج جل مح� مفي ا مط يس ييا مخ جل ا ترجمہ: پس کافروں کےلئے ت��و بہش��ت ایس��ا مش��کل ہے اوراپ��نے موم��نین کے ل��ئے ایس��اتمش��کل ب��ات آاسانی داخل ہوجائینگے ضرو رہے کہ آاسان کہ ان نمازوں کے وسیلہ سے ب

کےل��ئے ک��وئی مش��کل اورکام��ل راہ نج��ات ہ��و نہ یہ نم��ازیں انجی��ل میں بھی لکھ��اہے کہ آاسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا دولتمند کے لئے ایس��ا ہی مش��کل ہے پ��ر جب خ��داآاسان ہے سو دلی قید آازادگی بخشے تب تاس کے دل کو دنیا کی م�بت کی قید سے آاپ مجس�� ہ��وکے او رگن��اہوں س�ے خلاص��ی کی راہ س�ے خ��دا س��ے ظ��اہر ہ��وئی کہ خ��دا آاس��ان راہ دکھلاتے ہیں آایا پس نہ��ائت مش��کل ک��ام کے ل��ئے ب��ڑی آازادگی بخشنے کو کہ حضرت م�مد پر ایمان لائے اور نمازیں پڑھ کر بہش��ت میں چلاج��ائے مگ��ر نہ اس ایمان میں کوئی ایسی خصوص��یت دکھلاتے ہیں اورنہ ان نم��ازوں میں جس س��ے ث��ابت

ہوکہ اس سے یہ ہوسکتاہے ۔ علاوہ اس کے ان روائت��وں کے مب��الغے اور ث��واب کے بی��ان اس ط��رح پ��ر بی��ان ہوئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ م�ض ترغیب ہے پس بھ��ائیوں اگ��ر دوران��دیش اویی کے طالب ہو تو ہر بولنے والے کی بات کو پرکھ��و اور س��وچ س��مجھ ک��ر رخيریت عقب

سچائی کا پیچھا کرو۔

فصل دھ�فصل دھ�نماز کے مکروہ اوقات کے بیان میںنماز کے مکروہ اوقات کے بیان میں

حض����رت م�م����د نے یہ بھی تعلی� دی ہے کہ تین وقت ایس����ے ہیں جن میںتان وقتوں میں خدا کو س�جدہ کرن�ا ح�رام ہے " ف" یہ ن�ئی ب�ات ہے نماز نہ پڑھنا چاہیے کہ بعض اوق��ات ایس��ے بھی ہیں جن میں خ��دا کی عب��ادت گن��اہ ہے ہم��اری عق��ل قب��ول نہیں کرتی کہ خدا کی عبادت کسی وقت میں بھی گناہ ہوعب��ادت ہ��ر ح��ال اورہ��ر وقت

میں مفید ہے۔ مشکوات باب اوقات النہی میں مسل� کی روایت عقبہ بن عامر س��ے ی��وں ہےتردے )تین وقت ہیں جن میں رسول اللہ ہمیں منع کیا کرتے تھے نماز پڑھ�نے س�ے او رم� دفن کرنے سے پہلا وقت جب سورج نکلنے لگے جب تک بلن��د وہ��و دوس��را وقت جب

ٹھیک دوپہر ہ��و جب ت�ک دن نہ ڈھلے نم�از ج��ائز نہیں ہے )بلکہ گن��اہ ہے( تیس��را وقتجب سورج غروب ہو جب تک اچھی طرح غروب نہ ہوجائے۔

تان وقتوں میں نماز حرام ہونے کی اس حدیث کے نیچے ایک اور حدیث میں وجہ کا ذکر ہے اوروہ یہ ہے کہ طلوع کے وقت اس لئے نم�از من��ع ہے کہ س��ورج ش��یطان کی دوسینگوں کے درمیان سے نکلتاہے اوریہی سبب غروب کے وقت موج��و دہے ۔ بین ق���رنی فی الش���یطان کے لفظی مع���نی یہ ہیں کہ درمی���ان دوس��ینگوں ش��یطان کے یع���نیتان وقت��وں میں طل��وع وغ��روب کے وقت س��ورج درمی��ان دوس��ینگوں ش��یطان کے ہوت��اہے ۔

شیطان سورج کو اپنے سینگوں پر اٹھالیتاہے۔ علماء م�مدیہ یوں کہ��تے ہیں کہ وہ وقت ش��مس پرس��توں کی عب��ادت ک��ا ہے

تان کی عبادت کے وقت میں ت� عبادت نہ کرو۔ پس تاس وقت عب��ادت ک��رینگے آایا اگرہ� میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو کیا خدا ہمیں بھی شمس پرست سمجھیگا کیونکہ اس وقت شمس پرست بھی دنی��اتان کے س�اتھ مش�ابہت ہ�ونی میں کہیں اپنی شمس پرستی کررہے ہونگے۔ ی�ا اس�لئے کہ ہے یہی دومطلب ہیں پر دونو باطل ہیں اس لئے کہ خ��دا ع��ال� الغیب ہے وہ جانت��اہے کہتبت��وں کون شمس پرستی کرتاہے اورکون خدا پرستی کرت��اہے۔ی��ا کی��ا جس وقت ش��ریر اپ��نے تاس وقت نہ ک��ریں کو سجدہ کریں تو موم��نین ک��و لازم ہے کہ حقیقی معب��ود ک��ا اظہ��ار تاس وقت گناہ سمجھیں صرف مشابہت کے سبب س��ے یہ اوراپنے خدا کی عبادت کو

بات کیسی بات ہے۔ دوپہ��ر کے وقت نم��از من��ع ہ��وئی اس ک��ا س��بب حض��رت نے یہ بتلای��ا کہ ان جھن� تسجر الایوم الجمعتہ دوپہر کے وقت دوزخ میں این��دھن ی��ا ب��الن جھونک��ا جات��اہے

مگر جمعہ کے دن نہیں جھونکا جاتا۔

مطلب یہ ہے کہ دوپہر کےوقت فرشتے دوزخ میں لکڑیاں وغيرہ ڈال��تےہیں ت��اکہوہ بھٹی تیز ہو اس لئے اس وقت نماز پڑھنا منع ہے۔

اگر یہ ب�ات درس�ت ہے ت�و م�یرے گم�ان میں واجب اورلازم ہے کہ دوپہ��ر کے وقت خ��وب نم��از پ��ڑھی ج��ائے اور س��جدے ک��ئے ج��ائیں خ��وب منت ک��ریں کہ ہ� نہ جھونکے ج�ائیں مب�ادا فرش�تے ہمیں بھی بیک�ار پ�ڑا دیکھ ک�ر دوزخ میں نہ جھون�ک دیںآان میں لکھا ہے کہ وق��ود ھ��ا الن��اس آادمی اور پتھر ہیں جیسے قر کیونکہ دوزخ کا ایندھن تاس��ے چھوڑن��ا تاس وقت نم��از پڑھن��ا ض��رور ث��ابت ک��رتی ہے نہ کہ وال�ج��ار پس یہ وجہ ت��و انجیل میں یوں لکھاہے کہ تمہارا وقت ہر گھڑی موجود ہے ت� کو ہر وقت اپنا بندوبس��ت روحانی کرن��ا چ��اہیے ک��وئی خ��اص وقت تمہ��ارے ل��ئے مخص��وص نہیں ہے ت� ہ��ر وقت

(۔۱۸: ۶۔ افسیوں ۶: ۷دعا اور زاری اورحمدو ستائش میں مشغول رہو)یوحنا

فصل یازدھ�فصل یازدھ�نماز کے کپڑوں کے بیان میںنماز کے کپڑوں کے بیان میں

حض��رت نے نم��از کے ل��ئے کچھ ک��پڑے بھی تج��ویز ک��ئے ہیں اورنم��از کیتان کپڑوں پر موقوف ہے۔ ص�ت

حضرت نے صریر اور ریشمی کپڑے س��ے نم��از پڑھن��ا من��ع بتلای��ا ہے دوم یہ ہے کہ پجامہ یا تہہ بند جو کچھ ہو اتن�ا لمب�ا ہ��و جس س�ے ٹخ��نے چھپ ج�ائیں ورنہ نم�از

مکروہ ہوجائیگی۔آادمی مشکوات باب الستر میں ابو ہری�رہ س�ے اب�وداؤد کی روایت ہے کہ ای�ک آازاروالانماز پڑھ رہا تھ��ا حض��ر ت نے فرمای�ا ج��ا پھ��ر وض��و ک��ر وہ گی��ا اورپھ��ر وض��و نیچے آادمی بولای��ا حض��رت ایس�ا حک� کی��وں دی��ا فرمای��ا ان اللہ لایقب��ل آای�ا تب ای��ک اور ک�رکے آادمی کی نم��از ک��و قب��ول نہیں کرت��ا ہے ج��و لم��بے ازار تاس صلوات جل مب��ل ازارہ خ��دا

پہن کر نماز پڑھے۔

آادمی کی نماز کپڑے پ�ر موق�وف ہ��و آاسکتی کہ کسی یہ بات قیاس میں نہیں اس کے لئے دل کی حضوری ضرور ہے نہ بعض کپڑوں کی بھی رعائت ۔

اس کے نیچے عائش��ہ کی ح��دیث ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے لاتق��ل ص��لواتحایض النجار یعنی بغیر اوڑھنی کے جوان لڑکی کی نماز قبول نہیں ہوسکتی ہے۔

( سے س��ن ک��ر دوس��ری ط��رح پ��ر۵: ۱۱کرنتھیوں ۱یہ بات شائد حضرت نے ) بیان کی ہے وہاں لکھاہے کہ دعا کے وقت عورت کو اوڑھنی اوڑھنا ضرور ہے پر اس ک��اتاس کی نم���از قب���ول نہیں ہوس���کتی پ���ر حی���ا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغ���یر اوڑھ���نی کے اورح��رمت کے ل��ئے ایس��ا حک� رس��ول نے دی��اہے حض��رت نم��از کی ص���ت میں کلام

کرتے ہیں۔آازاد ع��ورت کے ل��ئے ہے لون��ڈی بان��دھی علما م�مدیہ کہ��تے ہیں کہ یہ حک�

کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ک� عزت ہے۔ پھر ابوداؤد ترمذی نے ابوہریرہ سے روائیت کی ہے کہ حضرت نے منع کی��ا ہے

سدل سے اورمنہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے سے ۔ سریا کہوؤں پر کپڑا لٹکانے ک�و س�دل کہ��تے ہیں اوریہ حک� بھی حض�رت نے

( سے نکالا ہے مگر رسول کہتاہے کہ سربرہنہ کرکے دعا کرنا چ��اہیے۴: ۱۱کرنتھیوں ۱) تاکہ عزت اس حقیقی سر کے لئے ہو جو مس�یح ہے پ�ر حض�رت س�دل س�ے من��ع ک�رتے

ہیں جو اور بات ہے اور سربرہنہ کرنے کو نہیں کہتے ہیں ۔

فصل دوازدھ�فصل دوازدھ�نماز کے مکان کے ذکر میںنماز کے مکان کے ذکر میں

تان کی فض��یلت ک��ا بہت حضرت نے مسجدیں بنانے کا بھی حک� دی��اہے اورتان کے بن��انے والے ب��ڑا ذکرکیا ہے اوربیان کیا ہےکہ مس��جد یں ب��ڑی ب��زرگی رکھ��تی ہیں اور اج�ر پ�اتے ہیں اور مس�جدوں میں نم��از پڑھن��ا گہ��ر میں نم�از پڑھ�نے س�ے زی�ادہ ث��واب ک�ا

ب����اعث ہے لیکن بعض مس����جدیں بہت ب����زرگ ہیں اور بعض ک� ہیں مش����کوات ب����اب المساجد میں بخاری ومسل� سے ابی س��عید ح��ذری کی روائیت ہے کہ فرمای��ا حض��رتیی ومس��جدی ھ��ذا نے لاتشروالرحال الالی ثلثہ مساجد المس��جد ال���رام والمس��جد الاقص�� یعنی مت سفر کرو کسی مسجد کی طرف مگر ص��رف ان تین��وں مس��جدوں کی ط��رفیی یعنی یروش��لی� کی حول مسجد حرام یعنی کعبہ کی مسجد دوئ� مسجد اقص سفر کرو اتان کی ہے اور بعض ح��دیثوں ہیکل سوم مسجد م�م��د یع��نی وہ مس��جد ج��و م��دینہ میں میں مسجد قبا کی بھی بزرگی بیان کی ہے اور یہ مسجد قبا مدینہ سے تین کوس ہے۔

اسی باب کی فصل ثالث میں ابن م��اجہ س��ے انس��ق کی روائت ہے کہ فرمای��اآادمی اپنے گھر میں نماز پڑھے تو ای��ک نم��از براب��ر ای��ک نم��از کے ہے حضرت نے )اگر

نم��ازوں کے۲۵ثواب میں اورجو اپ��نے م�لہ کی مس�جد میں نم��از پ�ڑھے ت�و ای�ک نم��از برابر ہے اورجو جامع مسجد میں نماز پڑھے تو ایک نماز براب��ر ہے پ��انچ س��و نم��ازوں کے اوربیت المقدس میں ایک نماز پچ��اس ہ��زار نم�ازوں کے براب�ر ہے اور مکہ والی مس�جدوں میں ایک نماز برابر ہے لاکھوں نمازوں کے پر مدینہ والی مسجد میں ای��ک نم��از پچ��اس

ہزار نمازوں کے برابر ہے۔حول میں بخاری ومسل� کا بیان ابوہریرہ سے ی�وں ہے کہ اوراسی باب کی فصل ا فرمایا حضرت نے )میرے گھر اورم�یرے مم�بر کے درمی��ان ج�و زمین ہے وہ ای�ک ب�اغ ہے

جنت کے باغوں میں سے اور میرے ممبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ ام��ام مال��ک س��مجھتے ہیں کہ وہ ٹک��ڑا زمین ک��ا ج��و حض��رت کے گھ��ر اورآاخ�ر ک�و یہ ٹک�ڑا حضرت کے ممبر کے درمیان ہے بہشت میں سے لاکر رکھا گیا ہے اور

پھر بہشت میں چلا جائے گا۔آانکہ عب��ادت حول اس م�مدی بی��ان میں ک��ئی ای��ک ب��اتیں لائ��ق غ��ور کے ہیں اتان کے ل��ئے خانہ خدا کا بنانا ضروراچھی بات ہے اور خدا س��ے اج��ر کی بھی امی��د ہے

جو بے ریا م�بت س�ے خ�دا کی بن��دگی کے ل�ئے گھ��ر بن��اتے ہیں ت�اکہ وہ��اں ل��وگ بیٹھآارام سے اللہ کی عب��ادت ک��ریں پ��ر حض��رت نے ج��و ث��واب میں مب��الغے ک��ئے ہیں یہ کے

م�ض ترغیب ہے۔آانکہ مسجدوں اور عبادت خ�انوں میں ک�وئی خصوص�یت زي�ادہ ث�واب کی دوم آادمی کی نیت اور ایم��ان اور خل��وص پ��ر اا ہرگز نہیں ہے س��ب ث��واب اورب��رکت اا اورنقل عقل موقوف ہے نہ کسی مکان پر ہاں جماعتوں میں حاضر ہ��وکے خ��دا کی بن��دگی کرن��ا اس لئے زیادہ سفید ہے کہ وہاں وعظ سنتے ہیں جس سے دل تیار ہوت��اہے اورس��ب کے س��اتھ ملکی رفاقت اورم�بت کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں اورایک دوسرے سے م��دد پات��اہے

آاتی ہے۔ دل میں قوت سیدنا مسیح نے اس کا فیصلہ حضرت م�مد کی پیدائش سے چھ سو ب��رس

تاس نے کہ��ا کہ نہ اس پہ�اڑ پ�ر نہ یروش�لی�۲۴س�ے ۲۰: ۴پہلے کردیا ہے دیکھ�و)یوحنا ) آاگی��ا ہے اب میں مگ��ر روح اور راس��تی س��ے ہ��ر جگہ خ��دا کی عب��ادت ک��رنے ک��ا وقت سچے پرستار خدا کی عبادت خانے دل میں کرینگے خ��دا ایس��ے پرس��تار چاہت��اہے پ�راس عمدہ تعلی� کے بعد حضرت م�م��د نے یہ کی��ا س��کھلاتے ہیں کہ فلاں فلاں مق��ام میں

زیادہ برکت ہے۔ )ف۔( اگ��ر ک��وئی کہے کہ یہ��ودی پہلے کی��وں یروش��لی� کی ہیک��ل ک��و زی��ادہآاس��مانی مت��برک ج��انتے تھے اس ک��ا ج��واب یہ ہے کہ فی ال�قیقت س��لیمان کی ہیک��ل آاسمانی ہیکل وہ مقدسوں کی کلیسیا ہے جن میں خدا رہت��ا ہے اور ہیکل کا نمونہ تھا اور وہ سیدنا مسیح کا بدن ہے اب خدا کے پرستار سیدنا مسیح کے بدن یعنی کلیسیا میں ش���امل ہ���وکے دلی ہیک���ل میں خ���دا کی بن���دگی ک���رتے ہیں س���ب جس���مانی برک���اتتان کی اورجس��مانی عم��ارتیں اورہیک��ل وغ��یرہ رس��وم وظ��اہری قواع��د دنی��ا س��ے اٹھ گ��ئیں آاگی�ا جس کے ل�ئے س�ب کچھ نم�ونے تھے۔ اب س�اری ح�اجت نہ رہی کی�ونکہ مس�یح

زمین یکساں ہے خواہ بیت المقدس میں خواہ گرج��ا میں خ��واہ مس��جد میں خ��واہ اپ��نے گھ��ر میں جہ��اں عب��ادت ک�ریں بش�رطیکہ وہ عب��ادت س��یدنا مس�یح میں ہ��و مقب��ول ہے اوربراب��ر اج��ر ملت��اہے ک��وئی مک��ان زی��ادتی اج��ر کی خصوص��یت نہیں رکھت��اہے یہ پ��رانی

جہالت کا خیال ہے جو حضرت م�مد نے سکھلایاہے۔آارائش ک��رتےہیں تان میں شائد کوئی کہے کہ عیس��ائی ل��وگ گ��رجے بن��اتےہیں تانہیں مخصوص بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو تاکید ک��رتے ہیں اور اسقف کے وسیلہ سے

کہ وہاں ضرور حاضر ہوا کریں عبادت کے لئے اس میں کیا بھید ہے۔ جواب یہ ہے کہ دھوپ گرمی برسات سے بچاؤ کےلئے گرجے میں تاکہ وہاںآاس��ائش تاس کی کلیس�یا ہے بیٹھ کر حقیقی ہیکل میں جو س��یدنا مس�یح ک�ا ب��دن یع��نی سے روحانی عبادت کریں ہرگز مکان میں کچھ خصوصیت زيادہ یاک� ث��واب کے نہیں ہے۔ ہاں گرجوں کی تخصیص جو اسقف سے کی جاتی ہے وہ اس لئے ہے کہ گرجےآادمی��وں کے دنی��اوی مل��ک س��ے ال��گ ہ��وکے وق��ف ہ��وئے اور خ��دا کی عب��ادت ک��ا مک��ان کےل��ئے ج��دا کی��ا ج��ائے س��ب کے س��امنے دع��اؤں کےس��اتھ یہ کچھ اورب��ات ہے اور وہ

کچھ اورہی بات ہے کہ بعض مکان متبرک ہیں اور بعض نہیں۔

فصل سیوزدھ�فصل سیوزدھ�جماعت کی نماز کے بیان میںجماعت کی نماز کے بیان میں

حض��رت نے یہ تعلی� بھی دی ہے کہ ف��رض نم��از جم��اعت کے س��اتھ پڑھن��ا نہ��ایت افض�ل ہے اگ�ر ممکن ہ��و۔ اور حض�رت نے ب�ڑے ب�ڑے ث�واب اس کے بی�ان ک�ئے

ہیں۔ اس تعلی� کے اصول میں بھی کچھ غلطی نہیں ہے جماعت کے ساتھ خ��دا کی عبادت کرنے کو عبادتوں وغیرہ میں جانا ضرور مفی��د ہے انس��ان کے دل کی تی��اری کے لئے۔ اور شروع سے یہ دستور جاری ہے مجمع مقدسوں کا ذک�ر ت�وریت ش�ریف میں

بہت ہے اوریہ��ودی ایس��ا ک��رتے تھے مس��ی�ی بھی ایس��ا ک��رتے ہیں اور رس��ول نے ہمیںآائیں ۔)عبرانیوں کا خط (۔۲۵: ۱۰حک� دیا ہے کہ جمع ہونے سے باز نہ

مگر م�م��دی جم�اعتوں میں اورہم�اری جم��اعتوں میں ص��رف اتن��ا ف��رق ہے کہ حضرت م�مد صرف نماز فرض کے ادا کرنے میں جماعت کی ضرورت دکھلاتے ہیںتامور میں پرعیسائی لوگ ساری باتوں میں عبادت میں وعظ میں اور دوسرے قس��� نہ اور

کے دینی جلسوں میں بھی جماعت میں جمع ہونا بہتر اور مفید دکھلاتے ہیں۔ اوریہ بھی ف��رق ہے کہ حض��رت ب��ڑے ب��ڑے مب��الغوں میں جم��اعت ک��ا ث��واب دکھلاتے ہیں جو اللہ س��ے پ�ائینگے پ�ر خ��دا ک�اکلام ایس��ی ب�اتیں نہیں بولت��ا مگ�ر یہ کہ ہماری تعلی� اور تربیت اور روحانی حالت میں ترقی اس سے ہوتی ہے دع��ا میں زور پی��دا ہوت�اہے ای�ک دوس�رے س�ے یگ�انگت واتف�اق پی�دا ہوت�اہے الفت ب�رادارانہ بڑھ�تی ہے اور وہ ل��وگ ج��و ایس��ی مجلس��وں میں وع��ظ ونص��ی�ت دی��نے کےل��ئے بہت دع��اؤں اورم�نت��وںتان کے خی��الات س��ے ہ� س��ب فائ��دہ اٹھ��اتے ہیں اور اس ط��رح آاتے ہیں س��ےتیار ہ��وکے ضعیف ایمان میں زیادہ قوت پیدا ہوجاتی ہے پس یہ ب�اتیں ت��ودل بھی قب��ول کرت��اہے مگ��ر وہ بڑے بڑے ثواب تمیز قبول نہیں کرتی ہے کی��ونکہ پھس��لانے کی ب��اتیں معل��وم ہوج��اتی

ہیں ۔

فصل چہاردھ�فصل چہاردھ�اذان کے بیان میںاذان کے بیان میں

ت��واریخ م�م��دی میں اذان کے تق��رر ک��ا بی��ان ہوگی��اہے کہ کس ط��رح س��ے اس دستور نے اہل اس�لام میں رواج پای�ا ۔ اذان ج��و نم�از س��ے پہلے مس��جدوں میں ہ��وتی ہے تاس کا مطلب یہ ہے کہ اہل م�لہ نماز میں حاضر ہ��وں یہ ای��ک اعلان ہے۔ اس��ی مطلبآاواز پ�ر ہم��ارے درمی��ان بن��دگی کے وقت گرج��وں میں گھن��ٹے بج��ائے ج��اتے ہیں کی��ونکہ

گھنٹے کی بہ نسبت اذان کے دور ہوج��اتی ہے اورپن��درہ منٹ ی��ا ک� زی��ادہ ت��ک گھن��ٹےآاج��اتے ہیں ۔ بہ��ر ح��ال وہ ایس��ا ک�رتے ہیں اوریہ ایس�ا ک��رتے ہیں غ��رض بجانے سے ل��وگ

دونوں کی ایک ہی ہے۔

فصل پانزدھ�فصل پانزدھ�دعاؤں کے بیان میںدعاؤں کے بیان میں

حض��رت م�م��د نے بہت س��ی دع��ائیں بھی س��کھلائی ہیں ج��و خ��اص وقت��وںاورخاص مکانوں اور خاص کاموں کےلئے ہیں اور بعض عام ہیں ۔

پہلی دعا ام الکتابپہلی دعا ام الکتابتاس��ی ک�و آان کی م�اہے حض�رت کی س�ب س�ے ب�ڑی دع��ا ام الکت��اب یع��نی ق��ر

تاس کا ترجمہ یہ ہے ۔ فات�ہ اورال�مد کہتے ہیں تاس خدا کو ہے جو سارے جہان کا رب بڑا مہرب��ان نہ��ائت رح� سب تعریف والا انص��اف کے دن ک��ا مال��ک ہے ت��یری ہی ہ� بن��دگی ک��رتے ہیں اور تجھ س��ے م��ددتان کی تان لوگوں کی راہ جن پر ت��ونے فض��ل کی��ا نہ مانگتے ہیں ہمیں سیدھی راہ دکھلا

آامین۔ راہ جن پر تو غصہ ہوا اورجو راہ سے بھٹک گئے ہیں تان دوفرق�وں س��ے یع��نی آان متفق ہیں کہ مراد حضرت م�م�د کی سب مفسر قر

جن پر خدا غصہ ہوا اور جوبھٹک گئے یہودی اورعیسائی ہیں۔یی کے اور پس اس ص��ورت میں مطلب دع��ا ک��ا یہ ہ��وا کہ س��واء یہ��ود ونص��ار کوئی راہ جو ہ��دایت کی ہ�و ہمیں دکھلا یع�نی مطل�ق ہ�دائت کی مطلب نہیں ہے مگ�ر

تانہیں چھوڑ کے اورکسی راہ کے طالب ہیں جو حق ہے۔ جس سے ہ� ناراض ہیں

دوسری بات یہ ہے کہ یہ دعا اگرچہ ظاہر نظ��ر میں اچھی ہے ت��و بھی اس کےتاسی درجہ پرہیں ج��و انس��ان کی عق��ل ک��ا درجہ ہے یع��نی عق��ل س��ے پی��دا سب مضامین

کئے ہوئے مضمون ہیں۔ یہ دعا مس�لمانوں میں ایس�ی ع��زت رکھ��تی ہے جیس�ے س�یدنا مس��یح کی دع��ا خدا کے لوگوں میں عزت رکھتی ہے کوئی نماز اس دعا س��ے خ��الی نہیں ہے اوراس ک��وآان آان اسی سے نکلا ہے کوئی مضمون ق��ر آان کی ما اس لئے کہتے ہیں کہ گویا سارا قر قرآان کے س�ب میں ایس�ا نہیں ہے ج�و اس دع��ا کے مض�امین س�ے بلن��د ت�ر ہ��و اس میں ق�ر

اصول مندرج ہیں۔ پس ظ��اہر ہے کہ جب ام الکت��اب کے مض��انین ص��رف عقلی درجہ کی ح��دآان کے مضامین بھی اسی درجہ کے ہونگے اور ض�رور ایس�ا ہی تک کے ہیں تو سارے قر

ہے۔ ہم��ارے م��ولا کی دع��ا ج��و ہم��اری س��ب دع��اؤں کی اص��ل ہے اورس��ارے کلامآاج ت��ک یی کا خلاصہ ہے جو سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو خود س��کھلائی اور الہتاس کے مض��مون عق��ل س��ے ب��الا سب دعاؤں میں معزز اور سب سےزیادہ پیاری دع��ا ہے اور روحانی ہیں اورانسانی عقل سے پیدانہیں ہ��وئی ہیں خ��دا س��ے بتلائی گ��ئی ہیں اور وہ

دعا یہ ہے۔آائے آاسمان پرہے تیرے نام کی تقدیس ہو ت��یری بادش��اہت اے ہمارے باپ جو آاج ہمیں دے آاس�مان پ�ر ہے زمین پ�ر بھی ہ��و ہم�اری روز کی روٹی ت�یری مرض��ی جیس��ی اورجس طرح کہ ہ� اپنے تقصیر واروں کو معاف کرتے ہیں توہماری تقص��یریں مع��اف ک��رآازمائش میں نہ ڈال بلکہ برائی سے بچا کیونکہ بادش��اہت ق��درت اورجلال ہمیش��ہ اورہمیں

آامین۔ تیراہی ہے

اس دع��ا کے س��ارے مض��امین ایس��ے گہ��رے ہیں کہ ع��ال� ب��الا س��ے ہیں اگ��ر کوئی شخص ان مضامین کی کچھ خوبی سے واقف ہونا چاہے تو خزانتہ الااسرار تفسیر انجیل متی میں دیکھے اورانصاف کرکے ال�مد کے مضامین پر بھی سوچے کہ یہ خدا

سے ہے یا وہ۔

دوسری دعا درود ہےدوسری دعا درود ہےآال تان کی درود کے مع��نی یہ ہیں کہ خ��دا س��ے حض��رت م�م��د کےل��ئے اور

واص�اب کےلئے رحمت طلب کرنا۔آانی ہے جو احزاب آایت قر آایت ۷اوراصل اس مقدمہ میں وہ میں۵۶رک��وع کی

يحنہے ي م®ا حل ي ت ال يت ي° مئ يلا يم ين يو تحلو يص يلى تي محي يع مب حن ي ي©ا ييا ال تحي ين يªا مذي حل ي تنوا ا يم تحلوا آا م يص جي يل يعتموا حل م يس اما يو ملي جس ۔يت

خ��دا اوراس کے فرش��تے دع��اء رحمت کی��ا ک��رتے ہیں حض��رت م�م��د پ��ر اےتاس پر دعا ء رحمت اورسلام بھیجا کرو۔ مسلمانوں ت� بھی

تتب تان بہت س��ی ح��دیثوں کے س��بب ج��و ک آایت کے حک� س��ے اور پس اس احادیث میں ہیں اہل اسلام جب حضرت م�مد کا نام سنتے یا سناتے ہیں تویوں کہتےتاس پ��ر اورس��لام اگ��رچہ اس وقت یہ الف��اظ ہیں کہ ص��لی اللہ وس��ل� رحمت ہ��و اللہ کی تان کے نام کا گویا ایک حصہ ہوگی��اہے ت��وبھی یہ ای��ک درود ہے عادت میں داخل ہوگئے جب حضرت م�مد کا نام کہیں لکھ��تےہ یں ت��و س��اتھ ہی یہ درود بھی لکھ��تے ہیں ی��ا

لکھنے کے عوض اس کا مخفف اشارہ ایسا)صہ( کردیتے ہیں یہ بھی درود ہے۔ اس کے سوا بعض مس��لمانوں ک��ا یہ وظیفہ ہےکہ ہ��ر روز ہ��زار دفعہ ی��ا ک� زی��ادہتامی��د ہے کہ اس س��ے تان ک��و بم��وجب ہ��دایت م�م��دی کے یہ درود پڑہ��ا ک��رتے ہیں اور

آاخرت میں ہمارا بھلا ہوگا۔

اس تعلی� پر ہمارا یہ فکر ہے کہ خدا جو سب کو دی��نے والا ہے وہ کس س��ے دعا کرکے حضرت م�مد کو رحمت دلوات��اہے اور اس ک��و کی��ا ح��اجت ہے کہ وہ ای��ک آادمی کے نام کی تسبیح پڑھا کرے اور اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیز کا نام جپا ک��رے

تاس کے نام کی تسبیح پڑھا کریں۔ اور فرشتوں کو بھی حک� دے کہ آادمی تھے انہیں لائق نہ تھا کہ اپ��نے ن��ام ک��و اس ق��در حضرت م�مد م�ض تامت میں دی��تے کبھی کس��ی پیغم��بر نے ایس��ی ج��رات نہیں کی اورنہیں کہ��ا کہ ف��روغ

لوگ میرے نام کی تسبیح پڑھا کریں۔ م�مدی ل��وگ جب نم��از میں خ��دا کے س��امنے قع��ود ک��رتے ہیں ت��و وہ��اں پ��ر بھی حضرت کو خدا کی مانند حاضر ناظر کے الفاظ میں یاد کرتے ہیں الت�ی��ارت پ��ر

غور کرو۔ ہ� لوگ جو سیدنا مسیح کو اور روح الق��دس ک��و بھی حاض�ر ن�اظر ج�ان کے پکارتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ وہ خ��دا ہے پ��ر حض��رت م�م��د خ��دا نہیں ہیں کہآادمی کو دینا تاس کا جلال آادمی کا ان کا یہ منصب ہو یہ خاص جلال خدا کا ہے نہ

گناہ عظی� ہے۔ (۔ میں لکھاہے کہ اے بھ��ائیو ہم��ارے ح��ق۱: ۳تھسلنیکیوں۲البتہ رسول نے )

میں دعا کرو کہ خدا کاکلام پھیل جائے یہ بات درود کے قس� سے نہیں ہے۔ پ��ر م�م��دی درود کی ص��ورت دیکھ ک��ر م��یری تم��یز یہ ن��تیجہ نک��التی ہے کہ منشا حضرت کا صرف یہ ہے کہ م�یری م�بت لوگ�و ں کے دل�وں میں ق��ائ� ہ�و ی�ا ش�ائد

کسی کی دعا سے میرا بھی بھلا ہوجائے پر ضرور یہ خوفناک تعلی� ہے۔

تیسری دعا حمد ہےتیسری دعا حمد ہےتتب الہ��امیہ تامت ک��و ک تسبیح اورت�مید وتہلی��ل وتکب��یر بھی حض��رت نے اپ��نی

اور عیسائی رواج سے دریافت کرکے سکھلائی ہے۔

تس��بیح کے مع��نی س��ب�ان اللہ کہن��ا ت�می��د کے مع��نی ہیں ال�م��د اللہ کہن��اتہلیل کے معنی ہیں لاالاالا اللہ کہنا تکبیر کے معنی ہیں اللہ الکبر بولنا۔

یہ تعلی� بہت اچھی ہے مگر اگلے پیغمبروں کی تعلی� ہے چنانچہ داؤد پیغمبر کے زب��وروں میں جگہ جگہ انک��اذکرہے ت��وبھی ہ� خ��وش ہیں کہ حض��رت نے پیغم��بروں

کی کتابوں میں سے یہ باتیں لیکر سکھلائیں۔ مگر پیغمبروں کے بیان میں اور حضرت کے بیان میں تھوڑا س��ا ف��رق بھی ہےیی کے وقت آادمی ان الفاظ کا وظیفہ پڑھے پر دع��ا میں اور س��تائش الہ وہ نہیں کہتے کہ

یہ الفاظ خدا کے سامنے خوشی میں بولی جاتی ہیں۔ البتہ رومن کیتھولک لوگوں نے جو عیسائيوں کے درمی��ان ای��ک ب��ڑا ب�دعتی ف��رقہتاس حک� کے ت� ہے وظیفوں کا دستور ایجاد کیا ہے ج��و خلاف ہے س��یدنا مس��یح کے غیر قوم�وں کی ط��رح ب�ک ب�ک نہ ک�رو اورجیس�ے وہ س�مجھتے ہیں کہ بہت ب��ک ب�ک

تان کی سنے گا ت� ایسا نہ کرو۔ کرنے سے خدا تامت میں ج��ار حضرت م�مد نے انہیں لوگوں سے یہ دستور اخذ کرکے اپ��نی تان علاق��وں میں ک��ثرت س��ے تھے ی کی��ا ہے کی��ونکہ حض��رت کے عہ��د میں یہی ل��وگ آان حدیث میں اور م�م�دی تواریخ�وں میں عیس�ائيوں کی ب�ابت لکھ��ا اورجو کچھ ہ� قر

دیکھتے ہیں کثرت سے وہی باتیں ہیں جو اس بدعتی فرقہ کی ہیں۔یی کے مواف��ق بتلائے آانکہ حضرت نے یہ الفاظ تو ضرور کلام الہ حاصل کلام

ہیں پر ان کا استعمال کلام کے خلاف بدعتی فرقہ کے دستور پر سکھلایا ہے۔

چوتھی دعا استغفار ہےچوتھی دعا استغفار ہے حضرت نےسکھلایا ہے کہ خدا کے س��امنے ت��وبہ کرن��ا اور گن��اہوں کی مع��افی مانگنا ضرور ہے تو یہ نہائت اچھی بات ہے مگر اس کے استعمال کا طوربھی حض��رت

نے درست نہیں بتلایا۔

مشکوات ب�اب الاس�تغفار میں اغرم�زنی کی ح��دیث مس�ل� س�ے لکھی ہے کہ فرمایا حضرت نے )اے لوگو توبہ کرو خدا کی طرف کیونکہ میں توبہ کرتا ہوں خ��دا کی ط�رف ای�ک دن میں س�و دفعہ ، س�و دفعہ ت�وبہ ک�رنے ک�ا یہ مطلب ہے کہ لف��ظ ت�وبہ س�و

دفعہ ہر روز پڑھا کرتا ہوں اس سے کیا فائدہ ہے۔ اس��ی دس��تور پ��ر مس��لمان ل��وگ تس��بیح ہ��اتھ میں لے ک��ر ی��ا انگلی��وں پ��ر ش��مار کرکے سو دفعہ یا ک� ز یادہ استغفر اللہ ربی وال��وب الیہ پڑھ��ا ک��رتے ہیں اورج��انتے ہیں کہ

یوں مغفرت حاصل کرینگے۔آادمی اپنے دل کو خدا کی طرف متوجہ کرے خدا کاکلام یہ سکھلاتاہے کہ تاس س��ے پچھت��ائے اور گناہ سے اور دنی��اوی م�بت س��ے منہ م��وڑے اورج��وکچھ کی��ا ہے اور نفرت کرے اور ایمان کے ساتھ خ�دا س��ے مغف��رت ک�ا ط�الب ہ��و یہ ت�وبہ اور اس��تغفار

ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ وہ سودفعہ توبہ توبہ بولے اگ��ر وہ ای��ک دفعہ بھی منہ س��ےتاس کے یہ کام ہوجائے جواوپر مذکور ہے تو وہ ضرور سچا یہ الفاظ نہ نکالے پر دل میں تائب ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ انسان ناطاقت ہے اس کا دل گناہ کی طرف جل��دی مائ��ل ہوجاتاہے ضرور ہے کہ ایمان کے ساتھ رات دن توبہ کا س��تون پک�ڑے رہے یع��نی دل میں کوشش کرت��ا رہے کہ ت��وبہ ق��ائ� رہے نہ یہ کہ س��و دفعہ لف��ظ ب��ولے اوردلی جن��گ س��ے بےآاپ خبر رہے اوردل کو خدا کے سامنے م��رغ بس��مل کی ط��رح نہ ڈالے اور ت��وبہ ک��ا پھ��ل تاسے لاکھ دفعہ بھی میں دریافت نہ کرے وہ دھوکے میں ہے اب تک توبہ نہیں کی اور

استغفار پڑھنا مفید نہیں ہے۔ پھ��ر اس��ی ب��اب میں اب��وہریرہ س��ے روایت ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے واللہ فی الاستغفر اللہ وات�وب الیہ فی الی�وم س�بعین ص�رہ بخ�اری نے اب�وہریرہ س�ے یہ روایت کی ہے

کہ حضرت نے کہا )خدا کی قس� میں اپ�نے گن�اہوں کی مع�افی کے واس�طے ای�ک دنمیں ستر دفعہ اللہ کے سامنے استغفار کرتا ہوں(۔

حضرت کی تمیز بھی گواہی دیتی تھی کہ میں گنہگار ہوں اس لئے یہ��اں پ�روہ اپنے دل کا حال صاف صاف درست ظاہر کرتے ہیں۔

تانہیں معصوم ج��انتے ہیں اورکہ��تے ہیں کہ یہ ب��ات مگرعلماء م�مدیہ بلا دلیل تابھ�اریں ورنہ وہ خودگن�اہ تامت ک�و ت�وبہ اور اس�تغفار پ�ر حضرت نے اس ل�ئے کہی ہے کہ سے پاک تھے مگر یہ تاوی�ل ان کی اس ح�دیث س�ے باط��ل ہے ج�و اس�ی ح�دیث کے نیچے مسل� کی روایت سے لکھی ہے وہ یہ ہے " انہ لیغ��ان علی قل��بی وانی لااس��تغفراللہآاجاتاہے اس لئے میں خدا سے سودفعہ فی الیوم مایتہ مرتہ " میرے دل پر غفلت کا پردہ

ہر روز معافی مانگتا ہوں ۔تامت کی ت��رغیب کےل��ئے نہیں ہے بلکہ اس غفلت یع��نی م��یرا مع��افی مانگن��ا

آاتاہے۔ کے پردہ کےلئے جو میرے دل پر اس ح��دیث کی تاوی��ل س��ے جب س��ارے م�م��دی ع��ال� لاچ��ار ہ��وئے ت��و ی��وں کہنے لگے کہ یہ حدیث متشا بہات میں س��ے ہے اس کے مع��نی معل��وم نہیں ہوس��کتے

اورمسلمان کو نہ چاہیے کہ اسکے معنوں پر غورکریں اس کا بھید خدا ہی جانتا ہے۔ دیکھ���و یہ کیس���ی ب���ات ہے کہ ای���ک ش���خص ص���اف اق���رار کرت���اہے کہ میں گنہگارہوں اوراس پر خدا کی قس� بھی کھا جاتاہے اور صاف کہتاہے کہ م��یرے دل پ��رتاس کے گن��اہوں ک��ا اق��رار ق��ول س��ے اور فع��ل س��ے آان بھی آاجات��اہے اور ق��ر غفلت ک��اپردہ آانکہ حض��رت م�م��د آادمیوں س��ے ہے حاص��ل کلام یی کرتاہے پھر بھی بے گناہی کا فتوتاس پر عمل کیاہے اوراس بارے میں آاپ بھی نے استغفار کے وظیفہ کو مفید بتلایاہے اور نہ وظیفہ مفید ہے مگر دلی رجوع مطل��وب ہے پس حض��رت کے اس بی��ان میں اس تعلی�

کی اصل تودرست ہے لیکن استعمال کا طورنادرست اور غیر مفید ہے۔

پانچویں متفرق دعائیں ہیںپانچویں متفرق دعائیں ہیں ایس��ی ایس��ی بہت دع��ائیں ہیں ج��و کھ��انے پ��نے کے وقت اور ک��پڑے پہن��نے کےوقت اورحاجت ضرور ی کے وقت اورہمبستری کےوقت وغیرہ اوقات میں پڑہی جاتی

ہیں۔آادمی اب حض��رت کی س��اری دع��ائیں دیکھ��نے کے بع��د اگ��ر ک��وئی منص��ف داؤد پیغم��بر کے زب��وروں ک��ود یکھے اور اورپیغم��بروں کی دع��اؤں پ��ر بھی غ��ور ک��رے ج��وتاس�ے الہامی کتابوں میں مرق�وم ہیں اورنم�از کی کت�اب کی ت�رتیب پ�ر بھی غ�ور ک�رے تویی تاس ق��در ع��ال بخوبی معلوم ہوسکتاہے کہ نہ تو حضرت م�مد کی دعاؤں کے مضامین ہیں جس ق��در پیغم��بروں کی دع��اؤں کے مض��امین ہیں۔ اورنہ اتن��ا ب��ڑا دف��تر دع��اؤں ک��ا حض���رت کے پ���اس ہے جس ق���در مس���ی�ی کلیس���یا کے پ���اس ہے اورنہ ان دع���اؤں ک���ا استعمال حضرت نے اتنا مفید اور مناسب دکھلایاہے جس قدر مفید اس��تعمال پیغم��بروں نے سکھلایا ہے۔ اورنہ اس بارے میں مب��الغے ہیں جیس��ے حض��رت نے س��نائے ہیں اور نہ حضرت اتنے بڑے دعا کنندہ ہیں جتنا بڑا دع��ا کنن��دہ داؤد پیغم��بر اور س��یدنا مس��یح کی کلیسیا ہے پس اس بارے میں بھی انبیاء کے سلسلہ اورمسی�ی کلیسیا کو تقدم حاصل

ہے۔

فصل شانزدھ�فصل شانزدھ�روزوں کے بیان میںروزوں کے بیان میں

تان کی ش��ریعت میں حضرت م�م�د نے روزہ رکھ��نے ک�ا بھی حک� دی�ا ہے اورآادمی صبح سے شام تک بہ نیت روزہ کھنے پینے سے اور جماع س��ے ب��از روزہ یہ ہےکہ

آائے۔

تان کی ش��ریعت میں اس مب��الغہ کے س��اتھ بی��ان ہ��واہے کہ اور ث��واب روزے ک��ا تاس کو قبول نہ کریگی غن��تیہ الط��البین فض��ل فض��ائل الص��وم آادمی کی تمیز کبھی ہوشیار آانکہ فرمای�ا حض�رت علی الجملہ میں اس قس� کی باتیں بہت سی لکھی ہیں ازانجملہ نے کہ اگرکوئی ایک دن خدا کے واسطے روزہ رکھے خدا اس ک��و دوزخ س��ے اس ق��در دوررکھیگا کہ جتنی دورای��ک ک��اگ ک��ا بچہ پی��دا ہ��وکر اوڑ ج��ائے اورس��اری عم��ر اڑت�ا رہے

یہاں تک کہ بڑھا ہوکر مرجائے اورکہتےہیں کہ کاگ کا بچہ پانچ سو برس جیتاہے۔ پھر مشکوات کتاب الصوم میں اب��وہریرہ س��ے روائت ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے )روزوہ داروں کے منہ کی ب��و خ��دا کے س��امنے مش��ک کی خوش��بو س��ے بہ��ترہے روزے

دوقس� کے بیان ہوئے ہیں فرض اور نفل۔

رمضان کے روزے رمضان کے روزے یہ روزے فرض ہیں س��ب پ��ر بش�رطیکہ ک�وئی لاچ��اری نہ ہ��و روزوں کے احک��ام بہت سے لکھے ہیں جن پر غور کرنے س��ے ث��ابت ہوگی��اہے کہ ص��رف ظ��اہری ط��ورپر ہیں ب�اطنی ص�فائی ک�ا علاقہ روزوں کے س�اتھ ش�رط نہیں ہے ب�د نظ�ری س�ے م�م�دی روزہ نہیں جات��ا اورب��الائی ب��دفعلی س��ے بھی روزہ نہیں جات��ا اور حض��رت نے بھی روزہ میںآاپ کو روزہ دار جان��ا ہے اوروہ ایس��ی مک��روہ ب��اتیں ہیں ایسے ایسے کام کئے ہیں توبھی آاتی ہے دیکھو مشکوات باب تنزیہ الصوم میں بخاری اورمس��ل� جن کے ذکر سے شرم

سے عائشہ کی روایت کیاہے۔ دوسرے قس� کے روزے نفل ہیں اگر کوئی رکھے تو ث��واب پ�ائے گ��ا اورج��و نہ

تان کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ رکھے تو گرفت نہ ہوگی

حول صوم الدھر حول صوم الدھرا ا یعنی سال بھر برابر روزہ رکھنا ۔ بعض حدیثوں میں ایسے روزوں سے من��ع کی��ا ہے اور بعض حدیثوں میں ایسے روزوں کے بڑے ثواب بتلائے ہیں۔ بعض علماء م�مدیہ

نے کہ����ا ہے کہ ایس����ے روزے من����ع ہیں لیکن غن����تیہ الط����البین میں ہے کہ عائش����ہیی اش��عری اوراب��و طل�ہ نے ب��رس ب��رس روزے رکھے ہیں اور کہ��ا ہے کہ عی��دوں اورابوموس��

کے دنوں میں روزے نہ رکھنا صوم الدھر کی صورت کو بدلتاہے۔

دوم صوم البیض دوم صوم البیض ت���اریخ ک���و تین روزے رکھن���ا ص���وم ال���بیض۱۵، اور ۱۴، ۱۳ہ���ر مہی���نے کی

کہلاتاہے اور بعض لوگ رکھتے ہیں۔

سوم متفرق روزے سوم متفرق روزے ہر پیر وجمعرات ک�ا روزہ عاش��ورہ ک�ا روزہ ش��ش عی��د کے روزے ہ��ر جمعہ ک��ا

روزہ وغیرہ یہ سب متفرق روزے ہیں۔ خدا کےکلام کی طرف دیکھنے س�ے معل�وم ہوت�اہے کہ اگلے بزرگ�وں نے بھی روزے رکھے ہیں اوراب بھی ل��وگ رکھ��تے ہیں اورہ� بھی روزہ رکھن��ا مفی��د ج��انتے ہیں پ��ر

کلام کے موافق نہ م�مدی طورپر ۔آادمی کھنا پینا چھوڑ کر اقرار گناہ اور غ� دعا روزہ کا ظاہری طورتو یہ ہے کہ

:۹۔ استش��نا ۱۲: ۲۔ ی��وائیل۶: ۷س��یموئیل۱ع��اجزی کے س��اتھ دع��اؤں میں مش��غول ہ��و)تاس کی )یش��عیاہ۲۳: ۸۔ عزرا ۱۸ ( یہ توروزے کی ظاہری صورت ہے پ��ر ب��اطنی ص��ورت ( میں مرقوم ہے کہ نیکی کے سب کام کرے۔۷۔ ۶: ۵۸

آادمی مص��ائب میں گرفت��ار ہ��و )یوائی��ل :۱مگر روزے ک��ا وقت وہ ہے کہ جب یی برک���ات کےل���ئے دل کی تی���اری۱۲: ۲۔ ۱۴ آادمی الہ ( اور وہ وقت بھی ہے کہ جب

چاہتاہے۔ اور غرض روزوں کی نہ بڑے بڑے ث��واب حاص��ل کرن��ا ہے مگ��ر روح ک��و تن��بیہ

تاس میں عاجزی پیدا ہو اور وہ فروتنی سے خدا کے س��امنے جھکے ) زب��ور۶۹دینا ہے کہ (۔ اس صورت میں وہ سب حرک��تیں ج��و م�م��دی روزہ ک��و نہیں ت��وڑتے۱۳زبور ۳۵۔ ۱۰

ہیں اور اس روزہ کو توڑ ڈالتے ہیں کیونکہ یہ روزہ باطنی ہے پر م�م��دی روزہ ظ��اہری ہے م�مدی روزہ ای�ک حک� کی تعمی��ل ہے پ�ر یہ روزہ نہ کس�ی حک� کی تعمی�ل ہے مگ�ر

ایک روحانی بیماری کی دوا ہے جو وقت پر دی جاتی ہے۔کلام میں تین قس� کے روزے مذکور ہیں اول عوام کا روزہ جو صرف

تک(۱۴۳سے ۱۳۶)صف�ہ مسینگ ہیں ( میں کچھ لکھ��ا ہے م�م��دی روزہ۵، ۴: ۵۸ای��ک ظ��اہری ب��ات ہے جس پ��ر )یس��عیاہ

بالکل یہی روزہ ہے۔ دوسرا خواص کا روزہ ہے جس کا ذکر خوبی کے س��اتھ کلام میں ہے )یس��عیا

(۔۴۶: ۲۰(۱۳۶)یہ پیراگراف صف�ہ

یی ک��ا اورالی��اس اور مس��یح ک�ا روزہ تھ��ا تیسرا اخص الخواص کا روزہ ہے اورموسیی ط��اقت س��ے ان کہ چالیس یوم کچھ نہ کھایا یہ روزہ طاقت بش��ری س��ے خ��ارج ہے الہ لوگوں نے رکھا تھا نماز کی کتاب میں روزوں کے چالیس دن کا دستور ج��و لکھ��اہے وہتان ایام میں مسیح کی جفا کش�ی پ��ر فک��ر ک��رتے ہیں اسی روزہ کی یادگاری مں ہے کہ آاپ حس��اب لی��تے ہیں اورکوش��ش ک��رتے ہیں کہ دوس��رے قس��� ک��ا روزہ اوراپنے گناہوں کا رکھ کے اپنی روح کو فائدہ پہنچائیں کہ وہ جسمانی بدخواہش��وں پ��ر غلبہ پ��ائے۔ ت��وبھیآازاد ہیں خوشی سے روزہ رکھتے ہیں خوش�ی س�ے عب�ادت ک�رتے ہیں اور خوش�ی عیسائی سے خیرات دیتے ہیں نہ جبر سے کہ ضرور کرو شریعت رسمی ک�ا ج�بر جہ��ان س�ے اٹھآازادگی سے جو مسیح تاس گیا ہے شریعت اخلاقی کی تعمیل روح اور راستی کے ساتھ نے بخشی ہے بجالاتے ہیں اور خدا ایسے پرس��تار چاہت��اہے نہ ویس��ے جیس��ے غلامی کے

فرزندہوتے ہیں ۔سے شروع ہوا(۱۴۵)یہ پیراگراف صف�ہ

آادمی کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ باقی مال پاک رہ جاتاہے اور میں اب��وہریرہ س��ے منق��ول ہے کہةنہ دینے کی سزا مشکوات کتاب الزک��واة زکواتاس کا مال قیامت کے دن گنجا سانپ بن ج��ائے گ��ا اسة جو کوئی زکوا نہیں دیتا ہے

آادمی کے گلے میں لپٹ ج��ائے گ��ا اور اس آانکھوں پر دو سیاہ نقطے ہونگے وہ اس کی کی دوباچھیں پکڑکے کہے گا میں ہوں تیرا مال تیرا خزانہ۔

ةابی ذر سے روائت ہے کہ جس کے پاس اونٹ گائیں بکریاں ہ��وں اور وہ زک��واآادمی ک���و رون���دیں گے تاس نہ دے ت���و وہ ج���انور قی���امت ک���وبڑے ب���ڑے م���وٹے بن ک���ر

اورسینگوں سے مارینگے۔آاب��اء واج��دة زک��وا مس��کینوں فق��یروں غریب��وں ک��و دی ج��اتی ہے پ��ر اق��ارب یع��نی

واولاد کو دینا جائز نہیں ہے ۔پر بھائی بہن وغ��یرہ اگرم�ت��اج ہ��وں ت��و انہیں م��ل س��کتیہے اسی طرح کافر کو دینا جائز نہیں ہے اور سیدوں کو اوربنی ہاش� کو بھی نہ دیں۔

یہ تعلی� اچھی ہے خیرات دینا ضروری کام ہے کی��ونکہ م�ت��اجوں ک��ا ح��ق ہےتان کی مدد کریں پر ہ� ان ثوابوں اور عذابوں کی ب��ابت کچھ نہیں ج��انتے کہ اہل توفیق صرف اتنا جانتے ہیں کہ خدا کی رضا مندی ضرور اس میں ہے کہ م�تاجوں کی م��دد کی جائے پر جو لوگ نہیں کرتے وہ اپنا واجب ادا نہیں کرتے ہیں اس کا نقصان اٹھان��ا ہوگا اورجس نے رح� نہیں کیا اس پر رح� نہ ہوگا۔ پر زکوات کے بارے میں اگرچہ خ��داآازادگی کی ش��ریعت کے کلام میں دہ یکی کا ذکر ہے یعنی دسواں حصہ دینا چاہے پر آازادگی ہے کہ جس قدر دل چاہت��اہے دیں اپ��نی خوش��ی اور رض��ا من��دی یعنی انجیل میں س��ے کہ ج��و تھ��وڑا دیت��ا ہے تھ��وڑا پ��ائے گ��ا ج��و بہت دیت��ا ہے بہت پ��ائے گ��ا کچھ قی��د چالیسویں اور دسویں حصے کے اب نہیں ہے اورنہ کسی پر ج��بر ہے کہ اگ��ر نہ دے ت��وآاپ خ��دا ک��و دیگ��ا۔ ایس��ی ب��ات انجی��ل میں ہے قتل کرینگے ہر گز نہیں وہ اپنا حساب آازادگی ہے ت��وبھی خ��دا کے فض��ل س��ے م�ت��اجوں کی ح��اجت روائی اور تم��ام اورایس��ی

اخراج��ات دی��نی اس��ی چن��دہ س��ے س��ر انج��ام پ��اتے ہیں بلکہ اہ��ل اس��لام کی زک��وات کیآات�اہے اور نہ ص�رف ہندوس�تان میں مگ�ر ایش�یا کے غ�یر نسبت یہ چندہ زیادہ مفید نظ��ر آازادگی کی روح س��ے دی��ا ملکوں میں بھی یہ خدا کی برکت عیسائی چن��دہ پ��ر ہے ج��و تامی��د جات��اہے۔ پ��ر عیس��ائی ل��وگ س��ب کچھ خ��دا کے واس��طے دے کہ بھی کچھ مغفرت اس چندہ پر نہیں رکھتے ہیں ہماری نجات صرف مسیح سے ہے اوریہ س��ب ک��ا رخیر خدا کی شکر گزاری میں کرتے ہیں اوربھائیوں کا ح��ق اور خ��دا ک��ا ح��ق پہچ��انتے

ہیں۔

فصل بست ویک�فصل بست ویک�صدقہ فطر میںصدقہ فطر میں

آاتی ہے تو نماز سے پہلے واجب ہر جب رمضان تمام ہوتاہے اورعید کی صبح مسلمان روزوں کے صدقہ میں چار سیر جویاکھجوریں یا دوس��یر گیہ�وں فق��یروں ک�و دے

آادمی اپنی اپنی طرف سے دے یہ صدقہ فطر ہے۔ اور ہر یہ بھی ایک خ��یرات ہے بہ��تر ہے پ�ر نج��ات اعم��ال س��ے نہیں ہے گن��اہوں کی مع���افی اگ���ر ایس���ی عب���ادتوں اور ریاض���توں اور مک���انوں او رک���پڑوں اور اور غس���لوں اورآادمی بہشت میں آاسان ہے کہ وضواورخیرات اور حج زکوات سے ہوسکتی ہے توبہت ہی آارام ج��و خ��دا ک��و جائے اوران ادنی سی چیزوں کے ذریعہ سے بہشت کو کم��الے اور وہ آادمی بھی خری�دلے اگ��ریہ ب�ات کس��ی کے خی��ال حاص��ل ہے ان چ�یزوں کے وس�یلہ س��ے تامی�د ک�و ق�ائ� ک�رے پ�ر ہ� آاس�کتی ہے ت�ووہ قب�ول ک�رے اوراس کچی بنی�ادپر اپ�نی میں خوب ج�انتے ہیں کہ یہ ب�اتیں اورمطلب پ�ر مفی�د نہیں ہیں نج�ات اورگن�اہوں کی مع��افی اور خدا کی حضوری میں دخل پ�انے کےل�ئے یہ ام�ور ہ��ر گ�ز مفی�د نہیں ہیں یہی ب�ات سب پیغمبروں کے بیان سے ثابت ہے اوریہی تعلی� مسیح کی انجیل سے پ��اتے ہیں اورآاگ��اہ کردی��تے ہیں س��ب ن�اظرین ک�و یہ عقل بھی اسی ب�ات ک��و قب��ول ک�رتی ہے۔ پس ہ�

ب�اتیں حض��رت نے بھروس��ہ کے لائ�ق نہیں بتلائی ہیں اورکچھ ان کے س��وا حض��رت کے پاس نہیں ہے۔ اورانہیں باتوں کو پیغمبروں کی کتاب میں بھی ج��و حض�رت نے پای��ا ہےتان باتوں کا درست مطلب نہیں سمجھے ہیں اس لئے دین کی بنی��اد تو حضرت م�مد ان پر قائ� کی ہے حالانکہ سب پیغمبروں کی بنیاد سیدنا مسیح پر ق��ائ� ہے اوریہ س��ب

عبادات وغیرہ اسی بنیاد اور جڑ کی شاخیں ہیں۔

تیسرا بابتیسرا بابمعاملات میںمعاملات میں

آاپس میں ایک دوس��رے کے س��اتھ علاقہ رکھ��تے ہیں معاملات وہ امور ہیں جو چنانچہ عبادات کو انسان اور خدا کے درمیان علاقہ ہے جس ک��ا ذک��ر ہوچک��ا ہے پ��ر وہیی کے انہیں آادمی��وں کے درمی��ان ہے بم��وجب رض��امندی الہ آاپس میں امور جن کا علاقہ

معاملات کہتے ہیں ۔ اس باب میں بھی کئی ایک فصلیں ہیں۔

پہلی فصلپہلی فصلکمائی اور کسب حلال کے بیان میںکمائی اور کسب حلال کے بیان میں

آان ح�دیث س�ے نک�ال ک�ر کس�ب اور کم�ائی کی چ�ار علم�اء م�م�دیہ نے ق�ر قس��میں بی��ان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ افض��ل اوراچھی ص��ورت کم��انے کی جھ��اد ہے یع��نی امام کے ساتھ جھاد کرنے کوجانا اورکافروں کا مال لوٹ ک�ر لان�ا یہ س�ب س�ے بہ��تر اور پاک کھانا ہے۔ اس کے بعد تجارت ہے پھ��ر زراعت ک��ا درجہ ہے پھ��ر دس��ت ک��اری ہےآادمی کی خوراک کا ذکر یوں لکھاہے کہ تواپنے یعنی کوئی پیشہ ۔ خدا کے کلام میں منہ کے پسینے سے روٹی کھائے گا یعنی م�نت اور جفا کش��ی س�ے۔ پ�ر عق��ل س�لی� کے نزدیک سب سے بہتر کام تجارت ہے پھر زراعت پھر دستکاری مگر لوٹ کے م��ال کو نہ عق��ل ج��ائز بتلاتی ہے نہ خ��دا ک��ا کلام جس ک��و اس تعلی� میں س��ب س��ے بہ��تر

کام قرار دیا گیاہے۔توں میں پ��ر اس کی بنی��اد وہی ع��رب کی ق��دیمی ع��ادت ہے ج��و اب ت��ک ب��دآاخ�ر ت�ک یی نب�وت کے ای�ام ہج��رت س�ے جاری ہے اور حضرت م�مد کا بھی بع��د دع�و وہی پیشہ تھاکہ جھاد کا اموال غنیمت سے کھاتے پیتے تھے جس کی ب��ابت اس��ماعیل

کے حق میں خبردی گئی تھی کہ اس کے ہاتھ سب کے خلاف ہونگے۔ اوریہ ب�ات کہ خ�دا نے مل�ک کنع�ان ب�نی اس�رائیل کے ہ��اتھ میں کردی�ا تھ��ا اور وہاں کے ام�وال انہ��وں نے پ��ائے تھے یہ ب�ات خ��دا کے انتظ��ام س��ے علاقہ رکھ��تی ہے کہ اپنی خدائی کے قانون کے موافق جو ملک جس کو چاہے بخش دے اس کا ن��تیجہ یہآانکہ دین کے پ��یرائیہ میں اس آادمی کا اچھا پیشہ ل��وٹ م��ارہوئے۔ ی��ا نہیں نکل سکتا کہ پیش��ہ ک�و اختی��ار ک�رے۔ التبہ دنی�ا کے ممال��ک خ��دا نے بادش�اہوں کے ہ��اتھ میں تقس�ی�تان کے آاپس میں ل��ڑیں یاانتظ��ام کےل��ئے کس��ی مل��ک ک��و ل��وٹیں اور کردئیے ہیں ۔ وہ اگر تان کے حک� س��ے لاک��ر کھ��ائیں ت��و یہ ان کی م�نت کی ن��وکر ی��ا س��اتھی ایس��ا م��ال

اا اچھا نہیں ہے۔ اا ونقل کمائی ہے پر دین کے لئے یہ کام عقل

دوسری فصلدوسری فصل

سود کے بیان میںسود کے بیان میں حضرت نے سودکھانے کو منع کیا ہے اورتجارت کو حلال بتلای��ا ہے یہ ب��اتآان کے درمی��ان یی اور ق��ر درس��ت ہے۔ لیکن س��ود کی��ا چ��یز ہے اس ب��ارے میں کلام الہ اختلاف ہے علماء م�مدیہ سود کی قسمیں بتلاتے ہیں سود نس��یہ یع��نی نق��د چ��یز ک��و

وعدے پر دینا سود فضل یعنی تھوڑے کو بہت کے بدلے میں دینا۔ پس اگر ات�اد جنس اور ات�اد قدر بھی ہ��و ت�و دون��وں ص��ورتیں س��ود کی ح�رام ہیں کیلی یا وزنی ہونا قدر ہے پر جب جنسیں مختل�ف ہ��وں اور دس��ت بدس��ت لین دین

ہوجائے تویہ سود نہیں ہے۔ مگر کلام میں بیجا زیادتی ک��و س��ود کہ��تےہیں اورجنس وق��در درس��ت بدس��تآاپس میں نہ لیں کی کچھ شرط نہیں ہے بنی اسرائیل ک��و من��ع تھ��اکہ نامناس�ب زی�ادتی مگر پردیسی اور غير قوم سے سودلینا انہیں بھی منع نہ تھا۔ اب جو عیسائیوں میں س��ود کا رواج ہے یہ ایک قس� کی تجارت ہے پر اپنے احباب اور دوس��توں میں ایس��ا نہیں ہےتاس کے ل��ئے بھی ای��ک ش��رح اور رواجی ہے اورمناس��ب ہے پ��ر اور وہاں جہاں لیا جاتاہے

اا ناجائز جانتے ہیں۔ اا وشرع بیجا زیادتی اب تک وہ نہیں لیتے کیونکہ قانونتبری تبری گیہوں ب��دلوائی تھی۔ اس��ی ط��رح پ��ر کہ آادمی نے روائت ہے کہ ایک چار سیرئی اوراچھی چار سیرئی حضرت م�مد نے فرمایاکہ یہ عین سود ہے )اگ��ر ایس��ی باتیں سود ہیں تو دنیا میں زندگی کیس�ی تلخ ہ�وگی( ت�وبھی خ�ود حض��رت نے ای�ک ب�ارتاس کے عوض دوغلام دیئے تھے گیہ��وں کے قاع��دے کے مواف��ق یہ بھی ایک غلام لیا

سود تھا پر اس کو حضرت نے سود نہ کہا۔تجز ہیں سب سے چھوٹا س��ود یہ ہے کہ حضرت نے فرمایاہے کہ سود کے ستر

آادمی اپنی ماں سے زنا کرے)اس مبالغہ کو خیال فرمائیے۔

آائت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ معاملات میں سب سے پیچھے س��ود کی تاس کی شرح بی�ان نہیں کی یہ��اں ت�ک کہ وف�ات پ�ائی نازل ہوئی تھی مگر حضرت نے پس چاہیے کہ جس چیز میں سود کا ش��ک بھی ہ��و اس��ے چھ��وڑدیں پس یہ ص��اف اق��رار خلیفہ ک��ا ہے کہ درس��ت مع��نی س��ود کے معل��وم نہیں ہیں اس ص��ورت میں کی��ونکر اس

آافت سے بچ سکتے ہیں جوایسا بڑا گناہ ہے۔

تیسری فصلتیسری فصلاشیاء ذیل کی بیع ناجائز ہےاشیاء ذیل کی بیع ناجائز ہے

مردار اور خون اور حردام ول��دیامکاتب ی�ا م�دبر کی بی��ع باط��ل ہے کہ بی��ع م�النہیں ہے۔

شراب اور سور کی بیع باطل ہے کیونکہ مال غ��یر متق��وم ہے ج�انور کے پس�تان میں جو شیر ہے جب تک باہر نہ نکالا جائے فروخت کرن��ا باط��ل ہے۔ ج��و ج��انور خ��ود مخت��ار ہ��وا اڑتے ہیں۔ ی��ا مچھلی��اں ج��و دری��ا میں ہیں یالون��ڈی ک��ا حم��ل ی��ا وہ م��وتی ج��و صدف میں ہے اور وہ گوشت جو جیتےجانور میں ہے فروخت کرنا جائز نہیں مردار ک��اترازجس میں مٹی نہ ملائی ج��ائے ف��روخت گوشت ، یا چربی یا نجس تیل اور انسان کا ب

کرنا منع ہے اورجمہ کی اذان کے وقت کوئی چیز فروخت کرنا منع ہے۔ دیکھ��و یہ کیس��ی ب��اتیں اوران میں حک� ج��اری کرن��ا کی��ا فائ��دہ رکھت��اہے اگ��ر

کسی کو کسی دوا کے لئے یہ چیزیں درکارہوں اورکوئی لاکے بیچے تو کیا گناہ ہے۔

چوتھی فصلچوتھی فصلاحتکار کے ذکر میںاحتکار کے ذکر میں

احتک���ار یہ ہے کہ ارزانی کے وقت غلہ جم���ع کی���ا ج���ائے اس ارادہ س���ے کہ گرانی کے وقت فروخت کروں گا یہ بھی حرام ہے۔ اگریہ کار جہان اٹھ جائے تو ہمیش��ہ

ق�ط رہینگے اورملک برباد ہوگا اور اگر نفع کی امید سے غلہ جم��ع ک��رکے نہ رکھیں ت��وآائیگی۔ ان باتوں کے سوا خروفروخت کے دستور اوربی��ع ضرورت کے وقت روٹی میسر نہ تاس میں بھی کی قسمیں علماء م�مدیہ نے اپنے اجتھاد سے بہت سی بیان کی ہیں اورتدن کے خلاف ہیں پ��ر میں ایس��ے بی��ان بہت غلطی��اں ہیں اور بعض مق��ام عل� انتظ��ام م�� کرکے کتاب کو نہیں بڑھاسکتا۔ م�مدی عال� طالب عل� کی عمر ایسی باتوں میں برب��اد ک��ر ڈال���تےہیں ان ب��اتوں س���ے نہ روح��انیت بڑھ��تی ہے نہ دنی��ا وی فائ��دہ ہے یہ

معاملات کی شریعت ہے۔

پانچویں فصلپانچویں فصلنکاح کے بیان میںنکاح کے بیان میں

علماء م�مدیہ کہتےہیں کہ شہوت کے وقت نکاح واجب ہے اورجب زنا ک��ا خوف ہو تو ف��رض ہے بش�رطیکہ مہ��ر اور نق��د دی�نے کی ط��اقت ہ��و اور س�نت موک�دہ ہے حالت اعتدال میں۔ ایسے ہی خدا کےکلام سے بھی معلوم ہوتاہے چنانچہ توریت میںتاس کے ل��ئے ای��ک ع��ورت بناؤنگ��ا ۔ اور آادم اکیلا رہے میں لکھ��اہے کہ اچھ��ا نہیں کہ آادمی ض�بط پ�ر ق��ادر ہے توبہ�تر ہے کہ نک�اح پولوس رسول سے یہ بھی سنتے ہیں کہ اگر نہ ک��رے۔ ورنہ مناس��ب ہے کہ نک��اح ک��رے یہ��اں م�م��دی بی��ان اورخ��دا کےکلام میں

کچھ مخالفت نہیں ہے۔ عیسائیوں کے دستور کے موافق مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لیں پر اگر بے ضبط ہوں تو غ��یروں س��ے ملاحظہ ک��رالیں۔ ض��رور ہے کہ نکاح کے وقت کوئی عورت کا مختار ہو کے نکاح کر واےپ��ر ع��ورت کی مرض��ی بھی دریافت کرنا ضرور ہے نکاح کے وقت دف بجا کر شہرت کرنا بھی ضرور ہے یا کس��ی اورطرح سے تاکہ یہ مع��املہ مش��ہور ہوج��ائے۔ م�م��دی نک��اح میں ش��رطیں بھی ہوس��کتی

ہیں جتنی چاہیں جانبین شرطیں کرلیں۔

آازادگی کے س��اتھ عیس��ائی دین اور تو سب باتیں درس��ت ہیں مگ��ر یہ ش��رطیں میں نہیں ہیں اورنہ ہونی چاہئے ص��رف یہی ش��رطیں مناس��ب ہیں کہ عم��ر بہ��ر کے ل��ئے عورت مرد کی ہوئی اور مرد عورت کا ہوا اور وہ اس کی خدمت وعزت کریگ��ا اوروہ اس

اا بہتر نہیں ہیں۔ اا ونقل کے ہر حال میں اس کے سوا اورکچھ شرطیں عقل

چھٹی فصلچھٹی فصلنکاح موقتنکاح موقت

نک��اح م��وقت ای��ک قس��� ک��ا نک��اح مس��لمانوں میں ہے جس ک��و متعہ کہ��تے ہیں ۔ یہ نک��اح کچھ دن کے ل��ئے یع��نی ای��ک خ��اص وقت مق��ررہ ت��ک کی ش��رط س��ے کچھ دام دے کر کیا جاتاہے جب ت��ک معی��اد پ�وری نہ ہ��و وہ ع��ورت بی بی ہے اورمی��اں

آازاد ہوجاتے ہیں۔ اا نکاح سے شوہر ہے اورجب معیاد مقررہ پوری ہوگئی عورت مرد فورتان کو باپ ک��ا ورثہ نہیں ملت��ا ہے اگر ایسے نکاح سے اولاد جاری ہوجائے تو تاج��رت پ��ائی تھی یہ تان کی م��اں نے متعہ کی تامت کے۔ اس ل��ئے کہ ب�ک� اجم��اع

نکاح او رلونڈی بازی راق� کے گمان میں برابر ہے۔تان کے درمی��ان ایس��ے اب س��نی مس��لمان اس نک��اح ک��و ح��رام ج��انتے ہیں اور

نکاح کا اب دستور نہیں ہے۔ لیکن ش�عیہ مس�لمان اب ت�ک اس ک�و حلال اورج�ائز بتلاتے ہیں اور یہ دس�تور تان میں اب بھی ج��اری ہے ۔ اس میں کچھ ش��ک نہیں کہ یہ دس��تور حض��رت م�م��د

کے حک� سے جاری ہواہے اورسنی بھی اس بات کے قائل ہیں۔ چن�انچہ مش�کوات کت�اب النک�اح ب�اب اعلان میں بخ�اری ومس�ل� کی روایت ابن مسعود سے یوں لکھی ہے کہ )ہ� لوگ حضرت کے ساتھ جہاد میں تھے اورہمارے ساتھ عورتیں نہ تھیں ۔ پس ہ� نے کہا یا حضرت ہ� خوجے ہوج��ائیں تب حض��رت نے ہمیں خوجہ ہونے سے منع کی��ا اورہمیں رخص��ت دی کہ ہ� متعہ ک��ریں پس ک��وئی ک��وئی

ہ� میں سے کسی عورت کو کپڑا دے کہ کسی مدت مقررہ تک نک��اح کی��ا کرت��ا تھ��ا۔ یہ حدیث سنیوں کی ہے اور اس کےمعنی وہ لوگ یوں کرتے ہیں کہ ابتدا اسلام میں یہآاخ��ر ک��و حض�رت نے اس دس��تور س��ے من��ع کردی��اپس یہ ح��دیث دس��تور ج�اری تھ��ا مگ�ر منسوخ ہے توبھی اسبات کا تو اقرار ہ��واکہ یہ دس��تور ابت��داء اس��لام میں حض��رت ہی س��ے مس��لمانوں میں ج�اری ہ��وا تھ��ا مگ�ر ص�اف ظ��اہر ہے ت�ورايخ م�م�دی کے دیکھ��نے س��ے

ی��ا۱۱جہاد وغزوی خاص مدینہ میں جاکر ہونی شروع ہوئی تھی یع��نی اج��راء اس��لام کے برس بعد ایک قرن تواسلام پر گذر چکا تھا اس وقت کے احک�ام اوائ��ل اس�لام کے۱۲

احکام نہیں ہیں بلکہ اواسط اسلام کے احکام ہیں۔ اوریہ کیا ب��ات ہے کہ وہ معل� ج��وتاس کی تعلی� اوائ��ل واواس��ط واواخ��ر میں وہی خ��دا کی ط��رف س��ے ہ��ونے ک��ا م��دعی ہے طوردکھلاتی ہے جو ہ� سب کاطور ہے کہ موقع کے موافق کارروائی کرتے ہیں یا نادانی

تاس کا نقصان ظاہر ہوتاہے تب اسے چھوڑدیتے ہیں۔ سے کوئی بات بولتے ہیں جب اس کے بعد دوسری حدیث ترمذی کی روائت سے مش��کوات میں یہ ہے کہ )ابن عباس کہتے ہیں کہ متعہ کا دستور اول اسلام میں تھا جب کوئی مرد کسی ایسے شہر میں جاتا تھا جہاں اس کا کوئی واقف نہ ہو تو وہ کس��ی ع��ورت س��ے بق��در قی��ام متعہ کرلیتا تھا تاکہ وہ عورت اسباب کی نگہبانی کرے اورکھانا بھی پک��ائے اورہمبس��ترآایت ات���ری کہ بان���دی اوربی بی کے س���وا کس���ی اور ع���ورت س���ے بھی ہ���وئے جب وہ ص�بت کرنا نہ چاہیے تو اسو قت یہ دس��تور ح�رام ہوگی��ا غ��رض اج��راء اس ک��ا حض�رت ہی سے ہوا اور موقوف بھی اس کو حضرت ہی نے کیا ت��وبھی ش��یعہ ل��وگ ج��ائز ج��انتے

ہیں کہ اورمنسوخ نہیں بتلاتے۔ اس میں کچھ ش��ک نہیں کہ فی نفہ یہ دس��تور ب��د ہے اورزناک��اری ہے اور استاسے ایک قس� کا نک��اح س��مجھیں جیس��ے کہ صورت میں اوربھی زیادہ بدہے کہ جب شیعہ وسنی ہردو اس کے قائل ہیں دونو کہ��تے ہیں کہ حض��رت م�م��د نے یہ تعلی� دی

تھی کہ اگرچہ ای�ک ف��رقہ کہت��اہے کہ اب یہ من�ع ہے ت�وبھی اق�رار ہے کہ ہم�ارے پیغم�برمل ش��یعہ کے ی��ا نہ ج��اری ہ��و کی تعلی� ہے ۔ پس اب خواہ وہ جاری ہو بموجب بی��ان اہ�� بم��وجب بی��ان اہ��ل س��نت کے بہ��ر ح��ال حض��ر ت م�م��د کی ض��روریہ تعلی� ہے اوراستان کی دل کی طہارت اور ذہن کی روشنی کی بابت ہ� کچھ س��مجھ نہیں تعلی� سے

سکتے ہیں۔

ساتویں فصلساتویں فصلنکاح غیر موقتنکاح غیر موقت

یہ وہ ہے جو سب مسلمان کرتے ہیں۔ اس کو غیر م��وقت اس ل��ئے کہ��تے ہیں کہ اس کےلئے بھی کوئی وقت نہیں ہے خواہ موت تک رہے یا کبھی درمی��ان میں جات�ا

رہے۔ اس نکاح میں مرداقرار کرتاہے کہ میں نے اس عورت ک�و قب�ول کی�ا اور ع��ورت اپنے دل کی زبان سے اقرار کرتی ہے کہ میں نے اس مرد کو قب��ول کی��ا۔ ت�وبھی م�رد ک��و اختیار ہے چاہے تمام عمر اس ع�ورت کے س��اتھ بس�ر ک�رے ی�ا چ�اہے چھ��وڑدے۔ اوراس اقرار میں مرد کی طرف سے یہ بھی ش��رط نہیں ہے کہ میں س��ب عورت��وں ک��و چھ��وڑکے صرف اسی عورت کا ش��وہر رہ��وں گ��ا کی��ونکہ وہ اور ع��ورتیں بھی نک��اح میں لاس��کتا ہے لیکن عورت کی طرف سے اقرار یہ ہے کہ اورس��ب م��ردوں ک��و چھ��وڑ ک��ر ت��یری ہی بی��وی

رہونگی اورمیں تجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتی پر تومجھے چھوڑ سکتاہے۔ آاتی ہے اس نکاح میں بھی ہمیں بہت سی بے انصافی اور خود غرض��ی نظ��ر اور خ��اص ک��رکے عورت��وں پ��ر ظل� ہے اور ض��رور خ��دا کی ط��رف س��ے یہ تعلی� نہیں ہے

کیونکہ وہ منصف ہے اور رحی� ہے۔ عیسائی مذہب میں نکاح کا اقرار یوں ہے کہ تمام زندگی کے لئے جب ت��ک عورت ہمیں جدا نہ کرے میں اس عورت کا شوہر رہونگا اورس��ب عورت��وں ک��و چھ��وڑ ک��ر

صرف اسی عورت کا میں ہوگیا ہوں اواسی طرح ع��ورت بھی س�ب م�ردوں ک�و چھ��وڑ ک�ر تمام عمر کےلئے اسی کی بیوی ہوگئی ہے اور ہردوایک تن ہیں ضرور یہ نکاح خدا س��ے ہے جس میں انصاف ہےہاں اگر وہ لوگ زنا کرکے اس اقرار ک��و ت��وڑ ڈالیں ت��و ممکن ہے

کہ جدائی ہوجائے۔

آاٹھویں فصلآاٹھویں فصلحرام عورتوں کے بیان میںحرام عورتوں کے بیان میں

حرام عورتیں جن سے شرع م�مدی میں نکاح ناجائز ہے یہ ہیں:مائیں،بہنیں،پھوپھیاں،خالائیں بھتجیاں،بھانجیاں۔نسب کے سبب۔۱ ساسیں، یا جورور کی بیٹیاں، بہوئیں مگر لے پال��ک کیسسرال کے سبب۔۲

نہیں۔اا اپنی دائی دودھ پلائی حرام ہے۔دودھ کے سبب۔۳ مثل چار سے زی��ادہ جم��ع نہیں ہوس��کتے مگ��ر بان��دیاں، جسجمع کے سبب ۔۴

ق���در چ���اہیے جم���ع ہوس���کتی ہیں۔ دوبہ���نیں جم���ع نہیںآاس��کتی ہوس��کتی مگ��ر ای��ک کی م��وت کے بع��د دوس��ری

ہے۔ غلام سے زیادہ جمع نہیں کرسکتا۔ بان��دیوں کے نک��اح بی بی��وں کے اوپ��ر نہیں ہوس��کتے وہشرافت وزالت کے سبب۔۵

بلانکاح رہ سکتی ہیں۔یعنی کسی کی جورو سے نکاح نہیں ہوسکتاحق غير کے سبب۔۶ تبت پرس��ت ومش��رک س��ے ج��ائز نہیں ہے مگ��ر عیس��ائیشرک کے سبب ۔ ۷

یہودی عورت سے جائز ہے۔تاسغلامی کے سبب ۔ ۸ آازاد عورت اپنے غلام س��ے نک��اح نہیں کرس��کتی نہ

غلام سے جو شرکت غیر میں ہے۔

تاس س���ے نک���احطلاق کے سبب ۔ ۹ جس بی بی ک���و طلاق دی تھی پھ���ر نہیں ہوسکتا مگر بعد حلالہ کے۔

عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے اور ضرور اس)ف۔(حلالہ یہ ہے کہ مطلقہ

تاسے طلاق دے ت�و اب یہ ع�ورت اگرچ�اہے کہ خص�� س�ابق س�ے سے ہمبستر ہوئے اور پھر وہ شخص نکاح کرے تو جائز ہے مگر جب ت�ک دوس�را خص�� نہ ک�رچکے پہلے خص�� کی ط�رف رج�وع کرن�ا

یی عالمگیری کے مطلب کا خلاصہ ہے۔ ناجائز ہے۔ یہ نوقس� کی حرام عورتیں فتو وہ ع���ورتیں جن س���ے م���رد عیس���ائي ک���وشمار

نکاح جائز نہیں وہ مرد جن سے عورت عیسائيہ کو نکاح ج��ائز

نہیںدادا دادی ۔۱خاوند کی دادای کا دادا کی جورو۔۲دادا اپنے شوہر کا دادی بیوی کی ۔۳چچاچچی۔۴خالوخالہ ۔۵اپنی چچی کا خاوند چچا کی بی بی ۔۶اپنی خالہ کا خاوند خالو کی بی بی ۔ ۷اپنے خاوند کے باپ کا بھائیجورو کے باپ کی بہن ۔ ۸اپنے خاوند کی ماں کا بھائی جورو کی ماں کی بہن ۔ ۹

اپنا باپ اپنی ماں ۔۱۰اپنی ماں کا خاوند اپنے باپ کی جورو ۔ ۱۱اپنے خص� کا باپ ساس ۔۱۲اپنا بیٹا اپنی بیٹی ۔۱۳اپنے خص� کا بیٹا جورو کی بیٹی ۔۱۴اپنی بیٹی کا خاوند بہو یعنی اپنے بیٹے کی جورو۔ ۱۵اپنا بھائی اپنی بہن ۔ ۱۶اپنے شوہر کا بھائی اپنی جورو کی بہن یعن سالی۔ ۱۷

اپنی بہن کا خاوند پوتی اپنے بیٹے کی بيٹی ۔۱۸اپنے بیٹے کا بیٹا دہوتی اپنی بیٹی کی بیٹی ۔۱۹بیٹا اپنے بیٹے کا بیٹی اپنی بیٹی کی ۔۲۰اپنی بیٹی کی بیٹی کا خاوند جورو اپنے بیٹے کے بیٹے کی ۔۲۱اپنے بیٹے کی بیٹی کا خاوند بیٹی کے بیٹے کی جورو ۲۲اپنے خاوند کے بیٹے کا بیٹا جورو کے بیٹے کی بیٹی ۲۳اپنے خاوند کی بیٹی کا بیٹا جورو کی بیٹی کی بیٹی۔۲۴اپنے بھائی کا بیٹا بھائی کی بیٹی یعنی بھتیجی۲۵اپنی بہن کا بیٹا بھانجی ۔ بہن کی بیٹی ۲۶ بھائی کے بی��ٹے کی ج��ورو بھ��تیجے کی۔۲۷

بیویاپنے بھائی کی بیٹی کا خاوند

بھانجے کی ج��ورو ۔ بہن کے بی��ٹے کی۔۲۸بیوی

اپنی بہن کی بیٹی کا خاوند

اپنے خاوند کے بھائی کا بیٹا سالے کی بیٹی ۔۲۹اپنے خاوند کی بہن کا بیٹا سالی کی بیٹی ۔۳۰

خدا کی شریعت میں بل�اظ حرمت کے اپنے ماں ب��اپ کی ط��رف س��ے ش��یر ک��ا بچ��اؤ ہے اوراپ��نی بی بی س��ے بھی ویس��ا ہی بچ��اؤ ہے کی��ونکہ خ��دا کے حک� کے

موافق اپنی بی بی کے ساتھ ایک تن ہوکے پوری یگانگت پیدا کرتاہے۔تان عورتوں کی بابت فکرکرے اوراس انتظام پر بھی سوچے تو ج��انے آادمی اگر

گا کہ یہاں زيادہ حیاء شرم اوراقارب کی حرمت ہے۔

نویں فصلنویں فصلمہر کا بیانمہر کا بیان

نک�اح کے وقت عورت�وں کے ل�ئے کچھ مہ�ر مق��رر کی��ا جات�ا ہے گوی�ا یہ پہلےآانہ ہیں اور زی��ادہ جہ��اں ت��ک ہمخ��وابی کی اج��رت ہے۔ ادنی درجہ ک��ا مہ��ر دوروپیہ دس خاوند ادا کرسکے۔ حضرت کی بی بی ام حبیبہ کا مہر ایک ہزار پچاس روپیہ کا مقرر ہوا تھا۔ اور حضرت کی بیٹی بی بی ف�اطمہ ک�ا مہ��ر ای�ک س�و پچ�اس روپیہ ک�ا تھ��ا۔ انآانہ ک��ا بان��دھا گی��ا کے سوا اور سب عورتوں اور بیٹیوں کا مہر ایک سو اکتیس روپیہ چار

تھا۔ تاس��ے دی��ا یہ مہر خاوند کو ادا کرنا ضرور ہے یا بی بی معاف کردے یا ضرور جائے اگر خاوند نہ دے تو بی بی نالش کرکے لے سکتی ہے اور جو بی بی مرج�ائے ت�و تاس کی اولاد باپ سے لے سکتی ہے۔مگر نہائت مناسب یہ ہے کہ نکاح کے بع��د ہ� خوابی سے پیشتر ادا کردیا جائے کیونکہ حضرت نے اپنے داماد علی سے کہا تھاکہ ہ� بستر ہونے س�ے پہلے ف�اطمہ ک�ا مہ��ر دیج�ئے اس نے کہ�ا م�یرے پ�اس کچھ نق��دی استاس کے بع���د ہ� تاس نے ذرہ دی��دی وقت موج��ود نہیں ہے فرمای��ا اپ��نی ذرہ دی��دے تب

خواب ہوا۔ عیس���ائیوں میں کچھ مہ���ر مق���ر ر نہیں ہے اس ل���ئے کہ بی بی اورمی���اں میں کسی طرح ک�ا ف��رق نہیں رہت�ا ہے۔ ج�وکچھ خاون�د کے پ�اس ہے ی�ا وہ س�اری عم�ر میں کمائے گا سب کچھ بی بی کا ہوگیا ہے خاوند معہ اپنے سب مال کے بی بی کا ہوگیاتاس کی ہوگ���ئی ہے پس م�م���دی نک���اح میں بہت ف���رق ہے اس ل���ئے اس ہے اوربی بی نک��اح میں مہ��ر کی ض��رورت ہے کی��ونکہ وہ��اں ف��رق ق��ائ� ہے اس نک��اح میں مہ��ر کی

ضرورت نہیں ہے کیونکہ فرق نہیں ہے۔

دسویں فصلدسویں فصلولیمہ یاشادی کے کھانے اور سب قس� کےولیمہ یاشادی کے کھانے اور سب قس� کے

ضیافتوں کے ذکر میںضیافتوں کے ذکر میں آاٹھ قس� کی ضیافتیں یا کھانے ہوتے ہیں اوریہ نہ صرف م��ذہبی مسلمانوں میں

تعلی� ہے مگر ملکی اور رواجی بات ہے جو شرع میں بھی جائز رہی ہے۔ تان سب کھانوں کے نام میں بھی عربی زبان میں ج��دے ج��دے ہیں اور وہ یہ

تخرس، عقیقہ ، اعذار ، نقیعہ، وکیرہ، مادبہ وخیمہ ولیمہ۔ ہیں ۔ ۔( خرس وہ کھانا ہے جو بچہ پیدا ہونے کی خوشی میں کھلایا جاتاہے۔ ۱)۔( عقیقہ وہ کھانا ہے کہ بچہ کے نام رکھنے کے وقت کھلایا جاتاہے۔۲)۔(اعذار وہ کھانا ہے کہ ختنہ کے وقت کھلاتے ہیں۔۳)۔( نقیعہ وہ کھانا ہے جو مسافر کو کھلاتے ہیں۔۴) ۔( وکیرہ وہ کھان�ا ہے ج�و مک��ان کی عم�ارت تم��ام ہ��ونے کے وقت کھلای��ا۵)

جاتاہے۔ ۔( مادبہ وہ کھانا ہے جو ی�وں ہی بلاکس�ی خ��اص س��بب کے کھلای��ا جات��ا۶)

ہے ۔۔( وخیمہ وہ کھانا ہے جو مصیبت کے وقت کھلاتے ہیں۔۷)۔( ولیمہ وہ کھانا ہے جو بعد نکاح کے کھلاتے ہیں۔۸)

ولیمہ سنت ہے یا واجب مگر اورسب مت�ب ہیں یہ خوشی کا کھانا ہے سب قوم��وں میں اس ک��ا رواج ہے عیس��ائيوں میں بھی قس��� قس��� کے کھ��انے ہیں مگ��ر س��ب کچھ توفی��ق پ��ر ہے واجب ی��ا س��نت کچھ نہیں ہے م�بت کی ض��یافتیں ہیں ج��و خ��دا

کے جلال اور شکر گزاری میں کی جاتی ہیں ان باتوں میں فائدہ ہے۔

گیارھویں فصلگیارھویں فصلعورتوں کی باری مقرر کرناعورتوں کی باری مقرر کرنا

م�مدی تعلی� میں چونکہ ایک م��رد چ��ار بیوی��اں بھی رکھ س��کتاہے۔ اس ل��ئےتان کی ب�اریوں انہیں ض�رورت ہے کہ اپ�نی بی بی کے ل�ئے باری�اں مق��رر ک�ریں ت�اکہ م�رد آان تان کی خدمت میں حاضر ہ��وا ک�رے اور کس�ی ک�ا ح�ق تل�ف نہ ک��رے ق��ر کے موافق میں لکھا ہے ف�ان تع�دلو فواح�دہ اگ�ر ع�دل نہ کرس�کو ت�و ای�ک ہی ج�ورو ک�رو پس اگ�رتان آایت کے دو دوتین تین چار چار بیبیاں ک��ریں ت��و ش��رط یہ ہے کہ بموجب اوپر کی

میں برابری اور عدالت کی جائے ورنہ ناجائز ہے کہ ایک سے زيادہ کی جائے۔ مگر یہ بات م�ال ہے کہ انسان سب عورت��وں ک��و ای��ک ہی نظ��ر س��ے دیکھےآایت کے معنی ی�وں بی�ان ک�ئے ہیں اورسب کے حق برابر ادا کرے اس لئے علما نے اس کہ ایک ایک رات سب کے پاس رہنا اوربرابر ہمنیشنی کرنا اوربرابر کھانا کپڑا دین��ا ض��رور ہے مگ��ر براب��ر ہمخ��وابی اور براب��ر م�بت س��ب س��ے کرن��ا کچھ ض��رور نہیں یع��نی لف��ظ

عدالت میں یہ بات شامل نہیں ہے۔ دیکھو علماء م�مدیہ کی تمیز نے خود گواہی دی کہ سب عورتوں س�ے براب�ر م�بت اور ہ� خوابی کرنا م�ال ہے اس لئے انہوں نے عدلت کے اور ہی معنی تص��نیف کئے کہ سب کے پاس برابر وقت میں بیٹھنا اورکھانا کپڑا برابر دینا بس عدالت ہے مگ��ر م�بت براب��ر کرن��ا کچھ ض��رور نہیں ہے ۔مگ��ر یہ ع��دالت تم��یز انس��ان کے خلاف ہے انہیں ص��اف کہن��ا چ��اہیے تھ��اکہ ی��ا ت��و ک��ثرت ازواج کی تعلی� ہی غل��ط ہے ی��ا اس میں

شرط عدالت غلط ہے۔ بالفرض اگریہ بناوٹی معنی ع�دالت کے ج�و خلاف تم�یز ہیں قب�ول بھی ک�ئےآاس�ان ع��دالت پ�ر بھی عم�ل آاتاہے کہ حض�رت نے خ�ود اس جائیں تو ایک اورتماشہ نظر

نہیں کیا اور صاف دکھلایا کہ یہ بھی کثرت ازدواج میں م�ال ہے ۔

آاخر عمر میں حضرت م�م��د کے پ��اس ن��و ع��ورتیں اکٹھی موج��ود تھیں لیکنآاٹھ تھیں ۔ صرف عائشہ کے ل�ئے دوراتیں تھیں اورس��ب کے ل�ئے ای�ک ای�ک رات باریاں

تھی سو وہ عورت باری سے م�روم تھی۔ پھر یہ دستور بھی تھا کہ جب حضرت م�مد کسی کنواری ع��ورت ک��و لی��تےتاس کے پاس رہتے تھے اور جو غير کنواری س��ے نک��اح حول میں سات رات برابر تھے تو اکرتے تھے تو اس کے لئے تین رات مقرر تھیں یہ بھی عدالت مفسرہ کے خلاف تھا۔

مگر علم��اء م�م��دی اس ک��ا ج��واب ی��وں دی��تے ہیں کہ عورت��وں کے ح��ق میں عدالت کرنا حضرت م�مد پر واجب نہ تھا وہ اپنی خوش��ی س��ے جس ق��در ہوس��کتا تھ��اتان کے ل��ئے اس ام��ر میں ع��دالت کی عدالت کرتے تھے پر خدا کی طرف س��ے خ��اص

شرط نہ تھی لیکن مسلمانوں کے لئے عدالت شرط ہے۔آادمی کا دلی انصاف ک��و پس��ند کرس��کتا دیکھو یہ کیسا جواب ہے کہ کسی ہے جب کہ عدالت خدا کی ص�فت ہے اورم���ال ہے کہ خ�دا کبھی بھی ع�دالت س�ے باہر کوئی کام کرے اوربندگان خ��دا پ��ر ف��رض ہے کہ ع��دالت ک��ریں ورنہ خ��دا کے مج��رمتان پ��ر ع��دالت ہونگے مگر رسول خدا ک��و ج��ائز ہے کہ وہ کبھی کبھی ع��دالت نہ ک��ریں

واجب نہیں ہے۔ ہ� کہ��تے ہیں کہ ک��ثرت ازدواج کی تعلی� ہی خلاف ع��دالت ہے جب ای��کتاس کے یہ مع��نی ہیں کہ اے عورت��وں ت� چ��اروں مرد نے چار عورتوں سے ش��ادی کی ت��و بالکل میری ہو اور ہر ایک ت� میں سے بالکل پوری پوری م��یری ہے اور میں ہ��ر ای��ک کے

۔ اورپھ��ر اس تعلی� میں ع�دالت کی ش�رط4/1لئے پورا نہیں ہوں بلکہ ہر ایک کے ل�ئے ہے یعنی امر عدالت شکن میں عدالت شرط ہے اور عدالت سے مراد وہ عدالت ہے ج��و فی ال�قیقت عدالت نہیں ہے کیونکہ ہ� خ��وابی اورم�بت ج��و حقیقی رکن ع��دالت ک��ا

عورتوں کے بارہ میں ہے وہ اس عدالت سے خ��ارج ہے ص��رف ظ��اہری ہ� نش��ینی اورکھان��اکپڑا برابر دینا عدالت کہلاتاہے جس سے عدالت کی غرض ہرگز پوری نہیں ہوسکتی۔

ناظرین کو ان باتوں پر فکرکے سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تعلیمات خ��دا س�ے ہیںیا کسی انسان کی خواہشوں میں سے نکلی ہیں۔

شائد کوئی کہے کہ پ�رانے عہ�د ن��امہ میں بھی پیغم��بروں کی نس�بت لکھ�اہے کہ انہوں نے بھی بہت سے عورتیں جمع کی تھیں ج��واب مختص��ر یہ ہے کہ خ��دا نےآادم کو ایک ہی عورت بخشی تھی اورانسان کی بگڑی ہوئی حالت س��ے پہلے یہ پہلے تاس کی اچھی حالت کا انتظام خ��دا س��ے یہی ہے کہ ای��ک انتظام خدا نے کیا تھا پس بی بی ہوئے مگر جب انسان کی حالت بگڑگئی توہ� دیکھتے ہیں کہ قائین ظ��ال� کےتاسی کی تبرا دستور جاری کیا کہ عدہ اور ظلہ دوعورتیں جمع کیں پھر پوتے لمک نے یہ س��نت یہ دنی��ا میں ج��اری ہ��وئی اوراس میں لوگ��وں نے اپ��نی نفس��انی خواہش�وں کے س��ببتبرا سے بڑی ترقی کی پس جنہو ں نے یہ ک��ام کی��ا اپ��نی نفس��انی خواہش��وں س��ے کی��ا اور آای��ا اورانس��ان تان کی اس بد ح��الت س��ے ط��رح دی پ��ر جب مس��یح کیا اور خدا نے بھی آادم والا دستور جاری ہوا اب ہ� کثرت ازدواج ک��و کی ب�الی کا وقت شروع ہوا پھر وہی آادم کی ح��الت بیگن��اہی نہ پیغم��بروں کی س��نت مگ��ر لم��ک کی س��نت ج��انتے ہیں اور تری حالت اورنفس��انی خواہش��وں کی س��نت پ��ر نہیں چ��ل آادمی کی ب کی سنت چھوڑ کر

سکتے جو خلاف عدالت اور خلاف عقل اورخلاف حک� کے ہے۔

بارھویں فصلبارھویں فصلعورتوں سے خوش مزاجی کرناعورتوں سے خوش مزاجی کرنا

مشکوات کتاب النکاح باب عشرہ النساء میں لکھاہے کہ حضرت م�مد نے تعلی� دی ہے کہ عورتوں کے ساتھ خوش مزاج رہن��ا چ��اہیے اور انہیں نص���یت بھی دین��ا

چاہیے۔

یہ تعلی� اچھی ہے اور خ��دا کےکلام میں بھی ایس��ا لکھ��اہے کہ اپ��نی بیوی��وں کے ساتھ خوش مزاج رہنا چاہیے۔ اور حضرت نے عورتوں کے مارنے س��ے بھی من��ع کی��ا

ہے یہ سب مناسب اور لائق باتیں ہیں۔تان ک�ا ذک�ر ش�رم کی مگر اورب�اتیں اس�ی ب�اب میں ایس�ی بھی م�ذکور ہیں کہ تاس کا حاصل یہ ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کے لئے ہر وقت حاضر رہن��ا بات ہے۔ پر چاہیے جب وہ بلائیں بلاعذر حاضر ہونا چاہیے ورنہ خدا کے فرشتے ساری رات ع��ورتتاس نے اس رات ہ� خ��وابی س��ے انک��ار کی��ا تجرم میں کہ پ��ر لعنت بھیج��ا ک��رتے ہیں اس

تھا۔ عائیشہ کہ��تی ہے کہ میں لڑکی��وں کے س��اتھ کھیلا ک��رتی تھی جب حض��رت آاتے تھے تو لڑکیاں بھاگ جاتی تھیں مگر حضرت اپنی خوش مزاجی کے سبب لڑکیوں کو بلا کر میرے پ��اس بھیج��ا ک�رتے تھے ۔ ای��ک دن ک��ا ذک��ر ہے کہ حض��رت دروازہ پ�ر کھ��ڑے تھے اور حبش��ی نٹ برچھی��وں پ��ر تماش��ے ک��ررہے تھے تب حض��رت م�م��د نےآاڑ میں لے کر اپنے کندھے پر چڑھایا اور تماش��ہ دکھلای��ا اس عائشہ کو اپنے کپڑے کی

سے ظاہر ہے کہ حضرت بیویوں سے بہت خوش مزاج تھے۔ اور عائش��ہ بی بی بھی حض��رت م�م��د س��ے ٹھٹھہ کی��ا ک��رتی تھیں چن��انچہتان عورت��وں پ��ر عیب تان ک��ا حض��رت س��ے یہ بھی ہ��وا وہ کہ��تے ہیں کہ میں ای��ک ٹھٹھہ لگایا کرتی تھی جو اپنا نفس حضرت کو مفت بخش دیتی تھیں میں کہتی تھی کہ یہ کیس��ی بے حی��ا اور ش��ہوت پ��ر ح��ریض ع��ورتیں ہیں کہ بے نک��اح مفت اپن��ا ب��دن م��یرےآائت خاوند کو ہمبستر ہونے کےلئے بخش��دیتی ہیں یہ ب��ات م��یرے دل میں تھی جب وہ تاس ع��ورت ک��و جس نازل ہوئی کہ نکال دے جس ع��ورت ک��و ت��یرا دل چ��اہے اوررکھ لے یی رب��ک الایس��ار ع فی ک��ر ت��یرا دل چ��اہے تب عائش��ہ کہ��تی ہیں کہ میں ی��وں ب��ولی م��اار

ھ��واک میں دیکھ��تی ہ��وں ت��یرے خ��داکو کہ ت��یرے دل کی خواہش��یں جل��د جل��د پ��وریکرتاہے پس یہ عائشہ کا ٹھٹھہ حضرت کے ساتھ ہوا۔

دیکھو نہ اس وقت صرف ہماری تمیز یہ کہتی ہے کہ م�مدی تعلی� حضرتتان کے اص���اب بلکہ ہمکن��ار بی بی م�م�د کی نفس��انی خواہش�وں ک��ا مظہ��ر ہے مگ�ر کی تم��یز بھی اس ب��ات پ��ر گ��واہی دی��تی تھی کہ یہ خ��دا اس کی خواہش��وں کے مواف��ق چلتاہے پس یہ ایک بات حضرت کی عدم نبوت پ�ر ک�افی دلی�ل ہے کی��ونکہ خ�دا ج�وآادمی کی نفسانی خواہشوں کے مواف��ق اا م�ال ہے کہ کسی اا ونقل حقیقی خدا ہے عقلآادمی کو چلانا چاہتاہے سارے پیغمبر خدا چلے پر وہ اپنی مرضی اور ارادوں کے موافق تاس کی مرضی کے آادمیوں کو کھینچتے ہیں اوراپنی خواہشوں کو کی مرضی کی طرف آادمی کی خواہشوں کے ت��ابع ہے تابع کرنا چاہتےہیں پر یہاں دیکھتے ہیں کہ خدا ایک

پس بھائیو ہوشیار ہوجاؤ۔تان ک�ا مفص�ل عورتوں کے حقوق مردوں پر اور مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں بیان حضرت م�مد کی تعلی� میں جو لکھاہے س��وباب عش��رہ النس��اء میں دیکھناچ��اہیے جس ک��ا ح��والہ اوپ��ر ہے اورمس��ی�ی دین کی تعلی� ج��و اس ب��ارہ میں ہے اس ک��ا ذک��رآاخر میں اگر ک��وئی دیکھن��ا چ��اہے ت��و دیکھے اورپھ��ر مفصل کتاب نمازترتیب نکاح کے انصاف س�ے کہے کہ کونس�ی تعلی� خ�دا س�ے ہے اورکونس�ی تعلی� نفس ام�ارہ اور عق�ل

انسانی ہے۔

تیرھویں فصلتیرھویں فصلطلاق کے بیان میںطلاق کے بیان میں

م�م��دی تعلی� ہے کہ ہ��ر م��رد اپ��نی بی بی ک��و جب چ��اہے اورجس وجہ س��ے چ��اہے طلاق دے س��کتاہے۔چن��انچہ یہ��ودی بھی ایس��ا ک��رتے تھے جن کے ب��ارے میں

یی نے ایسا حک� دیاہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایا تمہاری سخت دلی کے سبب موس

اور حض����رت م�م����د نے بھی فرمای����ا ہے کہ البغض ال�لال الی اللہ الطلاق یعنی حلال چیزیں جس سے خ��دا ک��و بہت غص��ہ ہے وہ طلاق ہے یع��نی اگ��رچہ یہ ک��ام

جائز ہے توبھی خدا اس سے سخت ناراض ہے۔ مشکوات باب الوسوسہ میں مسل� سے جابر کی روائت ہے کہ فرمایا حض��رتتاس کے نے شیطان کے پاس ایک تخت ہے وہ اسے پانیوں پ�ر رکھ ک��ر بیٹھ��ا کرت��اہے اور تاسے سنایا ک��رتے ہیں کہ ہ� نے فلاں فلاں ش��رارت نوکر اپنی خدمت گزاری کا روزنامچہ تان کی عزت کی��ا کرت��ا آاج کئے ہیں اورشیطان ہر ایک کی کارگزاری کے موافق کے کام ہے پر جب کوئی نوکر کہتاہے کہ میں نے ایک عورت میں فس��اد ڈل��واکے طلاق ک��رادیتاسے اپنے گلے سے لگا لیت��ا ہے یہ��اں س��ے ظ��اہر ہے کہ ہے تو شیطان بہت خوش ہوکے طلاق ک��ا دس��تور خ��دا کے نزدی��ک مک��ر وہ ہے اگ��رچہ اس نے ج��ائز کی��ا ہے اوریہ کہیی کی شرع میں جو طلاق ج��ائز تھی اس کی شیطان کو اس میں بہت خوشی ہے۔موسآادمی��وں کی وجہ تو سیدنا مسیح نے وہ بتلائی ہے جس کو عقل بھی قبول ک��رتی ہے کہ تاس نے ایسا حک� دیا تھا پر م�مدی شرع میں جو یہ جائز سخت دلی کے سبب سے تامت م�م�دیہ ک�ا آادمیوں کی ی�ا مناس�ب انتظ�ام آایا سخت دلی ہے اس کی وجہ کیا ہے آادمی��وں کی س��خت دلی کے س�بب س�ے یہ رواج ہے ت��و یہ خدا کی طرف س��ے ہے اگ��ر آادمی ہونگے جنہو ں نے کئی عورتوں طلاق دی ضرور حضرت م�مد بھی سخت دل تھی اور وہ طلاق ضرور شیطان کے کسی نوکر کی ت�ریک سے واقع ہ�وگی ۔ بم�وجب حدیث جابر کے ۔ یا م�ض نیک انتظام کے لئے طلاق ہوگی اگر اس مطلب پ��ر طلاق ہے تو بڑی نیکی ہے پر خدا کے نزدیک البغض حلال کیوں ہوئی۔ اور وہ کونسی نیکی ہے جس سے شیطان خو ش ہوس��کتاہے وہ ت��و م�ض ب��دی س��ے خ��وش ہوت��اہے نہ نیکی

سے اس لئے حیرانی ہے کہ شریعت م�مدیہ کی طلاق کا کیا منشا ہے۔

اورجب ہ� زی���دوزینب کی طلاق پ���ر س���وچتے ہیں اور حض���رت م�م���د کیآان میں ہے تب اوربھی ح�یران ہیں تاس میں پاتے ہیں جس کا ص�اف ذک�ر ق��ر خوشنودی کہ حضرت م�مد اس فعل سے کیوں خوش تھے جو خدا کے نزدیک مبغوض تھا اور شیطان کے نزدیک نہائت اچھا تھا اب سوچ لیں کہ اس مع��املہ میں حض��رت م�م��د کس کی طرف تھے۔ غرض یہ تعلی� جس کی منشا اور غ��رض اوربی��ان میں بہت گ��ڑ ب��ڑ ہے یعنی طلاق ش�ریعت م�م�دیہ میں ہ��ر وجہ س��ے ج�ائز ہے اوراس کی ک�ئی قس�میں

ہیں۔

چودھویں فصلچودھویں فصلخلع کے بیان میںخلع کے بیان میں

یہ ای��ک قس��� کی طلاق ہے اس ک��ا مطلب یہ ہے کہ اگ��ر ک��وئی ع��ورت اپ��نےآازاد ہون��ا چ��اہتی ہے تب وہ اپ��نے خاون��د ک��و تاس س��ے ش��وہر ک ج��و رو رہن��ا نہیں چ�اہتی تاس�ے چھ��وڑ دے اگ��ر خاون�د منظ��ور ک�رے کسی قدر مال دے ک�ر راض��ی ک�رتی ہے کہ

اوراس طرح سے چھوڑدے تو یہ خلع ہوا۔

پندرھویں فصلپندرھویں فصلطلاق مغلظہ وہ مخففہ کے ذکر میںطلاق مغلظہ وہ مخففہ کے ذکر میں

طلاق مغلظہ یہ ہے کہ مرد تین بار اپنی عورت سے ی��وں کہے کہ )اے ع��ورتتان ک�ا مطل�ق ٹ�وٹ جات�اہے وہ پھ��ر اس میں نے تجھے طلاق دی ( پس اس سے نکاح تاس کی جورو نہیں ہوسکتی جب تک کسی غیر سے نکاح ک��رکے اورہمبس��تر ہ��وکے اورآان میں آائے اورپھ��ر اس س��ے نک��اح نہ ک��رے۔ یہی حک� ق��ر س��ے پھ��ر طلاق لے کے نہ اا غ��یر طلاق مخففہ اس س��ختی کے الف��اظ میں نہیں ہے صاف لکھاہے حتی تنکح زوج

اس لئے اس سے مراجعت ہوسکتی ہے بغیر حلالہ کے۔

سولھویں فصلسولھویں فصللعان کے بیان میںلعان کے بیان میں

لع��ان بھی ای��ک قس��� کی طلاق ہے وہ یہ ہے کہ اگ��ر ک��وئی م��رد اپ��نی ع��ورتیی کرے تو دونو قاضی کے سامنے حاضر ہ��وں اورجب م��ر د کی نسبت زناکاری کا دعو گواہوں سے زناکا ثبوت عورت کی نسبت نہ دے کس��ے ت��و چ��ار دفعہ ی��وں کہے ) خ��دا کی قس� میں اس دعوے میں سچا ہوں( اورپانچویں دفعہ یوں کہے )اگر میں جھوٹا ہوں ت��و مجھ پ��ر خ��دا کی لعنت ہ��و( پھ��ر ع��ورت چ��اردفعہ ی��وں کہے )خ��دا کی قس��� یہ م��رد جھوٹا ہے( اورپانچویں ب�ار ع��ورت ی�وں کہے )اگ��ر یہ م��رد س��چا ہ��و ت��و مجھ پ��ر خ��دا کی لعنت پڑے( یہ لعان ہے یعنی اس میں ایک دوسرے پ��ر لعنت کرن��ا جب یہ ہ��وا ت��و طلاق

پڑگئی اب دونوں میں جدائی ہوگئی ۔

سترھویں فصلسترھویں فصلعدت کا بیانعدت کا بیان

تاس م��دت ک��و کہ��تے ہیں جس میں ع��ورت ک��و ض��رور ہے کہ نک��اح نہ عدت کرے جب وہ مدت پوری ہوجائے تب نکاح کرے ۔

اگر خاوند مرجائے تو چار مہینے دس دن تک ع��ورت ک�و نک�اح کرن�ا درس��تتاس کی یہ عدت ہے اگر وہ حاملہ ہے تو جنے تک ع��دت ہے۔رہ��تی ہے ی��ا تین نہیں ہے

آاتا ہو۔ مہینے تک اگر حیض نہ مگر لونڈی مطلقہ کی ع��دت دو حیض ہیں ی��ا ڈی�ڑھ مہینہ اور اگ�ر لون��ڈی ک��ا خاوند مر ج��ائے ت��و دو مہی��نے پ��انچ دن ع��دت ہے یہ بندوبس��ت اس ل��ئے ہے کہ وہ نطفہ

مل نہ جائے۔ یہ بندوس��بت مناس��ب ہے اس میں کچھ نقص��ان نہیں ہے بلکہ فائ��دہ ہے ہ��اں مدت عدت کی وقت کے مناسب چاہیے پ�ر ج�و ان کے نزدی�ک اس�ی ق��در مناس�ب ہے

اور لوگوں کے خیال میں کچھ زیادہ وقت مطلوب ہے۔

اٹھاریوں فصلاٹھاریوں فصلعتق کے بیان میںعتق کے بیان میں

آازاد کی��ا آازاد کرنے کو عتق کہتے ہیں اس کا بڑا ث��واب ہے کہ غلام غلام کے آازاد کرنا چ��اہتے ہیں لیکن کی��ا خ��وب ب��ات جائے۔ یہ بات بہت درست ہے کہ غلام کو ہے کہ غلام رکھنے کی رس� ہی جہان میں نہ رہے پر خیر ش��ریعت م�م��دی میں غلامآازادگی چ�اہیے اس ل��ئے کہ��تے تان تمیز کہتے ہیں کہ رکھنے کا دستور جاری ہے توبھی

آازاد کیا جائے۔ ہں کہ بڑا ثوابت ہے کہ غلا م

آازاد کرنا گناہ بھی ہے اس وقت کہ جب خ��وف ہ��و کہ لیکن بعض وقت غلام آازاد وہ کافروں کے ملک میں چلا جائے گا یا اسلام چھوڑ دے گا ت��و اس ص��ورت میں

تان کی شریعت میں م�مود ہے۔ کرنا منع ہے اس لئے کہ جبری اسلام بھی

انیسویں فصلانیسویں فصلقس� کے بیان میںقس� کے بیان میں

م�مدی تعلی� میں قس� کی تین صورتیں غموس ، لغو منعقدہ۔ غموس وہ جھوٹی قس� ہے جو ماض�ی ی��ا ح�ال کے ام��ر پ�ر کھ��ائی ج��ائے اس

تان کی شریعت میں گنہگار ہے اس کو چاہیے کہ توبہ کرے۔ قس� کے کھانے والا لغو قس� یہ ہے کہ اپنے گمان میں وہ سچی قس� کھاتاہے امر ماضی یا حالتان کی ش��ریعت کہ��تی ہے تاس کا گمان باطل ہے پس اس قس� پ��ر پر مگر حقیقت میں

کہ خدا سزا نہ دیگا بلکہ یہ معاف ہے۔آائن��دہ پ��ر قس��� کھ��ائی ج��ائے اوراس ک��ا پ��ورا کرن��ا منعق��دہ وہ قس��� ہے کہ ام��ر آادمی ک��و آازاد ک��رے۔ ی��ا دس تاس��ے پ��ورا نہ کرس��کے ت��و کف��ارہ دے۔ غلام ضرور ہے اگر

کھانا کھلائے یا تین دن روزہ رکھے۔آازاد ہون��ا کچھ مش��کل ب��ات نہیں ہے۔ یہ��ودی ربی دیکھو ان ہر سہ قس� سے آازاد کی�ا ک�رتے تھے ۔ یہ ل�وگ بھی ایس�ی روائ�تیں س��ناتے تھے اور لوگ��وں ک�و قس�� س�ے سب وہی باتیں ہیں جو حض��رت نے یہودی��وں س�ے معل�وم کی ہیں۔یہ تعلی� کہ لغ��و قس�� معاف ہے اسی نے اہل اسلام کے عوام ک��و ایس��ی ج��رات قس��� کے ب��ارے میں دی ہے کہ وہ بات بات میں قس� کھاتے ہیں۔ پ��ر خ��دا کے کلام میں قس��� کھان��ا من��ع ہے ہ��اں ض���رورت کے وقت ح���اک� کے حک� س���ے اللہ کی قس���� کھان���ا ج���ائز ہے ج���و ای���کیی باتوں پر ایس��ی ح��رکت سنجیدگی سے واقع ہوتی ہے پر بات چیت کے درمیان یا ادن

کرنا مناسب نہیں ہے۔

بیسویں فصلبیسویں فصلعورتوں کی عقل اور دین کاذ کرعورتوں کی عقل اور دین کاذ کر

مشکوات کت�اب الایم�ان میں ابی س�عید ح�ذری س�ے مس�ل� اوربخ��اری روایت کرتے ہیں کہ فرمایا حضرت نے اے عورتو میں دیکھتا ہ��وں کہ م��ردوں کی نس��بت دوزخ میں عورتیں بہت ہیں انہوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمای��ا حض��رت نے کہ ت� ن��اقص عقل اور ناقص دین ہو تمہاری عقل میں اورتمہارے دین میں بھی نقص��ان ہے ت� لعنتآادمی کی عقل کھودی��تی ہ��و بہت کرتے ہو اور خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو اور ہوشیار تمہاری عقل اس لئے ناقص ہے کہ م��یری ش�ریعت میں ای�ک ع��ورت کی گ�واہی براب�ر ہے نص��ف م��رد کے اور تمہ��ارا دین اس ل��ئے ن��اقص ہے کہ ای��ام حیض میں روزہ نم��از نہیں

ہوسکتی ہو۔ اس تعلی� کو ک�ون قب��ول کرس��کتاہے کی��ونکہ یہ ہ��ر دونقص��ان عورت��وں کے ان�درارا ای��ک خدا نے پیدا نہیں کئے ہیں یہ تو حضرت م�مد کی ش��رع کے نقص��ان میں ج��بارا اس��ے عورت کی گواہی کو نصف مرد کے برابر اس شریعت نے تجویز کی��ا ہے اور ج��ب روزہ نماز سے روکا ہے پ�ر عق��ل یہ کہ�تی ہے کہ جیس�ے م�رد ہے ویس�ی ہی ع��ورت بھیتاس کی گواہی ای��ک م��رد کے براب��ر نہ تاس میں بھی نفس ناطقہ ہے کیوں ایک انسان ہے آائے خ��دا کی عب��ادت روح س��ے ہ��وتی ہے وہ ہو اور ایام حیض میں کیوں وہ نماز سے باز ہر حالت میں کرسکتی ہے م�مدی شرع میں یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے کہ عورتوں ک�و مرد کی نسبت ناچیز یا کمتر اورحقیر گناہے اوریہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ شرع خدا س��ے نہیں ہے خ��دا ک��ا کلام بتلات��اہے کہ ع��ورت اور م��رد خ��دا کے س��امنے یکس��اں ہیںیی نعمتیں ہردو کےلئے برابر ہیں یہ بات درست ہے کہ مسلمان لوگ عورتوں کو حقیر الہتانہیں غلامی کی تان کی تعلی� اور ت��ربیت میں بہت ک� کوش��ش ک��رتے ہیں ج��ان ک��ر ح��الت میں ڈال رکھ��اہے انہیں کوٹھری��وں میں بن��د ک��رکے دین، دنی��ا کے بھی��دوں س��ےآازداگی تانہیں ذرا واق��ف ہ��ونے نہیں دی��تے ہیں ۔ اس ل��ئے وہ ذلی��ل ح��الت میں ہیں اگ��رمل مل یورپ کی عورت��وں اور اہ�� بخشیں تو دیکھو مردوں کے برابر ترقی کرتی ہیں یا نہیں اہ

ایشیا کی عورتوں پر غور کرو۔ پر یہ ذلی��ل ح��الت ج��و ایش��یا کی عورت��وں میں ہے اس ک��امل ی��ورپ کی عورت��وں ک��و س��بب ص��رف ش��ریعت م�م��دی ہے اوریہ اچھی ح��الت ج��و اہ��

حاصل ہے اس کا سبب صرف خدا کا کلام ہے۔

اکیسویں فصلاکیسویں فصلتعلی� دین کے بیان میںتعلی� دین کے بیان میں

حضرت نے عل� دین کے س��یکھنے اورس��کھلانے کی ب��ابت ب��ڑی فض��یلت اور ثواب اورتاکید کا بیان کیا ہے اورعلماء م�مدیہ نے اور علماء عیسائیہ نے بھی اس بارے

میں بہت سی ہدائیتیں کی ہیں۔ یی کا ذکر ہے اس ل��ئے معل��وم کرن��ا مگر یہاں صرف م�مدی تعلی� اورکلام الہ چاہیے کہ مق��در عل� س��یکھنے کی مش��کوات ب��اب العل� میں اب��و داؤد س��ے ی��وں بی��انآادمی کس ق��در عل� س��یکھنے ہوئي ہے کہ سوال کیا گی��ا حض��رت س��ے کہ ی�ا حض��رت تامت کے فائ�دہ کے ل�ئے چ�الیس ح�دیثیں ی�اد سے فقیہ ہوجاتاہے فرمایا جو کوئی م�یری ک��رلی ت��و خ��دا اس ک��و قی��امت کے دن فقیہ ک��رکے اٹھائيگ��ا اور میں اس ک��ا گ��واہ اور

شفاعت کرنے والا ہونگا۔ اس حدیث کے موافق بعض مسلمان چھل حدیث جو ایک چھوٹ��ا س��ا رس��الہ

ہے یاد کیا کرتے ہیں یہ کچھ بات نہیں ہے اس سے کیا فائدہ ہے۔ مسی�ی فقیہ کا احوال پہلے زب��ور میں ی��وں لکھ��ا گی��ا ہے کہ وہ )خداون��د کی شریعت میں مگن رہتاہے او دن رات اس کی شریعت میں س��وچا کرت��اہے( اب اس تعلی�

اور اس تعلی� کا بھی مقابلہ کرو اور سوچو کہ کونسی بات قرین قیاس ہے۔ یہ میں مانتا ہوں کہ بعض م�مدی لوگ دنیاوی عل��وم پڑھ��تے ہیں اور م�م��دیتان خواص کا اپنا ش��وق ہے مگرم�م��دی شریعت کو بھی خوف دریافت کرتے ہیں اوریہ

تعلی� صرف یہی سکھلاتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔

ہاں عیسائی لوگوں میں بھی لاکھوں عال� ہیں اور علوم دنی��اوی او ردی��نی بھیتاسی کومبارک بتلاتاہے جو خدا کی ش��ریعت میں پڑھتے ہیں پر خدا کا کلام صر ف یی کے بھی��دوں ک��و دری��افت مم الہ مگن رہت��اہے اور رات دن اس میں س��وچتاہے ت��اکہ کلا

کرکے ان کی تاثیر اپنے اندر حاصل کرے نہ کہ یہ چالیس باتیں یاد کرلے۔ اوریہ ذک��ور ج��و زب��ور میں ہے خ��اص علم��اء ک��ا نہیں ہے مگ��ر چ��اہیے کہ ہ��ر

عیسائی مردو عورت خدا کے کلام میں مگن رہے۔ ن���ام بھی بتلائے ہیں اور وہ س���ب خ���دا کی۹۹پھ���ر حض���رت نے خ���دا کے

صفتیں ہیں اور فرمایا کہ ج��و ک��وئی انہیں حف��ظ ک��رے بہش��ت میں ج��ائے گ��ا۔ یہ ب��اتتان آاتی صرف نام یاد ک�رنے س��ے کی�ا فائ�دہ ہوگ��ا چ�اہیے کہ بھی ہمارے قیاس میں نہیں اا اگ�ر ک�وئی آادمی کے خیال اورک��اموں میں پی�دا ہ��و مثل تان کا منشا ناموں کی تاثیر اور کہے کہ خدا حاضر ناظر ہے تو صرف یہی لفظ ہی بولنا مفید نہیں ہے جب تک کہ تاس کی حاضری کا رعب میرے خی��ال میں اور خل�وتی گن��اہوں س�ے پرہ��یز م��یرے افع��ال

نام خدا کے ج��و۹۹میں اس ل�اظ سے کہ وہ دیکھتاہے پیدا نہ ہو۔ مگر مسلمان لوگ عربی کی ایک گھٹی ہوئی عبارت میں ہیں ہر روز پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھ��یر لی��تے ہیں استان تان سے بات کرکے معلوم کرسکتے ہیں کہ امید سے کہ بہشت میں جائینگے لیکن ن���اموں کی ت���اثیر خی���ال وافع���ال میں کچھ بھی نہیں ہے اس ک���ا س���بب یہی ہے کہ

حضرت م�مد نے یوں ہی بولنے کو ثواب بتلایاہے جو قیاس سے بعید بات ہے۔

بائیسیوں فصلبائیسیوں فصلمنتر پڑھنے کا بیانمنتر پڑھنے کا بیان

یی ہے حض��رت م�م��د نے عربی میں رقیہ کے معنی من��تر ہیں اس کی جم��ع رق یہ تعلی� دی ہے کہ بیم��اریوں میں دوا بھی کی ج��ائے اور بعض بیم��اریوں میں من��تر پ��ڑھیآایت��وں ک��و من��تر بن��ادیں اور خ��دا کے آان کی جائیں پر شرک کہ منتر نہ ہوں چ��اہیے کہ ق��ر

تان کے ناموں کو بھی منتر بن�ادیں اور غ�یر زب�انوں کے من�تر بھی پ�ڑھے ج�ائیں بش�رطیکہ معنی میں شر ک نہ ہو۔

یی میں عائش��ہ کی روایت ہے کہ بخ��اری ومس��ل� مش��کوات ب��اب الطب ال��رق سے یوں ہے )حضرت نے ہمیں حک� دیا ہے کہ اگر کسی کو نظ��ر ل��گ ج��ائے ت��و من��تر

پڑھواؤ۔(۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں حض��رت نے ای��ک ل��ڑکی دیکھی جس

کا چہرہ زرد تھا فرمایا اس کو نظر ہوگئی ہے اس پر منتر پڑھو اؤ۔ مسل� نے جابر سے روایت کی ہے کہ حضر ت نے منتر پڑھنے س��ے من��ع کی��اآائے اورکہا ہمارے پاس ای��ک من��تر ہے ہ� بچھ��وکے ک��اٹے تھا پس عمر بن حزم کے لوگ آاپ نے منتر پڑھنے سے منع کردی��ا ہے تب حض��رت نے آادمی پر پڑھا کرتے ہیں او ر ہوئے کہا اپنا منتر سناؤ جب سنایا توکہا اس میں کچھ خوف نہیں ہے اپنے بھائیوں کو فائدہ

پہنچاؤ۔ حضرت نظربد کی شدت سے قائل ہیں بلکہ فرمایا کہ اگرکوئی چ��یز تق��دیر پ��رآاپ تاس کی ہے پس اب اہ��ل انص��اف آاتی ایسی قوی ت��اثیر آاسکتی تویہی نظر بد غالب آای�ا ک�وئی پیغم�بر نظ�ر ب�د آایا نظ�ر ب�د ک�ا اعتق��اد کس قس�� کی ب�ات ہے ہی سوچیں کہ کاقائل گذرا ہے یا کسی اہل عقل نے اس کا اقرار ک�رتے ہیں اورس�ب عقلمن��د اس ب�ات

پر ہنستے ہیں۔

تیسوئیں فصلتیسوئیں فصلنظر بد کا علاجنظر بد کا علاج

۴حضرت نے نظر بد کا ایک عجیب علاج بتلایا ہے جو کتاب مظاہر ال�ق آاخر میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس نے جلد کتاب الطلب فصل دوم کے نظر لگائی ہے چاہیے کہ وہ ایک پیالہ پانی میں کرلی کرکے بہ ترتیب مق��ررہ ہ��ر دوہتیلی��اں

تاس��ی پی��الہ میں تاسی پیالہ میں دھوئے اورپانی وکہنیاں اور پیر وگہٹنے اور پیشاب گاہ بھی آاکے وہ ناپاک پانی جمع رکھے پھر جس کو نظر لگی ہے اس کی کمر کےپیچھے سے

آارام ہوجائے گا۔ تاس کے سر پرڈالا جائے ماذری نےکہا کہ نظر لگانے والے پر جبر کرن��ا چ��اہیے ت��اکہ وہ ایس��ا پ��انی تی��ار کرکے دے۔ قاض�ی عی�اض نےکہ�ا ہےج�و ک�وئی نظ�ر لگ�انے میں مش�ہور ہے چ�اہیے کہآانے ج��انے س��ے من��ع ک��رے اور کہے کہ اپ��نے گھ��ر تاس کو لوگوں کے درمی��ان امام وقت تری ت�اثیر جاہ�ل مس�لمانوں میں رہا کر۔ تاکہ یہ کیسے خی�الات ہیں اور ان کی کیس�ی ب� میں پ���ائی ج���اتی ہے خ���اص ک���ر عورت���وں میں اوریہ ب���ات کچھ ج���اہلوں کی نہیں ہے حضرت نے یہ تعلی� دی ہے اور علماء م�مدیہ نے اسے قب��ول کی��ا ہے ایس��ی ب��اتوں س��ے

خدا کاکلام مطلق پاک ہے اور پیغمبروں کی تعلی� میں ایسی باتیں نہیں ہیں۔

چوبیسویں فصلچوبیسویں فصلبچھو کےکاٹے کا علاجبچھو کےکاٹے کا علاج

مشکوات کتاب الطلب میں بہقی سے روائت ہےکہ ای��ک رات حض��رت نم��از پ�ڑھ رہے تھے جب زمین پ��ر حض�رت نے ہ�اتھ رکھ�ا ت�و بچھ��و نے ک��اٹ لی�ا حض�رت نے تاسے جوتی سے مارا اور فرمایا خدا کی لعنت ہو بچھو پر نہ نمازی کو چھوڑت��ا ہے نہ بے نمازی کو یا یوں کہا نہ نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو۔ اس کے بعد حضرت نمک اورپانی ڈالتے تھے اور درد کے سبب انگلی کو ملتے تھے اور معوذ تین پڑھ کر دم کرتے

تھے پس یہ علاج بچھو کے کاٹے کا ہے جو حضرت سے ظاہر ہوا۔آارام قس� قس� کے علاج یک� حکی� لوگ ایسے موقعوں پر کرتے۔ جس سے آادمی وہ کرسکتاہے پ�ر حض�رت نے بھی علاج کی��ا تھ��ا اب ت�و یہ علاج کچھ مفی�د ہو نہیں ہوت��ا ہے ت��وبھی بعض مس��لمان ایس��ا ک��رتے ہیں اور یہ بھی درس��ت ہے کہ یہ م��وذی جانور سب کو ایذا پہنچاتے ہیں نبی وغ�یرہ ن�بی نم�ازی وغ�یرہ نم��ازی میں کچھ امتی�از

نہیں کرتے ہیں۔ہاں ایک دفعہ ایک بڑا کالا ن�اگ پول�وس رس�ول ک�و بھی چمٹ گی�ا تھ�اتاسےکچھ ضرر نہیں پہنچا )اعمال ( تک غور سے دیکھو۔۵تا ۴: ۲۸مگر

پچیسویں فصلپچیسویں فصلنیک فال اور بد شگون کا ذکرنیک فال اور بد شگون کا ذکر

آاپ حضرت نے فرمایا کہ نیک فال لینا چاہیے اور بد فال لینا نہ چاہتے اور وہ اا گھ��ر س�ے اا لوگوں کے اور مقاموں کے ن�ام س�ےمثل بھی نیک فال لیاکرتے تھے خصوصآادمی کےملنے تاس کا نام رحمت اللہ تھاپس اس اچھے نام کے آادمی ملا نکلتےہی ایک تاس میں کامی�اب ہ��ونگے کے سبب خوش ہونا اس امی��د پ�ر کہ جس ک�ام ک�و ج�اتے ہیں

آادمی ملا جس کا نام اچھاہے۔ کیونکہ گھر سےنکلتے ہی وہ آادمی اا گھ�ر س�ے نکل�تے ہی ای�ک اور بد فال ک�و حض�رت نےمن�ع کی�ا ہے مثل ملا جس کا نام میاں جھگڑو ہے تو یہ گمان نہ کرن��ا چ��اہیے کہ اب مطلب میں جگھ��ڑا پڑیگا کی��ونکہ می��اں جھگ�ڑو راہ میں ملے تھےلیکن یہ ہ��ونہیں س��کتا کی��ونکہ جب نی��ک فال لینے کی عادت حضرت نے پیدا کردی ہے ت��و ن��اممکن ہے کہ اس ک��ا عکس ذہنآاپ آائیگی ای�ک م�رض ت��و حض��رت نے آائے ضرور بد فالی خود بخود ذہن میں میں نہ

ہی پیدا کردیا پر اس سے منع کرنا کیا معنی رکھتاہے۔ پریہ علماء م�مدیہ کی غلطی ہے یا خ��ود حض��رت ہی کی غلطی ہے کہ ب��د

فال نہ لیجائے حضرت خود بد فال اورنیک فال لیتے تھے۔ مش��کوات ب��اب الف��ال میں اب��و داؤد س��ے بری��دہ کی روایت ی��وں لکھی ہے کہتاس ک�ا ن�ام )حض�رت جس وقت کس�ی ک�و عام�ل ی�ا ت�ص�یلدار مق�رر ک�رتے تھے ت�و ترا ہوتا تو اداس ہوج��اتے تھے پوچھا کرتے تھے اگرنام اچھا ہوتا تو خوش ہوتے اور جو نام ب

اورایسا ہی حال گاؤں کے نام سن کر ہوتا تھا۔

آادمی نے حض��رت پھر اسی باب میں ابوداؤد سے انس کی روائت ہےکہ ای��ک سےکہا ہ� ایک گھر میں رہتے تھے وہاں ہمارے پ�اس بہت م�ال ہوگی�ا تھ��ا جب س�ےتبرے گھ��ر آائے مال ک� ہوگیا حضرت نے فرمای��ا کہ اس وہ گھر چھوڑ ا اور نئے گھر میں کو چھوڑ دو۔ دیکھو حضرت مکانوں کو بھی من�وس یا غ��یر من���وس س��مجتھے تھے۔

ناظرین اپنی تمیز کو جگادیں کہ یہ تعلیمات کیسی ہیں۔

چھبیسویں فصلچھبیسویں فصلخواب کے بیان میںخواب کے بیان میں

حضرت نے فرمایا ل� یبق من النبوت الالمبشرات نبوت تو تمام ہوگئی مگر اس کا ایک حصہ ج�و س�چے خ�واب میں ب�اقی ہے۔ اس ب�ات ک�ا میں بھی قائ�ل ہ��وں کہ یہیی درس��ت ب��ات ہے کہ س��چے خ��واب اب ت��ک ظ��اہر ہ��وتے ہیں بعض اوق��ات خ��دا تع��ال کوئی بات ظ��اہر کرت��اہے پ�ر اس میں کچھ خصوص�یت م�ومن اور غ�یر م�ومن کی م�یرے گمان میں ہرگز نہیں ہے کبھی کبھی بے ایمانوں کو بھی خدا کوئی ب��ات بتلات��اہے اورتاس کے س�ب ایمانداروں کو بھی۔ پر خدا کی مرضی جو انسان کی ابدی س�لامتی اور راہ��وں کے ب��ارے میں ہے وہ ت��و س��ب خ��دا کےکلام میں ظ��اہر ہ��وچکی ہے ہ��اں کس��ی خ��اص ام��ر کی ب��ابت کبھی کبھی خ��واب میں کچھ اش��ارہ اللہ س��ے پ��اتے ہیں )دیکھ��و

(۔۱۵: ۳۳ایوب پھر فرمایا حضرت نے کہ اگر کوئی شخص بد خواب دیکھے جب نیند سےتاس بد خواب کی تاثیر نہ ہوگی۔ یہ جاگے تو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھوک دے آائن��دہ ک��ا آاتی کیونکہ خواب سچے واق��ع ہ��وتے ہیں وہ ت��و واقع��ات بات قیاس میں نہیں آائینہ دل پر عال� بالا سے القا ہوت��اہے اب وہ جس قس��� ک��ا واقعہ سایہ سا ہوتے ہیں جو آائے گ��ا پ��ر تین ب��ار تھوک��نے س��ے وہ تاس��ی ط��رح ظہ��ور میں تبراخ��واہ بھلا ض��رور ہے خواہ آادمی خ��واب یی کیونکر ہٹ سکتاہے۔ یہ تو شائد ہوسکےکہ اگرای��ک انتظام اور ارادہ الہ

تاٹھ ک�ر ت�وبہ و ایم�ان کے س�اتھ آانے والی ہے اور آافت میں معلوم کرے کہ مجھ پر کوئی تاس��ے بچ��الے ت��و امی��د ہے کہ خ��دا ج��و خدا کے سامنے رو رو کے منت کرے کہ خدا تاس پر رح� کرے پر صرف بائیں طرف تھوکنے سے نہائت ہی بخشندہ اور مہربان ہے

کیا ہوگا۔ اور جو حضرت کی مراد یہاں بد خواب سے م�ض واہیات خ�واب ہیں ج�وتاس پیٹ کی بدہض��می س��ے ہ��وتے ہیں ت�وپھر اس کے کی��ا مع��نی ہیں کہ تھوک��نے س�ے کی تاثیر نہ ہوگی کی��ا ب��د ہض��می کے خواب��وں میں بھی کچھ ت��اثیر ہ��وا ک��رتی ہے وہ ت��وآاکے عجیب ش��کلیں دکھلاتے ہیں اور مرج��اتے پیٹ کے انج��رے ہیں ج��و خی��ال میں

ہیں۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ من رانی فی المن��ام فق��درانی ف��ان الش��یطان لااا مجھ ک�و اس نے دیکھ��ا ہے یمث��ل بی اگ��ر ک��وئی مجھے خ��واب میں دیکھے ت�و یقین��

کیونکہ شیطان میرا ہ� شکل بن نہیں سکتا۔ علماء م�مدیہ کہتے ہیں کہ شیطان خدا کا ہ� شکل بن کر کہہ س��کتاہے کہ میں خدا ہوں اور یوں لوگوں کو فریب دے سکتاہے مگ�ر م�م�د ک�اہ� ش�کل بن کے نہیں کہہ سکتا کہ میں م�مد ہوں یہ طاقت اس میں نہیں ہے۔ یہاں م�مد ص��احبآاتی ہے اوراس کا نتیجہ ناظرین کے لئے کچھ فوقیت خدا کی شان سے بھی بڑی نظر

آاپ ہی نکال سکتے ہیں میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا ۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ شیطان نور کےفرشتوں سے اپنی شکل بدلآاپ ک�و اس جہ��ان تاس نے ڈالتا ہے اور وہ اس جہ�ان ک�ا خ�دا بھی کہلات�اہے کی�ونکہ کے اہل تاریک لوگوں کی نظر میں مثل خدا کے فریب سے بنا رکھ��ا ہے اور وہ اس کی پرستش ک��رتے ہیں۔ اس��ی ط��رح مس��یح کے ح��ق میں بھی لکھ��اہے کہ مخ��الف مس��یح

آانے والا ہے اور جھوٹے مسیح ظاہر ہونے والے ہیں جو کہیں گے کہ ہ� مسیح ہیں مگ��رحضرت م�مد فرماتے ہیں کہ میرا ہ� شکل نہیں بن سکتا۔

م��یرے گم��ان میں اس تعلی� کے وس��یلہ س��ے ش��یطان کے ک��ئی مطلب خ��وب نکلتے ہیں اور اہل ایمان کا اس تعلی� سے کچھ فائدہ نہیں ہے میں نہیں چاہتا کہ استان نت��ائج کی ط��رف خ��ود پہنچے ت��و کوش��ش مقام پر تصریح کروں اگر ناظرین کا ذہن

کریں ورنہ خیر۔ستائیسویں فصل

ملاقات کا دستور ملاقات کے دستور میں حضرت نے تین باتوں کا ذکر کیاہے۔

آائیں ت��و بے حول اذن یعنی اگر کسی کے گھر پر جائیں یا اپنے گھر کے ان��در اآان�ا چ�اہیے ت�اکہ ع�ورتیں ب�رہنہ نہ اذن داخ�ل نہ ہ��وں ہ��اں اپ�نے گھ�ر میں ذرا کہنگہ��ارتے

دیکھی جائیں۔آادمی ک��و چ��اہیے اور س��ب اہ��ل یہ بہت مناسب بات ہے ایسی سنجیدگی ہ��ر تہذیب ایسا کرتے بھی ہیں۔ مگر حضرت خود ایک دفعہ زینب کے گھ��ر بے اذن بغ��یرتاس ناص��ح نکاح چلے گئے تھے اور زینب نے اعتراض بھی کیا تھا۔ پس نصی�ت دینا آاپ بھی عمل کرتا ہے پر ایسا نمونہ سوائے سیدنا مسیح کے جہ��ان میں کو زیبا ہے جو

اور کوئی بھی نہیں ہے۔ دوئ� سلام کرنا یعنی السلام علیک� کہن��ا یاالس�لام علی��ک کہن��ا ا س�کےمعنی ہیں ت� پر سلام ہو یا تجھ پر سلام ہو۔ یہ ت��و اچھی تعلی� ہے تہ��ذیب س��ے علاقہ رکھ��تی ہے ایک کا دوسرے پر حق بھی ہے اور اس سے م�بت بڑھتی ہے اور س��ب ل��وگ اپ��نے اپنے ملک کے رواج کے موافق اس پر عم�ل بھی ک�رتے ہیں اوریہ ب�ات پس�ند کے لائ�ق

ہے اور حضرت کی پیدائش سے بہت پہلے سے یہ رس� دنیا میں جاری ہے۔

مش��کوات ب��اب الس��لام میں مس��ل� روائت اب��وہریرہ س��ے ی��وں لکھی ہے لا تبدوالیھود والنصاری بالسلام واذا القیت� احد ھ� فی طریق فاض��طر وہ الی ض��یقہ س��لامآادمی راہ میں تان ک��ا کا شروع یہودی�وں اور عیس��ائیوں پ�ر نہ ک��رو اورجب تمہیں ک�وئی تاسے تنگ کرو یعنی ایسا راہ گ��یر ک��ر چل��و کہ وہ تنگی س��ے چ��ل ملے تو راہ گیر کے

سکے۔تان کے ل��ئے ش��روع س��لام ک��ا تمہ��اری اور ابت��داء اس��لام کے مع��نی یہ ہیں کہ طرف سے نہ ہو ہاں اگر وہ پہلے سلام کریں ت�و ت� ج�واب دے س�کتے ہ��و۔ دیکھ��و یہ غرور اور کینہ کی تعلی� ہے یا صفائی کی بات ہے صفائی اور پاک دلی کی بات یہ ہےآادمی ہو۔ پھر علماء م�مدیہ تاسی نے پہلے سلام کردیا خواہ کوئی کہ جسے موقع ملا کہتے ہیں کہ اگر کوئی ضرورت یا کوئی حاجت عیسائیوں اوریہودیوں سے متعلق ہو ت�و اس ضرورت کےنکالنے کو جائز ہے کہ سلام کی ابتدا مسلمان س��ے ہوج��ائے ورنہ ہرگ��ز

نہیں چاہیے یہ خود غرضی کی ہدایت ہے۔ حضرت نے فرمایا ہےکہ اگر یہودی وعیسائی پہلے س�لام ک�ریں ت�و چ�اہتے ہیںتان کو پورا جواب بھی نہ دیا جائے بلکہ کہو وعلیک یا وعلیک� یعنی تجھ ی��ا ت� پ��ر کہ لیکن لفظ سلام نہ بولو یوں کہو ھد اک اللہ یعنی خدا تجھے اسلام کی طرف ہدائت

کرے۔ اور اگر کسی کا فر کو ناواقفی میں سلام ک��ر بیٹھ��و اورپھ��ر معل��وم ہوج��ائے کہ وہ کافر ہے توکہو استر جعت سلامی میں نے اپنا سلام ج��و تجھے کی��ا تھ��ا واپس ہٹالی��اآاپس ہے دیکھو یہ کیسی ایذا کی بات ہے م�مد صاحب چاہتے ہیں کہ سب مس��لمان اا میں خوش رہیں پر دوسری قوموں کے ساتھ اچھ��ا مع��املہ نہ برت��ا ج��ائے پس یہ معل� یقین�� خدا کی ط��رف س��ے نہیں ہے اس کی تعلی� تم��ام جس��مانی خواہش��وں س��ے نکل��تی ہے

تاس سے نہیں ہے جو اپنا مینہ سب پر برساتا ہے اور اپنا سورج سب پر طلوع کرتاہے۔

حدیثوں میں ہے کہ بعض یہودی جب حضرت سے مل��تے تھےت��و کہ��تے تھے الس��ام علیک� س��ام کے مع��نی ہیں م��وت یع��نی م��وت ہ��و ت� پ��ر۔ وہ ل��وگ بج��ائے الس��لامتانہ��وں نے س��لام علیک� کے زبان دبا کر السام علیک� ایسے طورسے بولتے تھے کہ گوی��ا علیک� کیاہے۔ اس لئے حضرت نے بھی جواب میں سےلفظ سلام کو نک�الا اور ص��رف وعلیک� کہنا شروع کیا یعنی ت� پ�ر۔ یہ ص�ورت البتہ ب�دلا لی�نے کی تھی پ�ر ش�رارت ک�ا مقابلہ شرارت کے ساتھ کرنا عیسائيوں کو جائیز نہیں ہے م�مدیوں ک��و ج��ائیز ہے اس

لئے میں اس مقام پر ایسی صورت میں حضرت کو الزام نہیں دے سکتا۔آادمی السام وعلیک� نہیں کہتا مگ��ر م�بت البتہ وہ صورت الزام کی ہے کہ جوتاس��ے بھی وہی ج��واب دین��ا کہ وعلیک� اچھ��ا نہیں دل س��ے س��لام علیک� کہت��اہے اور

شکنی کا باعث ہے۔ ( میں لکھاہے کہ اگر ت� فقط اپنے بھائیوں ک�و س�لام ک�ر۴۷: ۵دیکھو )متی

و تو کیا زیادہ کیاکیا م�صول لینے والے بھی ایسا نہیں ک��رتے یع��نی عیس��ائیوں ک��و بھی بس نہیں ہے کہ صرف عیسائیوں س��ے س��لام ک��ریں بلکہ انہیں واجب ہے کہ ہ��ر کس��ی

( میں لکھا ہےکہ جس گھر میں داخل ہ��و پہلےکہ��و۵: ۱۰سے سلام کریں۔پھر ) لوقا تاس��ے پہنچیگ��ا ورنہ اس گھ��ر ک��و س��لام اگ��ر س��لامتی ک��ا بیٹ��ا وہ��اں ہ��و ت��و تمہاراس��لام یی س�ے آائے گا۔ ت� اپنی طرف سے سلام ک�ر گ�ذرو اور ع�دالت الہ تمہاری طرف واپس پہلے کسی کو لائق ون�الائق نہ بتلاؤ اوراپن��ا س��لام مث��ل مس�لمانوں کےکافرس��ے واپس نہتخدا س�ے ب�رکت دیگ�ا ورنہ ب�رکت تمہ�ارے اوپ�ر ہ�وگی مانگو اگر وہ ب�رکت کااہ�ل ہے ت�و

خود بخود۔ اب س��وچو کہ م�م��دی تعلی� میں اور خ��دا کی تعلی� میں کس ق��در ف��رق ہےتان کی نفس��انی خواہش��یں اورہر تعلی� کامنبع کہاں ہے حض��رت کی تعلی� ک��ا سرچش��مہ یی تان کی تعلی� میں لپ��ٹی ہ��وئی ہیں جس ک��ا ک�وئی انک��ار نہیں کرس��کتا۔ پ��ر الہ ہیں جو

تعلی� ک��ا سرچش��مہ م�ض اللہ ہے ج��و نہ��ائت مہرب��ان اور س��اری الایش س��ے پ��اک ہےتاس کی تعلی� پاک ہے۔ اسی لئے

سوئ� دوستوں اور بزرگوں اور خوردوں کے لئے مص��اف�ہ اور مع��انقہ اور قبلہ بھی ملاق��ات کے دس��تور میں ش��امل ہے ہ��اتھ ملان��ا مص��اف�ہ کہلات��ا ہے۔ گلے ل��گ ک�ر ملن��ا

معانقہ ہے بوسہ لینا قبلہ کہلاتاہے۔ یہ ہر سہ باتیں بھی اگ��ر گن��اہ کے ط��ورپر نہ ہ��وں ت��و اچھی ہیں اوریہ نہ ص��رفآاتے ہیں یہ��ودی م�م�دی تعلی� ہے بلکہ ق��دی� س�ے یہ پی��ار کے دس�تور جہ��ان میں چلے بھی ک��رتے تھے اور ک��رتے ہیں اورہن��دو بھی ایس��ی ب��اتیں ک��رتے ہیں۔ عیس��ائی بھی ق��دی�

آائے ہیں دیکھو) (۳۷: ۲۰(میں قبلہ ک��ا ذک��ر ہے)اعم��ال ۲: ۱۳کرنتھی��وں ۲سے یہ کرتے آاج تک عیسائیوں میں یہ رس� نس��بت اور قوم��وں میں مصاف�ہ اور معانقہ کا ذکر ہے اور کے زیادہ جاری ہے۔ حضرت م�مد نے یہ رس� عرب کے درمیان بھی جاری کی انہیں

عیسائیوں اوریہودیوں سےلےکر ۔ یہ توبرتاؤ کی بات ہے اور اچھی ہے۔

اٹھائیسویں فصلاٹھائیسویں فصلتعظی� وتواضع کے بیان میںتعظی� وتواضع کے بیان میں

حضرت نے حک� دیا ہے کہ اپنے ب�زرگ ۔ ی�ا س�ردار کی تعظی� کے ل�ئے اٹھ��ا کر اور وہ خود بھی بعض اشخاص کی تعظی� کے لئے اٹھا ک��رتے تھے چن��انچہ عک��رمہ

بن ابی جہل کےلئے وعدی بن حات� کے لئے اوراپنی بیٹی فاطمہ کے لئے وغیرہ۔تاٹھ��و۔ اوریہ اور حض��رت اپ��نے ل��ئے لوگ��وں کومن��ع ک��رتے تھے کہ م��یرے ل��ئے نہ بھی فرماتے تھے کہ جو ک��وئی اپ��نی تعظی� لوگ��وں س��ے چاہت��اہے وہ دوزخ میں ج��ائے گ��اتاس کی ع��زت وتعظی� ک��ریں ت�و تاس کی ب��زرگی کے س�بب س�ے ہاں اگرلوگ خود بخود

بہتر ہے۔

اور حض��رت نے مس��جدوں کے درمی��ان اور تلاوت کے وقت اور عب��ادت کےتاس وقت خ��دا کی ط��رف آادمی وقت بھی اسے تواضع کے طورسے منع کی��ا ہے کی��ونکہ

آادمیوں کو عزت کریں۔ متوجہ ہی نہیں چاہیے کہ خدا سے ہٹیں اور یہ تعلی� بہت اچھی ہے اور مناس��ب ہے اوریہ جہ��ان کی ق��دیمی ب��ات ہے اس

( کو دیکھ��و کہ س��لیمان۱۹: ۲سلاطین ۱میں حضرت کی کچھ خصوصیت نہیں ہے)تاسی دستور پر ج��و س��ب ش��رفاء بادشاہ نے اپنی والدہ کی کیسی تعظی� وتکری� کی تھی

میں قدی� سے جاری ہے۔

انتیسویں فصلانتیسویں فصلجلوس ونوم ومشی کے ذکر میںجلوس ونوم ومشی کے ذکر میں

جلوس بیٹھنے ک��و کہ��تے ہیں۔ کبھی حض��رت م�م��د گ��وٹ م��ار کے بیٹھ��تے تھے اوراسی لئے اہل اسلام اس نشس��ت ک��و مت�س��ب ج��انتے ہیں مگ��ریہ دیہ��اتوں کی نشس���ت ہے۔ کبھی بش���کل قرفص���ا بیٹھ���تے تھے وہ یہ ہے کہ زمین پ���ر چ���وتڑ رکھے اور گھٹ��نے کھ��ڑے ک��رے اوررانیں پیٹ س��ے لگ��ائے اور ہ��اتھوں س��ے گ��وٹ م��ار کے ہتیلی��اں بغلوں میں داخل کی جائیں۔ یہ تو بڑی تکلیف کی نشس��ت ہے کبھی چ��ار زان��و بیٹتھے تھے ۔ کبھی تکیہ لگ��ا ک��ر بیٹھ��تے تھے پس انہیں ش��کلوں س��ے بیٹھن مس��لمانوں ک��و موجب ث�واب ہوگی�ا یہ کچھ ب�ات نہیں ہے جس ط�رح انہیں اچھ�ا معل�وم ہ�وا وہ اٹھ��تے

بیٹھتے تھے اور جس طرح ہمیں بہتر معلوم ہوتاہے ہ� بھی کرتے ہیں۔ نوم کے معنی ہیں سونا کبھی حضرت م�مد چت س��وتے تھے اورکبھی دہ��نی

کروٹ سوتے تھے لیکن اوند ہے سونے کو منع فرماتے تھے۔ واض��ح ہ��و کہ س��ونے کی چ��ار ص��ورتیں ہیں چت س��ونا ی��ا پٹ س��ونا ی��ا دہ��نیآارام کے ل��ئے ہے اس ل��ئے بہ��تریوں ہے کروٹ سونا یا بائیں کروٹ سونا۔ اور چونکہ سونا آارام سے سوئیں جس میں کھانا بھی خ�وب ہض�� ہوت�اہے اورنین�د بھی کہ بائیں کروٹ

اا مک��روہ ہے اور آاتی ہے اور ب��د خ��وابی بھی نہیں ہ��وتی البتہ پٹ س��ونا طبع�� آارام س��ے آارامی ہے اور چت س��ونا اک��ثر ب��د چھ��اتی پ��ر ب��وجہ ہوت��اہے۔ لیکن دہ��نی ک��روٹ بھی بے تاس ک�و آازاد ہے جس طرح خوابی کا باعث ہوتاہے۔اگرچہ یہ سب کچھ ہے توبھی انسان

آارام ہو وہ سویا کرے۔تاس س��ے مشے چلنے کو کہ��تے ہیں۔ غ��رور کی چ��ال ج��و مٹ ک��ر چلن��ا ہے حضرت نے من��ع کی��ا ہے یہ خ��وب ب��ات ہے پس��ند کے لائ��ق ہے مگ��ر یہ مب��الغہ حض��رتآادمی دوچ��ادر پہ��نے مٹکت��ا جات��ا تھ��ا اس گن��اہ کے کی عقل قبو ل نہیں کرتی کہ ای��ک سبب زمین پر پھٹ گئی اور وہ زمین میں دہس گی��ا اور اب ت��ک دہس��ا چلا جات��اہے اورحول میں اب��وہریرہ قیامت تک دہسا چلاجائے گا چنانچہ مش��کوات ب��ا الجل��وس فص��ل ا

کی یہ روائت بخاری ومسل� سے منقول ہے۔ دوم عورتوں کے درمیان مرد کو چلنا بھی حضرت نے منع بتلای��ا ہے اور س��بب

اس کا یہ ہے ک مرد فتنہ میں نہ پڑے۔تان کے لئے چ��اہیے جن کے دل میں خ��دا ک��ا خ��وف نہیں ہے لیکن یہ حک� تان کا حال ہر حال میں خطرناک ہے لیکن خدا پرست لوگ اپنی اور حرص غالب ہے بی بی کو بی بی جانتے ہیں اور سب عورت��وں ک��و بہن بی��ٹی ی��ا م��اں س��مجھتے ہیں کی��اتان کے س��اتھ چلیں خ��دا ک��اکلام اور تم��یز ایس��ے مع��املہ میں ال��زام مض��ائقہ ہے کہ وہ

نہیں دیتاہے۔ سوم یہ کہ عورتیں جب چلیں تو راہ میں دی��واروں کی ط��رف ہ��وکر چلیں ت�اکہ درمیانی راہ مردوں کے لئے کھلا رہے حض�رت کے عہ�د میں ع��ورتیں ایس�ی یکس�و ہ��وکرتان کے ک��پڑے دی��واروں س��ے رگ��ڑ کھ��اکر خ��راب ہوج��اتے تھے۔ ہم��ارے چل��تی نہیں کہ گمان میں یہ سختی تھی عورتوں پر کہ مرد تو کشادہ راہ میں چلیں اور عورتیں دی��واروں میں رگ��ڑ کھ��ائیں م��ردوں کے خ��وف س��ے مگ��ر ش��ریعت م�م��دیہ ک��ا یہ اص��ول ہے کہ

تاس��ی بنی��اد پ��ر یہ س��ب عورتیں مثل غلام کے ہوئیں اور ساری زندگی م��رد حاص��ل ک��ریں ظل� اور بے انصافی کی باتیں عورتوں کے حق میں ملتی ہیں۔

تیسویں فصلتیسویں فصلنام رکھنے کا دستورنام رکھنے کا دستور

مش��کوات ب��اب الاس��امی میں حض��رت م�م��د یہ تعلی� منق��ول ہے کہ فرمای��ا حضرت نے کہ میرا نام جو م�مد واحمد ہے اور مسلمان بھی اگر چاہیں تو یہ نام رکھ

سکتے ہیں مگر کنیت ابو القاس� ہے کہ کوئی یہ نام نہ رکھے۔ دوم یہ کہ عبد اللہ وعبدالرحمن یہ دونام خدا ک��و بہت پی��ارے ہیں۔ بادش��اہوں

آادمی اپنا نام رکھے تو خدا اسے ناراض ہے۔ کا بادشاہ اگر کوئی اا اس��ود بمع��نی ترے ن��اموں ک��و حض��رت ب��دل ڈال��تے تھے مثل سوم یہ کہ بعض ب��

سیاہ نام کو بدل کر ابیض بمعنی سفید نام رکھ دیا اور عاصیہ کو جمیلہ کردیا تھا۔آانکہ حضرت نے حک� دیا کہ غلاموں ک��ا ن�ام ری��اح ویس��ار وافلح ون��افع چہارم وبرکت نہ رکھنا چ�اہیے اورمطلب حض�رت یہ تھ��اکہ ان لفظ�وں کے مع�نی اچھے ہیں اگ�ر کسی کا نام برکت ہے اورکسی نےکہا کہ برکت گھر میں ہے یا نہیں جواب ہواکہ نہیں

ہے تویہ بدشگونی ہوتی ہے۔تاس ک��و حض�رت کی ای��ک بی بی تھی جس ک��ا ن�ام ب�رہ بمع��نی نیکوک��ار تھ��ا

تاسی مطلب بالا کے سبب سے۔ بدل کر حضرت نے جویریہ کردیا یہ جو فرمایا حضرت نے کہ اب�و القاس�� ک�و ئی اپ�نی ک��نیت نہ رکھے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میرے لئے یہ کنیت مخصوص ہے۔ پر عبد اللہ وعبدالرحمن کیتاس ک��ا چلن ان آادمی کے یہ ن��ام ہ��وں اور نس��بت ہ� یہ کہہ س��کتے ہیں کہ اگ��ر کس��ی تاس کے چلن سے راضی ہونا چ��اہیے ناموں کے موافق ہو تو عقل چاہتی ہے کہ خدا کو نہ صرف ان لفظوں سے۔ پر بادشاہوں کا بادشاہ یہ لقب خاص س��یدنا مس��یح ک��ا ہے

تن۱۴: ۱۷)مکاشفات اا ا آادمی اسے لے تو بھی اگر مج��از (نہیں مناسب ہے کہ کوئی بادشاہوں کی نسبت بولا جائے جو بہت سے بادشاہوں کے اوپر ہیں ت��و کچھ مض��ائقہ

آادمیوں کی نسبت اورمطلب ہے۔ نہیں ہے کیونکہ خدا کی نسبت اورمطلب ہے اور تاس کےمعن��وں آادمی کی شناخت کے لئے ایک نشان ہوت��اہے آانکہ ہرنام چہارم پر اکثر ل�اظ نہیں ہوتا ہے۔ مگر حضرت کے خیال کے موافق اگر کہا جائے کہ عب��د اللہ یع��نی خ��دا ک��ا بن��دہ گھ��ر میں نہیں ہے مگ��ر اورکس��ی کے بن��د ے موج��ود ہیں پسترے ن��ام چاہیے کہ یہ نام بھی نہ رکھا جائے دیکھو اچھے نام سے یہ نتیجہ نکلت��اہے اورب� سے وہ نتیجہ نکلت��اہے جس کے س�بب عاص�یہ ک��ا ن�ام جمیلہ ہ��وا تھ��ا تب کی��ا ک�ریں نہترے ن��ام رکھ س��کے نہ بھلے اور ک��وئی کلیہ قاع��دہ یہ��اں نہیں ہے تب یہ تعلی� بھی ب��

ناقص ہے ۔ آام��د ہ��وتی ہے وہ یہ مناس��ب ہے ص�یح تعلی� وہ ہے جو خدا کے کلام س��ے بر کہ نام بامعنی ہوں اوراگر با مع�نے نہ ہ��وں ت�و بھی کچھ پ�رواہ نہیں ہے ہ�اں اگ�ر ب�ا مع��نیتاس کے گھ�ر میں ہ��ونے ی�ا نہ ہ�ونے س�ے کچھ بدش�گونی نہیں ہوس�کتی ہے ہوں ت�وبھی آادمیوں کو چ�اہیے کہ اپ�نے اچھے ن�ام پ�ر ل���اظ ک�رکے کیونکہ نام صرف نشان ہیں ہاں

نیک چلن ہوں۔

اکتسویں فصلاکتسویں فصلچہینک اور جبائی کے بیان میںچہینک اور جبائی کے بیان میں

عطاس چہنیکنے کو کہتے ہیں حضر ت نے فرمای��ا کہ خ��دا چہینک��نے ک��وتاس کے ج��واب میں یرحم��ک پیار کرتاہے پس جو کوئی چہنک��نے اورال�م��د اللہ کہے

اللہ کہو۔آات���ا کہ ال�م���د اللہ وی���ر حک� اللہ بولن���ا ت���و اچھ���اہے مگ���ر خی���ال میں نہیں

چہینکنے میں خدا کی کیوں خوشنودی ہے یہ تو انتظام بدنی کی ایک بات ہے۔

ترا معل��وم متش��ا وب جب��ائی ک��و کہ��تے ہیں حض��رت نے فرمای��ا کہ خ��دا ک��و ب�� ہوت��اہے جب ک��وئی جب��ائی لیت��اہے کی��ونکہ جب��ائی ش��یطان س��ے ہے اور جب��ائی کے وقتتاس کے منہ میں گھس بھی جات�اہے ۔ شیطان ہنس�تاہے ای�ک ح�دیث میں ہےکہ ش�یطان آاتی پس چاہیے کہ جبائی ک�و دف��ع ک�ریں اورمنہ پ�ر ہ��اتھ رکھ لیں۔ نین��د کے وقت جب��ائی آادمی کی جبلی ب�ات آائ اس میں ش�یطان ک�ا کی��ا دخ�ل ہے یہ ت�و ہے نشان ہے کہ نیند

ہے اور ہر دوحرکتیں موجب ص�ت ہیں۔

بیتسویں فصلبیتسویں فصلہنسی ٹھٹھہ کے بیان میںہنسی ٹھٹھہ کے بیان میں

آاواز سے ہنسنے کو قہقہ بول��تے آاواز سے ہنسنے کو ض�ک کہتے ہیں۔ بلند ہیں۔ اورہنسی کا منہ بنانے کے تبس� یا مسکرانا کہتے ہیں۔ حضرت م�مد ض�ک اور قہقہہ کبھی نہ ک��رتے تھے مگ��ر تبس��� ک��رتے تھے اور مس��لمانوں ک��و ض���ک کرن��ا من��عنہیں ہے پر قہقہ کرنا مکروہ ہے اور اگر نماز میں قہقہہ ہو تو وضو بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اہ��ل اس��لام بہت خ��وش ہ��وتے ہیں یہ س��ن ک��ر کہ حض��رت ص��رف تبس��� کی��ا ک�رتے تھے ج�و ب�ڑی س�نجیدگی کی ب�ات ہے میں بھی اس ک�و قب�ول کرت�اہوں کہ تبس�� سنجیدگی کی بات ہے اگر حضرت کی یہی عادت تھی توایک سنجیدہ عادت تھیتری ب�ات نہیں ہے بلکہ زن�دہ دلی کے نش�ان ہیں اور طب�ع ۔ ت�وبھی ض��ک اور قہقہہ ب� ک��و ف��رحت بخش��تے ہیں پ��ر م�ض تبس��� ک��ا خ��وگر ج��و کبھی قہقہہ اور ض���ک اپ��نے خاص دوستوں کے س��اتھ خل��وت میں بھی نہیں کرت��ا ہ� کی��ونکر کہہ س��کتے ہیں کہ وہ

آادمی ہے اوراس کا مزاج روکھا نہیں ہے۔ زندہ دل مزاخ کہتے ہیں ٹھٹھہ بازی کو ج�و خ�وش طبعی کے واس�طے کی ج��اتی ہے جس میں کسی کو ایذا اورتکلیف نہ ہو حض�رت م�م�د نے ایس�ی ٹھٹھہ ب�ازی ک�و من��ع

آاپ بھی کیا کرتے تھے۔ نہیں کیا بلکہ

انس کا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام تھا عمیر اس کے پ��اس ای��ک بلب��ل تھی جس ک��و ع��ربی میں نغ��یر کہ��تے ہیں جب وہ بلب��ل مرگ��ئی ت��و حض��رت م�م��د اس لڑکے کو ی��وں کہکے چھ��یڑا ک��رتے تھے )اے عم�یر کی��ا ہ��وئی نغ��یر( اور انس ک��و ٹھٹھہ سے کہا کرتے تھے کہ )اودوکانو والے( اور بڈھی س�ےکہا تھ��اکہ )بڑھی��ا بہش�ت میں نہ

جائیگی(۔ اس کے سوا لوگ بھی حضرت م�مد سے ٹھٹھہ بازی کی��ا ک��رتے تھے غ��زوہ تبوک میں جب حضرت ایک بہت چھوٹے تنبومیں ج�و چم�ڑے ک�ا تھ��ا بیٹھے تھے اور

آاؤں(۔ آاؤ وہ بولا )کیا میں سب چلا آایا حضرت م�مد نے کہا عوف بن مالک ایس���ی ب���اتوں س���ے مس���لمان یہ س���یکھتے ہیں کہ ٹھٹھہ ب���ازی کرن���ا ج���ائز ہے

بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو۔ یہ درست بات ہے۔

تینتیسویں فصلتینتیسویں فصلخوش بیانی وشعر خوانی کے ذکر میںخوش بیانی وشعر خوانی کے ذکر میں

مش�کوات ب�اب البی�ان والش�عر میں لکھ��اہے کہ خ�وش بی�انی ک�و حض�رت نے پسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان من البیان الس�را یعنی بعض بیان ج�ادو ک�ا اث�ر رکھ��تے ہیں۔ یہ بات نہائت درست ہے اور خدا نے ہر ق��وم کی زب�ان میں ایس�ے ل��وگ ظ��اہر ک�ئے ہیں جو خوش بیان ہیں پر خوش بیانی اگر ص�یح مض��امین کے س�اتھ ہ��وئے ت�و بہ��تر ہے

ورنہ دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ حضرت نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ خوش بیان ہوں چاہئے کہ اپ�نے بی�ان کے

موافق عمل بھی کریں ورنہ سزا پائینگے۔آایاہے کہ معراج کی رات کو حضرت انس سے ترمذی کی حدیث غریب میں نے دوزح میں ایسے لوگوں کو دیکھا تھا جن کی زب��ان مق��راض س��ے ک��اٹی ج��اتی تھی

جب حضرت نے پوچھا کہ یہ کون ہیں جبرئی��ل نے کہ��ا ت�یری امت کے واع��ظ ہیں اپ��نےبیان کے موافق عمل نہ کرتے تھے۔

خ��دا کے کلام میں بھی لکھ��اہے کہ بے عم��ل ناص��ح س��زا ی��اب ہ��ونگے پس حضرت کایہ سب بیان درست ہے مگر خاص مقراض کی س��زا کے ب��ارے میں ہ� کچھ

نہیں کہہ سکتے خدا جانے کیا سزا پائینگے۔تبرے اشعار بنانے اور پڑھ��نے س��ے من��ع کی��ا دوئ� شعر خوانی ہے۔ حضرت نے آادمی بھی اس ب�ات ک�و یی ہے نہ اچھے ۔ یہ بات بھی عقل اورنقل کے مواف��ق ہے اور ادن

پسند کرتاہے۔ مگر مظاھر ال�ق جلد چہ��ارم ب��اب البی��ان میں لکھ��اہے کہ حس��ان بن ث��ابت شاعرم�مدی اپنے اشعار میں کفار قریش کے نسب ناموں پر طعن کیا کرتا تھ��ا کعبآان نے اس کی شکایت حضرت سے کی کہ ایسے شعر جو طعن وسرزنش کے ہیں قر کے برخلاف ہیں حضرت نے فرمایا کہ ج�و شعراس��لام کی تائی�د میں کہے ج�اتے ہیں

ترے نہیں ہیں بلکہ جہاد کا ثواب رکھتے ہیں ۔ وہ ب لیکن ہمارا انصاف دلی اس ب��ات ک��و قب��ول نہیں کرت��ا ہےکہ ایس��ے ش��عر بھیآاخ�رت میں کی�ا مفی�د ہ��ونگےالبتہ جس موجب ث�واب ہ��وں ج�و دنی�اہی میں مفی�د نہیں وہ اصول پ�ر اس�لام کی بنی��اد ق�ائ� ہے اس اص�ول س�ے ت�و وہ مفی�د ہیں یع�نی ج�بری اص�ولتاس س��ےمفید ہیں۔ پس ہ� جس اص��ول پ��ر انجی��ل کی بنی��اد دیکھ��تے ہیں یع��نی م�بت

تبرے اور مضر ہیں۔ اصو ل سے یہ اشعار اگ��ر ک��وئی چ�اہے ت��و علم�اء م�م��دیہ کے پ��اکیزہ اش��عار مث��ل ب�انت س��عاد اور قص��یدہ ب��ردہ اور قص��یدہ ہم��ز یہ وغ��یرہ کے س��اتھ ملا ک��ر عیس��ائی دین کے گیت��وں کی کت��اب ک��و ملاحظہ ک��رے اور س��وچے کہ کونس��ے مض��امین ت��ربیت روح��انی اور نص��ایحیی حمدو ثنا ومناجات کے لئےمفید ہیں اورکون ہیں ج��و مب��الغہ اورک��ذب س��ےخالی اورالہ

ہیں۔ البتہ فص��احت لفظی اوربرجس��تہ عب��ارت م�م��دی ش��عراء کے اش��عار میں ان غ��ریب عیسائیوں کی س��ادہ عب��ارت کی نس�بت زی��ادہ ملیگی ج�و زب��ان دانی اورام��ور فص�احت لفظی اور مض��امین خی��الیہ س��ےعلاقہ رکھ��تی ہے۔ لیکن روح��انی پ��رورش کی خ��وبی اور

سچائی اوراسرار الہامیہ کی بھرتی انہیں کے سادہ کلام میں پائی جاتی ہے۔

چونتیسویں فصلچونتیسویں فصلراگ وباجے کے بیان میںراگ وباجے کے بیان میں

راگ سننا اورباجا بجانے سے حضرت نے من��ع کی��اہے اور فرمای��ا ہے کہ )راگ آادمی کےدل میں ایسی بے ایمانی پیدا کرتاہے جیسے پ��انی س��ے زراعت ہ��وتی ہے ( اور نافع کی روایت احمدابوداؤد س��ے ی��وں ہے کہ ) کہ ن��افع لڑک��ا اورابن عم��ر س��اتھ س��اتھآائی ابن عمر نے اپنے کان انگلی��وں آاواز کان میں کہیں جاتے تھے راہ میں بانسلی کی سے بند کرلئے اور دوسری راہ سے چلے دورجا کے ابن عمر نے نافع س��ےکہا اب کچھآاتی تب کان کھولے اور کہاکہ ای��ک روزحض��رت آاتی ہے یا نہیں اس نے کہا نہیں آاواز م�مد نے بھی یوں ہی کیا تھا ( ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ راگ اور باج��ا حض��رت

م�مد کی شرع میں حرام ہے۔ مگ��ر مش��کوات ب��اب ص��لوات العی��دین میں بخ��اری ومس��ل� کی ح��دیث ص�یح عائشہ سے ی��وں لکھی ہے کہ عی�د کے دن لڑکی��اں دف بج��اتی اور گ�اتی تھیںآاکے لڑکی��وں ک��و اور حض��رت م�م��د گھ��ر میں ک��پڑا اوڑھے ہوئےلی��ٹے تھے اب��وبکر نے دھمکایا حض��رت نے منہ کھ��ول ک��ر فرمای��ا مت دہمک��اؤ عی��د کے دن ہیں گ��انے بج��انے

دو۔ اب م�م��دیوں میں گ��انے بج��انے کی ب��ابت اختلاف پڑگی��ا اہ��ل ش��رع نےیی ک�ا وس�یلہ اور روح کی ع�ذا تاس�ے ق�ربت الہ تاسے حرام بتلای�ا ہے ۔ اوراہ��ل تص�وف نے

کہاہے۔

پر ہ� یوں کہتے ہیں کہ ایسا گانا بجانا جس سے نفسانی خواہش��یں گن��اہترے خیال اور نفسانی مزہ پیدا ہو حرام یا مناس��ب ہے اور آائیں اور ب کی طرف جوش میں

تاس پر اصرار کرنے والے کا دل بگڑ جاتاہے۔ مگ��ر وہ راگ اور باج��ا ج��و انس��ان کی روح ک��و خ��دا کی ط��رف ابھ��ارے اور خدا کی صفت وثنا اورانسانی عجز والتجا اور شکر گزاری کا مزہ دل میں پیدا ک��رے عین عب��ادت اور زن��دہ دلی ہے خ��دا کے پیغم��بر بھی راگ اورب��اجے کےس��اتھ عب��ادت کرتے تھے داؤد پیغمبر باجوں پر گ��ا گ��ا کے دع��ائیں کی��ا ک��رتے تھ��ا پ��ر یہ حض��رت کی تعلی� جو زہد خشک کی بات ہے سب پیغمبروں اور تمیز مردم کے تجرب��وں کے خلاف

ہے۔

پینتسویں فصلپینتسویں فصلفخر نسبی کے بیان میںفخر نسبی کے بیان میں

مش�کوات ب�اب المخ�افرت کے دیکھ�نے س�ے معل�وم ہوت�اہے کہ حض�رت نےحسب ونسب اور ذات پر فخر کرنے سے منع کیاہے۔

ابوہریرہ کی روایت بخ�اری ومس�ل� س�ے ی�وں ہے لوگ�وں نے پوچھ�ا ی�ا حض�رت سب سے بڑا کون ہے فرمایا جو سب سے بڑا دیندار ہو وہ بولے دین��دار کی ب�ات ہ� نہیں پوچھتے تب حضرت نے کہا کہ سب س�ے ب�ڑا یوس�ف پیغم�بر ہے وہ ب�ولے پغیم�بر کی بات ہ� نہیں پوچھتے یہ پوچھتے ہیں کہ اقوام عرب کے درمیان کون ق��وم ب��زرگ ہےفرمای��ا

کہ جو حالت کفر میں اچھے تھے حالت اسلام میں بھی اچھے ہیں۔آای�ا اور آادمی حض��رت کے پ�اس تانس س��ے مس�ل� کی روایت ہے کہ ای��ک پھ��ر کہا یا خیر البریہ اے ساری دنی��ا س��ے اچھے ش�خص تب حض�رت نےکہ��ا یہ م�رتبہ م�یرا

نہیں ہے ابراہی� کا ہے۔

لیکن علم��اء م�م��دیہ ی��وں کہ��تے ہیں کہ س��ب س��ے اچھے ش��خص حض��رت م�مد ہیں پر وہ خ�ود اس ب�ات کاانک�ا ر ک�رتے ہیں اور اب��راہی� ک�و اچھ��ا بتلاتے ہیں اسحول حض�رت کی کچھ تاویل کرنا چ�اہیے پس تین ط��رح س�ے انہ�وں نے تاوی��ل کی ہے۔ ا نے م�ض کس���ر نفس���ی کے ل���ئے کہہ دی���ا ہے ۔ دوم یہ اس���وقت کی ب���ات ہے جب حضرت کو خدا نے خبر نہیں دی تھی کہ ت� ہی سب سے اچھے ہو س��وم اب��راہی� اپ��نے

زم مانہ میں سب سے اچھے تھے۔ اگر کسی کی تمیز ان تینوں تاویلوں میں سے کوئی بات قبول کرسکتی ہے تو

کرے میرے گمان میں تو یہ تاویلیں بعد ازقیاس ہیں ۔ حاصل یہ ہی ہے کہ ذات پر فخر کرنا حضرت کے نزدی��ک گم��راہی کی ب��ات

ہے۔ خدا کےکلام میں بھی ایسا فخر کرنے والوں پر بڑی ملامت مذکور ہے۔ اگرچہ یہاں ایسی تعلی� کچھ ہے تو بھی حضرت کے ش��اعر ق��ری کے س��بتاسےجہاد لسانی کہ��تے تھے اور حض��رت ناموں پر اعتراض کیا کرتے تھے اور حضرت خود بھی یہ فخ��ر ک��رتے تھے کہ ان�ا ابن عب��د اللہ المطلب میں عب��د المطلب ک��ا بیٹ��ا ہوں اوراسی طرح قوم انصار کو ایک خاص فضیلت دی گ��ئی اور ف��اطمہ او رعلی اورآال کو ممتاز بتلایا کہ کل ع��رب ک�و تم��ام دنی��ا کی قوم�وں پ��ر فض�یلت بتلائی اور اپنی تتب فقہ میں حسب نسب کا ان�صار قوم عرب کو دیا گیا پس اگرچہ منہ س��ے من��ع کآاج تک اہل اس��لام تاس کی تعمیل کرائی تامت میں آاپ عمل کیا نہ تاس پر نہ کیا مگر فخر نسبی پر عاشق ہیں اور دوسروں پر عیب لگاتے ہیں ۔ یہ خوبی خاص سیدنا مسیحتاس نے سب فرق اٹھادیاہے اور سب قوموں کو خ��وب ملادی��ا ہے کے دین میں ہے کہ رزالت اور شرافت ک��ا ان�ص��ار ایمان��داری اوربے ایم��انی پ��ر ہے نہ کس��ی ق��وم اور ذاتتان کے پیش��ے مختل��ف ہیں ک��وئی آادمی ایک باپ کے بیٹے ہیں ۔ پر اورپیشہ پر سب آادمی رزیل ہے۔ کسی پیشہ کے سبب سے رزیل نہیں ہےمگر گناہ اوربے ایمانی سے

چھتیسویں فصلچھتیسویں فصلوالدین اوقارب سے سلوک کے بیان میںوالدین اوقارب سے سلوک کے بیان میں

مشکوات با ب البروصلتہ میں لکھاہے کہ حض��رت نے م��اں ب��اپ کے س��اتھتان کی فرم��اں ب��رداری ک��ا بھی حک� دی��ا ہے ۔ اور اس��ی ط��رح س��ب رش��تہ بھلائی اور داروں سے درجہ بدرجہ بھلائی اور سلوک ک��رنے ک��و کہ��ا ہے اور ص��لح رح� ک�ا بھی

حک� دیا ہے اور قطح رح� سے منع کیا ہے ۔ اسماء بنت ابوبکر سے بخاری ومسل� کی روائت ہے کہ اس کی وال��دہ ج��وآائی اسماء نے حضرت سے پوچھا اور کہ��اکہ م��یری م��اں مشرکہ تھی اپنی بیٹی کے پاس تاس کےساتھ سلوک کروں یا نہ کروں آائی ہے اور وہ کافر ہے اسلام سے ناراض ہے میں

فرمایا اس کے ساتھ سلوک کرو۔ مسلمانوں کو اس حدیث میں مشرک رشتہ داروں سے سلوک کرنے کا حک�تان کے س��اتھ ہے پ��ر عیس��ائی او ریہ��ودی رش��تہ داروں س��ے س��لوک کرن��ا من��ع ہے اور تبت پرست رش��ہ داروں س��ے دوستی رکھنا جائز نہیں ہے اس کا درست سبب یہ ہے کہ تبت پرس��تی ص�بت رکھنے میں اسلام کا کچھ نقصان نہیں ہے کی��ونکہ ق��وانین اس��لام کے قوانین سے ضرور مضبوط ہیں مگر عیسائیوں اوریہودیوں کے ساتھ ص�بت رکھن��اتان تان کی دلائ��ل اور تان کی سنگت سے اسلام جاتا رہتاہے کیونکہ اس لئےمنع ہے کہ کے خیالات نہائت قوی ہیں جو اسلام ک�و توڑڈال�تے ہیں اس ل�ئے کہ��تے ہیں کہ ان کے ساتھ نہ ملو مگر ان کے ساتھ ملو ۔ پر حق یہ ہے کہ سب کے س�اتھ ملیں س�ب

کی سنیں اوراپنی باتیں سب کو سنائیں۔ حض��رت نے یہ بھی کہ��ا ہے کہ م��اں کی ع��زت ب��اپ کی نس��بت تین درجہ زیادہ چاہیئے ۔ پر ہ� خدا کے کلام میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی اور ب��ات کی

عزت کر۔

ماں باپ کی اطاعت کا حک� دیا ہے مگر جب ماں باپ مسلمان ہونے س��ےتان کی اطاعت کرنا نہ چاہیے۔ اس تعلی� کا اص��ول ت��و ص���یح ہے کہ دین منع کریں تو کی بات میں والدین کی اطاعت نہیں چاہیے چنانچہ توریت سے بھی ظاہر ہے کہ اور انجیل بھی یہ سکھلاتی ہے کہ دنیا کی باتوں میں دنیاوی والدین کی اطاعت چاہیے اور روح��انی ب��ات میں روح��انی ب��اپ یع��نی یع��نی اللہ کی اط��اعت واجب ہے پس یہ

یی کی ہے جو حضرت نے اپنے اسلام کے لئے چن لی ہے۔ تعلی� کلام الہ

سینتیسویں فصلسینتیسویں فصللوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکرلوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر

آادمی کو وعدہ وفا ہونا چ��اہیے۔ یہ ص���یح ب��ات حضرت نے حک� دیا ہے کہ ہے مگر خود حضرت نے اسکے برخلاف نمونہ دکھلایا ہے چنانچہ جنگ ب�درمیں ای�ک بڈھی کے ساتھ وعد ہ وفا نہیں کیا تھا اور اہ��ل مکہ س��ےبھی عہ��د ش��کنی کی تھی

اور ، اور کئی نمونے بھی پیش کئے ۔ حض��رت نے یہ بھی فرمای��ا ہے کہ بیہ��ودہ ب��ات زب��ان س��ے نکالن��ا نہ چ��اہیے یہ بہت اچھی ب��ات ہے ۔ لیکن خ��ود حض��رت نے ب��نی قری��ط یہودی��وں ک��و اپ��نی زب��انتان کے م���اورات میں پ��ائے مب��ارک س��ے گالی��اں دی تھیں اوربہت س��ے ف�ش لف��ظ گئے ہیں۔ پر یہ حک� ہے کہ اگر حضرت م�مد کسی ک�و گ�الی دیں ی�ا لعنت ک�ریںیی ہے اگر ایسی باتوں کا اس��تعمال نہیں تھ��ا ت��و پھ��ر کس دور اندیش��ی تو یہ رحمت الہ

پر یہ حک� اوربیان تھا۔ غرور اور بد گوئی او رغ�نیمت اور لعنت ک�رنے س�ے بھی حض�رت نے من�ع کیا ہے یہ سب اچھی تعلی� ہے اور تمام جہان کے معل� اسے قبول ک��رتے ہیں اور خ��دا کا کلام بھی اچھی طرح سے ان مکروہات سے من��ع کرت��اہے پ��ر ہ� یہ کہ��تے ہیں کہآاپ ان باتوں سے ہر گز نہیں بچے ہیں۔ تورايخ م�مدی اور تعلی� م�مدی ہر حضرت

دو ن����اظرین کے س����امنے پیش ہیں پس وہ خ����ود معل����وم کرس����کتے ہیں کہ کس جگہحضرت نے کیا کیا اور کیا کہا۔

پھ��ر حض��رت نے عورت��وں اور بچ��وں اور ی��تیموں اور ران��ڈوں پ��ر اور فق��یروں اورآادمی��وں کی مسکینوں اوراندھوں لنگڑوں وغیرہ پر مہر بان رہنے کا حک� دی��ا ہے اور س��ب

تعظی� اور عزت اور خدمت درجہ بدرجہ بقدر طاقت کرنے کو ارشاد کیاہے۔ یہ س���اری ب��اتیں اچھی ہیں اورمناس��ب ہیں اور خ���دا ک���ا کلام میں اور ان ک��ا نہایت اچھا بیان ہے اور وہاں سے یہ بیان�ات ہ��ر ط��رف مش�ہور ہ��وئے ہیں اور خ�دا کی دی ہوئی دلی شریعت جو لوگوں میں ہے ان باتوں پر اکثروں کو ابھارتی ہے اور یہ وہی باتیں ہیں جو دنیا میں مشہور ہیں اور سب جانتے ہیں کہ حضرت م�مد کا بی��ان اس معاملہ میں اس قدر زائد ہے کہ ان کے ثواب مبالغہ کے ساتھ ک��ثرت س��ے بی��ان ہ��وئے ہیں جس کو دل قبول نہیں کرتا ۔ جہ��اں ت��ک درس��ت ہے وہ��اں ت��ک م��انتے ہیں اور ان س��ب ب��اتوں ک��و بائب��ل میں بے مب��الغہ پ��اک ط��ور پ��ر س��نتے ہیں یع��نی یہ بی��ان فی نفس��ہ درست ہے پر حضرت کے بیان کا ط��ور اور حض�رت کے نم�ونے دل قب��ول نہیں کرت�اہے بلکہ دل ہٹ جاتاہے نہ ان باتوں سے مگر حض�رت کے بی��ان کی تص��دیق س��ے کہ یہ

اللہ سے نہ ہو۔ حض��رت نے م�بت کے ب��ارے میں بھی تعلی� دی ہے اور اس ک��ا بی��ان ی��وں کیا ہے چنانچہ مشکوات باب ال�ب فی اللہ میں عائشہ سے مس��ل� کی روائت ہےآادمیوں کی روحوں کا ایک اکٹھا لشکر تھ��ا جن آانے سے پہلے ان سب کہ )دنیا میں تان میں م�بت ہے اور جن میں وہ��اں روح��وں میں وہ��اں ملاق��ات تھی اب یہ��اں بھی

تان میں اختلاف ہے(۔ ملاقات نہ تھی یہاں بھی

یعنی موجب م�بت اور موجب مخالفت تعارف سابق اور عدم تع��ارف س��ابق ہے نہ کوئی اور وجہ اگریہی بات ہے تو مثل تقدی کے م�بت ک�ا مس�ئلہ بھی ہوگی��ا

آادم میں باوجود ہ� مذہبی کے یہی م�بت ہو۔ اورم�ال ہواکہ سب بنی خ��دا ک��ا کلام بتلات��اہے کہ م�بت خ��دا کی ص��فت ہے۔ اور نے خ��دا اپ��نی م�بت کی کمال کو سیدنا مسیح میں دنیا پر ظاہر کیا ہے اور ہمیں اس میں نہائت ہیتاسی م�بت کی تاثیر سے ہمارے دلوں میں خدا کی م�بت پیدا ہ��وتی ہے پیا ر کیاہے کہ ہ� خدا کواپنے سارے دل اور س��اری عق��ل اور س��اری ط��اقت س�ے پی��ار ک�ریں جیس��ا

آاپ کو۔ اسی باب کی فصل ثانی میں ابن عباس س��ے بیہقی کی روایت ہے کہ خ��دا میں ب��اہ� دوس��تی رکھن��ا اور ب��اہ� بغض رکھن��ا ایم��ان ک��ا ای��ک حص��ہ ہے۔ یہ ب��ات م��ان س��کتے ہیں کہ خ��دا میں م�بت رکھن��ا ایم��ان ک��ا حص��ہ ہے۔ پ��ر خ��دا میں بغض رکھن��ا ایمان کا حصہ نہیں ہوسکتا اگر کوئی شریر ہے تو میں اس کے بدکاموں سے ن��اراض ہوں مگر اس سے مطلق دشمنی نہیں پرکھتا اس کا بھلا چاہتا ہوں یہ بات ت��و ایم�انیی س��ے تاس ک��ا حص��ہ نہیں ہے ج��و کلام الہ کا حصہ ہے پر لوگوں سے دشمنی رکھن��ا آان س�ے پی�دا ہوت�اہے ۔ خ�دا کی پیدا ہوتاہے ہاں اس کاایمان ک�ا حص�ہ ض�رور ہے ج�و ق��ر

تاس د ل پر کبھی نہیں ہوسکتی جس دل میں بغض ہے۔ مہربانی کی نظر پھ��ر مق��دام ابن مع��د یک��رب س��ے اب��و داؤد اور ترم��ذی س��ے روایت ہے کہ فرمای�ا حض��رت نے چ��اہیے کہ ) جب ک��وئی کس��ی س��ے م�بت کرن��ا ش��روع ک��رے ت�و پہلے اسے خبر دے کہ میں کہت��ا ہ��وں کہ یہ کچھ ب��ات نہیں ہے وہ س��مجھیگا کہ مجھے فریب دیتا ہے بہ��تر ہے کہ بغ�یر کہے ہم��اری م�بت کےک�اموں س�ے وہ ج��انے

تاس سے م�بت شروع کی ہے۔ کہ ہ� نے

پھر معاذ بن جب��ل س�ے ترم��ذی کی روایت ہے کہ )ج�و ل�وگ م�یر ے جلالتان ل��ئے قی��امت کے دن ن��ور کے مم��برین رکھے آاپس میں م�بت رکھ��تے ہیں کے ل��ئے آائیگ�ا ( ن�اظرین ان مب��الغوں ک�و جائینگے ایس�ا کہ ن��بیوں اور ش�ہیدوں ک��و بھی رش�ک آاپس میں رکھن��ا ض��رور اور مفی��د ہے اور خیال کریں تو یہ ہ� مان س��کتے ہیں کہ م�بت خدا کےجلال کےلئے اوربھی زیادہ مفید ہے۔ لیکن کیا پیغم��بر ل��وگ اور ش��ہداء اس��یتان س��ے زی��ادہ م�بت ان اش��خاص میں پی��دا م�بت س��ے خ��الی تھے ب��الفرض اگ��ر ہوگئی تھی توبھی قیامت میں ان کے اجر پر وہ لوگ رش�ک نہیں کرس�کتے کی�ونکہ بہش��ت میں رش��ک نہیں ہے وہ ناپ��اک دنی��ا نہیں ہے کہ وہ��اں بھی حض��رت حاس��د

تشریف لائیں حسد میں دکھ ہے۔ ابوہریرہ سے مسل� کی روایت ہے کہ ) خ��دا جب کس��ی ک��و پی��ار کرت��اہے ت��و جبرئیل کو بلا کر کہتاہے کہ میں نے فلاں شخص سے م�بت شروع کی ہے توبھیآاواز آاس��مان میں اس س��ے م�بت ک��ر جبرئی��ل کہت��اہے کہ بہت خ��وب پھ��ر جبرئی��ل آاس��مان وال��و ت� بھی آادمی کو پیار کرن��ا ش��روع کی��اہے اے دیتاہے کہ خدا نے فلاں نے تاس کی م�بت ڈالی ج�اتی تاسے پیار کی�ا ک�رو۔ اس کے بع�د اہ��ل زمین کے دل��وں میں آادمی وجن بھ��وت بھی اس��ے پی��ار کرن��ا ش��روع ک��رتے ہیں۔ اور جب خ��دا ہے اور س��ب

کسی سے دشمنی شروع کرتاہے تو یہی حال اس کا ہوتاہے۔آادمی ک��اپتہ بھی نہ لگے ہ��اں خ��دا ہ��ر گ��ز کے س��اتھ دش��منی نہیں کرت��ا ورنہ آاخر تک اس کی بہ��تری ک��ا بندوبس��ت فرمات��اہے اگ��ر وہ تنبیہ دیتاہے مثل باپ کے اور خ�ود ہلاکت میں جان�ا چاہت�اہے توج�ائے لیکن خ�دا کی ش�ان یہ ہے کہ وہ کس�ی کی

ابدی موت نہیں چاہتا مگریہ کہ توبہ کرے اور بچ جائیں۔ یہ بات خوب معلوم ہے کہ جس ق�در دنی�ا میں خ�دا کے پی�ارے ل�وگ پی�داآات�ا تان سے دش�منی کی ہے۔ پ�ر اس م�م�دی بی�ان س��ے لازم ہوئے ہیں دنیا نے ضرور

ہے کہ جن سے اہل دنیا نے دش��منی کی ہے وہ خ��دا کے دش��من تھے اور جنہیں اہ��ل دنیا نے پیا رکیا ہے وہ خدا کے پیا رے تھے یہ تو صریح باطل ہے سیدنا مسیح فرماتے ہیں کہ اگر ت� دنیا کے ہوتے تو دنیا اپنوں کو پیا کرتی ہے پر ت� دنی��ا کے نہیں ہ��و اس لئے دنیا ت� سے دشمنی رکھتی ہے عدم مجانست کے سبب سے جو ایمان��دار اور بے ایم��ان کی روح میں پی��دا ہوج��اتی ہے خ��ود حض��رت م�م��د کے ل��ئے ان کے دوس��توںتان کی نسبت دشمن دنیا میں ہمیشہ زیادہ پائے گئے تو کی��ا یہ اس ل��ئے ہے کہ خ��دا

سے دشنی رکھتاہے۔ یہ دوسری بات ہے اور وہ دوسری بات ہے۔ آادمی کو جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی ک��و تین دن پھر حضرت نے فرمایاہے ) سے زیادہ چھوڑدے( یعنی اگر غص�ہ اور ل��ڑائی کے س�بب ج��دائی ہوج��ائے ت�و عرص�ہ

تین دن کے درمیان میل کرلینا چاہیے۔اا می�ل کرن�ا چ�اہیے کی�ونکہ اس�ی ح�الت میں پر انجیل سکھلاتی ہے کہ ف�ور آادمی خ�دا س�ے دع�ا اور نم�از نہیں کرس�کتا ہے بہ�تر ہے کہ وہ پہلے اپ�نے م�دعی س�ے

( اورپھ��ر لکھ��اہے کہ غص�ہ ت�و ہ��و پ��ر گن��اہ نہ ک�رو ایس�ا نہ۲۴تا ۲۳: ۵میل کرے) متی (۔ مگ��ر م�م��دی ل��وگ غص��ہ۲۶: ۴ہوکہ سورج ڈوبے اور ت� خفا کے خفار ہو)افس��یوں

دل میں لے کر نماز کرسکتے ہیں اس لئے تین دن کی مہلت ہے عیس��ائی ک��و ض��رورہے کہ دلی طہارت کے بعد خدا کی حضوری میں جائے۔

حضرت نے جھوٹ بولنے سے من�ع فرمای�اہے مگ�ر تین جگہ جھ�وٹ بولن�ا درست بتلایاہے چنانچہ مش��کوات ب��اب م��ایہنی میں اس��ماء بنت یزی��د س��ے احم��د وترمذی کی روایت ہے کہ )بی بی کے راضی ک��رنے ک��و اور ل��ڑائی کے وقت پ�ر اور دو آادمی��وں کے درمی��ان ص��لح ک��رانے ک��و جھ��وٹ بولن��ا درس��ت ہے( پ��ر ہ� اس��ے قب��ول نہیں

کرسکتے ہر حال میں سچ بولنا چاہیے۔

اڑتیسیویں فصلاڑتیسیویں فصلبیماری کے ذکرمیںبیماری کے ذکرمیں

مشکوات باب عی��ادت الم��ریض میں ابن عب��اس س��ے بخ��اری کی روایت ہے کہ جب حضرت کسی بیمار کی خبر لینے جایا کرتے تھے تو فرماتے تھے لاباس طھ��ورآادمی پ�اک ہوجات�اہے اگ�ر اللہ یی یعنی کچھ خوف نہیں ہے بیماری سے ان شا اللہ تعال

چاہے ۔ پھر ابی سعید حذری سے بخاری ومسل� کی روایت ہے کہ ک��وئی رنج دکھآاتا ہے خواہ ایک کانٹا ہی کی��وں نہ چہہ اور کوئی فکر اور غ� او رایذا جو مسلمان پر

جائے تو اس کے عوض بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔یی س��ے ث��ابت ہے کہ بیم��اری آاتی ہے اور نہ کلام الہ یہ بات نہ تو عقل میں آات�ا ہے ج�و خ�دا سے اور ذرا سے دکھ سے یہی گن��اہ دف��ع ہوج��ائیں البتہ یہ قی�اس میں آاتی ہیں تب وہ کے کلام س��ے ث��ابت ہے کہ اک��ثر تکلیف��ات گن��اہوں کے س��بب س��ے

گناہوں کا وبال ہیں نہ گناہوں کے ذریعہ کا باعث ہیں۔آادمی تن��بیہ پ��ائے اور ت�وبہ البتہ ان تکلیفات سے جو گناہوں ک��ا وب�ال ہیں اگ��ر تان س�ے ص�رف یہی کرکے اپنی چال سدہارے اور ایمان میں مضبوطی حاصل کرے تو آاتاہے کہ اس کی چال سدہر گئی اورایم��ان س��یح پ��ر درس��تی س��ے ق��ائ� نیک نتیجہ نکل ہوگیا تو اب پ�اکیزگی اور مخلص�ی گن��اہوں س��ے بوس�یلہ مس�یح کے ہوج��اتی ہے اور ج�و

آاخر کو ابدی سزا ہے۔ چال نہ سدھری تو تکلیفات م�ض دکھ ہیں اور ترس��ی کرن��ا مس��لمان ک��ا مس��لمان پ��ر ح��ق ہ��اں یہ ج��و حض��رت نے بیم��ار پ بتلایاہے درست ب�ات ہے اوراس میں ض�رور خ�دا کی رض�ا من�دی ہے کہ بیم�اروں کی خ��بر لی ج��ائے ت��و بھی حض��رت کی تعلی� میں اس ق��در نقص ہے کہ مس��لمان کی

خبر لینا مسلمان پر واجب ہے نہ یہ کہ سب کی خبر لین��ا خ��واہ مس��لمان ہ��و ی��ا ک��ا ف��رترسی کرنے سےمنع فرمایا ہے ۔ بلکہ حضرت م�مد نے منکر ان تقدیر کی بیمار پ

سیدنا مسیح نے ہمیں یوں س�کھلایا ہے کہ ح��تی المق��دور س��ب کی خ��بر لو اور سب کے ساتھ نیکی کرو اگر ت� صرف اپن��وں کے س��اتھ بھلائی ک��رو ت��و ت� نے

کیا زیادہ کیخراج گیر بھی ایسا کرتے ہیں۔

انتا لیسیوں فصلانتا لیسیوں فصلدوا کے ذکر میںدوا کے ذکر میں

حض�رت نے بیم�ار کےل��ئے دوا اور دع��ا ہ��ر دوک��ام ک��رنے ک��احک� دی��اہے یہ تعلی� درس��ت ہے اور س��ب پیغم��بروں نے بھی ایس��ا ہی کی��ا ہے اور عق��ل ع��ام اور عق��ل خاص بھی یہی چاہتی ہے اور سب لوگ ایسا ہی کرتے بھی ہیں۔ پ��ر حض��رت کی اس تعلی� میں ایک اور غلطی ہے وہ یہ ہےکہ حضرت نے خود ط��بیب ہ��وکے مع��الجے بھی

سکھلائے ہیں حالانکہ عل� طب سے حضرت بالکل ناواقف تھے۔تاس کے مواف��ق مع��الجہ ایک کتاب طب نبوی نام مسلمانوں میں ج��اری ہے اورتاس پر بھروسہ نہیں رکھ��تے ہیں ت��وبھی بعض کرنا سنت جانتے ہیں البتہ عقلمند مسلمان

تاس کے موافق کام کرکے ہلاکت میں پڑتے ہیں۔ متشرع لوگ مش�کوات ب�اب الطب میں حض�رت کی حکمت اور مع��الجے لکھے ہ��وئے

ہیں اور وہ بطور نمونے کے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ فرمایا حضرت نے تین چیزوں میں شفا ہے ۔ سینگی یا پچہنی لگان��ا۔ ش��ہد

آاگ سے داغ دینا۔ پینا ۔ پھر فرمایا حضرت نے کہ موت کے سوا ہر بیماری میں کالا دانہ مفید ہے۔

اا چ��ار دفعہ آاتے تھے حض��رت نے تاکی��د اورای��ک ش��خص ک��و جس��ے دس��ت شہد پلایا تھا۔

تٹ کو بھی حضرت نے مفید بتلایاہے۔ اور قسط ب�ری یعنی ک اور فرمایا حضرت نے بخار اور تپ دوزخ کی بھانپ ہے اس کو پ��انی س��ے سرد کرو اور جب حضرت کا انتقال ہوا تھا ت�و ب�ڑی س��خت تپ حض�رت ک�و چ�ڑھی

تھی اور حضرت خود پانی سے اسے ٹھنڈا کرتے تھے۔تقبہ کی ح��دیث میں ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے بیم��اروں ک��و کھان��ا کھ��انے ع

تانہیں کھانا اور پانی دیا کرتا ہے۔ کی تاکید نہ کیا کرو کیونکہ خدا غ��رض ایس��ے ایس��ے مع��الجے لکھے ہیں اوران مع��الجوں س��ے ح��دیثوں پ��ر

چلنے والے لوگ عمل کرکے دکھ میں اور دیدہ ودانستہ پڑ جاتے ہیں۔ پیغم���بروں کی کت���ابوں میں جس���مانی علاج���وں ک���اذکر نہیں ہے ہ���اں کبھیتاسے عل� طب ک�ا مع�الجہ کبھی معجزہ کے طورپر کچھ بیان ہے ہے پر کوئی مومن

نہیں جان سکتا ہے جیسے م�مدی طب کومعالجہ جانتے ہیں۔ خدا کےکلام میں روحانی امراض کا علاج مذکور ہے پر جس��� ی ص���ت

تانہوں نے حاصل کیاہے ۔ کےلئے طبیبوں کا علاج ہے جو تجربات سے تاس�ے اگر حضرت م�م�د بگم�ان اہ�ل اس�لام کے عل� ل�دنی رکھ�تے تھے اور تان ک��ا دخ��ل اس فن عل� لدنی سے عل� طب میں بھی دخل دیاہے توظاہر ہے کہ یہ میں م�ض نادرس���ت نکلا ہے اور اس ک���ا ای���ک ن���تیجہ یہ بھی نکلت���اہے کہ جبآاس��مانی ب��اتوں میں اور عب��ادات تان کی سمجھ درست نہ نکلے تو دنیاوی باتوں میں

تان کا یقین کس طرح کرسکتے ہیں۔ وعقائد میں

چالسویں فصلچالسویں فصل

تلقین کے ذکر میںتلقین کے ذکر میںآاتی ہے تو مسلمان لوگ بیمار ک��و کلمہ کی تلقین ک��رتے جب موت نزدیک ہیں اور س��ورہ یاس��ین اس��ے پ��ڑھ ک��ر س��ناتے ہیں جس میں کچھ ذک��ر س��یدنا مس��یح کے شاگردوں کا ہے کہ انہ��وں نے خ��دا کےرس��ول ہ��وکے اہ��ل انط��اکیہ ک��و کس ط��رح ج��اکے خوش��خبری س��نائی تھی ۔ یہ ت��و مناس��ب ہے کہ بیم��ار ک��و تلقین کی ج��ائے پ��ر حض��رت م�مد نے کلمہ کی تلقین کا حک� دی�ا ہے اور ع��ربی زب��ان میں ای�ک فق��رہ ہے جس ک��ا نام انہوں نے کلمہ رکھا ہے پر حقیقی کلمہ سے ناواقف ہیں ج��و س�ب کی زن�دگی ک�ا

( میں ہے اور وہ سیدنا مسیح ہے ج�و ای�ک ش�خص۱: ۱باعث ہے جس کا ذکر )یوحنا یی مس��یح تاس کی نسبت یوں کہا ہے کہ عیس�� آان میں ہے اور خدا ہے اور حضرت نے قر خ��دا ک��اکلمہ ہے جس��ے خ��دا نے م��ری� میں ڈالا تھ��ا پس ہ� عیس��ائی اس حقیقی کلمہتاس کلمہ کی تلقین ک��راتے ہیں کی تلقین ک��رتے ہیں جس میں زن��دگی ہے پ��ر حض��رت حول میں ب�ث ہوچکی ہے اور حضرت س��ورہ یاس��ین پڑھ��واتے ہیں حول باب ا جن پر فصل ا جس میں ہ� ک��وئی تس��لی کی ب��ات نہیں پ��اتے پ��ر عیس��ائی ل��وگ خ��دا کے کلام میںتاس��ے تاسی م�رنے والے کی زب�ان میں ک�وئی ب�اب تس�لی بخش نک�ال کے س�ناتے ہیں اور تابھارتے ہیں کہ س��چی ت��وبہ ک��رکے ایم��ان کے ہ��اتھ س��ے حقیقی کلمہ ک��ا نصی�توں سے

دامن پکڑلے تاکہ ابدی زندگی پائے۔

اکتالیسیویں فصلاکتالیسیویں فصلتکفین وتجہیز کے ذکر میںتکفین وتجہیز کے ذکر میں

تان کی تعلی� میں فرض کفایہ ہے اورپانی میں بیری کے پ��تے ج��وش غسل دینا دے کر اس سے نہلاتے ہیں اور خوشبو بھی لگ��اتے ہیں اور تین ک��پڑے دی��تے ہیں لنگی

کفن پوٹ کی چادر۔

اس معاملہ میں سب سے اچھا دستور یہودیوں کا ہے اوراسی ط��ور س��ے س��یدنامسیح بھی کفنائے گئے تھے۔

تاس ہ� عیسائيوں میں دستور ہے کہ مردہ کو ص��اف پ�انی س�ے غس��ل دے ک�ر تاس��ے معط��ر بھی آاس��کے تاس��ے پہن��اتے ہیں اور جیس��ی خوش��بو میس��ر کی صاف پوش�اک تاس��ے لٹ��اتے ہیں تاس کے ق��دکے براب��ر بنای��ا جات��اہے کرتے ہیں پھر ایک صندوق میں جو آارام سے سوتاہے اور صندوق کو بند کرکے بع��د نم�از کے ق��بر میں دفن کردی�تے ہیں گویا تمردوں کی قی��امت ہ��وگی اور اس وقت یہ تامی��د پ��ر کہ س��یدنا مس��یح کے وس��یلہ س��ے اس

شخص بھی اٹھیگا۔تاس��ے تاس ک��ا ب��دن ج��و م��ٹی ہے وہ ج��و مرگی��ا ہے اس جہ��ان س��ے چلا گی��ا آاراستگی س��ے کچھ فائ��دہ ی��ا نقص��ان نہیں ہے مگ��ر م�بت والفت کے آاراستگی یا عدم تاس کی مٹی خراب نہ ہو مناسب جانتے ہیں کہ درس�تی س�ے سبب اوراس خیال سے کہ عزت کے ساتھ مدفون کیا جائے سو ایسی اچھی طرح سے ک��رتے ہیں ج��و س��ب ل��وگ

جانتے ہیں اس معاملہ میں بھی عیسائیوں کا دستور بہتر ہے۔

بیالیسویں فصلبیالیسویں فصلمشے ونماز وتدفین کا ذکرمشے ونماز وتدفین کا ذکر

تردوں کے س��اتھ تعظی� س��ے چل��و مشے چلنا ہے حضرت نے حک� دیاہے کہ متاس پر نماز پڑھو۔ آاہستہ اور جماعت کرکے آاہستہ آاواز سے پر اور کلمہ پڑھتے جاؤ نہ

یہ مقام بڑی عبرت کا ہے چاہیے کہ خدا کے خوف کے ساتھ اپ��نے م��رنے ک��ا دن بھی یاد کرکے ادب کے ساتھ مردہ کو دفن کرنے جائیں ۔ مگر کلمہ پڑھتے جانے میں ہمیں کچھ فائ��دہ معل��وم نہیں ہوت��ا ہے اس ل��ئے عیس��ائی ل��وگ ک��وئی خ��اص الف��اظ نہیں پڑھ���تے ہیں مگ���ر ط���رح ط���رح کے خی���الات مفی���دہ ذہن میں ہ���وتے ہیں دنی���ا کی

آازاد ہیں آادمی یی کی ب��ابت اپ��نے چلن کے ب��ابت وغ��یرہ ناپائداری کی ب��ابت ع��دالت الہتان کی روح کی سلامتی کا باعث ہوں۔ جو چاہیں سوچیں پر مفید باتیں سوچیں جو

تمردہ کی نماز جو م�مدیوں میں ہے اور حض��رت نے س��کھلائی ہے وہ بالک��لآاتی ہے اور لف��ظ اللہ اک��بر ک��ا بھی مفید نہیں ہے صرف ایک جماعت کھڑی ہوئی نظر آاجاتا ہے پر وہ دعا جو امام چپکے چپکے اپنے دل میں پڑھ لیتاہے ک��وئی نہیں کان میں آاواز سے پڑھی بھی ج��اتی آاواز سے پڑھی نہیں جاتی ہے۔ اور اگر سن سکتا کیونکہ وہ تاس ک��ا مطلب نہ��ائت مختص��ر ہے ص��رف یہ کہ اے خ��دا توبھی مفید نہ تھی کی��ونکہ تردہ کی نماز ک�ا دس�تور ج�و ہم�اری نم�از کی کت�اب مجھے بخشدے اوراس مردہ کو۔ م میں لکھ��ا ہے اور خ��دا کے کلام کے مواف��ق ہے اگ��ر ک��وئی چ��اہے ت��و کت��اب نم��از میں نکال کے دیکھے کہ وہ بیان تسلی بخش عقائد الہامیہ س�ے بھ��ر پ�ور اور نص�ی�تآانکھیں زيادہ روش��ن ہوج��اتی آادمی کی کے لئے بہت ہی اچھا ہے جس سے ایماندار ہیں۔مردہ کی نماز س�ے ص��رف یہی فائ�دہ ہے کہ زن�دگان ک�و اچھی ط��رح س��ے ع��برت حاصل ہو اور قیامت وعدالت اورابدی زندگی اور ابدی موت کی بابت فکر ک��ریں س��و

یہ بات صرف اسی ترتیب سے جو مسی�ی لوگوں میں جاری ہے حاصل ہوتی ہے۔

تینتالیسویں فصلتینتالیسویں فصلدفن کا دستوردفن کا دستور

ل�د: اس قبر کو کہتے ہیں جس میں بغلی کھودی جاتی ہے اور ش��ق وہ ق��بر ہے جس میں سیدھا گھڑا ہوت�اہے حض�رت م�م�د ل���د ک�و پس�ند ک��رتےہیں پ�ر ش�ق ک�وتاس کے ل��ئے ل���د آادمی صندوق میں دفن نہ کیا جائے ت��و پسند نہیں کرتے ہیں البتہ اگرتان کے واس��طے ل���د اچھی ہے۔عیسائيوں میں شق کھودنے کا دستور ہے اس ل��ئے کہ

سے بہتر چیز صندوق ہے۔

پھر حضرت م�مد قبر کو اونٹ کی کم��ر کی مانن��د اونچ��ا بنان�ا پس��ند ک��رتےتاس پر چونا لگانا بھی منع کرتے ہیں اور صرف کچے گارے س��ے لی��پی ہیں نہ سطح اور ہوئی قبر رکھنا موجب ث��واب بتلاتے ہیں۔ پ�ر اک�ثر مس��لمانوں نے اس تعلی� پ��ر عم��ل کرن�ا

چھوڑدیا ہے اور وہ ہزارہا قبریں چونے سے تیار کراتے ہیں۔ قبر ایک نشان ہے اس بات کا کہ یہاں فلاں شخص کی لاش دابی گ��ئی ہے آادمی کی خوشی ہے جس طرح کا نشان چاہے بنائے خواہ پائداری کے لئے ک��وئی پتھ��ر لگائے ی��ا چون��ا ہم��ارے خی��ال میں اور خ��دا کے کلام میں ایس��ی ب��اتوں کے ل��ئے کچھآاراستگی م�ض م�بت کے ثواب وعذاب کا معاملہ نہیں ہے۔ عیسائی لوگ قبروں کی تاس کے اوپ��ر کچھ لکھ بھی دی��تے ہیں جس سبب سے اچھی طرح س��ے ک��رتے ہیں اور

سے پڑھنے والوں کو اکثر فائدہ ہوتاہے۔

چوالیسویں فصلچوالیسویں فصلقبرستان کے بیان میںقبرستان کے بیان میں

تان حضرت کے خیال میں بعض مقامات مق��دس اورمب�ارک ہیں وہ�اں دفن ہون�ا کے گمان میں اچھاہے۔ پر ہ� لوگ اس اصول ہی کے قائ�ل نہیں ہیں کی��ونکہ خ�دا ک�ا

کلام اور عقل انسانی ہمیں اس بات کا قائل ہونے نہیں دیتی ہے۔ مشکوات باب حرم المدینہ میں لکھ��اہے کہ فرمای�ا حض�رت نے )جوک��وئی مکہ

یا مدینہ میں مرجائے قیامت کے دن امن پانے والوں کے ساتھ اٹھیگا۔آاس�کتی کہ ک��وئی جگہ م�ردہ کے ل��ئے فائ�دہ ہم�ارے خی��ال میں یہ ب��ات نہیں بخش زیادہ ہو انسان کےلئے صرف ص���یح ایم��ان مفی��د ہے وہ کہیں مرج��ائے اورکہیں گاڑا ج�ائے خ�واہ کاش�ی میں ی�ا دوار ک�ا میں ی�ا متہ�را میں ی�ا ہم�الیہ میں ی�ا مکہ میں ی�ا

مدینہ میں صرف ایمان سے بچیگا اوربے ایمانی سے ہلاک ہوگا۔

مولوی ثنا اللہ قاضی پانی پتی نے جو عربی کے بڑے فاض��ل مش��ہور ہیں اپ��نیتردہ ک��و دفن کرن��ا نہ آادمی کے قبر کے پ��اس م� یی میں لکھاہے کہ بد کتاب تذکرہ الموتتمردہ اپنے ہمسائے کے مردے کو تکلی��ف دی��ا کرت��اہے۔ روائت ہے کہ چاہیے کیونکہ بد آادمی م��دینہ میں مرگی��ا تھ��ا اور دفن کی��ا گی��ا کس��ی نے خ��واب میں دیکھ��ا کہ وہ ای��ک عذاب میں ہے پھ�ر ہفتہ کے بع��د لکھ��ا کہ ع�ذاب جات�ا رہ��ا جب پوچھ�ا گی�ا کہ ع��ذابآادمی گ��اڑا گی��ا ہے تاس نے کہاکہ میری ق��بر کے پ��اس ای��ک نی��ک کس طرح موقوف ہوا

تاس نے چالیس مردوں کو جو ہمسائے تھے بخشوالیا ہے۔ اسی خیال سے اہل اس��لام اپ��نے م��ردوں ک��و س��یدوں اور مولوی��وں اور فق��یروں اور حافظوں وغیرہ کے ہمس��ایہ میں گاڑن��ا بہ��تر ج��انتے ہیں بلکہ بعض مش�ہور اولی��اؤں کی

خانقاہ کے احاطہ میں بڑی قیمت سے قبریں خریدتے ہیں ۔آارام خدا ک�اکلام ہمیں یہ س�کھلاتا ہے کہ ایمان�دار کی روح اب�راہی� کے پ�اس تاس��ے ق��بر میں چلی جاتی ہے اور شریر کی روح اندھیرے میں رہتی ہے ب��دن خ��اک ہے میں کچھ تکلیف نہیں ہے مٹی ک��و م��ٹی کی��اتکلیف دی گی۔ یہ بہت پران��ا خی��ال ہے ہندو مسلمانوں اور یہودیوں وغ��يرہ لوگ��وں میں پای��ا جات��اہے کہ بعض مکان��ات مت��برک ہیںیی س��ے اور عق��ل س��ے اس ک��ا ثب��وت نہیں ہے س��اری زمین براب��ر ہے کہیں مم الہ مگ��ر کلا

آارام صرف سیدنا مسیح سے پاتے ہیں۔ دفن کرو نجات اورحقیقی ل��وگ قبرس��تان کے ل��ئے اح��اطے بن��اتے ہیں اور زمین تج��ویز ک��رتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ایک ٹکڑا زمین کا اس کام کےلئے جدا ہوئے سو یہ اچھی بات ہے م�مدیتان سے زيادہ اچھی طرح اس کا بندوبست کرتے ہیں۔ بھی ایسا کرتے ہیں اور عیسائی

پینتالیسویں فصلپینتالیسویں فصلقبر کے اندر کا احوالقبر کے اندر کا احوال

اگرچہ یہ بیان عقائد میں داخل ہے پر یہاں مع��املات میں فص��ل گذش��تہ کےساتھ علاقہ کے سبب سے بیان کیا جاتاہے۔

حضرت کی تعلی� س�ے معل�وم ہوت�اہے کہ ق��بر کے ان�در ک�ئی ای�ک ب�اتیں واق��عہوتی ہیں۔

حول تاثیر تلقین: ابو امامہ سے غنیتہ الطالبین میں روايت ہے کہ فرمایا حضرت ا نے کہ مردہ دفن ک��رکے جب س��ب ل��وگ چلے جای��ا ک��ریں ت��و چ��اہیے کہ ای��ک مس��لمانتاس مردہ ک��و پک��ارے کہ اے فلاں ش��خص وہاں رہ جائے اور قبر کے سرہانے کھڑا ہوکے اا اٹھ بٹھیگ�ا پس اس�ے کہن�ا چ�اہیے کہ کہہ اللہ س�ے اوراس��لام س��ے تب وہ قبر میں فورآان س�ے میں راض�ی ہ�وں تب فرش�تے کہ��تے ہیں کہ اب اورم�مد سے اور کعبہ سے اور قر اس سے کیا سوال کرنا ہے سب جواب تو اسے سکھلائے گ��ئے اس ل��ئے وہ چھ��وڑ ک��ر چلے ج��اتے ہیں۔ اس روائت پ��ر کہیں کہیں عم��ل ہوت��اہے ۔ یہ ب��ات کس کی عق��لتردہ ق�بر میں جی اٹھت�اہے اور ص�دہا من م�ٹی کے نیچے دب�ا ہ�وا قبول کرس�کتی ہے کہ م�

باتیں سنتا ہے۔آافت ہے۔ حضرت نے سکھلایا کہ منکر نکیر دو فرشتے دوم منکر نکیر کی تردہ کو اٹھا کے بٹھلاتے ہیں اور سوال کرتے آاتے ہیں اور م ہیں ہر مردہ کے پاس قبر میں ہیں اگر وہ نبوت م�مد کی اقرار ک��رے ت��و چھوڑدی��تے ہیں ورنہ ل��وہی کی م��وگری س��ےتاس ک��ا س��ر ٹک��ڑے ٹک��ڑے ہوجات��اہے پھ��ر س��ر جوڑدی��تے ہیں پھ��ر م��ارتے ہیں ایس��ا کہ موگری م��ار کے ت��وڑتے ہیں اس کے بع��د ش��ریر کے ل��ئے دوزخ کی ط��رف س��ے اورنی��کآارام سے سلاتے ہیں۔ کے لئے بہشت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول کے اس کو

آادمی��وں ک��وڈرا کے اپ��نی ط��رف مت��وجہ یہ بات م�ض دہشت کی ہے اور جاہل کرنے کے ل�ئے ہ� اس ب�ات پ�ر ہ�ر گ�ز یقین نہیں کرس�کتے ہ�اں ش�ریروں ک�و ع�ذاب اور

دکھ ہوتاہے پر روح کو ہوتا جہاں روح گئی ہے قبر کے اندر کچھ نہیں ہوتا ہے۔

آادمی کو ایسا دباتی سوم ضفطہ قبر ہے۔ ضفطہ کےمعنی ہیں دبانا یعنی قبر آاج تاس کی ہڈیاں توڑ ڈالتی ہے اور زمین یوں کہتی ہے کہ تو میرے اوپر چلتا تھا ہے کہ

تجھے میں دباؤں گی۔ کہتے ہیں کہ سعد بن مع��اذ ک��و ج��و ب�ڑا ب��زرگ اص��اب حض�رت ک��ا تھ��ا اور جس کے مرنے کے وقت خدا کا تخت بھی ک�انپ اٹھ��ا تھ��ا اور س�تر ہ��زار فرش�تے اس کے جن��ازہ کے س��اتھ چلے تھے اس ک��و ض��فطہ ہ��وا تھ��ا اور زینب ورقبہ حض��رت کی

بیٹیوں کو بھی ضفطہ ہوا تھا۔تردے ق��بروں میں پ��ڑے ہ��وئے ب��اہر چہارم۔ حضرت م�مد نے سکھلایا ہے کہ م

آاواز سنا کرتے ہیں اور دیکھا بھی کرتےہیں۔ والوں کی عائشہ کی روايت ہے کہ جب تک عمر خلیفہ حضرت کے مقبرہ میں م��دفون نہ ہوئے تھے ۔ عائیشہ کہتی ہے کہ میں کھلے منہ حضرت کی ق�بر پ�ر جای�ا ک��رتی تھی کیونکہ پہلے وہاں صرف حضرت کی اور ابوبکر کی قبر تھی پر جب عم��ر م��دفون ہ��وئےتان کے ل�اظ س��ے اب عائش��ہ ب��رقعہ اوڑھکے ج��انے لگیں اس ل��ئے جو غیر شخص تھے تمردے ق��بروں میں کہ حض�رت نے اپ�نی زن�دگی میں زور کے س�اتھ یہ تعلی� دی تھی کہ

دیکھتےہیں۔ ہ� ج��انتے ہیں کہ دیکھن��ا اور س��ننا یہ روح کے س��اتھ ہے اورم��ٹی میں ک��وئیتمردے دیکھتے س��نتے ہیں پس یہ چ��ار ب��اتیں حس نہیں ہے پھر کیونکر یقین کریں کہ ہر گز قبولیت کے لائق نہیں ہیں اب کیا یہ تعلی� خدا سے ہے ہ�ر گ�ز نہیں یہ ت�و عق��ل س�ے بھی نہیں ہے مگ�ر ن�اواقفی کے انب��ار میں س��ے ہے یہ معل� جب ہم�ارے بہت ہی نزدیک کے واقعات میں ایس��ی غلطی س��ے تعلی� دیت��ا ہے ت��و ع��ال� ب�الا کی ب��ابت اس نے فصیح تعلی� کب دی ہوگی پس کیونکر اس شخص کے ہ��اتھ میں اپ��نی روح ک��و

سپرد کریں۔

چھیالیسویں فصلچھیالیسویں فصلانبیاء و اولیاء کے جس� کی بابتانبیاء و اولیاء کے جس� کی بابت

آاخ�ری فص��ل میں ہے کہ فرمای�ا حض��رت م�م�د نے ت�ذکرہ الم�وتی کت��اب کی انبیاء واولیاء کے ب�دن ق�بر میں س�ڑتے گل�تے نہیں ہیں جس ط�رح س�ے م�دفون ہ�وئے ہیں

تاسی طرح سے زمین میں سلامت ہیں۔آانکہ قی��اس قب��ول حول یہ تعلی� حض��رت کی ص���یح نہیں ہے ک��ئی وجہ س��ے اتردہ بدن ق��بر میں س�لامت رہے اور م�ٹی آادمی کا م نہیں کرتا کہ بدوں کسی مصالح کے آائی ہے بلکہ برخلاف اس کے ظ��اہر ہ��وا نہ ہو اور نہ کبھی یہ بات کسی کی تجربہ میں آائی تھیں ب��دن ث��ابت اور تاس کی ہ��ڈیاں کنع��ان میں ہے یوس��ف پیغم��بر تھ��ا مص��ر س��ے

( اور داؤد پیغمبر کی قبر بے عزتی کی راہ سے ای�ک دفعہ۱۹: ۱۳سلامت نہ تھا)خروج تاس کی لاش بھی س��لامت نہ پ��ائی گ��ئی تھی اور ہ��یرودیس بادش��اہ نے کھل��وا ڈالی تھی

تاس نے سڑن دیکھی ۔۳۹: ۲)اعمال ( میں داؤد کی نسبت لکھاہے کہ آانکہ ) ( داؤد خود فرماتاہے کہ میں تمام جہان کے لوگوں۱: ۲سلاطین ۱دوئ�

( میں ای�وب پیغم�بر کہت��اہے کہ م�یرے م�رنے کے بع��د۲۶: ۱۹کی راہ جات�ا ہ��وں )ای�وب میرے گوشت کو کیڑے کھاجائينگے اورسب پیغمبر ایسی باتیں بول��تےہیں اور مقدس��ین اسی طرح کا خیال رکھتےہیں پھر یہ خیال حضرت م�مد ک�و کی�ونکر قب��ول ہوس��کتاہے

جو صریح غلط ہے۔تاس یی مسیح ہے وہ بھی م�وا تھ��ا البتہ ایک شخص ہے جس کا نام سیدنا عیس کے ب��دن نے س��ڑ ن نہیں دیکھی اور وہ تین دن س��ے زي��ادہ میں بھی نہیں رہ��ا ج��و اب

آاسمان پر زندہ موجود ہے اورہر جگہ حاضر وناظر ہے خدا ہوکے۔آارام ہاں مسیح کے جی اٹھنے کے بعد بہت سی لاش��یں مقدس��وں کی ج��و

آائیں )م��تی ( اس ک��ا یہ مطلب۵۳: ۲۷میں تھیں ق��بروں س��ے اٹھیں اور بہت��وں ک��و نظ��ر

تان کی روحیں خدا کے پاس تھیں نہیں ہے کہ وہ پہلے سے قبروں میں سلامت تھیں تان کے قبروں میں مٹی ہوئے پڑے تھے جب سیدنا مسیح جو کلیسیا کا س�ر ہے اور بدن تاس نے یروش��لی� کے مقدس��وں کے ب��دنوں ک��و جی اٹھا اور قیامت ک��ا پہلا پھ��ل ہ��وا ت��و تان میں ڈالیں اور انہیں اٹھای��ا بھی جو خاک تھے زندگی بخش��ے اورانہیں کی روحیں تاس س��ے یہ نشان دکھلانے کو کہ قیامت اور زندگی سیدنا مسیح ہے قیامت کا ش��روع آائے گا کہ وہ اسی طرح س�ب مردگ�ان ک�و زن�د ک�رے گ�ا پس یہ اورب�ات ہوگیا ہے۔ وقت

ہے۔تاسی تذکرہ الموتی میں لکھا ہے کہ پیغمبر لوگ قبروں کے اندر پھر نماز پڑھا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ص���یح نہیں ہے ۔بےج��ان م��ٹی جس میں نہ فہ� ہے نہ حس وح��رکت ہے کی��ونکر نم��از پڑھ��تی ہے اورالبتہ روحیں پیمغ��بروں کی اور س��ب مقدسوں کی خدا کی تعریف ک��رتی ہیں کی��ونکہ وہ زن��دہ ہیں پ��ر وہ ق��بروں میں نہیں ہیںتمردے خ��دا کی س��تائش نہیں تان کے ب��دنوں کی نس��بت کہت��اہے کہ اور داؤد پیغم��بر

کرتے ہیں۔ یہ تعلی� حضرت کی مقدس لوگ اور پیغمبرق��بروں میں رہ��تے ہیں اور دیکھ��تے وسنتے ہیں درست نہیں ہے اور اسی تعلی� ک�ا یہ ن�تیجہ ہے کہ اہ�ل اس�لام نے ق�بروں کیتبت پرس��تی کی تان سے دعا مانگنا اوروہاں میلے کرن�ا ش��روع کی��ا ہے اور م�ض زیارت اور حالت میں ایک فرقہ اہ��ل اس��لام ک��ا ج�ا پ��ڑا ہے جن ک��و ل��وگ ب�دعتی کہ��تے ہیں پ�ر وہ ب�دعتی کی��ونکر ہیں وہ ت�و م�م�دی تعلی� کے مواف��ق ک��ام ک�رتے ہیں م�یرے گم��ان میں بدعت کا الزام اس فرقہ پر اس قدر عائد نہیں ہوسکتا ہے جس قدر حضرت پر اس تعلی�

کا الزام عائد ہے۔

سینتالیسویں فصلسینتالیسویں فصلمرنے کا اچھا وقتمرنے کا اچھا وقت

اس��ی ت��ذکرہ الم��وتی میں دیلمی سےعائش��ہ کی روایت ہے کہ فرمای��ا حض��رتتاسے قبر میں عذاب نہ ہوگا اور قی��امت میں نے)جو کوئی جمعہ یا جمعرات کو مرے گا آاخ��ر آادمی ماہ رمض��ان میں ی��ا ع��رفہ کے بعلامت شہداء وہ اٹھیگا۔ اسی طرح اگر کوئی میں مرے گا تو بہشت میں جائے گا ۔ یا کوئی نیک کام کرتاہوا مرے گا مث��ل ص��دقہ

یاروزہ یا جہاد یا حج یا عمرہ وغیرہ کرتاہ ہوا۔آادمی کو جمعہ کے دن مرنے سبب سے آاتی کہ ایک یہ بات خیال میں نہیں تاس ث��واب س��ے م���روم رہن��ا پ��ڑے۔ ثواب ملے اور دوسرے کو منگل کے روز مرنے س��ے اا مرجات��اہے پس ام��ور غ��یر آادمی کے اختی��ار میں نہیں ہے جب عم��ر تم��ام ہ��وئی ف��ور مرن��ا اا ناجائز ہے۔ ہاں اگرای�ک نی�ک ک�ام اا ونقل اختیار پر یہ عذاب وثواب کا مرتب ہونا عقل زندہ ایمان کی تاثیر سے کرت�ا ہ��وا ک��وئی مرج��ائے ت�و بظ��اہر اچھی علامت ہے پ��ر س�ب

کےدلوں اور گردوں کا حال خدا جانتا ہے۔آانکہ نہ کسی وقت پر اورنہ کسی مقام پر اور نہ کسی ک��پڑے اور حاصل کلام تبرک کی چیز پر اورنہ کسی عمدہ مقبرہ کے احاطہ میں دفن ہونے س��ے کچھ فائ��دہ ہےآادمی نج��ات پ�ائے گ�ا اس یی کےہ��و مگر صرف ص�یح ایم�ان پ��ر ج�و بم�وجب کلام الہ اچھے اص��ول س��ے ہ� ہ��ر گ��ز نہیں ہٹ س��کتے ہیں اورنہ اس میں ک��وئی اورب��ات داخ��ل کرس�کتے ہیں ورنہ تم�ام سلس�لہ انبی�اء کے ب�رخلاف ہ�ونے پ�ڑے گ�ا اور حض�رت م�م�د

ایسا ہی کرتے ہیں۔

اٹھتالیسیوں فصلاٹھتالیسیوں فصلقبروں کی زیارت کے بیان میںقبروں کی زیارت کے بیان میں

تاس کے حضرت نے شروع میں ت��و ق��بروں کی زی��ارت س��ے من��ع کی��ا تھ��ا مگ��ر تمردوں س��ے کہیں الس��لام بعد حک� دیاکہ قبروں کی زیارت کیا کریں اور قبروں پر جاکر تان کے واسطے دع��ا ک��ریں اور علیک� یا اہل القبور اے قبروں میں رہنے والوت� پر سلا۔ اور

آان کی عبارتیں پڑھ کر انہیں ثواب بخشیں۔ قر یہ تعلی� کہ قبروں میں جایا کریں ایک اور مطلب سے اچھی بات ہے کہ اپنیآاتی ہے اوراپنے احباب رخصت شدہ کی م�بت کا نشان ہے اور خدا کا خوف موت یادتان کے لئے دعا س�ے کچھ فائ�دہ نہیں ہے دنیا کی ناپائداری دل پر تازہ ہوتی ہے۔ مگر تان کےل��ئے ہے اور خ��دا کے تان کا حصہ دنیا سے جات��ا رہ��ا جیس�ی ک��رنی ویس�ی بھ��رنی آادمی تردوں کے ل��ئے دع��ا چ��اہیے یہ ت��و کلام میں کہیں اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ م��

کی ایجادی باتیں ہیں۔تانہیں سلام علیک کرنا گوی��ا کہ وہ حاض��ر ہیں اور س��نتے اوردیکھ��تے ہیں یہ پر

بات خاص م�مدی اصول پر مبنی ہے عقل اورکلام سے اس ثبوت نہیں ہے۔ حض�رت نے اپ�نی ق�بر کی زی�ارت ک�ا بھی حک� دی�ا ہے چن�انچہ مظ�اہر ال��ق باب حرم المدینہ کی فصل ثالث میں لکھاہے من حج فزار قبری بعد موتی کا ن کمنآادمی میری قبر پر زیارت کرنے زارنی فی حیاتی یعنی کعبہ کے حج کے بعد اگر کوئی

آائے گا تو ایسا ہوگا جیسے مجھ سے زندگی میں ملا۔آای��ا وہ ظ��ال� اورای��ک روائت میں ہے جس نے حج کی��ا لیکن م��یری ق��بر پ��ر نہ

ہے۔تاس ک�و دو آای�ا اورایک روائت میں ہے کہ جوک�وئی بع��د حج کے م�یری ق��بر پ�ر

حج کا ثواب ملتاہے۔آانے کی ت��رغیب دی��تے ہیں ۔ خ��دا کے حضرت م�مد اپنی قبر پر لوگوں کو پیغم��بروں نے کبھی ایس��ا نہیں کی��ا س��ب پیغم��بر لوگ��وں ک��و ایم��ان کے وس��یلہ خ��دا کی

طرف بھیجتے ہیں اپنی طرف ہر گز نہیں بلاتے سیدنا مس�یح اپ�نی ط��رف س�ارے جہ��ان کو بلاتا ہے اس لئے کہ سارے جہان کا خدا ہے پر حضرت کا مزاج ہ� ویسے ہی پاتے

ہیں جیسے اور لوگوں کے مزاج ہیں جو اپنی عزت کے طالب ہیں۔

انچاسویں فصلانچاسویں فصلروح کہاں جاتی ہےروح کہاں جاتی ہے

آادمی ت��ذکرہ الم��وتی میں قاض��ی ثن��ا اللہ نے اس ام��ر کی ت�قیق��ات میں کہ آان ح�دیث س�ے ب�ڑی فک�ر کے س�اتھ بہت س�ا بی�ان کی�ا ہے کی روح کہاں جاتی ہے ق�ر

جس کا خلاصہ یہ ہے۔ دومکان ہیں ایک ن�ام س�ب�ین ہے ع��ربی میں س��ب�ن جہلخ��انہ ک�و کہ��تے ہیں

پس سب�ین مبالغہ کے ساتھ بڑا جيلخانہ کافروں کی روحیں اس میں قیدرہتی ہیں۔ دوس��را مک��ان عل��یین ہے علیتہ کی جم��ع ہے بمع��نی اونچی کھڑکی��ا یع��نی

بہشت وہاں مسلمانوں کی روحیں جاتی ہیں۔ ابوداؤد وغیرہ نے ابوہریرہ س��ے روایت کی ہے کہ فرمای��ا حض��رت نے کہ بہش��ت میں ای�ک پہ��اڑ ہے وہ�اں پ�ر مس�لمانوں کے بچ�وں کی روحیں ج�اتی ہیں اوراب�راہی� وس�ارہتان کے وال��دین کے تان بچوں کو آائیگی تو وہ تان کی پرورش کرتے ہیں جب قیامت وہاں

سپرد کردینگے۔ یہ ب��اتیں کلام کے چن��داں خلاف نہیں ہیں حض��رت نے یہ ب��اتیں عیس��ائیوں سے معلوم کرکے اپنے طورپر بیان کی ہیں اور اب��راہی� کے گ�ود میں ج�انے ک��ا ذک��ر )لوق�ا

( میں ہے تو بھی حضرت کے بیان میں کچھ زی��ادتی ہے جوثب��وت کی م�ت�اج۲۲: ۱۶ ہے اور علیین وسب�ین کی بابت ہ� کچھ نہیں کہہ سکتے ضرور دومک��ان ہیں جہ��اں

دو قس� کی روحیں رہتی ہیں۔

یی س��ے ش��یر پی��ا پھ��ر خال��د بن مع��دان کی روائت ہے کہ وہ بچے درخت ط��وب کرتے ہیں۔ شرودنیا میں بچوں کے ناتواں جس� کی پ��رورش ک��ا وس��یلہ ہے نہ روح��وں کیتان کے خ�اک ہوگ��ئے ہیں پ��ر روح کی ع��ذا چ��اہیے جس س��ے اب�د ت�ک روح سو جس���

جئے سو یہ خدا سے ہے نہ بشر سے۔ مک�ول کی روائت ہے کہ مسلمانوں کے بچے بشکل چڑیا بہش��ت میں اڑتے ہیں اورخاندان فرع�ون کے بچے ای�ک س��یارہ رن��گ پرن��دہ کے مواف��ق ہیں ج�و ص�بح وش��ام

دوزخ کے سامنے لائے جاتے ہیں۔تبچ��وں کی عص��مت کے یہ��اں کچھ ح��یرانی ہے کی��ونکہ م�م��دی ل��وگ ک��ل

قائل ہیں پھر فرعون کے بچوں کو تکلیف کی وجہ کیاہے۔ بعض حدیثوں میں ہے کہ مس��لمانوں کی روحیں مث��ل ج��انور کے بہش��ت کےآائینگی ۔ مگ�ر ش�ہیدوں کی روحیں ای�ک درختوں پر اڑتی ہیں قیامت کے دن بدنوں میں س��بز ج��انور کے ش��ک� میں داخ��ل ہ��وتی ہیں اور وہ ج��انور بہش��ت کی نہ��روں کے کن��ارہیی تخت کے تان قن��دیلوں کے درمی��ان ج��و الہ چ��رتے ہیں لیکن رین بس��یرے کے وقت

آاکر بسیرا کرتے ہیں۔ آاویزاں ہیں نیچے تاس نادی��دنی جہ��ان کی اس مع��املہ میں ص��رف ہ� اتن��ا کہے س��کتے ہیں کہ تان باتیں بغیر ثبوت رسالت کے حضرت کی زب��انی کی��ونکر قب��ول کی جاس��کتی ہیں اورتان کے بی��ان میں ہیں ان ب��اتوں ک��ا یقین دل میں پی��دا ہ��ونے نہیں دی��تے کے مبالغے جو ہیں۔ خدا ک��ا کلام یہ س��کھلاتاہے کہ ض��رور مقدس��وں کی روحیں خ��دا کی حض��وریتانہیں کچھ درد ودکھ نہیں ہے خ��دا کی س��تائش اوراس میں نہ��ائت خ��وش ہیں اور تان کےب��دن آائینگی اور تان کی غذا ہے قی��امت کے روز س��ب اپ��نے ب��دنوں میں کا دیدار

نورانی ہونگے اور وہ ابد الاباد خدا کے ساتھ خوشی میں رہینگے۔پچاسویں فصل

بچوں کی موت سے والدہ کو اجر ملنا مشکوات باب البکا میں مسل� سے ابوہریرہ کی روایت ہے فرمایا حض��رت نے )جس عورت کے دویا تین چھوٹے بچے مرجائیں اورم�اں ص�بر ک�رے ت�و وہ بہش��ت میں

جائيگی(۔آانکہ تب��دریج ص��بر اور صبر س�ے م�راد یہ ہے کہ پہلے ص�دمہ پ��ر ص��بر ک��رے نہ

آائے۔ خدا کلا کلام کہتاہے کہ بچے خدا کی بخش�ش ہیں۔ اورجیس��ے خ�دا س�ب کا مالک ہے بچوں ک��ا بھی مال��ک ہے جب ت��ک چ�اہے کس�ی ک��و دنی��ا میں رہ��نے دےآادمی کے بہش��ت میں ج��انے ک��ا ب��اعث نہیں جب چاہے بلالے پس کسی کا مرنا جینا یی ہے صرف مسیح کا مرنا ہم��ارے گن��اہوں ک��ا مارت��اہے اور اس ک��ا جین��ا ہم��ارے ان��در الہآادمی کے دل ک��و زندگی داخل کرتاہے۔ البتہ ص��بر کرن��ا ہ��ر مص��یبت میں مفی��د ہے ج��و

تاس کا بھروسہ جو خدا پر ہے اس کا ثبوت دیتاہے۔ سدھارتاہے اور

اکاون فصلاکاون فصلتمردوں پر رونے کے بیان میںتمردوں پر رونے کے بیان میں

تمردوں پر نوحہ کرنے کومنع کیا ہے مگر رونے س��ے من��ع نہیں کی��ا حضرت نے ہے اور بعض مقام پر حضرت خود بھی روئے ہیں۔

چیخیں مارن��ا اور بی��ان ک��ر ک��ر رون��ا اورحلقہ بن��دی کرن��ا اور ک��پڑے پھاڑن��ا اورچھاتی پیٹنا یہ نوحہ ہے۔

آادمی بھی ایسا کرتےہیں۔ یہ تعلی� درست ہے اور سب ایماندار اور دانا پھر حضرت نے پیشینگوئی بھی کی ہے کہ اگرچہ ایسے رونے سے من��ع ک��ئےتامت کے درمیان سے ایس��ا رون��ا دف��ع نہ ہوگ��ا۔ اوریہ پیش��گوئی س��چ گئے ہیں توبھی میری

تری طرح سے روتے ہیں۔ بھی نکلی ہے جو فراست سے تھی کہ اب تک اہل اسلام ب

تاس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب اس اس درد کے ضبط کی طاقت انسان میں تامید خدا کے وعدوں پر بھروسہ رکھے۔ کا ص�یح ایمان کامل ہو اوراس کی

آادمی کے دل میں س��چے اور زن��دہ امی��د پی��دا نہیں حض��رت کی ش��ریعت کرسکتی ہے ۔اگرچہ قیامت اور بہشت کے وہ قائل ہیں پر قیامت ک��اثبوت جیس�ا مس��یح کی انجیل میں ہے ساری دنی��ا میں کہیں نہیں ہے۔ س��یدنا مس��یح ک��ا جی اٹھن��ا قی��امتآادمی کا کامل ثبوت ہے جس کے حض��رت خ��ود منک��ر ہیں۔ اس ل��ئے مس��ی�ی ش��ریعت کے دل میں قیامت کی پوری امید پیدا کرتی ہے اوراس کے دل کو خدا کے وع��دوں پ��رآادمی احباب کی م��وت کے ص��دمہ قائ� کرتی ہے لہذا سوائے سچے عیسائی کے کوئی تامی��د ہے کہ م��ردوں کی قی��امت پر ضبط کی پوری طاقت نہیں رکھتا ہے اس کی پ��وری آانسو پونچے گا پر عقلی ضبط اور سخت دلی کا ض��بط ی��ا بے ہوگی اور خدا ہمارے اصل بات پر یقین کرکے جو ضبط پیدا ہوتا ہےہاں وہ بھی صبر کا باعث ہے جو سبآادمی کے درمیان پایا جاتاہے پر مس��ی�ی لوگ��وں ک��ا ض��بط قوموں میں سے کسی کسی کچھ اوربات ہے جو نہائت م�مود ہے اورناظرین کتاب ہذا کچھ تھوڑا س��ا فک��رکے اس

بات کو دریافت کرسکتے ہیں۔

چوتھا بابچوتھا بابقصائیص م�مدیہ کےبیان میںقصائیص م�مدیہ کےبیان میں

آان میں کامل طورپر م��ذکور نہیں ہیں کس��ی کس��ی قص��ہ ک��ا م�مدی قصے قر کہیں کہیں ٹکڑا ٹکڑا ملتاہے اور وہ قص�ہ ان ٹک�ڑوں س��ے کام�ل نہیں ہوت�ا ہے م�م��دیوں نے اپنی حدیثوں اور روائتوں سے ان قصوں کے پورا کرنے میں بہت کوش��ش کی ہے اور بہت سی کتابیں اس باب میں تصنیف ہوگئی ہیں اس پ��ر بھی ان لوگ��وں ک��و ک��وئی پ��ورا قص��ہ ص���ت کےس اتھ نہیں ملاہے۔ مگ��ر میں ان قص��وں ک��و ج��و اس ب��اب میں بط��ور خلاصہ کے لکھتا ہے عبدوالواحد بن م�مدن المف��تی کی کت��اب قص��ص الانبی��اء س��ے

آاس��انی ہ��ر کہیں م�ل س��کتی ہے لکھونگا ج��و اس��وقت اس مل�ک کے س��ب لوگ��وں ک�و ب اوراس کے مصنف نے کتب مذکورہ ذیل سے جو بہت معت��بر کت��ابیں ہیں اپ�نی کت��ابترر، زاد المیس��ر، تبی��ان، ج��امع البیی��ان، ک��و م��رتب کی��ا ہے ۔ تیس��یر، کش��اف، کب��یر، د جلالین ، فشیری، مدارک ، نیشا پوری ، مغنی ، لب�اب ، عین المع�انی ، ین�ابیع، ب��ر المواج، بیضاوی، معال�، وسیط، کواش�ی، ع��رایس، زاہ�دی، کش�ف الاس�رار ، تفس�یر یعقوب چرخی، حسینی، بستان فقیہ، ابوللیث، معارج النبوت ، شفا قاض�ی عی�اض ،

شواہد النبوت وغیرہ سے ۔ اس کے س��وا یہ ب��ات ہے کہ یہ قص��ے ج��و اس ب��اب میں لکھے ہیں وہی ہیں جو اس وقت کے اوراگلے زمانہ کے بھی م�مدی عال� اپنے وعظ ونص�یت میں لوگوں

کو سناتے ہیں اور سنتا تھے۔آات��اہے کہ ان ح��دیثوں نے کیس��ی ہمیں ان قصوں کے دیکھنے سے بڑا افس��وس آادمیوں کو ڈالا ہے کہ وہ اص��ل مطلب ک��و چھ��وڑ ک��ر کہ��اں س��ے کہ��اں ج��ا غلطی میں نکلے۔ اگر کوئی شخص ان قصوں کو ص�ت کے ط��ورپر معل��وم کرن��ا چ��اہے ت��و خ��دا کے کلام یعنی بائبل میں ملاحظہ کرے یا ایک کتاب جس کا نام مقدس کت��اب ک��ایی کے موافق خلاص��ہ کے ط��ورپر لکھے ہیں احوال ہے اورجس میں تمام قصص کلام الہ غور سے دیکھے اور سارے م�مدی قصے ج��و اس ب��اب میں ہیں مق��ابلہ ک��رکے غلطی

میں سے نکلے۔

آادم وحوا کا آادم وحوا کاقصہ قصہ آادم کے پیدا کرنے کا ارادہ کی��ا ت�و فرش�توں س�ے کہ��ا میں زمین جب خدا نے پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں فرش�توں نے اس ارادہ پ�ر اع��تراض ک��رکے کہ��ا کی��ا مفس�د اور خ�ونی ک�و پی�دا کرن�ا چاہت�اہے ج�و اب ملا ت� اس بھی��د ک�و نہیں س�مجھتے میں خ�وب جانتا ہوں اس کے بعد خدا نے ساری زمین کے ذروں سے ایک مش��ت خ��اک جبرئی��ل

تاس کی اولاد دوزخ آادم پیدا ہ��و اور بعض سے منگوائی پر زمین نے نہ چاہا کہ مجھ سے آائے میں جائے اس لئے جبرئیل خالی ہاتھ چلا گیا اسی طرح میکائيل اور اسرافیل بھی آاک��ر آاخر کو عزرائی��ل ج��ان نک��النے والا اور زمین کا رونا دیکھ کر خالی ہاتھ چلے گئے زبردستی زمین سے خاک لے گیا۔ تب خدا نے اپنے ہاتھ سے اس مٹی کا چ��الیس ب��رساا یع��نی مجھے آادم بی��دی ارابعین ص��لب� میں خمیر اٹھای حدیث میں ہے خمرت طینتہ

آادم کی مٹی کو چالیس دن میں اپنے ہاتھ سے خمیر اٹھایا ہے۔ خدا نے پھر چ�الیس ب�رس ت�ک اس خم�یر پ�ر خ�دا نے غ� کے س��مندر میں س��ے پ�انیتان کے خم��یر میں خ��دا نے آادمی غمگین رہ��ا ک�رتے ہیں کہ برسایا اسی واس��طے س�ب آادم ک��ا ق��الب بن��ا اور مکہ اور ط��ایف کے درمی��ان رکھ��ا غ� داخل کیاہے۔ اس کے بعد آاتے ج��اتے رہے مگ��ر ش��یطان اس��ے تاسے دیکھنے ک��و گیا چالیس برس تک ہزارہا فرشتے دیکھ کر ٹھٹھ کیا کرتا تھا اس کے بعد خدا نے اس میں روح داخل کرنے کا ارادہ کیا

مگر روح نے تین بار عذر کیا چوتھی بار زبردستی اس میں ڈالی گئی ۔آادم ک��ا آاس��مان پ��ر بہش��ت میں لے گ��ئے وہ��اں فرش��توں ک��ا اور آادم ک��و پھ��ر آادم امت�ان ہوا خدا نے سب چیزوں کے نام فرشتوں س��ے پ��وچھے وہ نہ بتلا س��کے لیکن آادم کو خدا نے سب چیزوں کے نام س��کھلا رکھے تھے۔ اس ل��ئے اس نے بتلادئ��يے )یہ

کا امت�ان ممت�ن کی رعائت سے اچھا ہوگیا(۔آادم ک��و بٹھلای��ا پھ��ر خ��دا نے ع��رش کے براب��ر ای��ک تخت رکھ��وا ک��ر اس پ��ر اورحک� دیا کہ سب فرشتے اسے سجدہ کریں پس س��ب نے س��جدہ کی��ا لیکن ش��یطان نے سجدہ نہ کیا اس لئے ملعون ہوگیا اس نے عذر کیا کہ میں ن�اری ہ��وں اور وہ خ��اکی ہے )اور شائد یہ عذر بھی کیا ہ��و کہ خ�دا کے س��وا دوس�رے ک�و س�جدہ کرن�ا ش�رک ہے

تبت پرستی کرنے کا حک� کیوں دیتاہے(۔ اے خدا تو

آاپ��ڑی تب ش��یطان نے ع��رض کی کہ اا لعنت پ��ر ک��وئی ع��ذر س��نا نہ گی��ا ف��ورتاس��ے مہلت دی مجھے قیامت ت��ک رہ��نے دے اور ابھی دوزخ میں نہ ڈال پس خ��دا نے آادمی��وں ک��و گم��راہ اوراس کی عرض قبول کرلی تب وہ بولا مجھے خدا کی قس� سارے کرکے دوزخ میں لے جاؤ نگا خدا نے کہ�ا م�یرے خ�اص بن�دے گم�راہ نہ ہ�ونگے ۔ اسآای��ا وہ��اں ط��رح ط��رح آادم بادش��اہوں کی ط��رح بہش�ت میں کے بعد ب�ڑی دھ��و دھ�ام س�ے کےمزے اور شراب کباب اور م�ل اورکھانے کپڑے وغیرہ موجود تھے پر ک��وئی ع��ورت نہتاس کی بائیں پسلی س��ے خ��دا نے ع��ورت بن��ائی آادم اسی فکر میں سوگیا تب تھی پس آادم اور ح��وا ک��ا نک��اح م�م��دی دس��تور کے اور وہ بہت خوبص��ورت تھی پھ��ر خ��دا نے

موافق کردیا اور حضرت م�مد پر درود پڑھنا اس کا مہر ہوا۔آادم اور حوا بہشت میں خوشی سے رہتے اور سب چیزیں ک��ام میں لاتے پس تھے اورانہیں حک� تھ��ا کہ س��ب چ��یزیں کھان��ا مگ��ر اس درخت س��ے نہ کھان��ا لیکنآادم وحوا ک��و بہکای��ا تب انہ��وں شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر بہشت میں گیا اور آاک��ر نے وہ درخت بھی کھالیا اوربہشت س��ے نک��الے گ�ئے زمین پ�ر گ�رائے گ��ئے یہ��اں آادم ک��و چن��د کلمے س��کھلائے ان بچے ج��نے لگے اورب��ڑے غ� میں رہے پھ��ر خ��دا نے تن کلم��وں کے بی��ان میں اختلاف ہے کہ وہ کی��ا کے وسیلہ اس کا گن��اہ مع��اف ہ��وا اور ا

کلمہ تھے بعض کچھ بتلاتے ہیں اور بعض کچھ ۔ لیکن ت��وریت ش��ریف میں لکھ��اہے کہ وہ مس��یح کی بش��ارت تھی کہ ت��یریآادم ک��ا بھروس�ہ اس ش�یطان کے س��ر نسل سے شیطان کا سر کچلنے والا پی��دا ہوگ�ا پس تاس��ی س��ے کچلنے والے شخص پر جا ٹھہرا اوریہ بھروسہ مسیح پر ایمان اجمالی تھا

آادم نے نجات پائی نہ قس� قس� کے لفظ پڑھنے سے ۔آادم دنیا میں ہزار ب��رس جی��ا مگ��ر کعب الاحب��ار کے ق��ول کے مواف��ق ۹۳۰پھر

ب�رس کی عم�ر پ�ائی ہے جب پ��انچ ب��رس ک��ا تھ��ا اور اولاد بہت ہوگ��ئی تھی اس وقت وہ

پیغمبر ہوا اس پر ایک کتاب نازل ہوئی جس میں چالیس ص���یفے تھے اور کش��اف میں ح�رف ع�ربی کے بھی اس پ�ر ن�ازل ہ�وئے۴۸ہے کہ دس کت�ابیں اس پ�ر ن�ازل ہ�وئیں اور

مگر اس پرسوائے احکام شریعت م�مدیہ کے عل� طبعی وعل� ہند سہ او رعل� حساب وعل� طب وغیرہ بھی نازل ہوئے تھے اور جن بھوت کے تابع ک��رنے کے من��تر جن��تر بھیآاتش تاترے تھے اور جب قابیل ہابیل کو مارکر کس��ی س��رزمین میں ال��گ ج��ا بس��ا تھ��ا اور آادم نے تاسے نص��ی�ت ک��رنے ک��و گی��ا تھ��ا یی آادم ب�ک� الہ تاس وقت پرست ہوگیا تھا تو اپ��نی اولاد ک��و ای��ک ہزارزب��انیں مختل��ف س��کھلائیں گوی��ا اس��ی وقت س��ے زب��انوں میں اختلاف ہے جب اس کے چالیس ہزار بچے پیدا ہوگ��ئے اور وہ ہ��زار ب��رس ک��ا ہ��وا تب اس

آائی اسو قت ا س نے شیش کو بلا کر نص�یت کی۔ کی موت اول دنیا میں دل نہ لگانا۔

دوم عورت کی بات نہ ماننا۔سوم ہر کام کا انجام سوچ لیا کیجیو۔

تاسے چھوڑ دیا کرنا۔ چہارم جس بات میں شک ہو پنج� ہر کام میں ی�اروں س�ے مش�ورہ کرلین�ا اس کے بع��د حض�رت م�م�د کےتان کی اوص��اف اور ب��زرگی کی بی��ان بھی س��نایا کہ وہ س��ب پیغم��بروں کے س��ردار ہیں فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ میں ای��ک گن��اہ کے س��بب ایس��ی بلا میں مبتلا ہ��وا مگ��رتامت ہزار گناہ کرکے بھی بہشت میں جاسکتی ہے اس کے بعد حضرت م�مد کی آادم سے لے ک��ر تاس میں ایک صندوق نکال لایا اور قفل کھول کر ایک کتاب نکالی بہ ترتیب سب پیغمبروں کا حال لکھا تھا پھر اب��وبکر وعم��ر و علی وحس��ن وحس��ین کا سب احوال سنایا پھر صندوق بند کرکے شیث کو دے دیا اور مرگی�ا اور م�م�دیتاس دستور پر دفن ہوا اس کی قبر سر اندیپ کے ملک میں ہے اور وہاں ای��ک درخت

تاس کے ہ��ر پ��تے پ��ر لا الہ الا اللہ م�م��د رس��ول اللہ ق��درت س��ے کی ق��بر پ��ر کھ��ڑا ہے لکھاہے بادشاہ لوگ وہاں سے پتے منگواکر اپنےخزانوں میں رکھتے ہیں ۔

آایا تھا۔ اا چلا اا بعد نسل اور وہی صندوق بنی اسرائيل میں نسل

جنوں اور شیطان کا قصہجنوں اور شیطان کا قصہآاگ تھی اس میں روش���نی اور ت���اریکی ملی ہ���وئی تھی نارس���موم ای���ک ب���ڑی روشنی سے فرشتے بنائے گئے اوراس تاریکی سے جس میں قدرے ن��ور بھی تھ��ا جن��ات پیدا ہ�وئے یہی ش�یاطین کہلاتے ہیں وہی ابت�دا میں زمین پ�ر رہ��تے تھے جب ث�وابت ک�ا

ہزار تیس برس کا عرصہ پورا ہو تو وہ جنات ش��رارت کے س��بب ہلاک۶ایک دورہ یعنی تان کو خدانے نئی ش�ریعت کئے گئے تو بھی بعض جنات جونیک چلن تھے باقی رہے تان کا سردار مقرر ہوا اسی ط��رح ہ��ر دورہ کے بع��د ش��ریر ل��وگ ہلاک دی اورایک شخص آای��ا ک��رتے تھے جب تان میں بھی رس��ول ہ��وتے گ��ئے اور اچھے جن��ات ب��اقی رہ��تے گ��ئے آاک��ر جن��ات ک��و قت��ل کی��ا مگ��ر چوتھا دورہ پورا ہوا خدا نے فرشتوں ک��و بھیج��ا انہ��وں نے تان کے ل��ڑکے بچے ج��و بعض جن پہ��اڑوں اورجنگل��وں اور جزی��روں میں بھ��اگ گ��ئے تان میں سے ایک جن کا لڑکا جس کا نام عزازیل ہے فرشتوں فرشتوں نے قید کئے تھے آاسمان پر چلا گیا اور وہاں تعلی� پاکر ہوشیار ہ��وا اور عب��ادت بہت ک��رنے لگ�ا کے ساتھ آاس��مان کے فرش��توں نے درجہ ب��درجہ خ��دا پس عبادت کے سبب قید س��ے چھوٹ�ا اورہ��ر آاس��مان ت��ک پہنچای��ا پھ��ر بہش��ت کے درواغہ نے س��فارش س��ے س��فارش ک��رکے س��اتویں کرکے بہشت میں بلوایا وہ وہاں جاکر فرشتوں کا معل� بنا اور فرشتوں کو وع�ظ نص�ی�ت کیا کرتا تھا اوراس کا ممبر خدا کے تخت کے نیچے تھا )مگر بعض م�م��دی اس��کوتان بھ��اگے ہ��وئے جن�ات کی اولاد پھ�ر زمین پ�ر اص�لی فرش�تہ کہ�تے ہیں (۔ اس اثن�ا میں زیادہ ہوگئی تب یہ عزازیل دنیاوی جن�ات کی تعلی� کے واس�طے بط�ور رس�ول کے زمینآای��ا مگ�ر نص��ی�ت ک��رنیکے س��بب اس کے س�اتھی ک��ئی ای��ک جن��وں کے ہ��اتھ س��ے پر

م��ارے گ��ئے اس ل��ئے عزازی��ل نے فرش��توں س��ے م��دد لے ک��ر جہ��اد کی��ا اور بہت جن��اتتاس�ے تاس وقت سے خدا نے اس شیطان کو زمین پ�ر بادش�اہ مق�رر کردی�ا پ�ر مارے گئے آادم کی اپ��نی عب��ادت اور عل� ک��ا غ��رور ہوگی��ا اوراس��ی وقت س��ے وہ لعن��تی تھ��ا مگ��ر

نافرمانی کے وقت وہ لعنت ظاہر ہوئی ۔

میثاق کا قصہمیثاق کا قصہآادم میثاق کے معنے عہد اور اقرار کے ہیں تفسیر مدارک میں ہے کہ خ��دا نے کو پیدا کرکے بہشت میں داخل ہونے سے پیشتر بہشت کے دروازہ کے سامنے یہ اق��رار لیا۔ یا مقام نعمان س�اب میں اقرار لیا وہ عرفات کے نزدیک مکہ میں ہے ی��ا مق��ام نہ��ار میں لیا جو ہندوستان میں کوئی جگہ ہے اور معال� میں ہے کہ بق��ول ام�ام کل��بی مکہ اور طائف میں یہ اقرار لیا گیا مگر معارج النبوت میں ہے کہ بہش��ت س��ے نکل��نے کے بع��دآادم مکہ میں حج ک��رنے ک��و گی��ا یہ اقرار لیا گیا اور صورت اق��رار کی ی��وں ہ��وئی کہ جب تاس تھا تو کوہ عرفات کے پیچھے وادی نعمان میں سوگیا خدا نے اپنی قدرت کا ہ��اتھ آادم کے عہد سے قیامت تک پیدا ہونگے سب آادم زاد جو اا تمام کی پشت پر لگایا فورتاسی وقت جوان باعق��ل کے سب بشکل چیونٹی ترتیب تولید کے موافق باہر نکل پڑے اور بالغ ہوگئے تب خدانے سب سے پوچھا کی��ا میں تمہ��ارا رب نہیں ہ��وں وہ ب��ولے ہ��اں ت��و ہمارا رب ہے پس اقرار یہ تھاکہ میں تمہارا خدا ہوں ت� م��یرے بن��دے ہ��و اور س��ب نےتاس ک��ا لے پتھ��ر ک��و ج��و کعبہ میں ہے آادمی��وں س��ے لے ک��ر قبول کیا اوریہ اقرار خدا نے سپرد کردیا اور خدا نے سب سے کہا کہ ت� مجھے اس وقت سجدہ کرو اورکالے پتھ��ر کے ہاتھ لگاؤ مگر بعضوں نے سجدہ کیا اور بعض نے نہ کیا یہ پہلا س�جدہ ہ��وا پھ��ر دوسرے سجدہ کے وقت بعض نے ج�و پہلے نہ کی��ا تھ��ا پچھت��ا ک�ر دوس��را س�جدہ کی��اتان میں سے بعض نے جو پہلے کی��ا تھ��ا دوس��را نہ کی��ا اس ل��ئے چ��ار قس��� کے ل��وگ اور

حول جنہوں نے ہ��ر دوس��جدے ک�ئے وہ ایمان�دار ہ��وکر جی��تے اورایم��ان س��ے م�رتے ہوگئے اہیں۔

دوم و ہ جہنوں نے نہ پہلا کیا نہ دوسرا وہ جیتے مرتے کافر ہیں ۔ سوم وہ جنہوں نے پہلا سجدہ کیا اور دوسرا نہ کیا وہ ایماندار ہوکر جی�تے ہیں پر کافر مرتے نہیں۔ چہارم وہ جنہ�وں نے پہلا نہ کی��ا پ�ر دوس��را کی�ا وہ ک�افر ہ��وکر جی�تے ہیں اور ایمان سے مرتے ہیں۔ اس کے بعد سب طرح کے کام اور پیشے اور ہنر ج�و دنی�ا میں ہیں دکھلائے گئے جس نے جو پسند کیا وہ اس کا کام ہوگیا پھر س��ب پ��ردہ غیبآادم کی پش��ت میں پھ��ر گھس گ��ئے جہ��اں س��ے نکلے تھے گوی��ا میں غائب ہوگ��ئے ی��ا ایک جن� لے چکے اب دوسرے جن� میں اسی معاملہ کے موافق ہوکر مرتے جاتے ہیں۔

شیث کا قصہشیث کا قصہتاس کی تاس ک��ا حک� تھ��ا آادمی��وں اورجن��وں پ��ر آادم کے بع��د ش��یث پیغم��بر ہ��وا تان میں عل� آادم کے تھی اوراس پ��ر پچ��اس کت��ابیں ن��ازل ہ��وئیں ش��ریعت مث��ل ش��ریعت یی اور حکمت اور ریاض��ی یع��نی ہندس��ہ ، ہیت حس��اب او رعل� موس��یقی اور عل� الہ عل� صنائیع مشکلہ مثل اکسیر وکیمی��اگری وغ��یرہ کے مرق��وم تھ��ا اور ش��یث مل��ک ش��امتاس نے شادی کرنا چاہا تو ای�ک نہ�ائت خوبص�ورت ع�ورت س�ے ج�و میں رہتا تھا جب تاس کے تاس نے تبرج میں تاس کا نک��اح ہ��وا اورای��ک ی��اقوت وزم��رد کے مثل حوا کے تھی

ساتھ خلوت کیا۔آای��ا بعض کہ��تے ہیں کہ وہ تاس ع��ورت کے ش��ک� میں اسی وقت نورم�مدی تاس سے انوش پیدا ہوا اور ش�یث س�ات س��و ب�رس ک��ا ہ��وکر عورت جنات میں سے تھی اور

ب��رس۹۰۵مرگیا اس کا بیٹا انوش جب نوے برس کا ہوا اس سے قینان پیدا ہوا اور ان��وش ب�رس۹۱۰ یا ۸۴۰ برس کا ہوا اس سے مھلا ایل پیدا ہوا وہ ۷۰کا ہوکر مرگیا جب قینان

تاس کے تاس نے بنای�ا آابس�ا تھ��ا او ش�ہر س�بوس ک�ا ہ��وکر م�را یہ مہلای�ل مل�ک باب�ل میں دوبیٹے پیدا ہوئے بیازا واخنوخ۔

قصہ ادریسقصہ ادریستبت پرستی ک�ا ش�روع ہ��وا مگ�ر اخنوخ کو ادریس کہتے ہیں اس کے زمانہ میں یی س��ے ظ��اہر ہے کہ طوف��ان آاتش پرست ہوگیا تھا( اور کلام الہ پہلے بیان ہوچکا کہ قابیل تبت پرس��تی نہ تھ مگ��ر نفس��انی خواہش��وں تبت پرستی جاری ہوئی پہلے کے بعد دنیا میں کی ل��وگ پ��یروی ک��رکے ہلاک ہ��وئے تھے ۔ ادریس پ��ر تیس کت��ابیں ن��ازل ہ��وئیں او رعل�

آادم۴۸نجوم اس نے ظاہر کیا سب سے پہلے قل� سے خط اس نے لکھا مگ�ر ح�رف پر نازل ہوئے تھے( انگریزی کا پیشہ اورہتھیار بن��انے ک��ا ط��ور اورجہ��اد میں غلام پک��ڑنے ک��ا دس��تور اس��نے نک��الا اور روئی ک��ا ک��پڑا اس نے نک��الا اور وہ جی��تے جی بہش��ت میں

اٹھایا گیا۔

ہاروت ماروت کا قصہہاروت ماروت کا قصہآادمیوں کو کی��وں پی��دا ادریس کے زمانہ میں فرشتوں نے خدا سے کہا کہ تونے آادمی��وں کے ہ��وتے ت��و گن��اہ نہ کیا دیکھ وہ کیسے گناہ کرتے ہیں اگر ہ� دنیا میں بجائے کرتے خدا نے کہا اگر تمہارے اندر شہوت اور ہوائے نفس ہ��و ت��و ت� بھی گن��اہ ک��روگےآازم�ائش کے وہ بولے ہ� ہرگز نہ کرینگے غرض دو فرشتے جن کانام ہاروت وماروت ہے آائے دن بھ��ر زمین پ��ر رہ��تے تھے رات ک��و اس��� اعظ� کے لئے کمربستہ ہوئے اور زمین پ��ر آاسمان پر اڑجاتے تھے ایک دن ایک بڑی خوبصورت عورت جس کا نام زھرہ تھ��ا وسیلہ تبت کو سجدہ کرو اور م��یرے آائی وہ عاشق ہوگئے عورت بولی اگرمیرے تان کے سامنے خص� کو قتل ک�رو اور مجھے اس�� اعظ� س�کھلاؤ اورای�ک پی�الہ ش�راب ک�ا پی ل�و ت�وتانہوں نے سب کچھ کیا وہ ع��ورت بع��د زن��ا کے اس��� اعظ� کے تمہاری ہونگی غرض آاج تک زہ��رہ س��تارہ کہلاتی ہے مگ��ر وہ فرش��تے آاسمان کو اڑگئی اور ستارہ بن کر سبب

گناہ کے سبب اڑ نہ سکے ۔ غرض وہ فرشتے بابل میں کسی ک��وئے کے ان��در بن��د ہیںتان کو بڑی مار پڑتی ہے وہ قیامت تک م��ار کھ��ائینگے بع��د قی��امت کے بہش��ت میں اورتان ک��ا ع��ذاب دنی��ا میں پ��ورا ہوج��ائے گ��ا ۔ کہ��تےہیں کہ ای��ک چلے ج��ائینگے کی��ونکہ تان کو تاس نے اندر جھانک کر دیکھا تو تاس کنوئے پر گیا تھا جب م�مدی شخص بڑے عذاب میں پایا اندر سے فرشتے بولے تو کون ہے جو اوپر س��ے دیکھت��اہے وہ ب��ولاتامت ک��ا تب وہ فرش��تے ب��ڑے خ��وش ہ��وئے اورکہ��ا کہ آادمی ہ��وں حض��رت م�م��د کی حضرت م�مد دنیا میں پیداہوگئے ہیں کہا ہاں توکہ��نے لگے کہ اب مخلص��ی ک��ا دنتاس کنوئے پ��ر ج��اکر آاگیا۔ کہتے ہیں کہ لوگ آاخری پیغمبر دنیا میں آایا کیونکہ نزدیک

آان میں بھی ذکر ہے۔ تان فرشتوں سے جادوگری سیکھا کرتے ہیں چنانچہ قر

قصہ نوحقصہ نوحتاس کے زمانہ میں کف��ر بہت پھی��ل گی��ا اور قابی��ل کی اولاد نوح بڑا پیغمبر تھا تبت تھے ودمرد کی شکل سواع ع��ورت کی ص��ورت تان کے پاس پانچ تبت پرست ہوگئی یغ��وث گ��ائیں کی ش��کل یع��وق گھ��وڑے کی ص��ورت نس��ر ک��ر گس کی مانن��د۔ مگ��رآادمی زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ یہ پانچ یعنی ودسواع یغوث یعقوق ، نس��رپانچ نی��ک آادم اور نوح کے درمیان کسی وقت ہونگے لوگ پ��یروں کی ط��رح ان کی تعلی� تھے جو تان کی شکلیں پتھر کی بنا کر ل��وگ پوج��نے لگے تعظی� کرتے تھے جب وہ مرگئے تو

تبتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ اور عرب میں بھی انہیں پانچ کہتے ہیں کہ شیث کی اولاد ج��و خ��دا پرس��ت تھی وہ کوہس��تان میں رہ��تی تھی اور قابیل کی اولاد شہروں میں بس�تی تھی قابی�ل کی اولاد میں ع�ورتیں حس�ینتبت پرس��ت عورت��وں س��ے ش��یث کی اولاد نے اور خوبص��ورت تھیں پس ان خوبص��ورت تبت پرس��توں تبت پرستی پھیل گئی۔ نوح ان سب تان میں بھی میل ملاپ کیا اس لئے کو منع کرتا تھا پر وہ نہ م��انتے تھے بلکہ ن��وح ک��و بہت دکھ دی��تے تھے ۔ پس ن��وح

تان ک�و طوف��ان س��ے ہلاک کرونگ�ا اور تان کو بد دعا کی خدا نے وع��دہ کی��ا کہ میں نے تاس نے سال کی لکڑی سے کش��تی بن��ائی گ��ز۶۶۰نوح کو کشتی بنانے کا حک� دیا

تاس میں تین طبقے تھے نیچے چار پایوں ک��ا بیچ میں پرن��دوں ک��ا۳۳۳لمبی گزچوڑی آادمی��وں ک��ا طبقہ تھ��ا۔ کش�تی کے تخت��وں پ��ر س��ارے پیغم��بروں کے ن�ام اور حض��رت اوپر تان کے چار خلیف��وں کے ن�ام بھی لکھے تھے مگ�ر ط��ول ع�رض میں اختلاف م�مد اورآای�ا اور ش�یطان بھی گ�دھے تاس میں یی ہے کہ کس قدر تھا۔ ہر جانور کا جوڑا ب�ک� الہتاس نے کہ��ا کہ تاس��ے س�مجھایا کہ توت��وبہ ک��ر تاس میں جا بیٹھا نوح نے کی دم پکڑ کر آادم کی لاش کا ص�ندوق بھی ن�وح نے ق��بر نک�ال ک�ر کش�تی میری توبہ قبول نہ ہوگی تاس آادم کے صندوق ک��و س��جدہ ک��رے ت��و میں رکھ لیا تھا خدا نے کہا اگر شیطان تاس��ے آادم جیتا تھا تو میں نے کی توبہ قبول ہوسکتی ہے مگر شیطان بولا کہ جس وقت تاس کی مٹی کو کیوں س��جدہ ک��روں پس ن��وح چپ ک��ر گی��ا۔ پھ��ر سجدہ نہ کیا اب

ش�خص بیٹھ گ�ئے مگ�ر ن��وح ک�ا ای�ک۸۰ ی�ا ۷۸ یا ۲۰ یا ۱۰ یا ۸کشتی کے درمیان آای��ا وہ ک��افروں کے س��اتھ م��را بیٹا جس کا نام کنعان تھا نوح کے ساتھ کش��تی میں نہ تاس میں تھا آایا اور چالیس دن رات پانی برسا ایک برس کا کھانا اس کے بعد طوفان آائے تھے وہ کش�تی میں س�ورج آاس��مان س��ے سب کھاتے پیتے رہے۔ اور دوگوہر نورانی وچاند کا کام دیتے تھے لیکن کشتی میں گندگی بہت جمع ہوگئی تھی اوربڑی بد بواا تاس نے ہ��اتھ لگای��ا ف��ور تدم ک��و ہ��اتھ لگ��ا جب آائی کہ ہ��اتھی کی اٹھی نوح پر وحی تاس دم میں سے نکلی اور سب گندگی کھاگئی۔ حک� تھا ایک سور اورایک سورنی کہ کہ کوئی جاندار کشتی میں اپنے مادہ سے ہمبستر نہ ہو مگر چ�وہے نے نہ مان�ا اور چوہی سے مل گیا اس لئے بہت چوہے ہوگ�ئے اور کش�تی میں س�وراخ ک�رنے لگےاا بلی��اں نکلیں اور تب خدا نے کہا کہ شیر کے ماتھے پر ہاتھ لگا جب ہاتھ لگایا ف��ور چوہوں کو کھاگئیں کشتی پانی پر چھہ مہینے تک پھ��رتی رہی جب طوف��ان تم��ام ہ��وا

تو وہ کوہ جودی پر کش�تی ٹھہ��ری اورای��ک مہی��نے ت�ک وہ��اں رہے تب ن�وح نے ای�ک کاگ اڑایا کہ خشکی کی خبر لائے مگر وہ ک� بخت کاگ مردار کھ��انے ل��گ گی��اتاس نے کبوتر کو اڑایا وہ زیتون ک��ا پتہ منہ میں لای��ا آایا تب کشتی میں خبر لے کر نہ تاترا اورایک شہر بنای��ا جس ک��و س��وق الثم��انین کہ��تے ہیں جب زمین خشک ہوگئی نوح آاٹھ تاس کے ل�ڑکے اور ج�ورو یع�نی وہاں نوح کے سب ساتھی مرگ�ئے ص�رف ن�وح اور شخص باقی رہے ۔ تب نوح نے عراق اور فارس وخراسان کا ملک اپنے بی��ٹے س��ام کو بخشدیا اور حبش وہندوستان حام کو دیا اور چین وترکستان یافت ک�و دی��ا پھ��ر ن�وح

برس نصی�ت کرتا رہ��ا پھ��ر طوف��ان کے۹۵۰ برس کی عمر میں پیغمبر ہوا ۱۵۰مرگیا تاس کی ۶۰۰بع��د ۱۵۰۰ ب��رس کی ہ��وئی اور بعض ۱۷۰۰ ب��رس اور جی��ا س��اری عم��ر

برس کی بتلاتے ہیں۔ تاس کی اولاد میں۵۰۰نوح کے بعد سام پیغمبر ہ��وا اور ب�رس ک��ا ہ��وکر مرگی�ا

اکثر پیغمبر اور الیاء وحکماء وسلاطین پیدا ہوتے ہیں۔

قصہ عوج بن عنق کاقصہ عوج بن عنق کاآادم کی بیٹی تھی اس کا نام عنق تھ��ا تاس کی ماں جو آادم کا نواسا تھا عوج آای��ا اورکہ��ا مجھے بھی کش��تی میں بٹھلا جب کشتی تیار ہ��وئی ت��و ع��وج ن��وح کے پ��اس نوح نے کہا کافر کے لئے کشتی میں جگہ نہیں )مگر شیطان جو کافروں کا باپ ہے اس کے لئے کشتی میں جگہ تھی( پس ع��وج لاچ��ار ہ��وکر چلا گی��ا۔ س��اری دنی��ا غ��رق ہوکر مرگئی مگ�ر ع�وج نہ م�را۔ مع�ال� میں ہے کہ طوف�ان ک�ا پ�انی پہ�اڑوں پ�ر چ�الیس گ�زتاس ق��در آای��ا تاس کے زان��و ت��ک بھی نہ تک چڑھا تھا پر ع��وج ایس��ا لمب��ا تھ��اکہ وہ پ��انی

آاتے تھے سمندر کی تھ��اہ۳۳۳۳ تاس کی کمر تک گز سے کئی مشت زیادہ تھا بادل آاسمان کے طرف سورج کے نزدیک ہ��اتھ بڑھ��اکر میں ہاتھ ڈال کر مچھلیاں پکڑتا تھا اوریی کے زمانہ ت��ک جی��ا کباب کرلیتا تھا اورکہا جاتا تھاکہ یہ اکیلا طوفان میں بچا اورموس

یی کے ہاتھ سے مارا گیا اس کی عمر تاس کی م��اں بھی۳۶۰۰بلکہ موس برس کی ہوئی تاس کی ہرانگشت گ��ز کی تھی اور۳بڑی موٹی تھی ایک جریب زمین پر بیٹھتی تھی

دو دو ن��اخن ہ��ر ای��ک انگش��ت پ��ر مث��ل دودران��تے کے تھے اور س��ب عورت��وں میں ج��وبدکار ہیں وہ پہلی عورت ہے۔

قصہ ہود کاقصہ ہود کا ہود ایک پیغمبر تھا سام کی دوسری ی�ا چھ��ٹی پش�ت میں اس ک�ا نس�ب ن�امہ ملتاہے اور سام کی چوتھی پشت میں ایک اور شخص تھا جس کا نام عاد تھا اس کی اولاد بکثرت تھی اوران کو قوم ع��اد کہ��تے تھے اور وہ ب��ڑے طوی�ل ل��وگ تھے زي��ادہ س�ے

گ�ز کے۸۰ ی�ا ۶۰ ی�ا ۱۶ گ�ز لم�بے تھے او رک� س�ے ک� ۱۲۰ گز یا س�و ی�ا ۶۰زیادہ تبت پرست تھے حضرت ہ��ود ہوتے تھے شہر حضرموت سے عمان تک وہ رہتے تھے اورآائے پ��ر انہ��وں نے ہ��ود کی ب��ات پ��ر یقین نہ کی��ا ت��وبھی بعض انہیں نص��ی�ت ک��رنے ک��و اشخاص ایمان لائے پر کافروں نے ہود کو قتل کرنا چاہا اس لئے ہ��ود نے ب�ددعا کی ت��و

۷ ب��رس ی��ا ۳پانی برسنا بند ہوگیا اور سب چشموں اور کوؤں کا پانی بھی خشک ہوگیا آاخر ک�و انہ��وں نے لاچ��ار ہ��وکر مکہ کی ط��رف جہ��اں عم��الیق برس ق�ط میں مبتلا رہے بستے تھے ایک جماعت ک�و روانہ کی�ا ت�اکہ مکہ میں ج�اکر پ�انی کے ل�ئے دع�ا ک�ریںآاکرقربانی کی اوراس کا سردار جس کا نام قیل تھ��ا دع��ا پس اس جماعت نے مکہ میں آائی کہ اے آاواز آائے س�فید اور س��یاہ اورس�رخ اور تاس وقت تین ب�ادل مکہ میں ک�رنے لگ�ا قیل تو کونسا بادل پسند کرتاہے کہ تیرے ملک پر بھیجا جائے اس نے کہا س��یاہ پس سیاہ بادل اس طرف روانہ ہوا ہود اس بادل کود یکھ کر ایک دائرہ میں اپ��نے لوگ��وں ک��وتاس ب��ادل س��ے س��انپ اور بچھ��و اس ق��در لے بیٹھ��ا ی��ا کس��ی جزی��رے میں چلا گی��ا تب تان کے س��ب نکلے کہ اس قوم کے سب راستے بن��د ہوگ��ئے اور ہ��وا ایس��ی تن��د چلی کہ

گھر گر پڑے اس طرح سب ہلاک ہوئے۔

قصہ شدید وشداد کاقصہ شدید وشداد کا ع��اد م��ذکور کے دوبی��ٹے تھے ش��دید ش��داد یہ دون�وں بادش��اہ ہ��وئے تھے ش��دید سات برس کے بعد مرگیا اور شداد دو سلطنتوں کا مالک ہوا اور وہ کیمی��ا گ��ربھی تھ��ا۔آای�ا اورکہ�ا خ�دا نے تجھے ہ�زار ب�رس کی عم�ر دی ہے اور ہ��زار خ�زانے ہ�ود اس کے پ�اس بخشے اور ہزار عورتیں تجھے ملیں اور ہ�زار لش�کر بھی ت�ونے م�ارے اب ایم�ان لا ت�اکہآاپ ای�ک اس کا دونا تجھے ملے اور بعد موت کے بہشت میں جائے اس نے کہ��ا میں بہش��ت بناس��کتا ہ��وں مجھے خ��دا کی بہش��ت کی ح��اجت نہیں ہے پس اس نے زمین ع��دن میں ای��ک بہش��ت بنایانہ��ائت نفیس اوربہت س��ے بادش��اہوں نے اس ام��ر میں اس کی مدد کی جب وہ تیار ہوا اور خوبصورت لڑکے اور لڑکیاں بج��ائے ح��ور غلم��ان کےآایا مگ��ر ان��در داخ��ل نہ ہ��ونے پای��ا اس میں چھوڑے گئے تب وہ اپنا بہشت دیکھنے کو تاس کی جان نکالی وہ اپنے بہشت کی سیر نہ کرسکا یہ کہ عین دروازہ پر فرشتے نے یی کرتا تھ��ا۔ بعض مس��لمان کہ��تےہیں کہ خ��دا نے اس شداد بڑا کافر تھا خدائی کا دعوآاس�مان پ�ر اٹھالی�ا مگ�ر ص��یح یہ ہے کہ وہ برب�اد ہ�وا ی�ا زمین بہشت کو پسند کرکے

برس کا ہوکر مرگیا۔۴۶۴نگل گئی اورہو دبھی

قصہ صالح پیغمبر کاقصہ صالح پیغمبر کا صالح پیغمبر نوح کی پانچویں یانویں پشت میں پیدا ہوا اور قوم ثم��ود ک��و ج��وآاخر کو اس ق��وم نے ص��الح تاسی کے خاندان سے تھی ہدائت کرتا تھا پر وہ جانتے تھے آاک��ر ای��ک اا ب��اہر سے کہا کہ اگر اس بڑے پتھر میں سے ایک اونٹنی ابھی نکلے اورف��ورتان کی بچہ دے ت��و یہ معج��زہ دیکھ ک��ر ہ� ایم��ان لائینگے پس ص��الح نے دع��ا کی اور

گ��ز کی تھی۱۲۲خواہش کے موافق اونٹنی نکلی جو ایک پہلو سے دوسرے پہلو ت��ک اوراس نے اپنے برابر کا ایک بچہ اسی وقت جنا پر لوگ یہ دیکھ ک��ر بھی ایم��ان نہ لائے

آادمی ایمان بھی لائے۔ بلکہ اسے جادوگر بتلایا مگر تھوڑے سے اب وہ اونٹ��نی جنگ��ل میں معہ بچہ کے چ��را ک��رتی تھی اور تم��ام جنگ��ل ک��ا گھاس کھا جاتی تھی اور وہاں ایک ہی کنواں تھا جس سے سات قبیلہ پانی پیتے تھے مگر وہ اونٹنی سارا پانی ایک ہی دن میں پی جاتی تھی اس لئے لوگ دکھ میں پڑگئے آاخر کو یوں ٹھہری کہ ایک روز سب لوگ پانی بھریں اورایک رواز اونٹ��نی پ��ئے وہ س��ب اس فیصلہ پر راضی ہوئے ۔ مگر اونٹنی جو دوس��رے روز ای��ک کن��وا پی��تی تھی اس��ی ق��در دودھ بھی دیتی تھی اور سب ش��ہر والے اس کے دودھ س��ے مش��کیں بھ��ر بھ��ر لےج��اتےتاون ف�روخت ک�رکے ب�ڑے دولتمن�د بھی ہوگ�ئے تھے چ�ار تھے اوراس کا گھی اور پن�یر اور سوبرس اسی طرح اونٹنی سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن تکلیف یہ تھی کہ جو ایک پہاڑ س��ا پھرتا تھا ڈر ڈر کر نہائت لاغر ہوگئے تھے اور بھاگتے پھرتے تھے۔ وہ��اں وہ خوبص��ورتتان کے بہت مویش���ی تھے اس ل���ئے وہ اس اونٹ���نی س���ے تکلی���ف ع���ورتیں بھی تھیں تان آائے عورت��وں نے تان عورت��وں کے عاش��ق دو ش��خص ب��دکار وہ��اں اا رس��یدہ تھیں اتفاق�� سے کہ کہ ہ� ت� سے نکا ح کرینگی اگ�ر ت� اس اونٹ��نی ک��و م�ا ر ڈال��و پس وہ دون��وںآائے جب اس اونٹنی نے کنوئیں میں گ��ردن ڈال ک��ر شراب میں بدمست ہوکر کنوئے پر اا مارلی�ا اور گوش�ت تاس کے پ�یر ک�اٹ ڈالے اور ف�ور تان شخص�وں نے پانی پینا شروع کی�ا

تاس��ی پتھ��ر میں گھس گی��ا ی��ا تاس کا بچہ بھی ی��اتو م��ار کھای��ا اا کھالیا تقسی� کرکےفورآائے گ�ا آاس�مان پ�ر اڑ گی�ا۔ تب ص�الح نے خ�بردی کہ تین روز بع��د خ�دا ک�ا قہ�ر ت� پ�ر پہلے دن زرد دوسرے دن سرخ تیسرے دن س��یاہ تمہ��ارے منہ ہ��ونگے اس کے بع��د ت�آاک��ر ای��ک ایس��ی چیخ سب مر جاؤ گے پس اسی طرح ہوا کہ تیسرے دن جبرئيل نے

ماری کہ خوف کے مارے سب کی جان نکل گئی۔

قصہ ابراہی�قصہ ابراہی� ابراہی� ہو دکی پانچویں پشت اور سام کی چھٹی پشت میں ہے نمرود بادش��اہتان کی س��لطنت تھی کےعہد میں تھا ۔ چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں کہ ساری زمین پ��ر تان میں دو ایماندار اور دوکافر تھے ایک سکندر دوسرا سلیمان تیس�را بخت نص�ر چوتھ��ا نم��رود پ��ر بعض بج��ائے نم��رود کے ش��داد ک��و ب��ڑا بتلاتے ہیں نم��رود کی مملکت میںتاس کی دارالس�طلنت تھی وہ��اں جادوگری اور شعبدہ بازی کا بڑا چرچا تھ��ا جس جگہ تاس نے کس�ی ش�ہر کے پر کس�ی م�وذی ج�انور وحش�رت الارض ک�و بھی دخ�ل نہ تھ��ا آاتا تھا کہ جو دروازہ پر ایک حوض بنایا تھا سال میں ایک دفعہ وہاں معہ رعیت کے آاتے اپ��نے اپ��نے آائے اپ��نے واس��طے کچھ پی��نے کی چ��یز س��اتھ لائے جب وہ ک��وئی تاس ح��وض میں ڈال مشروبات ہمراہ لاتے تو حک� دیت��ا تھ��ا کہ س��ب ل��وگ اپن��ا مش��روب آام�یز ہوج�ائیں بع�د اس کے کھان�ا کھلاک�ر راگ س�نواتا تھ��ا دیں تاکہ سب مشروبات پھر حک� دیتا تھا کہ حوض میں سے شراب نکا ل کر سب ک��و دیں جب وہ��ا ں س��ےآاتا تھا یہ اس کا شراب نکالتےتو ہر ایک کا مشروب قدرت سے جداجدا ہوکر نکل معج��زہ تھ��ا۔ اور ای��ک اور ح��وض تھے اس میں زمین کے س��ارے ش��ہر دکھلائی دی��تےتاس�ے غ�رق کردیت�ا تھ�ا۔ تاسی حوض سے پانی نکا ل کر تھے جس شہر پر خفا ہوتا تھا تاس کے ش��ہر کے دروازہ پرظلس��� کی ای��ک بطخ ب��نی ہ��وئی تھی جب ک��وئی اجن��بی اوراا عہ��دداروں ک��و اطلاع ہوج��اتی تھی کہ آات��ا وہ بطخ چلاتی تھی ف��ور مس��افر ش��ہر میں

آای�ا ہے۔ ہ��ر ش�ہر کے دروازہ پ�ر ای�ک طلس�� ک�ا طلبہ کوئی اجنبی شخص ش��ہر میں تاس طبلہ سے آاکر طبلہ بجاتا تھا تب رکھا تھا جس کے گھر میں چوری ہوجاتی تھی وہ آاواز نکل��تی تھی کہ ت��یرا م��ال فلاں جگہ رکھ��اہے اور فلاں ش��خص نے چ��ور ای��اہے پساا گرفتار ہوجاتا تھا۔ اور ہر شہر کے دروازہ پر ایک ایسی عجیب چیز بنا رکھی چور فورتاس ک�ا پتہ نش�ان نہ ملت��ا ت�و اس تھی کہ اگر کوئی شخص مفقود یع��نی گ� ہوجات��ا اورتاس سے اس گ� شدہ کانشان پوچھ��تے چیز کے سامنے ایک عورت کو لیجاتے تھے اور

اا معلوم ہوجاتا تھا۔ تھے تو فورترجوں پر چاروں پ��ائے تاس کا تخت چار ب آاتا تھا تو جب نمرود شہر سے باہر آاراس��تہ تھے )دیب��ائی ترج دیبائی روم اور جواہرات س��ے ٹیک کر رکھا جاتا تھا اور وہ چار بتاس عہ��د میں کہ��اں تھی( اورس��ونے کی رس��یوں س��ے کھینچے رہ��تے تھے اس پ��ر روم تاس نے خدائی تاس نے ایک ہزار سات سو برس سلطنت کی تو نمرود بیٹھتا تھا جب تان کی یی ش��روع کی��ا اور اپ��نی تص��ویرات اط��راف ع��ال� میں بھیجیں ت��اکہ ل��وگ ک��ا دع��و

عبادت کریں۔ ایک روز نمرود بادشاہ نے ش�ہر باب�ل میں ای�ک خ�واب دیکھ��ا کہ ای�ک س�تارہتاس نے بی��دار ہ��وکر نجومی��وں س��ے تاس کی روشنی سے سورج وچاند ن��ابود ہوگ��ئے نکلا اور تعبیر پوچھی وہ بولے کہ بابل کی مملکت میں ایک لڑکا تولد ہوگا اور وہ تجھے وتیری

مملکت کوہلاک کرے گا۔تاس نے حک� دیاکہ کوئی مرد عورت سے ہمبستر نہ ہ��و اور ج��و پہلے کی پس حاملہ عورتیں ہیں جب جنیں تو لڑکے قتل ہوں اور لڑکیاں چھوڑی جائیں اس حک� س��ےآاج رات ک�و وہ لڑک�ا حم�ل ایک لاکھ لڑکے قت��ل ہ��وئے ۔ پھ�ر نجومی��وں نے خ�بر دی کہ آاج رات کو سب مرد شہر سے ب��اہر چلے ج��ائیں آانے والا ہے اس لئے حک� ہوا کہ میں تاکہ کوئی ع��ورت س�ے ہمبس�تر نہ ہ��و اور ع��ورتیں ش�ہر میں اکیلی رہیں اور دروازوں پ�ر

تاس رات گلیوں میں کھیلتی پھرنے لگیں۔ پہرے رہیں جب یہ ہو ا تو عورتیں شہر کی تچپ آاپہنچی اوراپ�نے خص�� س�ے تاس کی ج�ورو آاذر کا پہ��ر ہ تھ�ا وہ��اں جس دروازہ پر آاگئے والدہ نے حمل تاس کے شک� میں حضرت ابراہی� چاپ ہمبستر ہوکر چلی گئی کو چھپایا جب تولد ہوئے تو پوشیدہ پرورش کی گئی جب ب�ڑے ہ��وئے اول وال�دین س�ےتبت تبت��وں کی م��ذمت س��نانے اور تبت پرس��تی کے ابط��ال میں ب�ث ک��رنے لگے اور

تبت خ��انہ میں تان کے آاخ��ر ک��و ی��وں ہ��وا کہ تبت تھے۷۲پرستوں کو گالی��اں دی��نے لگے جن کی پرس��تش س��ب ل��وگ ک��رتے تھے ای��ک دن وہ س��ب کس��ی میلہ میں ب��اہر ج��انے لگے ابراہی� سے کہا کہ تو بھی چل وہ نہ گیا مگر جھ��وٹ ب��ول ک��ر کہ��ا کہ میں بیم��ارتبت ت��وڑڈالے ہ��وں ج��ا نہیں س��کتا ت� ج��اؤ جب وہ گ��ئے اب��راہی� نے کلہ��اڑے س��ے س��ب تاس کی گ��ردن پ��ر رکھ دی��ا ت��اکہ معل��وم ہ��و کہ تبت ک��و نہ ت��وڑا بلکہ وہ کہلاڑا لیکن بڑے آائے اورابراہی� نے انہیں الزام دیا کہ ب��ڑے نے س��ب ک��و بڑے نے سب کو توڑا ہے جب وہ توڑا ہے تو وہ لوگ ابراہی� کو نم��رود کے پ�اس پک�ڑ ک�ر لے گ��ئے اب��راہی� نے ج��اکر دس��تورتاس نے سجدہ نہ کرنے ک��ا ب��اعث پوچھ��ا توکہ��ا کے موافق نمرود کو سجدہ نہ کیا جب تاس نے کہا تیرا خدا کون ہے وہ ب��ولا ج��و میں خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا مارتا اورجلاتا ہے نمرود نے کہا میں مارتا اورجلاتا ہوں اور قید خانہ سے دوقی��دی بلا ک��ر ای�ک ک�و قت�ل کی�ا ای�ک ک�و چھ��وڑ دی�ا یہ دکھلانے ک�و کہ میں مارت�ا اورجلات�ا ہ�وں تب ابراہی� نے کہا خدا تو سورج کو مش��رق س��ے نکالت��اہے ت��و مغ��رب س��ے نک��ال ک��ر دکھلاآاک��ر جل�تے تن��ور یں ڈال دی��ا لیکن خ��دا پس نمرود لاجواب ہوگیا اورابراہی� ک��و غص��ہ میں نے اسے بچایا پر نمرود نے ابراہی� کو قید میں رکھا چالیس دن س��ے لے ک��ر س��ات ب��رستاس گ��اؤں کے ت��ک مختل��ف روای��ات کے مواف��ق اس عرص��ہ میں ش��ہر ک��وفے کے پ��اس قریب جس کا نام کوثی تھا چار کوس مربع میں ایک چار دیواری بنائي گئی جس کیتاس میں ای��ک دیوار سوگز یا ساٹھ گز بلند تیس گز طویل بیس گز کے عرض کی تھی

مہی��نے ت��ک لکڑی��اں بھ��ریں اوربہت س��ا تی��ل بھی ڈالا اور ش��یطان کے بتلانے س��ے ای��کآاگ میں پھین�ک دیں پھ�ر نم�رود تاس میں بٹھلا ک�ر منجنیق بنائی گئی تاکہ ابراہی� ک�و نے ابراہی� کو اپنے کپڑے پہنائے اس لئے کہ اگر نہ جلا ت��و ل��وگ س��مجھیں گے کہآاگ آاگ میں ڈالا خ�دا نے نمرود کے کپڑوں کی ب�رکت س�ے بچ رہ�ا ہے پس اب�راہی� ک�و کو سرد کردیا لیکن نم�رود کے ک�پڑے اور بیڑی�اں ج�ل گ�ئیں ۔ جب یہ معج�زہ ہ�وا ت�وآاگ سے باہر بلالی��ا اور چ��ار ہ��زار گ�ائیں خ�دا کے س�امنے نم��رود نمرود نے ابراہی� کو نے قربان کیں پر مسلمان نہ ہوا لیکن بعض اشخاص ایمان لائے ایک نم��رود کی بی��ٹی دوسرا لوط ابراہی� کا بھتیجا اور تیسری سارہ ابراہی� کی بھتیجی۔ اس کے بعد اب��راہی� نےاا بیس اا بع��د نس��ل تاس س��ے نس��ل نمرود کی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے مدین سے کردیا تاسے پیغمبر پیدا ہوئے ۔ جب نمرود ابراہی� کو جلا نہ سکا اوراس کا فروغ ہوتا دیکھا تو تاس کے مومنین کے ش�ہر باب�ل س�ے نک�ال دی�ا وہ مل�ک ش�ام کی ط��رف چلا راہ معہ

دھرم کو ایک گ��دھا م��ول کے ک��ر اس پ��ر س��ارہ ک��و۲۰میں سارہ سے نکاح کیا اور برس کا تھا ۔ ایک روائت ہے کہ سارہ۸۳ یا ۷۵سوار کیا اورچل نکلا اس وقت ابراہی�

کسی بادشاہ کی بیٹی تھی جب ابراہی� بابل سے شام کو جاتا تھا راہ میں ک��وئی ش��ہر ملا وہاں کے سب لوگ اچھی پوشاک پہن ک��ر ب��اہر چلے ج��اتے تھے جب اب��راہی� نے ان کا ح�ال پوچھ��ا وہ ب�ولے ہم��ارے بادش�اہ کی ای�ک خوبص��ورت بی��ٹی ہے اور وہ ش�ادی نہیں کرتی کہتی ہے کہ سب ل��وگ م�یرے س��امنے اچھی پوش��اک پہن ک�ر حاض��ر ہ��وںتان کے س��اتھ ملکہ کے تاس س��ے ش��ادی ک��روں پس اب��راہی� بھی تاکہ جسے پسند ک��روں تاس کے س��اتھ مص�ر ک�و چلے تاس نے ابراہی� کو پسند کیا اورنک��اح ک�رکے سامنے گیا تاس کے سات عضو تاسے لینا چاہا اس لئے گئے وہی سارہ تھی پر مصر کے بادشاہ نے خشک ہوگئے اور اندھا ہوگیا پھر ابراہی� کی دعا سے ص�ت پائی اور اپنا نصف مال اور

تان کو بخشدی وہ بھی ابراہی� کی جورو ہوئی۔ ایک لونڈی ہاجرہ

تبر ج بابل کا قصہتبر ج بابل کا قصہآاگ میں ڈالا اور وہ نہ جلا بلکہ بچ ک��ر ش��ام کی جب نم��رود نے اب��راہی� ک��و تاس�ے بچالی�ا میں طرف چلا گیا تو نمرود نے کہا ابراہی� ک�ا خ�دا ب�ڑا ب�زرگ ہے جس نے تاس نے ایک مینار بابل میں بنایا ت��اکہ تاسے دیکھو اس لئے آاسمان پر جاکر چاہتا ہوں کہ آاس�مان اس�ی تاس پ�ر چڑھ�ا ت�و آاسمان پر جائے اور خدا ک�و دیکھے جب تاس پر چڑھ کر آات�ا تھ��ا ح�الانکہ وہ مین��ار پ�انچ ہ��زار گ��ز ی��ا آایا جس قدر زمین پر س��ے نظ��ر قدر بلند نظر دوفرسخ بلند تھا۔ تب خدا نے ایک ہوا چلائی جس سے وہ مینار نمرودیوں پر گ��ر پ��ڑا

آاواز کہ س��ب لوگ��وں کی زب��ان ب��دل گ��ئی اور زب��انیں دنی��ا میں پی��دا۷۲اورای��ک ایس��ی ہوگئیں۔

اس و قت نمرود بہت غصہ ہوا اورکہا کہ میں اس خدا سے لڑائی کرونگا پس تاس نے چار کرگس یا گدہ پالے اورایک بڑے سے صندوق کے چار کونوں پر چار ن��یزے کھڑے کئے ہر نیزہ پر ای��ک گوش��ت کی ران لٹک��ائی اور چ��اروں گ��دہ ص��ندوق کےمدہ ن��یزوں پ�ر گوش�ت دیکھ ک��ر کھ��انے اڑے ت��و چاروں پایوں سے باندھے جب وہ گ��تاس ص��ندوق میں نم��رود اورای��ک ش��خص بیٹھے تھے آاس��مان کی ط��رف چلا ص��ندوق آاس�مان پ�ر چلے ای�ک رات دن براب�ر چلے گ��ئے جب اوپ��ر ک�ا دونوں خ�دا س��ےلڑنے ک��و آاسمان اسی قدر بلند تھا جتن��ا زمین س��ے ہے تب نم��رود نے دروازہ کھول کر دیکھا تو آاسمان کی طرف ای�ک ت�یر م�ارا خ�دا نے اس ت�یر ک�و مچھلی کے خ�ون میں غصہ ہوکر ڈبا کر صندوق میں واپس ڈال دیا تب نمرود خوش ہوا کہ میں نے خدا کو مارلی��ا تب الٹے گوشت لٹکائے اورنیچے اترا۔ پھ��ر جب اب�راہی� س�ے ملاق��ات ہ��وئی ت�و نم��رود نے کہا کہ میں نے تیرے خدا کو مار ڈالا ابراہی� بولا خدا کو ک��وئی نہیں مارس��کتا نم��رودتاس نے کہ��ا بھلا بولا اس کے پاس کتنی فوج ہے ابراہی� نے کہا بے شمار لشکر ہے اپ��نے خ��دا کی س��اری ف��وج بلا کہ م��یری ف��وج س��ے ل��ڑائی ک��رے پس خ��دا نے ص��رف

مچھروں کی فوج بھیج دی تب نمرود کی فوج مچھروں سے ہلاک ہوئی اورایک لنگ��ڑاتپہر پہرایا کہ نم�رود ب��ڑا دق ہوگی��ا اورکس�ی مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اورایسا تاس کے سر میں جوتی یا لکڑی م�ارتے تھے تب مچھ��ر چب آارام نہ پاتا تھا جب طرح

تپہراتا تھا یہاں تک کہ نمرود مرگیا۔ تپہر کرتا تھا ورنہ

اسماعیل کا قصہاسماعیل کا قصہتاس کے لڑکا اسماعیل ہاجرہ سے پیداہوا جب ابراہی� بیت المقدس میں تھا تو تاس آایا کہ میرے اولاد نہ ہوئی ہاجرہ لون��ڈی بیٹ��ا ج��نی اس ل��ئے اس لئے سارہ کو رشک آاک�ر کہ�اکہ اے نے کہا ہ��اجرہ واس�ماعیل ک�و بیاب�ان میں نک�ال دے فرش�تے نے بھی تان کو نکال دیا اورمکہ کی ابراہی� سارہ کا حک� مان ان کو نکال دے پس ابراہی� نے سرزمین میں جہاں کوئی بستی نہ تھی ان کو چھوڑ گیا جب پانی نہ ملنے کے س��بب ہ�اجرہ بے ت�اب ہ��وئی ت�و ک�وہ ص�فا اور م�روہ کے درمی�ان دوڑنے لگی اور س�ات ب�ار دوڑی اسلئے مسلمانوں ک��و حج کے وقت ان پہ��اڑوں میں س��ات ب��ا ردوڑن��ا س��نت ہوگی��ا اورجب بہت پیاس لگی تو اسماعیل بے قراری میں زمین پر پیر مارنے لگا خدا نے وہاں ای��کتاس ک��ا پ��انی پین��ا آاب زم��زم کہ��تے ہیں اس ل��ئے مس��لمان چشمہ جاری کردی��ا جس ک��و آاگی��ا اورپ��انی کے س��بب وہ��اں موجب ثواب جانتے ہیں۔ اس اثناء میں وہ��اں ای��ک ق��افلہ تانہیں دیکھ��نے ک��و گی��ا مگ��ر آای��ا تھ��ا م��دت بع��د ڈیرہ لگادیا۔ ابراہی� جو چھوڑ ک��ر چلا آائے چن�انچہ تات�رے کھ�ڑا کھ�ڑا دیکھ ک�ر واپس سارہ ک�ا حک� تھ�ا کہ س�واری س�ے نہ ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ اسماعیل جوان ہوگیا اور ہاجرہ مرگئی پ��ر اس��ماعیلتاس جرہ� کے قافلہ میں سے جو وہاں اترا تھ��ا کس�ی ع�ورت س��ے نک�اح کرلی��ا تب نے آایا اس وقت اسماعیل گھر میں نہ تھ��ا ص��رف اس کی بی بی ابراہی� پھر ملاقات کو آای���ا ہے اس ل���ئے کچھ خ���دمت نہ کی اورکہ���ا کہ تھی اس نے نہ جان���ا کہ م���یرا خس���ر ہمارے گھر میں کھ��انے پی��نے کی تنگی ہے اس ل��ئے ہ� مس��افرپروری نہیں کرس��کتے

تاس سے کہیو کہ اپنے گھر کا دروازہ ب��دل ڈالے آائے تو ابراہی� نے کہا جب تیرا شوہر آائے جب عورت نے اسماعیل سے کہا کہ کوئی شخص مسافر یہ کہہ کر ابراہی� چلے آایا تھا ایسا شخص تھا اور ی��وں میں نے کہ��ا اور ی��وں وہ کہہ گی��ا ت��و اس��ماعیل س��مجھ گیا کہ میرا باپ تھا اور جورو کوطلاق دینے ک��ا حک� دے گی��ا ہے پس اس ک��و طلاقآای��ا اور اس آاراستہ کی��ا پھ��ر اب��راہی� دی اورایک اور بی بی کرلی جس نے گھر کو خوب تاس کی بی بی نے اب��راہی� کی بہت ع��زت کی اس ل�ئے وقت بھی اسماعیل نہ تھ��ا پ��ر آائے ت��و کہی��و دروازے کی نگہب��انی ک��رے یع��نی بی بی وہ کہہ گیا کہ جب اسماعیل

تاس نے حفاظت سے رکھا۔ کو حفاظت میں رکھے سو اس عورت کو

ابراہی� کے بیٹے کی قربانی کا قصہابراہی� کے بیٹے کی قربانی کا قصہ مس��لمانوں میں اختلاف ہے کہ وہ کونس��ا بیٹ��ا تھ��ا جس ک��و اب��راہی� نے قرب��ان کی��ا بعض کہتے ہیں کہ اس�ماعیل ک�و کی�ا اور بعض کہ�تےہیں اض��اق ک�و )چ�ونکہ اض��اق کے قربان ہونے سے اسماعیل کی عزت ک� رہ��تی تھی اس ل��ئے بعض مس��لمانوں نے کہ��ا کہ ص�یح بات یوں ہے کہ اسماعیل قربان ہوا( اور قرب��انی ک��ا قص��ہ ی��وں ہے کہ خ��واب میںآائی کہ تو اپنے بیٹے کو قربان کر پس وہ بیت المق��دس س��ے مکہ میں آاواز ابراہی� کو تاس وقت اس��ماعیل آاراس��تہ کرای��ا آایا اورہاجرہ سے کہہ کر اس کے بی��ٹے اس��ماعیل ک��و

آاس�تین۱۳، یا ۹، ۷ تاس�ے ذبح ک�رنے ک�و لے چلا چھ��ری اور رس��ی ب�رس ک��ا تھ��ا کہ وہ میں چھپ��ا رکھی تھی تب ش��یطان نے ہ��اجرہ ک��و کہ��ا کہ ت��یرے بی��ٹے ک��و اب��راہی� قت��ل کرنے کو لے جاتا ہے وہ بولی باپ بیٹے کو قتل نہیں کیا کرتا ش��یطان نے کہ��ا کہ خ��داتاسے حک� دیا ہے تب ہاجرہ نے کہ��ا یہ خوش�ی کی ب��ات ہے پھ��ر ش��یطان اس��ماعیل نے تاس نے بھی ہ��اجرہ کے مانن��د آایا اورکہا تیرا ب��اپ تجھے م��ارنے لے جات��ا ہے کےپاس تاس جواب دئیے۔ پھر اسماعیل نے اب��راہی� س��ے کہ��ا کہ ت�و مجھے کہ��اں لے جات�ا ہے تاس نے کہا اچھ��ا میں پس�ند کرت��ا ہ��وں وقت ابراہی� نے بتادیا کہ یوں خدا کا حک� ہے

مگر جلدی کر کی��ونکہ ش��یطان مجھے بھکات��اہے تب اب��راہی� واس��ماعیل ش��یطان کے پتھر مارنے لگے اس لئے حاجی لوگ ان پہ��اڑوں میں ش�یطان کے اب ت�ک پتھ��ر م��ارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے اسماعیل ک��و ذبح کرن��ا چاہ��ا اورکہ��ا اللہ اک��بر اللہ اک��برتاس��ی کی س��نت پ�ر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ ال�مد۔یہ تکبیر مس��لمان ل��وگ تاس کے ع��وض قرب��ان ہ��وا اس اب تک پڑھتے ہیں۔ پر خدا نے ایک بڑا دنبا بھیج دیا ج��و

لئے مسلمان اب تک قربانی کرتے ہیں۔ اس وقت وہ اختلاف کی ص���ورتیں دیکھن���ا چ���اہیے جس میں اس���ماعیل کییی دیتے ہیں۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ سے روضتہ الاحب��اب میں ی��وں قربانی پر یہ لوگ فتو لکھاہے کہ اکثر لوگ کہتےہیں کہ اس�ماعیل قرب�ان ہ�وا مگ�ر ای�ک ب�ڑی جم�اعت علم�اء کی قائل ہے کہ نہ اسماعیل مگر اض�اق قرب��ان ہ��وا ہے ج��و ل��وگ اض���اق کی قرب��انیآان میں ی��وں لکھ��ا ہے کہ فبش��ر ن��اہ بغلام حلی� کے قائل ہیں وہ یہ دلی��ل لاتے ہیں کہ ق��ر فلم��ا بل��غ معہ الس��عی ق��ال ی��ا اب��تی انی اری فی المن��ام انی اذب���ک ف��انظر م��اذ ات��ریتا سکو ایک لڑکے کی جو ہوگ��ا ت�م��ل والا پ��ر جب ترجمہ: پھر خوشخبری دی ہ� نے تاس کے ساتھ دوڑنے کو کہا اے بی��ٹے میں دیکھت��ا ہ��وں خ��واب میں کہ تجھے پہنچا

ذبح کرتا ہوں پر دیکھ تو کیا دیکھتاہے ۔ یہاں سے ظ��اہر ہے کہ جس ل�ڑکے کی پی�دائش پراب�راہی� ک�و بش�ارت س��نائیآان سے ص�اف ص�اف ث�ابت ہے کہ تاسی کے ذبح کرنے کا حک� بھی ہوا تھا اور قر گئی صرف اض�اق ہی کے تولد پر بشارت دی تھی اورکسی لڑکے پ��ر بش��ارت نہیں س��نائی گئی چنانچہ سورہ ہود میں ہے فبشر ناہ باص�اق اور صافات میں ہے وبشر ناہ ص���اق یعنی بشارت دی گئی تھی ص�رف اص��اق پ�ر اور جس پ�ر بش�ارت دی گ�ئی بم�وجبآائت کے وہی قرب���انی بھی ہ���وا یہ ب���ڑی کام���ل دلی���ل ہے کہ اص����اق ذبح ہ���وا نہ پہلی

اسماعیل۔ دوسری دلی�ل یہ ہے کہ حض�رت م�م�د نے ح�دیث میں کہ�ا ہے کہ اص��اقذبیح اللہ ہیں۔

آان میں پر وہ لوگ جو اسماعیل کی قربانی کے قائل ہیں یوں کہتے ہیں کہ ق��رحول قصہ ذبح کا بی�ان ہ��وا ہے اس کے بع��د اص��اق کی بش�ارت ک�ا ذک�ر ہے پس تق��دم ا قص�ہ کے س�بب اس��ماعیل م�راد ہوناچ�اہیے )ہم��ارا ج�واب اس دلی��ل وال��وں ک�و یہ ہے کہآان میں آان میں ص��اف بی��ان ہوچک��ا ہے کہ بش��ارت والا لڑک��ا ذبح ہ��وا ہے پس جبکہ ق��ر ق��ر پہلے ذبح کا قصہ بیان ہوچکا ہے تو ضرورت ہوئی کہ اس ذبح شدہ لڑکے ک�ا ذک�ر کی��اآای��ا ت��اکہ ذبح ش��دہ تاس کے بع��د جائے کہ وہ کونسا لڑکا تھا اس لئے اص�اق کا ذک��ر آاپ ک��و ابن ال��ذبی�ین کی تش��ریح ہوج��ائے (۔دوس��ری دلی��ل انکی یہ ہے کہ حض��رت نے کہا ہے یعنی میں دوقربانیوں کا بیٹا ہوں ای��ک اس��ماعیل دوس��را عب��د اللہ جس کی قرب��انی کا ذکر تواریخ م�مدی میں ہوچکا ہے پس اگر اص�اق ذبح کیا جات��ا ت��و وہ حض��رت م�مد کا باپ نہ تھا اس کا جواب اسی روضتہ الاحباب میں لکھ��اہے )کس�ے کہ م��رتبہ

اا باپ کی مانند ہے۔ ع� بودہ حک� پدرد ادہ باشد( یعنی چچا بھی حکم دیکھو اسماعیل کی قرب��انی وال��وں کی کیس��ی کچی دو دلیلیں ہیں جن کے

جواب کامل ہوگئے پر اص�اق کی قربانی والوں کی دلیلیں لاجواب ہیں۔ شائد کوئی کہے کہ اگر اسماعیل قرب��ان نہیں ہ��وا تھ��ا ت�و ع��رب میں یہ قرب��انی

تاس کے نام پر کس طرح جاری ہوئی ہے۔ کی رس� جواب یہ ہےکہ اص�اق کی قربانی کا ذکر اس�ماعیل نے س��ن ک�ر قرب��انی ک��ا دستور لوگوں میں جاری کیا اور کئی پشتوں کے بعد خواہ جہالت کے سبب خواہ یہ��ود کی ض��د میں اہ��ل ع��رب نے اپ��نے ب��اپ اس��ماعیل کی نس��بت اس ش��رافت ک��و ج��و اص�اق کی تھی فرض کرلیا ت��و بھی وہ س��ب اس ب��ات پ��ر متف��ق نہ ہ��وئے اس عقی��دہیی کے مخالف ہیں بلکہ تمام پیغمبروں کے بھی مخالف ہیں میں یہ لوگ نہ صرف موس

جو اص���اق کی قرب��انی ک��ا ذک��ر ک��رتےہیں ۔ پھ��ر مس��لمان کہ��تے ہیں کہ اس��ماعیلتبت پرستوں کی ہدائت کے لئے بھیجا گی��ا تھ��ا پیغمبر بھی تھا وہ ملک مغرب کے

آایا اور آاخر کو مکہ میں برس کا ہوکر مرگیا۱۳۷پچاس برس اس نے ان کو ہدائت کی تاس کے اوراپ��نی وال��دہ ہ��اجرہ کے پ��اس مکہ میں دفن ہ��وا۔ مگ��ر خ��دا کے کلام میں پیغم��بری ک��ا کچھ ذک��ر نہیں ہے۔ ص��رف یہ لکھ��اہے کہ وہ بھی ت��یری نس��ل ہے استاس کی مص��یبت کے وقت اس پ��ر رح� سے بارہ س��ردار نکلیں گے اوریہ کہ خ��دا نے کیا۔ اوریہ کہ وہ وحشی اوربھائیوں کا مخ��الف ہوگ��ا اوریہ کہ اص���اق کے س��اتھ وارث نہ ہوگا۔ یا یہ کہ اس کو اورا سکی والدہ کو گھ�ر س�ے نک�ال دے کی�ونکہ وع�دہ کے فرزند پر ٹھٹھہ کرتا تھا اور ستاتا تھا۔اس کے سوا اس کی نبوت کا کلام کہیں دنیا میںتاس کی نبوت پ��ر گ��واہی نہیں سنا نہیں گیا اورکسی پیغمبر کی زبان شریف سے کبھی تاس کی ع�زت گذری البتہ ابراہی� پیغم�بر ک�ا جس�مانی ط��ورپر فرزن�د تھ��ا اس ل��ئے ہ� بھی

کرتے ہیں پر یہ رشتہ موجب نبوت نہیں ہے۔

لوط کا قصہلوط کا قصہ لوط ابراہی� کا خواہر زادہ چچا زاد یا برادر زاد ہ بھائ تھا جب ملک شام میںآاٹھ آاپ رہا اور لوط موتفکہ میں جارہا ان دو مقاموں میں آایا تو ملک فلسطین میں ابراہی� پہر کی مسافت تھی۔ یہ لوط یہی مسلمانوں کے گم��ان پیغم��بر تھ��ا اور موتفک��ات کے لوگ��وں کے ل��ئے بھیج��ا گی��ا تھ��ا اور موتفک��ات پ��انچ ش��ہر ک��و کہ��تے تھے س��دوم اور

عمورا۔ وداؤ ماوصعودایا صغر۔آادمی تھے م��رد اور ع��ورتیں س��ب ب��دکار خلاف ان بس��تیوں میں چ��الیس لاکھ وض��ع تھے اور کب��وتر ب��ازی وس��ینٹی ب��ازی بھی ک��رتے تھے اور راہ کے س��روں پ��ر بیٹھ ک��رتانہ��وں نے نہ تان ک��و نص��ی�ت کی پ��ر ٹھٹھ ب��ازی کی��ا ک��رتے تھے بیس ب��رس ل��وط نے

مانی۔

آائے وہ چار تھے یا ۱۲ ی��ا ۷ ی��ا ۸ یا ۳ایک روز کچھ فرشتے ابراہی� کے پاس اا ای��ک آادمی س��مجھا اور ف��ور تانہیں آائے تھے۔ اب��راہی� پ��ر س��ب خوبص��ورت ل��ڑکے بن ک��ر بک��ری ک��ا بچہ مہم��انی کے ط��ورپر پک��ا لای��ا وہ کہ��نے لگے ہ� نہ کھ��ائينگے اب��راہی�تاس زمانہ میں دش��من اور چ��ور جس ک��و دکھ دین��ا چ��اہتے سمجھاکہ یہ چور ہیں کیونکہ تاس کی روٹی نہ کھ��اتے تھے پ��ر فرش��توں نے کہ��ا ہ� چ��ور نہیں ہیں ہ� فرش��تے ہیں تھے تاس کی ابراہی� نے کہا پہلے س��ے خ��بر کی��وں نہ دی کہ میں بک�ری ک��ا بچہ ذبح ک�رکے تاس پکے ہ��وئے گوش��ت پ��ر م��ارا وہ ماں سے اسے جدا نہ کرتا تب جبرئیل نے اپنا بازو اا زندہ ہوکر اپنی ماں کے پاس چلا گیا اسو قت فرشتوں نے ابراہی� ک��و خ��بردی بچہ فور

۱۱۲ یا ۹۹ برس کا تھا اور سارہ ۱۲۰ یا ۱۱۲کہ تیرے بیٹا پیدا ہوا اوراس وقت ابراہی� برس کی تھی۔

آائے ہیں یہ کہہ ک��ر پھ��ر فرش��توں نے کہ��ا ہ� ق��وم ل��وط کے ہلا ک ک��رنے ک��و تان چلے گ��ئے جب ل��وط کے پ��اس پہنچے وہ انہیں اپ��نے گھ��ر لای��ا اور ش��ہر وال��وں نے تان سے بدی کرنا چاہا ہر چند ل��وط نے من��ع کی��ا فرشتوں کو خوبصورت لڑکے جان کر آائے تب فرشتوں نے انہیں اندھا کردی��ا اور ل��وط س��ے تانہوں نے نہ مانا گھر میں گھس کہا کہ اپنی جورو کو جو کافر ہے شہر میں چھوڑ اور سب عیال کو لے ک��ر ان��دھیرےآاس��مان تان ش��ہروں ک��و زمین س��میت اندھیرے نکل جا پس وہ نکل گیا تب جبرئیل نے آاس�مان کے رہ��نے وال��وں نے اور ش�ہروں کی طرف اٹھایا اور اتنے اونچے ت�ک لے گی�ا کہ آاواز سنی تب ش��ہر نیچے زمین اوپ��ر ک��رکے وہ��اں س��ے گ��رائے کے کتوں اور مرغوں کی گئے اور سب دب کر مرگئے یہ وہاں کے مقیموں کااحوال ہوا مگر جو جو مس��افر وہ��اںآادمی ک�ا ن��ام لکھ��ا تھ��ا جس پ�ر وہ پتھ��ر تاس تان پر پتھر برسے ہر پتھ��ر پ��ر آائے ہوئے تھے

گرنے والا تھا۔

آافت زدوں میں سے ایک شخص بھاگ ک��ر مکہ میں کعبہ کے ان��در بھی تان آایا تھا جب تک کعبہ کی چار دیواری کے اندر رہا اس کا پتھ��ر ہ�وا میں معل�ق رہ��ا جبتان ش�ہروں کے ل�وط اا پتھ�ر س�ر پ�ر گ�را اور وہ مرگی�ا بع��د تب�اہی حرم سے ب�اہر نکلا ف�ور

ابراہی� کے پاس چلا گیا اور عبادت میں مشغول رہا۔

قصہ اص�اققصہ اص�اق اس کے بعد اص�اق پیدا ہوا اور لڑکے بھی حضرت سارہ کے ش�ک� س�ے پی�دا ہ�وئے اور

ب�رس ب�ڑا تھ��ا خ��دا نے اص���اق ک�و بھی عہ��دہ پیغم�بری ک��ا۱۲اسماعیل اص�اق سے تاس کی بی بی بخشا اور وہ ملک کنعان کا پیغمبر ہوا اور کنعان کے سردار کی بیٹی

ب�رس۱۸۰ ی�ا ۱۶۰ہوئی اور دو لڑکے توام اس س��ے تول��د ہ��وئے یع��نی عیص ویعق��وب پھ��ر کی عمر میں اص�اق مرگیا اوراپنی والدہ کے پاس دفن ہوا۔

قصہ یعقوب ویوسفقصہ یعقوب ویوسف یعقوب اص�اق کا بیٹا تھا خدا نے اس ک��و پیغم��بر بنای��ا۔ اس کے ب��ارہ ل��ڑکے

لیا کے ش�ک� س��ے دو ای�ک لون�ڈی س��ے دو دوس�ری لون�ڈی س�ے دو راخی��ل۶پیدا ہوئے تاس نے خ��واب دیکھ��ا کہ ب��ارہ س��تاروں س��ے۔ یوس��ف اس ک��ا بیٹ��ا بہت خوبص��ورت تھ��ا تاس کے بھ��ائی اس س��ے حس��د تاسے سجدہ کیا یہ خ��واب س��ن ک��ر اورسورج وچاند نے رکھنے لگے۔ اورایک سبب حسد کا یہ بھی تھا کہ یعقوب کے گھر میں ای��ک درختتاس درخت میں ای��ک ش��اخ نکلا ک��رتی تھی جب وہ تھا جب کوئی لڑکا پی��داہوتا ت��و تاسکے ہاتھ میں دی��ا کرت��ا تھ��ا کہ یہ تاس شاخ کو کاٹ کر لڑکا جوان ہوتا تو یعقوب ت�یری لاٹھی ہے۔ جب یوس�ف پی��دا ہ��وا ت��و ک��وئی ش��اخ نہ نکلی پ��ر جب ج��وان ہ��وا ت�وتاس تاس کے واس��طے لای�ا اس ل��ئے بھ��ائی آاسمان س�ے س��بز زبرج��د کی لاٹھی جبرئیل کے مرتبہ پر حسد کرنے لگے۔ ایک روز بھائیوں نے ب��اپ س��ے کہ��ا جنگ��ل کی س��یر کے دن ہیں تو یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دے تاکہ باہر کی سیر کرے پر یعق��وب

نے نہ چاہا بھائیوں نے یوسف کو باہر جانے کی رغبت دلائی اور وہ باپ س��ے اج��ازتتان کے ساتھ گی�ا ب�اپ کے س�امنے پی�ا ک�رتے ہ�وئے لے گ�ئے جنگ�ل میں ج�اکر لے کر پہلے تو خوب مارا اور زمین پر پٹکا بھی ایک کن��وئیں میں ج��و بیت المق��دس س��ے تین

گ�ز گہ��را تھ��ا تھ��وڑی دور ت�ک رس��ی س��ے۷۰چار کوس تھا باندھ کر ڈال دیا وہ کن��واں آاکر نصف کنویں میں تھ��ام اا جبرئیل نے لٹکایا پھر رسی کا ٹ کر نیچے گرادیا مگر فورآاہستہ سے لیجا کر ایک پتھر پر بٹھلایا اور بہشت سے کھانے پینے کو لایا کرت��ا لیا اور آال��ودہ ک�رکے روتے تاس ک�ا پ�یراہن ب�رہ کے خ�ون س��ے تھا۔ اس طرف یوس��ف کے بھ��ائی آائے اورکہ��ا یوس��ف ک��و بھیڑی��ا کھاگی��ا۔یعق��وب ب�ولا اگ��ر بھیڑی��ا کھات�ا ت��و ہوئے گھ��ر میں تاس کے س��اتھ ک��وئی ش��رارت پیراہین چاک ہوتا پر یہ تو چاک نہیں ہوا۔ بے ش�ک ت� نے کی ہے اچھ��ا ت� اس بھیڑئ��یے ک��و حاض��ر ک��ر وجس نے اس��ے کھای��ا ہے پس وہ جنگ��ل سے ایک بھیڑ پکڑ لائے یعقوب نے بھیڑئیے سے پوچھا کہ تونے یوسف ک��و کھای��ا ہے وہ بولا پیغمبروں کا بدن زمین اور جانوروں کو کھانا حرام ہے۔ میں نے ہر گ��ز نہیں کھای��اآاس�کتے پس بھ�ائی ش�رمندہ ہ��وئے اور یعق�وب ہ� تو ت�یری بکری�وں کے پ�اس بھی نہیں آانکھ��وں کی ٹھن�ڈک اے روت�ا ہ�وا تلاش میں تھ��ا اور ی�وں کہت��ا پھرت�ا تھ�ا )اے م�یری م��یرے دل کے می��وے تجھے کس کن��وئیں میں ڈالا تجھے کس دری��ا میں ڈوبوی��ا تجھے کس تلوار سے قتل کیا( اور وہ رات دن روتے روتے اندھا ہوگیا اور چالیس برس تک روتاآائی اس کا سبب یا تو یہ تھا کہ اس نے فقیر ک��و روٹی رہا یہ مصیبت جو یعقوب پر تاس کے بچہ کے خری��دکی تھی پھ��ر نہیں دی تھی یا ایک لونڈی ج��و یعق��وب نے معہ تاس کی ج��دائی تاس��ے ف��روخت کردی��ا تھ��ا اوروہ لون��ڈی تاس کے بچے سے جدا ک��رکے تاس نے ایک بکری کا بچہ ذبح کی��ا تھ��ا وہ بک��ری اپ��نے بچے کے ل��ئے میں روتی تھی یا

آائی تھی۔ بہت روئی تھی اس لئے یہ بلا

یوس��ف ای��ک رات دن ی��ا تین رات دن ی��ا س��ات رات دن کن��وئے میں رہ��ا پھ��رآاگیا جب مالک قافلہ نے پ��انی ایک مدین کا قافلہ مصر کو جانے والاراہ بھول کر وہاں تاس آای��ا پ��ر کن��واں بھرنےکوکنوئے میں ڈول ڈالا تو یوس��ف ڈول میں بیٹھ ک��ر ب��اہر نک��ل کی جدائی سے بہت رویا۔لیکن ق��افلہ والے بہت خ��وش ہ��وئے کہ ای�ک خوبص�ورت لڑک�اآاپہنچے اورکہ��ا یہ ہم�ارا ف�راری غلام ہے اگ�ر ت� پایا اس عرصہ میں بھ��ائی اس کے وہ�اں

درم۳۰ی�ا ۱۹ی�ا ۱۸ی�ا ۱۷اس�ے لین�ا چ�اہتے ہ�و ت�و دام دے ک�ر لے ج�اؤ۔ پس انہ�وں نے تاسے خریدا اور مصر کو لے چلے راہ میں یوسف نے اپنی والدہ کی قبر مصری دے کر دیکھی اور شتر پر سے کود ک��ر ق��بر پ��ر رونے گی��ا اہ��ل ق��افلہ س��مجھے کہ بھاگت��ا ہے استاس�ے تاس�کے طم�انچہ م��ارا اور پک��ڑ لائے پھ��ر مص��ر میں ج�اکر عزی�ز مص��ر کے ہ��اتھ لئے

تاس کی قیمت یہ ہوئی ۔ فروخت کیا ہزار قصب مصری لاکھ ۱۰اشرفیاں

ہزار بختی شتر لاکھ ۴۰درمہزار رومی باندیاں ہار ۱۰۰موتی کے

ہزار خطائی غلام ہزارمن کافور ہزار پوشاک رومی اطلس

ب���ر الل��وج میں لکھ��ا ہے کہ یہ دولت دیکھ ک��ر یوس��ف مال��ک پ��ر خف��ا ہ��وا۔ اورکہا کہ میں نبی زادہ ہوں مجھے فروخت نہ کر بلکہ مفت عزیز کو بخش��دے۔مال��ک بولا اچھا میں کچھ نہیں لیتا مگر تو دعا ک�ر کہ م�یرے گھ�ر میں اولاد پی��دا ہ�و کی�ونکہتاس کی ج��ورو کے ب��ارہ حم��ل رہے ہ��ر حم��ل میں بے اولاد ہوں یوسف نے دعا کی تب

تاس کےب��ارہ لون��ڈیاں تھیں ہ��ر لون�ڈی دو۲۴میں دولڑکے پیدا ہوئے یعنی بیٹے ہوگ��ئے ی��ا ہوئے۔ غرض یوسف کو عزیز اپنے گھر لے گیا اوراپنی بی بی زلیخ��ا۲۴لڑکے جنی تب

سے کہا کہ اس کو لے پالک کرکے اس پر عاشق ہوگئی ۔

زلیخا کا احوالزلیخا کا احوال مغ��رب کی زمین میں طم��وس ن��ام ای��ک بادش��اہ تھازلیخ��ا اس کی بی��ٹی بہت خوبص��ورت تھی اس نے رات ک��و خ��واب میں یوس��ف ک��و دیکھ��ا جب کہ وہ ب��اپ کےتاس کے عشق میں روتی پاس لڑکا تھاپس وہ خواب میں اس پر عاشق ہوگئی ایک برس آایا اس نے پوچھا کہ تو ک��ون یوس��ف نے تاس کے خواب میں رہی پھر ایک روز یوسف کہا میں عزیز مصر ہوں القص�ہ جب زلیخ�ا کی ش�ادی ک�ا بندوبس�ت ہ�ونے لگ�ا ت�و بہتآائے پ��ر اس نے کس��ی ک�و قب��ول نہ کی��ا اورب�اپ س�ے کہ��ا میں عزی��ز تاسے بیاہنے کو لوگ مصر سے نکاح کروں گی جسے خواب میں دیکھ��ا تھ��ا اس ل��ئے اس بادش��اہ نے عزی��ز مص��ر ک�و پیغ��ام بھیج��ا کہ ت� اس س��ے ش�ادی ک�رو پ�ر عزی�ز مص�ر نے کہلا بھیج�ا کہتاس س�ے نک�اح آاپ زلیخ��ا ک�و یہ�اں بھیج دیں میں مجھے فرعون رخص�ت نہیں دیت�ا آائی اورجب بوطیف��ار ک�و دیکھ��ا ت��و گھ��برائی کہ یہ ت�و وہ کرلونگا۔ پس زلیخا مصر میں آائی کہ مت آاواز اا آاس�مان س��ے ف��ور ش��خص نہیں ہے جس�ے خ��واب میں دیکھ��ا تھ��ا پس گھبرا اسی شخص کے وسیلہ سے ت��یرا م�ب��وب تجھے ملیگ��ا پس وہ بوطیف��ار کے گھ��رآایا زلیخا کو خبر ملی اس میں داخل ہوئی مدت بعد یوسف مصر میں فروخت ہونے کو نے بوطیفار کو ابھارا اوربہت سی دولت دی کہ کسی طرح اس غلام کو خرید لے پستاس س��ے تاس نے خر ید لیا اور سات برس زلیخا نے یوسف کی خدمت کی اورچاہ��ا کہ آاخر کو زلیخا نے ای�ک عج��ائب خ�انہ بنای�ا جس میں ہ� خواب ہو پر یوسف نے نہ چاہا آاراستہ کیا گیا تھا پھر یوس��ف ک��ولے ک��ر عج��ائب سات کمرے تھے ہر کمرہ بہت ہی آائی اور ہر کمرے کا قف��ل لگ�اتی ج�اتی تھی س�اتویں کم�رے میں ج�اکر اور خانہ میں سب اشارے کنایہ کرکے لاچار ہوگئی تب زب��ان س��ے کہ��ا کہ ت��و یہ ک��ام ک��ر یوس��ف نےحول خدا کا خوف دوسرے بوطیفار کا خ��وف زلیخ��ا نے کہا مجھے دو خوف ہیں ا کہ��ا کہ خ��دا ک��ا گن��اہ اس ط��رح بخش��ا جاس��کتا ہے کہ میں بہت س��ا م��ال خ��یرا ت

تاسے زہر س�ے م�اروں گی ت��وبھی یوس��ف نے کرونگی اور بوطیفار سے بھی نڈر کہ میں آاپ ک�و م�ار ک�ر م�رتی ہ��وں م�یرے قص�اص میں نہ مانا۔تب زلیخا نے تلوار نکالی اورکہ��ا تجھے بھی قتل کرے گا تب یوسف بولااے زلیخ�ا جل�دی نہ ک�ر ت�و اپ�نے مطلب ک�واا جبرئي��ل پھچی گی اس وقت یوس��ف ک��ا دل ڈگمگ��ا گی��ا اورچاہ��ا کہ ب��دی ک��رے ف��ورآای�ا اورکہ��ا زن�ا مت ک�ر تب یوس�ف ڈر ک��ر بھاگ�ا اور زلیخ��ا پیچھے بشکل یعقوب نظ��ر آاخ�ری دروازہ پ�ر یوس�ف ک�ا پچھلا بھاگی اور قفل خودبخود کھ�ل گ�ئے پ�ر زلیخ�ا نے آانکلا وہاں آاپکڑا وہ ایسا بھاگا کہ پچھلا کپڑا پھٹ گیا اور یوسف گھبرایا ہوا باہر دامن بوطیفار کھڑا تھا وہ بولا کیا ہے یوسف نے س��ب ح�ال س�چ س�چ کہہ دی�ا تب بوطیف��ارآائی اورکہ��ا کہ اس غلام ک��و ت�و یہ�اں لای�ا ہے کہ تاسے گھر میں لایا پیچھے زلیخا بھی آای��ا میں ج��ا گ اٹھی تب ہ� سے زنا کرے میں سوتی تھی وہ مجھ سے زن��ا ک��رنے ک��و

وہ بھاگا میں پیچھے پکڑنے کے دوڑی اس کا یہ کپڑا پھٹ گیا۔ پس بوطیف��ار نے کہ��ا اے یوس��ف ت��ونے ایس��ی ب��ڑی بے ادبی کی وہ ب��ولا زلیخ��ا ف��ریبتاس نے یہ چاہ��ا تھ��ا وہ ب�ولا ک�وئی گ�واہ ہے یوس�ف نے دی�تی ہے میں نے نہیں کی�ا مگ�ر کہا یہ چھہ مہینے کا بچہ جو گواہ میں ہے گواہ ہے پس خدا نے بچہ کو زب��ان دی وہآاگے س��ے ت��و زلیخ��ا تاس ک�ا ک��پڑا پیچھے س��ے پھٹ��ا ہ��و اور ج�و ب�ولا یوس�ف س��چا ہے اگ��رتاس بچہ نے کہ��ا سچی ہے۔ تب بوطیفار نے زلیخا کوملامت کی اور چاہا کہ قتل کرے ایسا نہ کر اس میں تیری بدنامی ہوگی۔ پس بوطیفار نے یوسف سے کہ��ا یہ ب��ات کس��ی سے نہ کہنا اور زلیخ�ا س�ے کہ�ا ت�وبہ ک�ر اور چپکی گھ�ر میں بیٹھ۔ مگ�ر تین مہی�نے ی�ا س��ات مہی��نے کے عرص��ہ میں یہ ب��ات مش��ہور ہ��وگی۔مص��ر کی ع��ورتیں زلیخ��ا پ��ر ہنس��نے اورملامت کرنے لگیں زليخا نے جب یہ ح��ال دیکھ��ا ت��و س��ب ع��ورتیں کی ض��یافت کیآاگے کھ��انے اور چھری��اں بھی رکھ��وائیں ت��اکہ می��وہ ت��راش نہ ک��ر کھ��ائیں پھ��ر تانکے اور تاس کا حسن دیکھ کر ایس��ی بے تان کے سامنے بلایا وہ سب یوسف کا سنگار کراکے

ہوش ہوگئیں کہ بجائے میوہ کے انہوں نے اپنے ہاتھ تراش لئے جب یوسف س��امنے س��ےآادمی نہیں فرشتہ ہے زلیخا نے کہ�ا اس�ی آائیں تو کہنے لگیں یہ تو ہٹا اور وہ خوش میں آائيں اور زلیخ��ا کے عشق سے تو ت� مجھے ملامت کرتے ہوتب وہ ملامت کرنے سے بازتاس��ے قی��د نے بوطیفار سے کہا کہ میں یوسف کے سبب بدنام ہوگئی مناسب ہے کہ ت��و خانہ میں ڈالے تاکہ لوگ جانیں کہ یوسف کی خطا تھی نہ زليخا کی تب بوطیف��ار نےتاس کی بڑی خ��دمت کی ہمیش��ہ تاسے قید خانہ میں ڈال دیا او روہاں پر بھی زليخا نے آاتی تاس کے پیچھے قرم لگائے اورکھ��انے بھج��وائے اور رات ک��و ب�یلہ س��یردیکھنے بھی

رہی۔آائے اورانہ��وں نے الغ��رض ن��ان ب��ائی اورس��اقی دوش��خص فرع��ون کے قی��دی وہ��اں تان کی تعب��یر بتلائی س��اقی س��ےکہا کہ ت��و تین روز بع��د خ��واب دیکھی اوریوس��ف نے چھوٹ جائے گا اورنان بائی سےکہا تو م�ارا ج�ائے گ��ا اور س��اقی س��ے اق��رار لی��اکہ م�یری

بھی مخلصی کر ایومگر وہ بھول گیا۔

یوسف کا عزیز مصر ہونایوسف کا عزیز مصر ہوناتاس وقت تیس ب�رس ک�ا تھ��اکہ بادش�اہ سات برس ی�ا دس ب�رس قی�د میں رہ��ا اور

مصر نے خواب دیکھا وہی خواب جو توریت میں ہے۔تاس کے خ��واب کی کس��ی حکی� س��ے تعب��یر نہ ہوس��کی ت��و س��اقی ک��و جب تاس کو قی��د خ�انہ س�ے تاس نے یوسف کا ذکر بادشاہ سے کیا بادشاہ نے آایا اور یوسف یاد

ملک�وں کی زب�انوں میں ب�اتیں کیں۷۰بڑی عزت وکروفر سے بلای�ا اوریوس�ف کے س�اتھ تاس کے خ��واب کی تعب��یر بتلائی جب تعب��یر بتلا ک��ر تاس نے ہر زبان میں جواب دیا اور یوسف چلنے لگ�ا ت�و ع�برانی زب�ان میں دع��اء خ�یردی اور ع�ربی میں س�لام کی�اان دون�وںتان س��تر کےس��وا زبانوں کو بادشاہ نہ جانتا تھ��ا کہ��ا یہ کس مل��ک کی زب��انیں ہیں یہ ت��و ہیں جن میں میں نے تجھ سے بات چیت کی ہے یوسف نے کہ��ا ع��برانی م�یرے ب�اپ

کی زب��ان ہے اور ع��ربی م��یرے چچ��ا اس��ماعیل کی ب��ولی ہے۔ پس یوس��ف بادش��اہ نے زباندانی میں بھی فالیق رہا)مگر معلوم نہیں کہ وہ س�تر زب��انیں کونس�ی تھیں ج��و بادش��اہتان س��ے وہ ایس��ا ن��اواقف تھ��اکہ جانتا تھا اور عبرانی وعربی جو ق��ریب کے مل��ک کی ہیں تاس کی ب��ڑی ع��زت کی پوچھن��ا پ��ڑا یہ کس مل��ک کی زب��انیں ہیں( غ��رض بادش��اہ نے تاسے اختیار بخشا اور بوطیفار کو موقوف کردیا اب یوس��ف عزی��ز مص��ر اورسارے ملک پر

ہوگیا اور چند روز بعد بوطیفار مرگیا۔ زليخا روتی ہوئی جنگل کو نکل گئی وہاں جو کوئی یوسف کی خبر لاتا تھ��اآاخ��ر ک��و فق��یر ہوگ��ئی اورب��وڑھی وان��دھی ہوگ��ئی پ��ر یوس��ف کی تاسے دولت بخش��تے تھے

یادگاری نہ چھوڑی۔آاہ ایک روز یوسف کے ہزار پیادے وسوار لےکر کہیں جاتا تھا راہ میں زلیخ��ا تاس کی خراب حالت پر ترس کھای��ا ح��ال پوچھ��ا اور تس��لی بھرتی ہوئی ملی یوسف نے آاگی�ا تب اا جوان اورپاکرہ ہوگئی اور پہلے س�ے زی�ادہ حس�ن دی پھر دعا مانگی تو وہ فور

تاس سے نکاح کرلیا۔ یوسف نے تاس سے دوبی�ٹے پی��دا ہ��وئے اف��رایئ� اورمنس�ی اوریوس�ف نے ازرانی کے س�ات برسوں میں غلہ جمع کیا اور گرانی کے ساتھ برسوں میں ف�روخت کی�ا اوراہ�ل مص�ر کےتاسے غلامی آازاد کا تاکہ کوئی سب املاک بلکہ بال بچے بھی خرید لئے اورپھر انہیں

تاس کے غلام ہوں۔ کی داغ نہ لگادے بلکہ سب

بھائیوں کی ملاقاتبھائیوں کی ملاقاتآائے جب یوس���ف کے یوس���ف کے دس بھ���ائی غلہ خری���دنے ک���و مص���ر میں تاس نے کہ��ا ت� سامنے پیش ہوئے انہوں نے یوسف کو نہ پہچان��ا پ��ر یوس��ف ج��ان گی��ا اور جاسوس ہو وہ ب��ولے نہیں ہ� یعق��وب کے بی��ٹے ہیں ای��ک ک��و بھیڑیاکھاگی��ا ای��ک بین��امینتاس بھ��ائی ک��و آائے ہیں یوس��ف نےکہ��ا اپ��نے باپ کے پاس ہےاورہ� دس غلہ خردی��نے ک��و

بھی لا کر دکھلاؤ تو مجھے یقین ہوگ��ا کہ ت� جاس��وس نہیں ہ��و تب انہ��وں نے ش��معونتان پ�ونجی بھی ج�و آاپ وہ��اں س�ے کنع�ان ک�و غلہ لےک�ر واپس گ�ئے ک�و وہ�اں چھ�وڑا اور انہ��وں نے غلہ کی قیمت دی تھی یوس��ف نے خفیہ بوری��وں میں واپس ک��ردی تھی پستان ک�و تان کی ض��یافت کی اور پھ��ر باپ سے بجد ہوکر بینامین ک�و لائے اور یوس��ف نے تاس کے حک� سے چھپایا گیا تھا واپس کیا لیکن بینامین کی بوری میں یوسف کا پیالہ آاخ��ر تاس نے نہ چھوڑا تاسے پکڑ اور غلام کیا اگرچہ بھائی بہت روئے پر بعد تلاشی کے کو بینامین کو وہاں چھ��وڑ ک�ر وہ چلے گ�ئے اور روبین بھی اپ�نی مرض�ی س��ے وہ��اں رہ��ا اب یعقوب زیادہ مصیبت میں پڑگیا کیونکہ نہ یوسف ہے نہ بین��امین اور روبین بھی مص��ر میں رہ گی��ا لاچ��ار ہ��وکر یعق��وب نے عزی��ز مص��ر ک��و یہ خ��ط لکھ��ا اور لڑک��وں کے ہ��اتھ بھیجا۔خط یہ تھا یعقوب اسرائيل بن اص�اق ذبیح اللہ بن اب�راہی� خلی��ل اللہ ک ط��رفآاتی رہیں م��یرا سے عزیز مصر کو لکھا جاتا ہے کہ ہ� لوگ اہل بیت ہیں جن پر بلائیں تاس��ے خلاص��ی دی م��یرے ب��اپ اص���اق کے آاگ میں ڈالا گیا پر خدا نے دادا ابراہی� تاس کے عوض فدیہ دی��ا م��یرا ای��ک پی��ارا بیٹ��ا تھ��ا گلے پر چھری رکھی گئی اور خدا نے تاس کے غ� میں روتے تاس�ے بھیڑی�ا کھاگی�ا آاک�ر کہ�ا کہ تاسے جنگل میں لے گ�ئے اورتاس کا بھائی بینامین تونے چ�وری کی تہمت س�ے پک�ڑ آانکھیں سفید ہوگئیں روتے میری رکھ��ا ہے ہ� ل��وگ چ��ور نہیں ہیں پس م��یرے ل��ڑکے کے چھ��وڑدے ورنہ ایس��ی ب��ددعا

تاس کا بداثر نہ جائے گا۔ کرونگا کہ تیری ساتویں پشت تک اا یوں لکھا۔ یوسف نے اس کا جواب فور

یعقوب اسرائيل اللہ بن ذبیح اللہ بن خلیل اللہ کی طرف عزیز مص��ر س��ے ی��وںآاپ کے ب��اپ دادوں کی آاپ ک��ا خ��ط م��یرے پ��اس پہنچ��ا جس میں لکھ��ا جات��ا ہے کہ آاپ کو صبر کرن��ا چ��اہیے تھ��ا تمہ��ارے ب��اپ دادوں آاپ کی تکلیفوں کا ذکر ہے پس اور

آاپ بھی صبر کریں۔ نے صبر کیا تو فتح پائي

جب یعقوب نے یہ پڑھا توکہا شائد وہ یوسف ہو کیونکہ یہ باتیں پیغمبروں کے سے ہیں پس یعقوب نے اپنے لڑکوں ک��و ج��و مص��ر میں تھے اورخ��ط لکھ��ا کہ وہیں رہیں اور عزیز مصر کے سامنے ع��اجزی ک�رتے رہیں ت�اکہ ت� پ�ر مہ��ر ک�رکے لڑک��ا چھ��وڑدےآائے تب تاس کے سامنے زاری کرنےک��و اورکچھ کھانا بھی دے پس وہ سب جمع ہوکر تان پر ظاہر کیا اور وہ شرمندہ ہوئے یوسف نے انہیں ملامت نہیں کی آاپ کو یوسف نے

بلکہ بخشدیا اور تسلی بھی دی۔

یوسف کی باپ سےملاقاتیوسف کی باپ سےملاقات برس یعقوب اور یوسف میں جدائی رہی اس عرصہ میں یعقوب روتے روتے۸۰

اندھا ہوگیا یادہندلا دیکھنے لگا۔ ایک دن یوسف نے بھائیوں س��ے کہ��ا ت� م��یرا ک��پڑا لےتاس��ے لے تاس کے منہ پر ڈال دو وہ بینا ہوجائے گا پھر ت� سب کر باپ کے پاس جاؤ اورآاؤ جب وہ لوگ کپڑا لے کر مصر سے باہر نکلے خدا نے بادصبا ک��و کر مصر میں چلے حک� دیا کہ یوسف کے کپڑے کی خوشبو یعق��وب ک��و پہنچ��ادے پس یعق��وب کنع��انتاس�ے دی�وانہ بتلای�ا تب آاتی ہے لوگ��وں نے میں بولا مجھے یوسف کے کپڑے کی خوشبو

آائے۔ آائے اورکپڑا ڈالا وہ بینا ہوا پھر وہ سب بڑی خوشی سے مصر کو یا۹۳یا ۷۲لڑکے ش��خص تھے جب مص��ر کے نزدی��ک پہنچے س��تر ف��وجیں لے ک��ر یوس��ف۴۰۰ ی��ا ۷۰

آایا ہر فوج دوہزار سوار کی تھی سب سوار ہوئے پس پہلے یعق��وب۱۴۰۰۰۰استقبال کو نے یوسف سے کہا السلام علیک یا مذہب الاح��زان پھ��ر م��ل ک��ر روئے اور یعق��وب پ��انچآاس�مان کے فرش�تے خ�دا س��ے کہ��نے لگے اے خ�دا دنی��ا میں گھ��ڑی ت�ک بے ہ��وش رہ��ا کسی کے ساتھ ایسی م�بت ہوگی جیسے یعقوب کو یوسف سے ہے خدا نے کہا ان

سے زیادہ مجھے م�مدی لوگوں کے ساتھ م�بت ہے۔ ب�رس ک�ا ہ��وکر مرگی�ا۱۴۷غرض یعقوب بعد ملاقات بیس برس اور زندہ رہا اور

اوربموجب وصیت کے یوس��ف نے اص���اق کی ق��بر کے پ��اس ش��ام میں ج��اکر دفن کی��ا

آایا اور تاس کی لاش کی بابت اہ��ل مص��ر۴۳پھر یوسف مصر میں برس اور جیا پھر مرگیا تاسے رکھنا چاہتا تھا۔ نے تکرار کیا ہر کوئی اپنے قبرستان میں بامید برکت

تاس��ے بن�د ک��رکے آاخریہ بات ق��رار پ�ائی کہ ای�ک س�نگ مرم��ر کے ص�ندوق میں رودنیل دریا میں رکھیں ت�اکہ ب�رکت ک�ا پ�انی س�ب ک�و پہنچے جب چ�ار س�و ب�رس بع��دتاسے وہاں سے اٹھا کر لائے اور شام کے ملک میں اپنے قبرس��تان میں یی پیداہوئے وہ موس

ب��رس ک��ا۱۷ ب��رس کی ہ��وئی م��دارک میں ہے ۱۲۰ یا ۱۱۰دفن کیاگیا۔ یوسف کی عمر برس ک�ا تھ��ا جب وزی��ر ہ��وا۳۰برس بوطیفار کے گھر میں رہا ۱۳تھا جب مصر میں بکا

تاسے بخشا ۳۳ برس کا تھا جب مرگیا۔۱۲۰ برس کا تھا جب عل� وحکمت خدا نے

قصہ ایوبقصہ ایوبتاس کی م��الوط کی بی��ٹی ایوب پیغمبر رومی تھا عیص تیسری پشت میں س��ے

تاس کے سات یا تین بیٹے تھے اور لڑکیاں تھیں اور دولت بہت تھی اس پر۷ یا ۳تھی تاس نے آائی اور سبب مصیبت ک��ا یہ تھ��ا کہ کس��ی مظل��وم کی فری��اد رس��ی بڑی مصیبت تاس کے مویش��ی کس��ی ک��افر بادش��اہ کے علاقہ میں چ��رتے تھے آانکہ نہیں کی تھی۔ی��اتاس نے کوئی گن��اہ کی تاس کے ساتھ جہاد نہیں کرتا تھا۔ یا اورایواب اس رعائت سے آاپ کھ��ائي اورہمس��ایہ تچپ کررہ��ا ی��ا اس نے ک��وئی بک��ری ذبح ک��رکے ب��ات دیکھی اورتاس پ��ر حس��د کی��ا اور خ��دا س��ے کہ��ا یہ ش��خص عیش آانکہ شیطان نے بھوکا رہا تھا۔ یاتاس ک�ا س�ب کچھ وعشرت میں تجھے ی�اد کرت��ا ہے مص�یبت میں بھ��ول ج�ائے گ�ا پس آازم��ائش میں تاس��ے آازم��اؤں۔ ی��ا فرش��توں نے حس��د ک��رکے تاس��ے مجھے س��پرد ک��ر کہ میں تاس نے خ��دا س�ے کہ��ا کہ مجھے بلا میں ڈال ت�اکہ مجھے ص�ابروں ک�ا ڈلوایا۔ یا خود تاس کے اونٹ بجلی نے م��ارے بکری��اں غرق��اب اج��ر ملے ی��ا ک��وئی اور س��بب ہ��و ا پس ہوئیں کہیت ہوانے جلائے لڑکے لڑکیاں دی�وار کے نیچے دب م��ری وہ ہ��ر مص��یبت پ��رتاس آانے لگی سب آاخر کو بدن میں کیڑے پڑے بدبو کہتا رہا خدا نے دیا خدا نے لیا۔

تاس کی تین جوروں طلاق لے گئیں ای�ک ج�ورو مس�مات رحمت ی�ا سے جدا ہوگئے اور رحیمہ ج��و اف��رای� بن یوس��ف کی بی��ٹی تھی ی��ا وہ ماخیرن��ام منس��ی بن یوس��ف کی بی��ٹی

تھی۔ یا لیانام یعقوب کی بیٹی تھی وہ ساتھ رہی۔ اور وہ جس شہر میں جاتا تھا وہاں سے لوگ نکالتے تھے سات شہروں میں س��ے نک��الا گیا جنگل میں جارہا اور دوشاگرد بھی جو ساتھ تھے وہ��اں ج��داہوگئے ص��رف وہ ع��ورت

ساتھ تھی اور خدمت کرتی تھی۔ آای�ا۱۸یا ۱۳وہ سات برس یا تاس کی عب��ادت میں ف��رق نہ ب�رس بیماررہ��ا کبھی

آان میں لکھ�ا ہے تاس نے مصیبت میں ش�کائت کی اس�لئے ص�ابر کہلات�ا ہے )مگ�ر ق�ر نہ تاس نے رب انی مس��نی الض��ر اے خ��دا مجھے مص��یبت نے پک��ڑا یہ ش��کائت کے کہ آاک��ر تاس�ے ش��یطان نے الفاظ جو وہ بولا اس کی تاویل م�م�دی ل��وگ ی�وں ک�رتے ہیں کہ تاس تامت کے لوگ��وں نے تاس کی کہا تھا کہ تو مجھےسجدہ کر جب تو اچھا ہوگا۔ ی��ا آانکہ ای��ک آانکہ ایسا لاچار ہوگیا تھا کہ نماز بھی نہ پڑھ سکتا تھا۔ یا پر ٹھٹھ مارا تھا۔ یاآانکہ اس کی بی بی نے کہ�ا تھ��ا تپرس�ی نہیں کی تھی۔ ی�ا تاس کی بیم�ار روز خدا نے آانکہ اس کی ع��ورت کس��ی ک��افر ع��ورت کہ ش��راب اور س��ور کھ��الے ت��و اچھ��ا ہوگ��ا۔ ی��ا کےگھ��ر گ��ئی اور ق��رض کے ط��ورپر کھان��ا مانگ��ا اس نے کہ��ا اگ��ر اپ��نے ب��ال ک��اٹ ک��رآائی ش��یطان نے تاس نے ب��ال ک��اٹ کردئ��يے اور گھ��ر مجھے دے ت��و کھان��ا دونگی پس تاس کے ب��ال کس��ی نے علامت کے ل��ئے ایواب سے کہا ت��یری ع��ورت نے زن��ا کی��ا ہے تاس کے س�و ک�وڑے م�م�دی ک�اٹ ل�ئے ہیں ای�وب نے کہ�ا جب میں تندرس�ت ہونگ�ا تاس نے الف��اظ ش��کائت ب��ولے تھے )پ��ر یہ دستور پر مارونگا غ��رض ان س��ببوں کے س��بب سب تاویلات درست نہیں کیونکہ یہ تو سبب شکائت ہیں وج�ود ش�کائت ک�ا ان�دفاع ان سے نہیں ہوسکتا ہاں بعض نے کہا کہ خدا سے ش��کائت تھی نہ غ��یر س��ے یہ ق��رینتاس کے پ��اس ج��اری قیاس بات ہے توبھی شکائت ہوئی ( خدا نے ایک چشمہ پانی کا

کی��ا جس میں ای�وب غس�ل ک�رکے تندرس�ت ہوگی��ا جیس�ے اول میں تھ��ا پھ�ر وہ معہ زوجہتاس کے مرے ہوئے بچے بھی جلادئیے اورس��ب م��ال مویش��ی آایا اور خدا نے شہر میں بھی جی اٹھے اور جورو پھر جوان ہ��وکر اولاد جن��نے لگی اور وہ تین ع��ورتیں ج��و طلاقآابسیں اور وہ پہلے نبی تھا اب پیغمبر ہوگیا اوراس کے بع��د لے گئیں تھی پھر گھر میں

برس کا ہوکر مرگیا۔۱۴۶ یا ۱۴۱ یا ۱۳۵ برس جیا پھر ۴۸

قصہ شعیبقصہ شعیبتپش��ت میں تھ��ا خ��دا نے ش��عیب پیغم��بر اب��راہی� کے بی��ٹے م��دین کی دوس��ری تاسے رسالت دے کر اہ��ل م�دین اورایکہ کے جنگ�ل کے باش�ندوں کی ط��رف بھیج�ا تھ�اتاس کے س�امنے جھ��ک تاس کا یہ معجزہ تھاکہ جب کسی پہاڑ پر چڑھتا تھا تو وہ پہ�اڑ تاس کے عہد کے لوگ ترازو میں ٹن��ڈی م��ارتے تھے راہ زنی ک��رتے تھے ش��عیب جاتا تھا آاواز تان کو جو ایمان نہ لائے ب�ددعا کی تب جبرئی��ل نے ای��ک س�خت نے لاچار ہوکر سے انہیں ہلا ک کیا یہ تواہل مدین کا احوال ہوا پ�ر اہ�ل ایکہ ایس�ے س�خت تھے کہتان کے تان پ��ر لای��ا کہ وہ یی ایک قس��� کی گ��رمی کوئی بھی ایمان نہ لایا تب خدا تعالآایا جب وہ پانی اور زمین جلنے لگی تب وہ جنگل کی ط��رف بھ��اگے وہ��اں ای��ک س��ردابرآاگ برسائی اور وہ ہلاک ہوئے اب شعیب تان پر تاس کے نیچے جمع ہوئے خدا نے سب آای��ا وہیں یی پی��دا ہ��وکر وہ��اں نہ آابسا اورجب تک کہ موس�� اپنے لوگوں کو لے کر مدین میں تاس کے پاس سے چلا گی��ا تب چ�ار مہی��نے س��ات ب�رس کے بع��د مرگی��ا یی رہا جب موس

تاس کی قبر کوہ صفا اور مروہ کے درمیان ہے۔

یی کا قصہ یی کا قصہموس موستپشت میں تھا اس کے باپ کا نام عمران یی لاوی بن یعقوب کی تیسری موس تھا قابوس یا ولید بادشاہ مصر کے عہد میں پیدا ہوا اس بادشاہ کا لقب بھی فرع�ون تھ��اتاس یوسف والے فرعون کی اولاد تھا یا وہی فرع��ون تھ��ا ج��و ات��نی دی��ر ت��ک یہ فرعون یا تو

آاخر کو کافر ہوگیا اپنی تصویر کی پرستش لوگ��وں س��ے کرات��ا تھ��ا اورکہت��ا تھ��ا زندہ رہا اور تاس نے خ�دا س�ے دع�ا تبت تمہارے چھ��وٹے خ�دا ہیں اور کہ میں تمہارا بڑا خدا ہوں اوریہ تاس آاخرت کی ک��وئی چ��یز نہیں چاہت��ا خ�دا نے کی تھی کہ مجھے دنیا عنائت کر میں تاس دری��اء نی��ل پ��ر اختی��ار تھ��ا جب حک� دیت��ا وہ چلت��ا کی ع��رض قب��ول بھی کی تھی اور

جب منع کرتا وہ ٹھہرجاتا تھا۔تاس ایک دن فرعون سے کاہنوں نے کہا بنی اسرائيل میں ایک لڑکا پی��دا ہوگ��ا آائے گا۔ یا فرع��ون نے خ��واب دیکھ��ا کہ ای��ک ش��خص پی��دا سے تیری مملکت میں زوال

ہوکر مجھے خراب کریگا پس وہ غمگین تھا۔تبت��وں تاس کے پاس ہزار جادوگر ہزار کاہن ہزار نجومی لوگ تھے وہ س��ب اپ��نے سے منت کرکے پوچھتے تھے کہ وہ لڑکا کب پیدا ہوگا۔ پس جس وقت خدا نے عرشیی ک�و فلاں مہی��نے کی فلاں ت�اریخ کے فرشتوں سے کہا کہ میں بنی اس�رائيل میں موس�آانے دونگا ت��و تاس کی والدہ کے شک� میں فلاں جمعرات کو تین گھڑی رات گذرے تانہ��وں نے فرع�ون ک��و آاسمان سے چرا کر اپنے پوجاریوں کو لا ک�ردی اور یہ خبردیوتاؤں نے

آانے کا وقت بتلادیا۔ یی کے رح� میں موستاس جمعرات کو ب�نی اس�رائيل کے س�ب م�رد عورت�وں س�ے اس لئے فرعون نے آاپ معہ عم�ران مص�احب کے ش�ہر جدا کردئیے اورشہر سے باہر نکال دئیے اور فرعون میں رہا اور عمران سے کہا کہ تو میرے دروازہ پر پہرہ دے میں م���ل میں جات��ا ہ��وںتاس کے پ�اس چلی عم�ران کی ع��ورت یوخاب�ذ ک�و خ�بر ملی کہ عم�ران ش�ہر میں ہے وہ

آائی اور ہمبستر ہوکر حاملہ ہوئی ۔تبت��وں کی حض�وری میں ش��ب داری ک�ررہے تھے اس وقت جادوگر چلائے ج�و آاگیا اور یہ انتظام عورت مرد کی جدائی کا ک��ارگر نہ ہ��وا پ��ر وہ بولے کہ دشمن رح� میں اب تولد کے وقت انتظام کیا جائے گا۔ پس پھر یہ بندوبست ہواکہ جو لڑکا بنی اسرائيل

یی تول��د ہ��وئے دایہ نے۹۰میں تولد ہوتا مارا جات�ا تھ��ا۔ ہ��زار ل��ڑکے م��ارے گ��ئے جب موس�� مہربان ہوکر چھوڑا اور وہ تین مہینے ی�ا زی�ادہ عرص�ہ ت�ک پوش�یدہ رکھ�ا گی�ا۔ یہ یوجاب�ذتاس عمران کی عورت لاوی کے خاندان سے تھی اور بق�ول مع�ال� لاوی کی بی�ٹی تھی یی کو چھپ��انہ س��کی ت��و ای��ک کے دو بچے ہارون ومری� اوربھی تھے جب وہ عورت موس صندوق میں رکھ کر پانی میں ڈال دیا وہ بہتا ہوا فرعون کے باغ میں پہنچا وہ��اں فرع��ونتاس کی ل��ڑکی بھی وہ��اں تھی انہ��وں نے آاس��یہ ج��و ایمان��دار تھی اور تاس کی بی بی اوریی نام رکھ��ا لف��ظ م��وکے مع��نی ہیں یی کو صندوق میں پایا اوربیٹا کرکے پالا اور موس موس پانی اورسا کہ��تے ہیں درخت ک��و مص��ری زب��ان کے مواف��ق اور س��ریانی زب��ان میں م��ومروہیی کے مع��نی ہیں پ��انی کے درخت��وں کے صندوق کو کہتے ہیں اور ساپانی کو پس موسیی اس�ترہ ک�و کہ�تے ہیں جس س�ے ب�ال میں پایا ہوا یا پانی ک�ا ت�ابوت پ�ر ع�ربی میں موس�یی کی بہن م�ری� وہ��اں حاض��ر یی کو پ��انی میں پای��ا ت��و موس�� تراشے جاتے ہیں۔ جب موسیی کی تھی اس نے کہا کہ میں اس کے لئے ایک دودھ پلائی لاس�کتی ہ��وں اور وہ موس��

ماں کو لائی اس طرح اس کی پرورش ہوئی۔یی کی زبان میں لکنت تھی اس کا س��بب یہ تھ��ا کہ ای��ک روز طفلی میں موسیی نے اس کی دہاڑی نوچ لی اور ایک طم��انچہ اس کے فرعون نے اسے گود میں لیا موسآاس�یہ نےکہ��ا یہ ن�ادان بچہ ہے منہ پر مارا فرعون نے غصہ ہوکر اس کے قتل ک�ا حک� دی�ا آازم���ائش کے ط���ورپر تاس نے آاگ میں بھی ہ���اتھ ڈالت���ا ہے پس اس���ے تم���یز نہیں یہ ت���و یی ج�واہرات اٹھ�انے لگ�ا جبرئی�ل نے اس آاگ اس کے سامنے رکھ�وائی موس� جواہرات اورآاگ اٹھا کر منہ میں ڈالی پس تھوڑی سی زب��ان آاگ کی طرف پھیردیا اوراس نے کا ہاتھ

جل گئی تھی اس لئے لکنت ہوئی اور فرعون نے جان بخشی کی ۔

قتل قبطیقتل قبطی

یی برس کا ہوا ایک روز مصر میں یا کس��ی اور بس��تی۳۰یا ۲۰یا ۱۳جب موس میں تھاکہ ایک قبطی فرعون کا ملازم کسی اسرائيلی کو مارتا تھا اورکہتا تھا کہ باورچییی نے قبطی کومن��ع یی سے فریاد کی پہلے موس�� خانہ کے لئے لکڑیاں لا اسرائیلی نے موسیی نے ای�ک گھونس�ا م�ارا کہ وہ مرگی�ا اور ک�وئی وہ��اں نہ کیا جب اس نے نہ مانا ت�و موس�

یی اور وہ اسرائیلی وہاں سے کہسک گئے۔ دیکھتا تھا پس موسیی بولا ت��و ب��ڑا گم��راہ دوسرے روز وہی اسرائيلی کسی اورقبطی سے لڑتا تھا موسیی قبطی ک��و آاج پھر جھگڑا کرتا ہے یہ کہہ کر موس�� ہے کل تونے ایک شخص کو مروایا آاج آات�ا ہے اس ل��ئے چلا اٹھ��ا کی��ا مجھے بھی آایا اسرائيلی سمجھا مجھے م�ارنے مارنے تاس قبطی کو مارا وہ قبطی ج��و حاض��ر تھ��ا ج��ان گی��ا کہ پہلے مرتا ہے جیسے تونے کل یی نے س�نا کہ فرع�ون اب یی ہے اور یہ خ�بر فرع�ون نے س�نی جب موس� قبطی کا قاتل موس�آاٹھ روز گھ��اس کھ��اکر م��دین کے نزدی��ک پہنچ��ا وہ��اں مجھے مارنا چاہتاہے تو بھاگا اور راہ میں ایک کنوئے پر گڈریئے گلے لے کر جمع تھےاور دو لڑکیاں بھی گلے لے کر حاضر تھیں اور منتظر تھیں کہ جب سب پلاچکیں تو باقی ماندہ پانی اپنی بکری�وں ک��ویی نے کہ��ا ت� ال��گ کی��وں کھڑےہ��و پ��انی کی��وں نہیں پلاتیں وہ ب��ولیں جب پلائیں۔ موس�� سب پلاچکیں گے اورپانی بچیگا تو پلائینگی کی��ونکہ ہم��ارا ک��وئی م��ددگار نہیں ہےآاسکتا۔ یہ لڑکیاں شعیب پیغم��بر کی بھتیجی��اں صرف ایک بوڑھا واندھا باپ ہے وہ نہیں

یا بیٹیاں تھیں۔تان کے گلوں کو پ��انی نک��ال ک��ر پلای��ا اور تان کی مدد کی اور یی نے پس موسآاٹھ دس تاس��ے کھان��ا کھلای��ا اورکہ��ا یی کو گھر میں لائیں اور ش��عیب نے وہ لڑکیاں موسیی نے یہی برس ہماری گلہ ب�انی ک�ر توای�ک ل�ڑکی س�ے ت�یرا نک�اح ک�ردینگے پس موس�آادم بہش��ت س��ے لای��ا تھ��ا کی��ا۔ ش��عیب کے گھ��ر میں وہ لاٹھی بھی رکھی تھی جس��ے

یی ہوا۔ یی کو شعیب نے دی وہی عصائے موس وہی لاٹھی موس

آانا یی کا مصر میں پھر آاناموس یی کا مصر میں پھر موستاس نے مص�ر ک�ا ارادہ کی�ا اور ش�عیب س�ے یی چالیس برس کا ہوا تو جب موسآای�ا ت�و رخصت لے ک�ر معہ اپ�نی بی بی کے مص�ر کی ط��رف چلا جب وادی ایمن میں راہ بھول گیا رات اندھیری تھی برف پڑتی تھی اوراس کی بی بی صفورا اسی وقت لڑک��اآاتی تھی اور وہ جمعرات کی رات تھی ناگاہ ک��وہ ط��ور آاگ میسر نہ بھی جنی تھی اور آاواز آاگ میں س��ے آاگ لینے گی��ا یی سب کو چھوڑ کر وہاں آائي موس آاگ نظر کی طرف

آائی میں تیرا خدا ہوں تو اپنی جوتیاں اتار۔ ش��ائد اس ل��ئے جوتی��اں ات��ارنے ک��ا حک� ہ��وا کہ وہ گ��دھے کے چم��ڑے کی ناپاک جوتیاں تھں۔ یا صرف ادب وتعظی� کےلئے رکھ��ا۔ ی��ا جوتی��وں س��ے م��راد تفک��رات دل اورعلائق جسمانی ہیں یعنی عال� تفرید میں قدم رکھ یہ مطلب م�مدیوں نے جوتے

تاتارنے کا بیان کیا ہے۔یی تیرے ہاتھ میں کی��ا ہے وہ ب��ولا م��یر ی لاٹھی ہے جس پھر کہا کہ اے موس س��ے بکری��اں ہانکت��ا اور پ��تے جھاڑت��ا ہ��وں اوراس پ��ر تکیہ کرت��ا ہ��وں مع��ال� اورم��دارک میںیی س��ے راہ میں ب��اتیں لکھ��اہے ۔ کہ اس لاٹھی میں ک��ئی ت��اثیریں تھیں وہ لاٹھی موس�� کرتی تھی۔ اور موذیات سے حفاظت کرتی تھی۔ راہ ک��ا توش��ہ اٹھ��ا ک��ر چل��تی تھی۔ اور کن��وئیں پ�ر وہ رس�ی اور ڈول بن ج�اتی تھی اور می�دان میں درخت می��واہ دار بن ک�ر پھ��ل دیتی تھی اور سایہ کرتی تھی۔ رات کو چراغ بن جاتی تھی۔ زمین سے چشمے جاری

کرتی تھی۔ اور سواری کا کام بھی دیتی تھی اور اور بھی فائدے پہنچاتی تھی ۔یی کو عص��ا اور بدبیض��ا ک��ا معج��زہ عن��ائت کی��ا اور پس خدا نے اس وقت موسیی کی لوگ انتظاری فرعون کی طرف بھیجا اورہارون کو اس کا مدگار کیا اس رات موسآاگی��ا پس ص��فورا اس کے آایا کوئی م�دین ک�ا ق��افلہ وہ��اں آاگ لے کر نہ میں رہے پر وہ آاک��ر س��ب ح��ال س��نایا اوراپناس��ب کچھ یی نے آائی ی��ا موس�� ساتھ ش��عیب کی ط��رف چلی

تاس��ے دے ک��ر واپس کی��ا اب اکیلا مص��ر ک��و چلا ق��ریب چ��ا رگھ��ڑی رات گ��ذری ش��ہرآایا ہارون اورمری� اوراپنی ماں کو دیکھا لیکن باپ مرگیا تھا۔ ی��ا ہ��ارون ک��و بھی مصرمیں تاس�ی رات ی�ا ای��ک یی س�ے ملاتی ہ��وا پھ��ر وہ دون��وں آائی کہ وہ راہ میں جاکر موس وحی یی ب��ولا ب��نی یی کوپہچانا اورب��اتیں ہ��وئیں موس�� برس بعد فرعون کے پاس گئے فرعونے موس اسرائيل کو ملک شام میں ج�انے دے اور غلامی میں نہ رکھ۔ اور ت�و خ��دا پ�ر ایم��ان لایی نے وہ��اں تاس نے نہ مان��ا اور فرع�ون کے وزی�ر ہام�ان نے بھی ب��ڑی سرکش�ی کی موس� پ�ر یی پر غ��الب نہ معجزات دکھلائے اور جادو گروں نے بھی اپنی کرامتیں دکھلائیں پر موسیی کے معج��زے یہ تھے ق���ط س�الی ملخ پی��ادہ ج��وئیں ، مین��ڈک ، دری�ائے آاسکے موسآائیں پ��ر تان پر نیل کا خون ہونا اور مصریوں کے درہ� دیناروں کا پتھر ہونا یہ سب بلائیں یی بنی اس��رائيل نے مص��ریوں س��ے ب��رتن اور زی��ور وہ ایمان نہ لائے اس کے بعد ب�ک� موس عید کے بہانہ سے قرض لئے اور یوسف کی لاش کا صندوق دریا سےنکال کر رات کو

بھاگ نکلے۔ ش��ام کے وقت مص��ریوں ک��و خ��بر ہ��وئی کہ وہ چلے گ��ئے ہیں وہ تع��اقب کرن��ا چاہتے تھے لیکن ہر ایک گھر میں ایک پی��ارا ع��زت دار مرگی��ا تھ��ا اس ل��ئے اس روز غ� میں رہے دوسرے روز تعاقب کی��ا۔ ب�نی اس�رائيل دس لاکھ س�ے زي�ادہ تھے فرع�ون بھیآای��ا اور دری��ائے نی��ل پ��ر تان کے پیچھے آاگے پیچھے دائیں بائیں کرکے چوبیس ہزار سوار یی نے دریاء نیل کو کہا یا اباخالد ہمیں راہ دے باخال��د رودنی��ل کی ملاقات ہوئی ۔ موس

کنیت ہے۔تادھ�ر پ�انی پس دری�اء میں ب�ارہ راس�تے ظ�اہر ہ�وئے اور دی�واروں کی ط��رح ادھ�ر تان آای��ا ت��و دری��انے کھڑا ہوگیا سب اسرائيلی پار اترگئے اورجب فرعون کا لش��کر پ��انی میں تاس کی عم��ر ک��و غ��رق کی��ا اور فرع��ون بھی بے ع��زتی س��ے دری��ا میں ڈوب ک��ر مرگی��ا

چارسوبرس کی ہوئی ۔

یی کا طورپر جاکر کتاب لانا یی کا طورپر جاکر کتاب لاناموس موسیی نے سابق میں بنی اسرائيل سے وع�دہ کی�ا تھ�ا کہ جب فرع�ون معہ اپ�نی موس ق��وم کے غ��رق ہوج�ائے گ�ا تب میں تمہ��ارے فائ��دے کےل�ئے خ�دا کے پ�اس س�ے ای�کیی س��ے کہ��ا وہ کت��اب خ��دا س��ے کتاب لاؤنگا اب کہ فرعون مرگیا بنی اسرائيل نے موس��

یی ماہ ذیعقد میں یی نے ب�ک� الہ دن تک۳۰لاؤ جس کا ت� نے وعدہ کیا تھا پس موسآائی کہ میں نے روزہ رکھا ہے یی کو شرم روزہ رکھا اس کے بعد کوہ طورپر گیا مگر موستاس نے مس��واک ک��رکے منہ ص��اف کی��ا آاتی ہ��وگی اس ل��ئے میرے منہ سے روزہ کی بو فرشتوں نے کہا وہ روزہ کی بو ہمارے لئے مشک کی خوشبو سے زيادہ تھی ت��ونے اس��ےتاس کے جرمانہ یی نے ب�ک� خدا مسواک سے کیوں دفع کیا یہ اچھا نہیں کیا تب موس

یی۱۰میں ذال�جہ کے روزہ اور رکھے اس طرح چالیس روزے ہوگئے اس کے بعد موس��تاس نے ہارون کو اپنا قائ� مقام کیا اور کوہ طور پر چڑھا وہاں خ��دا نے چ��الیس رات دن

آاخ��ر۹۰ ہ��زار ی��ا ۷ہ��زار ی��ا ۴س��ے ب��اتیں کیں تاس نے خ��دا س��ے س��نے ۔ ہ��زار کلم��ات یی بولا اے خدا مجھے بچا اپنا دی�دار دکھلا اس نے فرمای�ا کہ ت�ومجھے دیکھ نہ کوموس سکیگا پھر خدا نے اپنے جلال کا ایک دزہ پہاڑ پر ظ��اہر کی��ا اس وقت دنی��ا کے س��ب پاگل ہوشیار ہوگ��ئے اور س��ب بیم��ار تندرس��ت اور س��اری س��رزمین س��بز ہوگ��ئی س��ارےآاگ بجھ گ�ئی اور وہ تبت دنی��ا کے گ�ر پ�ڑے اور مج��وس کی پانی میٹھے ہوگئے سارے

تاس پہاڑ میں سے ٹوٹ کر الگ جا پڑے۔۶پہاڑ طور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور پہاڑ تاحد وکوہ قاف وکوہ رضوی مدینہ میں جا کر گرے اور کوہ ثور وکوہ بیشر کوہ آای�ا ت�و اٹھ��ا اور خ��دا آاٹھ پہر بے ہوش رہا جب ہ��وش یی و کوہ حرا مکہ میں گرے اور موس

تاسے ی�ا۱۰ تختی�اں عن�ائت کیں ہ��ر تخ��تی ۱۲ ی�ا ۹ ی�ا ۷کی تعریف کی۔ پھر خدا نے گز لمبی تھی اور وہ یا ت�و ی��اقوت س��رخ کی زب�ر ج��د کی س��نگ زرح�ام ی�ا زم�رد کی۱۲

تاس ب���یری کے درخت کی تختی���اں تھیں ج���و بہش���ت میں ہے یع���نی س���درہ تھیں ی���ا

المنتہی۔ اور ان تخ��تیوں پ��ر س��ب کچھ لکھ��ا تھ��ا تفس��یر م��دارک میں ہے وکتبن��ا لہ فی الالواح کے ذیل میں لکھا ہے کہ جب توریت نازل ہوئی تو اس میں اتن�ا ب�وجھ تھ��ا کہیی آاخر تک نہیں پڑھا صرف موس� تاسے اول سے تاسے اٹھاتے تھے اورکسی نے ستر اونٹ تاس میں س��ے پڑھ��ا یی نے ان کے سواسب لوگوں نے تھوڑا تھ��وڑا اور یشوع وعزیر اور عیس

ہے۔

سامری کا قصہسامری کا قصہآادمی تھا جس کا نام سامری تھا وہ ی�ا ت�و ب�نی اس�رائيل کے ب�زرگ ق��بیلہ ایک یی بن مظف��ر کہ��تے تھے یہ ش��خص تاس ک��و موس�� سامرہ کا تھا ی�ا غ��یر ق��وم میں س�ے تھ��ا یی کی طرح مصر میں پیدا ہوا اور اس کی والدہ نے اس کو رودنیل کے کنارہ بھی موس کسی جزیرہ میں فرع�ون کے خ�وف س�ے پھینک�دیا تھ�ا وہ�اں جبری�ل نے اس کی پ�رورش کی تھی جس وقت بنی اسرائيل مصر سے نکلے اور دریائے نیل پ��ر فرع��ون غ��رق ہ��وا اسآای��ا تھ��ا اس س��امری نے جبرئی��ل کے یی کی مدد ک��و وقت جبرئیل فرشتہ سوار ہوکر موس گھوڑے کے س� کے نیچے سے تھوڑی خاک اٹھ��اکر اپ��نے پ��اس رکھ لی تھی اب کہآاکرہارون سے کہا کہ وہ زیوروبرتن جو بنی اس��رائيل یی طورپر گیا تو اس شخص نے موس مصر سے عاریت لائے ہیں اس کا استعمال جائز نہیں ہے وہ سب جمع کرنا چ��اہیے کہتاس ک��و ک��ام میں نہ لاس��کیں س��وہارون نے کہ��ا اچھ��ا وہ س��ب جم��ع ب��نی اس��رائيل آاگ میں ڈالے اوران کا ایک بچھڑا ڈھالا اوراس کروپس سامری نے وہ سب اموال لے کر کے شک� میں وہ مٹی جبرئيل کے گھ��وڑے کے س��� کے تلے کی داخ��ل ک��ردی اسآاواز کرنے لگا پس سامری نے کہا کہ یہ تمہ��ارا خ��دا ہے اس لئے وہ بچھڑا جی اٹھا اور آایا ہے دیکھو دہات کا بچھ��ڑا آاپ یہاں چلا یی طورپر گیا ہے خدا کی پرستش کرو موس

تاس کی پرستش کی مگر ہزار نے اس کی پرس��تش۱۲ لاکھ اور ۶بولتا ہے پس سب نے نہ کی ہارون نے ہر چند منع کیا پر عوام نے نہ مانا۔

آایا تو نہ��ایت غص�ہ ہ��وا اور وہ تختی��اں غص�ہ میں زمین پ�ر پھین��ک یی جب موستان کے آاسمان کو اڑگئے اورای��ک حص��ہ رہ گی��ا جس میں وع��ظ۵ ٹکڑے ہوگئے ۶دیں

نصی�ت اوراحکام کی باتیں تھیں باقی پ��انچ جن میں خ��دائی کے بھی��د لکھے تھےیی نے ہارون کی داڑھی پکڑی اورکہا ت��ونے یہ ش��رارت کی��وں ہ��ونے دی وہ وہ اڑگئے اورموسیی ہ��ارون ک��و قت��ل ب��ولا ل��وگ مجھے م��ارے ڈال��تے تھے میں لاچ��ار ہوگی��ا تھ��ا پس موس��تاس بچھ�ڑے ک�و جلاک�ر ی�ا ٹک�ڑے یی نے کرناچاہتا تھا مگر خدا نے منع کردیا تب موس� ٹکڑے کرکے دریا میں ڈال دیا اور سامری کو جنگل میں نکال دیا اورحک� ہوا کہ کوئیتاس کی اولاد لوگ��وں س��ے کہ��تی ہے کہ ہمیں نہ چھ��وا اور س��ب آاج تک تاسے نہ پوچھے تبت پرس��ت ل��و ج��و اس کے مطی��ع تھے جنگ��ل میں س��رنگوں ہ��وکر ت��وبہ ک��رنے لگے پھ��ر

تان کے۷۰ہارون بارہ ہزار شمشیر زن مرد لے کر نکلا اور صبح سے دوپہر ت��ک ہ��زار ت��ک قتل کئے تب باقیوں کی توبہ قبول ہوئی ۔

قارون ملعون کا قصہقارون ملعون کا قصہیی کا چچ��ا یاچچ��ا زادہ شائد یہ لوگ قارون قورح کو کہتے ہیں۔ یہ قارون موسیی کی خ��واہر ک��ا ش��وہر بھی تھ��ا وہ بہت خوبص��ورت اور ی��ا خ��واہرزادہ بھ��ائی تھ��ا اورموس��تاسے مصر میں بنی اسرائيل کا چودھری بن��ا رکھ��ا تھ��ا اوروہ مالدار شخص تھا فرعون نے تاس کے پاس دولت بہت تھی چالیس خزانوں کا مالک تھا یا بڑا ظال� اورمتکبر مغرو تھا آانکہ فرعون کا خزانچی تھ��ا جب وہ مرگی��اتو آاگئی تھی یا تاسے ہاتھ تو یوسف کی دولت یی نے کیمی��ا گ��ری ک��اعل� اپ��نے خ��واہر تاس کا خزانہ دبا بیٹھا تھا بعض کہتےہیں کہ موس��تاس نے ق��ارون ک��و بتلادی��ا تھ��ا غ��رض ق��ارون نے زک��وات م��ال کی نہ دی کو سکھلایا تھ��ایی ک�و تاس کی بیعزتی چاہتا تھا کہ ایک دفعہ موس�� یی سے ہمیشہ دشمنی رکھی اور اورموستاس کے یی نے تاس نے زنا کا اہتمام بھی کیا اور ہارون کے عہدہ پ�ر حس�د کی�ا تب موس�

آادمیوں اوراپنے اموال کی زمین میں دہس گی�ا ہ�ر روز ای�ک لئے بددعا کی اور وہ معہ دس آادم نیچے اترتا ہے اور قیامت تک دہسا چلا جائیگا۔ قد

قصہ گاؤقصہ گاؤتاس کے اولاد نہ تھی ص���رف دو آادمی تھ���ا ب���نی اس���رائیل میں ک���وئي ب���ڈھا تاس کے بھتیجوں نے اس خیال سے تاس بڈھے کے پاس مال بہت تھا بھتیجے تھے اور تاس��ے م��ار ڈالا مگ��ر آاج��ائے گ��ا ای��ک روز کہ جب مرجائے گا تو سب م��ال ہم��ارے ہ��اتھ یی س��ے کہ��ا کہ ای��ک گ��ائیں تاس��ے م��ارا ہے خ��دا نے موس�� قات��ل معل��وم نہ ہ��وا کہ کس نے تمردہ کے مارو خود زندہ تاس کا گوشت اس ایسی ایسی صفتوں والی لے کر ذبح کر اورآاخر ای��ک تان صفات کی گائیں تلاش کی گئی ہوکر اپنا قاتل بتلادیگا چالیس برس تک تاس کے چم��ڑے ک��و س��ونے س��ے تاس کی قیمت یوں ٹھہ��ری کہ شخص کے پاس ملی تردہ تاس ک�ا گوش�ت م� تاس ک�و لی�ا اور ذبح ک�رکے تاس کے مالک ک�و دینگے پس بھر کر تاس کا غرب��ا یی نے قاتلوں کو مارا اورمال کے مارا وہ جیا اور قاتل بتلایا پھر مرگیا تب موس

کو بانٹ دیا۔

خضر کا قصہخضر کا قصہآای�اکہ میں س�ب س��ے ب�ڑا ع��ال� ہ��وں ک�وئی م�یرے یی کو ایک روز یہ خی�ال موس براب��ر دنی��ا میں ہے ی��ا نہیں خ��دا نےکہ��ا حض��رت تجھ س��ے زي��ادہ ہے اور وہ وہ��اں رہت��اہےتاس کی آادمی لے ک��ر جہ��اں دری��ائے ف��ارس اور دری��ائے روم مل��تےہیں تواپ��نے س��اتھ ای��ک تلاش میں جا اور ایک بھنی ہوئی مچھلی بھی ساتھ لے جا کہ وہ مچھلی تجھے خضرتادھ�ر یی ایک مچھلی بھنی ہوئی اور یوشع کے س�اتھ لے ک�ر کا گھر بتلادیگی پس موسیی تو سوگیا مب حیات کا چشمہ تھا وہاں موس آا گیا جب مجمع الب�رین پر پہنچا جہاں تاس مچھلی پ�ر گ��ر پ�ڑا آاب حیات کا تاس چشمہ میں وضو کی کوئی قطرہ اور یشوع نے یی آاگے چلے موس�� اا وہ زندہ ہوگئی اور پانی میں بھاگ گ�ئی یوش��ع ح��یران رہ گی��ا جب فور

نے کہا اے یوشع کھانا نکال تاکہ کھائیں پس یوشع نے دستر خوان نکالا اور مچھلیتاس��ی مق��ام پ�ر یی ب�ولا آای��ا ہ��وں۔ موس�� تاسے مجم�ع الب���رین پ�ر بھ��ول کا ذکر کیا کہ میں آائے ت��و دیکھ��ا کہ وہ واپس چل��و وہی مچھلی خض��ر ک��ا راہ بت��ائیگی جب وہ��اں واپس مچھلی جو زندہ ہوکر پ��انی میں چلی گ�ئی تھی جس ط��رف وہ گ�ئی اس�ی ط��رف پ��انییی اور یوش��ع چلے گ��ئے تاس��ی راہ س��ے موس�� ای��ک خش��ک راہ کھل��تی چلی گ��ئی ہے تب یی نے س�لام کی�ا آاگے جاکر دیکھ��ا ت�و حض�رت خض�ر تکیہ لگ�ائے ہ�وئے بیٹھے ہیں موس�یی ہوں بنی اسرائيل کا پیغمبر خدا خضر نے جواب دیا اورکہا تو کون ہے وہ بولا میں موس نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے تاکہ تجھ سے کچھ س�یکھوں باب�ا خض�ر نے کہ��ا ت��ویی ب�ولا میں میرے ساتھ نہیں رہ سکتا کیونکہ تو میری باتوں پر صبر نہ کرس�کے گ�ا موس�تاس نے کہا اس شرط پر س��اتھ رکھونگ��ا ک�و ت��و مجھ س��ے س�وال نہ ک��رے صبر کرونگا تاس نے یہ ش��رط قب��ول کی اور تین��وں چپ چاپ رہے جب تک میں خود بی��ان نہ ک��روں آائے اور ملاحوں سے درخواس�ت کی ہمیں بھی کش��تی میں چلے اور دریاکے کنارے پر سوار کرلو پہلے انہوں نے انکا رکیا پھر خضر کو پہچان کے مان لیا اوربڑی ع��زت س��ے کشتی میں بٹھلایا جب دریا کے بیچ پہنچے خضر نے چپکے چپکے ت�یر س�ے کش�تییی بولا کی��ا ت�و لوگ��وں ک��و ڈبان��ا چاہت��اہے خض�ر ب�ولا کی��ا میں نے میں سوراخ کردیا موسیی نے کہا اب کی بار معاف کیج�ئے کہا تھاکہ تو میرےساتھ صبر نہیں کرسکتا موس میں بھول گیا پھر ایک گاؤں میں پہنچے وہاں باہر ل�ڑکے کھیل�تے تھے خض�ر نے ای�کیی خوبص��ورت لڑک��ا پک��ڑا اورگلا گھ��ونٹ ک�ر ی�ا پتھ��ر س��ے ی��ا چھ��ری س��ے م�ار ڈالا موس�� چلایا کہ تونے ناحق بے گناہ کا خون کیا وہ کہنے لگا میں نے نہ کہا تھاکہ ت��و م��یرےیی نے کہ��ا مع��اف کیج��ئے اگ�ر اب کے ب�ار بول��وں ت�و ساتھ صبر نہ کرسکیگا تب موسآاگے چلے اور رات ک��و کس��ی گ��اؤں کے ق��ریب اپ��نی ص���بت س��ے نک��ال دین��ا القص��ہ پہنچے بستی کے دروازے بند ہوچکے تھے اس لئے لوگوں نے گاؤں میں گھسنے نہ دیا

ساری رات بھوکے پیاسے باہر پڑے رہے وہ��اں ش��ہر پن��اہ کی ای��ک دی��وار پ��رانی گ��رنے پ��ریی ب��ولا اس بس��تی وال��وں نے نہ کھن��ا تاس کی م��رمت کی موس�� تھی خضر نے ساری رات آانے دیا اورتونے ان کے ساتھ یہ نیک سلوک کی��ا خض��ر ب��ولا یہ تیس��ری عہ��د دیا نہ اندر ش�کنی ہے اب ت�و چلا ج�ا پ�ر میں تجھے تین�وں ب�اتوں ک�ا ج�واب دیت�ا ہ��وں۔ وہ کش�تی م�تاج وغریب ملاحوں کی تھی اور ایک بادشاہ اچھی کش��تیاں بیگ��ار پکڑت��ا ہے پستان کی روزی بن��د نہ ہ��و تاس کش��تی میں عیب لگادی��ا ت��اکہ پک��ڑے نہ ج��ائے اور میں نے اوراس لڑکے کے کو میں نے اس لئے مارا کہ اس کے والدین نیک لوگ ہیں پ�ر یہ پڑک�اتاس کے ع��وض شریر اور کافر تھا بڑا ہوکر والدین کو بھی کافر کر ڈالت��ا اگ�رچہ وہ مرگی�اپر تاس تاس کے والدین کے ایک ل��ڑکی تاس کے والدین کو خدا اوربچہ دیگا۔کہتے ہیں کہ

تاس کی نس��ل س��ے پیغم��بر۷۰کے عوض پیدا ہوئی اور وہ ایک پیغمبر کی جو روبنی اورتاس دیوار کی مرمت کا یہ سبب ہوا کہ وہ گھر کسی یتی� ک��ا ہے وہ��اں خ��زانہ نکلے۔ اورتاس دفن ہے اگر وہ دیوار گر جاتی خزانہ کھ��ل جات��ا تول��وگ نک��ال لی��تے پ��ر ض��رور تھ��اکہ

یی خضر سے جدا ہوا۔ یتی� کو نہ ملے جب وہ بڑا ہوا پس یہ سن کر موس کہتے ہیں کہ یہ خضر اب تک جیتا ہے اور قیامت ت��ک جئیگ��ا کبھی کبھی وہ لوگ��وں ک��و ملا بھی کرت��اہے زمین پ��ر پھرت��ا ہے اور پ��انی میں رہت��اہے اس��ی واس��طے مسلمان سقے خضر کے لئے ہندوستان میں میٹھا دلیا پکا کر پ��انی میں ڈالا ک��رتے ہیں اور کہ��تے ہیں کہ دہلی کی ج��امع مس��جد میں جمعہ کے دن کبھی کبھی مس��لمانوںتان کی ملاقات بھی ہوئی تھی پر یہ بعض بزرگوں کا ق��ول ہے ک��وئی م��ذہبی عقی��دہ سے

تان میں یہ مہمل خیال پیدا کیا ہے(۔ نہیں ہے پر خضر کے قصہ نے

بلع� بن باعوربلع� بن باعوریی کے عہ��د میں مس��تجاب ال��دعوات ش��خص تھ��ا اس��� اعظ� بلع� باعورموس��یی بقصد جنگ جب��ار ان ولائت ش�ام میں گ�ئے ق��وم بلع� نے کہ�ا تاسے یاد تھا جب موس

تاس نے آای��ا ہے دع��ا ک��ر کہ وہ واپس چلا ج��ائے یی ہم��ارے قت��ل کے ل��ئے اے بلع� موس�� کہا کہ میں پیغمبر اور مومنوں پر بددعا کیونکر کروں اچھا استخارہ ک��روں جیس��ا معل��ومتاس کے تاس کی ق�وم ہوگ��ا کہہ دونگ�ا جب اس�تخارہ میں معل�وم ہ�وا کہ ب�ددعا نہ ک�ر ت�و پاس ت�فہ ت�ائف لائے اور بددعا کی تکلیف دی وہ گد ہے پر س��وار ہ��وکر چلا راہ میںتاسے اٹھایا تب خدا نے گدھے کی زبان تاس نے مار مار کر کئی بار گدھا زمین پر گر ا دی وہ ب��ولا اے بلع��ام ت��و کہ��اں جات��ا ہے دیکھ فرش��تے مجھے پھ��یرتے ہیں تب بلع� نے گدھا چھوڑ دیا اور پیادہ پاحسبان کے پہاڑ پر چلا گیا اور جب ب�نی اس�رائيل پ�ر ب�ددعاتاس��ی کی ق��وم پ�ر تاس کی زب�ان کے الف��اظ پلٹ دیت��ا تھ��ا ایس�ا کہ کرنی چاہتا تھا خ��دا آاپ��ڑی تاس کے س��ینہ پ��ر تاس کے بعد بلعام کی زبان منہ سے نک��ل ک��ر بددعا پڑتی تھی اورآاخرت میری دونوں برباد ہوئیں اب ایک حیلہ کرنا چاہیے کہ ت� اپ��نی تب وہ بولا دنیا اورآاراستہ سودہ بیچنے کے حیلہ س�ے ب�نی اس�رائيل میں بھیج��و اور س�کھلادو کہ عورتوں کو اگر کوئی اسرائیلی زنا کرے تو انک��ار نہ ک��ریں اس حیلہ س��ے ب��نی اس��رائيل برب��اد ہ��ونگےآائیں زمزم بن شلوم سردار تان عورتوں میں سے جو وہاں پس ایک عورت کسی بنت صور یی کے پ��اس لے گی��ا اورکہ��ا یہ آاگئی وہ اس کاہاتھ پکڑ ک��ر موس�� بنی اسرائيل کو پسند یی نے کہ��ا ح��رام ہے زم��زم ب��ولا میں اس ب��ات میں عورت مجھ پر حرام ہے ی��ا حلال موس��آائی ایک گھ��ڑی تاس سے زنا کیا تب وبا آایا اور تمہاری اطاعت نہ کرونگا پھر خیمہ میں

آای��ا۷۰میں تاس وقت فین�اس ہارون کا پوتا ح��ربہ لے ک��ر زم��زم کے خیمہ میں ہزار مرگئے اور زمزم کو معہ عورت کے قتل کیا تب وہ بلا دفع ہوئی ۔

یی کی موت یی کی موتبیابان کا بیاب اورموس بیابان کا بیاب اورموسیی میں نب��وت اور س��لطنت دون��و ں جم��ع جب فرع��ون مرگی��ا تھ��ا ت��و اب موس��تاس حک� ہواکہ فوج بنی اسرائيل کو اری�ا کی طرف بھیجے اور قوم عمالقہ ہوگئیں تھیں یی کے پاس بارہ فوجیں تھیں ہ��ر سے جنگ کرکے ولائت بیت المقدس خالی کرالے موس

تاس کے پاس بارہ نقیب تھے ہر ف��وج ک��ا ای��ک نقیب ی��ا۱۲۰فوج میں ہزار مرد تھے اوریی س��ب پ�ر ح�اک� تھ��ا اور تاس کے پ�اس نہ۳۹ ی�ا ۳۶حاک� تھا۔ موس ب�رس ح��اک� رہ��ا

گھ��ر تھ��ا نہ س��واری ای��ک پوس��تین پہنت��ا تھ��ا اور نم��دے کی ٹ��وپی رکھت��ا تھ��ا اور کچے چمڑے کی جوتیاں پیروں میں تھیں اورہاتھ میں عصا تھا رات کو مق��ام کرت��ا اور دن ک��وتاس کے پاس کھانا بھیجا ک��رتے تھے ک��وئی ص��بح ک��و اور چلا کرتا تھا لوگ باری باری کوئی شام کو بھیجتا تھا خ��دا نے وع��دہ کی��ا تھ��ا کہ ارض مقدس��ہ معہ س��ب ولایت کےتاس جگہ جبار یعنی عمالیق جو قوم ع��اد س��ے تھے تان میں بنی اسرائيل کو دونگا مگر

س�وگز ک�ا تھ��ا۔ پس۸ س�وگز ی�ا ۷ گ�ز ی�ا ۱۸س�وگز ی�ا ۴رہتے تھے ان کا قدچھہ گز ی�ا آاگی��ا ت��و اب جب��اروں جبکہ ملک مصر بعد ہلاکت فرعون بنی اسرائيل کے قبضہ میں یی نے ہ��ر ف��رقہ کاای�ک نقیب بلا ک�ر ب��ارہ نقیب س��ے جہ��اد ک��رنے ک��ا حک� ہ��وا پس موس�� جاسوس��ی ک��و جب��اروں میں بھیجے ان ب��ارہ جاسوس��وں نے ج��اکر ع��وج بن عن��ق س��ےتان کے انگ�وروں کے ایس�ے ب�ڑے ب�ڑے خوش�ے تان کے باغوں ک�و دیکھ�ا ملاقات کی اورآادمی سے نہیں اٹھ سکتا تھا اورانار ایسے تھے کہ ایک انار کے پوست تھے ایک خوشا آادمی سماسکتے تھے پس ان جاسوس��وں ک��و پک��ڑ ک��ر انہ��وں نے اپ��نے بادش��اہ میں پانچ کے سامنے پیش کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ عوج نے ان بارہوں کو ایک ہاتھ سے اٹھا ک��رآائے ہیں ت��و کی��ا کہ��تی ہے اپنی جورو کے سامنے ڈال دیا اورکہا یہ لوگ ہ� س��ے ل��ڑنے آاٹا بن�ا ڈال�وں ع��ورت نے کہ��ا انہیں دکھ نہ دے بلکہ چھ�وڑ دے اگر تو کہے تو ان کا تاکہ اپنی قوم میں حاضر ہوکر ہمارا ذکر کریں اور وہ سب ڈ ر کر چلے جائیں پھ��ر ع��وجتاس کے نص��ف س��ے یہ ب��ارہ س��یر ہ��وئے اور نص��ف نے انہیں ایک انار کھ��انے ک��و دی��اکہ آائے پس ب��ارہ میں س��ے دس نے س��ب ک��و بی��دل کردی��ا ب��اقی ہم��راہ لے ک��ر لش��کر میں

اورکالب ویوشع نے جرات دلائی ۔

آاراستہ پڑا تھا تب ع��وج یی تاس نے شہر سے تین میل کے فاصلہ پر لشکر موس نے ایک پہاڑ پر تین میل مربع اکھاڑ لیا اور بنی اسرائيل پر ڈالنے کو سر پر اٹھ��اکر لای�ا۔تاس پہ�اڑ میں س�وراخ کردی�ا پس اا اپنے منق��ار س�ے تاس نے فور خدانے ہدہد کو حک� دیا یی نے وہ پہاڑ عوج کی گردن میں مثل ط��وق کے گ�ر پ�ڑا تب ع�وج زمین پ�ر گ�را اور موس�آادمی تھ��ا اور لاٹھی بھی دس گ��ز کی رکھت��ا تھ��ا یع��نی بیس گ��ز کی ج��و دس گ��ز ک��ا بلندی تک پہنچ کر عوج کے ٹخنے پر لاٹھی ماری پھر سب بنی اسرائيل تل��واریں لےتاس کے پ��یر کی ہ��ڈی یع��نی نلی لے ک��ر رودنی��ل پ��ر کر دوڑے اور ع��وج ک��ا س��ر کاٹ��ا اور

تپل کے کت��نے ہی دن�وں کے ہ��وں ب�دبو نہ ک�رتے تھے اس چ�الیس ب�رس کے عرص�ہبطور میں نہ ب��ال ب�ڑھے نہ ن��اخن نہ ک��پڑے میلےہ��وئے اورنہ پ��ورانے ۔ بعض ع��ال� کہ��تے ہیں کہتاس زمین میں داخ��ل ہ��وا اور اری���ا ک�و یی باقیمان�دہ ک��و لے ک�ر بعدچالیس برس کے موس��یی اورہ��ارون بیاب��ان میں مرگ��ئے اور یوش��ع فتح کی��ا مگ��ر بعض کہ��تےہیں کہ نہیں موس��

انہیں ارض مقدسہ میں لے گیا۔یی کی موت ہوئی کہ ای�ک روز ہ��ارون کس��ی ب��اغ میں ای�ک تخت ہارون وموسآاک��ر اس کی اا فرش��تے نے یی کی��ا اچھ��ا مق��ام ہے ف��ور پر بیٹھا ہوا کہتا تھا اے بھائی موس��یی سے ہارون تین چار برس بڑا تھا اورایک برس پہلے مرا جب وہ جان قبض کرلی اورموستاس�ے م�ارا ہے تب ہ�ارون پھ��ر زن�دہ ہ��وا آاکر لوگوں سے کہا وہ ب�ولے ت�ونے یی نے مرگیا موس

یی نے نہیں مارا میں اپنی موت سے مرا ہوں پس وہ دفن کیا گیا۔ اورکہا مجھے موسیی نے کہ�ا بغ��یر آای�ا ت�و موس� آائی اور فرشتہ جان لینے یی کی موت پھر جب موس وسیلہ فرشتے کے میں خ�دا ک�و ج�ان دونگ�ا جیس�ے بغ��یر وس�یلہ فرش�تے کے مجھ س�ےیی نے فرش��تہ کے منہ پ�ر طم��انچہ م��ارا اور وہ ان��دھا ہوگی��ا خدا باتیں کیا کرتا ہے پھر موسآادمی ق��بر کھ��ود رہے یی کوہ طور پر گیا دیکھاکہ سات تاسے بینا کیا اور موس خدا نے پھر یی ہیں پوچھا کہ کس کےلئے ہے وہ بولے تجھ جیسے شخص کے واسطے ہے پس موس

اا جبری��ل اس میں لیٹ گیا اوربولا کیا اچھی قبر ہے اگر میرے لئے ہوتی تو خ��وب تھ��ا ف��وریی نے س��ونگھا اورج��ان نک�ل گ��ئی تب فرش��توں نے بہشت سے ایک سیب لای��ا اور موس��آادمی��وں س��ےچھپائی ک��ئی کس��ی ک��و معل��وم نہ ہ��وئي غس��ل دی��ا اور دفن کی��ا اور وہ گ��ور

یی کی عمر برس کی ہوئی ہے۔۱۶۰ برس یا ۱۵۰ برس یا ۱۳۰ برس یا ۱۲۳موس

قصہ الیاسقصہ الیاس ابن مسعود کی حدیث س�ے معل�وم ہوت�اہے کہ الی�اس ن�ام ہے حض�رت یس ی�ا حن�وک ک�ا مگر دو اور اق�وال س�ے ث�ابت ہے کہ وہ انبی�اء ب�نی اس�رائيل میں س�ے ہے ابن عب�اس کی روائت ہے کہ وہ الیشاع کا چچا زاد بھائی تھا اور م�مد اص���اق کی روایت ہے کہ وہتاس ک��ا قص��ہ یہ ہے کہ جب ح��زقی ای��ل ن��بی مرگی��ا اورب��نی ہ��ارون کی پش��ت میں تھ��ا تبت پرستی کرنے لگے اس وقت الیاس اٹھا۔ اوریہ یوں ہ��واکہ جب یوش��ع بن ن��ون اسرائيل نے ملک شام کو فتح کیا اورملک ک��و ب��نی اس��رائيل کے درمی��ان تقس��ی� کردی��ا اور ش��ہرتاس کے نواحی میں بعض بنی اسرائيل کو جگہ دی تو وہ لوگ بع��ل کی بعلبک اورآاک�ر ب�ولا کرت�ا تھ��ا ۔ تاس کی ش�ک� میں ش�یطان تبت تھا پرستش کرنے لگے بعل ایک تبت پرس��ت ع��ورت تھی تاس کی ج��ورو بھی ب��ڑی تبت پرست وہاں تھا اور ایک بادشاہ بڑا

تاس نے س�ب ک��و م��ارا تھ��ا اور وہ تاس کے خص�� ہ��وچکے تھے ل��ڑکے۷۰س��ات بادش��اہ یی تاس نے م�ارا تھ��ا اور ی���ی جنی تھی تو بھی چھنال تھی بہت سے پیغم��بروں ک�و بھی تاسی عورت نے مارا تھا )یہ عورت ایزبل اخیاب یی کے عہد میں تھا بن ذکریا کوجو عیس کی جورو سے مراد ہے( اس عورت کے گھر کے پاس ایک اچھا باغ تھ��ا کس��ی بھلےتاس��ے تاس کا مالک نہ دیت��ا تھ��ا اس ل��ئے وہ آادمی کا عورت چاہتی تھی کہ وہ باغ لے پر قتل کرنا چاہتی تھی مگر بادشاہ منع کرتا تھ��ا جب بادش�اہ کس�ی س�فر ک�و گی��ا پیچھےآاک��ر اگ��رچہ ن��اراض ہ��وا ت��و بھی درگ��زر کی تاسے قتل کیا اورب��اغ لے لی��ا بادش��اہ عورت نے تاس کے وارث�وں تاس کی ج�ورو ت��وبہ ک�ریں اورب��اغ خدا نے الیاس سے کہا اگر بادش�اہ اور

کو دیں تو بہتر ہے ورنہ میں ان دونوں کو ہلاک کرونگا جب الیاس نے یہ ب��ات بادش��اہ کو سنائی تو وہ ن��اراض ہ��وا اور الی��اس ک دکھ دین��ا چاہ��ا پس الی��اس پہ��اڑوں کی ط��رفآای�ا۔ کہ�تے ہیں کہ بادش�اہ ک�ا لڑک�ا بھاگ گیا اورنباتات کھاتا رہا سات برس بع�د پھ�ر تاس نے چار سو بعل کے پیغمبروں ک��و بع��ل ایسا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب پہنچا تب کے پاس دعا کے واسطے بھیجا بعل پرست کہ��نے لگے کہ ت��یری دع��ا بع��ل نہ س��نیگا تونے الیاس کو قتل نہیں کیا ہے بادشاہ نے کہا میں تو الیاس کو تلاش کرنے جات��ا ہ��وں ت� دعا کرنے کو بعل کے پاس جاؤ۔ پس تلاش کرتے کرتے لوگوں نے الیاس کو پہاڑ پ��ر بیٹھاپای��ا اور ف��ریب س��ے بلانے لگے ت��اکہ پک��ڑلیں الی��اس نے ب��ددعا کی پس ان پچ��اسآاگ نے کھای�ا۔ تان کو بھی آائے آادمی بلانے آاگ کھاگئی۔ دوسری بار پچاس آادمیوں کو پھربادشاہ نے کہا کیا کروں لڑکے کی بیم��اری کے س��بب میں خ��ود ج��انہیں س��کتا کہتاس کی ج��ورو ک��ا آائے اچھا ی��وں ک��ریں کہ اس ایمان��دار ش��خص ک��و ج��و وہ کس طرح آائے پس فریب س�ے وزی�ر پ�ر ظاہرکی�ا اب ت�و میں تاس کے ساتھ وزیر تھا بھیجیں شائد وہ تاسے جاکر لاوہ گیا اورالی��اس ک��و لای��ا بھی لاچار ہوں اس لئے الیاس پر ایمان لاتا ہوں تو تاس وقت لڑک��ا مرگی��ا بادش��اہ اور س��ب ل��وگ غ� میں مبتلا آای��ا جب بادش��اہ کے س��امنے ہوگئے الیاس صرف شکل دکھلا کر پھر پہاڑ پر چلا گی�ا جب غ� تم�ام ہ�وا بادش�اہ نے الیاس کو یاد کیا تاکہ مارے مومن نے کہا وہ تو چلا گیا پس بادش��اہ افس��وس ک��رکے رہ

گیا اوراس کا خیال چھوڑدیا۔آای�ا اورای�ک ع�ورت کے پ�اس ج�و ی�ونس مدت بعدالیاس اپنی مرضی سے پھ��ر پیغمبر کی والدہ تھی چھہ مہینے پوشیدہ رہا انہیں دنوں میں یونس تولد ہوا تھا اورالی��اسآاگی��ا تھ��ا اس ل��ئے وہ پھ��ر پہ��اڑ پ��ر چلا پہاڑوں کا رہنے والا گھر میں چھپا چھپا تن��گ تاس کی م��ا الی��اس ک��و پہ��اڑوں میں س��ے تلاش گیا اس عرصہ میں یونس لڑک��ا مرگی��ا تب

تبتوں سے اور میں خدا سے دع��ا ک��روں ت��اکہ کرکے لائی ۔ کرو کہ باہر چل کے ت� اپنے سچائی اور کذب مذہبوں کی ظاہر ہوجائے۔

تبتوں سے دعا کی مگر پانی نہ برسا تب الیاس حول انہوں نے پس باہر گئے اور ا نے خدا سے دعا کی اورایک چھوٹا سا بادل سمندر کی ط�رف س�ے اٹھ��ا اور پ�انی برس�اتاس تو بھی وہ ایمان نہ لائے تب الیاس نے دعا کی کہ مجھے دنیا سے اٹھالے خدا نے آاگ ک��ا گھ��وڑا ی��ا ک��وئی تاسے بلای��ا اور ای��ک کے اٹھانے کی جگہ اور وقت مقرر کرکے آاسمان کو چلا تب الیش�ع چلای��ا اورالی��اس تاس پر الیاس چڑھ کر اور سواری وہاں بھیجی تاس بادشاہ ک��ا تاس کو خلیفہ بنایا پھر خدا نے تاس کے لئے اوپر ڈالدی اوریوں نے چادر

تاس کی جورو کو قتل کیا۔ تاس کو اور ایک دشمن بھیجا جس نے آادمی بھی ہے اور خدا نے الیاس کی س��ب انس��انی خواہش��یں دور کیں اب وہ تاس میں دو م���اہیتیں جم���ع آاس���مانی بھی ہے فرش���تہ بھی ہے اور وہ زمی���نی بھی ہے اور ہوگئیں ہیں اور الیاس جنگلوں اوربیابانوں پر خدا کی طرف سے اب حکومت کرتاہے اور خضر دریاؤں کا حاک� ہے اوریہ دونوں شخص ماہ رمض��ان کے روزے بیت المق��دس میں آاکر رکھا ک�رتے ہیں اور ہ�ر ب�رس مکہ میں ج�ا ک�ر حج ک�رتےہیں اورالی�اس وخض�ر ای�ک دوسرے سے علمی فائدہ بھی اٹھای�ا ک��رتے ہیں اوراچھے اچھے م�م��دی ل��وگ ان س��ے

کبھی کبھی ملاقات بھی کیا کرتے تھے۔

یونس کا قصہیونس کا قصہتاس کی م��اں ب��نی اس��رائیل میں س��ے تھے یونس ہود کی اولاد میں س��ے تھ��ا اورتاس کا ف��رقہ لاوی میں بعض کہتے ہیں کہ یونس اپنی ماں کی طرف منسوب ہے اورباپ تاس کی ماتھی بعض کہ��تے ہیں کہ مت��ا اس سے تھا تاریخ ابن شخنہ میں لکھاہے کہ متاتاس نے وہ��اں ج�اکر تاسے رسالت بخشی اور نینوہ ش�ہر میں بھیج�ا کا باپ تھا۔ خدا نے

آاک��ر کہ��ا اے تاس نے تن��گ مدت تک وعظ نصی�ت کی لوگوں نے نہ مانا اور دکھ دی��ا خدا ان پر عذاب نازل ک�ر خ�دا نے کہ��ا اچھ��ا ت�و ش�ہر میں خ�بر ک�ردے کہ تین روز ی�اآائے گا پس یونس یہ خبر س��نا ک��ر پہ��اڑ میں ج��ا چھپ��ا جب وقت چالیس روز بعد عذاب آایا خدا نے مالک دوزخ سے کہا کہ ایک جو کے برابر دوزخ کی ہوا اہ��ل نین��وہ پ��ر موعود آاتش ب��ار ہ��وا س��ے گھ��ر گی��ا ت��و ل��وگ تاس تاس نے ج��انے دی جب ش��ہر ج��انے دے پس آایا جس کی خ��بر ی��ونس دے گی��ا ہے بادش��اہ عاق��ل تھ��ا سمجھ گئے کہ یہ وہی عذاب یونس کو تلاش کرایا پ�ر وہ نہ ملا تب س�ب ل�وگ معہ بادش�اہ ٹ�اٹ ک�ا لب��اس پہن ک�ر بھ���وکے پیاس��ے جنگ��ل میں روتے ہ��وئے نکلے اور ت��وبہ کی یک� ذال�جہ س��ے دس��ویں

آاخر کارجمعہ کا دن تھاکہ دعا قبول ہوئی اور وہ ابردفع ہوا۔ م�رم تک روتے رہے تاسے معلوم ہوا کہ ع��ذاب رحمت بعد چالیس یوم کے یونس پہاڑ سے نکلا تو آائی کہ ل��وگ مجھے جھوٹ��ا بتلائینگے تاسے شہر میں جانے س��ے ش��رم سے بدل گیا پس تاس نے جنگ�ل کی راہ لی جب کن�ار ہ آای�ا تب تاس کے کہنے کے موافق عذاب نہ کہ آائی کہ یونس کی جورو اورایک بیٹا پ��انی میں دریا پر پہنچا تو ایک ایسی موج پانی کی تاسے بھ��یڑ ی��ا کھاگی��ا اب وہ اکیلا رہ گی��ا پس س��وداگروں بہہ گئے ایک بیٹا باقی تھا کہ آای�ا ت�و وہ��اں کش�تی ٹھہ��ر گ�ئی کے س�اتھ کش��تی میں س�وار ہ��وا جب دری��ا کے بیچ میں ملاح ب��ولے کہ ک��وئی ف��راری غلام اس کش��تی میں ہے اس ل��ئے کش��تی نہیں چل��تی پس یونس بولا میں بھاگا ہوا غلام ہوں اور اس قوم کا دستور تھاکہ بھاگے ہوئے غلام کو دری��ا

گھ��ڑی۴میں ڈبویا کرتے تھے اس لئے یونس کو دریا میں ڈالا اورمچھلی نے نگ�ل لی��ا۔ ب��رس مچھلی کے ش��ک�۷ روز ی��ا چھہ مہی��نے ی��ا ۴۰ روز ی��ا ۷ روز ی��ا ۳یا ایک دن ی��ا

میں رہا جیسے بچے ماکے شک� میں رہا ک�رتے ہیں اور خ�دا نے مچھلی ک�ا ب�دن مث��ل شیشہ کے شفاف کردیا تھا اور وہ مچھلی ساتوں سمندروں میں پھری یونس نے خوب عجائب غرائب سمندروں کے ملاحظہ کئے اور مچھلی یونس کو چہ ہزار ب�رس کی

یی کرتا رہا جب راہ تک لے گئی یا ساتویں زمین کے نیچے تک گئی پر یونس ذکر الہتاس�ے دھ��وپ تاس��ے اوگ��ل دی��ا وہ بہت ناط��اقت تھ��ا وقت پور ا ہوا مچھلی نے جنگل میں آاک��ر تاس پ��ر اگای��ا اورہ��رنی ک��و حک� ہ��وا وہ تبری لگی تب خدا نے ایک ارنڈی ک��ادرخت آاخ��ر ک�و مض��بوط ہ��وا تاس��ے پلاتی تھی کی��ونکہ وہ مث��ل بچہ کے پی��دا ہ��وا تھ��ا اپنے پستان اورایک روز سوگیا جب اٹھا تو دیکھا کہ درخت سوکھ گیا ہے ب��ڑا غمگین ہ��وا خ��دا نےآادمی��وں کے ل��ئے ت��ونے ب��ددعا کی کہا درخت کے لئے ایسا غ� کرتا ہے اور ات��نے ہ��زار

تھی۔تاسے دیکھ کر بہت خوش ہ��وئے تاسے نینوہ کو بھیجا لوگ القصہ پھر خدا نے آاخ�ر اور ایمان لائے یہ لوگ ایک لاکھ بیس ہ��زار ی�ا ای�ک لاکھ س�ترہزار تھے وہ وہ��اں رہ��ا

تاس کی قبر کوفہ میں ہے۔ کو مرگیا طالوت وجالوت کا قصہ

یی کی م��وت طالوت ساؤل ک��و اورج��الوت ج��ولیت فلس��تی ک��و کہ��تے ہیں موس�� کے بعد بنی اسرائيل نے اپنے وقت کے پیغمبر اشمویل یعنی س��یموئیل س�ے کہاہم��ارےتاس کی مدد س��ے ق��وم ج��الوت یع��نی عم��القہ س��ے درمیان توایک بادشاہ مقرر کر تاکہ ہ� تان کے درمی��ان اس وقت ک�وئی بادش��اہ نہ رہ��ا تھ��ا جہاد کریں یہ درخواست اس لئے کہ سیموئیل بولا شائد ت� پر جہاد فرض ہوجائے اور ت� نہ کرکے ہلاک ہوجاؤ وہ کہنے لگے یہ کس طرح ہوسکتا ہےجبکہ قوم جالوت نے ہمیں لوٹا اوربرباد کردی�ا ہے ح�دیث میں ہے

نف��ر ب�نی اس�رائيل کے قی�د کرل�ئے تھے۔ پس س�یموئيل نےد ع��ا۴۰۴۰کہ قوم جالوت نے کی خدانے ایک لاٹھی اور برتن میں تیل بھیج دیا اورکہا کہ ج�و ل�وگ ت�یرے گھ�ر میںتاس کے قدر کے برابر ہ��و ت��و آائیں اوریہ تیل کسی کو دیکھ کر جوش مارے اوریہ لاٹھی تاس کے پ�اس ای�ک ش�خص ط�الوت ق��وم ک�ا تاسے ب�نی اس�رائيل ک�ا بادش�اہ کردین�ا جب تاس کے ق��دکے براب��ر نکلی وہ تاس پ��ر تی��ل نے ج��وش م��ارا اور لاٹھی آایا کہٹی��ک ی��ا س��قا

تاس کی بادشاہت سے ن��اراض ہ��وئے کی��ونکہ آاور تھا بنی اسرائيل بہت خوبصورت اور قدر آادمی تھ��ا نہ یہ��ودا کے ف��رقہ س��ے جس میں وہ ش��خص بین��امین کے ف��رقہ س��ے غ��ریب

آاتی تھی۔ بادشاہت ب��نی اس��رائيل نے کہ��ا اگ��رچہ تی��ل نے ج��وش م��ارا اورلاٹھی براب��ر نکلی ت��وبھی کوئی اور علامت ہمیں خدا سے دلوا جس سے ہ� کام�ل یقین ک�ریں کہ ط��الوت بادش�اہ ہے سیموئیل بولا دوسری علامت یہ ہے کہ تابوت ج��و اب یہ��اں نہیں ہے وہ تمہ��ارےآاجائے گ�ا ۔ ت�ابوت کہ�تے ہیں خداون�د کے ص�ندوق ک�و جس�ے ق�وم ع��المیق ب�نی پاس یی کی جوتی��اں تھیں اورہ��ارون کی اس��رائيل س��ے چھین ک��ر لے گ��ئے تھے اس میں موس��یی ط�ور تان تخ�تیوں کے س�نگ ری�زے جنہیں موس� یی اور پگ�ڑی اور تھ�وڑے س�ے من وس�لوآاتی تھی انہ��وں نے آافت تاس��ے لے گ��ئے جہ��اں لیج��ا تے تھے سے لایا تھا۔ جب عمالقہ آاخ��ر انہ��وں نے کس��ی آاگ نہ لگی چاہ��ا ت��وڑ ڈالیں ٹ��وٹ نہ س��کا تاس��ے چاہ��ا کہ جلادیں آاتے تھے جب ک��وئی وہ��اں پیش��اب ناپ��اک جگہ میں دفن کردی��ا اور وہ��اں پیش��اب ک��رنےتاس�ے وہ��اں س�ے نک��ال ک��ر ای��ک تاسے بواسیر ہوجاتی تھی اس ل��ئے عم��القہ نے آاتا کرنے گاڑی میں رکھا اورد وبیل جوت کو جنگل کی طرف اکیلا ہانک دی�ا ۔ س�و وہ س�یموئيلآاگی�ا تب ب�نی اس�رائیل ک�و یقین ہ�و کہ ط��الوت بادش�اہ ہے۔ مس�لمان کہ�تےہیں کے پاس کہ وہ تابوت اب دریا طبریہ میں رکھا ہے قیامت سے پہلے نکلے گا ۔ پس طالوت بعد بادش��اہی کے س��تر ہ��زار ب��نی اس��رائيل لے ک��ر عم��القہ س��ے جہ��اد کی��ا گی��ا۔ ش��ہرارون اور فلسطین کے درمیان بڑی گرم ہوا چلی اور لوگوں ک��و بہت پی��اس لگی ط��الوت نے لش��کرتاس میں س��ے ج�و ک��وئی یی ای�ک ن��دی پ�انی کی ظ��اہر کی��ا چاہت��ا ہے سے کہا خدا تعال ایک کفدست پانی پیے گا وہ مومن ہے اور جو دوکفدست سے پیے گا وہ بے ایم��ان ہے

آازم���ائش ہے پس ش���خص نے ی���ک۲۱۳خ���بردار ہوج���اؤ کہ یہ خ���دا کی ط���رف س���ے تان کی زب�انیں س�یاہ ہوگ�ئیں اور نہ کفدست پیا اور سیر ہ��وئے مگ�ر س��ب نے زی�ادہ پی��ا اور

تاترے جنہوں نے زيادہ پانی پیا تھا ق�وم ج�الوت س�ے ڈر گ�ئے پ�ر جنہ��وں پیاس بجھی پار تاس کے ہتھی��ار ب��ارہ آادمی تھا ب��ڑا زور اور نے تھوڑا پیا تھا مستعد اورتیار ہے )جالوت ایک تاس کے س��اتھ تاس ک��ا خ��ود تین من ل��وہے ک��ا تھ��ا اور س��ات ہ��زار من ل��وہے کے تھے اور

آاخز اس کو داؤ د نے مارا۔ تاس سے ڈرگئے تھے( بنی اسرائيل

داؤد کا احوالداؤد کا احوال داؤ پیغمبر یہودا کی نویں پشت میں تھا اور داؤد کا باپ ط��الوت کے لش��کر میں معہ اپنے چھ بیٹوں کے حاضر تھا مگر داؤد جو سب سے چھوٹ��ا تھ��ا بکری��اں چرات��ا تھا۔ خدا نے بنی اسرائيل کو خبردی کہ یہ جالوت مردود داؤد کے ہ�اتھ س�ے م�ارا ج�ائےآایا راہ میں تین پتھروں نے داؤد س�ے ب�ات گا پس بنی اسرائيل نے داؤد کو بلایا جب وہ کہی کہ اے داؤد توہ� سے جالوت کو م��ارے گ��ا پس داؤد نے وہ پتھ��ر اٹھ��ا ک��ر ت��وبرہتاس ک��ا آاکر فلاخن میں رکھ کر ج��الوت کے م��ارے میں رکھ لئے اور صف جنگ میں

سر ٹوٹ گیا اور قوم جالوت بھاگ نکلی۔تاس��ے اپ��نی بی��ٹی طالوت نے شرط کی تھی جو ک��وئي ج��الوت ک��و م��ارے میں تاس کی بیٹی اور نصف سلطنت دونگا اور نصف سلطنت بھی بخشونگا پس داؤد کو تاس کی ہوگ��ئی ۔ بع��د س��لطنت کے خ��دا نے مل گ��ئی اس کے بع��د س��اری س��لطنت تاس تاس��ے م�رحمت ہ��وئی داؤد ک��و رس��الت بھی دی اور کت��اب زب��ور یون��انی زب��ان میں کتاب میں نواہی داوامر نہیں ہیں صرف حمدوثنا وعظ نصی�ت اور حضرت م�مد کییی کی شریعت پ��ر چلت��ا تھ��ا تعریف اور مسلمانوں کی ستائش لکھی ہے داؤد پیغمبر موسیی تک چار ہزار پیغمبر ج��و تفسیر ب�ر المواج اور زاہدی میں لکھا ہے کہ حضرت عیس آائے س��ب کے س��ب ای��ک ہی ش��ریعت یع��نی ت��وریت پ��ر چل��تے تھے اپ��نی ج��دی ج��دی

شریعت نہ لائے تھے۔

تاس کے ہ��اتھ میں داؤد کےہ��اتھ میں خ��دا نے ایس��ی ق��درت دی تھی کہ لوہ��ا تان میں موم ہوجاتا تھا اور وہ روز ایک ذرہ بناتا تھا اور چھ ہزار درم کو فروخت کرتا تھ��ا سے چار ہزار درم خیرات دیتا تھا اور دو ہزار سے عالیداری کی پرورش کرتا تھا وہ ایساآاواز تھا کہ جب زبور پڑھتا درندے پرندے اور وح��وش بھی جم��ع ہ��وکر س��نتے تھے خوش تاس کے ساتھ گ��انے لگ��تے تھے اور دری��ا وہ��وا اور مضطرب ہوجاتے تھے بلکہ جانور بھی

تاس کے س��اتھ چل��تے تھے ۔ ۹۹ٹھہ��ر ج��اتی تھی اور جب وہ چاہت��ا تھ��ا ت��و پہ��اڑ بھی تاس نے۳۰۰ع��ورتیں اس کی ج�وروں تھیں اور تاس کے پ�اس تھیں ت�و بھی لون�ڈیاں بھی

اوریاہ کی جورو کو لے لیا اور قص�ہ ی�وں تھ��ا کہ ای�ک ع�ورت س�ے اوری�اہ نے منگ�نی کیتاس س��ے نک��اح کرلی��ا تاس کی درخواس��ت کی اور تاس کی منگنی پر داؤد نے بھی تھی اس ل��ئے خ��دا ن��اراض ہ��وا کہ ت��ونے دوس��رے کی منگ��نی کی��وں چھین لی ۔ اس قص��ے میں علماء م�مدیہ کی طرح بطرح کی روائتیں ہیں چونکہ وہ روائتیں عق��ل اور ش�رع کے برخلاف ہیں اس ل��ئے یہ روائت کہ منگ��نی تھی م�م�دیوں نے قب��ول کی ہے ت��اکہ داؤد پر عیب نہ لگے توبھی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اور طرح کی بھی روائ��تیںتان آائيں ہیں جو ہم��اری عق��ل اور ش�رع قب�ول نہیں ک�رتی دنی��اوی واقع��ات بھی چ�اہے کہ

کی شرع عقل کے برخلاف واقع نہ ہوں۔ آاک�ر ب�ولے کہ ہم�ارے درمی�ان تاس کے پ�اس بھیجے وہ پس خدانے دوفرش�تے

بھ��يڑیں ہیں اور م�یرے پ�اس ای�ک بھ�یڑ۹۹انص�اف ک�ر یہ م�یرا بھ��ائی ہے اس کے پ�اس اا غ��ائب تھی اس نے وہ بھی چھین لی تو داؤد ب��ولا اس نے ظل� کی��ا ہے پس فرش��تے ف��ور ہوگئے داؤد سمجھا کہ میرا امت�ان کیا گیا رونے لگا چالیس برس یا چالیس دن روتا رہاتاس��ے بخش��ا داؤد کے زم��انہ میں جمعہ کے دن عب��ادت کرن��ا یہ��ود پ��ر تب خ��دا نے واجب تھا پ��ر انہ��وں نے قب��ول نہ کی��ا ہفتہ کے روز عب��ادت ک��رنے لگے اورحک� تھ��ا کہ اس روز مچھلی ک��ا ش��کار نہ ک��ریں پ��ر بعض ل��وگ ک��رتے رہے اس ل��ئے خ��دا نے انہیں

بندر بنادیا تین روز بندر رہے پھر مرگئے بعض کہتے ہیں کہ بندر کی نس��ل انہیں س��ےاب تک جاری ہے۔

سلیمان کا قصہسلیمان کا قصہتاس کے پ��اس لای��ا اورکہ��ا ج��و ک��وئی جب داؤد بوڑھا ہوا جبرئیل ایک ص��ندوق

ہیں یہ بتلاؤ کہ اس صندوق میں کیا ہے وہی بادشاہ ہوگا پس ک��وئی۱۹تیرے بیٹوں میں لڑک��ا نہ بتلا س��کا مگ��ر س��لیمان نے کہ��ا اس میں ای��ک انگش��تری ہے اورای��ک ک��وڑا ہے اورایک چھٹی ہے جو کوئی اس انگشتری کو پہنے گا اس میں سب طرح کی ق��درت ہوگی اوراس کوڑے سے حکومت ک��رے گ��ا اور چھ��ٹی میں پ��انچ س��وال ہیں ج��و ان ک��ا ج��واب دے گ��ا وہ بادش��اہ ہے پس ص��ندوق کھ��ولا ت��و یہی نکلا اور س��لیمان نے پ��انچ

تاس کی عم��ر ب�رس کی ہ��وئی۱۷۰جواب بھی دئ��يے تب وہ بادش��اہ ہ��وا اور داؤد مرگی��ا آادمی اورجن وپری��اں اور س��ب جب س��لیمان وہ انگش��تری پہن ک��ر بادش��اہ ہ��وا ت��و س��ب تاس کے مطیع ہوگئے سمندر اور زمین نے اپنے س��ب خ��زانے جانور بلکہ ہوا اور دریا بھی تان کو جمع کیا اور وہ ساری زمین ک�ا بادش�اہ ہ��وا وہ ج��انور اس کو بتلادئيے جنات نے تاس سے پوشیدہ نہ تھی اس کے پ��اس شیش��ے آاواز بھی سمجھتا تھا اور کوئی چیز کی تاس کی ج�وروں تھیں اور س�ات کے ہزار مکان تھے جن میں تین سو عورتیں خوبص�ورت تاس کے پ��اس س��اری دنی��ا کی ش��ان وش��وکت ب��درجہ کم��ال س��وباندیاں اور غلام تھے تاس کے ل��ئے س��مندروں میں موج��ود تھی اور دری��ائی گھ��وڑے جن کے پ��ر تھے جن��ات س��ے لائے تھے ۔ ای��ک روز س��ورج غ��روب ہوگی��ا اور وہ گھ��وڑ دوڑ کے تماش��ے میں نم��ازتان فرشتوں کو جو س��ورج پ��ر ح��اک� ہیں فرمای�ا تب انہ��و ں ادانہ کرسکا پس سلیمان نے تاس نے نم��از پ��ڑھی اور وہ س��ب گھ��وڑے قرب��انی ک��ر ڈالے۔ نے س��ورج ک��و الٹ��ا ہٹای��ا اور

آادمی�وں کی اور۲۵سلیمان کا لشکر س�و فرس�خ مرب�ع میں خیمہ زن ہوت�ا تھ��ا فرس��خ میں میں درن���دوں کی ف���وجیں پ���ڑتی۲۵ میں پرن���دوں کی اور ۲۵ میں جن���ات کی اور ۲۵

تھیں۔

تاس کے پ��اس ای��ک عجیب ق��درت ک��ا تخت بھی تھ��ا اورایس��ی ایس��ی چ��یزیںتھیں جن کا ذکر اس مختصر میں نہیں ہوسکتا۔

تہد بھی تھا ایک روزہ وہ غائب رہا خ��دمت تہد سلیمان کی خدمت میں ایک تاس نے کہا کہ میں ملک یمن میں گیا تھا وہ��اں ای��ک تاس پر خفا ہوا آایا سلیمان میں نہ تاس تاس کی شان شوکت بڑی ہے اور وہ س��وچ پرس��ت ہے عورت بلقیس نام ملکہ ہے کے ملک کی سیر میں مجھے دی�ر لگی ۔ پس س��لیمان نے ای�ک خ�ط لکھ��ا بس�� اللہیی نہ ک��ر بلکہ مس��لمان ہ��وکر م��یری الرحمن الرحی� اے بلقیس میرے اوپر فوقیت کا دعوتہد کے منق��ار میں دے ک��ر بلقیس کی ط��رف تہد خ��دمت میں حاض��ر ہ��و ( اوریہ خ��ط تاس نے پڑھ ک�ر ارک��ان دولت س�ے ص��لاح کی وہ تہد نے جاکر بلقیس کو دیا تہد بھیجا آامادہ ہوئے پر بلقیس نے جنگ کرنا نہ چاہا بلکہ بہت سے ت�فے ت�ائف لوگ جنگ پر آاپ پیچھے س��ے تاس کی ط��رف بھیجے اور عجیب غریب جو یہاں بیان نہیں ہوس��کتے تان س��ے ملا اوراپ��نی ش��ان ش��وکت آائے س��لیمان آاتی تھی جب وہ ت�ائف لے ک��ر وکی��ل تاس پ��ر انہیں دکھلائی لوگوں نے سلیمان سے کہا بلقیس ک� عقل اور بدشکل ہے ت��و تاس ک���ا تخت تاس نے حک� دی���ا کہ بلقیس کی حاض���ری کے پہلے ت���وجہ نہ ک���ر۔ پ���ر تاس�ے اٹھ�الائے اور بلقیس پیچھے حاض��ر اٹھ��اکر لای��ا ج��ائے پس جن�ات جل�دی ج�اکر تاس�ے تاس ک�ا مل�ک تاسے غسل دلایا اورنکاح کیا اور ہوئی اور مسلمان ہوگئی سلیمان نے تاس کے ساتھ تاس کے ملک میں جاتا تھا اور تین روز بخشدیا۔ ہر مہینے میں ایک بار آاپ نے نک�اح نہیں کی�ا تاس س��ے لڑک�ا بھی پی�دا ہ��وا تھ��ا۔ بعض کہ�تے ہیں رہت��ا تھ��ا اور تاس کا نکاح کرادی��ا تھ��ا۔ پھ��ر کہ��تے ہیں کہ کس��ی جزی��رہ میں ہمدان کے بادشاہ سے تاس کی خوبصورت لڑکی مس��لمان تاسے قتل کیا اور کوئی کافر بادشاہ تھا سلیمان نے کرکے نکاح میں لایا وہ لڑکی اپنے باپ ک�و ی�اد ک�رکے روی�ا ک�رتی تھی پس س�لیمانتاس کے باپ کی تص��ویر بن��وائی ت��اکہ وہ ع��ورت دیکھے اور تاس کا دل بھلانے کو نے

تاس تصویر کو پوجنے لگی تسلی پائے پر وہ معہ اپنی سہیلوں کے سلیمان سے پوشیدہ اا آاصف کو جو سلیمان کا وزیر تھا خبر ہوگئی اس سلیمان سے کہا پس سلیمان نے فورتاس عورت کو لاتیں مار کر تنبیہ دی اور روتا ہ��وا جنگ��ل ک��و تاس تصویر کو توڑ ڈالا اورتامینہ نکل گیا۔ سلیمان کی عادت تھی کہ وہ انگشتری طہارت کے وقت اپنے بیٹے تاس ل��ڑکے کے پ��اس تھی کہ ص���را ن��ام جن کے سپر کردتا تھا ایک روز وہ انگشتری تاس تاس س�ے انگش��تری مان�گ ک��ر پہن لی اور بادش��اہ ہوگی��ااب آای��ا اور بشکل س�لیمان کا حک� مثل سلیمان کے ج��اری ہ��وا اور س��لیمان فق��یر ہ��وکر بھی��ک م��انگنے لگ��ا جبتاس کو گالیاں دیا کرتے تھے اور خاک ڈال��تے لوگوں سے کہتا کہ میں سلیمان ہوں وہ تاسے دو مچھلیاں دیا کرت��ا تھ��ا۔ آاخر کو ایک مای گیر کا نوکر ہوگیا اور وہ ہر روز تھے تاس کے گھ���ر میں ہ���وئی تھی اس ل���ئے تاس تص���ویر کی پرس���تش چ���ونکہ چ���الیس روز تاس انگش��تری ک��و دری��ا چالیس دن سلیمان کا یہ حال رہ��ا بع��د اس کے وہ ص��خرہ جن میں ڈال ک��ر اڑھ گی��ا مچھلی نے انگش��تری ک��و نگ��ل لی��ا اور وہ مچھلی م��اہی گ��یر نےتاسے چیر کر انگشتری نک��الی اورپھ��ر ع��روج ہ��وا۔ پ��ر پکڑ کر سلیمان کے حصہ میں دی کہتے ہیں کہ س��لیمان س�ب پیغم��بروں س�ے پ�انچ س�ویا چ�الیس ب�رس بع��د بہش�ت میںتاس نے دنیاوی شان شوکت بہت حاصل کی تھی اور حض��رت م�م�د جائے گا کیونکہ سب پیغمبروں سے پہلے بہشت میں جائینگے کی��ونکہ وہ فق��یر تھے۔ پھ��ر کہ��تے ہیں کہ بیت المقدس کی عمارت پہلے داؤد نے شروع کی مگ��ر قب��ل ازاتم��ام انتق��ال ہوگی��ا۔آادمی لگا کر زر کث��یر تاس کی تیاری میں بڑی کوشش کی اور کئی ہزار پھر سلیمان نے تاس کی آاگ��ئی پس سے سات برس تک بنای��ا ابھی تی��ار نہ ہ��وئے تھے کہ اس کی م��وت لاش ک��و غس��ل اور کفن دے ک��ر لاٹھی کے س��ہارے بیت المق��دس میں کھ��ڑا کردی��ا جنات نے سمجھا کہ وہ عبادت میں ہے اس ل��ئے س��ب ک��ام میں مش��غول رہے اور وہآاخر دیمک نے لاٹھی کو کھالی��ا اور لاش گ��ر پ��ڑی تب جن��ات ایک سال تک کھڑا رہا

تاس��ے برب��اد کردی��ا۔ س��لیمان بھاگ گئے اوربیت المقدس تیار ہوگئی مگر بخت نض��ر نے برس کی ہوئی اس کی قبر بیت المقدس میں ہے۔۱۸۰ یا ۱۵۳کی عمر

یی کا قصہ یی کا قصہذکریا اوری�ی ذکریا اوری�ییی یا یوحنا اصطباغی کا باپ س��لیمان بن داؤد کی اولاد س��ے تھ��ا ذکریا ی�ی اور ب��ڑا پیغم��بر اوربیت المق��دس کےاحب��اروں ک��ا س��ردار تھ��ا )واض��ح ہ��و کہ وہ اولاد داؤد

تاس کی عم��ر ی��ا۷۵ ی��ا ۷۰ ی��ا ۶۰سے نہ تھا کہ بلکہ ہارون میں سے ایک ک��اہن تھ��ا ( تاس کی ج��ورو ۹۳یا ۹۹ یا ۱۲۰ یا ۸۵ ب��رس کی تھی ای��ک۹۸ ی��ا ۸۰ برس کی تھی اور

ایک روز بیت المقدس کے م�راب میں قربانی چڑھا کر دعا کرت�ا تھ�ا کہ اے خ�دا میں بوڑھا ہوں اور میری جورو ب��انجھ ہے اور اولاد نہیں ہے ت��ومجھے ای��ک بیٹ��ا عن��ائت ک��رتا جو امور دنیا ودین میں میرا جانشین ہوا۔ دعا قبول ہوئی اور خدا نے کہا تیرے بیٹا ہوگ��ا تاس نے خدا سے علامت مانگی خدا نے کہا تین روز تو بول نہ یی رکھنا س کا نام ی�ی

آاخر ک��و کھ��ل گ��ئی اور تاس کی زبان تین روز بندرہی مہی��نے کے۹سکے گا اس لئے تاس بعد لڑکا ہوا وہ ٹاٹ کا لیباس پہنتا اور ریاضت کرتا اوربہت روتا تھا اس ل��ئے ذکری��ا تاس کا غ� زی�ادہ نہ ہ�و ای�ک روز ذک�ر ی�ا کے سامنے وعظ نصی�ت بھی نہ سنتا تھا کہ یی ج��و گوش��ہ میں بیٹھ��ا سمجھا کہ وہ مجلس میں نہیں ہے اور دوزخ کا بیان سنایا ی�ی تھا چیخیں مارتا ہوا جنگل میں بھاگا دن بھر پہ��اڑوں میں روت�ا رات ک�و کس�ی غ�ار میںتاس��ے دیکھ تاس کی وال��دہ وہ��اں ج��اکر ملی وہ آاسوتا تھا کسی چرواہے کے بتلانے سے

تاس سے ملا۔ کر بھاگنے لگا تب مانے حق شیر ثابت کیا تب وہ اس عرصہ میں بنی اسرائيل شریر ہوگئے ذکر یا نے انہیں نصی�ت کرت��ا تھ��ا پ��رتاس��ے قت��ل کرن��ا چ��اہتے تھے پس تاس کے دش��من ہوگ��ئے تھے اور وہ نہ م��انتے تھے بلکہ تاس کے پیچھے دوڑے راہ میں ای��ک تان س��امنے س��ے بھاگ��ا اور اس��رائیلی ل��وگ ذکری��ا تاس میں گھس گیا ش��یطان نے کف��ار درخت ذکریا کے چھپانے کو پھٹ کیااور ذکر یا

تاس کے س��ر پ��ر آاری سے چیرا جب سے کہا ذکر یا اس درخت میں ہے پس انہو ں نے آاہ ماری خ��دا نے کہ��ا اگ�ر پھ��ر م�ارے گ�ا ت��و پیغم�بر میں س��ے ت��یرا ن�ام تاس نے آارا چلا

برس کی تھی۔۳۰۰کاٹ ڈالونگا پس وہ چپ چاپ چیرا گیا اس کی عمر اس وقت تاس ملکہ تاس کے ای��ک ملکہ تھی اور پھ��ر ب�نی اس�رائیل میں ای�ک بادش�اہ تھ��ا کی بی��ٹی تھی پہلے خص��� س��ے ملکہ چ��اہتی تھی کہ اپ��نی بی��ٹی بھی اپ��نے ح��ال کےتاسے منع کیا اس ل��ئے بادش��اہ نے یی نے اس حرکت سے خص� کی جورو بنا دے ی�یتاس کی گردن میں ایک رسی باندھ کر حاضر کرایا اور سر کاٹ ملکہ کے کہنے سے لیا وہ سر بھی کٹا ہوا بولتا تھا کہ جورو کی بی��ٹی س��ے نک��اح کرن��ا نہ چ��اہیے کہ��تے ہیں کہ ملکہ کو شیر کھاگیا اوربادشاہ بھی معہ اپ��نے ق��وم کے ش��یروں س��ے ہلاک ہ��وا۔ بعض

یی کی عم�ر ب�رس۷۵کہتے ہیں کہ نہیں اپنے بھ��ائی کی بی�ٹی پ�ر عاش�ق ہوگی�ا تھ��ا ی��یتاس کی قبر ہے۔ کی ہوئی اور دمشق کی جامع مسجد میں

مری� اور مسیح کے تولد کا احوال پشت میں تھی اس کی م��اں ای��ک زاہ��د ہ ع��ورت۱۸ یا ۱۷مری� سلیمان کی

تاس نے نذر تھی جس کا نام حنہ تھا اوراس کا شوہر عمران تھا جب حنہ حاملہ ہوئی تو تاس کے م�ری� م�انی کہ ج�و بچہ پی�دا ہوگ�ا وہ بیت المق��دس کی خ�دمت ک�رے گ�ا پس تاسے کپڑے میں ل��پیٹ لڑکی پیدا ہوئی مری� کے معنی ہیں خدا کی باندی یا عابدہ حنہ تاس کی پ��رورش کی اور وہ بیت المق���دس کی ک��ر بیت المق��دس میں لائی ذکری��ا نے تاس وقت بیت خ��ادمہ ہ��وئی اور م��ری� کی بہن ی��ا خ��الہ ذکری��ا کی ج��ورو تھی اگ��رچہ

تان میں سے ایک تھی توبھی۴المقدس کی خاکروبی آادمی کرتے تھے اورمری� بھی ہزار تا س�کا ن�ام قی��امت ت�ک ج�اری رہے گ�ا وہ ۱۳ی�ا ۱۰خدا نے مری� کو ایسا قبول کی��ا کہ

آاکر فرزند کی بش��ارت دی اورکہ��ا ق��درت ای��زدی س��ے بلا برس کی تھی کہ جبرئیل نے شوہر تیرے فرزند پیدا ہوگ�ا اس�ی وقت س�ے وہ ح�املہ ہ��وئی اور حم�ل کی خ�بر ذکری�ا ک�و

تاس ملی وہ متعجب ہوا کہ وہ بلا ش�وہر کس ط�رح ح�املہ ہے ذکری�ا کی ع��ورت نے کہ��ا یی تھے پس ذکری��ا کی ع��ورت کے ش��ک� والے بچہ نے م��ری� کے شک� سے حضرت ی�یتاس نے اس��کی کے ش��ک� والے بچہ ک��و س��جدہ کی��ا اور تواض��ح س��ے جھک��ا اس ل��ئے

ک��وس بیت۶تعری��ف کی پس م��ری� ی��ا ت��و جنگ��ل ک��و نک��ل گ��ئی ی��ا ش��ہر ایلی��اہ ج��و المق��دس س�ے ہے وہ��اں گ��ئی اور اس خی��ال س��ے کہ ل��وگ مجھے اتہ��ام ک�رینگے غم�زدہآارزو کرنے لگی تب دردزہ ہوگیا اور درخت خرم��ا جوخش��ک تھ��ا ت��ازہ ہ��وا ہوکر موت کی اورایک چشمہ پانی کا جاری ہ��وا۔ لوگ��وں نے جب دیکھ��ا کہ بیت المق��دس میں م��ری�آاپہنچے اورم��ری� ک��و معہ ل��ڑکے تاس��ی جگہ تاس کی تلاش میں پت��ا لگ��ا ک��ر نہیں ہے ت��و کے وہاں پایا اور کہا اے مری� عم�ران کی بی��ٹی ہ��ارون کی بہن ت�یری مازناک�ار نہ تھیتاس ل��ڑکے س��ے پوچھ��و پس بچہ نے ت��ونے یہ کی��ا کی��ا م��ری� نہ ب��ولی بلکہ اش��ارہ کی��ا کہ جواب دیاکہ میں خدا ک�ا بن��دہ ہ��وں خ�دا نے مجھے انجی��ل دے ک�ر پیغم�بر کی��ا ہے اور مجھے بابرکت بنایا ہے اورمجھے نماز اور زکوات دینے کا حک� دی��ا ہے جب ت��ک میں جیتا ہوں اورمجھے خ��دا نے نیک�و ک�ار بنای�ا ہے اور گ�ردن کش نہیں بنای�ا ہے پس لوگ��وںیی کی عم��ر تاس وقت عیس�� یی سے حیران ہوگ��ئے نے جب یہ معجزہ دیکھا تو قدرت الہ

دن کی تھی اور وہ ایک دفعہ باتیں کرکے پھ��ر چپ رہ��ا جب ت�ک کلام۴۰ایک دن یا آائی بعض کہ�تے ہیں کہ۳۰ک�رنے کی عم�ر ک�و نہ پہنچ�ا۔ تاس�ے وحی ب�رس ک��ا ہ��وا تب

تاس�تاد کے پ��اس لے گ�ئے ت�اکہ تاسے گہوارہ میں بھی لوگوں سے باتیں کیا کرتا تھا جب تاس یی علیہ السلام وہ ب��ولا بس��� اللہ یع��نی پڑھنا سیکھے تو معل� نے کہا کہہ بس� عیستاس کے ظ��اہر ہ��ونے س��ے پہلے بھی یی ک��و یی نہ کہ��ا )ش��ائد یہ معل� عیس�� نے بس� عیس��تاس کے ن��ام ک��و رکھت��ا ہے(پھ��ر معل� نے کہ��ا خ��دا جانت��ا تھ��ا کہ خ��دا کی جگہ میں یی بولا الرحمن الرحی� ۔ جب معل� نے کہا کہہ ابجد یعنی ال��ف ب ج د الرحمن عیسیی نے یی بولا بجد کیا ہوتا ہے اوراس کے کیا معنی ہیں وہ بولا میں نہیں جانتا عیس عیس

تاس ک��ا جلال ظ��اہر تاس کی ب�زرگی دکھلاتی ہے ج کہا ال�ف علامت اح�دیت س�ے ب ک���رتی ہے دال علامت دوام کی ہے تب معل� ب���ولا میں اس ک���و کی���ونکر پڑھ���اؤں یہیی لڑکوں میں کھیلتا رہا اور جو جو کھانے ل��ڑکے تومجھ سے زيادہ عال� ہے ۔ پس عیسآاتے تھے وہ غیب سے بتلاتا تھا جب بالغ ہوا بنی اس��رائيل ک��و ایم��ان لانے کے کھاکر لئے دع�وت کی پ�ر ک�وئی ایم�ان نہ لای�ا اورکہ�ا بے ب�اپ کے ل�ڑکے ک�ا حک� ہ� قب�ولیی پیغم��بر ایم��ان تاس پ��ر ی���ی یی کے شاگرد ہیں لیکن سب سے پہلے نہیں کرتے ہ� موستاس کے درپے تھے اس ل��ئے وہ مل��ک ش��ام س��ے مص��ر ک��و چلا دری��ائے لایا مگر یہ��ودی تاس نے دھوبیوں کو کپڑے دھ��وتے دیکھ��ا انہیں کہ��ا ت� ک��پڑوں ک��و نیال کے کنارے آاؤتمہارے دل کفر س��ے پ��اک ک��رکے میں تمہیں سفید اورپاک کرتے ہو اگر میرے ساتھ ص��اف بن��اؤں گ��ا پس وہ اس کے س��اتھ ایم��ان لا ک��ر ہ��وئے بعض کہ��تے ہیں کہ اس نےیی ک��ا ش��کار آاؤ کہ ت� ت��و حی��د الہ م��اہی گ��یروں ک��و دیکھ��ا تھ��ا اور کہ��ا م��یرے س��اتھ یی کو کسی معل� نے نہ پڑھایا تو م��ری� کروگے۔ تفسیر زاہدی میں لکھاہے کہ جب عیسیی نے اس کے تاس��ے کس��ی رنگری��ز کے پ��اس چھوڑدی��ا ت��اکہ یہ پیش��ہ س��یکھ لے عیس�� نے سارے کپڑے اٹھاک نیل کے ماٹ میں ڈال دئیے اورہر رنگ جو مطلوب تھا خود بخ��ودآای��ا یی مصر س��ے واپس تاس کے ساتھ ہوگئے جب عیس ہوگیا پس لوگ یہ معجزہ دیکھ کر آایا ہوں ای��ک اور بنی اسرائيل سے ایمان لانے کو کہا کہ میں خدا سے معجزے لے کر تو یہ کہ مٹی کے جانور بناکر ب�ک� خدا زندہ کردیتا ہوں اور وہ اڑتے ہیں دوس��رے یہ کہتاس کے پ�اس کبھی مادر زاد اندھے کو بینا کرتا ہوں اور کوڑھی کو ص�اف کرت�ا ہ��وں اورآاتے تھے اور وہ س��ب ک��و تندرس��ت کردیت��ا تھ��ا اور ج��و نہ آادمی بیم��ار کبھی پچ��اس ہ��زار آاسکتے تھے انہیں دعا سے ص���ت بخش��تا تھ��ا اس کے منہ کے س�انس میں ب��ڑی ت�اثیر

تھی۔

تردے جلائے ایک ان میں س��ے س��ام بن ن��وح تھ��ا ج��و یی نے چار م ہ��زار۴عیستاس��ی وقت مرگی��ا مگ�ر دوس�رے تین ج��و جلائے دنی��ا برس کا مردہ تھا وہ زندہ ہوکر پھر تاس نے دوشخص شہر انطاکیہ میں بھیجے ان ک��ا بن��دہ نے میں رہے اوربچے بھی جنے

اتفاقی مباحثہ میں لکھاہے۔یی ج��و ط��رح ط��رح کے معج��زے دکھلات��ا تھ��ا ل��وگ کہ��نے لگے وہ پس عیس��تاس��ے ج��ادو س��ے کرت��ا ہے اور بعض کہ��تے تھے وہ س��چا ہے یہ ل��وگ ایم��ان بھی لائے اور خدا سمجھنے لگے کیونکہ وہ لوگ گمان کرتے تھے کہ خدا ہر زمانہ میں کسی جس���آای��ا ہے اور بعض کہ��تے تھے کہ تین خ��دا یی میں آات��ا ہے اس وقت عیس�� میں حلول کرکے یی خدا ک��ا بن��دہ اور یی اور بعض کہتے تھے کہ عیس ہیں ایک اللہ دوسری مری� تیسرا عیسآاس��مان س��ے کھان��ا منگ��واکر کھلات��ا کہ یی س��ے کہ��ا کہ ہمیں رسول ہے۔ لوگوں نے عیس��تھنی ہ��وئی تاترا اس میں ایک مچھلی ب آائے اس نے دعا کی اورایک دستر خوان ہمیں یقین اورنمک اور سرکا اور ترکاریاں اورپانچ روٹیاں اور پانچ انار تھے لوگ ب��ولے اس معج��زہ میںتھنی ہ���وئی مچھلی ک���و زن���دہ کردی���ا اور تاس ب تاس نے ک���وئی اور معج���زہ بھی دکھلا تب

یی نے وہ س��ب کھان�ا ی�ا پ�انچ لاکھ فق��را ک��و کھلای�ا پھ��ر وہ دس�تر۵۰۰۰ ی�ا ۱۳۰۰عیسآای�ا وہ ات�وار ک�ا دن تھ��ا اس ل�ئے عیس�ائی آاسمان پ�ر چلا گی�ا اورجس روز وہ کھان�ا خوان

روز کھان��ا۴۰لوگ اتوار کو عید کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تین روز یا سات روز ی��ا آاتا رہا حک� تھاکہ فقیر اس میں سے کھائیں امیر ل��وگ نہ کھ��ائیں اس ل��ئے دولتمن��دوں

یی نے انہیں ب��ددعا کی اور تاس��ے س���ر بتلای��ا تب عیس�� ی��ا۳۳۳ ی��ا ۳۳نے غص��ہ س��ے شخص سور بن گئے اورگندگی کھاکر تین روز بعد مرگئے۔۵۰۰۰

یی تترک دنی��ا اور زہ��د میں درجہ اعل یی خ��وش روش��خص تھے اور حض��رت عیس�� رکھتے تھے ۔ ایک روز جنگل میں شاگردوں کے س��اتھ تھے کہ ای��ک ل��ومڑی انہیں ملیآاتی ہ�وں حض�رت نے یی کے گھر س�ے آاتی ہے وہ بولی عیس یی نے کہا تو کہاں سے عیس

آاپ واس�طے جہ��اں کہ�و ہ� گھ�ر کہا میرے ک�وئی گھ��ر نہیں ہے ش�اگردوں نے کہ��ا کہ توج زن کے ان��در بن��ا ؤ وہ کہ��نے لگے یہ��اں کی��ونکر بن س��کتا ہے بن��ائیں فرمای��ا دری��ا، م��

فرمایا دنیا دریائے موج زن ہے اس میں گھر بنانا نہ چاہیے ۔آاسمان پر جانا یی کا عیس

یی نے بیت المقدس کے منبر پ�ر وع�ظ کی��ا او رکہ��ا اے ایک روز حضرت عیس لوگو تمہیں معلوم ہے کہ یہود کے لئے ہفتہ کا دن اور توریت کتاب ش��ریعت ہے پس اب توریت منسوخ ہوئی اور ہفتہ کے دن کے عوض اتوار مقرر ہ��وا پس یہ��ودی دش��من ہوگ��ئےتان یی اور م�ری� کوگالی�اں دی�نے لگے اس�لئے خ�دا نے اور قتل کی فک�ر میں لگے اور عیس� کے جوانوں کو بندر اور بچوں کو سور بنادیا اس سے وہ اور بھی زیادہ دش��من ہ��وئے اوریی کو پکڑا اور تمام رات ایک گھر میں قیدرکھا صبح کو گھ��ر بڑی حیلہ بازی سے عیسیی ک�و ب�اہر تان کا س��ردار گھ��ر کے ان�در گی��ا ت�اکہ عیس� کے دروازہ پر سب جمع ہوئے اورآاسمان پ��ر بلالی��ا تھ��ا ایس�اکہ کس�ی ک�و خ��بر نہ تاسی رات خدا نے یی کو تو لائے پر عیساا یی کے ف��ور تاس کی شکل خ��دا نے مث��ل عیس�� ہوئی تھی لیکن وہ سردار جب اندر گیا تو تاسے چمٹ گئے کہ ت��و یی تونہیں ہے لوگ بنادی جب وہ باہر نکلا اورکہا گھر میں عیسیی کی تھی اس یسی نہیں ہوں پر شکل عیس� یی ہے ہر چند وہ کہتا رہا کہ میں عی ہی عیستاسے لیجا کر صلیب پر مارا پھر اپنے سردار کی تلاش ک��رنے لگے لئے کسی نے نہ مانا آاس�مان تاس�کے یی اڑگی�ا ۔ جب کہیں نہ پایا تو بہت گھبرائے کہ سردار مارا گیا اور عیس�تاس کی ج��ان خ��دا نے قبض کی اور پ��ر ج��انے کے ط��ور میں بہت اختلاف ہے ی��ا ت��و تاس��ے خ��دا آاسمان پر لے گیا۔ یا وہ سوگیا تھ��ا اور نین��د میں تاسے سات گھنٹے کے بعد یی ک��و لپٹ گ��ئی پس وہ تاس��ے لے گی��ا ج��اتے وقت م��ری� عیس�� آای��ا اور نے اٹھالی��ا۔ ی��اابر تاس کے چھ ب�رس م�ری� اور زن��دہ رہیں اور ملاقات قیامت کا وعدہ کرکے چھوڑ گیا بعد

تان کی عم�ر آاس�مان ک�و گ�ئے ت�و آاس�مان پ�ر ج�اکر۳۳جب مسیح ب�رس کی تھی اور وہ

آاسمانی ہوگئے پھر لوگوں میں اختلاف پڑا کہ وہ کون تھ��ا یعق��وب جسمانی نہ رہے بلکہ آاسمان پر چلاگیا۔ نسطور بولا وہ خدا کا بیٹ��ا تھ��ا آایا تھا پھر نے کہا وہ خداتھا زمین پر تاسے بھیجا تھا پھر بلالی��ا۔ ملک�ا ب��ولا وہ بن��دہ اورس�ول تھ��ا پس ان تین��وں ع��الموں خدانے یی پھ��ر کی رائے کے موافق یعقوبیہ نسطوریہ ملکا نیہ تین فرقے ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ عیسآائے گ��ا اور دج��ال ک��و م��ارے گ��ا اس کے عہ��د میں س��ب یہ��ودی م��ارے آاس��مان س��ے جائینگے اور کوئی کافر دنیا میں نہ رہے گا اورایسا امن چین ہوگاکہ شیر اونٹ��وں اورگ��ائیں اوربکری��وں کے س��اتھ ای��ک مک��ان میں چ��رینگے اورل��ڑکے س��انپوں س��ے کھیلیں گے اوریی م�مدی شریعت پر عمل ک��ریں گے اورکس��ی ع��ورت س��ے ش��ادی ک��رکے حضرت عیس بچے جنیں گے اورچالیس برس بعد مرجائینگے اور م��دینہ میں حض��رت م�م��د کے ق��بر

کے پاس دفن کئے جائينگے۔

نتیجہنتیجہ تعلی� م�م��دی ک��ا ای��ک وہ حص��ہ جس میں نہ��ائت ف�ش ب��اتیں ہیں میں نےتان کی س�اری اچھی تعلی� ج�و ہے س��و یہ ہی ہے ج�و اس کت��اب میں چھوڑ دیا ہے مگر آان اوراح��ادیث معت��برہ لکھی گئی ہے اوریہ سب بی��ان نہ ص��رف ح��دیثوں س��ے ہیں مگ��ر ق��ر سے بم�وجب رائے علم�اء م�م�دیہ کے ج�و معت�بر ل�وگ ہیں یہ ذک�ر لکھے گ�ئے ہیں اور اگر کوئی بات باقی بھی رہی ہوگی تو رہے مگر سب ض�روری ب�اتیں اس�لام کی م�ذکور ہوگئی ہیں۔ اب تواریخ م�مدی اور تعلی� م�مدی کے دیکھنے سے ن��اظرین ک��و معل��ومتاس میں ج�ان ہوسکتا ہے کہ م�مدی مذہب کے ل��ئے اگ�رچہ ای�ک ص�ورت ت�و ہے مگ�ر آادمی نے بڑی کاریگری تردہ دین سے یا ایک پتلا ہے جو ہرگز نہیں ہے اس لئے وہ ایک م

تاس میں جان نہ ڈال سکا۔ سے بنایامگر

آادمیوں کے تجویز کئے ہوئے دین تو اس جہان میں بہت ہیں بلکہ سوائے دینآادمی بنات��ا جارہ��اہے پھ��ر بھی آادمی��وں س��ے ہیں اور اب بھی عیس��وی کے س��ارے ادی��ان

مطلوب ہے جو نہ انسان سے پر خدا سے ہے۔یی تو کرتے ہیں کہ ہمارا دین خدا سے ہے کی�ونکہ حض�رت م�مدی لوگ دعویی سے اپنا دین جاری کی��ا ہے لیکن انص��اف س��ے بولن��ا چ��اہیے م�مد نے الہام کے دعویی بے دلی��ل دنی��ا میں کبھی اہ��ل فک��ر ل��وگ قب��ول کرس��کتےہیں البتہ بے کہ کیا کوئی دعو

فکر لوگ تو کبھی کبھی مان لیا کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کے فکر ناکارہ ہیں۔یی ح�ق دلیل�وں ہ� حضرت م�مد ک�و بسروچش�� قب��ول ک��رتے اگ�ر ان ک��ا دع�و سے ثابت ہوجاتا پر یہ تو م�ال ہے لیکن ب��رعکس اس کے ان کے اق��وال اور افع��ال س��ےتان کے اق��وال اور افع��ال س��ے یہ ظ��اہر ہ��وا ہے کہ یہ ظ��اہر ہ��واہے لیکن ب��رعکس اس کے تاس��ی کی عق��ل ضرور یہ دین خ��دا س��ے نہیں ہے مگ��ر انس��انی کی نفس�انی خواہش��وں اور

سے پیدا ہوا ہے۔آادمی��وں میں یہ ط��اقت بخش��ی ہے کہ اگ��ر وہ فک��ر ک��ریں ت��و معل��وم خ��دا نے ہوسکتاہے کہ کون کون چیزیں خدا کی بنائی ہوئی ہیں اورکون کون چ��یزیں انس��انی عق��ل س�ے ایج�اد ہیں اور ک�ون ک�ون چ�یزیں انس�انی عق�ل س�ے ایج�اد ہیں اورک��ون ک�ون چ�یزیں نفسانی خواہشوں سے نکلی ہیں اور ک�ون ک�ون خی��الات ورس��وم انس�انی ن�ادانی س��ے ہیں

آاپ ظاہر کرتی ہے کہ کہاں سے ہے۔ کیونکہ ہر چیز اپنے مخرج او رمنبع کو تورايخ م�مدی کے دیکھنے سے یہ بات خ��وب ظ��اہر ہے کہ حض��رت م�م��د عرب کے ایک بادشاہ تھے اوریہ منصب انہوں نے اپنی چ��الاکی اور ہوش�یاری اورحکمتتاس ترکیب کے جو رنجیت سنگھ سے پنجاب یی نبوت اور بوسیلہ عملی سے بوسیلہ دعو میں ظاہر ہوئی تھی ملک عرب میں اچھا موقع پاکر حاصل کیا تھا اوربڑی کامی��ابی بھی

حاصل کی تھی۔

تان کی نس��بت بعض م��ردم ہاں اس کامیابی سے جو خدا کی معیت کا خیال کے ذہن میں گ��ذرتا ہے میں بھی اس ک��ا قائ��ل ہ��وں پ��ر یہ ویس��ی ہی معیت تھی جیس��یآافت���وں اور انتظ���اموں کے س���اتھ دنی���ا رنجیت س���نگھ کے س���اتھ بھی تھی اور دنی���اوی یی ج��و مخص��وص ہے پیغم��بروں کے س��اتھ کےشروع س��ے اب ت��ک ہے پ��ر وہ معیت الہتان کی تعلی� پ��ر اپ��نی ق��درت حضرت میں ہر گز پائی نہیں جاتی کیونکہ نہ تو خدا نے تان کی تعلی� میں وہ دان�ائی ظ�اہر ہ�وئی ج�و خ�دامیں ہے کے معجزوں سے مہر کی اورنہ تان کی تعلی� سے روحوں کی تشنگی ہرگز نہیں بجھ س��کتی ہے اوریہ ب��ڑا ثب��وت اس لئے

ہے کہ وہ خدا کے پیغمبر نہ تھے۔ اس کت��اب کے پہلے ب��اب میں ان عقی��دوں پرس��وچو ج��و حض��رت م�م��د نےمب ح��ق کی روح اطمین��ان حاص��ل کرس��کتی ہے وہ��اں تان س��ے ط��ال س��کھلائے ہیں کی��ا توبعض ب�اتیں ن�اواقفی کی ہیں اور بعض ب�اتیں اور بعض وہ ب�اتیں بھی ہیں ج�و خ�دا کے

کلام سے سن کر حضرت نے سنائی ہیں۔ پھ��ر دوس��رے ب��اب میں حض��رت کی عب��ادات پ��ر غ��ور ک��رو وہ بھی انہیں تینتان کے عب��ادات کی وہی پہلے ب��اب کے عقائ��د ہیں پس قس��� کی ب��اتیں ہیں اوربنی��اد

کچی بنیاد پر کچا گھر بنانا ہے۔تانہیں عقائد پر مب��نی ہیں اور وہی علی ہذا القیاس حضرت کے معاملات بھی

تین قس� کی ہدائتیں وہاں پر بھی مذکور ہیں۔ پر قصص م�مدیہ پر غور ک�رنے س�ے خ�وب ہی معل�وم ہوگی�ا کہ م�ض ہ�وائی مذہب ہے دیکھو حض�رت پیغم�بروں کی ت�واریخ س�ے کہ��اں ت�ک ن�اواقف ہیں ع��وام س�ےآان اور حدیث میں بھ�ردی ہیں وہ ک�ون ہے ج�و بائب�ل سن سن کر کس قدر غلط باتیں قر مقدس کی تواريخ سے واقف ہوکر اس تواریخ کو جو حضرت م�مد نے سنائی ہے قب��ول کرے گا اس تواریخ کا فقرہ فقرہ غلاطہ فاحشہ سے بھرا ہوا ہے جس زمانہ میں حضرت

نے پیمغبروں کی یہ تواریخات سنا کر عرب کے ناواقف لوگ�وں ک�و اپ�نی ط�رف کھینچ�اتاس کی زب��ان میں تاس زم��انہ میں رومن کیتھول��ک لوگ��وں نے خ��دا کے پ��اک کلام ک��و بندکر رکھا تھا وہ کہتے کہ ج�ائز نہیں کہ س�وا ء پ��ادریوں کے خ��دا کے کلام ک��و ل�وگتاس��کے س��اتھ اپ��نی پ��ڑھیں اپ��نی زب��ان س��ے ع��وام ک��و کبھی کبھی کچھ س��ناتے تھے اور روائتیں بھی بتلاتے تھے سننے والے اور ، اورکچھ اپنی طرف سے ملا کر مشہور ک��رتےتاسی افواہ کو حضرت اپنی ت�اویلات س�ے تھے پس یہ باتیں مثل مثل افواہ کے اڑتی تھیں اپ���نی نب���وت کی بنی���اد پ���ر رکھ لی���تے تھے ہ���اں کچھ کچھ ٹک���ڑے بائب���ل کے بعض عیس��ائيوں کے پ��اس موج��ود بھی تھے اوریہودی��وں کے پ��اس پ��ورا عہ��دعتیق بھی تھ��ا اورتاس میں سے کچھ کچھ سنا بھی تھا پ��ر یہ��ودی بھی اپ��نی روائ��تیں بہت حضرت نے سناتےت ھے اور حض�رت ج�و س�ننے والے تھے خ�ود ان پ�ڑھ تھے اس ل�ئے کچھ کچھتان لوگ��وں درست سمجھا اورکچھ کچھ نادرست سمجھا خواہ اپ��نی غلطی س��ے خ��واہ کی روائتوں کی غلطی سے اس لئے حضرت کے سر میں پ��وری اور ص��یح ت�واریخ پیغمبروں کی ہر گز حاص��ل نہیں ہ��وئی پیچھے علم��اء م�م��دیہ نے جب ان تواریخ��ات ک�ا تکلمہ ع�رب میں کرن�ا چاہ�ا انہ�وں نے بھی ص��یح ب�ات کے دری�افت ک�رنے کیتاس��ی کی تائی��د میں آان اورحدیث میں بیان ہوچکا کوشش نہیں کی مگر جو کچھ قرآان تاس عہد کی روائتیں ملیں انہوں نے جم��ع ک��رکے ق��ر تاس ملک اور جہاں تک انہیں کی تفسیروں میں انبار لگادئیے اورعام مسلمانوں نے ان باتوں کو مستند سمجھ کر یقین بھی کرلیا۔ لیکن اب کہ خدا کا کلام سورج کی طرح سے بلندی پر ط�الع ہ��وا ت�و ساری تاریکی ساری دنیا سے ہٹ��ا ت��ا ہے اوراس ل��ئے م�م��دی دین کی روش��نی بھی بجھ

گئی ہے۔ اوریہ ب���ات ج���و میں کہت���اہوں کہ خ���دا کے کلام کی روش���نی س���ے م���ذہب م�مدی کی بھی روشنی ج�اتی رہی نہ��ائت س�چ ب�ات ہے اورا س��کے ثب��وت کی س��ب

دلیلیں چھوڑ کر یہ کیا عمدہ دلیل ہے کہ بعض علماء م�مدیہ یہ جو بڑے ہوش�یار ہیں اس وقت اسلام کی مرمت کے فکر میں بش��دت س��رگرم ہ��ورہے ہیں اور تم��ام م�م��دی فقہ اصول او راحادیث اور تفسیروں وغیرہ کو جوب�ارہ س�وبرس س��ے مس�لمانوں میں ایم�انآان کو ہاتھ میں لے ک�ر اپ�نی عق��ل س�ے کا جزو اعظ� تھا اب دور پھینکتے ہیں صرف قر تاس کی کچھ اور ہی معنے بنانا چاہتے ہیں اورن��ئی قس�� کی تفس�یر م�ض عق��ل س��ے کرتے ہیں اور ای�ک ب�ڑی الٹ پلٹ م�م�دی م�ذہب میں ک�رتے ہیں یہ اس�ی ل�ئے ہے کہ اگلی روش��نی اس��لام کی دین عیس��ائي کے س��امنے تاری��ک ہوگ��ئی ہے اورانہیں اس س��ےآاگئی ہے وہ نہیں چاہتے کہ توبہ کرکے سچے نور میں شامل ہوجائیں مگر اپ��نے نفرت اباء واجداد کی لکیر کے فقیر ہوکے اور اپنی عقل کو خدا سے زيادہ رہبر س��مجھ کےآان ک�و بیش آان پر اپ�نی عق��ل کی س�ونے ک�ا ملعمہ چڑھ�ادیں اور ی��وں ق��ر چاہتےہیں کہ قر قیمت چیز ظاہر کریں پ�ر یہ انہ��وت ب��ات ہے اورانش��االلہ کچھ عرص�ے کے بع��د معل�وم

بھی ہوجائے گاکہ اس سے کیا نتیجہ نکلا۔آانکہ م�م��دی تعلی� م�م��د ص��احب س��ے ہے نہ خ��دا س��ے اور مل کلام حاص��تان کی دان��ائی میں س��ے م�م��د ص��احب س��ے بھی اس ط��رح س��ے ہے کہ بعض ب��اتیں

تاسی درجہ کی ہے جو انسان کی عقل کا درجہ ہے۔ نکلی ہیں اور وہ دانائی بعض باتیں حضرت کی خواہش��وں میں س��ے ہیں اوریہ وہی خواہش��یں ہیں ج��و

ہر انسان میں ہیں۔ بعض حض��رت کی ن��اواقفی میں س��ے ہیں اوریہ ن��اواقفی وہی ن��اواقفی ہے ج��و

سب ان پڑھ اور امی اور مہذب شہروں سے ذرا دور کے باشندے رکھتے ہیں۔ اور بعض ب��اتیں س��ماعی ہیں خ��واہ درس��ت ط��ور س��ے س��نیں خ��واہ غل��ط ط��ور

سے ۔

خ���دا کے کلام میں ان ب���اتوں کے خلاف کچھ اور ہی خوبی���اں ہیں اور وہ یہہیں۔

آادمی کے ہ��اتھ س��ے مگ��ر تم��ام انبی��اء س��ے ہے کہ یہ معجموعہ نہ کسی ایک اور تم�ام مقدس�ین ک�ا متف��ق علیہ ہے اور س��ب پیغم�بروں کی کت��ابیں اس میں ش�امل ہیں اس کے ساتھ جب ہمارا دلی اتفاق ہوتاہے تو تم�ام مجم�وعہ انبی�اء کے س�اتھ ہ� ہوج�اتےآادمی ہے ج�و سلس�لہء انبی�اء ک�و چھ�وڑ ک�ر م�م�د ص�احب کی ہیں وہ کون دور اندیش

تان کے ساتھ چلیگا۔ خطرناک چال میں آاپ اس کلام ک��ا ثب��وت متع��دد گواہ��وں س��ے دی��ا ہے یع��نی رس��ولوں خ��دا نے اورنبیوں کے معج�زات اور پیش�ینگوئیاں جن س�ے وہ کلام بھ�ر پ�ور ہے یہ خ�دا کی ط�رف

سے اس کا ثبوت کامل ہے۔تاس کی س��اری خ��دائی کی ش��ان ش��وکت ج��و خ��دا کی ذات اور ص��فات اور

انسانی فہ� سے بالا ہے صرف اسی کلام میں ہے۔تاس کے ارادے تاس��ی ک��و لائ��ق ہے اور خ��دا کی ذات ک��ا وہ بی��ان ج��و ص��رف تاس کی مرض��ی انس��ان کی نس��بت جیس��ے اس کلام میں تاس کے عجیب انتظ��ام اور اور بیان ہے ساری زمین پر کبھی کسی انسان میں طاقت نہیں ہوئی کہ ایس��ا بی��ان کرس��کےتاس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ آان او ر سب احادیث م�مدیہ اس معاملہ میں ہرگز سارا قر پھر اس کلام کا کچھ مغز بھی ہے جس کو اس کلام کی جان کہنا چاہیےآادمیوں میں بوس��یلہ س��یدنا مس�یح کے داخ�ل کرت�اہے یی اپنی زندگی وہ یہ ہے کہ خدا تعال اوریوں وہ بچ ج��اتے ہیں اوراس��ی ہم��اری زن��دگی میں ج��واب ہ� میں موج��ود ہے خ��دا کی زندگی ہمارے ش��امل ح��ال ہوج��اتی ہے ۔ اور ہم��اری روح��وں کے پ��اک اقتض��ا س��ب کے سب پ�ورے ہ��وتےہیں۔س�ارے کلام کی س�ب تواریخ��ات اور س�ب ہ��دائتیں اور تم�ام رس�وم وانتظام ایک ہی مطلب پر مبنی ہیں کہ نجات صرف سیدنا مسیح سے ہے۔ حضرت نے

مطلق اس کلام ک�و نہیں س�مجھا اگ�ر خ�دا حض�رت ک�ا ہ�ادی تھ�ا ت�و کی�ا وہ بھی استاس مطلب کو نہ سمجھا تھا اوراگرسمجھا تھا اوریہ منشا کلام کا جو ہ� سمجھتے ہیں کے خیال میں درست نہ تھ��ا اس کے دلائ��ل وہ پیش کرت��اہے اورچ��اہیے تھ��ا کہ وہ دلائ��لآان کا مصنف توہمارے دلائل ابطالیہ ہمارے دلائیل اثباتیہ کے سامنے کافی ہوتے مگر قر

اثباتیہ ہی کو نہیں سمجھا یہ خدا سے بعید ہے۔یی کا منشا سمجھنا توبہت مشکل تھا مگر موٹی مم الہ حضرت م�مد کو کلایی کی یی کی بہن ک�و حض��رت عیس�� باتوں ک��و بھی درس��ت نہیں س�مجھا ہے م��ری� موس��تاس ذک��ر ی��ا ک��و ج��و ن��بی تھ��ا ماں بتلادیا ہے اوریوحنا اصطباغی کے باپ ذکر یا ک��و اورآادمی سمجھ لیا ہے اور ہ��یرودیس وہیردوی��ا ع��ورت ک��و جنہ��وں نے یوحن��ا کاس��ر ایک ہی آادمی کاٹا تھا اخیاب وايزب�ل بتلای�ا ہے اورعجیب بے س�روپا قص�ے س�ناتے ہیں اگ��ر ک�وئی مسلمان ہونا چاہے ت�و ض�رور ہے کہ وہ ان س�ب م�ض غل�ط ب�اتوں پ�ر ایم�ان لائے کہ یہ سچ باتیں ہیں ورنہ مسلمان نہیں ہوسکتا اوراس��ی ط��رح ہزارہ��ا غل��ط ب��اتیں چ��اہے کہ دل میں بھرے بھائیو انصاف سے کہو کہ ہ� معذور ہیں یا نہیں ہمارا عذر م�مدی مذہب

کی نسبت حق ہے یا نہیں اوراپنی حالت پر بھی فکرکرو۔آادمی فض�ل اور س�چائی س�ے ج�و س�یدنا مس�یح س�ے پہنچی ہے نہ جب ت�ک

بھر جائے وہ حیات ابدی کا منہ نہ دیکھیگا۔

سلام عماد الدین لاہز

تمام شد