9

Click here to load reader

Research Paper

Embed Size (px)

DESCRIPTION

Research of the riwayat which suggest death penalty on blasphemy.

Citation preview

Page 1: Research Paper

�ا�ر� �ث ث� وآ� م ر�سل آ�ور� تہ ر�سا�لث� پ سآ�ئ مت� س م آ�حد�ی� ت ش�

(علم� روایت کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ)

ک ید�ی ختں, ک ک ث,ا�ب مں, ک ہتں ق :پ وآ�ق آ�ثتج8 جم م

(ض��رورت من��د)بعض روایتوں میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں می��ں س��ے ای��ک رہا کرتا تھ��ا ۔ وہ ا4س��ے کھلی��ا(ا4س کی زیر کفالت) نابینا شخص ایک یہودی خاتون کے پاس

پلیا کرتی اور ا4س کی مالی مدد کی��ا کرت��ی تھ��ی ۔ ت��اہم ا>س س��ب کچ��ھ ک��ے ب��اوجود وہ عورت محمد رسول ال صلی ال علیہ وسلم پر سب و شتم کیا کرت��ی اور ا>س ط��رح ا4س نابینا مسلمان کو ایذا پہنچاتی تھی ۔ ایک رات جب ا4س نابینا شخص ن��ے ن��بی ص��لی ال علیہ وسلم کے بارے میں ا4س کے منہ سے ا>س طرح کی گستاخی س4نی تو وہ کھڑا ہوا اور ا4س یھودی خاتون کا گل گھونٹ کر ا4س��ے قت��ل ک��رڈال ۔ پھ��ر اگل��ے دن ی��ہ قض��یہ ج��ب رسول ال صلی ال علیہ وسلم کے پاس پہنچ�ا ت�و آپ ن�ے لوگ�وں س�ے ا4س خ��اتون ک�ے معاملے میں تفتیش کی ۔ ا4س موقع پر وہ نابینا شخص کھڑا ہوا اور ا4س نے آپ کو بتایا کہ یہ خاتون ال کے نبی پر سب وشتم کیا کرتی اور ا>س معاملے میں ا4س��ے ای��ذا پہنچ��اتی تھی ۔ چنانچہ ا>س بنا پر ا4س نے ا>سے قتل کیا ہے ۔ ا4س کی یہ بات س��ن ک��ر آپ ن��ے ا4س

عورت کے خون کو (بغیر کسی حکم> قصاص کے) رائگاں قرار دیا ۔

,ر�ی وت ا�ت� ک ت�خ ر�وآ�ث حدیث کی ا4مہات> کتب،بالخص��وص طبق�ہ[ اول\�ی ک�ے مص��ادر عہ�د> رس�الت ک�ے ا>س واقعے کو نقل کرنے میں اگرچ��ہ یکس�ر خ��اموش ہیں،ت���اہم ح��دیث وآث�ار ک�ے دوس��رے اور تیسرے طبقے کے بعض مراجع میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ ی��ہ واقعہ،بہرح���ال

نقل ہوا ہے ۔ جس کی تفصیل حسب> ذیل ہے:

ث� �Cب ش ک ر�وآ�ی م آ�ب آ ا>س واقعے کی روایتوں کو جمع کرنے اور ا4ن کی بالستیعاب تخریج کرنے س��ے ی��ہ بات سامنے آتی ہے کہ سب سے پہلے ا>سے تیسری صدی ھجری میں أبو بکر بن أب��ی

میں،جسے أصحاب> علم نے کتب> ح��دیث ک��ے طبق��ہ[''م�صن�ف '' نے اپنی ھ)235(متوفی:شیبہ

ثالثہ میں شمار کیا ہے؛ا>سے نسبتاr تفصیل کے ساتھ ا>س طرح پیش کیا ہے :

كان رج�ل9 م�ن ال0م�س�ل�م�ي أع�مى، فكان يأ0و�ي إ�لى ام�رأة& يه�ود�ي�ة&، ”:، قالالش�ع�ب�ي� ، عن�م�غ�ية ، عن�جر�ير� حد�ثنا فلم�ا سم�ع ذل�ك م�ن�هاوسل<م علي�ه� ال صل<ىفكانت� ت�ط0ع�م�ه� وتس�ق�يه� وت�ح�س�ن� إ�لي�ه�، وكانت� لا تزالC ت�ؤ�ذ�يه� ف�ي رس�ول� الل<ه�

Page 2: Research Paper

فنشد الن�اس ف�ي أم�ر�ها، فقام الر�ج�لCوسل<م علي�ه� ال صل<ىلي�لةS م�ن الل<يال�ي قام فخنقها حت�ى قتلها، فر�ف�ع ذل�ك إ�لى الن�ب�ي� علي�]]ه� ال صل<ى وتس�بXه� وتقع� ف�يه�، فقتلها ل�ذل�ك، فأب�طل الن�ب�يX وسل<م علي�ه� ال صل<ىفأخ�بره� أن�ها كانت� ت�ؤ�ذ�يه� ف�ي الن�ب�ي�

.)1(“ دمها وسل<م

ث� ک ح ل ر�وآ�ی Hر�سJ ت سآ�ور� م ابن أبی شیبہ کے ا>س طریق کو تحقیق> سند کے معیار پر پرکھا جائے تو واضح ہے

شعبی کوفی پر منتہی ہوتی ہے ۔ ع��امر ھ) 109(متوفی:کہ یہ سند تابعی عامر بن شwراحیل شعبی اوساط> تابعین میں سے ہیں ۔ عہد> نبوی ک�ا ی�ہ واقع�ہ وہ ک�س ص�حابی ی��ا ت��ابعی سے اخذ کر کے روایت کر رہے ہیں؛یہ س��ند ا>س س��ے یکس��ر خ��اموش ہ�ے ۔ ج��س س��ے

ی��ت ہ��ے ۔ روا''م4رس��wل '' تص��ل اورثابت ہوا کہ اصل> سند میں انقطاع کی بنا پر یہ ایک غیر م چنانچہ سند کے ا>س انقطاع کی بنا پر اور درجہ[ صحت تک پہنچنے کے لیے اتص��ال> س��ند

اور ناقابل اعتبار ہے ۔''ضعیف''کی لزمی شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ سند م4رسwل روایت کے بارے میں یہی رائے ج4مہور محدثین،ح4فاظ> حدیث،ناق��دین> آث��ار اور اصحاب> ا4صول وفقہ کی ایک بڑی تعداد نے اختیار کی ہے ۔ حدیث> م4رسwل کو رد کرنے میں ا>ن کی دلیل سند کی بنیاد میں ایک یا ایک سے زیادہ رواۃ کے محذوف ہوج��انے ک��ی بن��ا پر پیدا ہونے والی ناواقفیت ہے ۔ جس میں یہ احتم��ال بھ��ی بہرح��ال موج��ود ہوت��ا ہ��ے ک��ہ

۔ اور ا4س صورت می��ں ظ��اہر ہ��ے ک��ہ ا>س تابعی نے وہ خبر کسی تابعی ہی سے سنی ہو م4رس��wل۔)2(بات کا امکان بھی موجود ہوتا ہے ک��ہ وہ ت��ابعی ک��وئی ناقاب��ل ا عتب��ار راوی ہ��و

ہمارے نزدیک یہی رائے محقق اور راجح ہے ۔ روایت کے باب میں

ث� ک ح ر�وآ�ی علم> روایت کی رو سے ابن أبی شیبہ کی م��ذکورہ ب��الہ روای��ت ک��ا ن��بی ص��لی ال علیہ وسلم سے استناد ثابت نہیں ہوتا ۔ شیخ أبو محمد ا4سامہ بن ابراہی��م ، جنہ��وں ن��ے

پر اپنی تحقی��ق لکھ��ی ہ��ے؛ا>س روای��ت ک��ے ب��ارے می��ں"مصنف ابن أب شيبة"عصر حاضر میں

ک��ی ی��ہ''م�صن�ف '' ۔ چنانچہ یہ جاننا چ��اہیے ک��ہ )3(ا4نہوں نے بھی یہی رائے پیش کی ہے

اور ناقاب��ل حج��ت ہ��ے ۔ ا>س''ض�عیف''،''منقط��ع''روایت عامر شعبی کے ا�رسال کی بن��ا پ��ر سے کسی قسم کا کوئی استدلل کیا جاسکتا،نہ یہ کسی شرعی حکم کا ماخ��ذ ہ��ی

بن سکتی ہے ۔ مصادر> حدیث کے علوہ تیسری صدی ھجری ہی میں ہوبہو یہی متن أبو بکر أحمد

أحكام أهل اللل والردة من الامع لسائل الم]]ام ''کتاب نے بھی اپنی ھ )311(متوفی:بغدادی حنبلی ۔ تاہم علم> روایت کی روش��نی می��ں ا4س س��ند)4(میں اپنے طریق سے نقل کیا ہے '' أحد

کی حیثیت بھی بالکل وہی ہے جو ابن أبی شیبہ کی ا>س سند کی ہے ۔ کیونکہ شعبی کے ا�رسال کی بنا پر ضعف> انقطاع ا4س طریق میں بھی یکساں طور پر موجود ہے ۔ ج��س

کی بنا پر وہ راویت بھی ناقابل التفات واستدلل ہے ۔

Page 3: Research Paper

ث� �Cب د�آ�ود� ک ر�وآ�ی س آ ابن أبی شیبہ کے بعد ا>س واقعے کو تیسری صدی ھجری ہی می��ں ا�م��ام أب��و داود

میں،جسے علماے حدیث طبقہ[ ثانیہ ک��ے مص��ادر> می��ں ش��مار''س�نن''نے اپنی ھ) 275(متوفی:

کرتے ہیں؛اپنے طریق سے قدرے اجمال کے ساتھ ا>س طرح نقل کیا ہے :

عل�يj رض�]]ي عن� ،الش�ع�ب�ي� عن� ،م�غ�ية عن� ، جر�ير&عن� ، وعب�د� الل<ه� ب�ن� ال0جر�اح� ،ع�ث0مانC ب�ن� أب�ي شي�بة حد�ثنا وتقع� ف�يه� فخنقها رج�ل9 حت�ى ماتت� فأب�طل رس�ولC الل<]]ه�وسل<م علي�ه� ال صل<ىالن�ب�ي� يه�ود�ي�ةS كانت� تش�ت�م� أن< ” ،الل<ه� عن�ه�

)5(“. دمهاوسل<م علي�ه� ال صل<ى

ت س بو داود کی یہ سند ہمارے نزدیک دو پہلو[وں سے قابل تحقیق ہے ۔ ایک ض��بطأ ا�مام

اتصال> سند کے پہلو سے ۔رواۃ کے پہلو سے اور دوسرے

ۃضبط� روا ا>س روایت کی سند پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہ�ے ک��ہ ا�م��ام أب��وداود اپن��ے ب��راہ> راست شیوخ کے طبقے میں دو راویوں کا استناد بیان کر رہے ہیں ۔ ایک عثم��ان ب��ن أب��ی شیبہ اور دوسرے عبد ال بن الجراح التمیمی ۔ ا>ن دو شیوخ کی بنا پر سند آگے دو طرق میں منقسم ہوگئی ہے ۔ ت��اہم أب��و داود ک��ے ا>ن دون��وں ہ��ی ش��یوخ ک��ی س��ند اوپ��ر بالک��ل یکساں ہے ۔ یہاں قابل غور بات صرف یہ ہے کہ عثمان بن أبی شیبہ اور س��ند ک��ے ب��اقی تمام رواۃ تو بل شبہ ہر لحاظ سے ثقہ ہیں ۔ جس کی بنا ا>س طری��ق می��ں ک��م س��ے ک��م ضبط> روای کے پہلو سے تو کوئی کمزوری موجود نہی��ں ہ��ے ۔ البت��ہ دوس��رے طری��ق می��ں

پر علماے رجال نے ضبط> روایت ہی ک��ے پہل��و س��ے کلمعبد ال بن الجراح التمیمیخود کیا ہے ۔ ا�مام ابن أبی حاتم رازی اور ابن حجر عسقلنی ا>ن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

۔ ا>س سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ طریق)6(یہ باوجود اپنی صفت> صداقت کے کثیر الخطا ہیں کی بنا پر ضبط> راوی کے پہلو سے بہرحال مجروح ہ��ے ۔ اور یہ��ی وج��ہعبد ال بن الجراح

۔)7(ہے کہ محققین> حدیث نے ا>س طریق کو ''حسن'' کا درجہ دیا ہے

اتصال� سند ا�مام أبو داود کی ا>س سند ک��ا اص��ل قاب��ل تحقی��ق وتجزی��ہ پہل��و ج��س پ��ر اص��لr ا>س روایت کے قابل اعتبار ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے؛وہ یہ ہے کہ شعبی کے ا�رسال کی بنا پر جو ضعف> انقطاع ابن أبی شیبہ کے طریق میں موجود تھا،وہ یہاں أب��و داود ک��ے طری��ق میں بظاہر نظر نہیں آرہا ہے ۔ یعنی ا>س طریق میں شعبی نے یہ واضح کردیا ہے کہ عہ��د> رسالت کے ا>س واقعہ کی خبر ا4نہوں نے سیدنا علی رضی ال عنہ سے اخ��ذ ک��ی ہ��ے ۔ تاہم علم> رجال کی روشنی میں یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہ��ے ۔ وہ ی��ہ ک��ہ عل��م> روای��ت کی بنیاد پر عامر شعبی کا سیدنا علی کے استناد ک��و بی��ان کردین��ا آی��ا واقعت��اr ا>س س��ند

Page 4: Research Paper

کے انقطاع کو دور کردیتا ہے ؟ علم> رجال کی رو س�ے آی�ا ع��امر ش�عبی ک�ا س��یدنا عل�یسے اخذ> علم ثابت بھی ہے یا نہیں ؟

ث� ,ا� ع س ر�وآ�ی ی ک سث Rعت (ع تی)ث�ا�ب عمش� خاص ا>س سوال پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ بعض اہل عل��م ن��ے عل��ی رضی ال عنہ سے ا4ن کے سماع کو مانا ہے،ت��اہم ا>س رائے ک��ے ح��ق می��ں ک��وئی واض��ح دلیل راقم الحروف کو میسر نہیں ہوسکی ۔ دوسری طرف اکثر علمائے حدیث،ائمہ[ رج��ال اور محققین کی رائے کے مطابق شعبی نے سیدنا علی رضی ال عن��ہ ک��و دیکھ��ا ض��رور

ہے،لیکن علمی طور شعبی کا ا4ن سے اکتساب >علم قطعاr ثابت نہیں ہے ۔ بر بنائے تحقیق ہمارے نزدیک یہ��ی دوس��ری رائے محق��ق اور راج��ح ہ��ے ۔ ا>س ک��ے

حق میں ائمہ[ حدیث کے اقوال حسب ذیل ہیں :

,ا� ع س سع[ ع ی ک سث Rعت (آ�ئ8 ر�جل ک آ�قآ�ل ک ر�وش م)ش� میں عامر ش��عبی'' الراسيل ''نے اپنی کتاب ھ) 327(متوفی: ۔ ا�مام ابن أبی حاتم رازی 1

کی سیدنا علی سے روایت کے بارے میں ا�مام أحمد بن حنبل کی یہ رائے نقل کی ہ��ے کہ شعبی اگر ا4ن کی نسبت سے کوئی روایت بیان کریں تو ا4س کی کوئی حیثیت نہی��ں

۔)8(ہے

میں ی��ہ '' العلل الواردة ف الحاديث النبوية ''نے اپنی کتاب ھ) 385(متوفی: ۔ ا�مام دار قطنی 2

بات پورے وثوق سے کہی ہے کہ عامر شعبی نے سیدنا علی سے سوائے ای��ک ح��دیث ۔ )9(کے کبھی کچھ نہیں سنا

میں فرم��اتے ہی��ں : ع��امر''معرفة علوم الديث '' ھ)405(متوفی:۔ ا�مام أبو عبد ال حاکم 3

شعبی نے سوائے حضرت أنس رضی ال عنہ کے،کسی صحابی سے کچھ نہیں س��نا ؛ نہ سیدہ عائشہ سے،نہ حضرت عبد ال بن مسعود سے،نہ أسامہ ب��ن زی��د س��ے اور ن��ہ سیدنا علی سے ۔ حضرت علی کو ا4نہوں نے کسی موقع پر بس دیکھا ہی ہ�ے ۔ ش�عبی

۔)10(نے معاذ بن جبل اور زید بن ثابت سے بھی کبھی کوئی سماعت> علم نہیں کی

فرمای���ا'' العتبار ف الناسخ والنسوخ ''نے اپنی کتاب ھ) 584(متوفی: ۔ ا�مام أبو بکر حازمی 4

۔)11(ہے: شعبی کے حضرت علی سے سماع کو ائمہ[ حدیث نے ثابت قرار نہیں دیا ہے

میں فرماتے ہیں : ش��عبی ن��ے س��یدنا'' أعلم النبلءسي '' ھ)748(متوفی: ۔ ا�مام ذھبی 5

۔)12(علی کو دیکھا ہے اور ا4ن کے پیچھے نماز بھی پڑھی ہے لیکن ظاہر ہے کہ ا>س سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ سیدنا علی سے ا4نہ��وں ن��ے اکتساب> علم بھی کیا ہے ۔ کیونکہ علی رضی ال کو ا4نہ��وں ن��ے بچپ��ن می��ں دیکھ��ا ہ��ے ۔

میں شعبی سے روایت کرت��ے ہی��ں ک��ہ'' أخبار القضاة ''اپنی کتاب ھ) 306(متوفی:وکیع بغدادی

Page 5: Research Paper

بیان کیا : بچپن می��ں ای��ک موق��ع پ��ر ہ�م حض��رت عل��ی ک��ے(خود اپنا ایک واقعہ یوں)ا4نہوں نے ۔ )13(صحن میں داخل ہوگئے تھے ۔ ا4نہوں نے ہمیں دیکھا تو کہا : نکلو یہاں سے نکلو!

می��ں لکھت��ے ہی��ں:''فتح الباری فی شرح البخاری '' ھ)795(متوفی: ۔ ا�مام ابن رجب حنبلی 6

شعبی نے حضرت علی کو ا4س موق�ع پ�ر دیکھ�ا ہ�ے ج�ب وہ ش�4راحہ ہwم�دانیہ ن�امی ای�ک خاتون کو رwجم کر رہے تھے ۔ شعبی نے ا>س واقعے کو روایت بھی کیا ہے۔تاہم یعقوب ب��ن

۔)14(شیبۃ فرماتے ہیں کہ شعبی کے سیدنا علی سے سماع کو ثابت مانا نہیں گیا ہے

می��ں فرم��اتے ہی��ں : ش��عبی ن��ے'' شرح علل الترمذی '' ۔ا�مام ابن رجب اپنی کت��اب 7

سوائے حضرت أنس کے،کسی صحابی سے کچھ نہیں سنا؛نہ س��یدہ عائش��ہ س���ے،نہحضرت عبد ال بن مسعود سے،نہ أسامہ بن زید سے ۔

ا>سی طرح ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ا�مام ترم��ذی ک��ے کلم س��ے معل��وم ہوت��ا ہے کہ وہ شعبی کی م4رسwلت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ کیونکہ شعبی ای��ک ط��رف ج��ابر ج4عفی کی تکذیب کرتے ہیں اور دوسری طرف ا4ن سے روایت بھ��ی کرت��ے ہی��ں ۔ چن��انچہ

۔)15( قرار پاتی ہیں''ضعیف''ا>سی بنا پر ا4ن کی م4رسwل روایات

۔ عصر حاضر کے ایک محدث شیخ عب��د العزی��ز ب��ن م��رزوق الطریف��ی اپن��ی کت��اب8 میں لکھتے ہی��ں : ع��امر ش��عبی ک��ا ''التحجيل ف تريج ما ل يرج من الحاديث والثار ف إرواء الغليل''

سیدنا علی کو دیکھنا اگرچہ ثابت ہ��ے ۔ اور ب��اوجود ا>س ک��ے ک��ہ وہ عل��ی رض��ی ال عن��ہ سے کثرت سے روایت کرنے والے رواۃ میں سے ہیں،مگر یہ ای��ک حقیق��ت ہ��ے ک��ہ وہ ا4ن سے روایت کرنے میں احتیاط اور معیار> روایت کو ب��ر ق��رار نہی��ں رکھت��ے ۔ کی��ونکہ وہ بع��ض ضعیف راویوں کی وساطت واستناد پر بھی حض��رت عل�ی ک�ی نس��بت س��ے روای��ت بی��ان کردیتے ہیں ۔ چنانچہ شعبی کی ا>س طرح کی روایتوں پ��ر ا4س وق��ت ت��ک توق��ف اور ا4ن ک��ا عدم قبول لزم ہے،جب تک کہ ا4ن کے ساتھ ایسے قرائن موجود نہ ہوں جن سے ا4ن ک��ی

صحت پر ہمیں گمان> غالب حاصل ہوجائے ۔ شیخ طریفی ایک مقام پ��ر مزی��د لکھت��ے ہی��ں ک��ہ ش��عبی ک��ے س��یدنا عل��ی س��ے سماع پر اگرچہ اختلف ہے،تاہم صائب رائے یہی ہ��ے ک��ہ ا4نہ��وں ن��ے حض��رت عل��ی س��ے

۔ )16(کبھی کچھ نہیں س4نا

۔ عصر حاضر ہی کے ایک محقق ڈاکٹر عبد الملک بن عبد ال بن دھیش؛جنہ��وں9 پ��ر تحقی��ق لکھ��ی'' الحاديث الختارة '' کی کتاب ھ) 643(متوفی:نے ضیاء الدین مقدسی حنبلی

۔)17(ہے؛ا4ن کی رائے کے مطابق بھی سیدنا علی سے شعبی کا سماع ثابت نہیں ہے

ث� ک ح �Cب د�آ�ود� ک ر�وآ�ی ن8 ت آ�ور�س آ ئمہ[ رجال اور محققین> حدیث کے مذکورہ بالہ اقوال وآرا س��ے ث��ابت ہ��وا ک��ہ علم��یأ

طور پر تابعی عامر بن شراحیل شعبی کا سیدنا عل��ی رض��ی ال عن��ہ س��ے ب��راہ> راس��ت

Page 6: Research Paper

اکتساب> علم اور اخذ> حدیث ثابت نہیں ہے ۔ نتیجتاr وہ ا4ن کی نس��بت س��ے ک��وئی روای��ت ہ��ی ق��رار پ��ائے''ض��عیف'' اور ''منقطع''بیان کردیں؛تب بھی علم> روایت کی بنیاد پر وہ سند

گی ۔ ا>س تمام تفاصیل سے ثابت ہوا کہ سنن أب��وداود ک��ی موض��وع> بح��ث روای��ت ظ��اہری اتصال> سند کے باوجود درجہ[ صحت کو نہیں پہنچتی ۔ کی�ونکہ حقیقت��اr ی�ہ بھ�ی ای�ک غی��ر

روایت ہے ۔ موضوع> بحث روایت کے ا4س�ی ض�عف> انقط�اع ک�ی بنی��اد پ��ر''ضعیف''متصل اور جس کی طرف راقم الحروف نے اوپر اشارہ کیا ہے؛ا>س روایت کے ب��ارے می��ں بھ��ی ع��دم>

صحت کی یہی رائے مندرجہ ذیل معاصر علماے حدیث نے بھی پیش کی ہے ۔

�ر�آ� ث� ک آ� Rا�ر�ے م مص عے حی ث� ک ث �Cبد�وآ�د� ک ر�وآ�ی آ ضعيف سنن أب''ن��ے بھ��ی ھ) 1420(مت���وفی: ۔ مح��دث العص��ر ا�م��ام ناص��ر ال��دین ألب��انی 1

۔)18( قرار دیا ہے''ضعیف ال�سناد''میں ا>سے ''داود

(متوفی: ۔ عصر حاضر کے ایک اور محقق شیخ أیمن صالح شعبان نے بھی ابن أثیر 2

پر اپنی تعلیق��ات می��ں س��نن أب��ی داود ک��ی'' جامع الصول ف أحاديث الرسول'' کی کتاب ھ) 606

۔)19( قرار دیا ہے''ضعیف''ا>س روایت کو ۔ ڈاکٹر عبد الملک بن عبد ال ب��ن دھی��ش ن��ے بھ�ی ض��یاء ال��دین مقدس��ی ک�ی3

۔)20( قرار دیا ہے ''منقطع'' پر اپنی تحقیق میں ا>س سند کو '' الحاديث الختارة ''کتاب

یہاں قارئین کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ض��یاء ال��دین مقدس��ی ن��ے ا>س روای��ت کے اثبات میں اپنی جو سند پیش ک�ی ہ�ے؛ا4س می�ں ا>س ض�عف> انقط�اع ک�ے علوہ ای�ک

ک�ی موج��ودگی ن�ے ا4س�ے مزی��د کم�زور اور)21(''عم�ر ب��ن محم��د ال�دارقزی '' ضعیف راوی ناقابل اعتبار بنادیا ہے ۔ لہذا احادیث باب کا وہ طریق بھی کسی درجے میں قابل التف��ات

نہیں ہے ۔

ث� س ب ک ر�وآ�ی ن�ے اپن�ی ھ) 458(مت��وفی:ا�مام أبو داود کے بعد پانچویں صدی ھجری میں ا�مام بیھقی

میں،جسے أصحاب> ح��دیث طبق�ہ[ ث��الثہ ک��ے مراج��ع می��ں ش�مار کرت��ے ہی��ں،دو''س�نن کب{ی''

مقامات پر ا>سی واقعے کو ا�مام أبوداود ہی کی مانند مدرجہ ذی��ل س��ند ومت��ن ک��ے س��اتھپیش کیا ہے :

وعب�]]د� الل<]]ه� ب�]]ن� ، ع�ث0مانC ب�ن� أب�ي شي�بة ، ثنا أب�و داو�د ثنا ،م�حم�د� ب�ن� بك0ر& أنبأ ، أب�و عل�يj الرXوذ0بار�يX أخ�برنا الص]]ل<ى الن�ب�ي� ن< يه�ود�ي�ةS كانت� تش�ت�م�أ ” عل�يj رض�ي الل<ه� عن�ه� ، عن� الش�ع�ب�ي� عن� ، م�غ�ية ، عن� جر�ير& ، عن� ال0جر�اح�

.)22(“ دمهاوسل<م علي�ه� ال صل<ى وتقع� ف�يه�، فخنقها رج�ل9 حت�ى ماتت�، فأب�طل الن�ب�يX وسل<م علي�ه� ا�مام بیہقی کی ا>س سند کو ہم اگر دقت> نظر سے دیکھیں تو بیہقی کے پہل��ے دو واسطوں کے بعد تیسرا استناد ا�مام أبوداود ہی کا ہے ۔ جس کے بعد باقی س��ند ہ��و بہ��و

Page 7: Research Paper

می��ں پی��ش کی��ا ہ��ے ۔ اور ا4س س��ند پ��ر''س�نن''وہی ہی ہے جسے ا�مام أب��و داود ن��ے اپن��ی

تفصیلی کلم کے بعد ظاہر ہے کہ یہاں اب مزید کسی تحقی��ق وکلم ک��ی ض��رورت ب��اقینہیں رہ جاتی ۔ کیونکہ دونوں أسانید کا حکم یکساں ہے ۔

نئ[ ب عہد> رسالت میں یہودی خاتون کے نابینا مسلمان کے ہاتھوں قت��ل کی��ے ج��انے اور نبی صلی ال علیہ وسلم کی جانب سے ا4س کے خون کو رائگ��اں ق��رار دی��ے ج��انے ک��ے واقعے کی مذکورہ بالہ تخریج وتحقیق کے نتیجے می��ں من��درجہ ذی��ل حق��ائق ث��ابت ہ��وتے

ہیں: می���ںصحيح مسلم اور صحيح باري،مؤطأ إمام مالك ۔ طبقہ[ اول\ی کے مصادر> حدیث یعنی ا

یہ واقعہ کہیں روایت نہیں ہوا ہے ۔ وہ ا>س کے بیان سے بالکل خاموش ہیں ۔

میں نقل کی��ا ہ��ے۔س�نن ۔ طبقہ[ ثانیہ میں بھی محض ا�مام أبو داود نے ا>سے اپنی ب

بھی ا>س واقعے سے بالکل ساکت ہیں ۔جامع ترمذی،س�نن نسائی،م�سند أحد

س�نن اور بیہقی کی مصنف ابن أب شيبة ۔ طبقہ[ ثالثہ کی کتب> حدیث میں بھی محضج ہیں،جن میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے ۔ باقی مسانید،مص���نفات،جوامع اور کت��ب طح��اویکب{ی

بھی ا>س روایت کے ذکر سے خاموش ہیں ۔

۔ حدیث کے أصل مراجع کے علوہ یہ واقعہ ثانوی طور پر یا م4ک��ر�رات ک��ی حی��ثیتد سے اگرچہ بعض دیگر کتب اور متاخرین کے مرتب کردہ بعض مجموعات> حدیث میں بھ�ی بیان ہوا ہے،تاہم یہ جاننا چاہیے کہ اپنی أصل حیثیت میں ا>س کے ما�خذ وہی تین ہیں جو

اوپر بیان ہوئے ہیں ۔

۔ موضوع> بحث واقعے کے تمام طرق کو جمع کرنے سے یہ بات ث��ابت ہ��وتی ہ��ےھ کہ تعداد> رواۃ کے لحاظ سے ا>س کی سندی حیثیت نہ صرف یہ کہ خ��بر واح��د ک��ی ہ��ے، بلکہ غریب مطلق ہونے کی بنا پر أخبار آحاد میں بھی ا>س کی وقعت تیسرے درجے کی ہے ۔ کیونکہ طبقہ[ صحابہ میں یہ واقعہ س��وائے س��یدنا عل�ی رض�ی ال عن�ہ ک��ے کس�ی دوسرے صحابی کی نسبت سے کہیں نقل نہیں ہوا ہے ۔ پھر مزید یہ ک��ہ ا>س ک��ے تم��ام طرق میں 'غwرابت' محض طبقہ[ صحابہ ہی میں نہیں ہے،بلک��ہ ا4س ک��ے بع��د بھ��ی متع��دد طبقات میں محض ایک ای��ک راوی ہ�ی عہ�د> نب��وی ک��ے ا>س واقع��ے ک��و بی��ان ک��ر رہ��ا ہ��ے ۔

تینوں ہی اپنے اپنے طبقے میں ا>س واقعہ کے تنہا رواۃ ہیں ۔ جریر اور مغیرۃ،شعبی

۔ رwد وق4بول کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ واقعہ ہے کہ ا>س روایت کا ک��وئیو ہی کے درجے میں ۔ ا>س''حسن'' کے درجے میں ثابت ہوتا ہے،نہ''صحیح''ایک طریق بھی

اور ناقاب��ل حج�ت ہ�ے ۔ اور س��بب> ض�4عف ت�ابعی ع��امر''ض�عیف''غریب روایت کی ہ��ر س�ند شعبی کا ا�رسال اور سیدنا علی سے ا4ن کے سماع> حدیث کا عدم ثبوت ہے ۔ جس ک��ی

Page 8: Research Paper

وجہ سے ا>س روایت کی ہر سند میں موجود انقطاع بأدن\ی تامل واضح ہوجاتا ہے ۔

''ض��عیف ال�س��ناد'' ۔ عصر حاضر کے متعدد علماے حدیث اور اہل تحقیق نے ا>سے زقرار دیا ہے ۔

۔ جو أصحاب> علم عہد> رسالت کے بایں طور مروی واقعات ک��و آس��مانی ش��ریعتحکے أحکام کا ماخذ مانتے اور حدود وتعزیرات کے باب میں ا>ن س��ے اس��تدلل کرت��ے ہی��ں؛ نبی صلی ال علیہ وسلم کی نسبت سے موضوع> بحث قضیے کے عدم ثبوت کے واضح ہوجانے کے بعد کم سے کم ا>س واقعے کو بطور مستدل پیش کرنے ک��ی ک��وئی گن��ایش

ا4ن کے لیے اب باقی نہیں رہ جاتی ۔

.هذا ما عندي والعلم عند ال

عامرگزدر۲۰۱۱/فروری/۱۵

کتابیات

ھ ۔1409 ۔ مکتبۃ الرشد،الریاض ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:36279،رقم الحدیث:301/7 ۔ 1

م ۔ ج��امع التحص��یل1984 ۔ مکتبۃ الفارابی،العین،ال�مارات ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:31 علوم الحدیث،ابن صلح ص:2 ھ ۔ تیس�یر1407 ۔ع�الwم الکت��ب،بیروت ۔ طبع�ہ[ ث�انیہ:30،31فی أحک�ام المراسیل،أب��و س�عید علئی،ص:

ھ ۔1405 ۔ مرکز الھ4د\ی للدراسات،ال�سکندیۃ ۔ طبعہ[ سابعہ:51مصطلح الحدیث،دکتور محمود طحان،ص: ۔ مو[سسۃ الریان للطب��اعۃ والنش��ر والتوزی��ع،946-943/ 2تحریر علوم الحدیث،عبد ال بن یوسف الج4دیع:

ھ ۔1424بیروت ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:

۔ الف�اروق الح�دیثیۃ400-399،/12ب�ن ا�براہی�م ۔ محم�د أس�امة ۔ مصنف اب�ن أب�ي ش�یبة بتحقی�ق أب�ي 3 م ۔2008للطباعۃ والنشر،القاھرۃ ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:

ھ ۔1414 ۔ دار الکتب العلمیۃ،بیروت ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:730 ، رقم الحدیث : 257 ۔ ص:4

۔ دار الفکر،سوریا ۔ طبعہ[ ا4ول\ی ۔4362 ، رقم الحدیث:728/2 ۔ 5

۔ مو[سس��ۃ الرسالۃ،بی���روت ۔ طبع��ہ[3199،رق��م:362،361/14 ۔ تھذیب الکمال،أبو الحجاج یوسف المزی،6 ۔ دار الرشید،حل���ب،سوریا ۔ طبع��ہ[3248،رقم:298/2 ھ ۔ تقریب التھذیب،ابن حجر عسقلنی،1400ا4ول\ی: ھ ۔1406ا4ول\ی:

۔ مو[سس��ۃ3248 ۔ تحریر تقریب التھذیب،الدکتور بشار عواد والشیخ شعیب الرناو[وط،الجزء الثانی،رقم:7 ھ ۔1417الرسالۃ،بیروت ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:

Page 9: Research Paper

ھ ۔1418 ۔ مو[سسۃ الرسالۃ،بیروت ۔ طبعہ[ ثانیہ:595 ۔ رقم:160 ۔ ص:8

ھ ۔1405 ۔ دار طیبۃ،الریاض ۔ طبعہ[ ا4ول\ی،97/4 ۔ 9

ھ ۔1397 ۔ دار الکتب العلمیۃ،بیروت ۔ طبعہ[ ثانیہ:164 ۔ ص:10

ھ ۔1359 ۔ دائراۃ المعارف العثمانیۃ،حیدر آباد،دکن ۔ طبعہ[ ثانیہ:201 ۔ ص:11

۔ مو[سسۃ الرسالۃ،بیروت ۔ طبعہ[ ا4ول\ی ۔113 ۔ رقم:601 ۔ ص:12

ھ ۔1366 ۔ المکتبۃ التجاریۃ الکبر\ی،مصر ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:428/2 ۔ 13

ھ ۔1422 ۔ دار ابن الجوزی،الدمام ۔ طبعہ[ ثانیہ:511/1 ۔ 14

ھ ۔ مص��در الکت��اب : المکتب��ۃ1398 ۔ دار الملح للطب��اعۃ والنش��ر ۔ طبع��ہ[ ا4ول\��ی:195 ۔ ص:42 ۔ ص:15الشاملۃ .

ھ ۔1425،کتاب الفرائض ۔ مکتبۃ الرشد،الریاض ۔ طبعہ[ ثانیہ:286/1،کتاب الطھارۃ ۔ 51/1 ۔ 16

۔ دار خض��ر 169/2 الدكتور عبد الملك بن عبد ال بن دھی��ش، ۔ الحاديث المختارة للمقدسي بتحقیق17 ھ ۔1421للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت ۔ طبعہ[ رابعہ:

ھ ۔1419 ۔ مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع،الریاض ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:357 ۔ ص:4362 ۔ رقم الحدیث : 18

ھ ۔1392 ۔ مکتبۃ دار البیان ۔ طبعہ[ ا4ول\ی:257/10 ، 7784 ۔ رقم الحدیث:19

الدكتور عبد الملك بن عبد ال ۔ الحاديث المختارة للمقدسي بتحقیق169/2 ، 547 ۔ رقم الحدیث :20 ھ ۔1421۔ دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت ۔ طبعہ[ رابعہ: 169/2بن دھیش،

۔ مو[سسۃ العلمی للمطبوعات،بیروت ۔ طبع��ہ[933،رقم :329/4 ۔ لسان المیزان،ابن حجر عسقلنی،21 ھ ۔1406ثالثہ:

ھ ۔1414 ۔ مکتبۃ دار الباز،مکۃ المکرمۃ ۔ 200/9 ، 60/7 ۔ 18489،13154 ۔ رقم الحدیث:22