Upload
soomromumtazali
View
16
Download
4
Embed Size (px)
Citation preview
ن� رنگ انجم
ن� از انتخاب قابل کتاب: کلیا
اجمیری شاعر: قابل
فاروق احمد صادق، انتخاب:نوید
ن� رنگ انجم
ن� از انتخاب قابل کتاب: کلیا
اجمیری شاعر: قابل
ن� رنگ کے چراغ ٹھنڈے پڑے ہیں انجم
ن فغاں سہی اک نغمۂ بہار بطر
فاروق احمد صادق، انتخاب:نوید
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
ندگی کو مری ضرورت ہے
حس� ہی حس�، جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
اس کے وعدے پہ نا تھے کیا کیا
بام سے ندامت ہے و اب در
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
ندگی کتنی خوبصورت ہے
آابرو لٹتی رہے گی حرم کی
آاتے رہے ہیں یہاں بھی غزنوی
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آائے دنیا ہمارے ساتھ چلے
نW سود نہ اندیشہ یاں ہے ابھی خیا
نX سفر جواں ہے ابھی چلے چلو کہ مذا
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقۂ بے گانگی کہاں ہے ابھی
نن دW کی تمنا سے فائدہ قابل سکو
نم جاناں کی داستاں ہے ابھی نفس نفس غ
رہبر جو ہمیں ٹھوکریں کھانے نہیں دیتا
ڈرتا ہے کہیں راستہ ہموار نہ ہو جائے
نہ شیشہ گری ہے میخانہ بھی اک کارگ
پیمانہ کہیں ٹوٹ کے تلوار نہ ہو جائے
نر نگاراں میں لے چلو یارو ہمیں بھی شہ
آا ار ہم بھی رکھتے ہیں کسی کے عشق کا
قدم قدم پہ چٹکتی ہیں شوX کی کلیاں
صبا کی شوخی رفتار ہم بھی رکھتے ہیں
نہیں اب تیرے ملنے کا گماں بھی
قیامت ناگہاں ہو جائے گی کیا
اک جھومتے بادW نے چپکے سے کہا قابل
آایا ہے، ساقی نے بلایا ہے نم گل ہنگا
دW کی دھڑک� کا اعتبار نہیں
آاوا تو تمہاری ہے ورنہ
نg نشاط مجھ سے پوچھ نh صب لط
نم الم گزاری ہے میں نے شا
نت فکر و نظر کون سمجھے مقاما
نi قدم دیکھتے ہیں یہاں لوگ نق
آاوارگی کو بصد رشک قابل کی
نن دیر و حرم دیکھتے ہیں غزالا
رات تاریک، راہ نا ہموار
نm غم کو ہوا نہ دے جانا شم
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
آاسرا نہ دے جانا تم کوئی
نn مسلسل کے باوجود احباب کے فری
آاوا پر ابھی کھنچتا ہے دW خلوص کی
بھی مشکل سے سمجھے گا مانہ
آاوا ہوں میں نیا نغمہ نئی
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
آاوا ہوں میں نت سا کی شکس
آاؤ اپنی میں کو چمکائیں
چاند تاروں کا اعتبار نہیں
نل چم� ن� ترتیn ہے دلی حس
ورنہ صحرا میں کیا بہار نہیں
نت محبت کو سمجھتا ہوں میں اختیارا
آاپ بے وجہ بھی کر سکتے ہیں برباد مجھے
آایا تو کیا کرو گے ند جذبات میں یہ نا ک مقام تضا
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
نت رخصت سکوں کی تلقی� کر رہے ہو مجھے تو اس درجہ وق
آایا تو کیا کرو گے مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد
کچھ اپنے دW پہ بھی خم کھاؤ مرے لہو کی بہار کn تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
نX جنوں پہ لیک� ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذا
آایا تو کیا کرو گے Wتمہاری لفوں کی برہمی کا سوا
ابھی تو دام� چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دW کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
چم� کے غنچوں نے رنگ بدلا، فلک کے تاروں سے ساتھ چھوڑا
میں ج� سہاروں سے مطمئ� تھا انہی سہاروں نے ساتھ چھوڑا
نل کشتی کی سا شیں ہیں کہ نا خدا کی نوا شیں ہیں خود اہ
آایا جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا وہیں تلاطم کو ہوش
آابرو تھی نہ نظر سے پہلے چم� چم� میری مرے گنا
آایا تو گل Wنر جما نے ساتھ چھوڑا عذاروں مجھے شعو
پاس ہے منزW مگر انجام کا کیا ٹھیک ہے
نس سعی رائیگاں کرتے چلو شوX کو مانو
بھڑک اٹھی ہیں شاخیں، پھوW شعلے بنتے جاتے ہیں
آاشیانوں سے کہاں تک روشنی ہوتی ہمارے
ن� گلش� نہ سہی گوشۂ نداں ہی سہی صح
آارام لیا کرتے ہیں قافلے راہ میں
ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے
نn ساحل تو کیا ہو گا مگر طوفان جا پہنچا ل
شوX ہو راہنما تو کوئی مشکل نہ رہے
شوX مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے
نW مایوس کو دیکھ نت دوست پہ قابل د رخص
اک سفینہ ہے کہ ساحل سے جدا ہوتا ہے
آائے ہیں لوگ نہ یار سے بھی تشنہ کام جلوہ گا
جانے امیدیں یادہ ہیں کہ جلوے کم رہے
ہمیشہ شمm بھڑکے گی، سدا پیمانہ چھلکے گا
نش بیاں اپنا آائے ہیں جو تری محفل میں ہم چھوڑ
نW دوست کو پیہم نکھرنا ہے، سنورنا ہے جما
محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا
بہت ہیں میکدے میں لڑکھڑانے جھومنے والے
نر مغاں کچھ اور ہوتا ہے نش پی نر لغز وقا
بہت دلچسپ ہیں ناصg کی باتیں بھی مگر قابل
ن بیاں کچھ اور ہوتا ہے محبت ہو تو اندا
ہنسی معلوم ہوتی ہے فغاں معلوم ہوتی ہے
محبت ندگی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
راہ پرخار ہے اور رات اندھیری قابل
نخ یبا بھی نہیں نغ ر دور تک کوئی چرا
آائی اپنے گلش� میں جn بہار
کوئی شائستۂ بہار نہ تھا
نر نداں پہ کس نے دستک دی د
آاج موسم بہار سا کیوں ہے
باغ تک پہونچی بیابانوں کی خاک
آاج کل تیرا دیوانہ کہاں ہے
جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
ندگی جاگتی ہی رہتی ہے
جھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ
آانکھ در سے لگی ہی رہتی ہے
نر محبت بھی عجیn چیز ہے خاکست
آائی آاگ ابھر ذرا کسی نے چھوا اور
آایا نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور
بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے
دن نکلتا ہے کس تمنا میں
آاتی ہے آاسرے پہ رات کس
جn وہ گیسو بکھیر دیتے ہیں
ندگی راہ بھوW جاتی ہے
نم میگوں پہ ہیں سیہ پلکیں چش
یا گھٹائیں شراب خانے پر
وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
نم ستم ہیں ہمارا حاW نہ پوچھاچر نغ بز
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سn کچھ ہے
نz جام کے بعد نz جام سے پہلے طلو طلو
نہ طلn میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں ر
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد
نش عشقۂرفتہ رفتہ رنگ لایا جذب خامو
آا گئے وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک
آا جائے گا نک گریباں کا شعور خود تمہیں چا
آا گئے آا تو جاؤ ہم جہاں تک تم وہاں تک
آانے کو ہے آاج قابل میکدے میں انقلاب
آا گئے نل دW اندیشۂ سود و یاں تک اہ
ن� رنگ کے چراغ ٹھنڈے پڑے ہیں انجم
ن فغاں سہی اک نغمۂ بہار بطر
رس� کو چومتے و گرتے سنبھلتے جھومتے دار
آا ہی گئے کشاں کشاں نل جنوں تیرے حضور اہ
آاغا کریں آاؤ اب ایک نئے دور کا
ند رفتہ کی کوئی بات نہیں یاد مجھے عہ
عمر بھر ہم سمجھ سکے نہ تجھے
آاج سمجھا رہی ہے تیری یاد
ندگی کتنی تیز رو ہے مگر
آا رہی ہے تیری یاد ساتھ ساتھ
نg بہاراں! سلام کر نب صب آافتا اے
نn غم گزار کے آا رہے ہیں ش دیوانے
ہم تری راہ سے پھرے ہی نہیں
آاستانے ہمیں بلاتے رہے
نم یست کے شکار ہوئے کچھ غ
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
نر شn کے ڈوبتے تارو ! آاخ
ہم بھی کروٹ بدلنے والے ہیں
نر احباب اور کیا کرتے نW خاط خیا
جگر پہ خم بھی کھائے شمار بھی نہ کیا
ر گئی اے دوست نجانے ندگی کیسے گ
کہیں ٹھہر کے ترا انتظار بھی نہ کیا
گھبرا کے نا خدا نے سفینہ ڈبو دیا
آا گئے ن� طوفاں میں ہم مسکرا کے دام
مانہ کھیل رہا ہے تمہاری لفوں سے
نW پریشاں کی بات کون کرے ہمارے حا
********
نوید صادX،: ٹائپنگ:
تدوی� اور ای بک کی تشکیل: اعجا عبید